HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت علی رضی اللہ عنہ (۱۸)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

  

حضرت علی کی علمی آرا

حضرت علی قرآن،تفسیر،حدیث،فقہ جملہ دینی علوم کا دریا تھے۔ کلام الہٰی سے خاص شغف تھا۔کسی آیت کا کوئی پہلو نظر سے مخفی نہ تھا۔ نزولی ترتیب پر مشتمل قرآن مجید کا ایک نسخہ ان سے منسوب ہے(فہرست ابن ندیم ۳۰)۔

مصحف قرآنی کی زیادہ تر کتابت حضرت ابی بن کعب اورحضرت زید بن ثابت نے کی،حضرت علی بھی کاتبین وحی میں شامل تھے،یہ فریضہ انجام دینے والے دیگراصحاب حضرت عثمان بن عفان،حضرت خالد بن سعید،حضرت ابان بن سعید،حضرت علا بن حضرمی،حضرت معاویہ اورحضرت حنظلہ اسیدی ہیں۔

حضرت علی کوسماع حدیث کا خوب موقع ملا۔ان سے مروی احادیث کی تعداد پانچ سو چھیاسی ہے۔ فرماتے ہیں : جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارشاد سنتا ہوں تواللہ اس سے جونفع پہنچانا چاہتا ہے،پہنچاتا ہے۔اور جب میں آپ کے کسی صحابی سے حدیث سنتا ہوں تو اس سے حلف لیتا ہوں،وہ حلف اٹھا لے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں (ابوداؤد، رقم۱۵۲۱۔ابن ماجہ، رقم۱۳۹۵۔احمد، رقم۲)۔

کہا جاتا ہے کہ ابوالاسود دوئلی (ظالم بن عمرو) نے علم نحو حضرت علی سے سیکھا۔انھوں ہی نے اس کو بتایا، کلام کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف۔وہ جنگ جمل میں ان کے ساتھ تھا۔

ابن کوا نے حضرت علی سے پوچھا: امیر المومنین، یہ چاند میں داغ کیسا ہے؟انھوں نے جواب دیا:یہ ایک نشانی تھی جو مٹا دی گئی ہے۔ کیا تو قرآن نہیں پڑھتا، اللہ نے فرمایا ہے:’وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا٘ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَا٘ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ‘، ’’ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، پھر رات کی نشانی کو مٹا دیا اور دن کی نشانی کو روشن رکھا‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۱۲)۔یہ وہی محو(مٹانا )ہے،(یعنی محو کے اطلاقات میں سے ایک ہے)۔

حضرت علی نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:آپ نے فرمایا ہے کہ خنس سورج اور چاند کے ساتھ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خنس کی قسم کھائی ہے۔بتائیں کہ خنس ہے کیا؟آپ نے فرمایا: علی، یہ برجیس،زحل،عطارد، بہرام اور زہرہ پانچ ستارے ہیں جو سورج اورچاند کی طرح گردش میں رہتے ہیں۔

حضرت علی کہتے ہیں:آدم علیہ السلام کو ہندوستان کے علاقے سرندیپ (سری لنکا)میں واقع نوذ نامی پہاڑ پر اتارا گیا، جب کہ حوا جدہ میں اتریں۔ مزید فرماتے ہیں: دنیا کی سب سے اچھی آب و ہوا والی سرزمین ہندوستان ہے جہاں آدم علیہ السلام کو اتارا گیا۔

حضرت علی کہتے ہیں:ہابیل و قابیل، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔جب ہابیل قابیل کے ہاتھوں قتل ہو گئے تو حضرت آدم نے یہ اشعار پڑھے:

تغیرت البلاد ومن علیھا
فوجه الأرض مغبرّ قبیح
’’زمین اور اس پر آباددنیا بدل گئی ہے۔روے زمین غبارآلودہ اور بدنما ہو گیا ہے۔‘‘
تغیر کل ذي طعم و لون
وقل بشاشة الوجه الملیح
’’ہر ذائقے والی اور رنگ دار شے متغیر ہو گئی ہے،خوب صورت چہرے کی مسکراہٹ جاتی رہی ہے۔‘‘

 حضرت علی نے ایک یہودی کو ایک مسلمان سے بحث کرتے دیکھا تو کہا: اسے چھوڑو اور جو پوچھنا ہے، مجھ سے پوچھو۔اس نے کہا: آپ تو بڑے عالم ہیں۔فرمایا: کسی عالم سے پوچھو گے تو زیادہ فائدہ ہو گا۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں :علی کے علاوہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھ سے پوچھو۔

حضرت علی کے عہد خلافت پر ایک نظر

کچھ کمیاں

حضرت علی کا پورا عہد خانہ جنگی اور اندرونی جھگڑوں میں بسر ہوا،اس لیے کوئی تعمیری کام ہوا،نہ سیستان اور کابل کے سوا بیرونی فتوحات کا سلسلہ جاری رہ سکا۔ عہد رسالت سے قرب کی وجہ سے خلافت صدیقی میں اسلامی روح زندہ تھی۔حضرت ابوبکر صحابہ کے مشورے سے امور سلطنت انجام دیتے تھے،غیر عرب عنصر کا کوئی دخل نہ تھا۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں یہی صورت حال برقرار تھی، اس لیے نظام حکومت میں کوئی خلل نہ آیا ،البتہ حضرت عثمان کے زمانے میں حالات بدلنے لگے۔کئی اکابر صحابہ دنیا سے اٹھ گئے اور نئی پود سامنے آگئی۔اموی نوجوان نظام حکومت کو خلافت راشدہ کی شاہ راہ سے ہٹانے کے درپے ہو گئے۔حضرت علی کے دور میں عجمی اثرات کا نفوذ بڑھنے لگا۔نو مسلم عجمیوں کو حضرت علی کیا،اسلام سے بھی کوئی ہم دردی نہ تھی۔وہ محبت اہل بیت کی آڑ میں مسلمانوں سے اپنی قومی تباہی کا انتقام لینا چاہتے تھے، دیر سے اسلام قبول کرنے والے کئی عرب بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ حضرت ابوبکر کا مقابلہ مرتدین، مدعیان نبوت اور منکرین زکوٰۃ سے تھا، مسلمانوں کا بچہ بچہ ان کے ساتھ متحد تھا،جب کہ حضرت علی کو حضرت معاویہ اور ام المومنین حضرت عائشہ کا سامنا تھا۔ اہل ایمان اس باب میں متردد ہو گئے ،نتیجہ یہ ہوا کہ اصحاب رسول تقسیم ہو کر باہم برسر پیکار ہو گئے۔

