HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (۱)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

  

ابتدائی زندگی

حضرت ابو ہریرہ ہجرت نبوی سے انیس سال پہلے ۶۰۰ ء میں بنودوس میں پیدا ہوئے، جو یمن کی سرحد کے قریب واقع جنوبی سعودی صوبہ الباحہ(Al Bahah) میں آباد تھا۔ الباحہ کے مشرق میں صوبہ عسیر (Asir) ہے، جب کہ باقی تین اطراف میں صوبہ الحجازاسے گھیرے ہوئے ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ کا اصل نام عبدالرحمٰن بن صخر (دوسری روایت:غنم) تھا، لیکن اپنی کنیت سے مشہور ہیں۔ قبیلے کی نسبت سے دوسی کہلاتے ہیں۔ دوسرے کئی نام بھی ان سے منسوب کیے گئے ہیں، جیسے عبدالرحمٰن بن غنم، عبدالرحمٰن بن یعقوب، عبد نہم بن عامر، عبد بن غنم، عبد شمس بن عامر، عمیر بن عامر، عبد شمس بن صخر، عامر بن عبد غنم، سکین بن دومہ، سکین بن ہانی، عمرو بن عبد شمس، عمرو بن عبد نہم، سکین بن جابر، یزید بن عشرقہ، عبداللہ بن عائذ، سکین بن مل، بریر بن عشرقہ اور سعیدبن الحارث۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ نام دیا۔ ابوالاسود حضرت ابوہریرہ کی کنیت، جب کہ ابوہریرہ لقب تھا۔

حضرت ابوہریرہ بچپن میں یتیم ہو گئے تھے، ان کی والدہ کا نام حضرت میمونہ بنت صفیح تھا۔ ننھیال ددھیال میں کوئی رشتہ دار موجود نہ تھا، والدہ ہی کے زیر سایہ پروان چڑھے۔

سفر شوق

حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو راستے میں یہ شعر پڑھتے آئے:

یا لیلة من طولها و عنائها
علی أنها من دارة الکفر نجت
’’ہائے وہ رات، اس کی طوالت اورتکلیف، مگر حسن انجام کہ اس نے دارکفر سے نجات دے دی۔‘‘

دوران سفرمیں ان کا غلام بھاگ نکلا۔ مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سباع بن عرفطہ کو قائم مقام حاکم مقرر کر کے شہر سے باہر تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضرت ابوہریرہ نے فجر کی نماز حضرت سباع کے پیچھے پڑھی، سورۂ مططفین کی تلاوت سن کر انھیں بنو ازد کا وہ دکان دار یاد آ گیاجس نے بیچنے کے الگ اور خریدنے کے الگ باٹ رکھے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے، حضرت ابوہریرہ آپ کی بیعت کرنے پہنچ چکے تو غلام وہاں موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: ابوہریرہ، یہ تمھاراغلام آگیا ہے۔ انھوں نے اسے اللہ کی خاطر آزاد کر دیا(بخاری، رقم ۲۵۳۱)۔

قبول اسلام

۷ ھ (۶۲۹ء ): حضرت ابوہریرہ جب یمن کے حضرت طفیل بن عمرو دوسی کے ساتھ مدینہ پہنچے توان کی عمر تیس برس تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی مہم پر تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ آپ سے ملاقات کے لیے ان کا قافلہ خیبر پہنچا۔

 حضرت ابوہریرہ نے فتح خیبر سے کچھ دن پہلے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشانی پر دست مبارک رکھ کر فرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ قبیلۂ دوس میں ایسا شخص بھی ہے جو بہت خیر رکھتا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں : حضرت ابوموسیٰ اشعری حبشہ سے اور حضرت ابوہریرہ یمن سے صلح حدیبیہ اور جنگ خیبر کے مابین پہنچے۔ غزوۂ خیبر میں ان کی شرکت ثابت نہیں ، تاہم ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ وہ اس معرکے میں شامل ہوئے۔ صحیح بات حضرت ابوہریرہ کی اپنی اس روایت میں بیان ہوئی ہے، فرماتے ہیں :میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتح خیبر کے بعد پہنچااورمال غنیمت میں اپنا حصہ مانگا۔ حضرت سعید بن العاص کے بیٹے حضرت ابان نے کہا:ان کو حصہ نہ دیں۔ اس پر حضرت ابوہریرہ بولے:اس نے تو جنگ احد میں نعمان بن مالک(ابن قوقل) کو قتل کیا، جب یہ مشرک تھا۔ حضرت ابان نے کہا: کتنی عجیب بات ہے کہ یہ پہاڑ کی چوٹی سے بکریاں چراتا آیا ہے اور مجھ پر ایک مسلمان کے قتل کا الزام لگاتا ہے۔ اسے علم نہیں کہ اللہ نے ابن قوقل کو میرے ہاتھوں شہادت سے نوازا اورمیں ان کے ہاتھوں موت سے بچ کراسلام کی نعمت سے سرفراز ہوا (بخاری، رقم ۲۸۲۷۔ ابوداؤد، رقم ۲۷۲۶۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۲۹۸)۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ کو مال غنیمت میں سے سونا چاندی نہیں، بلکہ ڈھورڈنگر اوردیگر مال متاع ملا۔

