HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم

محمد تہامی بشر علوی

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ بتائیے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے ہیں ؟ تو سیدہ عائشہ نے بڑا جامع اوربامعنی جواب دیا ۔ وہ چاہتیں تو بہت زیادہ تفصیل بیان کر سکتی تھیں، لیکن انھوں نے اپنی ذہانت و بصیرت کے ساتھ نہایت مختصر سے جملے میں گہرا جواب دے دیا، فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو ہے[1]۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہ و سال کا اس سے زیادہ جامع اور خوب صورت انداز میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔یہ سیدہ کو ملی قدرت کی طرف سے غیر معمولی بصیرت ہی تھی جس کے ہوتے ہوئے یہ جواب ممکن ہو پایا ہے۔ اس جملے سے سیدہ کا مدعا یہ تھا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں انسانوں سے جو جو مطالبات کیے ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی انھی خدائی مطالبات کی خوب صورتی سے تکمیل کا نام ہے۔ انسان کی زندگی میں اہم ترین چیز انسان کا اخلاقی وجود ہوتا ہے۔

خدائی مطالبات کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیجیے، اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کس طرح ہم سے ہمارے اخلاقی وجود کی پاکیزگی کا اہتمام چاہتا ہے ۔ قرآن مجید کے دیے ہوئے اعلیٰ مومنانہ اخلاق کے معیار پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پوری طرح پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید بتاتا ہے کہ تمھارا رب غصہ پی جانے والوں کو بہت پسندکرتا ہے، تو اس زمین پر سب سے زیا دہ غصہ پی جانے والی شخصیت محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھائی جا سکتی۔ تلخی کے کیسے کیسے مواقع آتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا ناحق ستایا جاتا رہا، اذیت سے دوچار کیا جاتا رہا، سچائی کی بات قوم کو بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر ستم روا رکھا گیا، طائف کی وادی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس ستم سے دوچار کیا گیا ؟ مگر یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات تھی جس کا پایۂ استقامت لمحے بھر کے لیے بھی نہیں ڈگمگایا۔ آپ نے ایسے ہر موقع پر نہایت حلم کا رویہ برقرار رکھا؛ کہیں بھی کوئی جذباتی یا غصے والا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

طائف والوں کے تشدد کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نسلوں کو دعاے ہدایت دے کر دیا۔اس سے بڑھ کر بھلا کون خود کو خدا کی خاطر انتقام کی زندگی سے اٹھا کر مکمل حلم و درگذر کی زندگی پر ڈال سکتا ہے؟ قرآن مجید نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجود کرنے والے، اس کے سامنے قیام کرنے والے اور اس کو رات گئے تک یاد کرنے والے خدا کوبڑے پسند ہیں، تو اس زمین پر اللہ کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے زیاد ہ اس ہدایت پر عمل کرنے والا اور کوئی نہیں ہے ۔ پھر قرآن مجید نے یہ توجہ دلائی کہ بدلہ لینے والوں کے بجاے معاف کرنے والے لوگ خدا کوزیادہ پسند ہیں ، تو اس روے زمین پر محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی معاف کرنے والا نہیں ہے۔

قرآن مجید نے انسانوں سے جو جو مطالبہ بھی کیا؛ جن جن اچھائیوں کا ذکر کیا ،ان اچھائیوں کو سب سے اچھے طریقے پر اگر کسی نے کر دکھایا تووہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کردکھایا۔ تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے لیے اسوہ قرار دیا گیا[2]، یعنی خدائی مطالبات کو خوبی کے ساتھ پورا کر دکھانے والی ذات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے ۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو سامنے رکھ کرخدائی مطالبات کی تکمیل کرتے ہوئے زندگی بسرکریں۔ اس پہلو سے دیکھیے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب بہت جامع اور گہرا ہے۔

دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی وہ زندگی ہے جس کی پیروی کے بغیر ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبتوں کا مستحق بننے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو لازم قرار دیا ہے[3]۔

