[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
ابن عبدالبر کہتے ہیں :حضرت علی زکوٰۃ نہیں ، بلکہ صدقہ دیتے تھے، کیونکہ وہ مال جمع ہی نہ کرتے تھے کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی۔ خلفاے راشدین کے ادوار میں بھی حضرت علی کو خمس و فے سے حصہ ملتا رہا جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے۔حضرت عمر نے حضرت علی کے قطعات میں ینبع کا اضافہ کر دیا تھا،اس سے حضرت علی کو معقول آمدنی ہوتی تھی(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۷۰۰)۔ینبع مکہ و مدینہ کے ما بین سرزمین تہامہ میں واقع تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر جنگ کے فتح کیا تھا۔ چشموں کی کثرت کی وجہ سے فعل مضارع کے وزن پراس کا نام ینبع (پانی پھوٹتا ہے)پڑ گیا تھا۔ مال فے میں ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمارکھا تھا:ینبع نہ بیچا جا سکے گا،نہ ہبہ کیا جا سکے گا،نہ اس میں وراثت جاری ہو گی۔چنانچہ اس فرمان نبوی پر عمل کرتے ہوئے حضرت علی نے اپنی اولین وصیت کی کہ ینبع کوفی سبیل اللہ وقف کردیا جائے (مصنف عبدالرزاق، رقم۱۹۴۱۴)۔عین تحنس، عین ابی نیزر،عین بغیبہ بھی حضرت علی کی جایدادیں تھیں (وفاء الوفاء، سمہودی)۔
بنونضیر کے مال فے میں حضرت عباس اور حضرت علی میں نزاع ہوا تو دونوں خلیفۂ ثانی حضرت عمر کے پاس گئے۔انھوں نے کہا: یہ مال خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، لیکن آپ نے تمھیں اس میں سے حصہ دیا۔ بقیہ مال آپ ازواج مطہرات پر خرچ کرتے اور اللہ کی راہ میں نکالتے، پھر ابوبکر اور میں نے اسی طریقے کوجاری رکھا۔آپ چاہتے ہیں کہ میں اس جایداد کا انصرام آپ دونوں کودے دوں تو آپ کو عہد کرنا ہو گا کہ اس کی آمدن انھی مصارف پر خرچ کریں گے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے۔ان دونوں نے یہ شرط مانی توحضرت عمر نے مدینہ کی جایداد ان کے حوالے کر دی اورخیبر اور فدک کو اپنے پاس رکھا (بخاری، رقم ۴۰۳۳۔ مسلم، رقم۴۵۷۷۔ابوداؤد، رقم۲۹۶۳۔نسائی، رقم۴۱۵۳۔مسند احمد، رقم۴۲۵)۔ابوداؤد کہتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عباس مال کو آدھا آدھا بانٹنا چاہتے تھے۔ان کا مطالبہ جائز تھا، اس لیے حضرت عمر نے مان لیا، تاہم اسے تقسیم کا نام نہ دیا(ابوداؤد، رقم۲۹۷۰)۔
حضرت ربیعہ بن حارث اور حضرت عباس نے مشورہ کیا کہ اپنے بیٹوں حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ اور حضرت فضل بن عباس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجیں تاکہ ان دونوں کو زکوٰۃ کی وصولی پر مامور کردیں ۔اس طرح انھیں بھی اپنی شادی کے لیے خرچ مل جائے گا۔حضرت علی نے سنا تو روکا اور کہا: آپ نہ مانیں گے۔انھوں نے کہا: تم ہم سے حسد کرتے ہو، حالاں کہ ہم تمھارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے پر حسد نہیں کرتے۔ام المومنین حضرت زینب نے بھی روکا، لیکن وہ منع نہ ہوئے۔دونوں لڑکوں نے آپ کی خدمت میں پہنچ کر گزارش کی تو فرمایا: آل محمد کے لیے صدقہ لینا مناسب نہیں ۔ آپ نے حضرت نوفل بن حارث اور خمس کے عامل حضرت محمیہ بن جزء کو بلایا اور حضرت محمیہ کی بیٹی سے حضرت فضل کا اور حضرت نوفل کی بیٹی سے حضرت عبدالمطلب کا نکاح طے کرا دیا۔ پھر خمس سے ان کا حق مہر دلوا دیا(مسلم، رقم ۲۴۸۱۔ ابوداؤد، رقم۲۹۸۵۔نسائی، رقم۲۶۱۰)۔
اپنے دور حکومت میں حضرت علی بہ قدر کفایت وظیفہ لیتے۔ایک جبہ اور ایک چادر کے علاوہ بیت المال سے کوئی کپڑا نہ لیتے۔عہد خلافت میں بھی فاقوں کی نوبت آ جاتی تھی۔ معمولی سے گھر کے علاوہ ساری عمر کوئی عمارت نہیں بنوائی۔مکہ میں ابوطالب کا مکان ان کے کافر بیٹے عقیل کو مل گیا،حضرت علی اورحضرت جعفر اس کے وارث نہ بنے، کیونکہ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:مسلمان کافر کااور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا (بخاری، رقم ۱۵۸۸۔ابن ماجہ، رقم۲۷۳۰)۔
حضرت علی کی غذا معمولی اور لباس نہایت سادہ ہوتا تھا۔انھیں جو کی روٹی ہی پسند تھی،دودھ اور گوشت سے رغبت نہ تھی۔کہتے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سناہے : خلیفۂ وقت کے لیے اللہ کے مال میں سے صرف دو پیالے لینا جائز ہے۔ایک جوخود لے اور اہل و عیال کو کھلائے، دوسرا آنے والے لوگوں کو پیش کر ے (مسند احمد، رقم۵۷۸)۔
ایک مرتبہ فالودہ کا پیالہ پیش کیا گیا تو کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فالودہ نہیں کھایا،اس لیے میں بھی نہ لوں گا۔ یہ خوشبو دار،خوش رنگ اور خوش ذائقہ ہے، میں اپنے نفس کو وہ غذائیں نہیں دینا چاہتا جس کا وہ عادی نہیں (کنزالعمال،رقم ۳۶۵۴۹۔حلیۃ الاولیاء ،رقم ۲۴۷)۔