یہ روایت درست معلوم نہیں ہوتی کہ بنودوس کے سردار حضرت طفیل بن عمرواسلام کے ابتدائی دور میں ، ہجرت سے قبل مشرف بہ اسلام ہوئے تو حضرت ابوہریرہ بھی داخل دین ہوئے، جب کہ ان کے اہل قبیلہ آمادہ نہ تھے۔ مکہ سے لوٹ کر حضرت ابوہریرہ کئی برس اپنے قبیلے میں مقیم رہے۔ اس وقت حضرت ابوہریرہ کی عمر چند برس ہو گی۔ اتنی چھوٹی عمر میں ان کا مکہ آنا قرین قیاس نہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں : امام بخاری نے ہجرت سے قبل حضرت طفیل کے مکہ جانے کا جو ذکر کیا ہے، تب حضرت ابوہریرہ ان کے ساتھ نہ تھے۔

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سریہ محمد بن مسلمہ میں شرکت کی، حالاں کہ یہ ۶ھ میں ہوا اور حضرت ابوہریرہ نے ۷ھ میں اسلام قبول کیا۔

والدہ کے لیے طلب ہدایت

حضرت ابوہریرہ کو اپنی والدہ سے بڑی محبت تھی، اسے دعوت دیتے کہ شرک چھوڑ کر اسلام قبول کرلو تو وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی۔ ایک بار اس نے آپ کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کیں تو وہ روتے ہوئے آپ کے پاس آئے اورعرض کیا: اس کی ہدایت کے لیے دعاکریں۔ آپ نے دعا فرمائی :اللہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔ حضرت ابوہریرہ گھر لوٹے تو دیکھا کہ والدہ دروازے کی اوٹ میں غسل کر رہی ہیں۔ فارغ ہونے کے بعد ’أشهد أن لا إلٰہ إلا اللہ و أشهد أن محمدًا رسول اللہ‘ پڑھا۔ حضرت ابوہریرہ شدت مسرت سے پھر رونے لگ گئے، فوراً آپ کو خبر کی اورمزید دعا کی درخواست کی کہ اللہ ماں بیٹے کو اہل ایمان کے زمرہ میں شامل کر کے اپنا پیارا بنالے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس طرح مستجاب ہوئی کہ ہر مومن مرد عورت ہمیں چاہتا ہے۔

بارگاہ رسالت سے پیوستگی

قبول اسلام کے بعد حضرت ابوہریرہ اصحاب صفہ میں شامل ہوگئے۔ انھیں دو سال تین ماہ(دوسری روایت: چار سال) آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس اثنا میں وہ آپ سے جدا نہ ہوئے اوردنیا سے کٹ کر مسجد نبوی میں مقیم رہے۔ آپ کی داد و دہش پر ان کی بسر ہوتی رہی۔ آپ کی خدمت کرتے، مختلف مہمات اور سفروں میں آپ کا ساتھ دیا۔ فتح مکہ میں آپ کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت ابوہریرہ کا غیر معمولی حافظہ ذخیرۂ احادیث جمع کرنے میں معاون ہوا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال جواب بھی کرتے، جس کی عام اصحاب جرأت نہ کرتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مارنے کے لیے درہ اٹھایا، کاش آپ مجھے پیٹ ہی دیتے۔ آپ کی ایک ضرب مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ کا فرمان ہے:میں نے اللہ سے عہد لے رکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو ایذا دوں یا کوڑا ماروں تو یہ اس کے لیے روز قیامت تیرا قرب پانے کا ذریعہ بن جائے(بخاری، رقم ۶۳۶۱۔ مسلم، رقم ۶۷۸۸۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۷۶۱۔ ابن حبان، رقم ۶۵۱۵)۔

فاقہ کشی اور شدائد زندگی

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :میں پیٹ بھر کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چپکا رہتا، خمیری(عمدہ تازہ) روٹی کھاتا نہ ریشم پہنتا، خدمت کرنے کوکوئی غلام تھا نہ باندی۔ بھوک کی شدت ختم کرنے کے لیے پیٹ پر پتھر بھی باندھ لیتا۔ اہل صفہ کے مسکینوں کے ساتھ جعفر بن ابوطالب نے سب سے بڑھ کر بھلائی کی۔ وہ ہمیں ساتھ لے جاتے اور گھر میں موجود کھانا کھلا تے۔ یہ بھی ہوا کہ گھی کا خالی مشکیزہ اٹھا لائے تو ہم نے اسے پھاڑا اورچپکا ہوا گھی چاٹ لیا (بخاری، رقم ۵۴۳۲۔ طبقات ابن سعد ۴/ ۴۱)۔

