[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصۂ شہود پر نمودار ہوا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جغرافیہ میں شامل مختلف رنگ و نسل کے لوگ نظریے اور عقیدے کے فرق کے علی الرغم قومی ریاستوں کا حصہ بنے۔ پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول پر عمل میں آئی، لیکن اس کی تشکیل اور تشکیل کے بعد کے سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت، یعنی اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہو گیا، جو قومی شناخت کے اظہاریوں میں غالب ہوتاچلا گیا۔ اسلامیت کے اس عنصر کے غلبے نے اس نومولود ریاست کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے احساس میں اس کی ملکیت کا تصور پیدا کر دیا اور یہ حقیقت نظر انداز ہو گئی کہ یہ ریاست بادشاہتوں کے گذشتہ دور کی طرح کسی مسلم حکمران نے فتح نہیں کی تھی کہ فاتح کا مذہب اس کا مذہب اور اس کا دیا ہوا نظام اس کا سرکاری نظام قرار پاتا۔ یہ ایک ایسی جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جس نے جغرافیہ کی بنیاد پر ایک قومی ریاست کا مطالبہ کیا تھا اور اس جغرافیہ میں مختلف قومیتوں کے حامل اور مختلف مذاہب کے پیروکار یکساں حیثیت سے شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تشکیل میں یہاں کی تمام قومیتوں اور مذاہب کے پیروکاروں نے ووٹ ڈالا تھا جس میں اکثریتی ووٹ مسلم آبادی کا تھا۔ ریاست کے اس کثیر القومی تشخص کو بانی پاکستان نے ۱۱ / اگست ۱۹۴۷ء کی اپنی سرکاری تقریر میں بالکل دو ٹوک انداز میں پیش بھی کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا:
’’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
لیکن ریاست کے قیام کے بعد قرون وسطیٰ کے نمونے پر اسے مسلم قومی ریاست بنانے کا خیال یہاں کی مسلم اکثریت میں سرایت کر گیا۔ تحریک پاکستان کے دوران میں مسلم کارڈ کا استعمال اس دو شناختی قومیت کے لیے وجۂ جواز بنا۔ جغرافیائی وحدت کی اساس پر قومی حصول ریاست کااصل الاصول اس ساری ہمہ ہمی میں نظرانداز ہو گیا۔ یوں دو شناختی ریاست ـــــــ پاکستان ـــــــ وجود میں آئی۔ ایک حیثیت سے یہ قومی ریاست ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم، سب برابر کے شہری کہے جاتے ہیں اور دوسری حیثیت میں یہ مسلم ریاست ہے جس میں غیرمسلموں کے لیے کچھ آئینی حقوق کی نفی کی گئی:یہ کہ وہ ریاست پاکستان کے لیے صدر اور وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔وہ اگر چیف جسٹس بنتےہیں تو یہ بھی بہت سے حلقوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ دو شناختی بیانیہ ریاست کی حیثیت کے بارے میں خلط مبحث پیدا کرتاہے۔
ریاست کی مسلم حیثیت کو اس کی آئینی حیثیت دینے کے لیے پہلے قرار داد مقاصد اور بعد ازاں ۱۹۷۳ء کے آئین میں مسلمان کی تعریف اور دیگر اسلامی شقیں آئین کا حصہ بنائی گئیں۔ مسلم اکثریت کو اس ملک کا حقیقی وارث تسلیم کرا لیا گیا اورغیر مسلم اقلیت کو وہی حقوق ملے جنھیں مسلم اکثریت نے دینا منظورکیا۔ یہاں تک کہ کسی شخص یا فرقے کے دعواے اسلام کے باوجود اسے مسلم یا غیر مسلم قرار دینے کا اختیار بھی مسلم اکثریت کے بل بوتے پر حاصل کر لیاگیا۔ دین و ریاست کی ملکیت کا یہ تصور اس حد کو پہنچا کہ دینی شعائر پر مسلم ملکیت کا دعوی ٰ قائم ہوگیا ۔ مطالبہ کیا گیا کہ ان کی سند کے بغیر خارج از ملت فرقے انھیں اختیار نہیں کر سکتے۔ ریاست ایک مسجد کی طرح مسلم اکثریت کے زور پر ان کے مذہب کے نام پر رجسٹرڈ کرا لی گئی۔
قومی ریاستوں کے دور میں اسلام کے نام پر مذہبیت کی یہ پیوند کاری گھمبیر نتائج کا سبب بنی۔ ریاستی اداروں نے اس کے تحفظ کو سرکاری کار منصب قرار دے دیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس ریاستی بیانیے کو تسلیم کرلیا ۔ جنھوں نے اس سے اختلا ف کیا ان کی وطنیت کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے انھیں غدار اور منافق مشتہر کیا گیا۔ ان سے جلا وطن ہو جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ یوں زمین کے ساتھ فرد کے رشتے کی فطری اور دیرینہ وابستگی نظر انداز ہو گئی اور ریاست کے نظریے سے وابستگی اس ملک میں رہنے کے لیے واحد معیار قرار پائی۔
