حال میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہماری ملاقات ہوئی۔وہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان سے بھی واقف تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں۔وہ نماز اور دیگر اسلامی عبادات پر اپنے مخصوص فلسفے کے تحت تبصرہ فرمارہے تھے، جو صرف فکری التباس کے ایک نئے جنگل کے ہم معنی تھا۔ دوران گفتگو انھوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک سوال وجواب کا ذکر کیا۔
اُن کے دوست کا سوال یہ تھا کہ خدا کے وجود کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟انھوں نے بتایا کہ میں نے جواب دیا: خدا میرا کنسرن (concern) نہیں۔ میرا کنسرن صرف یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی شخص بھوکا اور محروم نہ رہے؛ کوئی محتاج اورضرورت مند عورت اور مرد ایسا باقی نہ رہے جس کی ضرورت کا سامان نہ کیا جاسکا ہو۔
اِس گفتگو کو سن کر میں نے کہا: آپ کا انسانی جذبہ، بلاشبہ انتہائی قابل قدر ہے۔تاہم کیا خدا پرسچا ایمان یا آپ کے الفاظ میں’’خدا کو اپنا کنسرن بنانا‘‘اِس چیز میں مانع ہے کہ آدمی اپنے پڑوسیوں اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہ کرے؟ میں نے کہا کہ ایمان کا ماخذ (کتاب و سنت) اِس بات کی تعلیم و تاکید سے لبریز ہے۔ مثلاً قرآن میں باربار اہل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے اِس طرح کے الفاظ میں اُن کی مطلوب صفات بیان کی گئی ہیں:
٭ ’وَفِيْ٘ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ‘[1]،یعنی اُن کے مال میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔
٭ ’وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا‘[2]،یعنی وہ مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے، اِس کے باوجودکہ وہ خود اُس کے ضرورت مند تھے۔
اِسی طرح جو لوگ دعویٰ ایمان ومعرفت کے باوجود مذکورہ قسم کی اعلیٰ انسانی صفات سے خالی ہوں، اُن کو جہنمی اور روز جزا وآخرت کو جھٹلانے والا قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے:
٭ ’كُلُّ نَفْسٍۣ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ. اِلَّا٘ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ. فِيْ جَنّٰتٍﵵ يَتَسَآءَلُوْنَ. عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ. مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ. قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ. وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ. وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ. وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ. حَتّٰ٘ي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ ‘ [3]،یعنی ہر شخص اُس دن اپنے عمل کے بدلے رہن ہوگا۔داہنے والوں کے سوا۔وہ باغوں میں ہوں گے۔اِن مجرموں کے بارے میں وہ باہم سوال کر رہے ہوں گے۔ (وہ اُن سے پوچھیں گے کہ) تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے آئی ہے؟وہ کہیں گے:ہم نمازی نہ تھے؛ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے؛ہم اِن کج بحثی کرنے والوں کے ساتھ کج بحثی کرتے تھے اور بدلے کے دن کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ یقین کی گھڑی آگئی۔
٭ ’اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ. فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ. وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ. فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ. الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ. الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآءُوْنَ ‘ [4]،یعنی تم نے دیکھا اُس شخص کو جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کے لیے نہیں ابھارتا۔پس بربادی ہے اِس قسم کے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز کی حقیقت سے غافل ہیں۔وہ جوعبادت کی نمایش کرتے اور برتنے کی کوئی ادنیٰ چیز بھی کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اِس کے علاوہ، اقوال رسول میں کثرت سے اِس بات کی تاکید کی گئی ہے ، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’لیس المؤمن الّذي یشبع ، وجارُه جائع إلٰی جنبه‘[5]
،یعنی وہ شخص مومن نہیں جو خود سیر ہوکر کھائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہے۔
اِس بات کا کوئی جواب دینے کے بجاے ، مذکورہ صاحب اِس طرح کا ریمارک دینے لگے ــــ لیجیے، آپ کی مذہبیت جاگ اٹھی، آپ نے پھر وہی مولویانہ قسم کی بات شروع کر دی، وغیرہ۔ میں نے کہا: ممکن ہے ایسا ہی ہو، جیسا آپ فرمارہے ہیں،مگر یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔دلیل کا جواب دلیل ہے، نہ کہ مجرد ریمارک۔ ہماری گفتگو جاری رہی۔آخر کار ، انھوں نے یہ کہہ کر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر بات ختم کردی :’’میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا۔’مذہبی ‘کنڈیشننگ کی بنا پر آپ سے مزید بات نہیں ہوسکتی۔‘‘میں نے عرض کیا:یہ بات اُس وقت درست ہوسکتی تھی ،جب آپ کا ساتھی زیر بحث موضوع پر علمی ڈسکشن کے لیے تیار نہ ہو۔ وہ صرف فتویٰ و ’ارشاد‘ کی زبان میں اپنی بات کہہ کرآپ کو خاموش کرنے کی کوشش کرے۔ اِس کے برعکس، یہاں صورت حال یہ ہے کہ میں استدلال کی زبان میں بات کررہاہوں اور آپ صرف ریمارک کی بنیادپربلادلیل اپنے موقف کی وکالت فرمارہے ہیں!