حضرت حسن و حضرت حسین سے کہا گیا : آپ امیر المومنین کے بیٹے ہونے کے باوجود کیا ترکاری اور سرکہ لیتے رہتے ہیں، حالاں کہ کوفہ کے بازار رحبہ میں کیا کچھ نہیں ملتا۔کہا:آپ امیر المومنین کے خیالات سے کیا ہی بے خبر ہیں ۔ یہ سب نعمتیں عام مسلمانوں کے لیے ہیں (شعب الایمان،بیہقی، رقم۵۶۸۰)۔
ایک مرتبہ موسم سرما میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بھی کھانے کوکچھ نہ تھا،حضرت علی سخت بھوک کی حالت میں کمر پر کھجورکی ٹہنی باندھے گھر سے نکلے۔ایک یہودی کے باغ کی دیوارکے شگاف میں انھوں نے دیکھا کہ وہ چرخی سے پانی نکال کر باغ(اور جانوروں ) کو سیراب کر رہا ہے۔انھیں دیکھ کر بولا: کیا تم ایک کھجور کے بدلے میں ایک ڈول پانی نکال دو گے؟حضرت علی کے ہاں کہنے پر اس نے باغ کا دروازہ کھولا۔حضرت علی نے اتنے ڈول نکالے کہ مٹھی کھجوروں سے بھر گئی۔کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے(ترمذی، رقم۲۴۷۳۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۵۰۲)۔دوسری روایت کے مطابق حضرت علی نے سترہ ڈول نکال کر سترہ عجوہ کھجوریں مزدوری لی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں، کیونکہ آپ فاقے سے تھے(ابن ماجہ، رقم ۲۴۴۶۔ احمد، رقم ۱۱۳۵)۔
حضرت علی ایک بار اپنے غلام کے ساتھ بازار گئے۔کھدر کے دو کرتے خریدکرغلام سے کہا:جو تمھیں پسند ہے، لے لو۔اپنا کرتاپہن کرہاتھ آگے کیا اور کہا: اس کی آستین کا حصہ جو میرے ہاتھ سے بڑا ہے، کاٹ دو۔
حضرت علی فرماتے ہیں : دنیا مردار ہے،جواس میں سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے،کتوں سے میل ملاپ برداشت کرے۔
کچھ لوگ حضرت علی کے گھر کے باہر جمع تھے،انھوں نے اپنے غلام قنبر سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟ انھوں نے بتایا: امیرالمومنین، آپ کے شیعہ(ساتھی) ہیں ۔کہا:تو کیا بات ہے،میں ان میں شیعہ ہونے کے آثار نہیں دیکھ رہا؟شیعہ ہونے کی کیا علامتیں ہیں ؟غلام نے پوچھا۔فرمایا: بھوک سے پیٹ چپکے ہونا، پیاس سے ہونٹ خشک ہونا اور لگاتار آنسو بہنے سے آنکھوں کی بینائی کم زور ہوجانا۔
اپنا کام خود کرتے تھے، حتیٰ کہ جوتا بھی گانٹھ لیتے۔
ایک بار حضرت علی کوفہ کے بازار (رحبۃ خنیس) میں کھڑے ہو کر پکارنے لگے:کون مجھ سے یہ تلوار خریدے گا؟میں نے اس کی مدد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی تکالیف زائل کی ہیں ۔ میرے پاس اگر پاجامہ خریدنے کے پیسے ہوتے تو یہ تلوار نہ بیچتا(المعجم الاوسط،طبرانی، رقم۷۱۹۸۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۶۵۱۔ کنز العمال ،رقم ۳۶۵۳۱ )۔
حضرت علی کا لباس سوتی لمبا کرتا،عبا اور عمامہ تھا۔خود معمولی لباس پہنتے، لیکن ملازموں کو عمدہ لباس پہناتے۔
ایک طرف وسیع آمدنی اور دوسری طرف فقر،حضرت علی کے معاشی حالات کے یہ دونوں پہلو اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔وہ طبعاً درویش منش تھے اور انھوں نے فقرکو خود اختیار کیا۔وہ اپنی آمدن اللہ کی راہ میں صرف کر دیتے تھے اور اموال ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔ حضرت علی قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔
حضرت علی چالاکی سے قطعاً پاک تھے۔اپنے مدعا کو بے دھڑک بیان کر دیتے تھے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے خود کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے۔اس کا اظہار بھی کر دیا، لیکن جب حضرت ابوسفیان نے حضرت ابوبکر کے خلاف خروج کرنے پر آمادہ کیا تو انھیں جھڑک دیا۔حضرت عثمان کو مخلصانہ مشورے دیے، لیکن جب ان کے کچھ کاموں پر اعتراض ہوا تو بلا تامل اظہار کر دیا۔ان کی شہادت کے بعد ابتدائی پس و پیش کے بعد بیعت لینے میں کسرنفسی اور تکلف نہ کیا۔ قیس بن عبادہ نے حضرت علی سے سوال کیا: کیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد خلیفہ تم بنوگے تو جواب دیا:یہ بات غلط ہے،اگر آپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہوتا تو میں ابوبکر، عمر اور عثمان کو خلیفہ کیوں بننے دیتا۔
حضرت علی فرماتے ہیں : میں ایسا شخص تھا جسے مذی (pre-seminal fluid)بہت آتی تھی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد ہونے کی وجہ سے آپ سے سوال پوچھنے میں شرم محسوس کرتا تھا، اس لیے مقداد بن اسود کو کہا، ان کے استفسار پر آپ نے فرمایا: ذکر(penis) دھو کر وضو کر لو(بخاری، رقم۱۷۸، ۲۶۹۔مسلم، رقم۶۹۵۔ابوداؤد، رقم۲۰۷۔نسائی، رقم۱۵۶) ۔
