[زیر نظر سلسلہ جناب جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’میزان‘‘ کے توضیحی مطالعے پر مبنی ہے جس میں کتاب کے بنیادی مباحث اور اہم علمی نکات کا مطالعہ، بالاختصار، توضیح وتقابل کے اصول پر کیا جائے گا۔ وما توفیقی الا باللہ]
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر وتصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔‘‘ (میزان ۱۳)
دین کی اس تعریف میں دو نکتے بنیادی ہیں: پہلا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا کا آخری پیغمبر ہونا اور دوسرا، قیامت تک کے لیے دین کا تنہا ماخذ ہونا۔ ان دونوں نکتوں کے بعض اہم مضمرات ہیں جو پیش نظر ہونے چاہییں۔
’دین کا تنہا ماخذ‘ ہونے کا ایک واضح مطلب تو یہ ہے کہ آپ کی وساطت کے بغیر ہدایت الہٰی کے کسی بھی جزو، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب تک رسائی یا اس پر ایمان کی بھی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اصلاً واساساً اور براہ راست قرآن پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہے، جب کہ قرآن کو خدا کا کلام ماننا اس کے بعد، آپ کی رسالت پر ایمان کے ایک لازمی تقاضے کے طور پر ضروری ٹھیرتا ہے۔
اس کا دوسرا اور اہم ترین مطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت کا اثبات ہے۔ اس لحاظ سے یہ تصریح ان گروہوں کی گم راہی کا ازالہ کرتی ہے جو قرآن مجید کے ابلاغ وتبلیغ سے ہٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تشریعی مقام تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ’’ایمانیات‘‘ کے باب میں ’’نبی کی اطاعت‘‘ کے زیر عنوان، سورۂ نساء (۴)کی آیت ۶۴ اور ۸۰ سے استدلال کرتے ہوئے مصنف نے اس نکتے کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’نبی کو نبی مان لینے کا لازمی نتیجہ ہے کہ خدا کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنی کتاب میں خود واضح فرما دی ہے کہ نبی صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اس لیے نہیں آتا کہ لوگ اُس کو نبی اور رسول مان کر فارغ ہو جائیں۔ اُس کی حیثیت صرف ایک واعظ وناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اُس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اُس کی بے چون وچرا تعمیل کی جائے۔ ... اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے دیتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اِس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اُس کے نبیوں کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (میزان ۱۴۸)
مدعا یہ ہے کہ کسی انسان کو پیغمبر ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس کا دین لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہے اور وہ جو چیز بھی اس اعلان کے ساتھ لوگوں کو دے گا کہ یہ خدا کا دین ہے، اسے ماننا لازم ہوگا۔ وہ خدا کے نازل کردہ کلام کے طور پر کوئی چیز پیش کرے یا اس کے علاوہ کوئی حکم یا ہدایت، یہ کہہ کر لوگوں کو دے کہ یہ خدا کا دین ہے، ہر صورت میں اس کے پیش کردہ دین کو ماننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ اس پہلو سے ’’ کتابوں پر ایمان‘‘ کے زیر عنوان مصنف کا یہ اشارہ بھی بہت اہم ہے کہ ’’انسان کی ہدایت کے لیے جس طرح نبی بھیجے گئے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ اپنی کتابیں بھی نازل کی ہیں۔ یہ کتابیں اِس لیے نازل کی گئیں کہ خدا کی ہدایت لکھی ہوئی اور خود اُس کے الفاظ میں لوگوں کے پاس موجود رہے‘‘ (میزان ۱۵۵)۔ یعنی ہدایت اور اتمام حجت کے باب میں خدا کے نمایندے کی حیثیت اصلاً انبیا کو حاصل ہے، جب کہ کتابیں ان کی تائید اور ان کے ذریعے سے دی جانے والی ہدایت کو محفوظ کرنے کے لیے نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت کا اعلان کرنے کے بعد اگر کلام الہٰی کے طو رپر قرآن کو سرے سے پیش ہی نہ کرتے اور اس کے بجاے محض یہ فرماتے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور اس حیثیت سے تمھیں فلاں بات کا حکم دیتا اور فلاں بات سے روکتا ہوں تو بھی اس کی اطاعت بدیہی طور پر لازم ہوتی، کیونکہ اس کے بغیر آپ کو ’’رسول‘‘ ماننے کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔
خداکا آخری پیغمبر ہونے کا نکتہ بھی دو اہم مضمرات کو متضمن ہے :
ایک یہ کہ آپ کے بعد نبوت ورسالت اور وحی والہام کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اور آپ کے بیان کردہ دین و شریعت کو ہی قیامت تک خدا کے حتمی اور آخری فرمان واجب الاذعان کی حیثیت حاصل ہے۔
