احادیث مباركہ میں نبی صلى الله علیہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کے بارے میں تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ہر سال ایک مہینے کے لیے غار حرا میں تشریف لے جاتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ اس طرح كے ایک موقع پر آپ كو جبریل سے ملاقات كا پہلا تجربہ ہوا۔ اس میں جبریل نے آپ كو وحی كے پہلے الفاظ الہام كیے۔
اس مضمون میں ان روایات كا تنقیدى جائزه لیا جائے گا۔
حدثنا یحیی بن بكیرٍ قال: حدثنا اللیث عن عقیلٍ عن بن شهابٍ عن عروة بن الزبیر عن عائشة أم المؤمنین أنها قالت: أول ما بدئ به رسول الله صلی الله علیه وسلم من الوحي الرؤیا الصالحة في النوم فكان لا يری رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراءٍ فيتحنث فيه وهو التعبد الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلی أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلی خديجة فيتزود لمثلها حتی جاءه الحق وهو في غار حراءٍ فجاءه الملك فقال: اقرأ قال: ’’ما أنا بقارئٍ‘‘ قال: ’’فأخذني فغطني حتي بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال: اقرأ، قلت: ما أنا بقارئٍ فأخذني فغطني الثانية حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال: اقرأ، فقلت: ما أنا بقارئٍ فأخذني فغطني الثالثة ثم أرسلني فقال: (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ)‘‘ فرجع بها رسول الله صلی الله عليه وسلم يرجف فؤاده فدخل علی خديجة بنت خويلدٍ رضي الله عنہا فقال: ’’زملوني زملوني‘‘ فزملوه حتی ذهب عنه الروع فقال: لخديجة وأخبرها الخبر: ’’لقد خشيت علی نفسي‘‘ فقالت خديجة: كلا والله ما يخزيك الله أبدًا إنك لتصل الرحم وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين علی نوائب الحق فانطلقت به خديجة حتی أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزی بن عم خديجة وكان امرأ تنصر في الجاهلية وكان يكتب الكتاب العبراني فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب وكان شيخًا كبيرًا قد عمي فقالت له خديجة: يا بن عم، اسمع من بن أخيك، فقال له ورقة: يا بن أخي، ماذا تری؟ فأخبره رسول الله صلی الله عليه وسلم خبر ما رأی، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل الله علی موسی يا ليتني فيها جذع ليتني أكون حيًا إذ يخرجك قومك فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم: ’’أو مخرجي هم‘‘؟ قال: نعم، لم يأت رجلٌ قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك أنصرك نصرًا مؤزرًا ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحي.
’’عروہ حضرت عائشہ سے روایت كرتے ہیں كہ انهوں نے كہا: نبی صلى الله علیہ وسلم پر وحی كی ابتدا اچهے خواب سے ہوئی جو صبح كی روشنی كی طرح نمودار ہوتے۔ پهر آپ كے ليے تنہائی پسندیدہ بنا دی گئی۔ آپ غار حرا میں خلوت گزیں رہتے۔ وہاں وہ كئی كئی دن تحنث، یعنی عبادت میں مشغول رہتے۔ اس كے بعد وہ اپنےاہل خانہ كی طرف لوٹ جاتے۔وہ اپنے ساتھ وہاں قیام كے لیےكهانے پینے كا سامان لے جاتے اور واپس اپنی اہلیہ كی طرف مزید كهانا لینے كے لیے لوٹتے۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تك كہ حق آپ پر نازل ہوا، جب كہ آپ غار حرا میں تهے۔ چنانچہ فرشتہ آپ كے پاس آیا اور آپ سے كہا: پڑهو، آپ نے جواب دیا: میں پڑها ہوا نہيں ہوں۔ نبی صلى الله علیہ وسلم نے مزید كہا: فرشتے نے مجھ كو پكڑا اور اس زور سے بهینچا كہ میں برداشت نہ كر سكا۔ سو اس نے مجهے ڈهیلا چهوڑ دیا اور پهر كہا: پڑهو، میں نے جواب دیا: میں پڑها ہوا نہيں ہوں۔ نبی صلى الله علیہ وسلم نے مزید كہا: فرشتے نے مجھ كو پكڑا اور اس زور سے بهینچا كہ میں برداشت نہ كر سكا۔ تو اس نے مجهے ڈهیلا چهوڑ دیا اور پهر كہا: پڑهو، آپ نے جواب دیا: میں پڑها ہوا نہيں ہوں۔ پهر فرشتے نے مجھ كو تیسری مرتبہ پكڑا اور بھینچا اور چهوڑ دیا اور پهر كہا:’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ‘۔ اس واقعہ كے بعد رسول الله گهر واپس آ گئے، جب کہ آپ كا دل كانپ رہا تها۔ آپ خدیجہ بنت خویلد كے پاس آئے اور ان سے كہا: مجهے اوڑھادو۔ مجهے اوڑھادو۔ تو انهوں نے آپ كو اوڑھادیا۔ جب ان كا خوف دور ہوا تو آپ نے خدیجہ سے گفتگو كا آغاز كیا اور انھیں جو كچھ پیش آیا اس سے ان كو باخبر كیا اور كہا: مجهے اپنی جان كا خوف ہے۔ اس پر خدیجہ نے جواب دیا: ہرگز نہیں، خدا كی قسم، وہ آپ كو كبهی رسوا نہ كرے گا۔ آپ قرابت مندوں كے حقوق كی پاس داری كرتے ہیں، كم زوروں كے بوجھ اٹهاتے ہیں، محروموں كے لیے كماتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور لوگوں كی مشكلات میں ان كی مدد كرتے ہیں۔ بعد از اں حضرت خدیجہ آپ كو اپنے چچا زاد بهائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ كے پاس لے گئیں۔ زمانۂ جاہلیت میں وہ نصرانی ہو گئے تهے۔ وہ عبرانی لكهنا جانتے تهے اور انجیل سے جو كچھ خدا چاہتا ، لکھتے تهے۔ وہ اس وقت بہت عمر رسیدہ تهے اور نابینا ہو چكے تهے۔ چنانچہ حضرت خدیجہ نے ان سے كہا: ذرا سنیے، یہ آپ كے بهانجے كیا كہتے ہیں۔ سو ورقہ نے كہا: بهانجے، تم نے كیا دیكها؟ اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان كو جو كچھ دیكھا تھا، اس سے باخبر كیا۔ ورقہ نے جواب میں كہا: یہ وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ كے پاس آیا كرتا تها۔ كاش، میں ایک طاقت ور نوجوان ہوتا۔ كاش، میں اس وقت تك زندہ رہتا جب تمهاری قوم تم كو تمهارے شہر سے نكال دے گی۔ اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچها: كیا وه مجهے باہر نكال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا: ہاں۔ جب بهی كوئی شخص وه لے كر آیا جو تم لائے ہو، لوگ اس كے دشمن بن گئے ہیں۔ اگر میں اس وقت تك زندہ رہا تو میں تمھاری خوب مدد كروں گا۔ پهر زیادہ ديرنہ گزری كہ ورقہ كا انتقال ہو گیا اور وحی آپ كے پاس آنا بند ہوگئی۔‘‘[1]
اس روایت كى سند اورمتن پر چند اشكال وارد ہوتے ہیں۔ دونوں كو یہاں بالترتیب پیش كیا جا رہا ہے۔
۱۔ یہ روایت مراسیل صحابہ میں سے ہے۔ اسے عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا (م 58 ھ ) نے روایت كیا ہے جو اس واقعہ كے وقت پیدا بهی نہیں ہوئی تهیں یا بہت كم سن تهیں۔ اس بات كی نشان دہی كرتے ہوئے كہ یہ روایت مراسیل صحابہ میں سے ہے، بدر الدین العینی[2] (م 855 ھ ) لكهتے ہیں كہ سواے ابو اسحٰق اسفرائینی (406 ھ ) كے جمہور كا مذہب ہے كہ اس طرح كی مراسیل قابل قبول ہیں۔ قسطلانی (923 ھ ) كی راے میں چونكہ اس بات كا قوی امكان ہے كہ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا كو اس واقعے كی خبر نبی صلى الله علیہ وسلم نے دی ہو گی، اس لیے اگرچہ یہ روایت اصطلاحاً مرسل ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔[3]
ہمارے خیال میں اس طرح كی مراسیل قابل قبول قرار دی جا سكتی ہیں، بشرطیكہ قرینہ موجود ہو کہ جو بات بیان كی جا رہی ہے، اس كی نوعیت ایسی ہے کہ اس كا نبی صلى الله علیہ وسلم سے براہ راست روایت ہونا قرین عقل نہ ہو۔ یہاں یہ معاملہ نہیں ہے۔ تفصیلات كے لیے ملاحظہ ہو ”متن پر تنقید “كا پہلا نکتہ۔
۲۔ اس روایت كو عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے تنہا عروہ بن زبیر (م 94 ھ) نے روایت كیا ہے اور عروہ سے اسے تنہا ابن شہاب زہری (م 124 ھ) نے روایت كیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نبی صلى الله علیہ و سلم كی زندگی كا ایک نہایت اہم واقعہ پہلے تین واسطوں میں صرف ایک شخص نے بیان كیا ہے۔ چنانچہ علم حدیث كی اصطلاح میں یہ ایک غریب روایت بهی ہے۔
۳۔ اس روایت كا مدار ابن شہاب زہری پر ہے۔ ان كو بالعموم حدیث کے معاملے میں ایک غیر معمولی مقام دیا جاتا ہے، بلكہ ان كو امیر المؤمنین فی الحدیث كہا جاتا ہے۔ تاہم ان كی تصویر كا ایك دوسرا رخ بهی ہے جو ان كی حیثیت كو بری طرح مجروح كر دیتا ہے۔
۴۔ اس حدیث كے اگر تمام طرق جمع كیے جائیں تو معلوم ہوتا ہے كہ زہری سے ان كے سات شاگردوں نے اسے روایت كیا ہے:
۱ ۔عقیل بن خالد[4] (م 142 ھ)
۲۔ یونس بن یزید[5] (م 159 ھ)
۳۔ معمر بن راشد[6] (153 ھ)
۴۔ ولید بن محمد[7]
۵۔صالح بن ابی الاخضر[8]
۶۔ ابن اخی زہری[9]
۷۔ نعمان بن راشد[10]
تفصیلى تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ان ساتوں اسناد میں كوئی نہ كوئی سقم موجود ہے۔ تفصیلات كے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ (ب)۔
۱۔ زیربحث روایت میں محمد صلى الله علیہ و سلم كو نبوت كے منصب پر سرفراز كیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس كو یقیناً آپ كی زندگی كے اہم ترین واقعات میں شمار كیا جا سكتا ہے۔ اس اہمیت كے پیش نظر یہ بات قرین عقل ہے كہ اسے آپ صلى الله علیہ و سلم كو خود آگے بڑھ كراپنے صحابہ سے بیان كرناچاہیے تها۔ اس روایت كا ایک بنیادی كردار خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا كا ہے۔ چنانچہ یہی سوال ان كے بارے میں بهی پیدا ہوتا ہے کہ آخر كیا وجہ ہے كہ انهوں نے بهی نبی صلى الله علیہ و سلم كی زندگی كے اس مركزی واقعہ كو بیان نہیں كیا۔ روایت كے مطابق و ہی تهیں جو آپ صلى الله علیہ و سلم كو اپنے چچا زاد بهائی ورقہ بن نوفل كے پاس لے گئی تهیں۔ اسی قسم كا سوال آپ كے قریبی ساتهیوں ابو بكر، عمر، عثمان اور علی رضی الله تعالیٰ عنہم كے بارے میں بهی پیدا ہوتا ہے۔ اس واقعے كی نوعیت اور اہمیت ایسی ہے كہ ان شب وروز كے ساتهیوں كو اسے نبی صلى الله علیہ و سلم سے بیان كرنا چاہیے تها۔ كجا یہ صورت ہے كہ یہ واقعہ ایک مرسل روایت كی شكل میں بیان ہوا ہے، جیسا كہ پہلے بیان كیا جا چكا ہے۔
۲۔ روایت میں لفظ ’يتَحَنَّثُ‘ ذكر ہے۔ اس كی تفصیل متن میں ’التَعَبُّدُ‘، یعنی عبادت سے كی گئی ہے۔ یہ بات كافی وثوق سے كہی جا سكتی ہے كہ یہ لفظ میسر مواد میں قدیم ماخذ میں صرف ایك اور روایت میں اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے:
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا ہشام حدثنا معمر عن الزہري عن عروة عن حكیم بن حزام رضي الله عنه قال: يا رسول الله، أرأيت أشياء كنت أتحنث بها في الجاهلية من صدقة أو عتاقة وصلة رحم، فهل فيها من أجر؟ فقال النبي صلی الله عليه وسلم: ’’أسلمت علي ما سلف من خير‘‘.
’’حكیم بن حزام نے كہا: الله كے رسول، آپ كا ان چیزوں كے بارے میں كیا خیال ہے جو میں نے جاہلیہ میں تحنث كے ضمن میں كیں، جیسے صدقہ دینا، غلام آزاد كرنا اور صلہ رحمی كرنا، تو كیا ان میں كوئی اجر ہے؟ اس پر نبی صلى الله علیہ وسلم نے كہا: تم اسلام تک انهی اچهی چیزوں سے پہنچے ہو۔چنانچہ تم ان كے اجر سے كیسے محروم رہ سكتے ہو۔‘‘[11]
بہت تلاش كے باوجود اس لفظ كی اس مفہوم میں كلام عرب میں كوئی نظیر مجهے نہ مل سكی۔ ابن الاثیر (م 630 ھ ) نے عبد المطلب كے حوالے سے یہ ضرور لكها ہے: ’هو أول من تحنث بحراء فكان إذا دخل شهر رمضان صعد حراء وأطعم المساكین جمیع الشهر‘ (وه پہلے شخص تهے جنهوں نے حرا میں تحنث كیا۔ جب رمضان كا مہینا آتا تو وه حرا كے پہاڑ پر چڑھ جاتے اور پورے مہینے مسكینوں كو كهانا كهلاتے)[12]۔ تاہم ساتویں صدی كے اس جلیل القدر مورخ نے كسی قدیم ماخذ كا حوالہ نہیں دیا۔
درج ذیل اقتباس سے معلوم ہوتا ہے كہ ابتدائی دور كے تین جلیل القدراہل لغت لفظ كے اس مفہوم سے بالكل ناآشنا تهے: ابو عمرو الشیبانی (م 206 ھ)، فراء (م 207 ھ) اور ابن الاعرابی (م 231ھ)۔ جب ان تینوں كے سامنے یہ لفظ پہلی مرتبہ اس مفہوم میں بیان كیا گیا تو موخر الذكر نے لفظ كے اس مفہوم سے اپنی مكمل ناواقفیت كا اظہار كیا، جب كہ اول الذكر دونوں اصحاب نے اس لفظ كے معنی قیاس كرنے كی كوشش كی:
وقال محمد بن الجهم: حدثنا السكوني أبو أحمد قال: فسألت ابن الأعرابي عن يتحنث فقال: لا أعرفه قال: وسألت أبا عمرو الشيباني وكان خيرًا فقال لا أعرف يتحنث وإنما هو يتحنف من الحنيفية أي يتبع دين الحنيفية وهو دين إبراهيم عليه السلام قال الله عز وجل: (مِلَّةَ اِبْراهِيْمَ حَنِيْفًا) قال: فسألت الفراء: ما التحنث؟ فقال: أفي شعر وجدته أم في كلام؟ فذكرت الحديث فقال: يتجنب الحنث، قال الله عز وجل: (وَكاَنُوْا يُصِرُّوْنَ عَلي الْحِنْثِ العَظِيْمِ) أي الشرك ويقال: تأثم الرجل في المأثم وإذا تجنبه فكذالك تحنث فيحتمل الوجهين قال ابن الأنباري: القول عندنا ما قال الفراء وحكی لنا أبو عمر عن أحمد بن يحيی ثعلب أنه قال: فلان يتحنث إذا تعبد بأشياء تخرجه من الحنث، قال: ومنه قولهم: كان يتحنث بحراء أي يتعبد ويقال: فلان يتحنث أي يحنث كثيرًا ويتعمد ذالك فكأنه عنده من الأضداد.