جویریہ بن مسہر، ابن النیاح اور ہمدان حضرت علی کے خاص مؤذن تھے۔
ابونیزر نجاشی، قنبر اور میثم ان کے خاص خدام تھے۔فضہ، زبراور سلافہ خاص کنیزیں تھیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ دلدل خاص سواری تھی۔
ذو الفقار ان کی تلوارتھی۔
حضرت علی نے اپنے دور خلافت میں شہادتین توحید و رسالت پر مشتمل کلمہ’ لا إلٰه إلا الله محمد رسول الله‘ پڑھا پڑھایا۔شیعہ ائمہ نے بھی اسی کلمے کی تعلیم دی۔ اس میں تیسری شہادت کا ذکر نہیں ۔معتبر کتب شیعہ میں سنی علما کی طرح اللہ کے معبودہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہونے کی شہادتوں ،نماز قائم کرنے،زکوٰۃ دینے، بیت اللہ کا حج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے کو اسلام کی بنیادقرار دیا گیا ہے(اصول کافی ۱/۳۷۷۔حیات القلوب، باقر مجلسی ۲/ ۳)۔
ایک بار حضرت علی نے مسجد میں لوگوں کو باتوں میں مشغول پاکر فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :آگاہ رہو، ایک فتنہ آنے والا ہے،توپوچھا:یارسول اللہ،اس سے چھٹکارا کیسے ہو گا ؟فرمایا: کتاب اللہ سے،اس میں تم سے پہلی امتوں کے قصے،تم سے بعد میں آنے والوں کی خبریں اور تمھارے باہمی جھگڑوں کے فیصلے ہیں۔جس سرکش نے اسے چھوڑا، اللہ اسے برباد کر دے گا۔جس نے اس کے ماسوا سے ہدایت پانا چاہی، اللہ اسے گم راہ کر دے گا۔ یہی اللہ کی مضبوط رسی،ذکر حکیم اور صراط مستقیم ہے۔علماکا اس سے دل نہ بھرے گا، کثرت تلاوت سے یہ پرانا نہ ہو گااور اس کے عجائبات ختم نہ ہوں گے(ترمذی، رقم۲۹۰۶۔ احمد، رقم ۷۰۴۔ سنن دارمی، رقم ۳۳۶۶۔ مسند بزار، رقم ۸۳۶۔شعب الایمان: ۱۹۳۵)۔امام ترمذی کہتے ہیں :اس غریب روایت کی سند مجہول ہے۔
مدینہ کی نوخیز ریاست میں نفاق کامرض عام ہوا تو منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشیوں میں اپنی صفائیاں پیش کرتے اور اپنے اوپرآنے والے الزام بے گناہ مسلمانوں کے سر تھوپنے کی کوشش کرتے۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نازل ہوئی: ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًﵧ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاَطْهَرُﵧ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ‘، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو(یا ایمان کے دعوے دار ہو)،جب تمھیں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے رازدارانہ بات کرنی ہو تو اپنی رازدارانہ بات سے پہلے کچھ صدقہ کرو۔یہ تمھارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘(المجادلہ۵۸: ۱۲)۔منافقین میں بخل و حرص کی بیماری عام تھی، اس لیے توقع تھی کہ وہ سرگوشیاں کرنے کا حوصلہ ہی نہ کریں گے اور اگر انفاق کیا توہو سکتا ہے کہ یہ ان کے تزکیہ کا سبب بن جائے۔حضرت علی فرماتے ہیں : جب یہ حکم الہٰی نازل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: تمھاری کیا راے ہے،صدقہ ایک دینار ہونا چاہیے؟میں نے کہا: لوگ نہ دے سکیں گے۔ارشاد فرمایا: تو کیا آدھا دینار ہو؟میں نے کہا: لوگ اتنا بھی نہ دے پائیں گے۔پھرفرمایا: تو کتنا ہو؟میں نے جواب دیا:ایک جوکافی ہے۔ فرمایا:تم تو بہت جزرس ہو۔تب اگلی آیت اتری: ’ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ ‘، ’’کیا تم اس حکم سے ڈرگئے کہ سرگوشی کرنے سے پہلے تمھیں صدقات دینے ہوں گے‘‘ (المجادلہ ۵۸: ۱۳)۔ حضرت علی کہتے ہیں: میرے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے امت پر فضل فرما کر اس حکم کو منسوخ فرما دیا (ترمذی، رقم ۳۳۰۰۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۴۰۰)۔ امام ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث حسن غریب ہے۔
حضرت علی فرماتے ہیں:ہمیں عذاب قبر کے بارے میں مسلسل شبہ ہی رہا، حتیٰ کہ یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں:’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ. حَتّٰي زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ‘، ’’تمھیں مال و اولاد کی کثرت پانے کی دوڑ نے غافل رکھا، حتیٰ کہ تم قبروں میں جا پہنچے‘‘ (التکاثر۱۰۲: ۱- ۲۔ ترمذی، رقم۳۳۵۵)۔ عرب اپنے قبیلے کی کثرت تعداد کے ساتھ ساتھ کثرت قبور پر بھی فخر کرتے تھے۔بنو عبد مناف نے اپنے زندوں اور مقابر کا شمار کیا تو بنو سہم سے بڑھ گئے۔ ایسا ہی تفاخر احیا و اموات انصار کے قبائل بنوحارث اور بنو حارثہ کے بارے میں مذکور ہے۔حضرت علی کہتے ہیں : یہ فرمان الہٰی عذاب قبر کے بارے میں ہے، یعنی اس سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے۔
