HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت علی رضی اللہ عنہ (۱۹)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

  

اذکار و ادعیہ

بیماری سے شفا

حضرت علی ایک بار بیمار ہوئے تو یہ دعا کی:اے اللہ، اگر میری موت قریب آگئی ہے تو مجھے اس کے ذریعے سے راحت بخش اور اگر اس کے آنے میں دیر ہے تو مجھے آسودگی دے اور یہ بیماری اگرآزمایش ہے تومجھے صبرعطا کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سنی اور ان کو پاؤں سے ٹہوکادے کر (دوسری روایت : دست مبارک پھیرکر) خود بھی دعا فرمائی: اے اللہ، علی کو عافیت اور شفا دے(ترمذی، رقم۳۵۶۴۔احمد، رقم۱۰۵۷۔ مسند بزار، رقم۷۰۹۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۹۴۰)۔ 

 قرض سے چھٹکارا

ایک غلام جس نے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنے آقا کو کچھ رقم ادا کرنے کا معاہدہ کر رکھا تھا، حضرت علی کے پاس آیا اور عرض کیا: میں اپنا بدل کتابت ادا نہیں کر پا رہا، میری مدد کر دیجیے۔حضرت علی نے کہا: میں تمھیں وہ کلمات نہ سکھا دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تلقین فر مائے تھے۔ اگر تم پر صیر پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تواللہ تعالیٰ اتار دے گا: ’اللّٰھم اکفني بحلالک عن حرامک و أغنني بفضلک عمن سواک‘،’’اے اللہ، تو مجھے اپنا حلال مال دے کر حرام سے بے پروا کر دے اور اپنے فضل سے نواز کر اپنے ماسوا سے بے نیاز کردے‘‘ (ترمذی، رقم۳۵۶۳۔ احمد، رقم۱۳۱۹) ۔

سواری پر بیٹھنے کے وظائف

ایک بار حضرت علی اونٹنی پر سوار ہوئے،رکاب میں پاؤں رکھا تو تین بار ’بسم اللہ ‘کہا۔جب ا س کی کمر پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو ’الحمد للّٰه‘ کہا:پھریہ آیات تلاوت کیں:’سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ. وَاِنَّا٘ اِلٰي رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ‘، ’’پاک ہے وہ ذات جس نے ان سواریوں کوہماری خدمت میں لگا دیا، ہم تو ان کو قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے، بے شک ہم اپنے رب ہی کی طرف پلٹنے والے ہیں‘‘ (الزخرف ۴۳: ۱۳ - ۱۴)۔تین بار پھر ’الحمد للّٰه‘ دہرایا،تین بار ’اللّٰه أکبر‘ کہااو ردعا کی:’سبحانک إني ظلمت نفسي فاغفرلي فإنه لا یغفر الذنوب إلا أنت‘،’’توپاک ہے اللہ، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، مجھے بخش دے،کیونکہ صرف توہی گناہوں کو معاف کر سکتا ہے‘‘۔ پھرحضرت علی مسکرائے اور کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہی عمل کرتے اور اسی طرح تبسم فرماتے دیکھا ہے۔آپ نے فرمایا: جب بندہ اس طرح استغفار کرتا ہے تو تمھارا رب اس سے خوش ہوتا ہے (ابوداؤد، رقم ۲۶۰۲۔ ترمذی، رقم ۳۴۴۶۔ احمد، رقم۷۵۳۔السنن الکبریٰ،نسائی، رقم۸۷۴۸۔مصنف عبدارزاق، رقم۱۹۴۸۰)۔ 

متفرق واقعات

ایک بار حضرت جعفر،حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ میں بحث چھڑ گئی ۔ہر ایک کہتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے۔ تینوں آپ کے پاس پہنچے اور سوال کیا:آپ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟آپ نے جواب فرمایا: فاطمہ۔عرض کیا: ہم مردوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔آپ حضرت جعفر سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:جعفر،تیرے اخلاق اورتیرا جسم میرے اخلاق اور میرے جسم سے مشابہ ہے ،تومجھ سے اور میرے شجرے سے ہے۔پھر حضرت علی کی طرف رخ کر کے ارشاد کیا: علی،تو میرا داماد اور میرے نواسوں کا باپ ہے ،میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے۔حضرت زید سے فرمایا:زید،تو میرا مولا ہے ،مجھ سے ہے اور مجھے سب سے بڑھ کر محبوب ہے(احمد، رقم ۲۱۷۷۷۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۹۵۷۔ المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۳۷۸۔ مسند بزار، رقم ۷۴۴)۔