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا ہے، ان میں سے کسی کے پاس بالائی چادر (شال) نہ تھی، فقط تہ بند ہوتا یا تن پر لینے والی چادر جن کویہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے، کوئی آدھی پنڈلی تک آتی اورکوئی ٹخنے ڈھانپ لیتی۔ وہ اسے اس خوف سے ہاتھوں میں پکڑے رہتے کہ ان کی شرم گاہ نظرنہ آنے لگے(بخاری، رقم ۴۴۲۔ ابن خزیمہ، رقم ۷۶۴۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۳۴۳۰)۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :ایک بار مکہ میں میں بھوک سے نڈھال ہو کر منبر اور حجر اسود کے درمیان گر پڑا تو گزرنے والے کہتے : اسے جنون لاحق ہو گیا ہے۔ مدینہ میں بھی معمول تھا کہ بھوک کی وجہ سے میں کلیجے کے بل زمین پر لیٹ جایا کرتا تھا یابھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک روز میں (بھوکا پیاسا)اس راستے میں بیٹھ گیاجہاں سے سب گزرتے تھے، ابوبکر گزرے تو ان سے قرآن کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، اس امید پر کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں گے۔ وہ کچھ کہے بغیر گزر گئے۔ عمر آئے تو ان سے بھی وہی سوال کیا۔ انھوں نے بھی ساتھ چلنے کو نہ کہا۔ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آپ نے میرے چہرے سے میرے دل کا حال جان کرفرمایا:ابوہریرہ، میں نے عرض کیا: لبیک، یا رسول اللہ، فرمایا:میرے ساتھ چلو۔ گھر پہنچ کر آپ نے اندر بلا لیا، وہاں دودھ کا ایک پیالہ پڑا تھا۔ فرمایا: باقی اصحاب صفہ کو بھی بلا لو۔ ابوہریرہ کہتے ہیں : میں غم زدہ ہو گیا، مجھے امید تھی کہ اتنا دودھ پی کر دن اور رات گزار لوں گا، مگر اللہ ورسول کی اطاعت سے مفر نہ تھا۔ اصحاب صفہ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ابوہریرہ ، انھیں دودھ پلاؤ۔ میں پیالہ پکڑ کر ان میں سے ایک ایک کو دودھ دیتا گیا، آخری شخص کو دودھ دے کر پیالہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں دے دیا۔ آپ نے متبسم ہو کر فرمایا:اب ہم دونوں ہی رہ گئے ہیں ، بیٹھ کر پیو، میں پی چکا تو فرمایا:اور پی لو، میں نے بار دگر دودھ پیا توآپ نے مزید پینے کا حکم دیا۔ آپ کے باربار حکم کرنے پر میں نے عرض کیا :آپ کو حق کے ساتھ بھیجنے والے اللہ کی قسم، اب مجھ میں مزید گنجایش نہیں۔ فرمایا: پیالہ مجھے دے دو، چنانچہ بچا ہوا دودھ آپ نے نوش فرما لیا( بخاری، رقم ۶۴۵۲۔ ترمذی، رقم ۲۴۷۷۔ السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم ۱۳۸۶۶۔ ابن حبان، رقم ۶۵۳۵)۔

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اصحاب صفہ کو بلا کر لاؤ۔ سب آپ کے دروازے پر اکٹھے ہو گئے تو آپ نے اندر بلا لیا۔ ہمارے سامنے ایک رکابی رکھی جس میں تین پاؤ کے قریب جو تھے۔ آپ نے رکابی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ۔ ہم نے خوب کھا لیا تو پلیٹ میں اس قدرہی جو تھے جتنے کھانا شروع کرتے وقت پڑے تھے۔

 وادی القریٰ کی مہم

۷ھ (۶۲۸ء ):حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں کہ جنگ خیبر کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ میں پہنچے۔ یہ وادی تیما اور خیبر کے مابین واقع ہے اور آج کل وادی جزل(یا وادی العلا) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے دامن میں قوم ثمود کی بستی مدائن کے علاوہ بہت سی بستیاں آباد تھیں ، اس وجہ سے اسے وادی القریٰ (قریہ کی جمع )کہا جاتاتھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہود کی سرکشی کی اطلاع خیبر ہی میں مل گئی تھی۔ آپ وہاں پہنچے تو رفاعہ بن زید جذامی کے آپ کو ہدیہ کیے ہوئے حبشی غلام مدعم کو قریب کی کمین گاہ سے کاری تیر لگا، جس سے وہ شہید ہو گئے۔ وہ آپ کی سواری کی دیکھ بھال پر مامور تھے اور اس وقت اسے بٹھا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودکو اسلام کی دعوت دی اوران کے نہ ماننے پر قتال کی تیاری کی۔ انھوں نے دوبدومقابلے(duel) کو ترجیح دی توان کے گیارہ(یا دس) آدمی ان مقابلوں میں مارے گئے۔ اگلے دن وہ صلح پر آمادہ ہوئے۔ فتح خیبر کی طرح اراضی یہود کے پاس رہنے دی گئی اور مال پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ حضرت عمرو بن سعید والی مقرر ہوئے(مسلم، رقم ۲۵۵۔ ابوداؤد ،رقم ۲۷۱۱۔ موطا امام مالک، رقم ۱۶۶۹)۔