’’ابو احمد السكونی نے كہا: میں نے ابن الاعرابی سے ’يتحنث‘ كے بارے میں پوچها۔ انهوں نے جواب دیا: میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ میں نے پهر ابو عمرو الشیبانی سے اس كے بارے میں پوچها اور وہ زیادہ قابل تهے۔ انهوں نے جواب دیا: میں ’يتحنث‘ كو نہیں جانتا۔ یہ غالباً ’يتحنف‘ تها جو ’الحنيفيه‘ سے ماخوذ ہے، یعنی دین الحنیفیہ كی پیروی كرنا جو ابراہیم علیہ السلام كا دین تها۔ جیسا كہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:’مِلَّةَ اِبْراهِيْمَ حَنِيْفًا‘۔ میں نے پهر فراء سے پوچها کہ’التحنث‘ كیا ہے؟ اس پر انهوں نے جواب دیا: كیا تم نے اسے كسی شعر میں پایا ہے یا كسی كلام میں؟ چنانچہ میں نے اس حدیث كا ذكر كیا۔ اس پر انهوں نے جواب دیا: ’الحنث‘ سے بچنا۔ الله تعالىٰ كا ارشاد ہے: ’وَكاَنُوْا يُصِرُّوْنَ عَلي الْحِنْثِ العَظِيْمِ‘، یعنی شرك سے بچنا۔ كہا جاتا ہے: ’تأثم الرجل في المأثم‘ جب ایک شخص اپنے آپ كو گناہوں سے بچائے۔ ’تحنث‘ كا بهی یہی معاملہ ہے۔ اس كے دونوں مطالب ہیں، (یعنی اضداد میں سے ہے)۔ ابن الانباری نے كہا: فراء كا نقطۂ نظرہی ہمارے ہاں مختار ہے۔ ابوعمرو نے ہمیں احمد بن یحییٰ ثعلب سے روایت كی ہے كہ انهوں نے كہا: ’فلان يتحنث‘ جس كا مطلب یہ ہے كہ انهوں نے ایسے تعبدی امور كا اہتمام كیا جنھوں نے اسے گناہ سے باہر نكال دیا۔ اسى مفہوم میں یہ الفاظ ہیں: ’كان يتحنث بحراء‘، یعنی محمد نے حرا میں عبادت كی اور كہا جاتا ہے: ’فلان يتحنث‘، یعنی وہ جانتے بوجھتے قسموں كو بہت توڑتے۔ چنانچہ یہ اضداد میں سے ہے۔‘‘[13]
بعد كے لغویین میں ابن سیدہ(م 458 ھ ) اور ابن منظور (م 711 ھ) نے بهی ’يتحنث‘ كی یہی توجیہ كی ہے۔ ان كی راے میں یہ اصل میں ’یتحنف‘ ہے جس میں ’ف‘ كو ’ث‘ سے تبدیل كر دیا گیاہے۔[14]
ان سے بہت پہلے ابن ہشام (218 ھ ) یہی بات بیان كر چكے تهے:
قال ابن ہشام: تقول العرب: التحنث والتحنف يريدون الحنيفية فيبدلون الفاء من الثاء كما قالوا: جدف وجدث يريدون القبر، قال رؤبة بن العجاج: لو كان أحجاري مع الأجداف يريد الأجداث... وحدثني أبو عبيدة أن العرب تقول فم في موضع ثم يبدلون الفاء من الثاء.
’’ابن ہشام نے كہا: عرب ’التحنث‘ اور ’التحنف ‘ كہتے تهے۔ وہ’ ف‘ كو ’ث‘ سے بدل دیتے ہیں، جیسا كہ انهوں نے ’جدف‘ اور ’جدث‘ میں كیا جس سے وہ قبر مراد لیتے تهے۔ رؤبۃبن العجاج كہتے ہیں: ’لو كان أحجاري مع الأجداف‘ (كاش، میرے پتهرقبر كے ساتھ ہوتے)۔ یہاں انھوں نے ’الأجداف‘ كو ’الأجداث ‘ كے مفہوم میں استعمال كیا ... ابوعبیدہ نے مجھ سے بیان كہ عرب ’ثم‘ كو ’فم‘ سے بدل دیتے، یعنی ’الثاء‘ كو ’الفاء‘ سے۔‘‘[15]
یہاں اس بات كا ذكر بے محل نہ ہو گا كہ بعض اہل علم نے بیان كیا ہے كہ اس روایت كا جو متن ابن ہشام[16] نے نقل كیا ہے، اس میں لفظ ’تحنف‘ ہی تها۔ تا ہم ابن ہشام كے تمام میسر متون میں یہ موجود نہیں ہے۔
چنانچہ اس پوری بحث كا خلاصہ یہ ہے كہ لغویین اور اہل علم زیادہ تر لفظ ’التحنث‘ كے مفہوم كو قیاساً طے كرنے كی كوشش كرتے رہے ہیں، كیونكہ اس روایت میں یہ جس مفہوم میں استعمال ہوا ہے، وه ان كے علم میں نہیں ہے۔ اس لفظ كی كوئی نظیر وه بهی كلام عرب سے نہیں پا سكے۔
۳۔ اس روایت میں یہ بات بهی بیان ہوئی ہے كہ فرشتے سے ملاقات كے موقع پر نبی صلى الله علیہ وسلم بے حد خوف زدہ ہوئے اور اس بات سے مكمل طور پر بے خبر تهے كہ ان كے ساتھ كیا معاملہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک كہ ان كو اپنی جان كا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ بعض طرق میں یہ بهی بیان ہوا ہے كہ آپ اس درجہ میں پریشان ہوئے كہ آپ نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر خود كشی كرنا چاہی۔[17] حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا كو آپ كو مختلف پہلوؤں سے تسلی دینا پڑی كہ خدا آپ كو ہرگز رسوا نہ كرے گا۔
ح دوسری طرف قرآن نے یہ بات تفصیل سے بیان كی ہے كہ جب كسی كو نبوت كے منصب پر فائز كیا جاتا ہے تو:
۱۔ وہ اس موہبت ربانی سے مكمل طور پر باخبر ہوتا ہے۔ اس كو كسی سے كسی نوعیت كی توثیق كی ضرورت نہیں ہوتی۔
۲۔ اس كو ذرہ برابر خوف لاحق نہیں ہوتا اگرچہ نبوت كے منصب پر وہ اچانک بغیر كسی پیشگی اطلاع كے سرفراز كیا جاتا ہے۔
۳۔ یہ منصب كسی نوعیت كی ریاضت یا چلہ كشی سے حاصل نہیں ہوتا۔
قرآن مجید سے ان سب باتوں كی تائید ہوتی ہے۔ خاص طور پر حضرت موسىٰ علیہ السلام كو نبوت عطا ہونے كے واقعے كی تفصیلات سے یہ مقدمات اظہر من الشمس ہو جاتے ہیں۔[18] زیر بحث روایت كا موازنہ اگر قرآن كی اس ضمن كی تصریحات سے كیا جائے تو بہت سے تضادات اور تناقضات سامنے آتے ہیں۔ قرآن اس بات كو دوٹوک طریقے سے بیان كرتا ہے كہ حضرت موسىٰ علیہ السلام كو نبوت كسی ریاضت یا مراقبے كے نتیجے میں نہیں دی گئی، وہ خالص عطاے ربانی تهی۔ اپنے خسر كے ڈهور ڈنگروں كی كئی سال تك نگہداشت كے بعد جب وہ اپنے خاندان كے ہم راہ مصر جا رہے تهے تو ان كو اچانک یہ منصب عطا كیا گیا۔ قرآن واقعے كی تفصیلات بیان كرتے ہوئے كہتا ہے كہ دوران سفر ایک سرد رات میں جب یہ مختصر سا قافلہ راستے سے بهٹک گیا تها تو موسىٰ علیہ السلام نے دور آگ كے شعلے بلند ہوتے دیکھے ۔ وہ یہ سوچ كر اكیلے اس سمت چل كهڑے ہوئے كہ وہاں وہ كسی سے راستہ بهی معلوم كر لیں گے اور اہل خانہ كے لیے كچھ انگارے بهی لے آئیں گے تا كہ وہ سردی سے بچنے كا كچھ سامان كرسكیں۔ اس موقع پر اچانک خداوند تعالىٰ نے انھیں پكارا كہ وه ان كو نبوت سے سرفراز كر رہے ہیں۔ اس كے ساتھ ہی ان كو عصا كا معجزہ عطا كیا۔ مزید یہ كہ جب اس موقع پر موسىٰ علیہ السلام نے عصا كو سانپ بنتے دیكھ كر خوف محسوس كیا توان كو فی الفور خدا نے تسلی دی كہ خدا كی جناب میں ان كو كسی قسم كا ڈر لاحق نہیں ہونا چاہیے۔ ان كو اپنی اہلیہ سے كسی تسلی كی ضرورت پیش نہیں آئی۔ بیان قرآن ہے:
اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَهْلِهٖ٘ اِنِّيْ٘ اٰنَسْتُ نَارًاﵧ سَاٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ. فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِيَ اَنْۣ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَاﵧ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. يٰمُوْسٰ٘ي اِنَّهٗ٘ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ. وَاَلْقِ عَصَاكَﵧ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰي مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْﵧ يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْﵴ اِنِّيْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ.(النمل ۲۷: ۷- ۱۰)
’’یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا: میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے۔ میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارا تاکہ تم تاپو۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اس کو آواز آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد ہیں! اور پاک ہے اللہ، عالم کا خداوند! اے موسیٰ، یہ تو میں ہوں، خداے عزیز و حکیم! اور تم اپنا عصا ڈال دو۔ تو جب اس نے اس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا گویا سانپ ہو تو وہ پیچھے مڑا اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ، ڈرو نہیں، میرے حضور پیغمبروں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔‘‘
اگر ہم حضرت موسىٰ علیہ السلام كی نبوت كے منصب پر فائز ہونے كی قرآن میں بیان كردہ تفصیلات كا موازنہ حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم كی اس منصب كے لیے منتخب ہونے كی زیر بحث روایت سے كریں تو چند چیزیں بالكل نمایاں ہو جاتی ہیں۔ مقدم الذكر كے مطابق الله تعالىٰ اپنے پیغمبر كوكسی قسم كے خوف یا بے یقینی كا شكار ہونے نہیں دیتے۔ اسی طرح یہ بات بهی واضح ہو جاتی ہے كہ نبوت كسی چلہ كشی كا نتیجہ نہیں ہوتی، یہ صرف اور صرف انتخاب ایزدی ہے۔ دوسری طرف یہ روایت بالكل برعكس تاثر پیش كرتی ہے۔
مزید یہ كہ قرآن كریم نے حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم كی دو مواقع پر جبریل سے ملاقات كا ذكر كیا ہے جب وہ آپ كے پاس وحی لے كر آئے۔ قرآن كے مطابق ان دونوں مواقع پر حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم كو كسی قسم كا كوئی ابہام پیش نہیں آیا، بلكہ آپ پوری طرح باخبر تهے كہ كیا ہو رہا ہے۔ جبریل نے بڑے اہتمام اور بڑی شفقت كے ساتھ آپ كو تعلیم دی؛ بالكل ایسے ہی، جیسے كوئی ماہر اور مشفق استاد اپنے كسی ہونہار طالب علم كو تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ وہ كسی خوف یا بےیقینی كا لمحہ بهر كے لیے بهی شكار نہ ہوئے۔ ان میں سے پہلی ملاقات كے بارے میں قرآن كہتا ہے:
عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰي. ذُوْ مِرَّةٍﵧ فَاسْتَوٰي. وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰي. ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰي. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰي. فَاَوْحٰ٘ي اِلٰي عَبْدِهٖ مَا٘ اَوْحٰي. مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي.(النجم ۵۳: ۵- ۱۱)
’’اس کو ایک مضبوط قوتوں والے، عقل و کردار کے توانا نے تعلیم دی ہے۔ وہ نمودار ہوا،اور وہ افق اعلیٰ میں تھا،پھر قریب ہو گیا اور جھک پڑا، پس دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ پس اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔جو کچھ اس نے دیکھا، یہ دل کی خیال آرائی نہیں ہے۔‘‘
ان آیات كی تشریح كرتے ہوے امام امین احسن اصلاحی لكھتے ہیں:
’’ ’ذُوْمِرَّةٍ‘ ، یعنی وہ اپنی عقل اور اپنے کردار میں نہایت محکم ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ کوئی دھوکا کھا سکے یا کوئی اس کو دھوکا دے سکے یا وہ کسی کے ہاتھ بک سکے اور کوئی اس کو خرید سکے۔ یہ لفظ اخلاقی و عقلی برتری کے لیے آتا ہے۔ ...
