HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

پہلے قرآن

 مولانا امین احسن اصلاحی کا واقعہ ہے۔ مولانا جب اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ پر کام کر رہے تھے، اُس وقت ایک عالم نے دینیات کے موضوع پر ایک کتاب مولانا کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا: مولانا، اِس کو ملاحظہ فرمائیں۔ مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: پہلے میں اللہ کی کتاب کو سمجھ لوں، اِس کے بعد انسانوں نے کیا لکھا ہے، اُسے سمجھ لیں گے، اتنی عقل تو خدا نے ہم کو بھی دی ہے۔

جس شخص کی زندگی میں خدا اور اُس کی کتاب کو اولین حیثیت حاصل ہو، اُس کا جواب، بلاشبہ یہی ہو گا۔ ’خیر القرون‘ کے بعد ظاہر ہونے والی تحریکات، شخصیات اور کتابوں کے جنگل سے وہی شخص کامیابی کے ساتھ گزر سکتا ہے جو اپنے اندر اِس طرح کا انقلابی ذہن رکھتا ہو، جس نے اپنی زندگی میں خداکی کتاب کو ’میزان اور فرقان‘ کی حیثیت سے عملا ًپوری طرح اختیار کر لیا ہو۔

رسول اور اصحاب رسول کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کے یہاں قرآن مجید کو یہی درجہ حاصل تھا[1]۔خدا کی کتاب نے اُن کو ہدایت کے معاملے میں ہر دوسری کتاب سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اِس سلسلے میں احادیث و آثار کی مختلف روایتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ایک ارشاد اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’لیس منّا مَن لم یتغنّ بالقراٰن[2] یعنی جو شخص قرآن کو پاکر بھی غنی نہ ہو سکا، وہ ہم میں سے نہیں۔

اِس ارشاد رسول کا مطلب عام طور پر جو بیان کیا گیا ہے، وہ ہے: خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت۔ یہ بلاشبہ، ایک مطلوب چیز ہے۔ تاہم تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس روایت میں جو چیز زیربحث ہے، وہ خوش الحانی نہیں، بلکہ قرآن کے ساتھ گہری وابستگی ہے۔ چنانچہ اُس کی درست تشریح وہ ہے جو مشہور تابعی سفیان ابن عیینہ کی نسبت سے بیان کی گئی ہے۔ اُن کے نزدیک اِس ’استغناء‘ سے مراد ایک خاص قسم کا استغنا (استغناءٌ خاصٌ) ہے، یعنی ہدایت کے معاملے میں قرآن کے سوا ہر دوسری چیز سے آدمی کا بے نیاز ہو جانا (وأنّه یستغني به عن غیره من الکتب)۔ اِس روایت کی تشریح کے ذیل میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے: ’فیکون معنی الحدیث: الحثُّ علٰی ملازمة القراٰن وأن لا یتعدّٰی إلٰی غیره‘[3]پہ  یعنی حدیث کا مطلب ہو گا: قرآن کے ساتھ گہری وابستگی اور اُس سے آگے تجاوز نہ کرنا۔

استاذ جاوید احمد غامدی نے مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ایک بار درست طور پر فرمایا تھا کہ جو شخص ہدایت کے معاملے میں قرآن کو پاکر بھی غنی نہ ہو اور وہ یہ سمجھے کہ یہ کتاب اُس کے لیے کافی نہیں، اِس کے سوا، اِس سے آگے اور اِس سے بڑھ کر اُس کو کچھ اور چیزوں کی ضرورت ہے جن سے وہ ہدایت حاصل کرے، اِس قسم کا تصور بلاشبہ، قرآن پر، قرآن کے خدا کی کتاب اور دین و شریعت کے معاملے میں اُس کے ’میزان اور فرقان‘ ہونے پر صریح عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس کے بعد کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہلائے جانے کا حق کھو دیتا ہے۔

قرآن کی سورۂ ضحیٰ کی آیات ’وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰي. وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَاَغْنٰي‘ (۹۳: ۷- ۸) میں اِسی فکری غنا کا ذکر کیا گیا ہے[4]،  یعنی خدا نے تمھیں محتاج ہدایت پایا تو قرآن جیسی کتاب دی اور اُس کے ذریعے سے وہ شرح صدر عطا فرمایا کہ ہر دوسری چیز سے بالکل بے نیاز کر دیا۔ مذکورہ حدیث رسول میں قرآن مجید سے متعلق اِسی اہم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔

اِن آیات اور مذکورہ ارشاد رسول میں ایک مسلمان اور دین کے سچے طالب علم کے لیے ایک عظیم درس موجود ہے، وہ یہ کہ ماخذ دین کے اعتبار سے اُس کی زندگی میں جس چیز کو بنیادی درجہ حاصل ہو سکتا ہے، وہ صرف اللہ کی کتاب ہے، یعنی رسول اور اصحاب رسول کے طریقے کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت و تدبر اور اُس سے ہدایت کا حصول۔

یہی وہ اصل چیز ہے جو دین کے ایک طالب علم کو ’مذہبی‘ افکار کے جنگل سے نکال کر صراط مستقیم پر لا سکتی ہے، ورنہ موجودہ زمانے کے عام فیشن کے مطابق، یہی ہو گا کہ آدمی قرآن کا مطلوب علم حاصل کیے بغیر دین کا عالم اور دینی رہنما و مفکر بن کر عملاً خود اپنے آپ کو اور دوسروں کو اللہ کی کتاب سے دور کرنے کا ذریعہ بنے گا، اور اِس طرح حدیث کے الفاظ میں وہ ہدایت اور رہنمائی کے بجاے محض ’ضلُّوا وأضلُّوا[5]ے  کا مصداق بن کر رہ جائے گا۔

 (لکھنؤ، ۵/ مارچ ۲۰۱۹ء)

____________

[1]۔ چنانچہ مشہور صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود کا ارشاد ہے: ’مَن أراد العلم فلیُثوِّر القراٰن، فإن فیه علمَ الأوّلین والآخرین‘ (الطبرانی، رقم ۸۶۶۵)، یعنی جس شخص کو ’علم‘ مطلوب ہو، اُسے چاہیے کہ وہ قرآن میں غوطہ زنی کرے، اُس میں اولین و آخرین کا علم موجود ہے۔

[2]۔ بخاری، رقم ۷۵۲۷۔

[3]۔ ملاحظہ فرمائیں: فتح الباري،کتاب فضائل القراٰن، باب من لم یتغنّ بالقراٰن۔

[4]۔ تفسیر ’’البیان‘‘ میں آیت ’وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَاَغْنٰي‘ کی تشریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے:

’’یہ غنا اُس ہدایت کا ثمرہ ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا ہے۔ اِس کا حق آگے ’وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ اِس غنا کا تعلق اصلاً مال سے نہیں، بلکہ قلب کے احوال سے ہے۔ اِس کی صحیح تعبیر وہ شرح صدر ہے جس کا ذکر آگے سورہ  ـــــ الم نشرح  ـــــ  میں آئے گا۔ آدمی کو یہ چیز خدا کی سچی معرفت اور اُس قانون و حکمت سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑے محتاج وہی ہیں جو اِس دولت سے محروم ہیں۔ بعثت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی احتیاج سرگرداں کیے ہوئے تھی۔ یہ دولت حاصل ہو گئی تو آپ سے بڑھ کر کوئی غنی نہیں تھا۔‘‘(۵/ ۴۸۱)

[5]۔ مسند ابی یعلیٰ ، رقم ۵۸۱۰۔ مسلم، رقم ۸۴۳۵۔

B