حضرت علی میں حضرت ابوبکر جیسا تحمل تھا، نہ حضرت عمر جیسا دبدبہ۔وہ مصلحت اندیشی کو بالکل راہ نہ دیتے تھے۔جس تقویٰ اور عدل کے ساتھ وہ حکمرانی کرنا چاہتے تھے، لوگ اسے برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔حضرت علی بیت المال کا ایک حبہ بھی بے جاصرف نہ ہونے دیتے تھے۔کوڑی کوڑی کا حساب لینے کی وجہ سے ان کے اعزہ بھی ان سے کبیدہ خاطر ہو گئے تھے، جب کہ آپ کے حریف حضرت معاویہ اپنا مقصد حاصل کر نے کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کی دادو دہش مخالفین تک کا منہ بند کر دیتی تھی۔

 حضرت علی کے کئی فیصلے سیاسی اعتبار سے غلط ثابت ہوئے۔انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت عبداللہ بن عباس کا مشورہ رد کرتے ہوئے حضرت معاویہ کو معزول کیا اور پھرکچھ نوجوانوں کے کہے میں آکر مدبر گورنر مصر حضرت قیس بن سعد کو ہٹا دیا۔

عہد مرتضوی کی ایک بڑی کم زوری یہ تھی کہ حضرت علی کے کئی اصحاب اورجرنیل کوتاہ ہمت تھے۔انھیں اپنے ساتھ چلانے کے لیے حضرت علی کو بہت زور لگانا پڑتا تھا۔ایک بارانھوں نے بددعا دی:اﷲ، جس طرح ان لوگوں نے میرے ساتھ خیانت و بے وفائی کی تو ان پربنو ثقیف کا ایک ظالم نوجوان مسلط کر دے جو ان کا سبزہ چر جائے،ان کی پوشاکیں چھین لے او ران میں جاہلی فرمان جاری کرے۔ حسن بصری کہتے ہیں: آج کل حجاج یہی کچھ کر رہا ہے۔

حضرت علی نے مدینہ منورہ کی جگہ کوفہ کو دارالخلافہ بنایاتوحضرت عبداللہ بن عمر نے اعتراض کیاتو فرمایا: وہاں مال اور آدمی ہیں۔

حضرت علی کی کامیابیاں

حضرت علی نے نظام خلافت کا احیا کرنے اور شیخین ابوبکر و عمر کا دور زندہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے حضرت عمر کے جاری کردہ نظم و نسق کو ممکن حد تک بحال کیا۔ نجران کے عیسائیوں نے دوبارہ حجاز میں بسنے کی درخواست کی تو فرمایا: عمر سے زیادہ صائب الراے کون ہو سکتا ہے؟انھوں نے حضرت عمر کی طرح اہل حرفہ (کاریگروں )پر ٹیکس عائد کیا۔حضرت علی نے مجاہدین کے نومولودوں کے لیے حضرت عمر کے جاری کردہ وظائف کو برقرار رکھا۔ابن حزم کہتے ہیں : حضرت علی نے خلفاے ثلاثہ،حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کے کسی حکم کوتبدیل کیا،نہ ان کے معاہدوں کو باطل قرار دیا(الفصل فی الملل و الاھواء وا لنحل)۔

حضرت علی نے وظائف کی رقوم یکساں کیں۔

حضرت علی کی سرکاری مہر پر ’اللّٰہ الملک‘ کندہ تھا،کبھی کبھی ’محمد رسول اللہ‘عبارت والی مہر بھی استعمال کر لیتے۔

مسلمانوں کے باہم برسر پیکار ہونے کی وجہ سے حضرت علی کے عہد میں قانون بین الملل international) (lawکی ذیلی قسم قانون بین المسلمین وجود میں آئی۔

حضرت علی نے ایک اہم عدالتی اصلاح یہ کی کہ ایک گواہ دوسرے گواہ کا بیان سن نہ پاتا تھا۔ اس طرح جھوٹے گواہ کی حوصلہ شکنی ہوئی، کیونکہ وہ دوسرے گواہوں کے بیانات سن کر ایک نیا بیان گھڑ لیتا تھا۔