دوسرا اہم مضمر یہ ہے کہ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی ہدایت انسانوں کو پہلی مرتبہ نہیں، بلکہ آخری مرتبہ دی گئی ہے، یعنی آپ نے ہدایت الہٰی کے مشمولات تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نئی دریافت کے طور پر پیش نہیں کیے، بلکہ آپ کی بعثت، سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی کے طور پر اور انبیا کے جاری کردہ پورے سلسلۂ ہدایت کے تاریخی پس منظر میں ہوئی ہے۔
اس نکتے کی مزید تفصیل مصنف نے ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کے تحت ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان بیان کی ہے اور واضح کیا ہے کہ قرآن مجید جن دینی مقدمات کو پہلے سے موجود اور مخاطبین کے لیے معلوم و معروف تصور کر کے اپنی دعوت پیش کرتا ہے، وہ تین ہیں: ۱۔ فطرت کے حقائق، ۲۔ دین ابراہیمی کی روایت، اور ۳۔ نبیوں کے صحائف۔ ان میں سے دین ابراہیمی کی روایت قرآن مجید کی دعوت اور خطاب میں ضمنی واضافی طور پر زیر بحث آتی ہے، جب کہ اس کے عملی احیا اور تجدید کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انجام پایا ہے۔ تاہم بہ حیثیت مجموعی دین کے فہم میں دینی روایت کے اس پورے تاریخی پس منظر کو ملحوظ رکھنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔‘‘ (میزان ۱۴)
سنت کی اس تعریف میں پہلا بنیادی اور اہم ترین نکتہ سنت کا ’’دین ابراہیمی کی روایت‘‘ پر مبنی ہونا ہے۔ مصنف کے نقطۂ نظر سے قرآن مجید اس کا ذکر پہلے سے موجود ایک معروف اور مسلم دینی روایت کی حیثیت سے کرتا اور اس کی اتباع کا حکم دیتا ہے۔ اس حکم کی پیروی میں ملت ابراہیمی کی تجدید واصلاح اور ضروری اضافوں کے ساتھ اس روایت کو امت مسلمہ میں دین کی حیثیت سے جاری کرنے کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کی گئی اور اس باب میں آپ ہی کی تقریر وتصویب اور قول وفعل کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، جب کہ قرآن اس کی توضیح اور اس میں ضروری اصلاحات کا بیان ایک ثانوی ماخذ کی حیثیت سے کرتا ہے۔ دین ابراہیمی کی اسی تجدید واصلاح شدہ اور امت مسلمہ میں جاری کردہ روایت کے لیے مصنف نے ’’سنت‘‘ کا عنوان اختیار کیا ہے جو مصنف کی اپنی وضع کردہ خاص اصطلاح ہے۔ آگے چل کر ’’مبادی تدبر سنت‘‘ کے زیر عنوان مصنف نے سات اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں سنت کے مذکورہ مشمولات کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ اصول اس اصطلاح کی ضروری قیود و تحدیدات اور ان کی علمی بنیادوں کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع کے حکم کی تعبیر میں علماے اصول اور مفسرین کے ہاں مختلف زاویہ ہاے نظر دکھائی دیتے ہیں۔ (ان پر تفصیلی روشنی ایک سابقہ تحریر میں ڈالی جا چکی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ ذکر کیا جا رہا ہے)۔
ایک گروہ کا رجحان یہ ہے کہ ملت ابراہیمی کی اتباع سے خاص طور پر عقیدۂ توحید پر ایمان لانا ہے، جب کہ شرعی وعملی احکام یہاں مراد نہیں ہیں، کیونکہ وہ مختلف انبیا کے لیے مختلف رہے ہیں اور زمانہ وحالات کے تغیر سے ان میں تغیر بھی واقع ہوتا رہا ہے۔
دوسرے گروہ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم، عقائد واحکام، دونوں میں ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور تھے، سواے ان احکام کے جن کو منسوخ کر دیا گیا ہو۔
تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا، تاہم یہ ملت ابراہیمی کے حوالے سے کوئی خصوصی حکم نہیں تھا، بلکہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تمام انبیا سابقین کی شریعتوں کے احکام محکم اور غیر منسوخ تھے اور جب تک ان شرائع میں سے کسی حکم کے متبادل کے طور پر نیا حکم نہ دیا جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تورات وانجیل اور دیگر انبیا کو دیے گئے شرعی احکام کی پابندی پر بھی مامور تھے۔
جن علما کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور تھے، ان کے مابین پھر اس سوال کے حوالے سے اختلاف ہے کہ آپ کی بعثت کے وقت ملت ابراہیمی کی تفصیلات اہل عرب میں کس حد تک محفوظ تھیں اور کیا انھیں اہل عرب کی دینی روایت سے اخذ کیا جا سکتا تھا یا ان کو جاننا سرتاسر وحی الہٰی پر منحصر تھا؟
ابن حزم کی راے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے ازسرنو شریعت ابراہیمی کے اصل احکام وشرائع کا علم دیا گیا تھا، گویا ابن حزم وہ ملت ابراہیمی کی اتباع کے حکم کو اہل عرب کی دینی روایت کے پس منظر میں نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ایک اصولی حکم تصور کرتے ہیں جس کی تفصیلات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست وحی کے ذریعے سے بتائی گئیں۔
