HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

مقصد و ضرورت

محمد تہامی بشر علوی


رمضان میں پیٹ اور نفس کی جائز خواہشات سے بھی رکے رہنے کے دو مقاصد ہم سمجھ چکے: ایک تو یہ کہ ہمیں اس میں صبر کی کیفیت حاصل کرنی ہے اور صبر کے حصول کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں زندگی میں ہمیشہ مثبت رویہ اپنانے اور اس کا انعام پانے میں آسانی ہو۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ ہمارے اندر خود غرضی کے بجاے ایک مومنا نہ احساس پیدا ہو ۔ مومنا نہ احساس سے مراد یہ تھی کہ ہم اپنا ہی پیٹ بھر کے مطمئن نہ ہو جائیں، بلکہ ہمارے رشتہ داروں ، پڑوس یا تعلق داروں میں کوئی آدمی بھوک و پیاس کی تکلیف میں مبتلا ہو تو ہم اس کی بھوک اور پیاس محسوس کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کریں ۔

ایک تیسرا پہلو بھی پیش نظر رہنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان عموما ًاس دنیا میں اپنے عملی رویے میں مقصد اور ضرورت کے درمیان فرق نہیں کر پاتا ۔ جو مقاصد ہیں، وہ ان کو نظر انداز کر کے وقتی ضرورتوں کو پورا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے کسی انسان کی اولاد بھی ہے اور اس کے پاس جانور بھی ہیں۔ اولاد کو اس انسان کے لیے مقصد کا درجہ حاصل ہے، جب کہ چوپایے اپنی یا اپنی اولاد کی خدمت کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو جاتاہے تو آپ اس کے لیے صدقے کے طور پر اپنا مینڈھا ذبح کرلیں گے۔ لیکن اگر مینڈھا بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی بیماری دور کرنے کے لیے آپ بچے کو ہی ذبح کرڈالیں تو یہ حماقت کی بات ہے۔ ساری دنیا ہنسے گی کہ اس بے وقوف نے یہ کیا کر دیا ۔

ایک مومن جب زندگی جی رہا ہوتا ہے تو وہ خدا کو مقصد کا مقام دے کر اور دنیا کو ضرورت کا مقام دے کر جی رہا ہوتا ہے۔وہ ایسی دولت کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا جس سے اس کا خدا اس سے چھوٹ جائے۔ آپ اگر چوری، ڈاکے یاجھوٹ فراڈ اورملاوٹ سے لاکھوں روپے کے مالک بن سکتے ہوں تو آپ ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے، اس لیے کہ آپ ایسی دولت میں اپنے خدا کی رحمت سے دور اور اس کے غضب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ایک مومن کے لیے خدا کے غضب والی دولت پانا ممکن نہیں رہتا۔

ہم سب کو یہ ٹھیک طرح سمجھنا ہو گا کہ دنیا اور خدا جہاں آمنے سامنے ہو جائیں تو اس میں سے ہم نے انتخاب صرف خداکا ہی کرنا ہے ۔ عموماً ہم اس پیٹ و نفس کے لیے خدا کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اس کو بھول جاتے ہیں ، اس کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ صبح سے شام تک بس کماتے چلے جائیں گے۔ جھوٹ سچ ،جیسے تیسے آیا بس دولت زیادہ کمالی، ہر وقت اسی دھن میں دل و دماغ مصروف رہے گا۔ اور یہ فکر ہی نہیں کہ ہمارا خدا بھی کہیں ہے یا نہیں؟ کمانے کھانے کے ہنگامے میں ہماری نظر خدا کی طرف بھی اٹھتی ہے یا نہیں ؟ مومن کماتا اور کھاتا اس لیے ہے کہ اس سے وہ قوت حاصل کر کے بھلائی کے کام کر سکے۔اس کا مقصد محض دولت کی پوجا نہیں ہوتا۔ وہ پیسوں پر ایمان بیچ نہیں آتا۔ رمضان میں ہم سے یہ مشق کرائی جاتی ہے کہ اس کھانے پینے کو مقصد کی سطح سے اتار کر محض ضرورت کی سطح تک لے آؤ۔ یہ عملی تجربہ کرو کہ خدا ، اس کی رضا اور اس کا حکم تمھارے لیے مقصد کا مقام رکھتا ہے۔

ناجائز چیزوں سے تو بچنا ہی پڑتا ہے ، مگراس کا حکم جب سامنے آ جائے تو کھانے پینے اور نفس کے تقاضوں سے بھی رک جانا ہو گا۔ اس کی ترتیب اگر ہم الٹ دیں گے، خدا کی جگہ دنیا ہمارا مرکزی خیال بنا رہے گا تو پھرہمیں سخت قسم کی ناکامی ہو جائے گی ۔

اگر آپ کے سامنے یہ آفر رکھ دی جائے کہ آپ نے عمر بھر کبھی نماز نہیں پڑھنی تو ہم آپ کو دس لاکھ روپے مہینا کے دے دیا کریں گے ، تو کیا خیال ہے ہمیں یہ آفرقبول کر لینی چاہیے؟ہم یہ آفر کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہاں جینے کا اصل مقصد کیا ہے اور یہ دولت کتنی قیمتی ہے۔خدا کی رضا کے سامنے یہ دولت کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے بہت قیمتی جانور ہمارے گھر میں ہو ، ہماری اولاد کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وقت آ نے پر ہم جانور کو اس پر قربان کر سکتے ہیں، مگر اولاد کواس جانور پر قربان نہیں کر سکتے ۔

اسی طرح ہم کسی حال میں بھی خدا کی رضا کو نظر انداز کر کے دنیا کا انتخاب نہیں کریں گے ۔ ہم اپنے پیٹ و نفس کی خواہشات کو پیچھے رکھ سکتے ہیں، ہم اپنی بھوک و پیاس کی شدت کو برداشت کر سکتے ہیں، لیکن خدا کی نافرمانی و ناراضی ہم برداشت نہیں کر سکتے ۔ خدا کو عمر بھر یہ مرکزی مقام دیے رکھنا ضروری ہے، ورنہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر انسان خدا کو بھی کھو دیتا ہے۔

____________

B