HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی: دینی اور سماجی تناظر میں متعلقہ مسائل کا جائزہ اور تجاویز

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

رضامندی سےہم جنس پرستی ، جنسی زیادتی اور جنسی زیادتی کے بعد قتل ـــــــــ  ہم جنس پرستی سے متعلق یہ تین صورتیں ملک میں گذشتہ کچھ برسوں میں رپورٹ ہونے والے واقعات کے تناظر میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں ۔ ایسےحالیہ واقعات کے نمایاں ہو کر سامنے آنے کی دو وجوہات ہیں: آبادی میں اضافہ اور سوشل میڈیا کا پھیلاؤ۔ آبادی میں بڑھوتری کے ساتھ ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔دوسرے یہ کہ ہر معلوم واقعہ کا سوشل میڈیا پر چرچا ہونااسے زبان زدعام کر دیتا ہے جس سے ان کے کثرت وقوع کا تاثر مزید مضبوط ہوتا ہے۔ تاہم آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی شرح کم و بیش وہی ہے جو سماج میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور سے پہلے ایسے واقعات کی رپورٹنگ محدود تھی اور آبادی کم ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد بھی کم تھی، اس لیے سماج میں کوئی موثر ارتعاش برپا کرنے کے بجاے یہ اپنے دائرے میں ہی معدوم ہوجایا کرتے تھے۔ تاہم اب ان واقعات کے خلاف سماج کی بڑھتی حساسیت سماجی سطح پر ایک اہم پیش رفت ہے، جس سے متعلقہ قانونی،سماجی اور ذہنی ڈھانچے میں بہتری لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی سے متعلق یہ واقعات سماج کے مختلف طبقوں کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔جنسی زیادتی کے بعد قتل کے جرم کے علاوہ، مدارس دینیہ کا حصہ اس معاملے میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے ، جب کہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعات زیادہ تر مدارس کے باہر کے جارحین کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔

اس مسئلے کا درست تجزیہ کرنے کے لیے چند اصولی باتیں باور کرنا ضروری ہے،اس کے ساتھ اپنے سماج کے حقیقت پسندانہ تجزیے کو بھی گوارا کر لیا جائے توان مسائل کے ممکنہ قانونی اور سماجی حل میں یقیناً مدد مل سکتی ہے ۔

 اس مسئلے کے تین فریق ہیں: بچے، والدین اور فاعل (بچے کے ساتھ جنسی عمل کرنے والا)، جس کی ایک صورت اس کاجارح (زیادتی کرنے والا) ہونا بھی ہے۔

ہم جنس پرستی کے ایسےواقعات کیوں ہوتے ہیں؟ اس مضمون میں اس مسئلے کا دینی اور سماجی پس منظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ جارح کو زیادتی کا موقع کیسے ملتا ہے، اس تناظر میں والدین اور تعلیم گاہوں، خصوصاً مدارس ـــــــــ جہاں یہ واقعات تسلسل سے پیش آتے ہیں ـــــــــ کے کردار پر بحث کی گئی ہے ۔ اس مضمون میں ہم ان جرائم کی پیدایش کے مذہبی، سماجی،،معاشی اور قانونی ذرائع اور منابع کو نمایاں کریں گے اور اس کے ساتھ ان کی روک تھام کی تجاویز پیش کریں گے۔

 جنسی زیادتی کے بعد قتل کی وارداتوں میں اضافہ یقیناً تشویش ناک ہے، لیکن یہ اس جرم کی انتہائی صورت ہے ۔ جنسی زیادتی کے اصل جرم کے حجم کے مقابلے میں یہ Tip of Iceberg ہے۔ یہ پکتے ہوئے لاوے کی سطحی پھنکار ہے۔ اصل جرم کیفیت کے اعتبار سے اگرچہ کم شدید، مگر حجم کے اعتبار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ قتل کا خون تو پکار اٹھتا ہے، مگر آہوں اور سسکیوں کی آوازیں کم ہی سنائی دیتی ہیں۔آنسو جب تک خون بن کر آنکھوں سے بہ نہیں پڑتے، دکھائی نہیں دیتے۔ آہ جب تک کسی مردہ جسم میں سرد نہ ہو جائے، سنائی نہیں دیتی۔

چند اصولی باتیں

معاملے کی درست تفہیم کے لیے چند اصولی باتیں طے کرنا ضروی ہیں:

پہلی بات یہ کہ طاقت ور اور کم زور کے تعامل میں جہاں کہیں قانون غیر موجود یا غیر موثر ہوگا اور کم زور کی حمایت میں سماجی دباؤ کم ہو گا، طاقت ور، کم زور کا استحصال کرنا چاہے گا۔ کسی ذاتی اخلاقی قوت کے علاوہ کوئی چیز اس سے مانع نہیں ہوسکتی، اور یہ اخلاقی قوت عملاً کم ہی موثر ہو پاتی ہے۔زیر بحث معاملہ میں کم زور فریق کم سن بچہ ہے، جو اپنے سے طاقت ور افراد (استاد، ہم سبق/ہم مکتب، قریبی رشتہ دار، محلے داروغیرہ)کی حراست میں آجاتا ہےاور استحصال سے مراد جنسی زیادتی ہے۔

دوسرے یہ کہ طویل یا معتد بہ اوقات کے لیے کم سن بچوں کا متعلقہ طاقت ور اور باختیارافراد کو دستیاب ہونا انھیں بچوں کے استحصال پر ابھارتا ہے۔ جسمانی تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب وہاں زیادہ ہوگا جہاں یہ امکانات زیادہ ہوں گے۔

اپنے فطری اورحقیقی نگہبانوں (والدین) کی عدم نگرانی میں دستیاب کم سن بچے، کسی قریبی رشتہ یا محلے دار کو دستیاب ہوجائیں یا بڑی عمر کے ہم سبق، ہم مکتب لڑکوں یا بااختیار استاد کو، انھیں استحصال کرنے کا میدان میسر آجاتا ہے۔ اس اصول کے تحت دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ امکانات گھر یا محلے میں ٹیوشن کے دوران میں ایک محدود وقت کے لیے میسر ہیں، اسی وجہ سے یہاں پیش آنے والے واقعات کا تناسب بھی نسبتاً کم ہے۔ یہاں ایسے حادثات کی روک تھام آسان بھی ہے۔ کم سن بچوں کو اول تو ٹیوشن کی ضرورت نہیں۔ اسکول کے بعد انھیں پڑھانا کسی وجہ سے ضروری ہو تو گھر میں اور ٹیوشن سنٹر میں تدریس کی جگہ ایسی ہونی چاہیے کہ مختلف اطراف سے نظر رکھی جا سکے۔ چونکہ یہاں تعلیم کا معاوضہ دیا جاتا ہے، اس لیے ایک ممکنہ فاعل اور جارح مالی نقصان سے بچنے کے لیے بھی ایسی کسی حرکت سے بچنے کو ترجیح دیتا ہے۔