امام شاطبی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اہل عرب نے ملت ابراہیمی میں بہت کچھ تحریفات اور بدعات شامل کر دی تھیں جن کی وجہ سے ملت ابراہیمی بہ حیثیت مجموعی اپنی تفصیلات میں محو ہو چکی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اس کے چند گنے چنے احکام ہی محفوظ رہ گئے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، بدعات و تحریفات کی اصلاح کے ساتھ، اپنی شریعت کا حصہ بنا لیا۔
مصنف کی راے اس باب میں شاہ ولی اللہ کے موقف کے قریب تر ہے، جو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت تمام انبیا کے باب میں یہی رہی ہے کہ انھیں جس قوم میں مبعوث کیا جائے، وہ اس کے ہاں پہلے سے موجود مذہبی ومعاشرتی روایت ہی پر اپنی دعوت کی بنیاد رکھتے ہیں اور اسی میں ضروری اصلاح واضافہ کے ساتھ اسے شریعت کے طور پر جاری کر دیتے ہیں۔ اس سنت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ بنی اسمٰعیل میں ہوئی تھی جو ملت ابراہیمی کے وارث تھے اور بعض تحریفات کے باوجود اس ملت کے بیش تر اصولی وفروعی احکام ان کے ہاں متوارث چلے آ رہے تھے، اس لیے یہ ضروری تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی ملت کے احیا اور تجدید و اصلاح کی ذمہ داری تفویض کی جائے۔ شاہ صاحب نے ان تمام عقائد وتصورات اور مذہبی ومعاشرتی احکام کی تفصیل بھی بیان کی ہے جو اہل جاہلیت کے ہاں معروف ومسلم تھے اور جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیاد قرار دے کر ضروری اصلاح واضافہ کے ساتھ اسے آخری شریعت کی شکل دے دی (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۶۰- ۳۷۰)۔
سنت اور ابراہیمی روایت کے باہمی تعلق کے حوالے سے دوسرا اہم نکتہ یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ ابراہیمی روایت کی قید یہاں شرط کی حیثیت سے مذکور نہیں، بلکہ اس کی بنیادی اہمیت اس تاریخی تسلسل کو واضح کرنے کے پہلو سے ہے جو دین ابراہیمی کی پہلے سے چلی آنے والی روایت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت کے مابین پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی ہرگز ملت ابراہیمی کے احکام کی تجدید اور احیا تک محدود نہیں تھا، آپ خود ایک صاحب شریعت پیغمبر تھے اور مستقل تشریعی اختیار رکھتے تھے، اس لیے ابراہیمی روایت کی تجدید واصلاح کے علاوہ اس میں اضافے کرنا اور بہ حیثیت مجموعی اسے ایک نیا قالب دینا بھی آپ کی ذمہ داری اور اختیار کا حصہ تھا۔ مصنف نے ایک دوسرے مقام پر اس حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت یوں کی ہے:
’’...سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید واصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ … اِس لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔‘‘ (مقامات ۱۶۲- ۱۶۳)
اس کی مزید وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ مصنف نے سنت کی تعریف میں ’’دین ابراہیمی کی روایت‘‘ کا ذکر کرنے کے باوجود سنت کی تعیین کے اصولوں میں ایسا کوئی اصول بیان نہیں کیا جو ایسے امور کو جو دین ابراہیمی کی روایت میں شامل نہیں تھے، سنت سے خارج قرار دیتا ہو۔ اسی طرح سنت کے تاریخی ثبوت کا نقطۂ حوالہ بعثت نبوی سے پہلے دین ابراہیمی کی روایت کو نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی امت کے اجماع وتواتر کو قرار دیا ہے جس کا تعلق، ظاہر ہے، ملت ابراہیمی کی روایت کی اس نئی تشکیل سے ہے جس میں اصل اتھارٹی کی حیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل تھی۔
ملت ابراہیمی کے جن احکام کی تجدید واصلاح اور ان میں بعض اضافوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سنت کی حیثیت سے امت میں جاری فرمایا، ان کی فہرست مصنف نے یوں بیان کی ہے :
’’ عبادات
۱۔ نماز۔ ۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر۔ ۳۔ روزہ و اعتکاف۔ ۴۔ حج و عمرہ۔ ۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں۔
معاشرت
۱۔ نکاح وطلاق اور اُن کے متعلقات۔ ۲۔ حیض ونفاس میں زن وشو کے تعلق سے اجتناب۔
خور ونوش
۱۔ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت۔ ۲۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔
رسوم وآداب
۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ ۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیكم‘ اور اُس کا جواب۔ ۳۔چھینک آنے پر ’الحمد لله‘ اور اُس کے جواب میں ’یرحمك الله‘۔ ۴۔ مونچھیں پست رکھنا۔ ۵۔ زیرناف کے بال کاٹنا۔ ۶۔ بغل کے بال صاف کرنا۔ ۷۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۸۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ ۹۔ ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۰۔ استنجا۔ ۱۱۔حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۲۔ غسل جنابت۔ ۱۳۔ میت کا غسل۔ ۱۴۔ تجہیز و تکفین۔ ۱۵۔ تدفین۔ ۱۶۔ عید الفطر۔ ۱۷۔عید الاضحٰی۔‘‘(میزان ۱۴)