غزوۂ ذات الرقاع

اہل مغازی عام طور اس غزوہ کا سن وقوع ۴ھ بتاتے ہیں، لیکن حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کی اس میں شمولیت دلالت کرتی ہے کہ یہ ۷ھ میں پیش آیا۔ یہ دونوں اصحاب تب مدینہ پہنچے تھے۔ رقاع کا مطلب ہے:چیتھڑے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں :اس غزوہ میں پتھریلی زمین پر پیدل چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے تو ہم نے ان پر چیتھڑے لپیٹ لیے۔ اس سے اسے غزوۂ ذات الرقاع کہا جانے لگا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سفید و سیاہ پتھروں پر مشتمل وہاں کی زمین ایسی نظر آتی تھی، گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں یا وہاں اس نام کا ایک درخت تھا۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسافر نے خبردی کہ بنوغطفان اور اس کے ذیلی قبائل بنومحارب اور بنوثعلبہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے فوج جمع کر رہے ہیں۔ آپ نے حضرت ابو ذر غفاری (یا حضرت عثمان) کو مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر کیا اور چار سو (یا سات سو) صحابہ کی معیت میں نجد روانہ ہوئے۔ وادی نخل میں آپ کا ان سے سامنا ہوا، فوجوں کی مڈ بھیڑ تو نہ ہوئی، تاہم اہل ایمان نے پہلی بار صلوٰۃ الخوف ادا کی۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :ربیع الاول ۷ھ (جولائی۶۲۸ء )میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نجدکی طرف نکلے۔ وادی نخل میں پہنچے تو بنو غطفان کے ایک جتھے سے سامنا ہوا جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی راہ فرار پکڑ لی۔ قتال تونہ ہوا، مگر چند مشرک عورتوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دشمن کے حملے کا خوف تھا۔ اس موقع پر صلوٰۃ الخوف کا حکم نازل ہوا۔ صحابہ دو حصوں میں بٹ گئے: ایک حصہ دشمن کی طرف رخ کیے رہا، جب کہ باقی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف آرا ہو گئے۔ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو یہ بھی تکبیر کہہ کر جماعت میں شامل ہو گئے، رکوع و سجود کے بعد ایک رکعت مکمل ہوئی تویہ پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے گروہ والی پوزیشن سنبھال لی۔ اب صحابہ کا دوسرا گروہ آگے بڑھا، پہلے خود ایک رکعت پڑھی، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں دوسری رکعت ادا کی۔ اب دشمن کے مقابل کھڑا ہوا گروپ واپس آیا اور اپنی رہ جانے والی رکعت اداکی۔ جلسہ(التحیات)میں دونوں گروپ اکٹھے ہو گئے اور اکٹھے سلام پھیرا۔ دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاررکعتیں ادافرمائیں اور صحابہ کے دونوں گروپوں نے آپ کی اقتدا میں دو دو رکعتیں پڑھیں۔

اکثر راویوں کا خیال ہے کہ صلوٰۃ الخوف ۴ ھ میں عسفان کے مقام پر مشروع ہوئی۔

عمرۂ قضا

 ذی قعد ۷ ھ میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمرۂ قضا پر روانہ ہوئے تو حضرت ناجیہ بن جندب اسلمی کو ہدی کے اونٹوں کا نگران مقرر فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ان کے ساتھ تھے۔

غزوۂ موتہ

۸ھ :حضرت ابوہریرہ غزوۂ موتہ میں شریک تھے۔ رومیوں کا اسلحہ، گھوڑے اور حریر ودیبا دیکھ کر ان کی نگاہیں خیرہ ہو گئیں تو حضرت ثابت بن ارقم نے کہا: تم بدر میں ہمارے ساتھ ہوتے تو جان لیتے کہ ہم نے کثرت تعداد سے فتح نہ پائی تھی۔

زکوٰۃ اور اذان کی ذمہ داری

ہ حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں حاصل ہونے والی زکوٰۃ کا نگران مقرر فرمایا۔ اچانک ایک شخص آیا اور لپالپ غلہ بھرنے لگا(دوسری روایت: کھجوریں کھانے لگا)۔ میں نے اسے پکڑ لیاتو کہنے لگا: میں بہت محتاج اور عیال دار ہوں۔ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اگلے دن آپ نے دریافت فرمایا: تمھارے قیدی کا کیا بنا؟ میں نے بتایا : میں نے اس پر ترس کھا لیا۔ فرمایا:اس نے تجھ سے جھوٹ بولا اور اب پھر آئے گا۔ دوسرے دن وہ پھر آ کر غلہ(کھجوریں ) اٹھانے لگا تو میں نے پکڑ لیااور کہا: آج میں ضرور تجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے مکرر التجا کی کہ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے، اب کبھی نہ آؤں گا۔ میں نے پھر اسے جانے دیا۔ آپ نے استفسار کیا تو بتایاکہ اس نے اپنے فقر اور عیال مندی کااس طرح رونا رویا کہ مجھے رحم آگیا۔ فرمایا: اس نے دروغ گوئی کی، کل پھر آئے گا۔ تیسری بار میں نے اسے غلہ سمیٹتے پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جانے کا عزم کیا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھا دیتا ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تمھیں فائدہ دے گا۔ اس نے آیت الکرسی سنائی اور کہا: رات کو پڑھ لیا کرنا، شیطان رات بھر تمھارے پاس نہ پھٹکے گا۔ علی الصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: رات تمھارے قیدی نے تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ آپ نے قصہ سن کر فرمایا: اگرچہ وہ دروغ گو تھا، تاہم سچ بات کہی۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا؟ وہ شیطان تھا (بخاری، رقم ۲۳۱۱۔ احمد، رقم ۲۳۶۴۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۲۰۶۸۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۶۵۱۳)۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علاء بن حضرمی کو بحرین کا حاکم مقرر کیا تو حضرت ابوہریرہ کو موذن بنا کر ساتھ بھیجا۔

 فتح مکہ

فتح مکہ کے موقع پر قریش نے مکہ کے اوباشوں کو جمع کر لیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ کو بلا کر فرمایا:انصار کو پکارو، انصاری ہی میرے پاس آئیں۔ وہ اکٹھے ہوئے تو فرمایا:انھیں کاٹ ڈالو، پھر کوہ صفا پر مجھ سے ملو۔ انصاریوں نے جی بھر کر ان کا کشت و خون کیا، حتیٰ کہ ابوسفیان نے کہا:یا رسول اللہ ، کیا قریش کی جانیں حلال ہو گئی ہیں اور آج کے بعد قریش باقی نہ رہیں گے؟تب آپ نے عام معافی کا اعلان فرمایا(مسلم، رقم ۴۶۴۷۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۷۲۶۶۔ سنن دارقطنی، رقم ۲۳۳)۔