بچے سے زیادتی سے متعلق مذکورہ بالا امکانات سب سے زیادہ مدارس کے ماحول میں میسر ہیں ، یعنی قانون اورجواب دہی کے نظام کا کم موثر یاغیر موثر اور سماجی دباؤ کم ہونا، بچے کا طویل اوقات کے لیے مدارس میں موجود ہونا۔چنانچہ یہاں اس جرم کے وقوع کا تناسب دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہوناتعجب انگیز نہیں ہے۔

کم سن بچے اسکولوں میں بھی طویل اوقات کے لیے موجود ہوتے ہیں، مگر وہاں اس قسم کے واقعات کاپیش آنا تقریباًنہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اور وہ یہ کہ یہاں کاروباری نفسیات کارفرما ہے۔ تعلیم کا معاوضہ دیا جاتاہے ۔ بچے گویا گاہک ہوتے ہیں، جنھیں خوش اور راضی رکھنا اسکول انتظامیہ کی ترجیح ہوتی ہے۔ جنسی زیادتی تو درکنار کوئی اور حادثہ بھی پیش آ جائے تو اسکول کی شہرت داؤ پر لگ سکتی ہے، ان کاکاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر بچوں سے جنسی زیادتی کے مواقع اور امکانات پیدا نہیں ہونے دیے جاتے:کم سن بچوں کو پڑھانے کے لیے عموماً خواتین اساتذہ رکھی جاتی ہیں، ہم سن بچوں کے کمرہ ہاے جماعت الگ الگ ہوتےہیں،اس عمر کے بچوں کے اسکول رہایشی نہیں ہوتے۔ اسکولوں میں تنہائی (privacy) کے مواقع کم یاب ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس، مدارس کاروباری نفسیات سے آزاد ہوتے ہیں۔ عطیات اور چندے کے پیسوں سے مدارس کے اخراجات چلائے جاتے ہیں۔تعلیم مفت ہے۔ مفت میں دی چیز احسان مندی کا تقاضا کرتی ہے اور احسان مند کا استحصال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہاں بچے کو خوش اور راضی رکھنا مجبوری یا ترجیح نہیں ہوتا ۔ چنانچہ یہاں تشدد سے لے کر ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی کے قبل از وقوع روک تھام پر کوئی موثر توجہ نہیں ہوتی۔ مدارس میں اس بات کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا اور نہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ مختلف عمروں کے بچوں کو الگ الگ جماعتوں میں بانٹ کر پڑھایا جائے۔ مدارس کا بجٹ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چھوٹے بڑے، سب بچے ایک چھت کے نیچے ایک ہی ہال میں قرآن حفظ کرتے ہیں۔ ان کی مختلف ٹکڑیوں میں بھی مختلف عمروں کے بچے ملے جلے ہوتے ہیں۔ یوں بڑے لڑکوں کی چھوٹے بچوں تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔استاد مرد ہوتے ہیں، اور مدرسے کے اندر اساتذہ کے حجرےہوتے ہیں جہاں بغیر اجازت آنا منع ہوتا ہے۔ معیاری اسکولوں میں کیمرے نصب ہوتے ہیں، جب کہ مدارس میں یہ رجحان اب تک نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ اس کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔

قرآن مجید کا استاد ہونے کی بنا پر مدرسہ اور قاری صاحب کے ساتھ جڑے تقدس اور احترام کے رشتے استاد کو زیادہ با اختیار بنا دیتے ہیں۔ استاد کی شکایت کرنے پر خود بچے کو ہی بے ادب قرار دے دیے جانے کا رجحان مضبوط ہے۔ بچے پر تشدد کے معاملے میں استاد کو مطلق اختیار والدین کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہاں ظالم و مظلوم کا رشتہ سماجی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔اختیار کا یہی استعمال جنسی زیادتی کےلیے ممد ہو جاتا ہے۔

جہاں تک مدارس میں ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی کے بارے میں فاعل کے خلاف ضابطہ کی کارروائی کا تعلق ہے، تو جب تک پکا ثبوت ہاتھ نہ آئے یا معاملہ مدرسے کی بدنامی کو پہنچ نہ جائے،مدارس کی انتظامیہ عموماً اس معاملے میں صرف نظر سے کام لینا پسند کرتے ہیں۔ کسی فاعل کے خلاف کارروائی ہو بھی تو خود احتسابی کے اندرونی نظام کے تحت ہوتی ہے۔پولیس کو شامل نہیں کیا جاتا تاکہ مدرسے کی بدنامی نہ ہو۔ اس طرح فاعل کی سماجی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اسے مدرسے، مسجد سے نکال بھی دیا جائے تو وہ کسی دوسرے مدرسےیا مسجد میں بہ آسانی شمولیت اختیار کر کے اپنے رجحان کی تسکین کے مواقع تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے۔ فاعل کی جنسی بے راہ روی کی تشہیر نہ کرنا عیوب پر پردہ ڈالنے کے دینی مثبت تصورسے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طالب علم یا استاد کی جڑیں اور تعلقات زیادہ مضبوط ہوں، اس کے خلاف بولنا یا کارروائی کرنا عموماً احاطۂ امکان سے باہر رہتا ہے۔ فاعل اگر مہتمم ہو تو اسے مستقل مامونیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے رجحانات فاعل اور جارح کے لیے حوصلہ افزا ہوتے ہیں۔

یہاں دو سوال قابل غور ہیں

پہلا یہ کہ بچوں سے جنسی تعلق اور زیادتی کرنے پر مائل ہونے کے عوامل کیا ہیں؟

دوسرا یہ کہ مدارس میں کم سن بچوں کو داخل کرانے کے رجحان کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ داخلہ والدین کی رضامندی، بلکہ ان کی خواہش پر ہوتا ہے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس رضامندی اور خواہش کے پیدا کرنے کے محرکات کیا ہیں جو والدین کو اپنے بچوں کے لیے یہ خطرات مول لینے پر مجبور کرتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ مدارس کی طرف سے جنسی زیادتی کے واقعات تسلسل سے رپورٹ ہونے کے باوجود کم سن بچوں کے مدارس میں نئے داخلوں میں کوئی محسوس کمی آئی ہے اور نہ پہلے سے موجود بچو ں کو نکال لیا گیا ہے۔ہمارے نزدیک اس کے دو عوامل ہیں: دینی اور سماجی۔

پہلے ہم دوسرے سوال کی طرف متوجہ ہوں گے کہ کم سن بچوں کو مدارس میں داخل کرانے کا رجحان اتنا مضبوط کیوں ہے؟