حضرت علی نے حسب ضرورت چھاؤنیاں قائم کیں۔اصطخر کا قلعہ انھی کے دور میں تعمیرہوا۔

 حضرت علی کے عمال

 حضرت عبداللہ بن عباس پہلے یمن، پھربصرہ کے عامل رہے۔ایک روایت کے مطابق وہ حضرت علی کی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔ تمام صدقات اور لشکروں کا انتظام بھی ان کے سپرد تھا۔بصرہ کا منصب قضا ابوالاسود دوئلی کے پاس تھا۔حضرت عبیداللہ بن عباس بحرین اور اس کے قرب و جوار پر مامور تھے۔ طائف، مکہ اور قرب و جوار کا علاقہ حضرت قثم بن عباس کی عمل داری میں تھا۔ زیاد بن ابیہ فارس کے گورنر رہے۔حضرت ابوایوب انصاری (یا حضرت سہل بن حنیف)مدینہ کے عامل تھے۔حضرت علی نے شریح بن حارث کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا، پھر معزول کر دیا۔اقتدارحضرت معاویہ کے پاس آیا تو انھوں نے شریح کو بحال کر دیا۔وہ اس منصب پرستر سال، اپنی وفات تک فائز رہے۔

عمال کوہدایات

حضرت علی محاصل وخراج کی آمدنی کا سختی سے حساب کرتے تھے۔حضرت یزید بن قیس ارحبی نے خراج بھیجنے میں تاخیر کی تو ان کامواخذہ کیا۔عراق کے حکام کی تحقیقات کے لیے حضرت کعب بن مالک کو بھیجا۔ حضرت نعمان بن عجلان کے بارے میں خبر ملی کہ انھوں نے خراج کا مال صحیح مصرف پر خرچ نہیں کیا تو انھیں سخت تنبیہ کی۔حضرت علی یہ حکم دیتے تھے کہ جن زمینوں کا خراج حاصل کر رہے ہو،ان کی آبادی اور شادابی کی کوشش بھی کرو۔

ایک عامل کو ہدایات لکھیں :خرا ج کی وصولی میں اپنی طرف سے کوئی رعایت یا معافی نہ کرنا۔لوگ اس معاملے میں تمھاری طرف سے کم زوری نہ پائیں۔ لوگوں کے گرمی،سردی کے لباس،ان کی خوراک اور باربرداری کے جانور ہر گز نہ بیچنا۔خراج وصول کرنے کے لیے درے نہ لگانا،وصولی کے لیے کسی دوسرے شخص کومسلط نہ کرنا۔اسے تنبیہ کی کہ ا گر میری ہدایات کی خلاف ورزی کی تو میں تمھیں معزول کر دوں گا۔اس نے جواب دیا: ان پر عمل کرنے کی صورت میں تو میں خالی ہاتھ لوٹ آؤں گا۔حضرت علی نے فرمایا:اگرچہ تو خالی ہاتھ لوٹے تمھیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔تاہم عامل کہتا ہے: مجھے (اپنی توقع کے برعکس) پورا پورا خراج موصول ہوا (کتاب امام ابویوسف، الخراج ۱۶۔یحیی ٰبن آدم،رقم۲۳۴ )۔

بنواسد کے عامل ضبیعہ بن زہیرنے فرائض کی انجام دہی کے دوران میں ملنے والے چند ہدیے حضرت علی کو پیش کیے اورپوچھا:اگر یہ میرے لیے حلال ہوں تو میں استعمال کر لوں ؟حضرت علی نے فرمایا: اگر تم یہ چیزیں نہ دیتے تو یہ غلول(خیانت) کے حکم میں آجاتیں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۲۳۹۶)۔

حضرت علی نے اپنے عمال کی اخلاقی نگرانی بھی کی۔والی اصطخرمنذر بن جارودکے متعلق علم ہوا کہ وہ اپنے فرائض چھوڑکر سیرو شکار کونکل جاتے ہیں تو انھیں برطرف کر دیا۔ بخورات اور روغنیات کا استعمال کرنے پر ایک عامل کوتہدید کا خط لکھا۔

عدل و مساوات

دو عورتیں مالی اعانت کے لیے حضرت علی کے پاس آئیں، ایک عرب(حضرت اسمٰعیل کی اولاد میں سے) اور دوسری اس کی لونڈی(حضرت اسحٰق کی نسل میں سے)تھی۔حضرت علی نے دونوں کو برابر،ایک کُرّ (حجازی پیمانے کے اعتبار سے چالیس من بیس سیریاساڑھے پندرہ سو کلوسے کچھ اوپر)غلہ اور چالیس درہم دینے کا حکم دیا۔خادمہ توجو ملا،لے کر چلی گئی، لیکن عرب عورت نے اعتراض کیا:امیر المومنین، آپ نے ہم دونوں کو ایک ہی مقدارمیں غلہ اور نقدی عنایت کی ہے۔ حضرت علی نے جواب دیا:میں نے اللہ کی کتاب میں غور کیا ہے، اس مسئلہ میں اولاداسمٰعیل کو اولاد اسحٰق پرکوئی فوقیت نہیں (السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۱۲۹۹۰) ۔

حضرت علی نے ایک نصرانی کو زرہ فروخت کرتے دیکھا توفرمایا: یہ میری زرہ ہے،میں نے نہ بیچی نہ ہبہ کی۔نصرانی نہ مانا اور کہا: مسلمانوں کے قاضی کے پاس چل کر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ چنانچہ مقدمہ مشہورقاضی شریح کے پاس پیش ہو ا۔عیسائی نے کہا: میں امیرالمومنین کو جھٹلاتا تو نہیں، لیکن یہ زرہ میری ہے۔قاضی نے حضرت علی سے گواہی مانگی توحضرت علی ہنس پڑے اور کہا:میرے پاس کوئی گواہ نہیں۔دوسری روایت کے مطابق انھوں نے اپنے بیٹے اور اپنے غلام قنبر کی شہادتیں پیش کیں۔قاضی شریح نے باپ کے حق میں بیٹے اور آقا کے حق میں غلام کی شہادتیں رد کرتے ہوئے نصرانی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حضرت علی نے نہ صرف یہ کہ فیصلہ قبول کیا، بلکہ قاضی کی تنخواہ میں اضافہ بھی کر دیا۔نصرانی نے زرہ پکڑلی، لیکن چند قدم چلنے کے بعد لوٹ آیااور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ انبیا کے فیصلے ہیں۔میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اورمحمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔واللہ،یہ زرہ آپ ہی کی ہے، آپ صفین کو جا رہے تھے کہ میں نے لشکر کا پیچھاکیا اورآپ کے مٹیالے اونٹ سے زرہ نکال لی۔حضرت علی نے کہا: تو مسلمان ہو گیا ہے تو زرہ اپنے پاس رہنے دے، پھر اسے سواری کے لیے گھوڑا بھی عنایت کر دیا۔وہ خوارج کے خلاف جنگ میں حضرت علی کے ساتھ شریک رہا۔