حضرت علی سفر کرتے توسورج ڈوبنے کے بعد بھی چلتے رہتے، یہاں تک کہ اندھیراچھانے لگتا۔پھر سواریوں سے اتر کر مغرب کی نماز ادا کرتے،رات کا کھانا کھاتے اور عشاکی نماز پڑھ کر سفر دوبارہ شروع کر دیتے اور کہتے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے(ابوداؤد، رقم۱۲۳۴)۔

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی چیز کا حکم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:ایک سال تک اس کا اعلان کرو،اس کے سربند، ظرف (container) اور غلاف کی پہچان رکھو، پھر اسے استعمال کر لو۔ پھر بھی اس کا مالک آئے تواسے لوٹا دو(ترمذی، رقم ۱۳۷۲)۔ حضرت علی کو ایک دینارگرا ہوا ملاتوحضرت فاطمہ کے پاس لے آئے۔حضرت فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کیاتو آپ نے فرمایا: اللہ کا رزق ہے۔ چنانچہ آپ نے اور حضرت فاطمہ وحضرت علی نے اس میں سے کھایاپیا۔اس کے بعد ایک عورت دینار ڈھونڈتی آ گئی تو آپ نے فرمایا: علی، دینار واپس کرو (ابوداؤد، رقم ۱۷۱۴)۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت علی نے بازار سے ملنے والا دینار رہن میں رکھ کر ایک درہم کا گوشت خریدا،لیکن جب ایک لڑکے نے اللہ و اسلام کا واسطہ دے کر اپنے کھوئے ہوئے دینارکابتایا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ قصاب سے دینار لے لواور گوشت کے ایک درہم کا ادھار کرلو (ابوداؤد، رقم ۱۷۱۶)۔

ایک شخض نے حضرت علی پرسب و شتم کیا اورحضرت سعد بن ابی وقاص کے منع کرنے کے باوجود نہ رکا تو انھوں نے اسے بددعا دی ۔اچانک ایک سرکش اونٹ آیا اور اسے روند ڈالا۔

 حضرت معاویہ کے مقررہ گورنر کوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہ خطبہ میں حضرت علی کی برائی کرتے تو حضرت حجر بن عدی انھیں ٹوکتے ۔اگلے گورنروں زیاد بن ابوسفیان اور حضرت عمرو بن حریث کے ادوار میں بھی ان کا یہی طرزعمل تھا۔شیعان علی حضرت حجر کے پاس اکٹھے ہو جاتے اور حضرت معاویہ پر لعن طعن کرتے۔ انھوں نے حضرت عمروبن حریث پرپتھراؤ بھی کیا ۔اس پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنا کرحضرت معاویہ کے پاس بھیجاگیا،ابن سیرین سمیت ستر افراد نے گواہی دی۔حضرت معاویہ نے انھیں قتل کرنے کا حکم جاری کیا، حضرت عائشہ کو معلوم ہوا توانھیں چھوڑنے کی سفارش کی، لیکن تب تک ان کی گردن اڑائی جا چکی تھی۔ حضرت عائشہ نے ملامت کی توحضرت معاویہ نے کہا: اگر وہ بچ جاتے تو امت میں فساد پھیل جاتا۔