دینی عامل

مذہبی طبقات کی طرف سے مسلم سماج کو ایک طویل عرصے سے مسلسل یہ باور کرایا گیا ہے کہ حفظ قرآن ایک بہت بڑی سعادت ہے، جس کے حصول کے لیے بہترین عمر بچپن کی ہے؛گھرانے کا ایک حافظ بچہ پورے خاندان کو، جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی، جنت میں لے جانے کا سبب بنے گا[1]، حافظ کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی[2]، وغیرہ۔یہ اور اس قسم کی دیگر ضعیف روایات کے ذریعے سےوالدین کے دینی جذبات کو انگیخت کیا جاتا ہے۔ جہنم کی آگ کا خطرہ دنیا کے کسی بھی خطرے کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، اس لیے والدین ہر خطرہ مول لے کر بچےکو حفظ کرانے پر تُل جاتے ہیں۔ جہنم سے تحفظ اور جنت کی طلب کی یہ خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے کہ حفظ کے لیے کم سن بچوں کو اپنے گاؤں ، محلے اور شہر سے دور کے مدرسے میں داخل کرانا بہتر سمجھا جاتا ہے۔اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے علاقے کے مدرسے میں بچے کی توجہ اپنے گھر، والدین، بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور کزنز ومقامی دوستوں، وغیرہ کی یاد اور ملن کی تڑپ میں بھٹکتی ہے،اس لیے بچے کوان تمام رشتوں ناتوں سے دور کسی باہر کے مدرسے میں بھیجا جائے، جہاں وہ کوئی شناسا نہ پائے اور یوں مختلف عمر اور مختلف علاقوں کے لڑکوں اور اساتذہ کےاجنبی ماحول میں وہ پوری توجہ سے قرآن مجیدحفظ کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یوں بچے کا بچپن تو تباہ ہو ہی جاتا ہے، اس کی معصومیت بھی ہمہ وقت خطرے میں رہتی ہے۔ بچہ جتنا کم عمر اور خوش شکل ہوتا ہے، اس کے استحصال کے امکانات اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔

والدین کی آخرت سے متعلق یہ لالچ اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ حفظ قرآن کی اس غیر واجب رسم کے لیے وہ بچے پر نہ صرف خودتشدد کرتے ہیں، بلکہ اساتذہ کو بھی اس کی کھلی اجازت دیتے ہیں۔ اس پر یہ بے بنیاد روایت بھی مشہور کرا رکھی ہے کہ جسم کے جس حصے پر استاد کی مار پڑے گی، اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ یہ معاملہ یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ تشدد کی صورت میں بچہ اگر شدید زخمی ہو جائے یا اس کی موت واقع ہو جائے تو والدین استاد کو معاف کر دیتے ہیں ،کیونکہ ان کے مطابق بچہ خدا کی راہ میں شہید ہوا ہے اور والدین کے لیے جنت میں داخلے اور جہنم سے دفاع کی جس ضمانت کے لیے اسے برسوں محنت کرنا تھی، وہ سفر جلد طے ہوگیا، بچہ ان کے لیے آخرت کا ذخیرہ بن گیا۔ استاد کی ’’خدمت‘‘کے لیے استاد کو سزا کیوں دی جائے۔ قانون اور سزا سے یہ بے خوفی تشدد پر آمادہ طبائع کی کتنی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اختیار کی یہ بے قیدی اور سزا سے کم خوفی بچے کے جنسی استحصال کی طرف مائل طبائع کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔

جہاں بچوں کے بارے میں والدین کی حساسیت کا یہ عالم ہو، وہاں بچے کے لیے جنسی زیادتی کا خطرہ جانتے بوجھتے مول لینا والدین کے لیےکم اہم ہو جاتا ہے۔ راقم کو ایسے والدین دیکھنے کا موقع ملا جن کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی، انھیں خبر کی گئی اور وہ بچے کو تسلی دے کر پھر اسی مدرسے میں ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت ہوا تو ایسے ہی کسی دوسرے مدرسے میں اسے داخل کرا دیا، مگر حفظ مکمل کرائے بناوہ اسے واپس لے جانے پر تیار نہ ہوئے۔

سماجی عوامل

اس میں درج ذیل عوامل شامل ہیں:

غربت

گھرانے کی کم آمدنی اور مفلسی بچوں کو مدارس میں داخل کرانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مدارس میں طلبہ کو رہایش، کھانا اور کپڑے وغیرہ مفت ملتے ہیں۔ دوسرا فائدہ دینی تعلیم کا ہوتا ہے۔ امکان ہوتا ہے کہ مفت پرورش کے ساتھ بچہ اگر حافظ، قاری اور عالم بھی بن جائے تو نہ صرف سماج میں عزت ملتی ہے، بلکہ امکان ہوتا کہ وہ برسرروزگار بھی ہو جائے گا۔ کسی مدرسے یا مسجد میں ملازمت مل جائے گی یا اپنا مدرسہ یا مسجد کھول سکتا ہے۔ لیکن بچہ اگر کچھ بھی نہ بن پائے تو اسے اس وقت تک مدرسے میں پھر بھی رکھوایا جاتا ہے، جب تک وہ کمائی کرکے والدین کا سہارابننے کے قابل نہیں ہو جاتا۔ جب وہ اس قابل ہو جاتا ہے تو اسے مدرسے سے اٹھوا کر کام پر ڈال دیا جاتا ہے۔

کثیر العیال ہونا

کثیر العیال ہونا نہ صرف مذہبی طور پر مستحسن سمجھا جاتا ہے، بلکہ سماجی لحاظ سے ایسا گھرانا ایک طاقت ور گھرانا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے دیہی اور قبائلی ماحول میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ قانون کی بالادستی سے محروم سماج میں کثیر العیال ہونا ذاتی تحفظ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کثیر العیال والدین دینی اور سماجی، دونوں لحاظ سےیہ بہتر سمجھتے ہیں کہ اپنےایک یا ایک سے زائد بچوں کو مدرسے میں داخل کرا کر سماجی اور اخروی عزت و وقار حاصل کریں۔ کثیر العیال والدین اگر کم آمدنی کے حامل ہوں تو مدرسہ میں داخلہ ان کی ترجیح ہی نہیں، مجبوری بھی بن جاتی ہے۔

کثیر العیال والدین کی اپنے بچوں سے عموماً اتنی گہری جذباتی وابستگی نہیں ہوتی جو شہروں کے ماحول میں کم بچوں والے گھرانوں کے والدین میں دیکھی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی بچوں کے جذبات، ان کی شکایات اور ان کو کم سنی میں پیش آنے والے خطرات کے بارے میں وہ غیر حساس یا کم حساس ہوتے ہیں۔ مدارس میں یہ کئی کئی ماہ اپنے بچوں کی خبر نہیں لیتے۔ بعض بچوں کی تو اپنے والدین سے سال میں ایک یا دو بار ہی ملاقات ہو پاتی ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان باہمی گفتگو کا خلا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بچےکا والدین سےاپنے ساتھ بیتی کسی زیادتی کا ذکر کرنا بھی مشکل، بلکہ اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے تقریباً لاوارث قسم کےبچے جنسی زیادتی کے شوقین فاعلین اور جارحین کے لیے تر نوالہ ہوتےہیں۔

بچوں کی طرف جنسی میلان کی وجوہات

اب پہلے سوال کہ بچوں سے جنسی تعلق اور زیادتی کرنے پر مائل ہونے کے کیا عوامل اور وجوہات ہیں، پر بات کی جاتی ہے:

ایک المیہ یہ ہے کہ مدارس میں طلبہ کو جن چیزوں یا اقدار کے لیے حساس بنایا جاتا ہے، ان میں بچوں کے ساتھ جنسی افعال کرنے کے خلاف حساسیت پیدا کرنا شامل نہیں ہے۔ یہاں زور حساس بنانے پر ہے۔ کسی مسئلے کی محض آگاہی دینا یا مذمت کرنا الگ چیز ہے اور اس کے بارے میں حساس بنانا الگ بات ہے۔اہل مدارس ناموس رسالت، ناموس صحابہ، مسلکی شناخت ظاہر کرنے والی علامات اور مذہبی سیاسی نظریات کے بارے میں شدید حساس ہوتےہیں، ان کے بارے میں وہ سرمو انحراف برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے، یہاں تک کہ اس معاملے میں تشدد پر بھی اتر آتے ہیں، لیکن ہم جنس پرستی کے خلاف صرف یہ کہ ان میں حساسیت نہیں پائی جاتی، بلکہ اس بارے میں ان کا رویہ دفاعی، بلکہ جارحانہ حد تک دفاعی ہو تا ہے۔ مدارس سے متعلق ایسی خبروں اور واقعات کو قالین کے نیچے دبانے، مدارس و مساجد سے وابستہ ایسے ملزمان کا دفاع کرنے، انھیں قانون کی پکڑ سے بچانے اور ان کی حیثیت عرفی کی بحالی میں مصروف رہتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ دوسرے فرقے کے اہل مذہب کے خلاف یہ الزامات سننے کو تیار نہیں ہوتے ۔ اس بارے میں ایک خاموش اتحاد ہے جو مختلف مسالک اور فرقوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔

جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے بچوں کی طرف متوجہ ہونا کسی نام نہاد جین کی وجہ سے ہو یانہ ہو، سماج میں پائے جانے والے رجحان کے زیر اثر، البتہ ضرور ہوتا ہے۔جن سماجوں میں عورت سماج سے غائب ہے، گھروں میں محدودہے، اور ان سے تعامل کے مناسب اور جائزذرائع بھی مفقود ہیں، نکاح و شادی کے علاوہ مرد و عورت کے کسی بھی قسم کے تعلق پر سماج شدید ردعمل دکھاتا ہے، سماجی مقاطعہ سے لے کر کاروکاری، اور غیرت کے نام پر قتل کرنا معمول کی بات ہے ،وہاں جنسی داعیات ہم جنس پرستی کے کم خطرناک مصرف کی طرف مائل کر دیتے ہیں کہ’’جب راہ نہیں پاتے تو چڑ ھ جاتے ہیں نالے‘‘۔چنانچہ ہمارے ملک کے وہ علاقے جہاں عورت کو پردے کے نام پر سماج سے غائب رکھا گیا ہے، ہم جنس پرستی میں زیادہ بری شہرت کے حامل ہیں۔

جہاں تک مدارس کا تعلق ہے، تو یہاں بھی عورت سرے سے غائب ہوتی ہے، بلکہ عورت کو دیکھنے، اس کے بارے میں گفتگو کرنے، حتیٰ کہ اس کو سوچنے پر بھی گناہ گاری کے احساس کو بڑی شدت سے اجاگر کیا جاتا ہے۔ ادھر ہر عمر کے لڑکوں کے ساتھ تعامل کے ان گنت مواقع میسر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جنسی داعیات ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ جہاں کہیں مقصد برآری سہولت سے ممکن نہ ہو، وہاں جبر بھی در آتا ہے اور انتہائی صورت میں معاملہ جنسی زیادتی کے ساتھ قتل کرنے تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ مدارس میں اس کام کی کھلی چھٹی ہے، پکڑے جانے پر سخت سزااور سرزنش کی جاتی ہے، لیکن اس معاملہ میں حد درجہ کم حساس ہونے کی بنا پر وہ ایسے اقدامات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن بنا سکیں۔

 مدارس میں بچہ جہاں والدین کی نگرانی سے دور اجنبی لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اس کے لیے استاد کی خوش نودی حاصل کرنے اور ہم مکتب بڑے لڑکوں کی دھمکیوں (bullying) کے خوف سے نجات حاصل کرنے کا یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ ان کی بات مان لے اور کسی کو شکایت بھی نہ کرے۔ ایک بار عادی ہوجانے کے بعد اس کا پلٹنا مشکل بھی ہوجاتا ہے۔ بڑا ہو کر وہ خود بھی شکاری بنتا ہے، یوں ایک تسلسل قائم ہوجاتا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ زیادتی کے بعد بچوں کے قتل کرنے کے پیچھے ایک محرک اس فعل کا قانونی سزا کے زمرے میں آ جانا ہے۔ قانون کی پکڑ کے ڈر سے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے۔

ہم جنس پرستی سماج کی طرح مدارس میں بھی ایک ہنسی مزاح کا موضوع ہے، ایسے قصوں اور کہانیوں کو مزے سے بیان کیا جاتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی طبقے نے اس معاملے میں مذہب کے بیانیے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ قرآن مجید میں قوم لوط کا قصہ بے سمجھ تلاوت تک محدود ہے، حتیٰ کہ روزانہ جہری نمازوں میں قوم لوط کے عمل اور ان کے عبرت ناک انجام سے متعلق قرآن کی آیات کی تلاوت کا معمول بھی کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔

اس بارے میں کم حساسیت کا ایک نمونہ مدارس کے متعلقہ مذہبی بورڈز کا مدارس میں پیش آنے والےجنسی زیادتی کے مسلسل واقعات پر خاموشی کا رویہ ہے۔ وہ مسئلے کی سنگینی کوتسلیم اور اعتراف کرنے پر بھی تیار نہیں، چہ جائیکہ وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اس کے برعکس، ایک بورڈ نے اپنے ایک ہم مسلک مدرسےکے طلبہ کے سالانہ نتائج اس بنا پر روک لیے تھےکہ مدرسے سے وابستہ کچھ شخصیات کے نظریات اور رجحانات ان کے مطابق ان کے مسلک سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ اس غیر قانونی حرکت پر جب قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا گیا تو نتائج جاری کیے گئے، مگر آج تک ان کی طرف سےکسی مدرسے سے رپورٹ ہونے والے کسی انتہائی واقعہ میں بھی کہ جس میں بچے قتل بھی ہوئے، کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔ ہم جنس پرستی کی یہ خاموش حمایت عادی اور ممکنہ فاعلین اورجارحین کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

ہم جنس پرستی ایک تہذیبی قدر

ایک سماجی حقیقت یہ ہے کہ ہم جنسی پرستی دنیا کی قدیم اور جدید تہذیبوں کی طرح انڈو پاک تہذیب کی بھی ایک منفی تہذیبی قدر رہی ہے۔ لکھنؤ اور دہلی کے دبستا نوں کی شاعری تو اس سے بھری ہوئی ہے۔ جوش ملیح آبادی نے اپنی آپ بیتی ’’یادوں کی برات‘‘ میں بڑے فخر کے ساتھ اپنی اس ’’خوش ذوقی‘‘ کے ثبوت کے طور پر اپنے اور دوستوں کے ہم جنس پرستی کے قصوں کو بیان کیا ہے۔سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی وغیرہ نے اپنے افسانوں میں اس مسئلے کو موضوع بنایاہے۔

میر تقی میر کو، معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خاص دل چسپی رہی تھی ۔ کہتے ہیں:

چشمک کرے ہے میری طرف کو نگاہ کر
وہ طفل شوخ چشم قیامت شریر ہے
ہجر میں اس طفل بازی کوش کے رہتا ہوں جب
جا کے لڑکوں میں ٹک اپنے دل کو بہلاتا ہوں میں
ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
رفتہ رفتہ ہندستاں سے شعر مرا ایران گیا

وزیر علی صبا لکھنوی لڑکے کے چہرے پر جوانی میں بال، یعنی روآں، جسے خط آنا کہتے ہیں، آنے سے اس کے حسن میں کمی آنے پر کہتے ہیں:

پیشتر خط سے مزا تھا حسن کا اے نونہال
ہو گیا داغی ترا سیب زنخداں آج کل

حیدر علی آتش کہتے ہیں:

امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا

مصحفی غلام ہمدانی کہتے ہیں:

لالے کی شاخ ہرگز لہکے نہ پھر چمن میں
گر سر پہ سرخ چیرا وہ نونہال باندھے

فراق اور درد کے شاگرد میر محمدی بیدارکہتے ہیں:

آخر اس طفل شوخ نے دیکھا
ٹکڑے جوں شیشہ کر دیا دل کو

تمیزالدین تمیز دہلوی لکھتے ہیں:

فربہ تھا توانا تھا تیرا جانا مانا تھا
جس پہ تو ہوا شیدا لونڈا ہے قصائی کا

اسی طرح خوب صورت لڑکوں سے تعلق رکھنا اس قماش کے لوگوں کے لیے فخر کا باعث ہوتا ہے۔

یہ حوالے محض افراد کے نہیں، سماج میں پائی جانے والی ایک روایت کے ہیں، جس کا اظہار کچھ افراد کے قلم سے ہوا ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف لکھنؤ اور دہلی کی تہذیب کا نہیں ہے، ہمارے سماج کی تمام مقامی زبانوں میں اس رجحان کی طرف اشارے کرتے لطیفے، محاورے، ضرب الامثال، کنائے، اور گالیاں بھی ایسے ہی اظہاریے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں یہ رجحان نہ صرف وافر طور پر موجود رہا ہے ، بلکہ یہ بھی کہ اسے کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا ذکر زیر لب معنی خیز تبسم میں کرنا، اسےمزاح کی صورت میں بیان کرنا، یہ بتاتا ہے کہ سماج نےاس رجحان کے ساتھ ایک خاموش سمجھوتا کر رکھا ہے۔ تاہم اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہونا کسی کو گوارا بھی نہیں۔ ہم جنس پرستی کی شہرت رکھنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

شہری اور غیرشہری تہذیبوں کا ایک فرق

یہاں ایک فرق کو نمایاں کرنا ضروری ہے۔ ہماری تہذیب میں ہم جنس پرستی کا موجود ہونا اور اسے ایک حد میں گوارا کرنے کا رجحان شہری علاقوں کی تبدیل ہوتی ثقافت سے اک ذرا مختلف چیز ہے۔ جنسی زیادتی کے بارے میں جو حساسیت شہری مزاج میں اب پائی جاتی ہے، وہ ہماری روایتی اقدار کے حامل غیر شہری سماج میں اتنی نہیں پائی جاتی۔ اس ماحول میں ایسا واقعہ پیش آنا غیر متوقع نہیں۔ کچھ یہی وجہ رہی ہے کہ شہری مدارس کے ماحول میں ایسے واقعات پیش آنے پر متاثر ہ بچے کے والدین کےردعمل کی کم حساسیت کا مشاہدہ، جو راقم کو بارہا ہوا، ایک صدمہ کی بات ہے۔ جیسا کہ پیش تر کہا گیا، یہ والدین اپنے متاثرہ بچے کو تسلی دے کر پھر وہیں چھوڑ آتے یا ایسے ہی کسی دوسرے مدرسے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے شہری ماحول میں پلے بڑھے افراد کے حالات اس سے بالکل مختلف ہیں، جہاں بچوں کی تعداد کم ہوتی ہے، جذباتی وابستگی زیادہ ہوتی ہے اور انھیں والدین کی مسلسل نگرانی میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔

حفظ قرآن کی حقیقت

ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن مجید کا مسلمانوں کی زبانوں پر جاری رہنا، ان کی نمازو ں میں اس کی تلاوت کی ضرورت کے لحاظ سے اس کا جتنا حصہ ان کو یاد ہو، یہ سعادت کی بات ہے۔ تاہم پورےقرآن مجید کا زبانی یاد کرنا واجب عمل نہیں ہے اور کسی غیر واجب کام کےلیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام میں قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے کی شروعات اس وجہ سے ہوئی تھی کہ عرب کے ماحول میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ قرآن مجید کی حفاظت، تلاوت اور اس کی تعلیم و ترسیل کے لیے اسے زبانی یاد کر لینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ تاہم اس کی حیثیت ایک انتظامی بندوبست کی تھی۔ قرآن مجید اس دور میں بھی کتابت کے ذرائع کی کمی کے باوجودوحی کی حفاظت اور ترسیل کے لیے کتابت کے ذریعے ہی کو اہمیت دیتا اور اس کے لیے قلم کا ذکرکرتاہے:

اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ. الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ. (العلق ۹۶: ۳- ۵)
’’اِنھیں پڑھ کر سناؤ، اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بڑا ہی کریم ہے۔جس نے قلم کے ذریعے سے یہ قرآن سکھایا۔انسان کو اِس میں وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ. (القلم ۶۸: ۱)
’’یہ سورۂ نون ہے۔ قلم گواہی دیتا ہے اور جو کچھ (لکھنے والے اُس سے ) لکھ رہے ہیں، (یعنی وحی)۔‘‘

عرب کے لوگ قرآن مجید کو بلا سمجھے یاد نہیں کرتے تھے، ایسا کرنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں تھا، اس لیے کہ وہ قرآن کی زبان سے واقف تھے۔ چنانچہ جب انھیں قرآن پڑھنے یا یاد کرنے کا کہا گیا، اس سےبے سمجھے تلاوت یا یاد کروانا مراد لینے کی کوئی گنجایش ہرگزنہیں نکلتی، مگر جب عجمی اقوام دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں تو یہ پہلی بار ان کے ہاں ہوا کہ بے سمجھے تلاوت اور حفظ کو انھوں نے اس تلاوت اور حفظ کے مترادف سمجھ لیا جس کی ترغیب دی گئی تھی ۔ امام ابوبکر طرطوشی لکھتےہیں:

ومما ابتدعه الناس في القرآن، الاقتصار على حفظ حروفه دون التفقُّه فيه.(لحوادث والبدع ۱۰۱)
’’قرآن مجید کے متعلق لوگوں کی ایک بدعت قرآن کے فہم و تفقہ کو چھوڑ کر محض اس کے الفاظ کو حفظ کرنے پر اکتفا کر لینا ہے۔‘‘

اس کے برعکس، احادیث میں ’’قرآن کا قاری‘‘ اور’’ صاحب قرآن‘‘ اس شخص کو کہا گیا ہے جو قرآن پر عمل کرے ، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھے، تبھی وہ ان بشارتوں اور فضیلتوں کا مستحق ہے جو ان احادیث میں بتائی گئیں، یہ شخص قرآن کو سمجھنے والا عالم ہی ہوسکتا ہے۔ اس سے ہمارے ہاں کا مروجہ عجمی حافظ مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں، جو بلا سمجھے قرآن کو زبانی یاد کرتا ہے اور نہ ہی قرآن کو سمجھنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ مثلاً:

يقال لصاحب القرآن: اقرأ وارتق ورتل كما كنت ترتل في الدنيا فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها[3].
’’صاحب قرآن کوکہا جائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے، آج بھی پڑھتے جاؤ؛ جہاں تم آخری آیت پڑھو گے، وہی تمھاری منزل ہوگی۔‘‘

’صاحب قرآن‘ سے مراد قرآ ن کا فہم رکھنے والا مراد ہونا لازم ہے،عرب کے جس ماحول میں یہ ارشاد فرمایا گیا، وہاں قرآن کو نہ سمجھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن بعد کے ادوار میں ’صاحب قرآن‘ سے ہمارے مروجہ حافظ کے معنی میں لینے اور قرآن پڑھنے سے زبانی پڑھنے کو سمجھ لیا گیا ہے، حالاں کہ صاحب قرآن ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جسے قرآن فہمی اور قرآن کی تعلیمات سے اشتغال تو بہت ہو، لیکن وہ قرآن کا حافظ نہ ہو۔

 قرآن کے فہم سے یہ لازما ًمراد نہیں ہے کہ سمجھنے والا فنی اور اعلیٰ علمی سطح سے بھی واقف ہو۔ یہ سطح ظاہر ہے کہ اہل فن کا کام ہے۔ قرآن فہمی کے درجے ہیں اور ہر درجہ کی قدر خدا کے ہاں ہونا متوقع ہے ۔

حافظ بچہ جنت کا ٹکٹ نہیں ہے کہ خدا کے عدل کے قانون کو توڑ کر ایسے افراد کو بھی جہنم سے بچا لےجائے جن پر ان کے اعمال کے سبب جہنم واجب ہو چکی ہو۔ ایسا بیان کرنے والی روایات ضعیف اور دین کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہیں[4]۔ قرآن ہر شخص کو اس کے اپنے اعمال کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے[5] ، کوئی کسی دوسرے کا ضامن بن سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا بوجھ ہی اٹھا سکتا ہے[6]، اور نہ کسی کی سفارش میرٹ کے بغیر کر سکتا ہے[7]۔ عوام کے یہ تصورات درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کے کاندھے پر بیٹھ کر جنت کی آسان راہ تلاش کرنے کی جہالت سے چھٹکارا پا سکیں۔

قرآن مجید کے محفوظ ہو جانے کے ذرائع جو اب میسر ہیں، اس کے بعد قرآن کی حفاظت کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ تاہم اب بھی کوئی حفظ کرنا چاہے تو یہ ذوقی اور شعوری معاملہ ہونا چاہیے، جو ظاہر ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچ کر فرد کو کرنا چاہیے۔ جسے حفظ کا شوق ہوا ہو، وہ خود حفظ کرے ، بچوں پر اپنی خواہش کا بوجھ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ہم قرآن مجید کو بے سمجھے پڑھنے کی ممانعت قرآن و حدیث میں پاتے ہیں۔ قرآن مجید مسلسل زور دیتا ہےکہ اس پر غور و تدبر کیا جائے اور تدبر نہ کرنے والوں کی وہ مذمت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح حدیث ہے:

لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاث[8].
’’اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا۔“

جس بے سمجھ تلاوت کی اس حدیث میں شکایت کی گئی ہے، وہ ہر اس تلاوت پر صادق آتی ہے جس میں پڑھنے والے کا سمجھنے کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس روایت کی بنا پر قرآن مجید کو تین دن سے کم میں ختم نہ کرنے کی طرح تو ڈالی گئی، مگر روایت کا مقصود،یعنی بے سمجھ تلاوت کی مذمت کو باور نہیں کیا گیا اور تین دن کے بجاے تمام عمر بے سمجھ تلاوت اور حفظ کو بھی باعث اجر سمجھ لیا گیا۔

اس مفہوم کی حدیث سے بے سمجھ تلاوت و حفظ کے جواز پر استدالال سوء فہم ہے، جس میں ا-ل-م کی تلاوت پر تیس نیکیوں کی ضمانت دی گئی ہے[9]۔یہ طرز تکلم تشویق پیدا کرنے کے لیے ہے، نہ کہ بے سمجھ تلاوت کی ترغیب دینے کے لیے۔ ا-ل-م کوبطور مثال ثواب کا حجم بتانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔یہ بات کسی طرح درست قرار نہیں دی جا سکتی کہ قرآن جس کا مقصد ابلاغ معنی ہے، اسے بے سمجھ پڑھنے کی ترغیب دی جائے اوروہ بھی ان لوگوں کو جن کے لیے قرآن کی زبان سے واقفیت کی بنا پر اسے بے سمجھے پڑھنا ممکن ہی نہ تھا۔

اولاد پیدا کرنے میں منصوبہ بندی

دینی لحاظ سے شادی کے بعد اولاد پیدا کرنا دین کا حکم نہیں۔ اولاد پیداکرنے کی کوشش کرنا انسان کااپنا آزاد اور سمجھ دارانہ فیصلہ ہونا چاہیے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ پیار کرنے والی ہو اور یہ کہ میں قیامت کے دن دوسرے انبیا پر تمھاری کثرت پر فخر کروں گا[10]، دراصل محض زیادہ بچے پیدا کرنے کےلیے نہیں، بلکہ قابل فخر بچے پیدا کرنے کے لیے ہے،اور قابل فخر بچے پیداکرنے کے لیے اتنے ہی بچے پیدا کیے جائیں جن کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کی جا سکتی ہو،اور یہ سب والدین کی نگرانی سے دور ممکن نہیں۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ارشادات کو آپ کے دور میں مسلمانوں کو درپیش حالات کے تناظر میں ایک انتظامی ضرورت کے تناظر میں دیکھنا درست ہوگا۔ حکومتیں اپنے ملک کے معاشی حالات کے تقاضوں سے اپنے لوگوں کو کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، اسی طرح حالات اگر تقاضا کریں تو آبادی بڑھانے کی ترغیب بھی دے سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سربراہ ریاست بھی تھے۔ اس وقت مسلمانوں کی مختصر سی تعداد اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے دشمنوں سے برسرپیکار تھی۔ ادھر مال غنیمت اور خراج کا مال بھی مدینہ آنے لگا تھا جس سے معاشی حالات بہتر ہو رہے تھے۔مستقبل میں روم و ایران سے جنگیں ہونے کی پیشین گوئیاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے۔ ان حالات میں اگر آپ نے آبادی بڑھانے کی ترغیب میں درج بالا ارشاد فرمایا تھاتو یہ قرین قیاس ہے، لیکن اسے ہر گھر اور ہر سماج کے حالات کے علی الرغم ایک مطلق اصول کے طور پر تسلیم کرانا درست نہ ہو گا۔