کتاب میں متعلقہ مقامات پر مذکورہ احکام کی نوعیت واضح کرتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ ان میں سے بیش تر احکام ملت ابراہیمی کے احکام وشرائع کے طور پر عرب جاہلیت میں معلوم ومعروف تھے، اہل عرب کی دینی روایت میں ان پر عمل جاری تھا اور ان میں سے کسی بھی حکم کا تعارف ایک نئے حکم کے طور پر ابتداءً کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان میں سے صرف چند احکام، مثلاً عید الفطر اور عید الاضحیٰ، ایسے ہیں جن کی نوعیت مستقل بالذات احکام کی ہے، لیکن وہ دین ابراہیمی کی روایت کا حصہ نہیں تھے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے تشریعی اختیار کے تحت مسلمانوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ باقی جملہ امور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی نوعیت ملت ابراہیمی کے احکام کی تجدید کی ہے، جن میں ضروری اصلاح وترمیم کا عمل حسب مصلحت قرآن اور سنت، دونوں ذریعوں سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا گیا ہے۔
سنت کی تعریف، اس کا تاریخی پس منظر اور اس کے مشمولات کی وضاحت کے بعد زیر نظر عنوان کے تحت مصنف نے توضیح مزید کے لیے تعیین سنت کے رہنما علمی اصولوں پر روشنی ڈالی ہے، جس سے وہ فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے جو ’سنت‘ کے اصطلاحی مفہوم کے حوالے سے جمہور اہل علم او رمصنف کے مابین پایا جاتا ہے۔ بیان کردہ سات اصولوں میں سے ہر اصول کسی نہ کسی پہلو سے یہ واضح کرتا ہے کہ بہت سے امور، جن پر جمہور اہل علم وسیع تر مفہوم میں ’سنت‘ کا اطلاق کرتے ہیں، مصنف نے اپنی اصطلاح کے مطابق انھیں ’سنت‘ میں کیوں شمار نہیں کیا۔
مصنف کی اصطلاح کے لحاظ سے ’سنت‘ کے مفہوم میں حسب ذیل قیود اور تحدیدات ملحوظ ہیں:
۱۔ سنت میں وہی امور شامل سمجھے جائیں گے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، ’دین‘ ہوں۔
۲۔ سنت کا اطلاق صرف عملی نوعیت کی چیزوں پر کیا جائے گا، جب کہ علمی وتاریخی نوعیت کی توضیحات اس کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہوں گی۔
۳۔ سنت کے دائرے میں صرف وہی احکام شمار کیے جائیں گے جن کی ابتدا قرآن مجید سے نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور تقریر وتصویب سے ہوئی ہے۔
۴۔ سنت کا اطلاق مستقل بالذات اصولی احکام پر کیا جائے گا، جب کہ ان کے فروع کو مستقل سنت شمار نہیں کیا جائے گا۔
۵۔ امور فطرت، جنھیں باقاعدہ طور پر دینی احکام کا درجہ دے کر اس حیثیت سے امت کے عمل میں جاری نہ کیا گیا ہو، سنت میں شمار نہیں ہوں گے۔
۶۔ سنت وہی ہوگی جسے امت کے اجتماعی عمل میں جاری کیا گیا ہو، جب کہ انفرادی سطح پر کیے گئے یا تجویز کردہ اعمال کو سنت سے الگ ’اسوۂ حسنہ‘ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
۷۔ سنت کااطلاق انھی امور پر کیا جائے گا جو باعتبارثبوت مجمع علیہ اور متواتر ہوں۔
سنت کے دائرے سے خارج مذکورہ امور کی نوعیت کی وضاحت کے لیے مصنف نے تفہیم وتبیین، بیان فطرت، اجتہاد اور اسوۂ حسنہ وغیرہ کی تعبیرات اختیار کی ہیں، جن کی ضروری توضیح ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے تحت کی جائے گی۔
ذیل میں ان میں سے ہر اصول اور اس کی علمی اساسات کی ضروری توضیح پیش کی جائے گی:
’’پہلا اصول یہ ہے کہ سنت صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو۔‘‘(میزان ۵۸)
یہ اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو الگ الگ حیثیتوں میں فرق کی وضاحت کرتا ہے۔ آپ کی ایک حیثیت باقی تمام انسانوں کی طرح ایک انسان کی تھی، جس کی بہت سی طبعی وجبلی اور اسی طرح سماجی وتمدنی ضروریات تھیں جن کی تکمیل آپ نے اپنی شخصی طبیعت ومزاج اور ذاتی پسند وناپسند کے تحت یا اپنی معاشرت اور تمدن کے عرف ورواج کے تحت فرمائی۔ آپ کی دوسری حیثیت اللہ کے مبعوث کردہ پیغمبر کی تھی اور اس حیثیت میں آپ انسانوں کی رہنمائی کرنے اور ان کے لیے امور زندگی سے متعلق احکام وضوابط متعین کرنے پر مامور تھے۔ جمہور علماے امت دوسری نوعیت کے معاملات میں آپ کے احکام کی اتباع کو لازم قرار دیتے ہوئے پہلی نوعیت کے امور میں آپ کے اقوال وافعال کو واجب الاتباع قرار نہیں دیتے۔ اس اصول کی وضاحت اصول فقہ کی تمام امہات کتب میں کی گئی ہے اور خاص طور پر ابن تیمیہ، ابن خلدون، شاہ ولی اللہ اور ابن عاشور کی تحریروں میں اس فرق پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے (ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم ۲/۷۵۳۔ مقدمہ ابن خلدون ۶۵۱۔ شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۲۲۳۔ ابن عاشور، مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ۱۲۸)۔