حج اکبر

۹ھ کا حج مشرکین نے اپنی جاہلی رسوم کے ساتھ ادا کیا۔ عرفہ کے دن حضرت ابوبکر نے خطبۂ حج دیا، پھر حضرت علی نے سورۂ توبہ کی پہلی چالیس آیات تلاوت کیں : ’وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ اِلَي النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَﵿ وَرَسُوْلُهٗ ‘، ’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس حج اکبر کے دن اعلان ہے کہ اللہ و رسول مشرکین سے بے زار ہیں ‘‘(۹: ۳)۔ ۱۰ / ذی الحجہ کو جب حاجی رمی، نحر، حلق اور طواف افاضہ سے فارغ ہونے کے بعد منیٰ میں اپنے خیموں میں آئے، حضرت علی نے ان لوگوں کے افادہ کے لیے جو عرفات کا خطبہ نہ سن سکے تھے، دوبارہ اعلان کیا : جنت میں کافر داخل نہ ہونے پائے گا، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کر سکے گا، نہ کوئی عریاں بیت اللہ کا طواف کر سکے گا، چار ماہ کی مہلت کے دوران میں تمام اہل شرک اپنے علاقوں اورٹھکانوں کو لوٹ جائیں گے، البتہ جس مشرک کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہد و پیمان ہے، اپنی مدت پوری کرسکے گا۔ حضرت ابوبکر نے حضرت علی کے علاوہ بھی کچھ صحابہ کی ذمہ داری لگائی کہ منیٰ میں حاجیوں کے درمیان پھر کر یہ اعلان کریں۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں ، ان اعلان کرنے والوں میں ایک میں بھی تھا (بخاری، رقم ۱۶۲۲۔ مسلم، رقم ۳۲۶۶۔ ابوداؤد، رقم ۱۹۴۶۔ ترمذی، رقم ۳۰۹۲۔ نسائی، رقم ۲۹۹۶)۔ دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں بلند آواز سے پکارتا رہا، حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی (نسائی، رقم ۲۹۶۱۔ احمد، رقم ۷۹۷۷)۔

قصۂ ہبار بن اسود

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجتے ہوئے، جس میں میں بھی شامل تھا، فرمایا:اگر تمھیں ہبار بن اسودفہری ـــــــــ جس نے میری بیٹی زینب کو نیزے کی نوک پر اونٹ سے اتارااورمدینہ آنے سے روکا ـــــــــ اور اس کے ساتھی پر گرفت حاصل ہو جائے تو انھیں آگ سے جلا دینا۔ اگلا روز ہوا تو آپ نے ہمیں پیغام بھیجا:میں نے تمھیں ان دونوں مجرموں کو آگ سے جلانے کوکہا تھا، پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کے علاوہ کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ کسی کو آگ میں جھونکے، اس لیے اب ان کو قتل کردینا(بخاری، رقم ۲۹۵۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۸۳۵۔ ابن حبان، رقم ۵۶۱۱۔ مسند بزار، رقم ۸۰۶۷)۔ بخاری کی روایت میں ہبار کا نام مذکور نہیں۔

عہد صدیقی

حضرت ابوبکر نے حضرت ابوہریرہ کو حضرت علاء بن حضرمی کی قیادت میں مرتدین کے خلاف قتال کرنے کے لیے بحرین بھیجا۔ رات کے وقت جیش یمامہ کے قریب ایک بیابان کے وسط میں پہنچا توحضرت علاء نے پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ ویرانے میں اونٹ بدک گئے اور زاد راہ اور سازو سامان سمیت بھاگ نکلے۔ لشکر والے ملول ہو گئے، موت کو قریب پا کر ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگے۔ حضرت علاء نے انھیں تسلی دی کہ تم اللہ کی راہ میں نکلے ہو، اس لیے بے یار و مددگار نہ رہو گے۔ فجر کی نماز کے بعد انھوں نے مل کر دعا کی تو دور پانی چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ سب جلدی جلدی وہاں پہنچے، پانی پیا اور خوب نہائے۔ دن چڑھا تو اونٹ بھی لوٹ آئے، انھیں بھی سیر کیا گیا۔ آگے بڑھے توحضرت ابوہریرہ نے حضرت منجاب بن راشد سے پوچھا:آپ کوپانی کی موجودگی کا کیسے علم ہوا؟ میرے ساتھ اس جگہ چلیں۔ جب وہاں پہنچے تو پانی کا تالاب تھا۔ حضرت منجاب نے کہا:میں نے آج سے پہلے یہاں پانی نہیں دیکھا۔ حضرت ابوہریرہ بولے: واللہ، یہی جگہ ہے، اسی لیے تو میں نے لوٹ کر اپنا برتن بھرا ہے۔ حضرت منجاب نے کہا: اگر یہ اللہ کی طرف سے احسان تھا تو بھی آپ نے دیکھ لیا اور اگرچشمہ تھا تو بھی دیکھ لیا۔ شکر ہے اس کی ذات کا۔