حضرت علی کی شان میں غلو

ربیع الاول ۲۱۲ھ میں عباسی خلیفہ مامون الرشید نے تفضیل علی کا پرچار شروع کیا۔تب سے حضرت علی کی شان میں بہت غلو کیا گیا۔ان کی محبت میں افراط کرنے والوں کی تعداد ان کو برا بھلاکہنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مدح میں بے شمار روایات گھڑی گئیں۔شعبی کہتے ہیں : جتنا جھوٹ حضرت علی پر باندھا گیا ہے، امت مسلمہ کی کسی شخصیت کے لیے نہیں گھڑا گیا۔ ابویعلیٰ کہتے ہیں :روافض نے حضرت علی اور اہل بیت کے فضائل میں تین لاکھ روایات وضع کیں۔شارح ’’نہج البلاغہ‘‘ ابن ابی حدید کہتے ہیں : حضرت علی کے حق میں کثرت سے دروغ تصنیف کیا گیا ہے۔ حضرت علی کااپنا ارشاد ہے : میرے ساتھ تعلق رکھنے والے دوقسم کے لوگ ہلاک ہوں گے: ایک مجھ سے محبت کرنے والے، وہ مدح کریں گے جس کا میں اہل نہیں،دوسرے مجھ سے بغض رکھنے والے جو مجھ پر افترا و بہتان باندھیں گے( احمد، رقم ۱۳۷۶۔مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۳۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۷۹۷۔نہج البلاغہ۲؍۲۴۴)۔

۱۱۹ھ میں مغیرہ بن سعیدنے حضرت علی کی الوہیت کا عقیدہ بیان کیا۔اس نے حضرت حسن اورحضرت حسین کو بھی الٰہ بنا یا اور تمام صحابہ کو کافر قرار دیا۔وہ امام باقر اور امام جعفر صادق کے پاس گیا تو انھوں نے اسے جھڑک دیا۔۳۲۲ھ میں ابن ابی عزاقر(یا قراقر) شلمغانی نے حلول الہٰیت کا فلسفہ پیش کیا ۔اس نے کہا: لاہوتیت حضرت علی اور ان کے مد مقابل ابلیس میں جمع ہوگئی ہے۔

 چندروایات کا ذکر کیا جاتا ہے جن پر سند اور متن کے اعتبار سے کلام کیا گیاہے:

أنا مدینة العلم وعلي بابها فمن أراد المدینة فليأت الباب‘،’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، پس جو شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے، دروازے سے آئے‘‘۔ دوسری روایت میں ’مدینة العلم‘ کے بجاے ’دارالعلم‘،’’علم کا گھر‘‘ کے الفاظ ہیں (ترمذی، رقم۳۷۲۳۔مستدرک حاکم، رقم ۶۴۳۸۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۱۰۶۱)۔ ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب منکر ہے،اس کے راویوں میں شریک کے علاوہ ایک بھی ثقہ نہیں۔ذہبی نے اسے موضوع قرار دیا اور کہا: حاکم کی جرأت پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی باطل روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

أنا سید ولد آدم و علی سید العرب‘ ،’’میں آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں اور علی عربوں کے سرخیل ہیں‘‘(المعجم الاوسط،طبرانی، رقم ۱۴۶۸۔ مجمع الزوائد، رقم ۱۴۶۸۲)۔

یا علي، أنت أخي في الدنیا و الآخرة‘،’’علی، تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو‘‘( ترمذی، رقم ۳۷۲۰۔مستدرک حاکم، رقم۴۲۸۸)۔ اس روایت کے نفس مضمون سے ہر گز اختلاف نہیں کیا جا سکتا،لیکن کیا کیا جائے کہ اس کے راویوں میں سے حکیم بن جبیر کوضعیف اورجمیع بن عمیر کو جھوٹا، حدیث گھڑنے والا قرار دیا گیا ہے۔اسحٰق بن بشیر پر بھی کذب اور وضع کے الزامات ہیں۔ اسی مضمون کی دوسری روایت ’یا علي أنت أخي و صاحبي و رفیقي في الجنة‘، ’’اے علی،تم جنت میں میرے بھائی، ساتھی اور رفیق بنو گے‘‘ (تاریخ بغداد،  رقم ۳۷۹۹۔کنز العمال،رقم ۳۶۴۶۸) بھی موضوع ہے، کیونکہ اس کا راوی عثمان بن عبدالرحمٰن کذاب ہے۔

