HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

دو رفقا

محمد تہامی بشر علوی

 

انسان کے ساتھ اس کے دو رفقا بھی ہیں: ایک رفیق شیطان ہے اور دوسرا رفیق فرشتے ہیں۔فرشتے اس کو مثبت رسپانس اپنانے کی تلقین کرتے ہیں ،جب کہ شیاطین اسے منفی راہ کی طرف گائیڈ کرتے ہیں ۔عملی زندگی میں ایک موقع ایسا آتا ہے جب شیطان انسان پر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان اس کے ہاتھوں میں اس طرح ہو جاتا ہے ،جس طرح ایک بچے کے ہاتھ میں کھلونا ہوتا ہے۔ مثلاً گیند بچے کے ہاتھ میں دے دیں، وہ چاہے تو اسے زمین پہ پٹخ دے اور چاہے تو دیوار پہ مار دے۔ایسی کیفیت پیدا ہو جانا منفی رسپانس میں بہت آگے بڑھ جانے کے مترادف ہے۔ یہ کیفیت ، غصے کی کیفیت ہے۔ غصے کی کیفیت جب کسی انسان پر طاری ہوتی ہے تواس کی عقل پر بالکل پردہ سا ڈال دیتی ہے۔ انسان کیdecision power  (قوت فیصلہ) ختم ہو جاتی ہے اوروہ پوری طرح شیطان کی گرفت میں آجاتاہے ۔ایسی کیفیت میں شیطان جس طرف چاہتا ہے، انسان کوبہکا دیتا ہے، اور انسان سوچے سمجھے بغیر منفی راہوں پر دوڑنے لگتا ہے۔

قرآن مجید نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو بہت پسند فرماتا ہے، ان میں سے وہ لوگ قابل ذکر ہیں جو غصے کو بالکل پی جانے والے ہوتے ہیں۔ یعنی غصہ جتنا بھی آجائے، اس کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ اپنے اندر ہی اندر رکھتے ہیں ۔غصے کو اپنے اندر رکھنے سے ایک قسم کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔اس منفی چیز سے یہ مثبت چیز حاصل کی جا سکتی ہے، اگر اسے اپنے اندرقابو کر لیا جائے۔ غصہ کے وقت انسان کے دماغ سے غیر معمولی انرجی نکلتی ہے۔ یہ انرجی انسان اپنے اندر ہی رکھے ، ظاہر نہ کرے توانسان کے اندر غور و فکر کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو تحقیق کے کام میں مشغول ہیں، مستقل طور پر تدبر کے شعبے سے وابستہ ہوں، ان کے لیے وہ انرجی بڑی کام کی ہوتی ہے۔ کرنا یہی چاہیے کہ انسان کوجب بھی غصہ آئے تو فوری طور پر اس کو اپنے اندر ہی دبا دے۔ کسی طرح بھی اس کو باہر نکلنے نہ دے، کیونکہ اگر وہ نکل جائے گا تو منفی ردعمل کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ کفر و شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ،قطع تعلقی کرنا قرار دیا گیا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔والدین کا رشتہ ہے،بیوی کا رشتہ ہے، بھائیوں کا رشتہ ہے ، جب تک یہ رشتے قائم رہیں گے، زمین میں فساد نہیں ہو گا۔ جب یہ رشتے کٹتے ہیں تو خدا کی زمین فساد سے بھر جاتی ہے ۔ پھر اس دنیا میں کہیں چین و سکون نہیں ہوتا ۔ ان رشتوں کو کاٹنے والا سب سے بڑا ہتھیار یہی غصہ ہے۔

شیطان اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب کوئی ایسا موقع آئے اوروہ اس غصے کے ہتھیار کو پوری طرح استعمال کروا کے رشتوں کو کاٹ کر رکھوا دے اورزمین کو فساد سے بھر دے۔ خدا پر شعوری طور پر ایمان لانے والے ہر فرد کو غصے کی کیفیت میں ہوشیار رہنا چاہیے۔ایسے موقع پر شیطان کی تلقین کے بجاے فرشتوں کی آواز پر کان دھر لینے چاہییں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق غصے کا اظہار نہ کرے، بلکہ اس کوسینے کے اندر ہی دبا دے۔ وہ غصے کے طاقت ور جذبہ کو کسی ایسے رخ پرڈال دے جس کا نتیجہ اس کے لیے مفید ہو۔