حضرت علی کے دور خلافت میں وہی اذان کہی جاتی تھی جو عہد رسالت میں دی جاتی تھی۔بارہ ائمہ کے ادوار اور خیرا لقرون میں یہی اذان جاری رہی۔ امام محمد باقر اور شیخ صدوق نے اسی اذان کی تعلیم دی اورکہا: ان کلمات میں کچھ بڑھایا جائے، نہ کم کیا جائے۔
حضرت علی بابل کے پاس سے گزررہے تھے کہ مؤذن نماز عصر کی اطلاع دینے آیا۔جب آپ آگے گزر گئے تواذان واقامت کہنے کا حکم دیا۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد بتایاکہ میرے محبوب علیہ السلام نے منع فرمایاہے کہ میں قبرستان میں اور بابل کی سرزمین میں نماز پڑھوں، کیونکہ بابل پر( اللہ کی طرف سے )لعنت کی گئی ہے(بخاری ، رقم ۵۳۔ابوداؤد، رقم۴۹۰)۔ایک بار حضرت علی کوفہ سے نکلے،ابھی گھر نظر آرہے تھے کہ انھوں نے نماز قصر کرنا شروع کر دی۔جب لوٹے تو انھیں بتایا گیا، ہم کوفہ پہنچ گئے ہیں، لیکن انھوں نے کہا: ہم شہر میں داخل ہونے تک قصر کرتے رہیں گے(بخاری، رقم ۴۶۲)۔
حضرت حسین فرماتے ہیں :میرے والدعلی نے مجھے وضو کا پانی لانے کو کہا۔سب سے پہلے انھوں نے تین دفعہ ہاتھ دھوئے،پھرتین بار کلی کی،تین بار ناک میں پانی چڑھایا اور نکالا،اس کے بعدتین مرتبہ منہ دھویا،پھر دایاں بازو اور بایاں بازو تین تین بار دھوئے۔اس کے بعد انھوں نے ایک بار سر کا مسح کیا اور تین دفعہ دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے۔آخر میں انھوں نے کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا اور فرمایا: میں تمھیں دکھانا چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے( نسائی، رقم۹۵۔ احمد، رقم ۸۷۶۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۲۸۶)۔ حضرت شقیق بن سلمہ کہتے ہیں : حضرت عثمان اور حضرت علی اعضاے وضو کو تین باردھویا کرتے تھے اور کہتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو بھی ایسے ہی ہوا کرتا تھا (ابن ماجہ، رقم۴۱۳۔ احمد، رقم ۱۳۴۵)۔اس سے ان روایات کی نفی ہو جاتی ہے جن کے مطابق اعضا کومحض ایک با ردھونا سنت ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکا مسح ایک ہی بار کیا(ابن ماجہ، رقم۴۳۶)۔
حضرت علی صرف تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے تھے۔پھر(باقی نماز میں )وہ رفع یدین نہ کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۴۵۷)۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ نماز میں (مردوں کے لیے)زیر ناف ہاتھ باندھنا سنت ہے(ابو داؤد، رقم ۷۵۶۔ احمد، رقم۸۷۵)۔حضرت علی نماز میں اپنی داہنی ہتھیلی بائیں کلائی پر رکھے رہتے، سوائے اس کے کہ جلد پر خارش کرتے یا کپڑا سیدھا کرتے(بخاری، رقم ۱۔ابوداؤد، رقم۷۵۷) ۔
’’فروع کافی‘‘ میں ہے کہ نماز میں عورت سینے پر پستانوں سے اوپر ہاتھ باندھے(۱/ ۱۹۸)۔
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے اور عمران بن حصین نے بصرہ میں حضرت علی کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ وہ سجدہ میں جاتے تو تکبیر(اللہ اکبر)کہتے، سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتیں ادا کرنے کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے تو تکبیر کہتے۔نماز ختم ہوئی تو عمران نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: انھوں نے مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی ہے(بخاری، رقم۷۸۶۔مسلم، رقم۸۷۳۔نسائی، رقم۱۰۸۳)۔
حضرت علی فرماتے ہیں :وتر فرض نمازوں کی طرح تم پر فرض نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قراردیاہے۔آپ نے ارشاد فرمایا :اللہ یکتا(وتر کے لفظی معنی عددطاق، بے جوڑ اور بے مثل کے ہیں) ہے،وتر کوپسند کرتا ہے۔اس لیے، اے قرآن کے ماننے والو، وتر پڑھا کرو (ترمذی، رقم ۴۵۳۔ نسائی، رقم ۱۶۷۷۔ ابن ماجہ، رقم۱۱۶۹۔ احمد، رقم ۸۷۷)۔
ایک ر ات نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و حضرت فاطمہ کا دروازہ کھٹکھٹا کر فرمایا:کیا تم نماز (تہجد) نہ پڑھو گے؟علی نے جواب دیا:ہماری جانیں اللہ کے دست قدرت میں ہیں ،جب ہمیں بیدار کرنا چاہتا ہے، کر دیتا ہے۔حضرت علی فرماتے ہیں : آپ یہ سن کر واپس تشریف لے گئے،جاتے جاتے ران پر ہاتھ مار کر فرمایا: ’وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ‘،’’اورانسان سب سے بڑھ کر جھگڑا کرنے والی شے ہے‘‘ (الکہف ۱۸ : ۵۴۔ بخاری، رقم ۱۱۲۷۔ مسلم، رقم ۱۸۱۸۔نسائی، رقم۱۶۱۲۔ احمد، رقم۵۷۱۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۳۶۶)۔