حب علي بن أبي طالب يأکل السیئات کما تأکل النار الحطب‘،’’علی سے محبت گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتی ہے، جیسے آگ لکڑی کھا جاتی ہے‘‘ (تاریخ بغداد،رقم ۱۲۸۸)۔ابن جوزی نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔

إن علی الصراط لعقبة لا یجوزها أحد إلا بجواز من علي بن أبي طالب. أنا خاتم الأنبیاء وأنت یا علي خاتم الأولیاء‘،’’پل صراط پرایک گھاٹی ایسی ہے جسے علی کے گزارے بغیر کوئی پار نہیں کر سکتا۔میں سلسلۂ انبیا کا خاتمہ کر رہا ہوں اور علی تم اولیا کا سلسلہ ختم کر رہے ہو (تاریخ بغداد، رقم ۳۱۹۶)۔ اسے عمر بن واصل نے وضع کیا ہے۔

إن اللہ جعل ذریة کل نبي في صلبه وإن اللہ تعالٰی جعل ذریتي في صلب علي بن أبي طالب‘،’’اللہ نے ہر نبی کی اولاد اس کی صلب میں رکھی ہے او ر میری اولاد علی کی صلب میں رکھ دی ہے‘‘(المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۲۶۳۰۔کنزالعمال، رقم ۳۲۸۹۲)۔ اس حدیث کا واضع یحییٰ بن علا کذاب اور متروک ہے۔ دوسرا راوی ابن مرزبان بھی جھوٹا ہے۔

عنوان صحیفة المؤمن حب علي بن ابي طالب‘،’’علی کی محبت کتاب مومن کا عنوان ہے‘‘ (تاریخ بغداد ،رقم ۱۵۰۴۔کنز العمال،رقم ۳۲۹۰۰)۔ ذہبی اور خیثمہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

النظر إلی علیّ عبادة‘، ’’ علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے‘‘ (مستدرک حاکم، رقم ۴۶۸۱۔ حلیۃ الاولیا ، رقم ۱۹۶۱۔ مجمع الزوائد، رقم ۱۴۶۹۵)، روایتاً ًضعیف اور درایتاً غلط ہے،ذہبی نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

من سرہ أن یحیا حیاتي و یموت مماتي و یسکن جنة عدن غرسها ربي فلیوال علیًا من بعدي ولیوال ولیه و لیقتد بالائمة من بعدي فإنهم عترتي خلقوا من طینتي رزقوا فهمًا و علمًا و ویل للمکذبین بفضلهم من أمتي القاطعین فیهم صلتي لا أنالهم اللہ شفاعتي‘، ’’جسے اس بات سے خوشی ہوکہ وہ میری زندگی جیے، میری موت مرے اور عدن کے ان باغات میں رہے جنھیں میرے رب نے بنایا اور سینچا ہے،اسے چاہیے کہ میرے بعد علی کواپنا دوست بنائے اور اس کے ولی کو اپنا ولی بنائے۔میرے بعد کے ائمہ کی اقتدا کرے، کیونکہ وہ میری اولاد ہیں،میری مٹی سے تخلیق ہوئے، انھیں فہم اور علم عطا ہوا۔میری امت میں سے ان کی فضیلت جھٹلانے والوں اور ان سے قطع رحمی کرنے والوں کے لیے بربادی ہے۔اللہ انھیں میری شفاعت سے محروم رکھے‘‘(حلیۃ الاولیا۲۶۸۔ کنزالعمال،رقم ۳۴۱۹۸)۔یہ روایت منکر ہے،ایک کے علاوہ اس کے تمام راوی مجہول ہیں۔

لا تسبوا علیًا فإنه ممسوس في ذات اللہ تعالٰی‘، ’’علی کو گالی نہ دو، کیونکہ وہ اللہ کی ذات سے ملے ہوئے ہیں‘‘ (حلیۃ الاولیا۲۱۵۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۹۳۶۱۔ مجمع الزوائد، رقم ۱۴۷۴۳۔ کنز العمال،رقم ۳۳۰۱۷) کی سند انتہائی ناقص ہے۔