ہمارے ہاں مذہبی ظاہر پرستی کے مارے لوگوں نے مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کومسنون زندگی کے طور پر متعارف کروا کر دین پر ستم ڈھا رکھا ہے۔ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ خدا نے لوگوں سے کسی مخصوص لباس کا مطالبہ اپنی کتاب میں کہیں نہیں کیا۔ لباس لوگ اپنے ماحول اور ضرورت کے لحاظ سے پہنتے رہیں گے۔ خدا لباس میں حیا اور پاکیزگی کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔یہ ذوقی چیزیں ہیں کہ لوگ محبوب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے لباس جیسا لباس پہنیں،ان کے پسند کردہ کھانے استعمال میں لائیں، لیکن ان ذوقی چیزوں کو دینی مطالبات میں شامل کرنا یا یہ کہ ان امور کو اصل دینی مطالبات پر نمایا ں کر دینا، بلاشبہ ایک غلط رویہ ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ ’’مسنون زندگی‘‘ کا لفظ سن کر ہمارے ذہنوں میں کُرتے، مسواک اور پگڑی کے بجاے صبر، درگذراوراخلاص والی زندگی کا تصور پہلے آنا چاہیے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دینی اسوہ یہی امور تھے۔ دینی اسوہ میں صبر، ایثار، اخلاص، سجود، یاد خدا، محبت، ہم دردی، خدمت خلق ، حسن اخلاق،رواداری، تدبر، انکساری، قناعت، شکرگزاری،مثبت response اور قرآن مجید پر تدبر وغیرہ جیسے امور شامل ہیں۔ لباس اور کھانے پینے جیسے امور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے اہل عرب والے لباس اور کھانوں کو ہی اختیار فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین کے لیے الگ کھانے یا الگ لباس تجویز نہیں کیے۔ صحابۂ کرام کو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے لباس اور کھانے نہیں ترک کرنا پڑتے تھے، الّا یہ کہ کسی لباس اورکھانے میں کسی پہلو سے کوئی قباحت پائی جاتی ہو۔ یہی معاملہ ناموں کا بھی تھا۔ لوگ عربی زبان میں اپنے نام رکھا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسلام قبول کرنے والوں کے نام تبدیل نہیں کرایا کرتے تھے۔ صرف ان ناموں کو تبدیل کرایا کرتے تھے جن کے معنی میں کوئی خرابی ہو۔ لوگوں نے ان عربی ناموں کو اسلامی ناموں کے نام سے مشہور کر دیا اور اب اسلام قبول کرنے والوں کو ان کے اپنی زبان میں اچھے معنی والے ناموں کو بھی خواہ مخواہ بدلنے کی زحمت میں ڈال دیا جاتا ہے۔