ماہ رمضان میں حضرت علی مرد و زن کو نماز تراویح کے لیے جمع ہونے کوکہتے اور مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ امام مقرر کرتے ( مصنف عبدالرزاق، رقم ۵۱۲۷)۔حضرت علی نے ایک قاری کو بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا اور وتر کی نماز خود پڑھاتے رہے(السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۴۶۲۰)۔دوسری روایت میں تراویح پڑھانے والے حضرت علی کے شاگرد کا نام شتیر بن شکل بتایا گیا ہے(السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۴۶۱۹)۔
حضرت علی نے دو مینڈھوں کی قربانی دی اور بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں (ابوداؤد، رقم ۲۷۹۰۔ترمذی، رقم۱۴۹۵)۔
حجۃ الوداع کے موقع پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی۔ان کے نحر کی نگرانی کے لیے آپ نے حضرت علی کو بھیجا تو انھیں اونٹوں کا گوشت تقسیم کرنے کے ساتھ ان کی کھالیں اور پالانیں بھی مسکینوں میں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے یہ ہدایت بھی دی،ذبح کی اجرت کے طور پر جانور کی کوئی شے نہ دوں (بخاری، رقم ۱۷۱۷- ۱۷۱۸۔مسلم، رقم۳۱۸۳۔ ابوداؤد، رقم۱۷۶۹۔ ابن ماجہ، رقم۳۰۹۹۔ احمد، رقم ۵۹۳)۔
حضرت عثمان حج تمتع، یعنی ایک ہی سفر میں عمرہ کر کے حلال ہونے اورپھر حج کے لیے دوبارہ احرام باندھنے سے منع کرتے تھے۔حضرت علی نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا ہے۔حضرت عثمان نے کہا: ہاں، تب ہم (کفار) سے خوف زدہ تھے۔حضرت علی نے تمتع کی نیت کرتے ہوئے کہا:میں کسی شخص کے کہنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں چھوڑ سکتا (بخاری، رقم۱۵۶۳۔مسلم، رقم۲۹۶۲۔ احمد، رقم۴۳۲)۔ عسفان کے مقام پر ان دونوں میں تکرار ہو گئی۔حضرت علی نے کہا:آپ اس کام سے روکنا چاہتے ہیں جس کی اجازت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضرت عثمان نے کہا: ہمیں ہمارے حال پرچھوڑ دو۔حضرت علی نے کہا: میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا، پھر پکار کر کہا:’لبیک بعمرة وحجة‘ (بخاری، رقم ۱۵۶۹۔مسلم، رقم ۲۹۶۴۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۳۴۲)۔
ایک بار حضرت علی نے کھڑے ہو کرپانی پیا تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔فرمایا:کیا دیکھ رہے ہو؟اگر میں کھڑے ہو کر پانی پیوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر پانی نوش فرماتے دیکھا ہے۔اور اگر میں بیٹھ کر پیوں تو میں نے آپ کو بیٹھ کر پانی پیتے دیکھا ہے (احمد، رقم ۷۹۵)۔ اسی طرح حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کھڑے ہوئے اور کبھی بیٹھ کر پانی نوش فرمایا (نسائی، رقم ۱۳۶۲۔ احمد، رقم ۲۴۵۶۷)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ(ابوداؤد، رقم۳۱۷۲۔ترمذی، رقم۱۰۴۳۔نسائی، رقم۱۹۱۷۔ابن ماجہ، رقم۱۵۴۲)۔ حضرت علی کہتے ہیں:آپ ایک یہودی عورت کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے تھے، لیکن بعد میں آپ نے اسے معمول نہ بنایا (نسائی، رقم۱۹۲۴۔ ترمذی، رقم ۱۰۴۴۔ احمد، رقم ۶۲۳)۔جب آپ بیٹھے رہے تو ہم نے بھی بیٹھنا شروع کر دیا(ابن ماجہ، رقم۱۵۴۴)۔
مدینہ تشریف آوری کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کوحکم دیا کہ ہرقبر کو برابر کردے اور ہر بت کو زمین پر پٹخ دے۔انصاری نے کہا: مجھے اپنی قوم کے گھروں میں داخل ہونا برا لگتاہے۔تب آپ نے حضرت علی کو مامور کیااور نصیحت فرمائی:مصیبت میں ڈالنے والا،اکڑ دکھانے والا نہ بننا،ایک اچھا تاجر (لین دین کرنے والا)بننا، کیونکہ یہ لوگ عمل (لین دین)میں پیچھے رہ گئے ہیں (احمد، رقم۱۱۷۶) ۔
حضرت علی نے ابو الہیاج اسدی(حیان بن حصین)سے فرمایا: میں تمھیں اسی مشن پر بھیج رہاہوں جس پر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا: کسی اونچی قبر کو برابر کیے بغیر اور کسی مورتی کو نیست و نابود کیے بغیر نہ چھوڑنا (مسلم، رقم۲۲۴۳۔ ابوداؤد، رقم۳۲۱۸۔ ترمذی، رقم۱۰۴۹۔ نسائی، رقم۲۰۳۳۔ احمد، رقم ۱۱۷۰۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۶۴۸۷)۔ امام شافعی کے نزدیک قبر ایک بالشت برابر اونچی اور امام مالک اور دیگر فقہا کی راے میں کوہان نما بنائی جا سکتی ہے تاکہ لوگ اسے روندنا نہ شروع کر دیں (فتح الملہم)۔