مروجہ تصور کے برعکس قرآن مجید اولاد اور کھیتی کا تقابل کر کے اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اولاد کو کھیتی کی طرح ہی پیداکرنے سے پہلے وہ تمام منصوبہ بندی کر لینی چاہیے جو ایک کسان فصل اگانے سے پہلے اور اس کےدوران میں کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ. ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗ٘ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ. (الواقعہ ۵۶: ۵۸ - ۵۹)
’’پھرکبھی سوچا ہے، یہ نطفہ جو تم ٹپکاتے ہو، اُس سے جو کچھ بنتا ہے، اُسے تم بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں؟‘‘
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ. ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗ٘ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ(الواقعہ ۵۶: ۶۳ - ۶۴)
’’پھرتم نے کبھی سوچا ہے، یہ جو کچھ تم بوتے ہو،اِسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں؟‘‘

دونوں عمل ایک ہی اصول پر مبنی ہیں کہ کوشش انسان کرتا ہے، باقی سب خدا کی قدرت کا ہاتھ کرتا ہے۔ لیکن کیا اس بھروسے پرانسان بے سوچے سمجھے، اور بے ڈھب طریقے سے فصلیں اگاتا ہے؟ ایسا اگر وہ کرے تو کیا نتائج نکلیں گے؟اگر یہاں وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ ناانصافی شعور اور احساس رکھنے والے انسان کے بچوں کے پیدا کرنے کےساتھ کیوں کرروا رکھی جا سکتی ہے ؟چنانچہ انسان کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے وسائل، استطاعت، تربیت، اور بچوں کو دینے کے لیے وقت وغیرہ کے تمام لوازمات کا لحاظ کر لینانہایت ضروری ہے۔

خدا کی رزاقیت کا تصور

خدا کی رزاقیت کے تصور کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی خداکی ایسی کوئی ذمہ داری بیان نہیں ہوئی کہ وہ سب کو روزی پہنچائے گا۔ قرآن کے مطابق جو روزی جان داروں کو ملتی ہے،وہ خدا نے مہیا کر رکھی ہے، نہ یہ کہ وہ سب کو روزی دے گا[11]۔ ایسا نہ قرآن کا دعویٰ ہےاورنہ ہی حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔ روزی ملنا محنت اور قسمت کے پیچیدہ تعامل پر مبنی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قرآن کی جس آیت سے خدا کی بغیر شرائط کی رزاقیت کے بھروسے پر اولاد پیدا کرنے کااستدلال کیا جاتا ہے، وہی آیت اس کی نفی کر رہی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَلَا تَقْتُلُوْ٘ا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْﵧ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۱)
’’تم لوگ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم اُنھیں بھی روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ اُن کا قتل یقیناً بہت بڑا جرم ہے۔‘‘

غور طلب یہ ہے کہ یہ ارشاد کن لوگوں کے لیے ہے کہ تمھاری اولاد کو بھی روزی ملے گی، جیسے تمھیں ملتی ہے۔ یہ ان کو کہا جا رہا ہے جن کو اتنی روزی بھی نہیں ملتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو کھلا سکیں اور اس قدر وہ مجبور ہو گئے تھے کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو قتل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ تو اس آیت سے یہ استدلال کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ بچے اس بھروسے پر پیدا کرتے چلے جائیں کہ ان کے رزق کا ذمہ خدا پر ہے، وہ انھیں ضرورپہنچائے گا۔ اس کے برعکس یہاں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ بچے بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیدا ہو ہی گئے ہیں تو انھیں خود قتل کر کے ایک اور بڑا جرم نہ کرو۔ جیسی کچھ روزی تمھیں ملتی ہے، انھیں بھی مل سکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے بہتر مل جائے اور یہ بھی نہ ملے۔ بھوک اور مفلسی کے ہاتھوں انھیں مرنا ہے تو یہ فیصلہ قدرت پر چھوڑ دو، خود یہ کام کرنے کا جرم نہ کرو۔

تجاویز

۱۔ بچوں کو جنسی حملوں سے بچانے میں سب سے ہم کردار والدین کا ہے۔ انھیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچے کی پرورش اور تعلیم وتربیت ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے کم سن بچے کو کسی ایسی جگہ بھیجنے پر کبھی تیار نہ ہوں جہاں وہ ان کی نگرانی اور خبرداری سے دور ہو۔

۲۔ اپنے وسائل سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے رجحان کی دینی حیثیت واضح کرنےپر زور دینا چاہیے کہ ایسا کرنا دین کا حکم نہیں ہے۔

۳۔ سماجی تحفظ کے لیے کثیر العیال ہونے کے رجحان کی نفی اس کے بنا ممکن نہیں کہ حکومت قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے تاکہ تحفظ اور انصاف کا حصول زور بازو نہیں، بلکہ قانون کی پاس داری کے بل بوتے پر ممکن ہو سکے۔

۴۔ حکومت کو درج ذیل امور میں قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے حقیقی عزم کی ضرورت ہے۔

۵۔ کم سن بچوں کے مدارس میں رہایش کے لیے داخلے پر مکمل پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ مدارس دینی تعلیم کا تخصیصی ادارہ ہیں۔ تخصیصی تعلیم میں کسی بچے کا رجحان جانے بغیر اس کا داخلہ بچے کا استحصال ہے۔ کم ازکم بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ اسے کرنے کا حق ہے کہ اس نے حافظ ، قاری، عالم بننا ہے یا ڈاکٹر ، انجینئر، اکاؤنٹنٹ یا بینکار بننا ہے۔حکومت اس کے لیے قانون سازی کرے کہ کوئی بچہ کسی متخصص تعلیم کے کسی ادارے میں بارہ برس کی وسیع البنیاد تعلیم کے بنا داخلہ نہیں لے سکتا۔


۶۔ اسکولوں کی طرز پر تمام مدارس کی رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے، جس میں رجسٹریشن کے شرائط میں عمارت اور دیگر لوازمات کا تعلیمی نقطہ ٔ نظر سے قابل قبول ہونا یقینی بنایا جائے۔ ان شرائط پر پورا نہ اترنے والے مدارس کی رجسٹریشن اگر پہلے ہو چکی ہے تو منسوخ کر دی جائے اور اس منسوخی کو موثر طور پر مشتہر کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ لوگ اپنے بچے وہاں داخل نہ کرائیں۔ ایک جامع کارروائی کر کے ان مدارس کی تالا بندی کی جائے جو بلا اجازت مدرسہ چلا رہے ہیں ۔

۷۔ مدارس سے ملنے والی شکایت کی صورت میں مدارس پر جرمانہ یا رجسٹریشن منسوخی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

۸۔ مدارس کے وفاق کو قومی تعلیمی بورڈ میں ضم کیا جائے۔ اگر یہ فی الحال ممکن نہ ہوتو بورڈ کے اراکین میں ملک کے معتبر افراد کی معتد بہ تعداد کو شامل کیا جائے تاکہ وہاں سماج کی آواز موثر ہو سکے۔

۹۔ مدارس کے فضلا کو ہنر مندی سکھائی جائے تاکہ ان میں سے جو چاہیں اپنے لیے آمدن کے متبادل ذرائع پیدا کر سکیں او ر یوں سماج پر غیر ضروری بوجھ بننے کے بجاے معاشی سرگرمیوں کا مفید حصہ بن سکیں۔