شاہ ولی اللہ نے اس فرق کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے دین میں تحریف کے اسباب میں سے ایک سبب اس بات کو قرار دیا ہے کہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو عبادت، یعنی دینی عمل پر محمول کرے اور سمجھے کہ آپ کا ہر عمل شریعت کے اوامر ونواہی میں داخل ہے، حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کام عادت کے طورپر، یعنی عام انسانی تقاضوں کے تحت بھی کیے ہیں (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۲۱۱)۔
’’دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت کا تعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے، یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں۔ علم و عقیدہ، تاریخ، شان نزول اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘(میزان ۵۹)
یہ اصول بھی اصطلاح کے ایک اہم فرق کو واضح کرتا ہے۔ محدثین ’سنت‘ کی تعبیر بہ حیثیت مجموعی ان تمام امور کے لیے اختیار کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، چاہے ان کا تعلق عقیدہ وعلم سے ہو یا دینی اعمال سے۔ فقہا واصولیین بھی ایک عمومی تعبیر کے طور پر ان سب چیزوں کے لیے ’سنت‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تاہم دینی اعمال کی درجہ بندی کی بحث میں یہ لفظ ان کے ہاں ایک مخصوص اصطلاحی مفہوم میں، فرض اور واجب کے تقابل میں بھی مستعمل ہے۔ اس کی رو سے ’سنت‘ کا اطلاق ایسے دینی اعمال پر کیا جاتا ہے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام کے ساتھ مستقلاً ادا کرنے کا اہتمام کیا ہو یا اس کی ترغیب دی ہو، لیکن انھیں امت پر فرض یا واجب نہ ٹھیرایا ہو۔ اس کی مثال فرض نمازوں سے پہلے یا بعد میں پڑھے جانے والے نوافل ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے ادا فرمایا کرتے تھے، لیکن وہ فرض یا واجب نہیں ہیں۔ اس اصطلاح کے مطابق، نہ صرف یہ کہ عقیدہ وعلم ’سنت‘ کے دائرے میں نہیں آتے، بلکہ عملی احکام کی بھی صرف ایک خاص قسم پر ہی ’سنت‘ کا اطلاق کیا جاتا ہے، جب کہ فرائض یا واجبات میں شمار ہونے والے اعمال بھی ’سنت‘ میں شامل نہیں سمجھے جاتے۔
مصنف نے زیر بحث اصول میں اپنی اصطلاح کی تشریح کرتے ہوئے اس کی ایک خاص تحدید کو واضح کیا ہے، یعنی یہ کہ ’سنت‘ کا اطلاق عملی نوعیت کی چیزوں پر ہی ہوگا، جب کہ علمی اور تاریخی نوعیت کے امور اس کے دائرے میں شامل نہیں سمجھے جائیں گے۔ یہ واضح رہے کہ عملی نوعیت کی تمام چیزیں بھی مصنف کی اصطلاح کے مطابق ’سنت‘ میں شامل نہیں، بلکہ اس دائرے میں مختلف نوعیت کی مزید تحدیدات ہیں جن کی وضاحت آیندہ اصولوں کے تحت کی گئی ہے۔
’’تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے۔ ... کسی چیز کا حکم اگر اصلاً قرآن پر مبنی ہے اور پیغمبر نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے یا اُس پر طابق النعل بالنعل عمل کیا ہے تو پیغمبر کے اِس قول وفعل کو ہم سنت نہیں، بلکہ قرآن کی تفہیم وتبیین اور اسوۂ حسنہ سے تعبیر کریں گے۔ سنت صرف اُنھی چیزوں کو کہا جائے گا جو اصلاً پیغمبر کے قول وفعل اور تقریر و تصویب پر مبنی ہیں اور اُنھیں قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اُس کی تفہیم وتبیین قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘(میزان ۶۰)
یہ اصول سنت کے، قرآن سے الگ ایک مستقل بالذات ماخذ ہونے کے تصور کی فرع ہے اور اس نکتے کو واضح کرتا ہے کہ امور دین کی تشریح میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے گا کہ کون سی بات کا ماخذ اصلاً قرآن ہے اور کون سی بات ابتداءً سنت سے ثابت ہوئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کسی بات کے محض قرآن مجید میں مذکور ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن اسے ابتداءً بیان کر رہا ہے اور سنت میں اس سے متعلق جو بھی تفصیلات وارد ہوئی ہیں، وہ قرآن پر متفرع ہیں۔ مستقل بالذات احکام کو ابتداءً بیان کرنا قرآن کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس میں قرآن کے ساتھ سنت بھی شریک ہے۔ جس طرح قرآن دین کے بہت سے مستقل بالذات احکام بیان کرتا اور سنت، قرآن سے ثابت احکام کے طور پر ان کا ذکر کرتی ہے، اسی طرح سنت بھی ایسے مستقل بالذات احکام بیان کرتی ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی، اور پھر قرآن ان کا ذکر ایک ثابت شدہ حکم کے طور پر کرتے ہوئے ان کے بعض مزید پہلوؤں سے تعرض کرتا ہے۔