حضرت علی نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عباس متعہ کے جائز ہونے کا فتویٰ دے رہے ہیں تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر نکاح متعہ، پالتو گدھوں کا گوشت اور لہسن کھانے سے منع فرما یاتھا (بخاری، رقم ۴۲۱۵۔ مسلم ، رقم۳۴۱۴۔ نسائی، رقم۴۳۳۹۔ ابن ماجہ، رقم ۱۹۶۱۔ احمد، رقم ۱۲۰۴)۔ لہسن کی ممانعت صرف بخاری کی روایت میں بیان ہوئی ہے۔دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر متعہ کی(دوبارہ) اجازت دی، لیکن پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا(مسلم، رقم ۳۴۱۰۔ابن ماجہ، رقم۱۹۶۲)۔البانی کہتے ہیں: ابن ماجہ کی روایت میں حجۃ الوداع کا تعین غلط ہوا ہے۔ امام مسلم نے عنوان قائم کیا ہے: نکاح متعہ کی دودفعہ اجازت دی گئی اور دو دفعہ اسے حرام قرار دیا گیا۔
امام ابو یوسف کہتے ہیں: فقہی بحث و مذاکرہ کرنے کے لیے صحابہ کے دو حلقے سرگرم تھے۔حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت زید بن ثابت باہم فقہی مذاکرات کرتے تھے، جب کہ حضرت علی، حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابی بن کعب ایک دوسرے کے سامنے علمی و فقہی مسائل پیش کرتے۔ اکابر صحابہ، حضرت عمر حتیٰ کہ حضرت معاویہ فقہی مسائل حل کرنے کے لیے حضرت علی ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
حضرت علی نے جنگلوں اور صحراؤں کو قابل محصول قرار دیا۔ انھوں نے گھوڑوں پر حضرت عمر کا لگایا ہوا ٹیکس ختم کر دیا اور کہا:یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عائد نہیں کیا گیا، اس لیے اسے شریعت بنانا درست نہیں ۔
حضرت علی نے موزوں اور جرابوں، دونوں پر مسح کیا(ابوداؤد، رقم۱۵۹، ۱۶۲)۔شریح بن ہانی موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے حضرت عائشہ کے پاس گئے توانھوں نے کہا: علی کے پاس جاؤ،وہ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے(مسلم، رقم۶۳۹، ۶۴۱۔نسائی، رقم۱۲۹۔ ابن ماجہ، رقم ۵۵۲۔ احمد، رقم ۷۴۸)۔
حضرت علی فرماتے ہیں:جب تک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوموزوں کے اوپر مسح کرتے نہ دیکھا،یہی سمجھتا رہا کہ ان کے تلووں پر مسح کرنا زیادہ ضروری ہے(ابو داؤد، رقم ۱۶۳۔ احمد، رقم ۷۳۷۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۸۸۔ مسند بزار، رقم ۷۸۹)۔
حضرت علی کا یہ فتویٰ حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن عباس کو سنایا گیا: مستحاضہ ظہر کومؤخر اور عصر کو معجل کرے گی،اس طرح مغرب کی نماز دیر سے اور عشاکی نماز جلدی پڑھ لے گی اور نماز فجر کے وقت غسل کرلے گی تو انھوں نے کہا:ہم اس کے لیے وہی حکم پاتے ہیں جو علی نے فرمایا(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۱۳۷۱۔سنن دارمی، رقم۹۲۷)۔حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ کہہ کر کہ میرے پاس علی کے فتوے کے علاوہ کوئی جواب نہیں ، وضاحت کی:مستحاضہ ایک غسل کر کے ظہر و عصر اکٹھی پڑھے گی اور دوسرا غسل کر کے مغرب و عشا کو جمع کرے گی۔انھیں کہا گیا: کوفہ ٹھنڈا علاقہ ہے، استحاضہ میں مبتلا عورت کے لیے دشواری ہوگی تو جواب دیا:اللہ چاہتا تو اسے اس سے بڑی آزمایش میں مبتلا کر دیتا (سنن دارمی، رقم۹۳۲۔مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۱۷۳)۔
مکہ میں ایک شخص نے حضرت عمر سے پوچھا: وہ عمرے کا احرام کہاں سے باندھے؟حضرت عمر نے کہا: علی بن ابو طالب کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو۔ حضرت علی نے ہدایت کی :جہاں سے تم نے سفر شروع کیا تھا، یعنی اپنے علاقے کے میقات پر جا کر عمرے کا احرام باندھو۔اس نے آ کر حضرت عمر کو بتایا تو انھوں نے کہا: تمھیں بتانے کے لیے میرے پاس علی کے مشورے کے علاوہ کوئی جواب نہیں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۳۱۰۱) ۔
حضرت عمر پناہ مانگا کرتے تھے کہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ درپیش ہو جسے حل کرنے کے لیے ابوالحسن (حضرت علی ) موجود نہ ہوں ۔
حضرت علی کی شہادت پر حضرت معاویہ نے کہا:ابن ابوطالب کی وفات سے فقہ وعلم جاتا رہاہے۔ان کے بھائی عتبہ بن ابوسفیان نے کہا: آپ کی یہ بات کہیں اہل شام نہ سن لیں ۔ حضرت معاویہ نے کہا:مجھے یہ کہنے دو۔
حضرت عقبہ بن عامر جہنی کی روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(نکاح میں )فرج حلال کرنے کے لیے جو شرط لگائی جائے، اسے پورا کرنا اولین حق ہے(مسلم، رقم ۳۴۷۲۔ترمذی، رقم۱۱۲۷)۔اس ارشاد نبوی کی روشنی میں حضرت عمر کہتے ہیں کہ اگر نکاح کے وقت مرد نے عورت کی یہ شرط مانی کہ وہ اسے اس کے شہرسے نہیں لے جائے گا تو اسے اس شرط پر عمل کرنا ہو گا۔حضرت علی کا ارشاد ہے کہ اللہ کی شرط عورت کی لگائی ہوئی شرط پر مقدم ہو گی،یعنی مرد عورت کو اس کے شہر سے باہرلے جا سکتا ہے(ترمذی)۔امام شافعی اور اکثر علما کا خیال ہے کہ حدیث میں بیان کردہ شرطوں کا اطلاق ان شرطوں پر ہوتا ہے جن کا عقد نکاح تقاضا کرتا ہے، مثلاًمرد کا عورت کو معروف کے مطابق خرچ دینا، کپڑا لتا اور اقامت مہیا کرنا اور بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا اور اس کے مال و متاع میں اس کی مرضی کے خلاف تصرف نہ کرنا۔ اللہ کی طرف سے عائد کردہ شرطوں کے علاوہ شرطیں لغو قرار پائیں گی اور انھیں پورا کرنا واجب نہ ہو گا(فتح الملہم)۔