’ذُوْمِرَّةٍ‘ کا تعلق ’شَدِيْدُ الْقُوٰي‘ سے ہے، اس وجہ سے اس کی وضاحت ہم نے ’شَدِيْدُ الْقُوٰي‘ کے ساتھ ہی کر دی ہے۔ اب ’فَاسْتَوٰي‘ سے آگے اس تعلیم کے طریقہ کی وضاحت ہو رہی ہے جس کا ذکر اوپر ’عَلَّمَهٗ‘ کے لفظ سے ہوا ہے۔ فرمایا کہ اس مقرب فرشتے نے نبی کو نہایت اہتمام، توجہ اور شفقت سے اس وحی کی تعلیم دی جو اللہ نے اس پر نازل کرنی چاہی۔ ’فَاسْتَوٰي‘ میں ’فَ‘ تفصیل کے لیے ہے، یعنی پہلے وہ اپنی اصل صورت میں، مستوی القامت ہو کر، نمودار ہوا۔ اس کے نمودار ہونے کی جگہ آسمان کی افق اعلیٰ میں تھی۔ ’اُفُق اَعْلٰي‘ سے مراد وہ افق ہے جو سمت راس میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی چیز سمت راس کے افق سے نمایاں ہو گی تو چودھویں کے چاند اور دوپہر کے سورج کی طرح وہ بالکل صاف شفاف، جلی اور غیرمشتبہ صورت میں نظر آئے گی۔ اس کے برعکس مشرق یا مغرب یا شمال یا جنوب کے افق سے اگر کوئی چیز نمودار ہو گی، تو وہ خفی صورت میں نمودار ہو گی، جس طرح پہلی کا چاند نکلتا ہے۔ مقصود اس وضاحت سے یہ ہے کہ حضرت جبریل اپنی اصلی ہیئت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے افق اعلیٰ کے اسٹیج پر نمودار ہوئے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلی آنکھوں سے ان کا اچھی طرح مشاہدہ کیا۔
’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰي‘۔ ’تَدَلَّي‘ کے معنی جھک پڑنے یا لٹک آنے کے ہیں۔ یہ بیان ہے اس بات کا کہ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دینے کے قصد سے آپ کے قریب آئے اور جس طرح شفیق اور بزرگ استاد اپنے عزیز و محبوب شاگرد پر غایت شفقت سے جھک پڑتا ہے، اسی طرح وہ آپ کے اوپر جھک پڑے۔ یعنی یہ نہیں ہوا کہ دور سے اپنی بات پھینک ماری ہو اور اس امر کی پروا نہ کی ہو کہ آپ نے بات اچھی طرح سنی یا نہیں اور سنی تو سمجھی یا نہیں بلکہ پورے التفات و اہتمام سے اس طرح آپ کے کان میں بات ڈالی کہ آپ اچھی طرح سن اور سمجھ لیں۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ کاہنوں کے شیاطین کا جو علم ہوتا ہے، اس کو قرآن نے ’خَطِفَ الْخَطْفَةَ‘ (الصافات٣٧: ۱۰) سے تعبیر کیا ہے، یعنی اچکی ہوئی بات، جس طرح چور اور اچکے کوئی چیز اچک لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب استاد اچکے ہیں توو ہ اپنے شاگردوں کو تعلیم بھی اچکوں ہی کی طرح دیتے ہوں گے۔ قرآن نے یہاں حضرت جبریل علیہ السلام کے طریقۂ تعلیم کو اس لیے نمایاں فرمایا ہے کہ دونوں کا فرق اچھی طرح واضح ہو سکے۔‘‘[19]
آیت كا آخری حصہ ’مَا كَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰي‘ (ان كے دل نے ان كی نگاہ كو نہیں جھٹلایا ) خدا كی طرف سے اس بات كا اظہار ہے كہ حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم كی جبریل سے ملاقات كسی وہم یا خیال پر مبنی نہیں تھی، بلكہ ایک قطعی واقعہ تها۔
اوپر بیان كردہ آیات كے فوراً بعد وہ آیات آتی ہیں جو جبریل سے آپ كی دوسری ملاقات كا ذكر كرتی ہیں:
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰي. عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰي. عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰي. اِذْ يَغْشَي السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰي. مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰي.(النجم ۵۳: ۱۳- ۱۷)
’’اور اس نے ایک بار اس کو اور بھی دیکھا۔ سِدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ بھی ہے۔ جب کہ چھائے ہوئے تھی سدرہ کو جو چیز چھائے ہوئے تھی۔ نہ نگاہ کج ہوئی اور نہ بے قابو۔‘‘
ان آیات كی تشریح كرتے ہوے امام امین احسن اصلاحی لكھتے ہیں:
’’جس طرح اوپر ارشاد ہوا ہے: ’مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي‘(۱۱) ( جو کچھ اس نے دیکھا وہ دل کی خیال آرائی نہیں تھی)، اسی طرح یہاں فرمایا کہ اس مشاہدے کے موقع پر بھی نہ تو نگاہ بہکی اور نہ بے قابو ہوئی، بلکہ پیغمبر نے جو کچھ مشاہدہ کیا پورے قرار و سکون اور پوری دل جمعی کے ساتھ مشاہدہ کیا۔ ’زيغ‘ کے معنی کج ہونے کے ہیں، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کسی جلوے کے مشاہدے میں اس کے صحیح زاویے سے کج نہیں ہوئی، بلکہ آپ نے ہر چیز کا مشاہدہ اس کے بالکل صحیح زاویے سے کیا۔ ’طَغٰي‘ کے معنی بے قابو ہونے کے ہیں۔ یعنی اگرچہ انوار و تجلیات کا ایسا ہجوم تھا کہ الفاظ اس کی تعبیر و تصویر سے قاصر ہیں، لیکن آپ کی نگاہ ذرا بھی بے قابو نہیں ہوئی، بلکہ آپ نے ہر چیز کا مشاہدہ اچھی طرح جم کر کیا۔‘‘[20]
چنانچہ قرآن نے جس طریقے سے ان دو واقعات[21] كا ذكر كیا ہے، اس سے واضح ہو جاتا ہے كہ پیغمبر كو كس درجے كا یقین ہوتا ہے جب وہ خدائی رابطے میں آتا ہے۔ اسے كسی قسم كا خوف یا شك لاحق نہیں ہوتا۔ روایت اس كے برخلاف ایك اور ہی تصویر پیش كر رہی ہے اور یہ بهی معلوم ہوتا ہے كہ آپ كو جبریل كا بهی كوئی خاص تعارف نہیں تها۔
۴۔ اگر سورۂ نجم كی ابتدائی آیات كا بہ نظر غائر مطالعہ كیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے كہ جبریل سے آپ كی ملاقات كے اس پورے واقعہ كو قرآن نے دلیل نبوت كے طور پر پیش كیا ہے۔ آیات كے الفاظ یہ ہیں:
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰي. مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰي. وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰي.(۵۳: ۱- ۴)
’’گواہ ہیں ستارے، جب کہ وہ گرتے ہیں کہ تمھارا ساتھی نہ بھٹکا ہے اور نہ گم راہ ہوا ہے۔ اور وہ اپنے جی سے نہیں بولتا۔ یہ تو بس وحی ہے جو اس کو کی جاتی ہے۔‘‘
اس گواہی كو سمجهنے كے لیے كچھ پس منظر جاننا ضروری ہے: سورۂ ملك میں یہ بات بیان ہوئی ہےكہ ستاروں كو شیاطین پر برسایا جاتا ہے ’رُجُوۡمًا لِّلشَّيٰطِيۡنِ‘(۶۷: ۶) اور سورۂ صافات میں بیان ہوا ہے كہ اس بمباری كی وجہ یہ ہے كہ جنوں یا ارواح خبیثہ میں سے كوئی وحی اچک لینے كی كوشش كرتا ہے۔ افق پر یہ منظر شہاب ثاقب كی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالىٰ ہے:
وا اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَةِ اِۨلْكَوَاكِبِ. وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ. لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَي الْمَلَاِ الْاَعْلٰي وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ. دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ. اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ.(۳۷: ۶- ۱۰)
’’بے شک، ہم ہی نے سجایا ہے سماء دنیا کو ستاروں کی زینت سے۔ اور اس کو محفوظ کیا ہے اچھی طرح ہر سرکش شیطان کی دراندازی سے۔ اور وہ ملاء اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگانے پاتے اور وہ ہر جانب سے دھتکارے جاتے ہیں۔ کھدیڑنے کے لیے اور ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہے۔ مگر یہ کہ کوئی اچک لے کوئی بات تو ایک دہکتا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ ‘‘
اب استدلال كی طرف آئیے: وہ مقدمہ جس پر یہ گواہی پیش كی گئی ہے، یہ ہے كہ حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم خدا كے رسول ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وحی الہٰی كی سن گن لینے كی وجہ سے جب شہاب ثاقب شیاطین پر برسائے جاتے ہیں تو یہ واقعہ اس بات كی دلیل بن جاتا ہے كہ رسول خدا نہ بھٹكا ہے اور نہ ہی كسی وہم كا شكار ہوا ہے اور نہ ہی اپنی طرف سے بات بنا كر خدا كی طرف سے پیش كر رہا ہے۔ مذہب كے بارے میں وہ جو بهی كہتا ہے، من جانب الله ہوتا ہے۔
یہ بات بهی قابل توجہ ہے كہ آپ كو ’صَاحِبُكُمۡ‘ (تمهارا ساتهی) كہہ كر مخاطب كیا گیا ہے۔ یہ لفظ دراصل ایک پورے استدلال كو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ امام امین احسن اصلاحی لكھتے ہیں:
’’لفظ ’صَاحِب‘ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے اور ضمیر خطاب کے مخاطب قریش ہیں۔ ان کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ پیغمبر جو تمھارے اپنے دن رات کے ساتھی ہیں تمھارے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ تم ان کے ماضی و حاضر، ان کے اخلاق و کردار اور ان کے رجحان و ذوق سے اچھی طرح واقف ہو۔ تم نے کب ان کے اندر کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے یہ شبہ بھی ہو سکے کہ ان میں کہانت یا نجوم کا کوئی میلان پایا جاتا ہے۔ اس طرح کا ذوق کسی کے اندر ہوتا ہے تو دن رات کے ساتھیوں سے وہ عمر بھر چھپا نہیں رہتا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اتنی مدت تک تم نے ان کے اندر کبھی محسوس نہیں کی اب جب انھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور تم کو اللہ کا کلام سنایا تو تم نے ان کو کاہن اور نجومی کہنا شروع کر دیا۔ حالاں کہ ان کی زندگی اور ان کا کلام شاہد ہے کہ ان کے اندر کسی ضلالت یا غوایت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔‘‘[22]
اب اگر یہ آیات دلیل نبوت كے طور پر آئی ہیں تو جیسا كہ استاذ گرامی جاوید احمدصاحب غامدی[23] نے استدلال كیا ہے، سورۂ نجم كی مذكورہ بالا آیات (۵ـ ۱۱) دراصل جبریل كی آپ سے پہلی ملاقات كا ذكر كرتی ہیں، بلكہ بجا طور پر پہلی وحی كے نزول كو بیان كرتی ہیں، ورنہ یہ بات ماننی پڑے گی كہ زیربحث روایت ہی دراصل پہلی وحی ہے، جب كہ سورۂ نجم كی محولہ بالا آیات میں كسی بعد كی وحی و ملاقات كا ذكر ہے۔ یہ ماننے كے نتیجے میں پھر یہ لازم آئے گا کہ كچھ عرصے تک آپ شک اور اضطراب كی كیفیت میں رہے، جیسا كہ روایت بیان كرتی ہے۔ یہ بات سورۂ نجم كی مذكورہ بالا آیات (۵ـ ۱۱) كی تصریحات كے بالكل خلاف ہے۔ ان آیات كے مطابق حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم نے پورے یقین اور كامل اطمینان كی كیفیت میں وحی كو پایا۔ انھیں ایک لمحہ كے لیے بھی كوئی تردد لاحق نہیں ہوا۔
دوسرےالفاظ میں فرشتے اور پیغمبر كی ملاقات اپنی نوعیت میں بالكل قطعی اور غیر مبہم ہوتی ہے۔ اس كے برخلاف یہ روایت بالكل الٹ تصویر پیش كرتی ہے۔
۵۔ روایت كے اكثر طرق[24] میں یہ بیان ہوا ہے كہ اس موقع پر سورۂ علق كی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ سورہ پر غور كرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے كہ اس كی آیات آپس میں اس درجہ پیوستہ ہیں كہ پہلی پانچ آیات كو بقیہ سے الگ نہیں كیا جا سكتا۔ مزید برآں سورہ كے مزاج میں جو تندی اورسختی پائی جاتی ہے، اس لحاظ سے یہ كسی بهی طرح پہلی وحی كے لیے موزوں نہیں ہے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے كہ اس موقع پر صرف پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں تو یہ سوال تو پیدا نہیں ہوتا، البتہ ایک دوسرا سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ سورہ كی چھٹی آیت سابقہ آیات سے غایت درجہ پیوستہ ہے اور اس سے كسی نئی وحی كا آغاز كسی طرح بهی موزوں نہیں۔ چھٹی آیت كا آغاز لفظ ’كَلاَّ‘ (ہرگز نہیں) سے ہو رہا ہے۔ اس لفظ نفی كا فطری تقاضا ہے كہ اس سے پہلے كسی بات كو موجود مانا جائے جس كی تردید مقصود ہو۔ دوسرے لفظوں میں كہا جا سكتا ہے كہ كسی ایسے جملے سے كسی نئی وحی كا آغاز، جس كی ابتدا لفظ ’كَلاَّ‘ سے ہو، بعید از قیاس ہے۔
مزید برآں، بخاری میں موجود ایک اور روایت كے مطابق پہلی وحی سورۂ مدثر پر مشتمل تهی، نہ كہ سورۂ علق كی پہلی پانچ آیات پر:
نق حدثنا إسحاق بن منصور حدثنا عبد الصمد حدثنا حرب حدثنا يحيی قال: سألت أبا سلمة أي القرآن أنزل أول؟ فقال: (يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّر) فقلت: أنبئت أنه (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ) فقال أبو سلمة: سألت جابر بن عبد الله أي القرآن أنزل أول؟ فقال: (يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّر) فقلت: أنبئت أنه: (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّك) فقال: لا أخبرك إلا بما قال رسول الله صلی الله عليه وسلم؟ ’’جاورت في حراء فلما قضيت جواري هبطت فاستبطنت الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فإذا هو جالس علی عرش بين السماء والأرض فأتيت خديجة فقلت: دثروني وصبوا علي ماءً باردًا وأنزل علي: (يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ)‘‘.