 جذبۂ خیر خواہی

ایک دفعہ ایک ایسے شخص کا جنازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا جس کے ذمے قرض تھا اور اس کے ترکہ میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے قرض اتارا جا سکتا۔آپ نے صحابہ کو حکم دیا: اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ادا کرلو۔اس موقع پر حضرت علی نے کہا: یا رسول اللہ،اس کے قرض کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، تب آپ جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے اور فرمایا: علی، تم نے اپنے مسلم بھائی کی گردن قرض سے آزاد کرائی ہے،اللہ روز قیامت تمھاری گردن آتش جہنم سے آزاد کرے گا( السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۱۱۷۳۲۔سنن دارقطنی، رقم۲۹۱) ۔

حضرت علی بازارمیں

ایک بارحضرت علی بازار میں تشریف لائے تو دو موٹی چادریں زیب تن کر ر کھی تھیں،تہ بند نصف ساق سے اوپر تھا،ہاتھ میں درہ پکڑا ہوا تھا اور لوگوں سے کہہ رہے تھے:اللہ سے خوف کرو،خریدوفروخت میں راست بازی سے کام لواور ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو(البدایہ والنہایہ)۔

حضرت علی بازار سے گزرتے تو لوگوں کو سلام کرتے جاتے(طبقات ابن سعد،صفۃ علی بن ابی طالب)۔

اجناس کے نرخوں اور ناپ تول کی دیکھ بھال حضرت علی خود کرتے تھے۔

حضرت علی ایک بار لباس خریدنے کے لیے بازار گئے تو دکان دار سے پوچھا:تم مجھے پہچانتے ہو؟اس کے ہاں کہنے پر آگے بڑھ گئے اور دوسرے دکان دار سے یہی سوال کیا۔جب اس نے کہا: میں آپ کو نہیں جانتا تو اس سے قمیص کے لیے کپڑا خریدا۔معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد تھا کہ اگر دکان دار واقف ہوا تو لباس کی صحیح قیمت لے نہ پائے گا(طبقات ابن سعد،علی بن ابی طالب)۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص نصیحتیں

 حضرت علی فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو وقت حاضر ہوتا تھا۔دن کے وقت تو آپ مجھے اندر آنے کی اجازت دے دیتے۔ رات کو یا سحر کے وقت میں جا کر ’السلام علیک یا نبي اللّٰہ‘ کہتا۔آپ فارغ ہوتے تواذن دے دیتے اور اگر آپ نوافل میں مشغول ہوتے تو کھنکھارتے اورمیں لوٹ آتا (نسائی، رقم۱۲۱۳ - ۱۲۱۴۔ابن ماجہ، رقم۳۷۰۸)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا:میں تمھیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں جب تم اداکرو تو تمھاری مغفرت ہو جائے، حالاں کہ تم بخشے بخشائے ہو:’لا إلٰه إلا اللّٰہ الحلیم الکریم، لا إلٰه إلا اللّٰہ العلي العظیم، سبحان اللّٰہ رب السماوات السبع و رب العرش العظیم، الحمد للّٰہ رب العالمین‘، ’’ کوئی معبود نہیں، مگر اللہ جو بردبار اور مہربان ہے، کوئی معبود نہیں، مگر اللہ جو بلند اور عظمت والا ہے،پاکی ہے اللہ کے لیے جو سات آسمانوں کا رب اور عظیم الشان عرش کا مالک ہے،تمام ستایشں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کا پروردگارہے‘‘(ترمذی، رقم ۳۵۰۴۔ احمد، رقم ۷۱۲۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۳۵۶۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۹۶۷۔ صحیح ابن حبان، رقم۶۹۲۸)۔

ایک دن حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے کہا:کنویں سے پانی کے ڈول کھینچ کھینچ کر میراسینہ دکھتا ہے،اللہ نے تمھارے اباکو قیدی عطا کیے ہیں،جا کر اپنے لیے خادم لے لو۔سیدہ فاطمہ نے کہا: واللہ، چکی پیس پیس کر میرے ہاتھوں میں بھی آبلے پڑ گئے۔حضرت فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، لیکن شرم کے مارے کہہ نہ سکیں۔پھر حضرت علی اور حضرت فاطمہ، دونوں گئے اور یہ درخواست کی۔آپ نے فرمایا: واللہ،تمھیں دے دوں اوراہل صفہ کو بھوکا پیٹ چھوڑ دوں،جب کہ ان پر خرچ کرنے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔میں قیدیوں کو بیچ کر ان کی رقم اصحاب صفہ پر لگاؤں گا۔دونوں واپس آ گئے تو آپ رات کے وقت ان کے پاس تشریف لائے۔دونوں چادر اوڑھ کر پڑے تھے۔آپ کو دیکھ کر اٹھنے لگے تو منع کیا اور فرمایا:میں تمھاری فرمایش سے بہتر کلمات نہ بتا دوں جومجھے جبریل نے سکھائے ہیں۔ہرنماز کے بعد دس مرتبہ ’سبحان اللّٰہ‘، دس مرتبہ ’الحمد ﷲ‘ اور دس مرتبہ ’اللّٰہ أکبر‘ پڑھو اور جب سونے کے لیے بستر میں داخل ہو تو تینتیس بار ’سبحان اللّٰہ‘،تینتیس بار ’الحمد ﷲ‘ اور چونتیس بار ’اللّٰہ أکبر‘ کہہ لو۔حضرت علی کہتے ہیں: بخدا، جب سے آپ نے مجھے یہ کلمات تلقین کیے ہیں، میں نے نہیں چھوڑے۔ابن کوا نے پوچھا: اور صفین کی رات؟کہا : ہاں صفین کی رات بھی نہیں چھوڑے(احمد، رقم۸۳۸۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۸۷۳۔مسند بزار، رقم ۷۵۷۔طبقات ابن سعد،ذکر فاطمہ )۔