۱۰۔ جنسی زیادتی سے متعلق معاملات کی رپورٹ کرنے کے لیے عوام کو ترغیب دی جائے۔ بدنامی کے خوف سے اپنے متاثرہ بچے کو خاموش کرانا اور خود بھی چپ رہنا فاعل اور جارح کی حوصلہ افزائی کا سبب ہے۔

۱۱۔ کم سن بچوں کو اچھے اور برے مَس ( good and bad touch) اور بڑوں کے پیار کے انداز میں کسی بے ہودگی کو سمجھنے کی ترغیب دی جائے۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ اپنے یا کسی دوسرے کے ساتھ بیتے ایسے کسی حادثے یا اس کے ابتدائی مقدمات کی بلا جھجک اطلاع اپنے والدین اور قابل بھروسا بڑوں کو دیں۔ اس سلسلے میں والدین کی تربیت کے لیے ورک شاپس کرائی جائیں کہ بچوں کے ساتھ ایسے معاملات کی آگاہی کیسے دینی چاہیے۔

۱۲۔ مدارس میں داخلے اورمساجد میں تقرری کے لیے فرد کے کردار کی سند کولازمی بنایا جائے۔ کسی جرم کی صورت میں کردار کی سند جاری کرنے والے ادارے کو ذمہ داری میں شامل کیا جائے۔

۱۳۔ ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی سے متعلق قرآن مجید کی متعلقہ آیات کو نصاب میں ثانوی اور میڑک کے نصابات میں شامل کیا جائے۔

____________

[1]۔ ’لِحامِلِ القرآنِ إذا عمِلَ بِهِ ، فأَحَلَّ حلالَهُ ، وحرَّمَ حرامَهُ ، يشفَعُ فِي عشرَةٍ مِنْ أهلِ بيتِهِ يومَ القيامَةِ ، كلُّهم قدْ وجبَتْ لَهُ النارُ‘، ’’وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیا کوحلال اور حرام کردہ اشیا کو حرام کرتا ہے، وہ اپنے گھرانے کے دس افراد، جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی، سفارش کرے گا ‘‘( شعب الايمان ۲/ ۱۰۳۸)۔

اسے علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ( ضعیف الجامع، رقم ۴۶۶۲) ۔

اسی مفہوم کی ایک دوسری روایت بھی ضعیف ہے:

مَن قرأَ القرآنَ واستَظهرَهُ فأحلَّ حلالَهُ وحرَّمَ حَرامَهُ أدخلَهُ اللہُ بِهِ الجنَّةَ وشفَّعَهُ في عَشرةٍ من أهلِ بَيتِهِ كلُّهُم قَد وجبَت لَهُ النَّارُ.(ترمذی، رقم۲۹۰۵)
’’جس نے قرآن پڑھا، اسے حفظ کیا،اس کی حلال کردہ اشیا کوحلال اور حرام کردہ اشیا کو حرام کرتا ہے، وہ اپنے گھرانے کے دس افراد، جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی، سفارش کرے گا ۔‘‘

امام ترمذی اس کی سندکو صحیح نہیں بتاتے ۔علامہ البانی نے اسے سخت ضعیف قراردیا ہے (ضعیف الترمذی، رقم ۲۹۰۵)۔

سند کےضعف سے قطع نظر، یہاں جس حامل قرآن اور قرآن پڑھنے کا ذکر ہے، وہ بے سمجھے نہیں ہے اور نہ ہی یہاں قرآن کے زبانی یاد کرلینے کا کوئی مفہوم واضح طور پر پایا جاتا ہے۔

[2]۔ مشكاة المصابيح ۱/ ۶۶۰۔ علامہ البانی نے اس روایت کو ضعیف بتایا ہے۔

[3]۔ مسند احمد، رقم۶۷۹۹۔ سلسلہ صحیحہ ۵/۲۸۱۔

[4]۔ ’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانِ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا‘‘؟‘، ’’معاذ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمھارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمھارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا‘‘(مشكاة المصابيح، رقم۲۱۴۰)۔ علامہ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

[5]۔ ’كُلُّ نَفْسٍۣ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ ‘،’’ہر متنفس (اُس روز) اپنی کمائی کے بدلے رہن ہو گا‘‘(المدثر۷۴: ۳۸)۔

[6]۔ ’وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰيﵧ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰي حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَﵧ وَمَنْ تَزَكّٰي فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰي لِنَفْسِهٖ وَاِلَي اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ‘،  ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی بوجھ سے دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کے لیے پکارے گا تو اُس میں سے کچھ بھی بٹایا نہ جائے گا، چاہے (جس کو پکارا جائے)، وہ قرابت مند ہی کیوں نہ ہو۔(یہ نہیں سنتے تو اِنھیں اب اِن کے حال پر چھوڑو، اے پیغمبر)۔ تم صرف اُنھی کو خبردار کر سکتے ہو جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ (یہ پاکیزگی کی دعوت ہے) اورجو پاکیزگی حاصل کرتا ہے، وہ اپنے ہی لیے حاصل کرتا ہے اور (ایک دن) پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے‘‘(فاطر۳۵: ۱۸)۔

[7]۔ ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ وَالْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ. اَللّٰهُ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ٘ اِلَّا بِاِذْنِهٖ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ٘ اِلَّا بِمَا شَآءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ

‘،’’ایمان والو، (تم اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑ و اور) جو کچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، اُس میں سے (اللہ کی راہ میں) اُس دن کے آنے سے پہلے خرچ کر لو، جس میں نہ خریدو فروخت ہو گی، نہ (کسی کی) دوستی کام آئے گی اور نہ کوئی سفارش نفع دے گی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اُس دن کے منکر ہی اپنی جان پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔(اُس دن معاملہ صرف اللہ سے ہو گا)۔ اللہ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والا۔ نہ اُس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں کسی کی سفارش کرے۔ لوگوں کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے اور وہ اُس کے علم میں سے کسی چیز کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اُس کی بادشاہی زمین اور آسمانوں پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی حفاظت اُس پر ذرا بھی گراں نہیں ہوتی،اور وہ بلند ہے، بڑی عظمت والا ہے‘‘(البقرہ ۲: ۲۵۴ - ۲۵۵)۔

[8]۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے (ترمذی، رقم ۲۹۴۹)۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے( مشكاة المصابيح، رقم ۲۲۰۱)

[9]۔ ’مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللہِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ‘ (ترمذی، رقم۲۹۱۰)۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے صحیح بتایا ہے۔

[10]۔ ’تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ، إِنِّي مُكَاثِرٌ الْأَنْبِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘۔ مسند احمد الرسالۃ (۲۰/ ۶۳) اس روایت کی سند قوی مانی گئی ہے۔

[11]۔ ’وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ‘،  ’’زمین پر چلنے والا کوئی جان دار نہیں ہے، جس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو۔ اور وہ اُس کے ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور اُس جگہ کو بھی جہاں وہ (مرنے کے بعد زمین کے) سپرد کیا جائے گا۔ یہ سب ایک کھلی کتاب میں درج ہے‘‘ (ہود ۱۱: ۶)۔

B