’’یحییٰ بن ابی كثیر نے بیان كیا: میں نے ابوسلمہ سے پوچها: قرآن كا كون سا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا؟ انهوں نے جواب دیا: ’يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّر‘۔ اس پر میں نے جواب دیا: مجهے بتایا گیا ہے كہ وہ تو ’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ‘ ہے۔ تب ابو سلمہ نے كہا: میں نے جابر بن عبدالله سے پوچها: قرآن كا كون سا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا؟ اس پر میں نے جواب دیا: مجهے بتایا گیا ہے كہ وہ تو ’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ‘ ہے۔ تب جابر نے كہا: میں آپ كو اس بات كی خبر نہ دوں جو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے كہی تهی؟ انھوں نے كہا: میں حرا قیام كے لیے گیا۔ اپنے قیام كے اختتام پر میں نیچے اترا اور گھاٹی تک پہنچا۔ پهر مجهے آواز دی گئی۔ سو میں نے اپنے سامنے پیچھے دائیں اور بائیں جانب نظر دوڑائی تو كیا دیكهتا ہوں كہ وہ زمین اور آسمان كے درمیان ایک كرسی پر بیٹھے ہیں۔ پهر میں خدیجہ كے پاس آیا اور ان سے كہا: مجهے اوڑها دیں اور مجھ پر ٹهنڈا پانی انڈیل دیں اور مجھ پر ’يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ‘ نازل ہوئی ہے۔‘‘[25]
۶۔ روایت كے مطابق جبریل نے نبی صلى الله علیہ و سلم كو (اِقْرَاْ)پڑھنے کا حكم دیا۔ كسی لكهی ہوئی چیز[26] كی عدم موجودگی میں اس حكم كا یہی مطلب ہو سكتا تها كہ جبریل نے آپ صلى الله علیہ و سلم كو ان الفاظ كو دہرانے كے لیے كہا تها جو انھوں نے آپ كو كہے تھے۔ اس صورت میں نبی صلى الله علیہ و سلم نے جواب میں یہ كیوں فرمایا كہ وه پڑھ نہیں سكتے ہیں۔ یقیناً وه الفاظ دہرانے پر پوری طرح قادر تهے۔
۷۔ اگر اس موقع پر قرآن كی آیات نازل ہوئی تهیں تو آپ صلى الله علیہ و سلم نے اس كی اطلاع خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا كو كیوں نہیں دی؟ اس كے برعكس آپ نے صرف اپنے خوف اور اضطراب كا ذكر ان سے كیا[27]۔ كیا وحی كے مشمولات آپ كے نزدیک اتنی اہمیت نہیں ركهتے تهے كہ ان كا تذکرہ خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے كیا جاتا؟
۸۔ ورقہ بن نوفل كے پاس جانے كی ضرورت كیوں پیش آئی؟ اگر آیات قرآن نازل كی گئی تهیں تو كیا یہ نشانی كافی نہیں تهی كہ نبی صلى الله علیہ و سلم وحی سے سرفراز كیے جا رہے تهے؟ كیا ایک فرستادۂ الہٰی كو كسی كی ضرورت ہوتی ہے كہ كوئی اور اس كی نبوت كی تصدیق كرے؟ قرآن سے واضح ہوتا ہے كہ ایک نبی كو وحی كے ماخذ كا كامل یقین ہوتا ہے كہ وه خدا سے پا رہا ہے (ملاحظہ ہو اوپر بیان كردہ نکتہ نمبر ۳)۔
۹۔ یہ بات بهی قابل لحاظ ہے كہ بعض مرسل روایات جنھیں سیرت النبی كے اولین سیرت نگار ابن اسحٰق كے دو شاگردوں[28] نے بیان كیا ہے، ان میں اس بات كی صراحت ہے كہ یہ واقعہ نبی صلى الله علیہ و سلم كو عالم خواب میں پیش آیا تها۔[29]
پچهلے صفحات میں كی گئی تفصیلی بحث سے یہ واضح ہو جاتا ہے كہ جب تک اس روایت كی سند اور متن پر اٹهائے گئے سوالات كے تسلی بخش جوابات نہیں ملتے، اس وقت تک اس روایت پر اعتبار نہیں كیا جا سكتا۔
یہ بات قابل توجہ ہے كہ ابن اسحٰق (م 151 ھ) جو قدیم ترین سیرت نگاروں میں سے ہیں، نے اپنی كتاب میں اس ضمن میں جو روایت بیان كی ہے، اس میں صرف انهوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم كے خوابوں كی نوعیت اوران كی خلوت گزینی كے رجحان كو بیان كیا ہے۔ نہ اس میں كسی تحنث كا ذكر ہے اور نہ ہی دوسری تفصیلات كا جن پر گذشتہ صفحات میں اعتراضات اٹهائے گئے ہیں۔ اس كا متن ملاحظہ ہو:
نا أحمد نا يونس عن ابن اسحاق قال: حدثني محمد ابن مسلم بن شهاب الزہري عن عروة عن عائشة أنها قالت: أول ما ابتدئ به رسول الله صلی الله عليه وسلم من النبوة حين أراد الله عز وجل كرامته ورحمة العباد به ألا يری شيئًا إلا جاءت كفلق الصبح فمكث علی ذالك ما شاء الله عز وجل أن يمكث وحبب الله عز وجل إليه الخلوة فلم يكن شيء أحب إليه من أن يخلو وحده.
’’...عروہ حضرت عائشہ سے روایت كرتے ہیں كہ انھوں نے كہا: رسول الله صلى الله علیہ وسلم كی نبوت كی ابتدا، جب كہ الله تعالیٰ نے چاہا كہ وہ اپنے بندے كو جودوكرم سے نوازیں گے، خوابوں سے ہوئی جو صبح كی روشنی كی طرح ہوتے۔ وہ یہ خواب دیكهتے رہے جب تک الله تعالیٰ نے چاہا۔ پهر خدا نے تنہائی كو ان كے لیے محبوب بنا دیا۔ كوئی چیز بهی ان كوخلوت گزینی سے عزیز نہ رہی۔‘‘[30]
اگر بات اتنی سی ہی ہے تو اس پر كوئی اعتراض نہیں كیا جا سكتا۔ چنانچہ یہ بعید از امكان نہیں كہ روایت اپنی موجودہ شكل میں راویوں كے سوء فہم یا كسی دانستہ تصرف كا نتیجہ قرار دے دے۔
___________
ابن شہاب زہری كے بارے میں دیگر معلومات ملاحظہ ہوں:
الكعبی لكھتے ہیں:[31] الكرابیسی بیان كرتے ہیں كہ زہری سالم اور عبیدالله بن عبدالله سے وه كچھ روایت كرتے ہیں جو كوئی نہیں كرتا۔ جب یحییٰ بن معین سے زہری كے بارے میں پوچها گیا تو انھوں نے جواب دیا: ’ليس بشيء‘۔ یحییٰ بن معین نے یہ بهی كہا كہ یحییٰ بن ابی كثیر كی روایات زہری سے بہتر ہیں۔
الذہبی لكھتے ہیں: [32]شعبہ كی راے میں یحییٰ بن ابی كثیر حدیث كے معاملے میں زہری سے بہتر ہیں۔ احمد بن حنبل كہتے ہیں كہ اگر زہری اور یحییٰ بن ابی كثیر میں مخالفت پائی جائے تو یحییٰ كو ترجیح دینی چاہیے۔ زہری كی متساہلانہ طبیعت اس بات سے بهی واضح ہوتی جو ان كے ایک شاگرد عبید الله بن عمر نے ان كے بارے میں كہی ہے:
أخبرنا أنس بن عياض عن عبید الله بن عمر قال: رأيت ابن شهاب يؤتی بالكتاب من كتبه فيقال له: ياأبا بكر، هذا كتابك وحديثك نرويه عنك فيقول: نعم، ما قرأه ولا قرئ عليه.
’’...میں نے ابن شہاب كو دیكها جب ان كے پاس ان كی كتابوں میں سے ایک كتاب لائی گئی۔ تو ان سے كہا گیا: اے ابو بكر، یہ آپ كی كتاب ہے اور اس میں آپ كی بیان كردہ روایات موجود ہیں۔ كیا ہم آپ سے اسے روایت كر لیں؟ انهوں نے جواب دیا: جی ہاں، جب كہ نہ انھوں نے اسے پڑها اور نہ ہی وه ان كو پڑھ كر سنائی گئی۔‘‘[33]
ایک اور موقع پر یہ بات ایسے بیان ہوئی ہے:
أخبرنا أبو محمد بن الأكفاني أنبأنا أبو الحسن بن أبي الحديد أنبأنا جدي أنبأنا عبد الغافر بن سلامة بن أزهر الحمصي أنبأنا أبو سعيد الأشج فيما كتب إلينا أنبأنا أبو ضمرة أنس بن عياض ثنا عبيد الله بن عمر قال: أتيت الزہري بكتاب مدرج فقلت: أروي هذا عنك؟ قال: نعم.
’’...عبید الله بن عمر نے كہا: میں ایک طے كی ہوئی كتاب زہری كے پاس لایا اور ان سے كہا: كیا اسے میں آپ سے روایت كر سكتا ہوں؟ انهوں نے جواب دیا: ہاں۔‘‘[34]
زہری كے ایک اور شاگرد معمر بن راشد نے ان كی اس روش كو اس طرح بیان كیا ہے:
أخبرنا عبد الله بن يحيی بن عبد الجبار السكري قال: أنا إسماعيل بن محمد الصفار قال: ثنا أحمد بن منصور الرمادي قال: ثنا عبد الرزاق قال: أنا معمر قال: رأيت رجلاً من بني أمية يقال له إبراهيم بن الوليد جاء إلی الزہري بكتاب فعرضه عليه، ثم قال: أحدث بهذا عنك يا أبا بكر؟ قال: إي لعمري فمن يحدثكموه غيري.
’’...معمر نے كہا: میں نے بنو امیہ كے ایک آدمی ابراہیم بن ولید كو دیكها۔ وه زہری كے پاس ایک كتاب لے كر آئے اور انهیں پیش كی۔ پهر كہا: كیا یہ میں آپ كی طرف سے روایت كر دوں، اے ابو بكر؟ زہری نے جواب دیا: میں قسم كها كر كہتا ہوں كہ میرے علاوہ اور كون ہے جس نے تم سے یہ بیان كی ہو گی۔‘‘[35]
ایک اور موقع پر معمر بن راشد اپنے استاذ كی اس متساہل روش كو اس طرح بیان كرتے ہیں:
أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن أحمد أنبأنا محمد بن هبة الله أنبأنا محمد بن الحسين أنبأنا عبد الله بن جعفر ثنا يعقوب ثنا العباس بن عبد العظيم حدثنا عبد الرزاق قال: قال معمر: كان الزہري في أصحابه مثل الحكم بن عتيبة في أصحابه ينقل حديث بعضهم إلی بعض.
’’...معمر نے كہا: زہری كا اپنے اصحاب كے بارے میں وہی معاملہ تها جو الحكم بن عتبہ كا اپنے اصحاب كے بارے میں تها: دونوں ایک استاذ كی روایت دوسرے سے منسوب كر دیتے تهے۔‘‘[36]
ان الفاظ كے فوراً بعد یہ عبارت درج ہے:
أخبرنا أبو محمد بن طاؤوس أنبأنا أبو الغنائم بن أبي عثمان أنبأنا أبو عمر بن مهدي أنبأنا محمد بن أحمد بن يعقوب ثنا جدي حدثني أحمد بن حنبل سمع عبد الرزاق قال: قال معمر: كان الزہري في أصحابه مثل الحكم في أصحابه يروي عن عروة وسالم الشيء كذالك.
’’...زہری كا اپنے اصحاب كے بارے میں وہی معاملہ تها جو الحكم بن عتیبہ كا اپنے اصحاب كے بارے میں تها: وه عروه اور سالم سے اسی طرح روایت كرتے تهے۔‘‘[37]
یہ اقتباس موجودہ روایت كے تناظر میں ایک نہایت اہم معلومات فراہم كرتا ہے، اس لیے كہ اس میں زہری عروه ہی سے روایت كر رہے ہیں۔ چنانچہ نہیں معلوم كہ یہ روایت زہری نے واقعی عروہ سے سنی تهی یا كسی اور سے۔
اسی ضمن میں عروه كے فرزند ہشام بن عروہ كا قول بہت اہمیت ركهتا ہے جو انهوں نےزہری كے ان كے والد سے روایت كے بارے میں كہی ہے۔ الربعی (م 329 ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا محمد بن روح، قال: سمعت الأصمعي يقول: سمعت ابن أبي الزناد يحدث عن ہشام بن عروة قال: ما حدث ابن شهاب عن أبي بحديث فيه طول إلا زاد فيه ونقص.
’’...ہشام بن عروہ نے كہا: زہری جو بهی مفصل روایات میرے والد سے كرتے ہیں، ان میں یا اضافہ كر دیتے ہیں یا كمی۔‘‘[38]
اس سے زہری كی داستان سرائی كی عادت كا پتا چلتا ہے۔ چنانچہ یہ معلوم نہیں كہ زیرنظر روایت میں ان كی كتنی رنگ آمیزی شامل ہے۔
زہری كے خلاف ایک الزام یہ بهی ہے كہ ان كے بنو امیہ كے اصحاب اقتدار سے مشكوک تعلقات تهے۔ ان كے ایک ہم عصر صاحب علم مكحول (م 112 ھ) كا ان كے بارے میں بیان ہے:
أي رجل هو لولا أنه أفسد نفسه بصحبة الملوك.
’’وه كیا ہی عمده شخص ہو سكتے تهے اگر انهوں نے اہل اقتدار كی صحبت سے اپنے آپ كو خراب نہ كر لیا ہوتا۔‘‘[39]
ابن الجنید ( م 270 ھ) لكھتے ہیں:
سمعت يحيی بن معين يقول: «منصور عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة، أحب إلي من ہشام بن عروة عن أبيه عن عائشة»، قيل له: فالزہري عن عروة عن عائشة؟ قال: هما سواء، ومنصور أحب إلي، لأن الزہري كان سلطانيًا.
’’میں نے یحییٰ بن معین كو كہتے سنا: میں منصور كا ابراہیم سے روایت كرنا اور ابراہیم كا الاسود سے اور الاسود كا عائشہ سے مجهے زیاده پسند ہے بہ نسبت ہشام بن عروہ كا اپنے والد عروہ سے اور عروہ كا عائشہ سے۔ ان سے پوچها گیا: زہری كا عروہ سے اور عروہ كا عائشہ سے روایت كرنا كیسا ہے۔ انهوں نے جواب دیا: دونوں برابر ہیں۔ منصور كی روایت مجهے زیاده پسند ہے، كیونكہ زہری كا تعلق حكومتی گروه سے ہے۔‘‘[40]
یہاں یہ الفاظ :”زہری كا عروہ سے اور عروہ كا عائشہ سے روایت كرنا كیسا ہے“ پیش نظر رہیں، كیونكہ زیربحث روایت كی یہی سند ہے۔
عمرو بن عبید (م 144 ھ) نے ان الفاظ میں زہری كے اہل اقتدار سے مراسم كو تنقید كا نشانہ بنایا:
أخبرنا أبو البركات الأنماطي أنبأنا ثابت بن بندار أنبأنا محمد بن علي بن يعقوب القاضي أنبأنا محمد بن أحمد البابسيري ثنا الأحوص بن المفضل بن غسان ثنا أبي قال: وحدثني محمد بن عبد الله الغلابي عن عمر بن رديح قال: كنت مع ابن شهاب الزھري نمشي فرآني عمرو بن عبيد فلقيني بعد فقال: ما لك ولمنديل الأمراء يعني ابن شهاب.
’’...عمر بن ردیح نے كہا: میں ابن شہاب زہری كے پاس تها۔ ہم چل رہے تهے جب عمرو بن عبید نے مجهے دیكها۔ چنانچہ بعد میں جب وہ مجھ سے ملے تو كہا: تمھارا حكمرانوں كے رومال سے كیا تعلق، یعنی ابن شہاب۔‘‘[41]
جب ابو حازم سلمہ بن دینار (م 136ھ) نے خلیفہ سلیمان بن عبد الملك (م 99ھ) كو نصیحت كی كہ سب سے عمدہ حكمران وہ ہوتے ہیں جو اہل علم سے محبت كرتے ہیں اور سب سے برے اہل علم وہ ہوتے ہیں جو حكمرانوں سے محبت ركهتے ہیں تو اس كے جواب میں خلیفہ نے جواب دیا ’والذي لا إله إلا هو ولأزهدن في الزہري من بعد اليوم‘( اس ذات كی قسم جس كے علاوه كوئی خدا نہیں كہ میں آج كے بعدلازما ًزہری سے ترك تعلق كر لوں گا)۔[42]انھی ابو حازم نے زہری كو ایک مفصل خط لكها اوران الفاظ میں ان كو نصیحت كی: ’جعلوك قطبًا تدور رحی باطلهم وجسرًا يعبرون بك إلی بلائهم وسلمًا إلی ضلالتهم وداعيًا إلی غيهم وسالكًا سبيلهم يدخلون بك الشك علی العلماء ويقتادون بك قلوب الجهال إليهم‘ (یہ حكمران تمھیں ایك قطب بنا دیں گے جو ان كے باطل كے پہیے كو گھمائے گا اور تمھیں ایك پل بنا دیں گے جس كے ذریعے سے اپنے باطل كی طرف لے جائیں گے اور تمھیں ایك سیڑهی بنا دیں گے جو تمھیں اپنی گم راہی كی طرف لے جائے گی اور تمھیں اپنی سركشی كی طرف بلانے والا بنا دیں گے اور تمھیں اپنے اس راستے پر چلنے والا بنا دیں گے جس كے ذریعے سے وہ علما كے اندر شك پیدا كریں گے اور تمهارے ذریعے سے جہلا كے دل كو اپنی پیروی كروائیں گے)[43]۔
مندرجہ ذیل اقتباس سے معلوم ہوتا ہے كہ امام مالك (م 179ھ) نے زہری كی اپنے علم كو دنیوی فائدہ كے لیے استعمال كرنے پر سرزنش كی :
أبو أسامة، عن جرير بن حازم، عن الزبير بن سعيد الهاشمي، عن نافع بن مالك، أبي سهل عن مالك بن أنس، قال: دخلت علی الزہري أنا ورهط معي، فسألناه الحديث فكأنه لم يبسط إلينا. وجاءه حصی لبني مروان، ومعه كتاب فسأله عنه فحدثه قال: فقلت له: يا أبا بكر، أتاك نفر من إخوانك فسألوك الحديث فلم تبسط إليهم، وجاءك هذا فانبسطت إليه وحدثته لمكانه من أصحابه، ألا أحدثك حديثًا بلغني عن رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال: ما هو قلت: بلغني أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال: ’’من طلب شيئًا من هذا العلم الذي يراد به وجه الله ليصيب به عرضًا من الدنيا دخل النار‘‘ فقال: ما سمعت هذا. قال: قلت أو كل حديث رسول الله صلی الله عليه وسلم سمعت؟ قال: لا. قلت: فنصفه؟ قال: لعلي قلت: فهذا في النصف الذي لم تسمع.