حضرت معاویہ نے خنثی مشکل (مخنث جس کا عورت یا مرد ہونا مشتبہ ہو،اس) کی میراث کا مسئلہ حضرت علی سے دریافت کیا تو انھوں نے فتویٰ دیا کہ اگر اس کی شرم گاہ مردوں کے مانند ہے تو مرد کی میراث ملے گی، بصورت دیگر عورت ہونے کا حکم لاگو ہو گا۔حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی ہی کے فیض یافتہ تھے۔ حضرت علی نے فقہی احکام پر مشتمل احادیث کا ایک مجموعہ’صحیفہ‘ مرتب کیا۔
حضرت علی فرماتے ہیں :میرے حد قائم کرنے پر کسی کی موت ہو جائے تو مجھے رنج نہ ہو گا، سواے شرابی کے،اگر وہ مر گیا تو میں اس کی دیت دوں گا، کیونکہ اس کی حد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کی (بخاری، رقم۶۷۷۸۔مسلم، رقم۴۴۵۸۔ ابوداؤد، رقم۴۴۸۶۔ ابن ماجہ، رقم۲۵۶۹۔ احمد، رقم ۱۰۸۴۔ السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۱۷۵۵۰)۔
ایک بار حضرت علی نے جامع کوفہ کے صحن کے دروازے پر کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا:کچھ لوگ کھڑے ہوئے پانی پینے میں کراہت محسوس کرتے ہیں، حالاں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے، جس طرح میں نے پیا ہے(بخاری، رقم۵۶۱۵۔ابوداؤد، رقم۳۷۱۸)۔
دو آدمیوں نے چوری کی شہادت دی تو حضرت علی نے چور کا ہاتھ کٹوا دیا بعد میں انھوں نے کہا:ہمیں غلطی لگی ہے۔حضرت علی نے ان سے قطع ید کی دیت لی اور کہا:اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دی ہے تو تمھارے ہاتھ بھی کٹوا دیتا(بخاری ،رقم ۲۱)۔
ایک بار حضرت علی نے کچھ احادیث املا کروائیں ۔ ایک دن مسجد کوفہ میں فرمایا: کون میرا علم ایک درہم میں حاصل کرنا چاہتا ہے؟ان کا شاگرد الحارث الاعور دوڑ کر بازار سے ایک درہم کے کاغذ خرید لایااور بہت سا علم قرطاس پر منتقل کر لیا۔حر بن عدی کے پاس حضرت علی کی املا کرائی ہوئی چیزوں ( امالی) کا پورا مجموعہ تھا۔
ابن سعد کہتے ہیں: حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان اورحضرت علی عہد رسالت میں فتویٰ دیا کرتے تھے، جب کہ شعبی نے چار اصحاب، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو قاضی قرار دیا ہے۔ فصل مقدمات میں حضرت علی کا کوئی ثانی نہ تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’اقضاهم‘ (صحابہ میں سب سے بڑے قاضی)کی سند عطا فرمائی تھی(ابن ماجہ، رقم۱۵۴)۔ علم فرائض، یعنی تقسیم میراث میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔حضرت عمر فرماتے ہیں : ہم میں علی ہی سب سے بڑے قاضی ہیں (بخاری، رقم۴۴۸۱)۔
حضرت علی فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی نے زنا کیا تو آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم مجھے دیا۔مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایام نفاس میں ہے توخدشہ ہوا کہ کوڑے لگاتے لگاتے میں اسے مار ہی نہ ڈالوں۔ آپ سے عرض کیا توآپ نے مدح فرمائی اور ایام نفاس کے ختم ہونے تک اجراے حد کو مؤخر کر دیا (مسلم، رقم۴۴۵۰۔ ابوداؤد، رقم۴۴۷۳۔ترمذی، رقم۱۴۴۱۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۳۲۰)۔
حضرت عمر نے ایک فاتر العقل عورت کو زنا کرنے پر رجم کی سزا سنائی تو حضرت علی نے فرمایا:امیر المومنین، کیا آپ کے علم میں نہیں کہ دیوانے سے شرعی احکام ساقط ہوجاتے ہیں ، حتیٰ کہ ہوش میں آجائے؛ بچے سے، یہاں تک کہ بالغ ہو جائے اور سوئے ہوئے سے، یہاں تک کہ بیدار ہو جائے۔ حضرت عمر نے کہا: ہاں بالکل، پھر اسے چھوڑنے کا حکم دیا اور اللہ اکبر، اللہ اکبر پکارنے لگے(بخاری، رقم ۲۲۔ ابوداؤد، رقم ۴۳۹۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۲۳۔ ابن ماجہ، رقم ۲۰۴۲۔ احمد، رقم ۱۳۲۸)۔ ان کا یہ مشہور جملہ اسی واقعے سے منسوب ہے:’لولا علي لهلك عمر‘، ’’اگر علی رہنمائی نہ کرتے تو عمر ہلاک ہی ہو جاتا ‘‘(الاستیعاب)۔