ایک دوسرے پہلو سے یہ اصول یہ بھی واضح کرتا ہے کہ بیان احکام میں اصل اور فرع کا رشتہ صرف یک طرفہ نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں کہ قرآن مجید ہی مطلقاً اصل ہے اور سنت ہمیشہ اس کی فرع ہوتی ہے، بلکہ یہ تعلق دوطرفہ ہے، اس لیے ایک ہی حکم سے متعلق قرآن اور سنت، دونوں میں احکام وارد ہوں تو یہ تحقیق ضروری ہے کہ کسی مسئلے کو ابتداءً قرآن یا سنت میں سے کس نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ جیسے یہ امکان ہے کہ کسی حکم کو اصلاً و ابتداءً قرآن نے بیان کیا ہو اور سنت نے اس کی مختلف فروع کی وضاحت کی ہو، اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس مسئلے میں تشریع کی ابتدا سنت سے ہوئی ہو اور اسی نے اس باب میں بنیادی وتاصیلی ماخذ کا کردار اد اکیا ہو، جب کہ قرآن نے اس کو ایک ثابت شدہ حکم مان کر اس پر بعض مزید احکام کا اضافہ کیا ہو۔ یوں تشریع کی ابتدا کرنے میں قرآن اور سنت، دونوں مساوی درجے کے ماخذ ہیں اور دونوں اپنی مستقل حیثیت میں دین کے تاصیلی احکام بھی بیان کر سکتے ہیں اور پہلے سے ثابت شدہ احکام میں اضافات بھی شامل کر سکتے ہیں۔ پہلی صورت کی مثال کے طور پر مصنف نے چوروں کے ہاتھ کاٹنے، زانیوں کو کوڑے مارنے، اوباشوں کو سنگ سار کرنے اور منکرین حق کے خلاف جہاد جیسے افعال کا ذکر کیا ہے، جن کا بنیادی ماخذ قرآن ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم کی پیروی میں ان افعال کو بجا لایا ہے۔ دوسری صورت کی مثال نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ اور قربانی جیسے مسائل ہیں جو دین ابراہیمی کی روایت کا حصہ تھے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید کی۔ یوں ان کی ابتدا اصلاً سنت سے ہوئی ہے، جب کہ قرآن نے ان کا ذکر محض تصویب اور تاکید کے پہلو سے کیا ہے۔
اس اصول کے بعض مضمرات قرآن مجید کے فہم اور تفسیر سے متعلق ہیں جن کی وضاحت ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کے تحت ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے ذیل میں کی جائے گی۔
’’چوتھا اصول یہ ہے کہ سنت پر بطور تطوع عمل کرنے سے بھی وہ کوئی نئی سنت نہیں بن جاتی۔‘‘(میزان ۶۰)
یہ اصول اصطلاح کے حوالے سے دو اہم فروق کو متضمن ہے:
ایک یہ کہ جمہور علماے اصول کے نقطۂ نظر سے فرض عبادات، مثلاً نماز اور روزہ کا اصل ماخذ قرآن مجید ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم کی پیروی میں عمل کیا، جب کہ نفل عبادات جو آپ نے اپنے ذوق کے تحت اختیار کیں اور انھیں امت کے لیے مشروع فرمایا، ان کا ماخذ ’سنت‘ ہے۔ اس کے برعکس، مصنف کے نزدیک مذکورہ عبادات کا اصل ماخذ سنت ہی ہے، جب کہ قرآن نے ان کا ذکر صرف تائید وتاکید کے لیے کیا ہے۔ یوں یہ عبادات، چاہے فرض ہوں یا نفل، اصلاً سنت کے دائرے میں آتی ہیں۔ اس نکتے کی مزید توضیح تیسرے اصول کے تحت کی جا چکی ہے۔
دوسرا یہ کہ جمہور علماے اصول، فرض عبادات کا اصل ماخذ قرآن کو قرار دیتے ہوئے بھی، جب توسعاً ان کی نسبت سنت کی طرف کرتے ہیں تو پھر فرض اور نفل عبادات میں کسی امتیاز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور علی الاطلاق ’سنت‘ کو دونوں طرح کی عبادات کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف، مصنف ان دونوں کو الگ الگ قسموں میں رکھنا اور الگ الگ اصطلاحات سے ان کی نوعیت کو واضح کرنے کو اہم اور ضروری تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق صرف ایسے امور ’سنت‘ کی تعریف میں شامل سمجھے جائیں گے جن کی نوعیت مستقل بالذات حکم کی ہو، یعنی وہ کسی دوسرے حکم کی فرع نہ ہوں، نیز انھیں امت کے اجتماعی عمل میں اہتمام کے ساتھ جاری کیا گیا ہو۔ اس اصول کے مطابق پنج گانہ نماز اور رمضان کے روزے تو مستقل بالذات حکم ہونے کی بنیاد پر ’سنت‘ کے تحت آتے ہیں، جب کہ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نفلی عبادت کی جو بھی صورتیں مروی ہیں، وہ کوئی الگ اور مستقل ’سنت‘ نہیں ہیں، بلکہ اسی بنیادی سنت کی ادائیگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے ذیل میں آتی ہیں جو آپ نے قرآن مجید کی ہدایت ’
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا‘ [1] کے تحت اختیار فرمائیں۔
اس تحدید کی ضرورت اور افادیت کو واضح کرتے ہوئے مصنف نے ایک دوسری بحث میں لکھا ہے :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
۱۔ مستقل بالذات احکام وہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔
۲۔ مستقل بالذات احکام وہدایات کی شرح ووضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔
۳۔ اِن احکام وہدایات پر عمل کا نمونہ۔...