آپ کے نمبر کم آئے، اس پر گھروالوں سے آپ کو ڈانٹ پڑگئی، آپ کو غصہ آگیا، اس غصے کی طاقت ور انرجی کو مثبت رخ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی کم زوری کو دور کرنے میں زیادہ توانائی صرف کریں۔ غصہ اور محبت انسان میں بہت طاقت ور جذبے ہوتے ہیں ۔ یہ جذبہ جس میں پیدا ہوجائے، وہ وہ کام بھی کر دکھاتاہے جو کہ عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا۔اس طاقت ور جذبے سے تعمیر کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور تخریب کا بھی۔ یہ طاقت ور جذبے منفی رخ پر چل پڑیں تو تباہی پھیلا دیتے، مثبت رخ پر پڑ جائیں تو بہت بڑی کامیابی کا باعث بن جاتے ہیں۔غصے کے موقع پر انسان کو اتنے دماغی کنٹرول کی مشق ضرور ہونی چاہیے کہ وہ غصے کو کان سے پکڑ کر کسی مثبت سمت میں ڈال سکے۔ظاہر ہے کہ ایسا کمال پیدا کرنے کے لیے ہمیں مشق کی ضرورت ہوگی۔ سب چیزیں آٹو میٹک نہیں ہوجاتیں، انسان کو خود پر محنت کر کر کے خود کو تعمیر کرنا پڑتا ہے۔غصے کی حالت میں ابھرنے والی انرجی کوئی مثبت راہ پر نہیں ڈال سکتا تو کم از کم درجہ یہ ہے کہ وہ اس انرجی کو ضائع تو کر دے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ ہیئت کو بدل دے۔ اس کی توجہ بٹنے سے دماغ کا اس ایک مسئلہ پر سٹریس ختم ہوجائے گا۔غصے کا ابال تب تک ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ ابتدائی مشقیں انسان کے لیے مشکل بھی ہو سکتی ہیں، لیکن مسلسل ہوش مندی کے ساتھ محنت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ وہ موقع فراہم کر دیتے ہیں جس سے انسان اس مشکل پر آسانی سے قابوپالیتاہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تدبیر بھی بتا دی کہ وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ وہ جائے جا کر وضو کر لے، وہ فوراً پانی کا گلاس پی لے۔ اس طرح اس کا غصہ اسے منفی راہ پر نہ ڈال سکے گا۔ شیطانی دخل سے وہ بچ جائے گا۔اپنی حالت بدلنے کی یہ تدبیر انسان کو دوسری طرف متوجہ کر کے اس کے ذہن کو غصے کے دباؤ سے نکالنے میں نہایت مفید تدبیر ہے۔اگر وہ غصے کی آگ کو اپنے اندر قابو کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو یہ شعلے باہر نکل کر کئی جذبات کو بھسم کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص اپنی بیوی پر ہی غصہ کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں بیوی کے اندر بھی جوابی غصہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اب وہ فوری طور پر جوابی غصے کا اظہار کر کے جھگڑا بڑھادے گی یا پھر وہ اپنے میکے چلی جائے گی یا اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر کر دے گی یا اپنے سسرال میں اس کا ذکر کر دے گی، وہ اپنی سہیلیوں سے بھی اس کا ذکر کرے گی، اپنی پڑوسنوں سے اس کا ذکر کرے گی۔ یوں غصے کی یہ آگ کئی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ فتنوں اور نفرتوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ غصے کا یہ سرکٹ جب ایک دفعہ چل پڑتا ہے تو پھر کہیں رکنے کانام نہیں لیتا ۔ بس اسٹارٹ کرنے کی دیر ہے،جب یہ گاڑی چل پڑے تو پھر یہ رکتی کہیں نہیں۔ لیکن اگر بالفرض کسی وجہ سے کوئی شخص آپ پر غصہ ہو ہی جائے تو اس کے جواب میں آپ دوبارہ غصہ کبھی نہ کریں ۔مثلاً خاوند صاحب گھر میں تشریف لے گئے ، انھیں کچھ ناگوار گزرا اور غصہ چھڑک بیٹھے۔اب بیوی نے کیا کرنا ہے ؟اس کے لیے مثبت راہ یہی ہے کہ غصے کے جواب میں غصہ نہ کرے۔ خاوند مستقل بدمزاجی پر اتر آیا ہو تو اس تکلیف سے بچنے کے لیے وہ دانش مندی سے ایسے ذمہ دار افراد کو آ گاہ کرے جو خاوند کو بری روش سے باز رکھنے میں مدد کر سکتے ہوں۔

ہمیں کم از کم گھریلو زندگی میں یہ اصول طے کر لینا چاہیے کہ غصے کے جواب میں غصہ کبھی کرنا ہی نہیں۔ اس سے گھر کا سکون تباہ ہونے سے بچا رہے گا۔ گھر کا ہر فرد اپنے غصے کے اظہار میں آزادی کی راہ اپنائے گا تو وہ خود اپنا سکون تباہ کر رہا ہو گا۔ اگر کسی وجہ سے کسی ایک فردکا دماغ بگڑ گیا ،شیطان کے بہکاوے میں آ گیا اور وہ غصے میں کچھ ناروا باتیں کہہ گیا تو آپ اس کے جواب میں غصہ نہ کریں ۔ اس طرح گھر کے ماحول کو تباہ کرنے کے لیے پھینکا گیا ایک بم موقع پر ہی ناکارہ ہو جائے گا۔ کسی کے غصے کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں، غصے کے جواب میں جو غصہ ہوتاہے، وہ اسی انا کی وجہ سے ہوتا ہے ۔رشتوں کی بقا کے لیے اس جھوٹی انا کو قربان کر دینا چاہیے۔ ایسے موقعوں پر مثبت راہ پر آنا مشکل ہوتا ہے۔ فرشتے مسلسل تلقین کر رہے ہوتے ہیں کہ انسانpositive response  پیش کر کے اپنے خدا کو راضی کر دے، جب کہ شیاطین ہمیں منفی راہ کی طرف پھیر رہے ہوتے ہیں تاکہ ہم بدی کی راہوں میں آگے بڑھ کر خدا کے غضب کا شکار ہو جائیں۔

____________

B