’’مالك بن انس نے كہا: میں زہری كے پاس ایک گروہ كے ساتھ آیا۔ ہم نے ان سے حدیث روایت كرنے كو كہا، مگر یوں معلوم ہوا كہ ان میں اس كے لیے آمادگی پیدا نہیں ہوئی۔ اس كے بعد بنو مروان كا ایک ہیجڑا ان كے پاس آیا اور اس كے پاس ایک كتاب تهی اور اس نے زہری سے روایت كرنے كو كہا۔ چنانچہ انهوں نے اس كے سامنے روایات بیان كیں۔ سو میں نے ان سے كہا: اے ابو بكر، تمھارے بهائیوں كا ایک گروه تمھارے پاس آیا تها اور اس نے تم سے روایات بیان كرنے كی درخواست كی تهی، مگر تم آمادہ نہ ہوئے۔ یہ شخص تمهارے پاس آیا اور تم نے اسے روایات بیان كیں اور اس لیے كیں كہ اس كا اپنے ساتهیوں میں ایک مرتبہ تھا۔ كیا میں تمھیں ایک ایسی حدیث نہ سناؤں جو مجهے رسول الله صلى الله علیہ وسلم كی نسبت سے پہنچی ہے۔ اس پر انھوں نے جواب دیا: وه كیا ہے؟ میں نے زہری سے كہا: جس نے علم طلب كیا جو الله كی خوشنودی كا ذریعہ بنتا ہے تا كہ وه كوئی دنیوی فائدہ حاصل كرے، وه جہنم میں داخل ہو گا۔ اس پر زہری نے كہا: نہیں مجهے یہ خبر نہیں پہنچی۔ میں نے اس سے كہا: كیا تم نے رسول الله كی ساری روایات سنی ہیں؟ انهوں نے جواب دیا: نہیں۔ میں نے كہا: نصف؟ انهوں نے جواب دیا: شاید۔ میں نے كہا: یہ ان دوسری نصف میں شامل تهی جو تم نے نہیں سنیں۔‘‘[44]
یہاں یہ بات بهی پیش نظر رہے كہ علم الرجال كے مختلف اہل عمل نے زہری كو مندرجہ ذیل كا مرتكب قرار دیا ہے:
۱۔تدلیس
۲۔ ارسال
۳۔ ادراج
تدلیس كی تفصیلات یہ ہیں:
وصفه الشافعي و الدار قطني و غير واحد بالتدليس.
’’شافعی اور دارقطنی نے ان كو تدلیس كا مرتكب قرار دیا ہے۔‘‘[45]
قال أبو حاتم الرازی: الزهري أحب إلی من الأعمش، وكلاهما يحتج بحديثه فيما لم يدلسا.
’’ابو حاتم رازی نے كہا: میں زہری كو اعمش پر ترجیح دیتا ہوں اور دونوں كی ان روایات سے استدلال كیا جا سكتا ہے جن میں انهوں نے تدلیس نہیں كی ہے۔‘‘[46]
نافع (م 117ھ) نے زہری كی اس كم زوری كو ان الفاظ میں بیان كیا ہے:
وكان نافع يقول: إن الزہري سمع أحاديث ابن عمر مِني فلقي سالمًا فقال: هذه أحاديث أبيك؟ قال: نعم، فرواها عن سالم وتركني.
’’نافع كہا كرتے تهے: بے شک، زہری نے مجھ سے عبدالله بن عمر كی روایات سنی ہیں۔ سو جب ان كی ملاقات سالم بن عبد الله بن عمر سے ہوئی، انهوں نے ان سے كہا: كیا یہ روایات تمهارے والد كی ہیں؟ انهوں نے جواب دیا: ہاں۔ پهر اس كے بعد انھوں نے وہ روایات سالم كی نسبت سے بیان كرنا شروع كر دیں اور مجھ سے انھیں بیان كرنا ترك كر دیا۔‘‘[47]
جہاں تك زہری كی خوگری ارسال كا تعلق ہے، امام ابو داؤد لكھتے ہیں:
حديثه الفان و مائتان، النصف منها مسند.
’’ان كی روایات كی تعداد بائیس سو ہے۔ ان میں سے نصف مسند ہیں (باقی مرسل ہیں)۔‘‘[48]
ابن حجر كا بیان ہے:
كان يحي بن سعيد لا يری إرسال الزہري و قتادة شيئًا ويقول: هو بمنزلة الريح.
’’یحیىٰ بن سعید القطان كی راے میں زہری اور قتادہ كے ارسال كی كوئی حیثیت نہیں ہے۔ وه بہ منزلۂ ریح ہے۔‘‘[49]
امام ذهبی نے یحیىٰ بن سعید القطان كے مندرجہ ذیل الفاظ ابو قدا مہ سرخسی سے نقل كیے ہیں:
مرسل الزہري شر من مرسل غيره لأنه حافظ وكلما قدر أن يسمي سمي وإنما يترك من لا يستجيز أن يسميه.
’’زہری كی مرسل روایات تمام دوسروں سے بدترین ہیں، كیونكہ وہ حافظ ہیں۔ جب وہ چاہتے ہیں تو راوی كا نام ظاہر كر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں راوی كا نام چھپا لیتے ہیں۔‘‘[50]
امام شافعی فرماتے ہیں:
إرسال الزہري ليس بشيء لأنا نجده يروي عن سليمان بن أرقم.
’’زہری كے ارسال كی كوئی حیثیت نہیں ہے، اس لیے ہم نے انهیں سلیمان بن ارقم سے بهی روایت كرتے دیكها ہے۔‘‘[51]
اس ضمن میں ابن حجر[52] نے مختلف اہل علم كی نسبت سے یہ بات بهی لكهی ہے كہ زہری بارہ افراد سے ارسال كرتے تهے۔ ان كے نام یہ ہیں:
۱۔ عبد الرحمٰن بن اظہر (م 63 ھ)
۲۔ عبد الرحمٰن بن كعب بن مالك[53]
۳۔ ابان بن عثمان بن عفان (م 105 ھ)
۴۔ مسعود بن الحكم بن الربیع[54]
۵۔ حسین بن محمد السالمی[55]
۶۔ عبد الله بن عمر الخطاب (م 73 ھ)
۷۔ عبد الله بن جعفر الطیار (م 80 ھ)
۸۔ عبادہ بن صامت (م 34 ھ)
۹۔ رافع بن خدیج (م 74 ھ)
۱۰۔ ام عبد الله الدوسیہ[56]
۱۱۔ ابو ہریرہ(م 59 ھ)
۱۲۔ احزاب بن اسید[57]
یحییٰ بن معین[58] كے مطابق زہری نے عمر بن سعد سے بهی نہیں سنا ہے۔ ابو حاتم[59] نے صراحت كی ہے كہ زہری نے مسور بن مخرمہ ( م 64 ھ) اور عاصم بن عمر بن الخطاب (م 70 ھ) سے نہیں سنا ہے۔
زیر بحث روایت كے بعض طرق[60] میں زہری كے ارسال كی ایک بہت واضح مثال موجود ہے۔ ان میں یہ بات آخر میں بیان ہوئی ہے كہ وحی كے تعطل نے نبی صلی الله علیہ و سلم كو اتنا مغموم كر دیا كہ ان كا دل اپنے آپ كو پہاڑ كی چوٹی سے گرا كر خود كشی كرنے كی طرف بہت مائل ہو گیا :
وفتر الوحي فترة حتی حزن النبي صلی الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنًا غدا منه مرارًا كی يتردی من رؤوس شواهق الجبال فكلما أوفی بذروة جبل لكی يلقي منه نفسه تبدی له جبريل فقال: يا محمد، إنك رسول الله حقًا فيسكن لذالك جأشه وتقر نفسه فيرجع فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك فإذا أوفی بذروة جبل تبدی له جبريل فقال له مثل ذلك .
’’ہم تک جو خبر پہنچی ہے اس كے مطابق جب وحی كے نزول میں كافی تعطل ہوا تو اس سے نبی صلی الله علیہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے۔ وه بار بارجاتے كہ اپنے آپ كو پہاڑوں كی چوٹیوں سے گرا دیں۔ جب جب وہ پہاڑ كی چوٹی پر پہنچتے، جبریل ان كے سامنے ظاہر ہو جاتے اور كہتے: آپ الله كے نبی ہیں۔ چنانچہ اس كے نتیجے میں آپ پر سكون اور مطمئن ہو جاتے۔ اس پر جبریل چلےجاتے۔ پهر مستقبل میں جب كبهی آینده اس طرح كی تاخیر ہوتی تو آپ پهر وہی كرتے۔ جیسے ہی وہ پہاڑ كی چوٹی كی طرف چڑهتے، جبریل پهر سے آپ كے سامنے ظاہر ہو جاتے اورسابقہ بات دہراتے۔‘‘
مزید برآں، مندرجہ ذیل روایت سے بالكل واضح ہو جاتا ہے كہ یہ اضافہ زہری ہی كی طرف سے ہے:
حدثنا محمد بن عبد الأعلی قال: حدثنا ابن ثور عن معمر عن الزہري قال: فتر الوحي عن رسول الله فترة فحزن حزنًا شديدًا جعل يغدو إلی رؤوس شواهق الجبال ليتردی منها فكلما أوفی بذروة جبل تبدی له جبرئيل فيقول: إنك نبي الله فيسكن لذالك جأشه وترجع إليه نفسه فكان النبي يحدث عن ذالك قال: ’’فبينما أنا أمشي يومًا إذ رأيت الملك الذي كان يأتيني بحراء علی كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه رعبًا فرجعت إلی خديجة فقلت: زملوني‘‘ فزملناه أي دثرناه فأنزل الله عز وجل: (يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ) قال الزہري: فكان أول شيء أنزل عليه: (اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ) حتی بلغ (مَا لَمْ يَعْلَمْ).
’’زہری نے بیان كیا: جب وحی كے نزول میں كچھ تعطل پیدا ہوا تو اس چیز نے ان كو سخت رنج میں مبتلا كر دیا۔ وہ پہاڑوں كی چوٹیوں پر چڑھ جاتے تا كہ وہ اپنے آپ كو وہاں سے گرا لیں۔ تو جب وہ پہاڑ كی چوٹی پر پہنچتے جبریل ان كے سامنے ظاہر ہو جاتے اور كہتے: آپ الله كے نبی ہیں۔ چنانچہ اس كے نتیجے میں آپ پر سكون اور مطمئن ہو جاتے۔ ایک مرتبہ اس واقعہ كو روایت كرتے ہوئے بیان كیا: یكایک میں نے اس فرشتے كو دیكها جو میرے پاس غار حرا میں تشریف لائے تهے۔ وه زمین اور آسمان كے درمیان ایک كرسی پر براجمان تهے۔ اس پر میں خوف سے رك گیا اور خدیجہ كے پاس واپس لوٹ گیا۔ چنانچہ میں نے ان سے كہا: ہمیں اوڑها دیں تو انهوں نے ہمیں اڑها دیا۔ اس پر الله تعالیٰ نے یہ الفاظ نازل كیے:’يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‘۔ زہری نے بیان كیا: سب سے پہلی چیز جو ان پر نازل ہوئی، وہ ’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ‘ ہے ’مَا لَمْ يَعْلَمْ‘ تک۔‘‘[61]
اہل علم اس بے قاعدگی كو پہلے ہی نوٹ كر چكے ہیں اور اس اضافے كا شمار بلاغات زہری میں سے ہوتا ہے[62]۔ ان بلاغات كو اصحاب علم بے حیثیت قرار دیتے ہیں، كیونكہ یہ سب مرسل ہیں۔ پچهلے صفحات میں مرسلات زہری پر روشنی ڈالی جا چكی ہے۔
جہاں تک زہری كے ادراج كا تعلق ہے، ’المعتصر من المختصر‘ میں ہے:
كان يخلط كلامه بالحديث و لذالك قال موسی بن عقبة: أفصل كلام النبي صلي الله عليه وسلم من كلامك.
’’ابن شہاب زہری اپنے الفاظ كو حدیث میں ملا دیتے تهے اور اس وجہ سے موسیٰ بن عقبہ نے ان سے كہا: اپنے الفاظ كو نبی صلی الله علیہ وسلم كے الفاظ سے الگ كیا كرو۔‘‘[63]
اس ضمن میں ابن رجب حنبلی لكھتے ہیں:
فإن الزہري كان كثيرًا يروي الحديث، ثم يدرج فيه أشياء، بعضها مراسيل، وبعضها من رأيه وكلامه.
’’اس لیے كہ ابن شہاب زہری احادیث بیان كرتے اور اكثر اوقات اپنی طرف سے اس میں اضافے كر دیتے تھے۔ ان میں سے بعض مرسل ہوتے اور بعض ان كی اپنی آرا اور الفاظ ہوتے۔‘‘[64]
ربيعہ بن ابی عبد الرحمٰن ابن شہاب كو كہتے:
إن حالتي ليس تشبه حالك، أنا أقول برأي من شاء أخذه و أنت تحدث عن النبي صلی الله عليه وسلم، فتحفظ، لا ينبغي لأحد أن يعلم أن عنده شيء من العلم يضيع نفسه.
’’ میرا معاملہ تمهارے سے بالكل مختلف ہے۔ میں اپنی راے بیان كرتا ہوں۔ جو چاہے اسے اختیار كرے ( اور جو چاہے اسے ترک كرے)، جب كہ تم نبی صلی الله علیہ وسلم كی نسبت سے بیان كرتے ہو، اس لیے ضروری ہے كہ تم احتیاط سے كام لو اور كسی صاحب علم كے لیے مناسب نہیں كہ وہ اپنے آپ كو ( اس طرح) ضائع كرے۔‘‘[65]
سخاوی (م 902 ھ ) لكھتے ہیں:
كان الزہري يفسر الأحاديث كثيرًا وربما أسقط أداة التفسير، فكان بعض أقرانه دائمًا يقول له: أفصل كلامك من كلام النبي صلي الله عليه وسلم.