ہمارے علما ان تینوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’سنت‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں اِسے موزوں نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک پہلی چیز کے لیے ’’سنت‘‘، دوسری کے لیے ’’تفہیم وتبیین‘‘ اور تیسری کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ اصل اور فرع کو ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی درجے میں رکھ دینے سے جو خلط مبحث پیدا ہوتا ہے، اُسے دور کر دیا جائے۔‘‘ (مقامات ۱۶۱- ۱۶۲)
’’پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں، الّا یہ کہ انبیا علیہم السلام نے اُن میں سے کسی چیز کو اٹھا کر دین کا لازمی جز بنا دیا ہو۔ ... انسان ہمیشہ سے جانتا ہے کہ نہ شیر اور چیتے اور ہاتھی کوئی کھانے کی چیز ہیں اور نہ گھوڑے اور گدھے دستر خوان کی لذت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اِس طرح کی بعض دوسری چیزیں بھی روایتوں میں بیان ہوئی ہیں، اُنھیں بھی اِسی ذیل میں سمجھنا چاہیے اور سنت سے الگ انسانی فطرت میں اُن کی اِسی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے۔‘‘(میزان ۶۱)
اس اصول کی تفہیم کے لیے انسانی فطرت اور فطری رہنمائی سے متعلق ان اصولی توضیحات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جو مصنف نے کتاب میں دیگر مقامات پر بیان کی ہیں۔
’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کے تحت ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیرعنوان مصنف نے بیان کیا ہے کہ قرآن مجید نے اپنی دعوت کسی ایسے ماحول میں پیش نہیں کی جو کسی بھی قسم کے مذہبی یا تاریخی پس منظر سے مجرد ہو، بلکہ تین طرح کے مقدمات کو بنیاد بناتے ہوئے پیش کی ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے فطرت کے حقائق، دین ابراہیمی کی روایت اور نبیوں کے صحائف کا ذکر کیا ہے۔ فطرت سے مراد ایمان واخلاق کے بنیادی حقائق ہیں جنھیں قرآن مجید میں ’معروف‘ اور ’منکر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی ’’وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور اُنھیں برا سمجھتی ہے‘‘ (میزان ۴۶)۔ یہ حقائق کون سے ہیں اور انھیں کس طرح انسانی فطرت کا حصہ بنایا گیا ہے؟ اس کی تفصیل مصنف نے ’’اخلاقیات‘‘ کے باب میں بیان کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو ظاہری حواس کے علاوہ ایک حاسۂ اخلاقی بھی عطا کیا گیا ہے جو خیر وشر کے امتیاز میں انسان کی مدد کرتا ہے اور ’’یہ احساس انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اُس کے دل ودماغ میں الہام کر دیا گیا ہے۔‘‘ (میزان ۲۰۲)۔ مصنف کے نقطۂ نظر سے، انبیا کے ذریعے سے انسانوں کو دی جانے والی ہدایت اسی فطری الہام کی بنیاد پر انھیں مخاطب بناتی ہے اور اس الہام کی تعبیر میں انسانوں کے مابین جو اختلافات پیدا ہو سکتے تھے یا عملاً ہوئے، ان میں بھی خدا کے فیصلے کو واضح کرتی ہے۔
زیربحث اصول میں مصنف نے فطری الہام اور منزل ہدایت کے باہمی تعلق کی ایک خاص جہت کو واضح کیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہدایت الہٰی کے جو پہلو انسانوں پر اپنی فطرت کی رو سے ہی ہمیشہ سے واضح تھے اور بنی نوع انسان اللہ کی طرف سے عطا کی گئی فطری ہدایت کی روشنی میں عمومی طور پر ان کو ملحوظ رکھتے چلے آرہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت میں ان کے ساتھ دو طرح کا معاملہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے احکام، مثلاً جسمانی طہارت ونجاست سے متعلق ہدایات کو تو باقاعدہ شریعت کا حصہ بنا کر انھیں بطور دین امت میں جاری کر دیا گیا ہے، جب کہ بہت سے دیگر احکام کو ان کی اصل فطری حیثیت میں ہی رکھتے ہوئے ان کی تصویب کی گئی ہے اور دینی نصوص میں اسی حیثیت سے ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خورونوش کے باب میں جن چیزوں کا ذکر مصنف نے کیا ہے، وہ ان کے نقطۂ نظر سے یہی نوعیت رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ باقاعدہ دینی احکام کے طور پر امت میں جاری نہیں کیے گئے، بلکہ ہمیشہ سے معلوم ومعروف فطری پابندیوں کے طور پر ہی ان کو برقرار رکھا گیا ہے، اس لیے مصنف کی اصطلاح کے مطابق انھیں سنت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