حضرت علی فرماتے ہیں:آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اکیدر دومہ کاتحفے میں دیا ہوا ریشمی دھاریوں والا (mixed) جوڑامجھے دیا جو میں نے پہن لیا۔ جب آپ کے چہرۂ مبارک پر غصے کے آثار دیکھے تو اسے پھاڑ کر گھر کی عورتوں (حضرت فاطمہ اور ان کی پھوپھی) میں بانٹ دیا (بخاری، رقم ۲۶۱۴۔ مسلم، رقم ۵۴۲۰۔ ابوداؤد، رقم ۴۰۴۳۔ نسائی، رقم ۵۳۰۰۔ احمد، رقم ۱۱۵۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قیمتی جوڑا ہدیہ کیا گیاجس کے تانے یا بانے میں ریشم کی آمیزش کی گئی تھی۔آپ نے یہ حضرت علی کوبھیج دیا۔ انھوں نے سوال کیا: یارسول اللہ، میں اس کا کیا کروں؟کیا پہن لوں؟فرمایا: نہیں،بلکہ اسے فاطماؤں میں اوڑھنیاں بنانے کے لیے بانٹ دو(ابن ماجہ، رقم ۳۵۹۶۔مسند ابو یعلیٰ، رقم۴۳۷)۔

حضرت علی فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ان دوانگلیوں، سبابہ اور وسطیٰ (index & middle fingers) میں انگوٹھی پہنوں،مصر سے آنے والے خانہ دار قسی کپڑے پہنوں اورکجاوے پر ڈالے جانے والے ارغوانی زین پوشوں پر بیٹھوں(مسلم، رقم۵۴۹۰۔ابوداؤد، رقم۴۲۲۵۔ ترمذی، رقم ۲۶۴، ۱۷۸۶۔ نسائی، رقم۱۰۴۳۔ احمد، رقم۱۱۲۴)۔ ترمذی اور نسائی کی روایتوں میں سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی:علی،(عورت پر ) ایک بار نگاہ پڑنے کے بعددوسری نظر نہ ڈالو،اس لیے کہ( اچانک پڑ جانے کی وجہ سے) پہلی نظر تو قابل معافی ہے، جب کہ( جان بوجھ کر )دوسری نظر ڈالنا قابل مواخذہ ہے(ابوداؤد، رقم۲۱۴۹۔ترمذی، رقم۲۷۷۷۔مستدرک حاکم، رقم ۲۷۸۸۔ احمد، رقم ۱۳۶۹۔ مسند بزار، رقم۷۰۱)۔

حضرت علی نے اجازت چاہی :یا رسول اللہ،اگر آپ کے بعد میرا بیٹا ہو تو کیا میں اس کا نام محمد اور آپ والی کنیت ابوالقاسم رکھ لوں ؟آپ نے فرمایا: ہاں،حضرت علی کہتے ہیں : یہ میرے لیے رخصت تھی (ابوداؤد، رقم ۴۹۶۷۔ ترمذی، رقم۲۸۴۳۔احمد، رقم۷۳۰۔مسند ابویعلیٰ، رقم۳۰۳)۔کیونکہ آپ کا واضح ارشاد تھا کہ کوئی آپ کے نام اورکنیت کوجمع کر کے اپنے بیٹے کا نام محمد ابو القاسم نہ رکھے(ترمذی، رقم۲۸۴۱)۔

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے، لیکن اندر داخل نہ ہوئے۔حضرت علی کو پتا چلا تو آپ سے پوچھا۔آپ نے فرمایا:میں نے گھر کے دروازے پر رنگین نقش ونگار والا پردہ لٹکا دیکھا تھا۔ حضرت فاطمہ نے کہا: آپ اس بارے میں حکم فرمائیں۔آپ نے فرمایا :فلاں شخص کو بھیج دو، ان کے گھر میں ضرورت ہے(بخاری، رقم۲۶۱۳۔ابوداؤد، رقم۴۱۴۹۔ احمد، رقم ۴۷۲۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۵۱۵)۔ دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت فاطمہ اور حضرت علی کے سا تھ کسی اورشخص کے گھر جانے کا ذکر ہے۔ آپ نے وہاں منقش رنگین(یا باریک ) پردہ لٹکا دیکھا تو لوٹ آئے اور فرمایا: مجھے یا کسی نبی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آرایش و زیبایش والے گھر میں داخل ہو (ابوداؤد، رقم ۳۷۵۵۔ابن ماجہ، رقم۳۳۶۰۔ احمد، رقم ۲۱۹۲۲)۔

حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی زندگی میں ابوجہل کی بیٹی کونکاح کا پیغام بھیجا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پرکھڑے ہو کر خطاب فرمایا:فاطمہ، میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے،مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی اسے تکلیف دے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے دین میں کسی فتنہ( جلاپا یا حسد) میں نہ پڑ جائے... میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا،لیکن اللہ کی قسم، رسول اللہ کی بیٹی اور دشمن خدا(ابوجہل) کی بیٹی ایک گھر میں کبھی جمع نہ ہوں گی(بخاری، رقم۳۱۱۰، ۳۷۲۹۔مسلم، رقم ۶۳۰۹۔ابوداؤد، رقم۲۰۶۹۔ احمد، رقم ۱۶۱۲۳)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پرایستادہ ہو کر فرمایا:ہشام بن مغیرہ کے پوتوں (ابوجہل کے بیٹوں ) نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی علی سے بیاہنا چاہتے ہیں۔میں اجازت نہ دوں گا،میں اجازت نہ دوں گا،میں اجازت نہ دوں گا،ہاں ابوطالب کا بیٹا اگرچاہتا ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کر لے (بخاری، رقم۵۲۳۰۔مسلم، رقم۶۳۰۷۔ابوداؤد، رقم۲۰۷۱۔ ترمذی، رقم ۳۸۶۷ ۔ ابن ماجہ، رقم۱۹۹۸)۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی حضرت منذر بنت قیس انصاریہ کے گھر گئے جہاں انگوروں کے خوشے لٹک رہے تھے۔آپ کھڑے ہو کر کھانے لگے۔حضرت علی بھی آگے بڑھے توآپ نے منع کر دیا اور فرمایا: تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو۔حضرت منذر جو اور چقندر بناکر لائیں تو آپ نے فرمایا:یہ کھاؤ، یہ تمھارے لیے مفید ہے(ابوداؤد، رقم۳۸۵۶۔ترمذی، رقم۲۰۳۷۔ابن ماجہ، رقم۳۴۴۲۔ احمد، رقم ۲۷۰۵۱)۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کودو غلام بھائی ہدیہ کیے۔انھوں نے ان میں سے ایک بیچ دیا۔آپ کو پتا چلا تو اسے فوراً واپس لانے کا حکم دیا اور فرمایا:دونوں کو ایک ساتھ بیچو یا دونوں کو پاس رکھو(ترمذی، رقم ۱۲۸۴۔ابن ماجہ، رقم۲۲۴۹۔احمد، رقم۷۶۰۔مسند بزار، رقم۶۲۴)۔

حضرت علی نے ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے ایک خادم عنایت کریں ۔آپ نے فرمایا:گھر میں تین ہیں،ایک تم لے لو۔ حضرت علی نے کہا: آپ خود ہی چن کر دے دیں۔آپ نے ایک غلام دیا اور نصیحت فرمائی: اسے مت مارنا ،میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے اورہمیں نمازیوں کو پیٹنے سے منع کیا گیا ہے (احمد، رقم ۲۲۱۵۴۔المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۸۱۰۰) ۔ 

حضرت حسن کونصیحت

حضرت علی نے فرمایا:بیٹے ،کسی ملنے والے کی تحقیر نہ کرنا،تجھ سے بڑا ہوا تواپنے باپ کی جگہ شمار کرنا،ہم عمر ہوا تو بھائی سمجھنا اور اگر چھوٹا ہوا تو بیٹے کی طرح برتاؤ کرنا۔

حرمت خمر

حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے ایک انصاری صحابی نے حضرت علی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی دعوت کی اور انھیں شراب پلا دی۔حضرت علی مغرب کی نمازپڑھانے کھڑے ہوئے اور سورۂ کافرون کی تلاوت شروع کی۔انھوں نے آیات کوخلط ملط کر دیا توحکم ربانی نازل ہوا:’

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰي حَتّٰي تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ‘، ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو،نشے کے حال میں نماز کے پاس نہ جایا کرو، یہاں تک کہ تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو‘‘(النساء ۴: ۴۳۔ ابو داؤد، رقم ۳۶۷۱)۔

اصحاب رسول کی شکر رنجیاں

جب افک عائشہ کا واقعہ ہوا،آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ اورحضرت علی سے مشورہ کیا۔ حضرت اسامہ نے کہا،وہ آپ کی اہلیہ ہیں، ہم توان کی بھلائی ہی جانتے ہیں۔حضرت علی نے کہا:یا رسول اﷲ، اللہ نے آپ پرتنگی نہیں کی۔عائشہ کے علاوہ بھی بے شمار عورتیں ہیں۔آپ ان کی باندی بریرہ سے پوچھیں،وہ سچ بتا دے گی۔آپ نے حضرت بریرہ کو بلا کر سوال کیا:کیا تم نے عائشہ میں کوئی قابل اعتراض بات دیکھی ہے؟ اس نے کہا: میں نے اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھی کہ وہ نو عمر ہیں،آٹا کھلا رکھ کر سو جاتی ہیں اورگھرکی پالتو کبوتری اسے کھا جاتی ہے(بخاری، رقم۲۶۶۱)۔

 خلیفۂ اول ابوبکر کی بیعت ہو چکی تووہ منبر پر بیٹھے اور حاضرین پر ایک نظر ڈالی۔انھیں حضرت زبیر اور حضرت علی دکھائی نہ دیے تو انھیں بلایا اور کہا:کیا تم ملت اسلامیہ کی مخالفت کرنا چاہتے ہو؟دونوں نے معذرت کرکے ان کی بیعت کر لی۔