اسی معرکے کے بارے میں حضرت منجاب بن راشدکی روایت اس طرح ہے : ہم نے مرتدین کے خلاف بحرین کے ساحلی مقام د ارین میں ہونے والی جنگ میں شرکت کی۔ اس مہم میں ہمارے امیرعلاء بن حضرمی نے تین دعائیں کیں جو فوراً قبول ہوئیں۔ ایک جگہ پانی نہ تھا، انھوں نے دو رکعت نفل ادا کر کے عاجزی سے اللہ کے حضور بارش کے لیے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعابھی کی:اس بارش سے صرف مجاہدین ہی استفادہ کریں۔ ہم تھوڑاہی آگے چلے تھے کہ اتنی بارش ہوئی کہ کھانے پینے اور وضو کے لیے پانی فراہم ہو گیا، کفار اس بارش سے سیراب نہ ہو سکے۔ ایک جگہ سمندر ہمارے راستے میں حائل تھا۔ انھوں نے دعا کی :اللہ ہم تیرے بندے، تیری راہ میں تیرے دشمن سے قتال کرنے نکلے ہیں ، ہمیں راہ دے دے۔ فوج سمندر میں داخل ہوئی اور بغیر تر ہوئے پانی عبور کر گئی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :میں علاء کے ساتھ تھا اور میں نے ان واقعات کا مشاہدہ کیا۔

خلافت فاروقی

خلیفۂ دوم حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت ابوہریرہ نے ایران کی فتوحات میں حصہ لیا۔ ۲۰ھ میں حضرت عمر نے انھیں بحرین اور یمامہ کا گورنر مقرر کیا۔ گورنر بحرین حضرت علاء بن حضرمی فوت ہوئے توحضرت عمر نے ان کی جگہ حضرت ابوہریرہ کا تقرر کیا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت عمر نے حضرت علاء کوبحرین کے بجاے کوفہ کا چارج سنبھالنے کا حکم دیا، لیکن وہ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ ایک سال بعدحضرت ابوہریرہ دس ہزار درہم لے کر مدینہ لوٹے تو حضرت عمر نے کہا: اللہ اور کتاب الہٰی کے دشمن، تو نے اس مال کو ترجیح دی؟حضرت ابوہریرہ نے جواب دیا: میں اللہ اور اس کی کتاب کا نہیں، بلکہ ان لوگوں کا دشمن ہوں جو ان دونوں سے عداوت رکھتے ہیں۔ حضرت عمر نے پوچھا: پھر یہ مال تیرے پاس کیسے آیا؟ انھوں نے وضاحت کی کہ یہ مال میں نے غصب نہیں کیا، گھوڑوں کی افزایش، غلے کی تجارت اور کچھ عطیات جمع ہونے سے یہ رقم اکٹھی ہوئی۔ صحابہ نے مزید تفتیش کی تو ان کی بات درست نکلی۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت عمر نے بارہ ہزار ر درہم تاوان وصول کیا۔ اطمینان حاصل کرنے کے بعدحضرت عمر نے انھیں دوبارہ گورنر لگانا چاہا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر نے کہا:تم سے بہتر، حضرت یوسف نے عہدہ خود مانگا تھا۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا: وہ نبی بن نبی تھے اور میں ابوہریرہ بن امیمہ ہوں ، میں بغیر علم کے بولنے اور بغیر بردباری کے فیصلہ کرنے سے ڈرتا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میری کمر پر کوڑے برسائے جائیں گے، میرا مال چھین لیا جائے گا اورمیری بے عزتی کی جائے گی۔

جنگ یرموک

 جنگ یرموک( رجب۱۵ھ :ابن عساکر۔ ۱۳ھ :طبری، ابن کثیر)ایسی جنگ تھی جس میں اہل ایمان کی کم تر فوج نے برتر رومی فوج کو حضرت خالد بن ولید کی برتر جنرل شپ کے ذریعے سے شکست دی۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو حضرت ابوعبیدہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عمرو بن عاص، حضرت ابوسفیان اورحضرت ابوہریرہ نے باری باری وعظ کیا اور سپاہیوں کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کی۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا: اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے اورجنات نعیم میں موٹی موٹی آنکھوں والی حوریں پانے کے لیے خوب پیش قدمی کرو۔ میدان کارزارسے بڑھ کر کوئی مقام ایسا نہیں جو تمھارے رب کو زیادہ محبوب ہو۔ سنو، صبر کرنے والو ں اور ثابت قدم رہنے والوں کی بڑی فضیلت ہے۔

عہد عثمانی

نسخ مصاحف

حضرت عثمان نے لغت قریش میں قرآن مجید کے نسخے لکھوا کرشام، مصر، بصرہ، کوفہ، مکہ اور یمن میں بھجوائے تو حضرت ابوہریرہ ان کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: آپ نے درست اور نیک کام کیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:مجھ سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ وہ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے اور ورق معلق پر عمل کریں گے(مستدرک حاکم، رقم ۶۹۹۳۔ مسند بزار، رقم ۲۸۹)۔ اس وقت تو میں حیران ہوا کہ یہ ورق کون سا ہے؟مصحف کے نسخے دیکھ کر آپ کی بات کی سمجھ آ گئی ہے۔ حضرت عثمان یہ سن کر بہت خوش ہوئے، حضرت ابوہریرہ کو دس ہزار درہم انعام دیااور کہا: مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ حدیث نبوی ہم پر منطبق کر دیں گے۔