’’میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا‘‘ جیسی بات اُس شخص سے کہنا درست ہوسکتا ہے جو علم واستدلال کی زبان میں کسی حقیقت کوسمجھنا نہ چاہے، مگر جو شخص کسی چیز کو علم واستدلال کی زبان میں خالص معروضی طورپر سمجھنا چاہتا ہو، اُس کے سامنے اِس طرح کی بات کرنا صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے آدمی کے اندر صالح مزاج (sound mind) نہیں پایا جاتا، وہ ردعمل کا شکار ہےیا وہ اُس نفسیاتی کم زوری میں مبتلاہے جس کو علمی کم ہمتی کہا جاتا ہے۔شاید اِس قسم کے لوگوں کو اند ازہ نہیں کہ یہ صرف اپنی شکست کا اعلان ہے، نہ کہ حقیقت واقعہ کی تردید۔
اِس طرح کے تجربات کے دوران میں اکثر قرآن کی وہ آیت یاد آتی ہے جس میں ارشاد ہواہے:
’’ (مبرہن دلائل کے باوجود) انسانوں کا حال یہ ہے کہ اُن میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے(محض تکبر سے)اپنے شانے جھٹکاتے ہوئے اللہ کے باب میں حجت کرتے ہیں، تا کہ وہ ( لوگوں کو) اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔‘‘ (الحج ۲۲: ۸- ۹)
متعدد اسباب کی بنا پردور جدید میں یہ ظاہرہ بہت عام ہوتا جارہا ہے ۔ آج ہر جگہ ایسے فلسفہ طراز قسم کے دانش ور نظر آئیں گے جوعقل وفطرت ،علم واستدلال اور کتاب الہٰی کی کسی شہادت کے بغیر خدا اور رسول اور اسلام پر راے زنی کرتے ہوئے محض خود ساختہ مفروضات کی بنا پر بڑی بڑی بحثیں کریں گے، حتیٰ کہ اب ایسے مفکرین بھی ابھرآئے ہیں جو عربی زبان سے بے خبر ہونے کے باوجوداسٹیج پر قرآنیات کا دنگل لڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔عبداللہ بن مسعود کے الفاظ میں ، اِس قسم کے غیر عالم ’خطباء‘ کی کثرت صرف حقیقی ’علماء‘ کی قلت (کثیرٌ خطباؤہ، قلیلٌ علماؤہ)[6] کا ثبوت ہے، جو بلاشبہ انسانیت کے لیے ایک انتہائی مہلک ظاہرہ ہے۔
اِس طرح کے تجربات کے دوران میں اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ـــــ کیسے عجیب ہوں گے وہ لوگ جو خدا کی زمین پر کھڑے ہوکر خدا کا انکار کریں؛ جو خدا کی دنیا میں رہ کر خدا کو اپنا کنسرن نہ بنا ئیں؛ جو کائنات کی پستیوں اور بلندیوں کو روشن کرنے والی ذات سے روشنی حاصل نہ کریں؛ جو خدا کے نور سے اپنے وجود کو منور نہ کریں؛ جو خدا کے بنائے ہوئے زمین و آسمان کے درمیان زندگی گزاریں، بغیر اِس کے کہ انھوں نے خدا کو دریافت کیا ہو؛جو اپنی ذات کی صورت میں ایک چھوٹے وجود کا تجربہ کرنے کے باوجود خدا کے عظیم تر وجود کا اعتراف کرنے سے قاصر ر ہیں؛ جو خدا کے عطا کردہ سمع وبصر اور فکروذہن کو استعمال کرتے ہوئے خود خالق کے خلاف محاذآرائی کریں اور اُس کے بھیجے ہوئے دین کے متعلق بے اصل نظریات قائم کرلیں۔ کیسی عجیب ہے انسان کی یہ روش کہ نشانیوں کے ہجوم میں وہ نشانیوں کا انکار کرتا ہے، جب کہ علم و ہدایت کے ابدی دروازے اُسی کے لیے کھولے گئے تھے، نہ کہ حیوانات و جمادات کے لیے۔ یہی لوگ ہیں جن کے متعلق ارشاد ہوا ہے: ’اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّﵧ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ‘[7]۔
[لکھنؤ، ۱۰/ نومبر ۲۰۱۸ء]
____________