’’ زہری روایات كی بہت تشریح كرتے تهے اور بہت سے مواقع پر وه کلمۂ تفسیر نہیں بیان كرتے تهے۔ چنانچہ ان كے بعض معاصرین ان سے ہمیشہ كہتے: اپنے الفاظ كو نبی صلی الله علیہ وسلم كے الفاظ سے الگ كر لیا كرو۔‘‘[66]د
زیر بحث روایت میں بهی زہری كا ادراج دیكها جا سكتا ہے۔ اس میں لفظ ’التحنث‘ كی تشریح ’التعبد‘ (عبادت) سے كی گئی ہے۔ ابن حجر كے مطابق الطیبی (م 743 ھ) كی راے میں یہ زہری كی طرف سے ہے۔[67] ابن حجر نے لكها ہے كہ الطیبی نے اس كے حق میں كوئی دلیل پیش نہیں كی ہے۔ تاہم راقم كی راے میں یہ بات بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی۔
یہ تمام معلومات زہری كی شخصیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان پیدا كرتی ہیں۔ مزید برآں درج ذیل خط، جو امام لیث (م 175 ھ) نے امام مالك (م 179 ھ) كو لكها، اس سے زہری كی ثقاہت پر مزید شكوك و شبہات پیدا ہوتے ہیں:
وكان يكون من ابن شهاب اختلاف كثير إذا لقيناه، و إذا كاتبه بعضنا فربما كتب في الشيء الواحد علی فضل رأيه وعلمه بثلاثة أنواع ينقض بعضها بعضًا، ولا يشعر بالذي مضی من رأيه في ذالك الأمر، فهو الذي يدعوني إلی ترك ما أنكرت تركي إياه.
’’ اور ہم جب بھی ابن شہاب سے ملتے اختلاف راے پیدا ہو جاتا۔ جب ہم میں سے كوئی ان سے لكھ كر استفسار كرتا تو وه اتنے عالم فاضل ہونے كے باوجود تین مختلف جوابات دیتے جو باہم متضاد ہوتے اور ان كو اس بات كا شعور بهی نہ ہوتا كہ وه كیا كہہ چكے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے انھیں ترک كر دیا جو آپ كو پسند نہ آیا۔‘‘[68]
زہری كے اس روپ كے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات بهی قابل لحاظ ہیں:
ربما احتج له في الحديث جماعة فحدث به مرة عنهم ومرة عن أحدهم بقدر نشاطه حين تحديثه وربما أدخل حديث بعضهم في بعض كما صنع في حديث الإفك وغيره وربما كسل فأرسل وربما انشرح فوصل فلذا اختلف أصحابه عليه اختلافًا كثيرًا.
’’ بعض اوقات افراد كا ایک گروہ زہری كے آگے حدیث پیش كرتا كسی چیز پر استدلال كی غرض سے۔ چنانچہ بعض اوقات وہ پورے گروہ سے روایت كرتے اور بعض اوقات ان میں سے كسی ایک سے۔ روایت بیان كرنے كا یہ معاملہ ان كے نشاط خاطر پر مبنی ہوتا۔ بعض دفعہ وہ ایک راوی كی بیان كردہ روایت كو كسی اور كی بیان كردہ روایت میں داخل كر دیتے، جیسا كہ وه روایت افك كے معاملے میں كر چكے ہیں۔ جب وه تهكاوٹ محسوس كرتے تو مرسل روایا ت بیان كرتے اور جب وہ بشاش ہوتے تو متصل روایات بیان كرتے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے كہ ان كے ساتهی ان كے بارے میں بہت اختلاف ركهتے۔‘‘[69]
خلاصةً یہ بات كہی جا سكتی ہے كہ درج بالا جرح زہری كو مشكوك راویوں میں شامل كر دیتی ہے۔
ذیل میں ان تمام طرق كا تنقیدی تجزیہ كیا جائے گا:
۱۔عقیل بن خالد
عقیل بن خالد كی مرویات كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
یحیىٰ بن سعید القطان كی نظر میں عقیل بن خالد ضعیف ہیں۔[70]
احمد بن حنبل كہتے ہیں: اگرچہ لیث بن سعد قابل اعتماد ہیں، تا ہم وہ اپنے اساتذہ سے اخذ كرنے میں متساہل ہیں۔ [71] ابن عساكر اور سیوطی كی راے میں زہری كی روایات كے معاملے میں ان میں اضطراب پایا جاتا ہے۔[72] اس ضمن میں یہ بات قابل لحاظ ہے كہ زیر بحث جدول میں لیث بن سعد عقیل كے واسطے سے زہری ہی سے روایت كرتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے ائمۂ رجال یحییٰ بن بكیر كو ثقہ گردانتے ہیں، تا ہم امام ابو حاتم اور امام نسائی كی راے ان كے بارے میں مختلف ہے۔ امام ابو حاتم كے مطابق: ’یكتب حدیثه ولا یحتج به‘، جب كہ امام نسائی ایک جگہ ان كو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ایک اور موقع پر ان كے الفاظ ہیں: ’لیس بثقة‘۔[73]
۲۔ یونس بن یزید
یونس بن یزید كی مرویات كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
اگرچہ بہت سے ائمۂ رجال یونس بن یزید كو ثقہ قرار دیتے ہیں، تاہم ان كے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق بهی رجال كی كتابوں میں موجود ہیں:
قال أبو زرعة الدمشقي: سمعت أباعبد اللہ أحمد بن حنبل يقول في حديث يونس عن الزہري منكرات وقال الميموني: سئل أحمد من أثبت في الزہري؟ قال: معمر، قيل: فيونس، قال: روی أحاديث منكرة وقال بن سعد ... وليس بحجة ربما جاء بالشيء المنكر.
’’ابو زرعہ نے كہا: میں نے احمد بن حنبل كو یہ كہتے ہوئے سنا كہ یونس بن یزید كی زہری سے نقل كردہ روایات میں منكرات پائی جاتی ہیں۔ اور میمونی نے كہا: احمد سے زہری كے سب سے معتبر شاگرد كے بارےمیں پوچها گیا تو انهوں نے جواب دیا: معمر۔ جب كسی نے یونس كے بارے میں پوچها تو انهوں نے جواب دیا كہ وه منكر روایات بیان کرتے ہیں۔ ابن سعد نے كہا: ... وہ حجت نہیں ہیں اور بعض اوقات منكر روایات بیان كرتے ہیں۔‘‘[74]
نا عبد الرحمٰن نا محمد بن عوف الحمصي قال: قال أحمد بن حنبل: قال وكیع: رأيت يونس الأيلي وكان سيء الحفظ. قال أحمد: سمع منه وكیع ثلاثة أحاديث نا عبد الرحمٰن نا أبي قال: سمعت مقاتل بن محمد قال: سمعت وكیعًا يقول: لقيت يونس بن يزيد الأيلي وذاكرته بأحاديث الزهري المعروفة وجهدت أن يقيم لي حديثًا فما أقامه.
’’عبد الرحمٰن روایت كرتے ہیں محمد بن عوف سے اور وه روایت كرتے ہیں احمد بن حنبل سے كہ وكیع نے كہا: میں نے یونس بن یزید كو دیكها ہے اور ان كا حافظہ بہت خراب تها۔ احمد نے كہا: وكیع نے یونس سے تین روایتیں سنی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابی حاتم نے اپنے والد سے روایت كرتے ہوئے بیان كیا: میں نے مقاتل بن سلیمان كو كہتے سنا كہ میں نے وكیع كو كہتے سنا: میں یونس بن یزید سے ملا اور ان سے زہری كی معروف روایات پر مذاكره كیا اور كوشش كی كہ وہ كم از كم ایک روایت كو درست طریقے سے روایت كریں، مگر وہ یہ بهی نہ كر سكے۔‘‘[75]
قال أبو بكر الأثرم: أنكر أبو عبد اللہ علی يونس وقال: كان يجيء عن سعيد بأشياء ليس من حديث سعيد وضعف أمر يونس وقال: لم يكن يعرف الحديث وكان يكتب أری أول الكتاب فينقطع الكلام فيكون أوله عن سعيد وبعضة عن الزہري فيشتبه عليه قال أبو عبد الله ويونس يروي أحاديث من رأي الزہري يجعلها عن سعيد قال أبو عبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزہري وعقيل أقل خطأ منه وقال أبو زرعة الدمشقي: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول في حديث يونس بن يزيد: منكرات عن الزہري.
’’ابو بكر الاثرم نے كہا: ابو عبدالله احمد بن حنبل نے یونس بن یزید پر اعتراض كیا: وه سعید بن مسیب سے غلط باتیں منسوب كرتے ہیں۔ اور احمد بن حنبل نے یونس كو ضعیف قرار دیا اور كہا: وہ حدیث سے واقف نہیں ہیں اور وه كتاب كا پہلا حصہ سعید سے براه راست نقل كرتے اور بات كو مكمل لكھ لیتے تو اس كاپہلا حصہ سعید سے ہوتا اور دوسرا زہری سے اور بعد میں ان كو یاد نہ رہتا كہ كون سا كس كی نسبت بیان كیا۔ اور احمد بن حنبل نے مزید كہا: یونس روایات بیان كرتے جن میں زہری كا نقطۂ نظر ہوتا اور ان كو وہ سعید سے منسوب كرتے اور مزید كہا كہ یونس بہت غلطیاں كرتے جب وہ زہری سے روایت كرتے اور عقیل ان سے كم غلطیاں كرتے۔ اور ابو زرعہ نے كہا: میں نے احمد بن حنبل كو كہتے ہوئے سنا كہ یونس كی زہری سے روایات میں منكرات پائے جاتے ہیں۔‘‘[76]ی
۳۔معمر بن راشد
معمر بن راشد كی مرویات كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
كعبی بیان كرتے ہیں كہ سلیمان بن حرب كی راے میں معمر كی اكثر روایات میں غلطیاں ہوتی ہیں (إن معمرًا عامة حدیثه خطأ)۔وه یہ بهی بیان كرتے ہیں كہ ابو نعیم نے ترک كر دیا تها اور كہا تها كہ وه بہت غلطیاں كرتے ہیں۔[77]
امام ذہبی بیان كرتے ہیں كہ عبدالرزاق نے ابن المبارك كو یہ كہتے سنا كہ وه معمر سے وہی روایات لكھتے ہیں جو انهوں نے كسی اور سے بهی سنی ہیں۔[78]
یہ بات معلوم رہے كہ معمر كے تین شاگرد ان سے یہ روایت بیان كرتے ہیں:
۱۔ عبد الرزاق بن ہمام
۲۔ عبدالله بن معاذ الصنعانی
۳۔ محمد بن عمر الواقدی
عبد الرزاق بن ہمام كے حوالے سے عقیلی بیان كرتے ہیں كہ سفیان بن عیینہ نے كہا كہ ان كو اس بات كا ڈر ہے كہ عبد الرزاق كا شمار ان لوگوں میں ہو گا جن كی ساری دنیوی سعی اكارت جائے گی۔ عباس بن عبد العظیم الانباری نے خدا كی قسم كها كر كہا كہ عبد الرزاق لپاٹیا ہے اور واقدی ان سے سچا ہے۔[79]
امام ذہبی بیان كرتے ہیں:[80]امام نسائی كی راے میں عبد الرزاق كی روایات میں مناكیر ہوتی ہیں۔ امام بخاری كی راے میں جو كچھ ان كی كتاب سے مروی ہے، وه زیادہ درست ہے۔ ابن عدی كی راےمیں جو روایات عبدالرزاق فضائل كے باب میں روایت كرتے ہیں، ان كی كوئی موافقت نہیں كرتا۔
دارقطنی كہتے ہیں كہ اگرچہ وہ ثقہ ہیں، لیكن معمر كے بارے میں ان روایات كے بارے میں غلطیاں كرتے ہیں جو ان كی كتاب میں نہیں پائی جاتیں۔[81]
ابو حاتم اپنے مخصوص الفاظ میں عبد الرزاق كے بارے میں كہتے ہیں: ’یكتب حدیثه ولا یحتج به‘۔[82]
برذعی بیان كرتے ہیں كہ انهوں نے دیكها كہ ابو زرعہ ان كے معاملے سے راضی نہ تهے اور ان سے ایک بڑی سنگین بات منسوب كرتے تهے۔[83]
عبدالله بن معاذ الصنعانی كے بارے میں عقیلی بیان كرتے ہیں[84]: عبد الرزاق ان كو جهوٹا قرار دیتے ہیں۔ عبدالله بن احمد بن حنبل كہتے ہیں كہ انهوں نے اپنے والد احمد بن حنبل كو یہ كہتے سنا كہ انهوں نے عبدالله بن معاذ كو مکہ میں دیكها تها، مگر ان سے كچھ نہیں لكها۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے كہ دوسرے ائمہ نے ان كو ثقہ قرار دیا ہے۔
ذیل میں واقدی كے بارے میں جرح بیان كی جاتی ہے:
امام بخاری[85] ان كے بارے میں كہتے ہیں: ’سكتوا عنه‘ اور یہ كہ احمد اور ابن نمیر نے انهیں ترك كر دیا تها۔ ایک اور جگہ پر امام بخاری[86] ان كو ’متروك الحدیث‘ قرار دیتے ہیں۔ امام نسائی[87] بهی ان كو ’متروك الحدیث‘ شمار كرتے ہیں۔ ابن حبان[88] بیان كرتے ہیں كہ احمد ان كو جهوٹا كہتے ہیں اور یحییٰ بن معین ان كو ’لیس بشيء‘ قرار دیتے ہیں اور علی بن مدینی كہتے ہیں كہ وہ احادیث وضع كرتے تهے۔ امام ذہبی[89] بیان كرتے ہیں کہ دارقطنی كے ان كے بارے میں یہ الفاظ ہیں: ’فیه ضعف‘ اور ابن عدی كہتے ہیں كہ ان كی روایات محفوظ نہیں ہیں۔ حافظ مزی[90] بیان كرتے ہیں كہ امام مسلم کی راے میں وہ ’متروك الحدیث‘ ہیں اور یہ كہ امام حاكم ان كو ’ذاهب الحدیث‘ كہتے ہیں۔ اسحٰق بن راہویہ[91]بهی ان كو احادیث وضع كرنے كا مرتكب مانتے ہیں۔حافظ ابن حجر كی راے میں وہ ’متروك ‘ ہیں۔[92]
۴۔ ولید بن محمد
ولید بن محمد كی روایت كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
ولید بن محمد ایک مشتبہ راوی ہیں۔ امام ذہبی بیان كرتے ہیں[93]: ابو حاتم كی راے میں وه ’ضعیف الحدیث‘ ہیں۔ علی بن مدینی كی راے ان كے بارے میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’لا یكتب حدیثه‘۔ یحییٰ بن معین ان كو جهوٹا قرار دیتے ہیں۔ ابن خزیمہ انهیں ’لا یحتج به‘ كہتے ہیں اور امام نسائی كی راے میں وہ ’متروك الحدیث‘ ہیں۔