ایک شخص حمران نے عہد عثمانی کے گورنر کوفہ حضرت ولید بن عقبہ کے خلاف گواہی دی کہ انھوں نے فجر کی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد(نشے کی حالت میں ) لوگوں سے پوچھا:کیا اور پڑھاؤں ؟ایک اور آدمی نے شہادت دی کہ اس نے انھیں قے کرتے دیکھا ہے۔حضرت علی نے ان پر حد جاری کرنے کا مشورہ دیا۔حضرت عثمان نے انھیں ہی کوڑے لگانے کوکہا۔انھوں نے حضرت حسن کو کہہ دیا۔حضرت حسن نے ناراض ہو کر جواب دیا: امورخلافت میں سے مشکل (اور گرم) کام اسی کو دیں جس نے آسان (اور ٹھنڈے)کام اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ تب حضرت عثمان کے کہنے پر حضرت عبداﷲ بن جعفر نے کوڑے لگائے،حضرت علی نے چالیس تک گنتی پوری کی (مسلم، رقم ۴۴۵۷۔ ابوداؤد، رقم۴۴۸۰۔ احمد، رقم۶۲۴۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۸۹۹۸۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۵۰۴)۔

حضرت علی نے حضرت محمد بن مسلمہ کوبلا کر پوچھا:تمھیں جہاد میں شامل ہونے سے کس شے نے روک رکھا ہے؟انھوں نے کہا: آپ کے چچا زاد، (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم )نے مجھے تلوار سونپ کر فرمایا تھا:اسے اس وقت تک استعمال کرنا جب تک دشمن سے قتال کیا جائے۔جب تو دیکھے کہ لوگ (مسلمان)ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں توتلوارلے کر کسی چٹان پر چلے جانااور اس پر ضرب لگا کرکے اسے توڑ دینا۔پھر گھر سے چپکے رہنا، حتیٰ کہ فیصلہ کن موت آ جائے یا گناہ گارحاکم پکڑ لے۔حضرت علی نے یہ ارشاد سن کرکہا: ان کو جانے دو(احمد، رقم ۱۷۹۷۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۸۳۰۴۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۸۶۵) ۔

حضرت اسامہ بن زید مسلمانوں کی باہمی جنگ کو اچھا نہ سمجھتے تھے، اس لیے جمل و صفین کی جنگوں میں حضرت علی کے ساتھ شریک نہ ہوئے۔بعد میں انھوں نے کسی ضرورت کے لیے اپنے غلام حرملہ کو حضرت علی کے پاس بھیجا تو انھوں نے کچھ نہ دیا،لیکن جب حرملہ حضرت حسن،حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر کے پاس پہنچاتو انھوں نے اتنا مال لدوا دیا کہ اونٹ کے لیے اٹھانا مشکل ہو گیا(بخاری، رقم۷۱۱۰)۔

حضرت اہبان بن صیفی (حضرت حکم بن عمرو غفاری:حاکم)صحت یاب ہوئے تو حضرت علی بصرہ میں ان کے گھر گئے اور انھیں اپنی فوج میں شامل ہو کر جنگ پرجانے کی دعوت دی۔ انھوں نے جواب دیا:میرے خلیل اور آپ کے چچا زاد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت فرمائی تھی :جب مسلمانوں کے بیچ فتنہ برپا ہو جائے توتم لکڑی کی ایک تلوار پکڑ لینا۔ میں نے یہ تلوارتھام لی ہے، اگر آپ کہتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہو لیتا ہوں۔اس پر حضرت علی غصے سے لوٹ آئے اور کہا: ہمیں آپ کی نہ آپ کی تلوار کی ضرورت ہے(ترمذی، رقم ۲۲۰۳۔ ابن ماجہ، رقم ۳۹۶۰۔ احمد، رقم ۲۰۶۷۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۸۶۷۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۸۴۵۷)۔ ابن حجر کہتے ہیں :اہبان صحابی نہ تھے، وہ اپنے ماموں حضرت ابوذر غفاری سے سماع کردہ روایتیں بیان کرتے ہیں۔

حضرت معاویہ کی موجودگی میں حضرت بسربن ارطاۃ نے حضرت علی کو گالم گلوچ کی ۔حضرت عمر کے بیٹے زیدبھی موجود تھے جو حضرت علی کی بیٹی ام کلثوم کے بطن سے تھے۔انھوں نے ڈنڈا مار کر حضرت بسرکا سر پھاڑ دیا۔ حضرت معاویہ نے ان دونوں میں صلح کرائی۔    

 حضرت علی کاتقویٰ اور امانت

حضرت علی نے ایک بار فرمایا:میں نے مال فے سے یہ ایک پیالہ ہی لیا ہے جو ایک کسان نے مجھے ہدیہ کیا تھا۔

حضرت علی کی خادمہ حاضر ہوئی تو آپ کے سامنے قرنفل(لونگ)کا ہار پڑا تھا۔اس نے اپنی بیٹی کے لیے مانگا تو کہا:یہ مسلمانوں کا مال ہے، درہم دکھا کر لے لو یا کچھ صبرکر لو۔ہمارے حصے میں آیا تو ہم تمھاری بیٹی کوہبہ کر دیں گے(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۳۵۷۳)۔

ایک بار کچھ لیموں حضرت علی کی خدمت میں لائے گئے۔حضرات حسنین اپنے لیے اٹھانے لگے تو ان کے ہاتھ سے لے لیے اور حکم دیا کہ انھیں مستحقین میں تقسیم کر دیا جائے(مصنف ابن ابی شیبہ۱۳/ ۲۸۲)۔