حدیث الطیر

ایک پرندہ،سرخاب یا چکورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کیا گیاتو آپ نے دعا کی :اے اللہ، مخلوق میں سے اپنے محبوب ترین شخص کو میرے پاس بھیج دے تاکہ وہ یہ پرندہ میرے ساتھ مل کر کھائے۔ تب حضرت علی آئے اور انھوں نے یہ پرندہ کھایا(ترمذی، رقم۳۷۲۱)۔ حضرت عائشہ تمنا کرنے لگیں کہ میرے والد آجائیں، حضرت حفصہ کوخواہش ہوئی کہ حضرت عمر آن موجود ہوں۔گھر میں موجود حضرت انس کی دعا تھی کہ انصار کے حضرت سعد بن عبادہ کی آمدہو۔ حضرت علی تین بار آئے، لیکن حضرت انس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصروف حاجت ہیں۔چوتھی باردروازہ کھٹکا اور آپ کی اجازت سے حضرت علی داخل ہوئے۔ آپ نے دعا فرمائی :اے اللہ،جوعلی سے دوستی رکھتا ہے، توبھی اسے دوست بنا لے۔ایک روایت کے مطابق اس دوران میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر بھی آئے، لیکن آپ نے انھیں لوٹا دیا(مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۰۵۲۔ مستدرک حاکم، رقم۴۶۵۰)۔ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ذہبی کہتے ہیں : میں ایک عرصہ یہی سوچتا رہا کہ حاکم اس روایت کواپنی ’’مستدرک‘‘ میں شامل نہ کریں گے۔                       

سورج کا لوٹانا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صہبا کے مقام پر ظہر کی نماز پڑھائی، پھرحضرت علی کو کسی کام بھیجا۔وہ لوٹے تو آپ عصر پڑھا چکے تھے،آپ اپنا سر علی کی گود میں رکھ کر سو گئے۔دوسری روایت کے مطابق اسی حالت میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔اسی طرح سورج غروب ہو گیا،آپ نے یہ دعا کی: ’اللّٰهم إنه کان في طاعتک وطاعة رسولک فاردد علیه الشمس. قالت أسماء فرأیتها غربت ثم رأیتها طلعت بعد ما غربت‘، ’’اے اﷲ، علی تیری بندگی اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا، اس لیے سورج اس پر لوٹا دے۔ حضرت اسماء بنت عمیس کہتی ہیں :میں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا تھا، پھر میں نے دیکھا کہ وہ ڈوبنے کے بعد پھر نکل آیا‘‘(المعجم الکبیر،طبرانی۲۴/۳۹۰۔مشکل الآثار، طحاوی، رقم  ۱۰۶۸)۔ ابن جوزی نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔سند کی کم زوریوں کے علاوہ اس حدیث کا متن بھی قابل اعتراض ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ کی عصر کی نماز قضا ہوئی تب تو سورج واپس نہ آیا۔ اگر یہ معجزہ حقیقتاً واقع ہوا ہوتا تو حدیث کی ایک آدھ مستند کتاب میں تو بیان ہوتا۔

ضرت ایک واقعہ جاہل قصہ گوؤں نے وضع کر رکھا ہے کہ جحفہ کے قریب ایک کنویں پر حضرت علی کا جنوں سے قتال ہوا۔اس واقعے کی کوئی اصل نہیں۔

حضرت حسن سے پوچھا گیا:شیعہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علی کو قیامت سے پہلے زندہ کیا جائے گاتو انھوں نے جواب دیا:جھوٹ کہتے ہیں۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا تو ان کا مال بانٹتے نہ ان کی بیواؤں کی شادیاں کرتے (احمد، رقم ۱۲۶۶)۔ ایک شیعہ گروہ نے جس کا سردار جابر بن یزید جعفی تھا،یہ بات کہی۔ اب اس کا وجود نہیں رہا۔