حافظ بن حجر انهیں ’متروك ‘ شمار كرتے ہیں۔[94]
سوید بن سعید كے بارے میں حافظ مزی[95] نے درج ذیل جرح بیان كی ہے:
یعقوب بن شیبہ كی راے میں وه صدوق ’مضطرب الحدیث‘ ہیں، بالخصوص جب وه نابینا ہو گئے تهے۔ امام بخاری، صالح محمد البغدادی اور امام حاكم كی راے میں جب وہ نابینا ہو گئے تو ایسی روایات بیان كرتے جو ان كی نہ ہوتیں۔ امام نسائی كے الفاظ ان كے بارے میں یہ ہیں: ’لیس بثقة ولا مأمون‘۔ یحییٰ بن معین ان كو حلال الدم قرار دیتے ہیں۔ ابن حبان نے ان كا نام اپنی كتاب المجروحین میں شامل كیا ہے اور لكها ہے: ’یأتي عن الثقات في المعضلات‘ اور یہ كہ ’یخطئ في الآثار و یقلب الأخبار‘ اور یہ بهی كہا ہے كہ ان كی روایات سے احتراز كیا جائے۔[96]
ابن الجوزی[97] نے ان كا نام اپنی ’’ كتاب الضعفاء‘‘ میں درج كیا ہے اوركہا ہے كہ یحییٰ بن معین ان كو كذاب اور ساقط كہتے تهے اور یہ بهی كہ اگر ان كے پاس ایک گهوڑا اورنیزه ہوتا تو وہ ان پر حملہ كر دیتے۔ ابن الجوزی نے یہ بهی كہا ہے كہ امام احمد انهیں ’متروك الحدیث‘ كہتے تهے۔
۵ ۔ صالح بن ابی الاخضر
صالح بن ابی الاخضر كی مرویات كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
حافظ مزی[98] نے صالح بن ابی الاخضر كے بارے میں جو جرح درج كی ہے، اس كا كچھ حصہ بیان كیا جاتا ہے:
یحیىٰ بن معین كا تبصره ان كے بارے میں یہ ہے: ’لیس بقوي ضعیف‘۔ عجلی كی راے میں : ’یكتب حدیثه و لیس بالقوي‘۔ ابراہیم بن یعقوب جزجانی كہتے ہیں: ’متهم في الحدیث‘۔ ابو زرعہ انھیں ’ضعیف الحدیث‘ قرار دیتے ہیں اور كہتے ہیں كہ ان كے پاس زہری كی طرف سے دو كتابیں تهیں: ایك عرض اور دوسری ’مناولة ‘ كی صورت میں۔ وہ دونوں كو خلط ملط كر دیتے۔ ابو حاتم ان كو ’لیّن الحدیث‘ كہتے۔ امام بخاری ان كو ضعیف اور لین كہتے ہیں اور یہ بهی كہتے ہیں كہ جو كچھ وہ زہری سے روایت كرتے ہیں، ان میں وہ ناقابل اعتبار ہیں۔ امام ترمذی، امام نسائی اور یحییٰ بن سعید القطان كے مطابق وه ضعیف ہیں۔
۶۔ محمد بن عبدالله بن ابی عتیق (ابن اخی زہری)
محمد بن عبدالله بن ابی عتیق كی روایت كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
محمد بن عمر واقدی پر جرح اوپر بیان كی چكی ہے۔
۷۔نعمان بن راشد
نعمان بن راشد كی روایت كو اس اسناد جدول میں ملاحظہ كیا جا سكتا ہے:
نعمان بن راشد كے بارے میں حافظ مزی[99] نے مندرجہ ذیل جرح بیان كی ہے:
یحییٰ بن سعید القطان ان كو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ احمد بن حنبل ان كو ’مضطرب الحدیث‘ كہتے ہیں اور یہ كہتے ہیں كہ وہ ’مناكیر‘ بیان كرتے ہیں۔ یحیىٰ بن معین كہتے ہیں کہ وه ضعیف اور ’لیس بشيء ‘ ہیں۔ امام بخاری كے مطابق ان كی روایات میں بڑا تضاد پایا جاتا ہے، اگرچہ وہ صدوق ہیں۔ ابو داؤد كہتے ہیں كہ وہ ضعیف ہیں۔ نسائی انھیں ان الفاظ میں مجروح قرار دیتے ہیں: ’ضعيف، كثیر الغلط‘ اور ’أحادیثه مقلوبة‘۔
ابن جنید نے یحییٰ بن معین سے جب پوچها كہ كیا نعمان بن راشد صرف زہری سے روایت كرنے میں ضعیف ہیں تو انهوں نے جواب دیا كہ وہ ہر ایک سے روایت كرنے میں ضعیف ہیں۔[100]
درج بالا تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے كہ زہری سے ان كے كسی بهی شاگرد كی سند قابل اعتماد نہیں ہے۔
___________
۱۔ابو عبدالله محمد بن اسمٰعیل البخاری، الجامع الصحیح، طبع ثالث، ج 1 (بیروت: دار ابن كثیر، 1987ء)، 4، (رقم: 3)۔ دیكهیے مزید: ایضاً، ج 4، 1894، (رقم: 4670) ؛ ایضا ً، ج 6، 2561، (رقم: 6581)؛ ابو الحسین مسلم بن حجاج القشیری، الجامع الصحیح، ج 1 (بیروت: دار التراث العربی، تاریخ غیر مذكور)، 139، (رقم: 160) ؛ ایضا ً، ج 1، 141، (رقم: 160) ؛ ایضاً، ج 1، 142، (رقم: 160) ؛ ابو عبدالله محمد بن عبدالله الحاكم، المستدرك علی الصحیحین، طبع اول، ج 3 (بیروت: دارالكتب العلمیة، 1990ء)، 202، (رقم: 4843) ؛ ابو نعیم احمد بن عبدالله الأصبہانی، المسند المستخرج علی صحیح مسلم، طبع اول، ج 1 (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1996 ء)، 224، (رقم: 405) ؛ ابو حاتم محمد بن حبان البستی، صحیح، طبع ثانی، ج 1 (بیروت: مؤسسة الرسا لة، 1993 ء)، 216، (رقم: 33) ؛ ابو بكر احمد بن الحسین البیہقی، السنن الكبرىٰ، ج 9 (مكة: مكتبة دار الباز، 1994 ء)، 5، (رقم: 17499) ؛ ابو عوانة یعقوب بن اسحٰق، مسند، ج 1 (بیروت: دار المعرفة، تاریخ غیر مذكور)، 102، (رقم: 328) ؛ عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی، مصنف، ج 5 (بیروت: المكتب الإسلامی، 1403 ھ )، 321، (رقم: 9719) ؛ اسحٰق بن إبرهیم بن مخلد بن راہویة، مسند، طبع اول، ج 2 (مدینة: مكتبة الإیمان، 314، (رقم: 840) ؛ ابو عبدالله احمد بن حنبل الشیبانی، مسند، ج 6 ( قاہرة: مؤسسة القرطبة، تاریخ غیر مذكور)، 223، (رقم: 25907) ؛ ایضاً، ج 6، 232، (رقم: 26001) ؛ ابو ہلال الحسن بن عبد الله بن سہل بن سعید بن یحیى بن مہران العسكری، الأوائل، طبع اول (طنطاء: دار البشیر، 1408 ھ )، 103 ؛ ابو داؤد سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند، ج 1 (بیروت: دار المعرفة، تاریخ غیر مذكور)، 207، (رقم: 1468) ؛ ایضاً، ج 1، 207، (رقم: 1469) ؛ علاء الدین علی بن حسام الدین المتقی، كنز المال فی سنن الأقوال والأفعال، طبع اول، ج 2 (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1998 ء)، 7، (رقم: 2934) ؛ ایضاً، ج 12، 200، (رقم: 35528) ؛ ابو الولید محمد بن عبدالله بن احمد الأزرقی، أخبار مكة و ما جاء فیها من الآثار، ج 2 (بیروت: دار الاندلس للنشر، 1996 ء)، 204 : ابو عبد الله محمد بن اسحٰق بن العباس الفاكہی، أخبار مكة فی قدیم الدهرو حدیثه، طبع ثانی، ج 4 (بیروت: دار الخضر، 1414 ھ )، 94، (رقم: 2430) ؛ ایضا ً، ج 4، 181، (رقم: 2505) ؛ ابو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللاكائی، شرح اصول إعتقاد اهل السنة و الجماعة من الكتاب و السنة و إجماع الصحابة، ج 4 (ریاض: دار طیبة، 1402 ھ )، 756، (رقم: 1409) ؛ محمد بن اسحٰق بن یحیىٰ بن مندة، الإیمان، طبع دوم، ج 2 (بیروت: مؤسسہ الرسالة، 1406 ھ )، 689، (رقم: 681 ) ؛ ایضاً، ج 2، 689، (رقم: 682 ) ؛ ایضاً، ج 2، 690، (رقم: 683) ؛ ایضاً، ج 2، 693۔ 694، (رقم: 685) ؛ محمد بن الحسین الآجری، الشریعة، طبع ثانی، ج 3 (ریاض: دار الوطن، 1999 ء)، 1437، (رقم: 969) ؛ ایضاً، ج 3، 1436، (رقم: 968) ؛ ابو بكر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة، طبع دوم، ج 2 (بیروت: دار الكتب العلمیة، 2002 ء)، 135 ؛ یوسف بن عبدالله بن محمد بن عبد البر، الدرر فی إختصار المغازی و السیر، طبع ثالث (قاہرة: دار المعارف، 1403 ھ )، 31 ؛ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسول و الملوك، ج 1 (بیروت: دار الكتب العلمیة، تاریخ غیر مذكور)، 531 ؛ ایضاً، ج 1، 532 ؛ ابو الفرج عبدالرحمٰن علی بن محمد بن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الملوك و الأمم، طبع اول، ج 2 (بیروت: دار صادر، 1358 ھ )، 349 ؛ جلال الدین عبد الرحمٰن بن كمال الدین ابی بكر بن محمد بن سابق السیوطی، الدر المنثور، ج 8 (بیروت: دار الفكر، 1993 ء)، 560 -563 ؛ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، طبع اول، ج 30 (بیروت: دار إحیاء التراث العربی، 2001 ء)، 251 ؛ ابو اسحٰق احمد بن محمد بن ابراهیم الثعلبی، الكشف و البیان، طبع اول، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، 2002 ء)١٠/ 242۔
۲۔ بدر الدین محمود بن احمد بن موسى بن احمد العینی، عمدة القاری شرح صحیح بخاری، (بیروت: دار إحیاء التراث العربی، تاریخ غیر مذكور)١/ 47۔
۳۔ابو العباس احمد بن محمد بن ابی بكر بن عبد الملك القسطلانی، إرشاد الساري لشرح صحيح بخاري، طبع ہفتم (مصر: المطبعة الكبرى الأمیریة، 1323 ھ )١/ 61۔
۴۔البخاری، الجامع الصحیح، ج 1، 4، (رقم: 3) ؛ ایضاً، ج 4، 1894، (رقم: 4670) ؛ ایضاً، ج 6، 2561، (رقم: 6581) ؛ مسلم، الجامع الصحیح، ج 1، 142، (رقم: 160) ؛ ابو عوانۃ ، مسند، ج 1، 104، (رقم: 330) ؛ احمد بن حنبل، مسند، ج 6، 223، (رقم: 25907) ؛ ابن منده، الإیمان، ج 6، 693۔ 694، (رقم: 685)۔
۵۔مسلم، الجامع الصحیح، ج 1، 139، (رقم: 160) ؛ ابو عوانة، مسند، ج 1، 102، (رقم: 328) ؛ ابن منده، الإیمان ، ج 6، 689، (رقم: 681) ؛ البیہقی، السنن الكبرىٰ، ج 5، 9، (رقم: 17499) ؛ الطبری، تاریخ الرسول و الملوک، ج 1، 532۔
۶۔ مسلم، الجامع الصحیح، ج 1، 142، (رقم: 160) ؛ الحاكم، المستدرك، ج 3، 202، (رقم: 4843) ؛ ابو نعیم الاصبہانی، المسند المستخرج على صحیح مسلم، ج 1، 224، (رقم: 405) ؛ ابن حبان، صحیح، ج 1، 216، (رقم: 33) ؛ ابوعوانة، مسند، ج 1، 104، (رقم: 331) ؛ عبد الرزاق، مصنف، ج 5، 321، (رقم: 9719) ؛ احمد بن حنبل، مسند، ج 6، 232، (رقم: 26001) ؛ ابو الولید الازرقی، أخبار مكة، ج 4، 94، (رقم: 2430) ؛ ابو عبد الله الفاكہی، أخبار مكة، ج 4، 94، (رقم: 2430) ؛ ابو القاسم اللالكائی، شرح أصول إعتقاد اهل السنة، ج 4، 756، (رقم: 1409) ؛ ابن منده، الإیمان، ج 2، 691، (رقم: 683) ؛ الآجری، الشریعة، ج 3، 1437، (رقم: 969) ؛ البیہقی، دلائل النبوة، ج 2، 135 ؛ ابن عبد البر، الدرر، 31 ؛ ابن الجوزی، المنتظم، ج 2، 349 ؛ الثعلبی، الكشف و البیان، ج 10، 242۔
۷۔ ابو ہلال العسكری، الأوائل، 103۔
۸۔ الطیالسی، مسند، ج 1، 207، (رقم: 1468)۔ اس كا مختصر ملاحظہ ہو: الآجری، الشریعة، ج 3، 1436، (رقم: 968)۔
۹۔ابن سعد، الطبقات الكبرىٰ 1/ 194۔
۱۰۔ الطبری، تاریخ 1/ 531 ؛ الطبری، تفسیر 30/ 251۔
۱۱۔ بخاری،رقم 1369۔ یہ روایت دیگر كتب حدیث میں بهی موجود ہے۔
۱۲۔ ابو الحسن عز الدین بن الاثیر الجزری، الكامل في التاریخ، طبع دوم، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1415 ھ ) 1/ 553۔
۱۳۔ ابو احمد الحسن بن عبدالله بن سعید بن اسمٰعیل، تصحیفات المحدثین ، طبع اول، (قاہرة: المطبعة العربیة الحدیثة، 1402 ھ )1/ 298۔
۱۴۔ دیكهیے مثال كے طور پر: محمد بن مكرم بن منظور، لسان العرب، طبع اول، (بیروت: دار صادر، تاریخ غیر مذكور)3/ 139؛ ابو الحسن علی بن اسمٰعیل بن سیدہ، المحكم و المحیط الأعظم، طبع اول، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 2000 )3/ 299۔
۱۵۔ ابو محمد عبد الملك بن ہشام بن ایوب الانصاری، السیرة النبویة، طبع اول، (بیروت: دار الجیل، 1411 )2/ 68ـ69۔
۱۶۔ دیكهیے مثال كے طور پر: ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری، ج 1 (بیروت: دار المعرفة، تاریخ غیرمذكور)1/ 23 ؛ بدر الدین محمود بن احمد بن موسىٰ ابى احمد العینی، عمدة القاری شرح صحیح بخاری، (بیروت: داراحیاء التراث العربی، تاریخ غیر مذكور)1/ 49 ؛ جلال الدین عبد الرحمٰن بن كمال الدین ابی بكر بن محمد بن سابق السیوطی، الدیباج على مسلم، (الخبر: دار ابن عفان، 1416 ھ )1/ 188۔