جنگ باب

۳۲ھ (۶۵۴ء ):عہد عثمانی کے نویں سال گورنر کوفہ حضرت سعید بن العاص نے حضرت سلمان بن ربیعہ کی قیادت میں ایک مہم باب روانہ کی اور حضرت عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو اپنے بھائی کی مددکرنے کی ہدایت کی۔ باب الابواب یا دربند (Derbent) داغستان میں کوہستان قفقاز (Caucasus Mountains)کے دامن میں، بحیرۂ قزوین (دریاے خزر، Caspian sea) کے مغربی ساحل پرواقع ہے۔ ۲۴/اکتوبر ۱۸۱۳ء میں ہونے والے معاہدۂ گلستان کے تحت اسے ایران سے الگ کر کے روس میں شامل کر دیا گیا۔

 حضرت عبدالرحمٰن بن ربیعہ باب پر موجود تھے، حضرت عثمان انھیں خط لکھ چکے تھے، رعایاخفیہ تدبیریں کررہی ہے، مسلمانوں کو کسی خطرے میں نہ ڈال دینا، لیکن انھوں نے اپنی مہمات بے خطرجاری رکھتے ہوئے بلنجر کی طرف پیش قدمی کی اورشہر کا محاصرہ کر کے منجنیقیں نصب کر دیں۔ بلنجریابلنزر، حضرت ذوالقرنین کے تعمیر کردہ بند کے قریب واقع خزر خاقانیت کا دارالخلافہ تھا۔ ترکوں کی قوم خزر(Xazarlar) نے اپنی آنکھوں کی وجہ سے یہ نام پایا۔ خزر کے لفظی معنی ہیں : تنگ آنکھوں والے یا بھینگے۔ خزرقلعہ بند تھے، لیکن ترکوں کی طرف سے مدد آنے پر شہر سے باہر نکل آئے اورمسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اس پہلی عرب خزر جنگ میں دونوں طرف سے منجنیقوں کا استعمال کیا گیا۔ سخت لڑائی کے بعد حضرت عبدالرحمٰن اور ان کے بے شمار سپاہیوں نے شہادت پائی، اسلامی فوج شکست کھا کر دو حصوں میں بٹ گئی: ایک حصہ زیریں شہردربند شروان (Derbent، باب الابواب) کی طرف بھاگا اور حضرت سلمان بن ربیعہ کی قیادت میں آنے والی کمک سے جا ملا۔ ایک گروہ جس میں حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوہریرہ، علقمہ بن قیس اور حضرت خالد بن ربیعہ تھے، خزر کے راستے پر چلتے ہوئے گیلان پہنچاپھر جرجان میں منتشر ہو گیا۔ آخرکارحضرت سلمان بن ربیعہ کے جیش نے فتح پائی اور وہی باب (دربند) کے نئے عامل مقر ر ہوئے۔

 بغاوت کے ابتدائی ایام میں سبائی وفدکی صورت میں حضرت عثمان سے ملنے آئے۔ ان کے اطمینان دلانے کے بعد وہ لوٹ گئے، لیکن پھر پلٹ آئے اور حضرت عثمان جب فجر یا ظہر کی نماز پڑھانے مسجد نبوی میں آئے تو ان پر پتھراور جوتیاں برسانی شروع کر دیں۔ حضرت عثمان گھر کو واپس آ گئے، حضرت ابوہریرہ، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت طلحہ، حضرت مغیرہ بن اخنس اور مروان ان کے ساتھ تھے۔

حضرت عثمان کے خلاف بغاوت

بلوے کے دنوں میں حضرت عثمان نے دوسرے اصحاب کے ساتھ حضرت ابوہریرہ کو بھی نماز پڑھانے کی ذمہ داری سونپی۔

خارجیوں نے پہلے مدینہ، پھر حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو کچھ صحابہ ان کے خلاف جنگ کرنے پرآمادہ ہو گئے۔ شہادت سے ایک دن پہلے حضرت عثمان نے اپنے گھر کے پاس موجود ستر کے قریب صحابہ سے جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت حسن ، حضرت حسین اور حضرت ابوہریرہ شامل تھے، عہد لیا کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور تلوار نہ اٹھائیں گے۔ انھوں نے اپنے غلاموں کو تلقین کی، جو اپنی تلوار نیام سے نہ نکالے گا، آزاد ہو گا۔ ایک راوی کا کہنا ہے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ہتھیار اتارکر حضرت عثمان کے پاس چلے گئے۔

خلیفۂ سوم کی شہادت کا دن

مدینہ میں بلوائیو ں کی یورش کوچالیسواں دن تھا، ابھی چند حاجی مدینہ لوٹے تھے۔ بلوائیوں نے حاجیوں کی غیرموجودگی کا پورا فائدہ اٹھایا اور حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر کے اس کے دروازے کو نذر آتش کر دیا۔ وہاں موجود اہل ایمان نے شدید مزاحمت کی اور رجزیہ اشعار پڑھ کر قتال کیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کو بہت زخم آئے، حضرت حسن بھی زخمی ہوئے، مروان کی گردن کا ایک پٹھا کٹ گیا، حضرت زیاد بن نعیم، حضرت مغیرہ بن الاخنس اور حضرت نیار بن عبداللہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ حضرت ابوہریرہ اس وقت حضرت عثمان کے گھر پہنچے جب چند لوگوں کے علاوہ جو لڑ رہے تھے، سب واپس ہورہے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور کہا: میں تمھارے لیے نمونہ ہوں ، آج جنگ کرنا بہت بہتر ہے۔ ’وَيٰقَوْمِ مَا لِيْ٘ اَدْعُوْكُمْ اِلَي النَّجٰوةِ وَتَدْعُوْنَنِيْ٘ اِلَي النَّارِ ‘، ’’اے میری قوم، کیا بات ہے کہ میں تمھیں نجات کی طرف بلا رہاہوں اور تم مجھے جہنم کی دعوت دے رہے ہو‘‘(المومن۴۰: ۴۱)۔ حضرت عثمان کومعلوم ہوا تو حضرت ابوہریرہ کو بلا کر لڑائی سے باز رہنے کا حکم دیا۔