 الجامعہ یا مصحف فاطمہ

 شیعہ عقیدے کے مطابق یہ مخصوص صحیفہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو املا کرایا۔یہ قرآن مجید سے تین گنا بڑا ہے اوراس میں قرآن کا ایک بھی حرف شامل نہیں۔اس کی لمبائی ستر ذراع (بازو، fore arm) ہے۔ اس میں ضرورت کی ہر چیز اور ہر قابل فیصلہ امر، حتیٰ کہ ایک خراش کی دیت کا حل موجود ہے (بصائر الدرجات ۳/ ۱۴۲)۔ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق کے پاس ایسا قرآن تھا جس میں سترہ ہزار آیات تھیں (اصول کافی ۶۷۱)، جب کہ اصل قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔ یہ مخصوص مصحف حضرت علی کے پاس تھا،انھوں نے آنے والے امام کے سپرد کیا،اگلے امام اپنے جانشینوں کو منتقل کرتے رہے، حتیٰ کہ آخری امام مہدی غائب ہونے کے وقت اسے اپنے ساتھ غار سرمن رأی (سامرہ) میں لے گئے۔

 دوسرا صحیفہ نہ ہونے کے دلائل

اس مسئلہ کے بار ے میں حضرت علی کے اپنے مفصل ارشادات موجود ہیں۔

کسی شخص نے حضرت علی سے کہا:کوئی ایسی بات بتائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے رازداری میں فرمائی ہو۔حضرت علی غصے میں آگئے، ان کا چہرہ سرخ ہو گیا، پھر کہا: آپ نے مجھے پوشیدہ طور پر کوئی ایسی بات نہیں کہی جوسب کو نہ بتائی ہو۔ہاں، میری تلوار کی نیام میں یہ کاغذ پڑا ہے۔اس میں لکھا ہے:اللہ نے اس شخص پر لعنت کی ہے جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا،اللہ نے اس پر لعنت کی جس نے زمین کے منار (نشان راہ)کو چرایا،اللہ نے اس پر لعنت کی جس نے اپنے والدین پر لعنت کی،اللہ نے اس شخص پر لعنت کی جس نے کسی بدعتی کوپناہ دی(مسلم، رقم۵۱۲۶۔نسائی، رقم۴۴۲۷)۔ حضرت علی انھیں پڑھ کر سناتے اور کہتے : قرآن پاک اور ان دستاویزوں کے علاوہ میرے پاس کوئی لکھی چیز نہیں (مسلم، رقم۵۱۲۶۔نسائی، رقم۴۴۲۷۔احمد، رقم۹۵۹)۔

ابو جحیفہ نے حضرت علی سے پوچھا:کیا آپ کے پاس کتاب ہے(جس میں احادیث درج ہوں )؟انھوں نے جواب دیا:نہیں،میرے پاس صرف اللہ کی کتاب ہے یا وہ فہم ہے جو ایک مسلمان کو ملا ہوتا ہے یا وہ ہے جو ان صفحات میں لکھا ہے۔جس نے دعویٰ کیا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کچھ ہے تواس نے جھوٹ کہا۔اس صحیفے میں اونٹوں کی عمر وں اورزخموں کی دیت کے مسائل ہیں، قیدی کو کیسے چھڑانا ہے، سب مسلمانوں کا خون برابر ہے، ایک مسلمان کو کافر کا بدلہ لینے کے لیے قتل نہ کیا جائے گا،کوئی ذمی معاہد قتل نہ کیاجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات درج ہیں :مدینہ عائر (یا عیر)سے لے کرثور تک حرم ہے۔ جس نے بدعت ایجاد کی یا بدعتی کو پناہ دی، اپنے باپ اور مولیٰ کے علاوہ کسی اور سے نسبت جوڑی،اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی (بخاری، رقم ۱۱۱، ۱۸۷۰۔ مسلم، رقم۳۳۲۷۔ ابوداؤد، رقم ۲۰۳۴۔ ترمذی، رقم۲۱۲۷۔نسائی، رقم۴۷۳۸۔احمد، رقم۶۱۵)۔

عہد صدیقی میں جمع قرآن کا مسئلہ پیش آیا تو حضرت علی کو اپنا صحیفہ پیش کرنا چاہیے تھا۔