’’چھٹا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے اُنھیں بتائی تو ہیں، لیکن اِس رہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اُنھیں سنت کے طور پر جاری کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں ہے۔‘‘(میزان ۶۱)
یہ اصول سنت کی اصطلاح کو امت کے اجتماعی عمل میں جاری کردہ احکام وشرائع تک محدود رکھنے کی وضاحت کرتا ہے۔ مصنف کے نقطۂ نظر سے اصل اور بنیادی دین وہی ہے جس کا مکلف علی العموم پوری امت کو ٹھیرایا گیا ہے اور عمومی تبلیغ وتعلیم کے ذریعے سے اس کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ وہ احکام تاریخی سطح پر امت کے مجموعی علم اور عمل میں محفوظ رہیں۔ اس خاص زاویۂ نظر سے یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی سطح پر مختلف لوگوں کو جو دینی اعمال واذکار سکھائے، لیکن انھیں اجتماعی عمل میں جاری کردہ دینی روایت کا حصہ نہیں بنایا، انھیں سنت سے الگ اور ممتاز رکھا جائے تاکہ درجہ بندی، اہمیت واہتمام اور تاریخی ثبوت کے لحاظ سے ان میں جو فرق پایا جاتا ہے، وہ واضح رہے۔اس نکتے کی وضاحت میں کچھ مزید مدد چوتھے اور ساتویں اصول سے بھی ملتی ہے۔
’’ساتواں اصول یہ ہے کہ جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا، اِسی طرح سنت بھی اِس سے ثابت نہیں ہوتی۔ ... قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی امت کا اجماع ہے اور وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے امت کو ملا ہے، اِسی طرح یہ اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے۔‘‘(میزان ۶۲)
اس شرط کی عقلی بنیاد مصنف نے بہت وضاحت سے بیان کر دی ہے۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ اسی طرح کی شرط ہے، جیسی فقہا واصولیین کا ایک گروہ اور خاص طور پر فقہاے احناف عموم بلویٰ کی نوعیت رکھنے والے شرعی احکام کے ثبوت کے لیے عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عموم بلویٰ کی نوعیت رکھنے والے امور میں خبرواحد سے شریعت کا کوئی واجب اور لازم حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دین کے ایسے احکام سے متعلق جن کا جاننا اور جن کی پابندی کرنا لوگوں پر عمومی طور پر واجب ہے، یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ابلاغ بھی اسی درجے میں، پورے اہتمام کے ساتھ فرمائیں اور آپ کے بعد آپ کی امت انھیں اسی طرح شہرت و استفاضہ کے ساتھ نسلاً بعد نسلٍ نقل کرتی رہے۔ دوسرے لفظوں میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی احکام وہدایات کی اشاعت اور ان کی تبلیغ وتعلیم کا اہتمام کرتے ہوئے دین میں ان کی اہمیت اور حیثیت کو ملحوظ رکھا ہے اور کسی ایسے بنیادی اور اصولی حکم کے ابلاغ کو اخبار آحاد پر منحصر نہیں چھوڑا جس کا جاننا یا اس پر عمل کرنا عمومی طور پر امت پر لازم ہو۔ نتیجتاً احناف کے نزدیک اخبار آحاد سے وہی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کا تعلق دین کے فروع اور جزئیات سے ہو اور جن کا جاننا یا ان پر عمل کرنا ساری امت پر لازم نہ ہو (جصاص، احکام القرآن ۱/ ۲۰۲- ۲۰۳۔ سرخسی، اصول السرخسی ۱/ ۳۷۸)۔
مصنف نے بھی سنت کے تاریخی ثبوت کے سوال میں اس نکتے کو بنیادی اہمیت دی ہے اور یہ امتیاز قائم کیا ہے کہ اگر کسی حکم کو امت کے عمومی تعامل کا حصہ بنایا جانا یا، بہ الفاظ دیگر، ’’بطور سنت جاری کرنا‘‘ مقصود ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا کہ اس حکم کا ابلاغ پوری قطعیت کے ساتھ کریں اور وہ تواتر کے ساتھ امت میں نسل در نسل منتقل ہو۔ سنت کی نوعیت، مصنف کی اصطلاح کے مطابق، چونکہ یہی ہے، اس لیے جس چیز کا ثبوت اخبار آحاد پر منحصر ہو، وہ سنت نہیں ہو سکتی۔ البتہ اسوۂ حسنہ اور تفہیم وتبیین کی نوعیت رکھنے والے امور کے ابلاغ میں چونکہ اس نوعیت کا اہتمام مطلوب نہیں تھا، اس لیے ان کے ثبوت کے لیے تواتر کی شرط عائد کرنے کی بھی ضرورت نہیں اور ان کا ماخذ اخبار آحاد کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
___________
[1]۔ البقرہ ۲: ۱۵۸۔