دور اموی

اس دور میں حضرت ابوہریرہ کو مدینہ کا گورنر بنایا گیا۔ مدینہ کے گورنر مروان نے اپنی غیر حاضری میں حضرت ابو ہریرہ کو اپنا نائب بھی مقرر کیا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت معاویہ انھیں گورنر بناتے اور جب غصہ آتا تو ہٹا دیتے۔

ایک بارماہ رمضان میں حضرت ابوہریرہ اور دیگر اصحاب و تابعین کے وفود حضرت معاویہ کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوہریرہ اکثر ان وفود کو بلا کر کھانا کھلاتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرتے۔ ایک بار انھوں نے احادیث بیان کرتے کرتے پوری رات بسر کر دی، حتیٰ کہ فجر ہو گئی۔

 باغیوں کے خلاف حضرت عثمان کا دفاع کرنے پر بنوامیہ حضرت ابو ہریرہ کے مشکور تھے۔ اس کے باوجود جب اموی حکومت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں حضرت حسن کی تدفین کرنے سے روکا تو انھوں نے مروان کو جھاڑ پلا دی اور کہا: تم ایک غیر موجود شخص (حضرت معاویہ ) کو خوش کرنے کے لیے خواہ مخواہ جھگڑا کررہے ہو۔ مروان غصے میں آ گیا اور ان کی روایتوں پر اعتراض کرنے لگا۔

حضرت حسن کی وفات

حضرت ابوہریرہ پر حضرت حسن کا گزر ہوا اور انھوں نے سلام کیا تو حضرت ابوہریرہ نے یوں جواب دیا: وعلیک السلام یا سیدی، پھر بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : یہ سردار ہو گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ اللہ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔ حضرت حسن کی وفات کے وقت حضرت ابوہریرہ مسجدنبوی کے باہر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارنے لگے :لوگو، آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب فوت ہو گئے، چنانچہ جنازے میں اس قدر لوگ اکٹھے ہوئے کہ جنت البقیع میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔

 بسربن ابو ارطاۃ کی حجاز پر فوج کشی

۴۰ھ :حضرت معاویہ نے بسربن ابو ارطاۃ کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر مدینہ بھیجا۔ حضرت علی کے مامور گورنرحضرت ابوایوب انصاری مدینہ چھوڑ کر کوفہ چلے گئے اوربسر کو بغیر کسی مزاحمت کے شہر میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ مدینہ کے کئی گھر منہدم کرنے کے بعد بسرمکہ پہنچا، لوگوں کو حضرت معاویہ کی بیعت پر مجبور کرنے کے بعد اس نے یمن کا رخ کیا، گورنر حضرت عبیداللہ بن عباس کے دوچھوٹے بیٹوں ، عبدالرحمٰن اور قثم کو ذبح کیااورحضرت علی کے متبعین کا قتل عام کیا۔ حضرت علی کو بسر کی کارروائیوں کی خبر ملی تو حضرت جاریہ بن قدامہ اور وہب بن مسعود کودو دوہزار کی فوج دے کر بھیجا۔ حضرت جاریہ نجران پہنچے اور بسر کی فوج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ پھر وہ مدینہ گئے، حضرت ابوہریرہ مدینہ میں نمازوں کی امامت کر رہے تھے، حضرت جاریہ کی آمد کی خبر سن کر بھاگ نکلے۔ حضرت جاریہ نے مدینہ کے باشندگان سے حضرت حسن بن علی کی بیعت لی اور کہا: اگر ابوسنور (ابوہریرہ )میرے ہاتھ آتے تو میں ان کی گردن اڑا دیتا۔ بسر کوفہ لوٹا تو حضرت ابوہریرہ مدینہ واپس آ گئے اور مسجد نبوی کی امامت سنبھال لی۔

وفات

حضرت ابوہریرہ کی وفات ۵۹ھ (واقدی)(۶۸۱ء )میں اٹھتر (یا ستاسی)سال کی عمر میں مدینہ کی وادی العقیق میں اپنے گھر میں ہوئی، جسد مدینہ لایا گیا، حضرت عثمان کے بیٹوں نے کندھا دیا، کیونکہ حضر ت ابوہریرہ حضرت عثمان سے محبت کرتے تھے۔ گورنر ولید بن عتبہ نے نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری بھی موجود تھے۔ انھیں جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔ ہشام بن عروہ ان کا سن وفات۵۷ھ اور ہیثم بن عدی ۵۸ھ بتاتے ہیں۔ اپنی وفات سے پہلے حضرت ابوہریرہ امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ کی نماز جنازہ پڑھا چکے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ نے وصیت کی کہ میرے جنازے پر گریہ نہ کیا جائے، قبر پر سائبان نہ تانا جائے اور جلد دفنا دیا جائے۔ حضرت معاویہ نے حضرت ابوہریرہ کے ورثا کے لیے دس ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ کی وفات ان کے بعد ہوئی۔

مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح(بخاری )، تاریخ الامم والملوک(طبری)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:J Robson)، Wikipedia۔


[باقی]

_______________

B