عہد عثمانی میں اختلا ف قراءت کا مسئلہ سامنے آنے کی صورت میں حضرت علی سمیت اکابر صحابہ نے لغت قریش پر قرآن مجید کے نسخے مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔تب بھی حضرت علی نے اپنااصل قرآن پیش نہ کیا۔

حضرت علی کے عہد خلافت میں پنجگانہ نمازوں،عیدین اور نماز تراویح میں یہی قرآن پڑھا سنایا جاتا رہا۔ انھوں نے اپنے قرآن کی اشاعت کیوں نہ کی؟

حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی کی زندگی میں دو قرآنوں کا شوشا سامنے نہیں آیا۔

حضرت علی سے بغض و عناد

حضرت حسن خلافت سے دست بردار ہوئے تو حضرت معاویہ سے صلح کی ایک شرط یہ رکھی کہ وہ حضرت علی پر سب وشتم نہ کریں گے۔حضرت معاویہ نے بدقت یہ شرط مانی، لیکن اسے پورا نہ کیا۔ 

حضرت علی کوگالم گلوچ کرنابنو امیہ کا دستور تھا۔حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استاد، مشہور فقیہ عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ان سے پوچھا کہ تمھیں کیسے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر سے راضی ہونے کے بعد پھر ناراض ہو گیا ہے؟ تو انھوں نے حضرت علی کو برا بھلا کہنے سے توبہ کی ۔ منصب خلافت سنبھالتے ہی انھوں نے عمال کو ہدایت کی کہ دشنام طرازی کے اس قبیح معمول کو ختم کیا جائے۔

دسواں عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ اپنے پیش روؤں کے برعکس حضرت علی سے شدید بغض رکھتا تھا۔اس نے حضرت حسین کے مزارکو زمین کے برابر کرکے اس پر نہر جاری کر ادی، آس پڑوس کی تعمیرات منہدم کرائیں اور مقبرے پر آنے والوں کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا،باغ فدک کو ضبط کرلیا ۔سیوطی اورصفدی اسے حریز بن عثمان ،عمران بن حطان اور مروان بن حکم کی طرح ناصبی قرار دیتے ہیں ۔یہ وہ فرقہ تھا جو حضرت علی سے عداوت رکھتا تھا، جب کہ ذہبی، خلیفہ بن خیاط اور ابن جوزی کا کہنا ہے : اس نے مامون الرشید کے بھڑکائے ہوئے فتنۂ خلق قرآن کا خاتمہ کیا، بدعات کا قلع قمع کر کے سنت کا احیا کیا۔ابن اثیر کہتے ہیں: حضرت علی سے بغض نے اس کے محاسن پر پردہ ڈال دیا۔اسے شراب اور گانے کا رسیا بھی بتایا جاتا ہے۔اس کا بیٹا المنتصر اس کے قتل کی سازش میں شریک رہا ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد المنتصربن المتوکل نے علویوں کو امن فراہم کیا،باغ فدک حضرت علی کے پوتوں کوواپس کیا اورلوگوں کو حضرت علی اور حضرت حسین کے مزاروں پر جانے کی آزادی دی۔

 حضرت علی کے خطبات

طبری،جاحظ،ابن جنی،ابن درید، مسعودی اور دیگر مصنفین نے حضرت علی کے خطبات اور خطوط کواپنی تصنیفات میں نقل کیا ہے۔شریف رضی نے حضرت علی کے دو سو چھتیس خطبات،اکہتر خطوط اور چار سو اسّی کلمات پر مشتمل مجموعہ ترتیب دیا اور اس کا نام’ ’نہج البلاغہ‘‘رکھا۔’’نہج البلاغہ‘‘ کی بے شمار شرحیں لکھی گئیں، ابن ابی حدید معتزلی کی شرح بے حد مقبول ہوئی۔ظفر مہدی اور محمد صادق کی اردو شرح’ ’سلسبیل فصاحت‘‘ بھی مشہور ہوئی۔ کچھ لوگوں نے حضرت علی کے خطبوں اور خطوں کے متون پر مشتمل الگ مجموعے مرتب کیے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :’’غرر الحکم و دررالکلم‘‘(عبدالواحد تمیمی)،’’دستورمعالم الحکم ومأثور مکالم الشیم‘‘ (محمد بن سلامہ)،’’آیات جلی‘‘(عبدالرحمٰن جامی)،’’کلمات قصار‘‘(احمد علی سپھر)،’’عیون الحکم واصول معاجز الکلم‘‘(مرتضیٰ حسین فاضل)۔’’صحیفۃ علویۃ ‘‘حضرت علی سے منقول دعاؤں کا مجموعہ ہے۔