۱۷۔ دیكھیے مثال كے طور پر: بخاری،رقم 4670، 6581۔
۱۸۔ دیكھیے مثال كے طور پر: مریم 19: 51-53 ؛طٰہٰ 20: 14-16 ؛ النمل 27: 7-14۔
۱۹۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن،طبع دوم، (لاہور: فاران فاؤنڈیشن، 1986ء)، ٨/ 54-55۔
۲۰۔ ایضاً، 8/ 57۔
۲۱۔ مراد وہ دونوں واقعات ہیں جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو نبوت دی گئی اور جن كا ذكر قرآن كرتا ہے۔
۲۲۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن 8/ 53۔
۲۳۔ تفصیلات كے لیے دیكھیے: البیان 5 / 65۔
۲۴۔ دیكھیے مثال كے طور پر:بخاری، رقم 4670، 6581۔ مسلم، رقم: 160۔
۲۵۔ دیكھیے مثال كے طور پر: بخاری، رقم 4640 ۔ یہ بات قابل لحاظ ہے كہ یہ روایت ایک اور روایت سے متضاد ہے جس كے مطابق سورۂ مدثر دراصل سورۂ علق كے بعد زمانۂ فترت كے بعد نازل ہوئی۔ چنانچہ سورۂ مدثر كو اس روایت كی رو سے پہلی وحی نہیں قرار دیا جاسكتا۔ دیكھیے: بخاری، رقم 4 )۔ اہل علم نے اس تضاد كو دور كرنے كی مختلف كوششیں كی ہیں مگر كوئی بهی اطمینان بخش نہیں معلوم ہوتی۔ دیكھیے مثال كے طور پر: جلال الدین عبد الرحمٰن بن كمال الدین ابی بكر بن محمد بن سابق السیوطی، الإتقان فی علوم القرآن، طبع اول، (لبنان: دار الفكر، 1996ء)1/ 75ـ76۔
۲۶۔ بعض كم زور روایات میں یہ بیان ہوا ہے كہ جبریل لكھی ہوئی آیات لائے تهے۔ دیكھیے مثال كے طور پر: الطبری، تاریخ 1/ 32۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تب بهی كیا جبریل كو معلوم نہیں تها كہ آپ پڑهنے سے واقف نہیں ہیں۔
۲۷۔ اس تنقید كو امام امین احسن اصلاحی نے بیان كیا ہے۔ دیكھیے: امین احسن اصلاحی، شرح صحیح بخاری، تدوین: خالد مسعود، سعید احمد، سید اسحٰق، طبع اول (لاہور: ادارہ تدبرقرآن و حدیث، 2002ء)، 30۔
۲۸۔ ان میں سے ایک سلمہ بن الفضل الآبراش الاناری (م بعد از 190 ھ) اور دوسرے یونس بن بكیر (م ۱۹۹ ھ ) ہیں۔ مقدم الذكر كے لیے دیكهیے: الطبری، تاریخ 1/ 532ـ533۔ مؤخر الذكر كے لیے دیكهیے: ابن اسحٰق، السیرة 2/ 100ـ103، (رقم 140)۔
۲۹۔ بادی النظر میں ایک مرسل روایت كا ایک متصل روایت سے موازنہ شاید غیر منصفانہ نظر آئے۔ تاہم مراسیل صحابہ میں ہونے كے باوجود اسے اگر متصل مان بهی لیا جائے تب بهی اس پر پیدا ہونے والے سوالات اور اشكالات اسے كم زوری كے اس درجے پر لے آتے ہیں جس كے بعد یہ موازنہ غير منصفانہ نہيں رہتا۔
[30]۔ محمد بن اسحٰق بن یسار، السیرة، (شہر غیر مذكور: مهد الدراسات و الأبحاث للتعریف، تاریخ غیر مذكور)2/ 100۔ بعد كی بهی بعض كتب میں نبی صلى الله علیہ وسلم كا صرف خلوت كی طرف میلان كا ذكر ہے، مزید كوئی تفصیل نہیں۔ دیكهیے: ابو عیسىٰ محمد بن عیسىٰ الترمذی، سنن، (بیروت: دار إحیاء التراث العربی، تاریخ غیر مذكور)٥/ 596، (رقم: 3632) ؛ احمد بن حنبل، مسند 6/ 153، (رقم: 25243) ؛ ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، الأوائل، طبع اول (بیروت: دار الفرقان، 1403 ھ)، 42، (رقم: 16) ؛ ابو بكر احمد بن عمرو بن عاصم الشیبانی، الأوائل (كویت: دارالخلفاء للكتاب الاسلامی، تاریخ غیر مذكور)، 87، (رقم: 100)۔
۳۱۔ ابو القاسم عبد الله الكعبی، قبول الأخبار فی معرفة الرجال، طبع اول، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1323 ھ) 1/ 268۔ 271۔
۳۲۔ ابو عبدالله شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز بن عبدالله الذهبي ، سير اعلام النبلاء، طبع نہم، (بيروت: موسسۃ الرسالۃ ، 1413 ھ)6/ 28۔
۳۳۔ ابو عبدلله محمد بن سعد الزہری، الطبقات الكبرى القسم المتمم لتابعی اهل المدینة و من بعدهم، طبع دوم (مدینہ منورة: مكتبة العلوم و الحكم، 1408 ھ)، 173۔
۳۴۔ ابو القاسم علی بن الحسين بن عساكر، تاریخ مدینة دمشق، (بيروت: دار الفكر،۱۹۹۵ء)55/ 364۔
۳۵۔ احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی، الكفایة فی علم الروایة (مدینة: المكتبة العلمیة، تاریخ غیر مذكور)، 266۔ روایت كے الفاظ سے كوئی شخص یہ استدلال كر سكتا ہے كہ ابراہیم بن الولید نے یہ كتاب زہری كو پڑھ كر سنائی ہو گی اور اس طرح اس كو ان كی توثیق حاصل ہو گی۔ تاہم زہری كی طرف سے جملے كا آخری حصہ یہ صاف بتا رہا ہے كہ انھوں نے ابراہيم كو اپنی سند پر بیان كرنے كی اجازت كتاب كی بغیر پڑتال كیے ہی دے دی تهی۔
۳۶۔ ابو القاسم علي بن الحسين بن عساكر ابن عساكر، تاریخ مدینة دمشق، (بيروت: دار الفكر،۱۹۹۵ء)55/ 353۔
۳۷۔ ایضاً۔
۳۸۔ عبدالله بن احمد بن ربیعہ بن زبر الربعی، منتقى من اخبار الأصمعی، طبع اول ( شہر غیر مذكور: دار طلاس، 1987)، 93ـ94، (رقم: 3)۔
۳۹۔ الذهبی، سیر اعلام النبلاء 5/ 339۔
۴۰۔ ابو اسحٰق ابراہيم بن عبدالله بن الجنید، سؤلات ابی اسحاق ابراهیم بن عبداللّٰه بن الجنید لامام یحیی بن معین ،طبع اول (قاہرة: الفاروق الحديثة للطباعة و النشر،2007ء) ، 355۔
۴۱۔ ابن عساكر، تاریخ مدینة دمشق 55/ 370۔
۴۲۔ ایضاً، 22/ 27ـ31۔
۴۳۔ ایضاً، 22/42۔
۴۴۔ الكعبی، قبول الأخبار 1/ 266۔
۴۵۔ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، طبقات المدلسین، طبع اول (عمان: مكتبة المنار، 1983ء)، 45۔
۴۶۔ الكعبی، قبول الأخبار 2/ 402۔
۴۷۔ ایضاً 1/ 269۔
۴۸۔ الذهبی، تذكرة الحفاظ 1/ 109۔
۴۹۔ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، تهذیب التهذیب، طبع الاول، (بیروت: دار الفكر، 1985ء)9/ 398۔
۵۰۔ الذهبی، تذكرة الحفاظ 1/ 111۔
۵۱۔ الذهبی، سیر اعلام النبلاء 5/ 339۔
۵۲۔ ابن حجر، تهذیب التهذیب 9/ 396-398۔
۵۳۔ ابن حجر كے مطابق ان كا انتقال سلیمان بن عبد الملك كی خلافت كے زمانے میں ہوا۔ دیكھیے: ابن حجر، تهذیب التهذیب 6/ 259۔
۵۴۔ حافظ مزی كے مطابق ان كی پیدایش نبی صلى الله علیہ وسلم كی زندگی میں ہوئی اور ان كا شمار نمایاں تابعین میں ہوتا ہے۔ دیكھیے: ابو الحجاج یوسف بن الزكی المزی، تهذیب الكمال فی اسماء الرجال، طبع اول، (بیروت: مؤسسة الرسالة، 1980ء)27/ 472۔
۵۵۔ الصفدی كے مطابق یہ مدینہ كے تابعی تهے۔ دیكھیے: ابو الصفاء صلاح الدین خلیل بن ایبك بن عبدالله الصفدی، الوافی بالوفیات، (بیروت: دار احیاء التراث، 2000ء)13/ 59۔
۵۶۔ ابن حجر كے مطابق یہ ایک صحابیہ تهیں۔ دیكهیے: ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، الإصابة فی تمییز الصحابة، طبع اول، (بیروت: دار الجیل، 1992ء)8/ 252۔
۵۷۔ امام بخاری نے جو تفصیلات بیان كی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے كہ یہ ایک تابعی تهے۔ دیكهیے: ابو عبدالله محمد بن اسماعیل البخاری، التاریخ الكبیر، (شہرغیر مذكور: دار الفكر، تاریخ غیر مذكور)2/ 64۔
۵۸۔ دیكهیے: عباس بن محمد بن حاتم الدوری، تاریخ یحیى بن معین، طبع اول، (مكة: مركز البحث العلمی و إحیاء التراث الإسلامی، 1979ء)3/ 216۔
۵۹۔ دیكهیے: عبد الرحمٰن بن ابی حاتم، مراسیل، طبع اول (بیروت: مؤسسه الرسالة، 1397 ھ )، 191ـ192۔
۶۰۔ مثال كے طور پر دیكهیے: بخاری، رقم 4670، 6581۔
۶۱۔ الطبری، تاریخ 1/ 535۔
۶۲۔ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری، (بیروت: دار المعرفة، 1379 ھ)12/ 359۔
۶۳۔ ابو محاسن یوسف بن موسىٰ، المعتصر من المختصر من مشكل الآثار، (بیروت: عالم الكتاب، تاریخ غیر مذكور)1/ 196۔
۶۴۔ ابو الفرج زین الدین بن رجب الحنبلی، فتح الباری، طبع اول، (جده: دار ابن الجوزی، 1996ء)5/ 286۔
۶۵۔ البخاری، التاریخ الكبیر 3/ 286۔
۶۶۔ شمس الدین محمد بن عبد الرحمٰن السخاوی، فتح المغیث، طبع اول، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1403 ھ)1/ 247۔
۶۷۔ ابن حجر، فتح الباری 1/ 23۔
۶۸۔ الدوری، تاریخ یحیى بن معین 4/ 490۔
۶۹۔ محمد بن عبد الباقی بن یوسف الزرقانی، شرح الزرقانی على موطا امام مالك، طبع اول، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1411 ھ)3/ 476۔
۷۰۔ ابو عبد الله احمد بن حنبل الشیبانی، العلل و معرفة الرجال، طبع اول، (بیروت: المكتب الاسلامی، 1988ء)1/ 228۔
۷۱۔ مثال كے طور پریكهیے: المزی، تهذیب الكمال 24/ 261۔
۷۲۔ ابن عساكر، تاریخ مدینة دمشق 50/ 364 ؛ جلال الدین عبد الرحمٰن بن كمال الدین ابی بكر بن محمدبن سابق السیوطی، طبقات الحفاظ، طبع اول (بیروت: دار الكتب العلمیة، تاریخ غیر مذكور)، 102۔
۷۳۔ مثال كے طور پر دیكهیے: المزی، تهذیب الكمال 34/ 403۔
۷۴۔ ابن حجر، تهذیب التهذیب 11/ 396۔
۷۵۔ ابن ابی حاتم، الجرح و التعدیل 9/ 248۔
۷۸۔ المزی، تهذیب الكمال 32/ 555۔
۷۷۔ الكعبی، قبول الأخبار 1/ 365-366۔
۷۸۔ الذهبی، سیر اعلام النبلاء 7/ 9۔
۷۹۔ ابو جعفر محمد بن عمر بن موسىٰ العقیلی، الضعفاء الكبیر، طبع اول، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1984ء)3/ 109۔ یہاں یہ بات واضح رہے كہ امام ذہبی نے اس بات كی نشان دہی كی ہے كہ عباس كے علاوه كسی صاحب علم كی عبد الرزاق كے بارے میں یہ راے نہیں ہے۔ دیكهیے: ابو عبد الله شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز بن عبدالله الذہبی، میزان الإعتدال فی نقد الرجال، طبع اول، (بیروت: دار الكتب العلمیة، 1995ء)4/ 343۔
۸۰۔ الذہبی، میزان الإعتدال 4/ 343۔
۸۱۔ ابن عساكر، تاریخ مدینة دمشق 36/ 182۔ زیر بحث روایت میں معمر عبد الرزاق سے روایت كرتے ہیں۔
۸۲۔ ابن ابی حاتم، الجرح و التعدیل 6/ 38۔
۸۳۔ ابو زرعہ عبید الله بن عبد الكریم بن یزید الرازی، الضعفاء و أجوبة الرازی على سؤالات البرذعی، طبع دوم (المنصورة: دارالوفاء، 1409 ھ )، 450۔
۸۴۔ العقیلی، الضعفاء الكبیر 2/ 308۔
۸۵۔ البخاری، التاریخ الكبیر 1/ 178۔
۸۶۔ ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری، الضعفاء الصغیر، طبع اول، (حلب: دار الوعی، 1336 ھ)، 104۔
۸۷۔ ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب النسائی، الضعفاء و المتروكین، (حلب: دار الوعی، 1396 ھ)، 92۔
۸۸۔ ابو حاتم محمد بن حبان البستی، المجروحین و الضعفاء و المتروكین، طبع اول، (حلب: دار الوعی، ۱۳۹۶ ھ)2/ 290۔
۸۹۔ الذہبی، میزان الإعتدال 6/ 273۔
۹۰۔ المزی، تهذیب الكمال 26/ 188۔
۹۱۔ ابو الوفاء ابراہیم بن محمد سبط بن العجمی الحلبی، كشف الحثیث عمن رومی بوضع الحدیث (بیروت: مكتبة النهدة العربیة، 1987ء)، 243۔
۹۲۔ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، تقریب التهذیب، طبع اول (شام: دار الرشید، 1986ء)، 498۔
۹۳۔ الذہبی، میزان الإعتدال 7/ 140۔
۹۴۔ ابن حجر، تقريب التهذیب 583۔
۹۵۔ المزی، تهذیب الكمال 12/ 251۔
۹۶۔ محمد بن حبان، المجروحین 1/ 352۔
۹۷۔ ابو الفرج عبد الرحمٰن علی بن محمد بن الجوزی، الضعفاء و المتروكین، طبع اول (بیروت: دار الكتب العلمیہ، 1406 ھ)2/ 32۔
۹۸۔ المزی، تهذیب الكمال 13/ 13-15۔
۹۹۔ المزی، تهذیب الكمال 29/ 446-448۔
۱۰۰۔ ابو اسحٰق ابراہیم بن عبدالله بن الجنید، سؤالات ابی اسحاق إبراهیم بن عبداللّٰه بن الجنید لإمام یحیى بن معین، طبع اول (قاہرہ: الفاروق الحدیثة للطباعة و النشر، 2007ء)، 418۔