حضرت علی کے عہد میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ابورافع بیت المال کا خزانچی تھا۔ایک دن انھوں نے دیکھا کہ اس کی بیٹی نے خوب بناؤ سنگھار کر رکھا ہے اور بیت المال کا ایک قیمتی موتی ٹانک رکھا ہے۔انھوں نے غلام سے پوچھا:یہ موتی اس کے پاس کیسے آیا،خدا کی قسم، اب مجھ پر اس کاہاتھ کاٹنا لازم ہے۔ذرا دھمکانے پروہ مان گیا کہ اس نے یہ بیت المال سے لیا ہے۔حضرت علی نے موتی واپس جمع کرایا اور کہا:میری سیدہ فاطمہ سے شادی ہوئی تو میرے پاس کوئی بستر نہ تھا۔بکرے کی ایک کھال تھی، جس پر ہم رات کو سوتے اور دن کے وقت اسی پر چارہ بنا کر اپنی اونٹنی کو کھلاتے۔

اصفہان سے مال غنیمت آیا تو حضرت علی نے اسے فوج کے سات یونٹوں کے مطابق سات حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک روٹی تقسیم ہونے سے بچ گئی تو اس کے بھی سات ٹکڑے کرکے مال کے ساتوں حصوں پر رکھوا دیے۔پھر قرعہ ڈالا کہ کس یونٹ کو پہلے غنیمت دی جائے(السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۱۲۹۸۹)۔

حضرت علی خورنق میں تھے، سخت سردی کے موسم میں ایک پھٹی ہوئی اونی چادر تھی جسے اوڑھ کرکپکپا رہے تھے۔واقعہ بیان کرنے والے ہارون بن عنترہ نے کہا: امیر المومنین،اللہ نے اس مال میں آپ کا اور آپ کے اہل خانہ کا حصہ مقرر کر رکھا ہے۔ جواب دیا: میں تم سے کچھ نہیں لینا چاہتا، یہ چادر میں مدینہ سے لے کر آیا تھا۔

حضرت علی کے مقررہ گورنر اصفہان عمرو بن سلمہ کچھ مال اور مشکیزے لائے جن میں شہد اور گھی تھا۔ان کی صاحب زادی ام کلثوم کوپتا چلا تو ایک مشکیزہ شہد اور ایک گھی کا منگوا لیا۔اگلے روزامیر المومنین مال غنیمت تقسیم کرنے لگے تواپنی کی ہوئی گنتی میں سے دو مشکیزے کم پائے۔ عمرو سے پوچھا: انھوں نے پہلے تو چھپایا، لیکن حضرت علی کے اصرار پر بتا دیا۔فوراً ام کلثوم سے مشکیزے منگوائے گئے تو ان میں کچھ گھی اور شہد کم نکلا۔ تاجروں سے استعمال شدہ شہد اورگھی کی قیمت لگوائی گئی تو تین درہم نکلی۔حضرت علی نے ام کلثوم سے یہ رقم وصول کی تو مال غنیمت بانٹا۔

حضرت علی کا معمول تھا کہ روزانہ بیت المال خالی کر کے سوتے۔اگر کسی مصروفیت سے ایسا نہ ہو پاتا تو علی الصبح یہ کام کرتے اور پکارتے: اے دنیا، کسی اور کو دے لے، مجھے دھوکا نہ دینا۔ایک باربیت المال میں موجود تمام مال مسلمانوں میں تقسیم کر کے جھاڑو لگوایا اور اس میں نوافل ادا کر کے اللہ سے امید ظاہر کی کہ یہ روز قیامت ان کے حق میں گواہی دے گا(الاستیعاب)۔

حضرت علی اس تھیلے کے منہ پر جس میں ان کا جو کا آٹا ہوتا، مہر لگا دیتے اور کہتے:میں چاہتا ہوں کہ میرے پیٹ میں وہی جائے جس کا مجھے علم ہو۔

 کار خویش بدست خویش

حضرت علی نے ایک درہم کی کھجوریں خرید کر کپڑے میں لپیٹ لیں۔لوگوں نے کہا: ہم اٹھا لیتے ہیں توکہا: کنبے کا سربراہ اسے اٹھانے کا زیادہ حق رکھتا ہے(الادب المفرد،بخاری:باب الکبر)۔

وادی الفرع میں موجود حضرت فاطمہ کے چشمے اور نخلستان کی نگہداشت حضرت علی خود کرتے تھے۔نجاشی کے بیٹے ابونیزر کے نام سے موسوم چشمہ حضرت علی نے خود کھودا۔

رعایا کے قضیوں کا حل

ایک بار حضرت علی قبیلہ ہمدان گئے اور دو گروہوں کوباہم دست و گریباں دیکھا۔وہ ان کے بیچ گھس گئے اورانھیں الگ الگ کر دیا۔ایک آدمی نے مدد کے لیے پکارا اور بتایاکہ میں نے اس شخص کو کپڑا فروخت کیا ہے۔ اس نے دام میں کٹے ہوئے،کھوٹے درہم دے دیے۔میں نے تبدیل کرنے کوکہا تومجھے طمانچہ مار دیا۔ حضرت علی نے اس کے دعوے پر گواہی لی اور قصاص لینے کوکہا۔اس نے معاف کر دیا تونو کوڑے مارنے کے بعد کہا: یہ سلطان کی طرف سے سزا ہے۔ اس طرح کی دوسری روایت میں کپڑے کی جگہ بکری کے سودے کا ذکر ہے۔

مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح (بخاری، شرکۃ دار الارقم )، المسند الصحیح المختصر (مسلم: صالح بن عبدالعزیز)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی )،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، البدایۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تاریخ اسلام ( شاہ معین الدین)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (البانی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ جات:محمد حمید اللہ، مرتضیٰ حسین فاضل)،سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)۔

[باقی]

___________

B