 روایت حدیث

حضرت علی فرماتے ہیں:جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں تو آپ پر جھوٹ باندھنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ آسمان سے گر کر فنا ہو جاؤں(بخاری، رقم۳۶۱۱۔مسلم، رقم۲۴۲۷۔احمد، رقم ۹۱۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۳۶۶۵)۔مزیدکہا:جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناؤں تو اس سے وہ مفہوم سمجھنا جو سب سے زیادہ عمدہ، ہدایت بخش اور تقویٰ کا درس دینے والا ہو(ابن ماجہ، رقم ۲۰۔ احمد، رقم۹۸۵)۔

حضرت علی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت مقداد بن اسوداور حضرت فاطمہ سے حدیث روایت کی۔ ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں :حضرت احنف بن قیس،حضرت اسود بن یزید،حضرت اسید بن صفوان،ایاس بن عامر،حضرت برا بن عازب،حضرت بشر بن سحیم، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت جابر بن عبداللہ،حضرت جاریہ بن قدامہ،جریر ضبی،حارث بن سوید،حرملہ مولیٰ اسامہ،حضرت حسن،حسن بصری، حضرت حسین،حصین بن صفوان، حضرت حنین مولیٰ ابن عباس، خیثمہ بن عبدالرحمٰن، ربعی بن حراش،زر بن حبیش،حضرت زید بن ارقم، زید بن وہب،سائب بن مالک،سعید بن حیان،سعید بن مسیب،حضرت سفینہ مولی رسول اللہ،سنان بن یزید،سویدبن غفلہ،شتیر بن شکل،قاضی شریح،شریح بن ہانی،شقیق بن سلمہ، صعصہ بن صوحان،حضرت صہیب بن سنان،عاصم بن عمر،عامر بن شراحیل،حضرت عامر بن واثلہ،حضرت عبداللہ بن جعفر،حضرت عبداللہ بن حارث، عبداللہ بن حنین، حضرت عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن شداد،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عبداللہ بن عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن نافع، عبدالرحمٰن بن عائذ،عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ،حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ، عبید اللہ بن ابورافع، عبیدہ سلمانی، عروہ بن زبیر،عکرمہ مولی ابن عباس، علقمہ بن قیس،علی بن حسین،عمر بن علی،عمیر بن سعید،قیس بن ابوحازم،کرز تیمی،مالک بن حارث(اشتر)،محمد بن علی بن حسین،محمد بن حنفیہ،مسروق بن اجدع،مسلم بن صبیح،مطرف بن عبداللہ،میمون بن ابوشبیب،نافع بن جبیر،نزال بن سبرہ،نعیم بن یزید،نہیک بن عبداللہ،یحییٰ بن جزار، یحییٰ بن یعمر،ابواسحٰق سبیعی، ابوالاسود دوئلی،حضرت ابوامامہ باہلی،ابوبردہ بن ابوموسیٰ،ابوحیہ بن قیس، ابورافع مولی النبی،ابورزین اسدی،حضرت ابوسعید خدری،ابوصالح غفاری، ابوالصہبا مولی ابن عباس، ابوعبداللہ صنابحی،ابوعثمان خراسانی،حضرت ابولیلیٰ انصاری،حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابوہریرہ،فاطمہ صغریٰ بنت علی اور معاذہ عدویہ۔

مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح (بخاری، شرکۃ دار الارقم )، المسند الصحیح المختصر (مسلم: صالح بن عبدالعزیز)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی )،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، البدایۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تاریخ اسلام ( شاہ معین الدین)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (البانی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ جات:محمد حمید اللہ، مرتضیٰ حسین فاضل)،سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)۔

___________

B