شاعر نجاشی نے ماہ رمضان میں شراب نوشی کی تو حضرت علی نے اس کا نشہ اترنے کا انتظار کیا،پھر اسّی (۸۰) درے لگوا کر جیل بھیج دیا اور کہا: یہ تمھاری بادہ خواری کی سزاہے۔ اگلے دن جیل سے نکلوایا اور بیس کوڑوں کا اضافہ کر کے فرمایا:یہ ماہ صیام میں اللہ کی نافرمانی کرنے کی عقوبت ہے(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۲۱۸۔ السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۱۷۵۴۶۔مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۳۵۵۶)۔حضرت علی کے جلادنے ایک سزایافتہ کو دو تازیانے زیادہ لگا دیے تو انھوں نے بدلے میں اس کوبھی دو تازیانے لگوائے(السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم ۱۷۵۵۱)۔
حضرت علی نے قاضیوں کوحکم دے رکھا تھا کہ سابق خلفا کے فتووں کے موافق فیصلے کریں تاکہ جماعتی نظم قائم رہے،فرمایا:میں اختلاف سے ڈرتا ہوں (بخاری)۔
دو شخص مل کر کھانے کے لیے بیٹھے۔ایک کے پاس پانچ اور دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں ۔انھوں نے ایک راہ گیرکوبھی کھانے میں شریک کر لیا جس نے شکریہ ادا کرکے آٹھ درہم پیش کردیے۔اب ان دونوں میں درہموں کی تقسیم میں جھگڑا ہو گیا۔پانچ روٹیوں والا تین درہم دینے کو تیار تھا، لیکن تین روٹیوں والا آدھی رقم،یعنی چار درہم لینا چاہتا تھا۔مقدمہ حضرت علی کے پاس پیش ہوا تو انھوں نے تین روٹیوں والے سے کہا: تیرا دوست جو دے رہا ہے،لے لے۔وہ نہ مانا توانھوں نے فیصلہ صادرکیا:کل آٹھ روٹیاں اگر تین افراد میں مساوی تقسیم کی جائیں توان کے چوبیس ٹکڑوں میں ہر شخص نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے۔تین روٹیوں والا اپنے نو ٹکڑوں میں سے آٹھ خو دکھاگیا،اس لیے اسے محض ایک درہم ملے گا۔
قیام یمن کے دوران میں حضرت علی کے سامنے اسی طرح کا ایک اور مقدمہ پیش ہوا۔کچھ لوگوں نے کنواں کھودا تو شیر اس میں جا گرا،وہ کنارے پر کھڑے اس کو دیکھ رہے تھے کہ دھکم پیل میں ایک شخص کنویں میں جاگرا،اس نے دوسرے کو پکڑ لیا،دوسرے نے تیسرے کو،تیسرے نے چوتھے کو تھام لیا۔ اس طرح چاروں کنویں میں جا پڑے۔ شیر نے انھیں زخمی کر دیا۔شیر تو ایک اور شخص نے مار ڈالا، لیکن وہ چاروں بھی زخموں سے چل بسے۔اب ان کے والی وارث آپس میں لڑنے لگے۔حضرت علی نے کہا: جنگ و جدال نہ کرو،میں تمھارا فیصلہ کرتا ہوں ۔کنویں کے اردگرد کے قبائل دیت کی رقم جمع کریں ،پہلے شخص کو چوتھائی، دوسرے کو تہائی، تیسرے کو نصف اور چوتھے کومکمل دیت ادا کی جائے۔ ان لوگوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروانے کا مطالبہ کیا۔ آپ نے حضرت علی کے فیصلے کو برقرار رکھا(احمد، رقم۵۷۳۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۸۴۵۱۔مسند بزار، رقم۷۳۲)۔
کچھ مرتد حضرت علی کے پاس لائے گئے تو انھوں نے ان کوآگ میں ڈلوادیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا: اگر میں ہوتا تو آگ سے نہ جلاتا، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:اللہ والا عذاب نہ دو(بخاری، رقم ۶۹۲۲۔ابوداؤد، رقم۴۳۵۱۔ترمذی، رقم۱۴۵۸۔نسائی، رقم۴۰۶۵)۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پانے والے مسلمان کا قرض اس کی وصیت سے پہلے اداکرنے کاحکم دیا، حالاں کہ قرآن کریم میں قرض کا ذکر وصیت کے بعد ہے(ترمذی، رقم۲۱۲۲۔ابن ماجہ، رقم۲۷۱۵۔ احمد، رقم۵۹۵۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۳۰۰)۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’مِّنْۣ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَا٘ اَوْ دَيْنٍ‘،’’اس وصیت کے پورا کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو یا قرض چکانے کے بعد‘‘(النساء ۴: ۱۲)۔
حضرت علی کے فتووں کی دھوم تھی،یہ دیکھتے ہوئے کچھ ناعاقبت اندیشوں نے ان کے فتاویٰ مرتب کیے اور کئی جھوٹے فیصلے ان سے منسوب کر دیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس حضرت علی کا اسی طرح کا ایک فتویٰ لایا گیا تو انھوں نے اس کا بیش تر حصہ مٹا دیا۔ابو اسحٰق کہتے ہیں :یہ وہ الفاظ تھے جو لوگوں نے حضرت علی کے بعد گھڑ لیے تھے(مسلم، رقم۲۳، ۲۴)۔
مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح (بخاری، شرکۃ دار الارقم )، المسند الصحیح المختصر (مسلم: صالح بن عبدالعزیز)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی )،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، البدایۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تاریخ اسلام ( شاہ معین الدین)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (البانی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ جات:محمد حمید اللہ، مرتضیٰ حسین فاضل)،سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)۔
[باقی]
___________