آج کے زمانے میں نام بدلنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ کئی جگہ اپنا ریکارڈ درست کرانا پڑتا ہے۔ اور اس کے لیے بھی اچھی خاصی زحمت سہنی پڑتی ہے۔ لوگوں کو اس مصیبت میں خواہ مخواہ ڈالنا کم سے کم الفاظ میں بھی بدفہمی کے سوا کچھ نہیں۔ ہندی تہذیب سے وابستہ لوگ ہندی میں نام رکھیں گے، انگریزی تہذیب والے اپنی زبان میں نام رکھیں گے۔ ان کے معنی میں کوئی برائی نہ ہو تو ان کا وہی نام درست ہے، اسے بدل کر کوئی عربی نام رکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں بھی سب نام عربی ہی تو نہیں ہوتے، فارسی اور اردو میں بھی کئی نام ہمارے ہاں مشہور ہیں ــــــ مثلاً گلناز، مہ جبین، مہ پارہ، جاوید،خدابخش، اللہ دتہ وغیرہ، یہ سب نام غیر عربی نام ہیں، مگر ان سے ہم مانوس ہو گئے، اس لیے کوئی اجنبیت نہیں ہوتی۔ کسی کویہ نام غیراسلامی نہیں لگتے۔ اب آپ دیکھیں یہ خورشید فارسی زبان کا نام ہے جو ہمارے ہاں بھی مقبول ہے۔ لوگ اسے غیراسلامی نام نہیں سمجھتے۔ خورشید کو بدل کر کوئی عربی نام تجویز نہیں کرتے، لیکن کسی کے انگریزی یا ہندی نام کو سنتے ہی ہم غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ یہ بدفہمی نہیں تو بتائیے اور کیا ہے ؟ ایسادوسری تہذیبوں سے نفرت یا نامانوسیت کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا سبب جو بھی ہو، یہ واضح ہے کہ اس کا تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ مسنون زندگی کا تصور درست کرنے کی ضرورت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی مطالبات کی تکمیل میں جو کام کیے، انھیں ذوقی اور عرفی کاموں سے الگ کر کے سمجھنا چاہیے۔ دینی اسوہ کی پیروی ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ذوقی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی محبت کے اظہار کا ایک فطری طریقہ ہے۔ لوگ اپنے مقتدا کی پیروی ذوقی امور میں بھی ذوق سے کیا کرتے ہیں۔ انھیں محبت کے اس فطری اظہار سے روکنا غیر فطری ہے، مگر انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دینی امور میں اور ذوقی امور میں فرق کیا ہے؟ یہ نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے ذوقی چیزیں اپنانا کافی سمجھ لیا ہے اور دینی اسوہ کو نظر انداز کر ڈالا ہے۔ اسی غلط فہمی کے باعث آپ کو کرتا پہننے والے تو معاشرے میں بہت مل جائیں گے، لیکن گالیاں سن کر صبر کر جانے والا کہیں مشکل سے ہی کوئی مل پائے گا، حالاں کہ کُرتا پہننا کوئی خدائی مطالبہ نہیں، جب کہ غصہ پی جانا خدائی مطالبہ ہے۔ غصہ پی جانا ایک دینی حکم ہے، جب کہ کُرتے کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ گالی تو چھوڑیے، آپ بھلے آزمانے کے لیے کسی سے ذرا غصے میں بات کر کے دیکھیں، جواب میں وہ شعلے برسانے لگ جائے گا۔ ممکن ہے، معمولی بات پر ایسا غضب بھڑک جائے کہ آپ کو الجھ جانے والوں کی دستار زمین سے اٹھا کر پھر جھاڑ کر انھیں پیش کرنی پڑے۔ مبادا ایسا بھی ہو کہ آپ کو گالم گلوچ کرتے صاحب کو یہ توجہ دلانی پڑ جائے کہ صاحب ڈاڑھی پگڑی میں ایسی گالیاں زیب نہیں دیتیں۔

ایسے موقعوں پر خدا کے مطالبے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھ کر ہمیں غصہ پی جانے کی سنت پر عمل کر لینا چاہیے۔ حقیقی معنوں میں ’مسنون زندگی‘ اسی کا نام ہے۔ تعلق کاٹنے والے سے جوڑنا، برا چاہنے والوں سے اچھائی کرنا، دشمنوں سے بھی بھلائی کرنا، یہ سب حقیقی مسنون زندگی ہے اور یہی مسنون زندگی ہماری زندگی سے مکمل غائب ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ حقیقی مسنون زندگی جینے کی فکر کرنی چاہیے، جس کا تقاضا خدا ہم سے کرتا ہے، اور اسی کی بنیاد پر کل ہماری نجات ہو پائے گی۔ اسے چھوڑ کر آپ بھلے دانتوں کی صفائی کے لیے برش کے بجاے مسواک کام میں لاتے رہیں ، یوں خدا راضی نہ ہو گا۔ اپنے آپ کو دھوکا دینا حماقت ہے اور اس حماقت کو دین سمجھنا بدترین جسارت ہے۔

یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ ہماری زندگی ایسے امور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مکمل خالی ہے۔ پھر بھی خود کو بہلائے رکھنے کے لیے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق کے نعروں کی خوب دھوم مچاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرا شخص محفوظ ہو[4] ۔ فرمایا کہ مومن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کے کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے[5] ۔ فرمایا کہ جو شخص دوسرے پہ حملہ آور ہونے کے لیے اس پرہتھیار سونتے ، وہ بھی میری امت میں شامل نہیں ہے[6] ۔ فرمایا: کسی کو قتل کرنا تو کفر ہے اور گالی دینا فسق ہے، خدا کی نافرمانی اس کے حدود کو توڑنا ہے۔ فرمایا: جو نماز ترک کرے، وہ کفر کا ارتکاب کر رہا[7]۔

اب کیا ہم نہیں جانتے کہ ہم میں اِن میں سے کون سی برائی شامل نہیں ؟ کس گھر میں گالی دی یا سنی نہیں جاتی ؟ گالی کے چسکے نے تو بعض گالیوں کو ہمارا تکیۂ کلام بنا ڈالا ہے۔ ہمارے سماج میں، مشکل ہے کوئی ایسا بندہ مل پائے جس کی زبان پر ان گالیوں کا ورد نہ ہوتا ہو۔ پنجاب میں بسنے والی امت کا تو گالیوں میں مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہماری حالت ناقابل بیان حد تک خراب ہے۔ یہی خرابی ہماری نسلوں میں منتقل ہو گئی۔ یہ وہ دور ہے جہاں دنیا میں اعلیٰ اخلاقی اطوار اپنائے جا رہے ہیں۔ مہذب لوگ آج کی دنیا میں بھی آباد ہیں، مگرہم ہیں کہ پستی میں ہی اترتے چلے جا رہے ہیں۔

ہمیں غلط فہمیوں سے نکل کر اس روشنی میں آنا ہو گا جہاں ہمارے رب نے ہمیں چھوڑا ہے۔ اس نے واضح کر دیا ہے کہ کامیابی کے خدائی مطالبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق پورا کرنا ضروری ہے۔ اس میں غفلت ناکامی کا سبب بن جائے گی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی واضح کر دیا ہے کہ عقل مندی یہی ہے کہ انسان خواہش پرستی سے نکل کرموت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل تیار رکھے۔ بے وقوف ہے وہ جو خواہش نفس پوری کرتا رہے اور آخرت کے معاملے میں رب سے جھوٹی امیدیں باندھے رہے[8]۔ بے حد درود و سلام ہو حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے بہت اذیتیں جھیل کر بھی کبھی اپنے اخلاقی وجود کو تحلیل نہ ہونے دیا اور ہر مرحلے پر خدائی مطالبے کو پورا کر دکھایا۔

____________

[1]۔ احمد، رقم۲۵۳۰۲۔’عَنْ سَعْدِ بْنِ ھِشَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: أَخْبِرِینِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ‘۔

[2]۔ الاحزاب ۳۳: ۲۱۔’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا‘۔

[3]۔ آل عمران ۳: ۳۱۔’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ‘۔

[4]۔ بخاری، رقم۱۰۔’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ‘۔

[5]۔ المعجم الکبیر، رقم۱۲۷۴۱۔ ’لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالَّذِي یَشْبَعُ، وَجَارُهُ جَائِعٌ‘۔

[6]۔ احمد، رقم۴۴۶۷۔’مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا‘۔

[7]۔ احمد، رقم۲۷۳۶۴۔’عَنْ أَمِّ أَیْمَنَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’لَا تَتْرُكِ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا؛ فَإِنَّهُ مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللہِ وَرَسُولِهِ‘‘ ‘۔

[8]۔ سنن ترمذی، رقم۲۴۵۹۔’الکیس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت والعاجز من أتبع نفسه ھواها وتمنی علی اللّٰہ‘۔

B