یہی معاملہ مقامی شناخت پر اصرار کرنے والوں سے بھی برتا گیا۔ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی مقامی شناخت کو قومی شناخت کے تابع کر دیں اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے انفرادی ،مقامی اور علاقائی قومی مفادات سے دست بردار ہو جائیں۔ ایسا نہ کرنے پر ریاست نے ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا۔
جہاں تک معاملہ اسلام کا ہے تو یہاں دین اسلام زندہ فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ فرد اگر حاکم ہو تو اسےبھی مخاطب کرتا ، اسے دینی نقطۂ نظر سےہدایات اور ذمہ داریاں دیتا ہے، لیکن ریاست ایک غیر شخصی وجود ہے، دین کا مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، مگر یہاں اسے بھی کلمہ پڑھوا کر مسلمان بنا لیا گیا۔ اس کے لیے عقیدہ (نظریۂ پاکستان) وضع کیا گیا جس کی تعریف پر پورا نہ اترنے والوں کو غیر مسلم اور اسے تسلیم نہ کرنے والوں کو کافر نہیں تو غدار قرار دے دیا گیا۔ صدیوں سے اس زمین پر آبائی حق سے رہنے والوں کے لیے نئے سرے سے استحقاق رہایش کی بحث پیدا ہو گئی۔
مقامی شناختوں کو دبانے اور غیر نمایاں کرنے کے لیے ریاستی اداروں پر مشتمل مقتدرہ نے مقامی بولیوں اور ثقافتی مظاہر اپنانے سے گریز کیا۔ مقامی شناختوں کو تحقیر اور اجنبیت کی نظر سے دیکھا گیا۔ تعلیم اور سرکاری دفتری زبان اردو اور انگریزی کوقرار دیا گیا۔ کسی دوسری زبان کا استعمال ممنوع اور حقیر بنا دیا گیا۔ اس خطے کی تاریخ کے غیر مسلم مشاہیر کے تذکروں کو نصاب اور تاریخ سے محو کر دیا گیا، بلکہ خطے کی مشترکہ تاریخ سے رشتہ ہی توڑ دیا گیا۔ تاریخ کی تشکیل نو کی گئی۔ تاریخ میں سےٹکڑے منتخب کر کے ماضی میں بھی موجودہ قومی مذہبی ریاستی بیانیے کو ثابت کر کے دکھایا گیا۔ اس سارے عمل نے نوجوان مسلم اذہان کو مصنوعی شناخت کے حوالے سے ریڈیکلائز کر دیا۔
اس مصنوعی بیانیے نے ملک کے باسیوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ریاست کے قومی، مذہبی اور ملی شناخت پر اصرار سے قومی سطح پر فرقہ داریت پیدا ہو رہی ہے۔ افراد کو ریاستی بیانیے پر مکمل ایمان لانے اور مکمل ایمان نہ لانے کی بنیاد پر محب وطن، منافق اور غدار کے زمرہ جات میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور یہ تقسیم روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سماج میں ایک طرف مذہبی انتہا پسندی ہے جو اپنے فتویٰ کے بل بوتے پر مذہبی یاسماجی نوعیت کے کسی اختلاف پر، فرد کے باوجود اس کے اپنے دین اور ایمان پر اصرار کے، اس سے اس کی مذہبی شناخت چھین لینا چاہتی ہے تو دوسری طرف ریاستی انتہا پسندی ہے جو ریاستی قوت کے زور پر ایسے تمام عناصر کو ریاست کا باغی قرار دے کر انھیں عاق کر رہی ہے جو فرد کے مفاد پر ریاست کے غیر محدود مفادات پر نقطۂ اعتراض پیش کرتے، ریاست کی فرد کے خلاف زیادتیوں پر توجہ دلاتے، اپنی قومی شناختوں پر اصرار کرتے اور تاریخ کی مصنوعی تشکیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ فرد اور اس کے حقوق کی بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ فرد کی ریاست سے شکایت کی داد رسی سے پہلے یہ بحث جاری کر دی جاتی ہے کہ فریاد کناں غدار اور منافق ہے۔ اس صورت حال میں ریاست اور اس سے معاشی مفاد پانے والے ایک گروہ اور اس سے محروم اور ان کی حمایت میں لب کشا دوسرا گروہ بن گئے ہیں۔ یوں ملک کے اندر ایک خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے جو اگر یونہی جاری رہی تو باہمی نفرت اور خانہ جنگی کی آگ کو ہوا دے گی اور تقسیم کاری کاعمل خوف ناک نتائج پیدا کرے گا۔
قومی مذہبی شناخت سے پیدا ہونے والے اس بحران کی جڑیں متحدہ ہندوستان کے ماضی میں پیوست ہیں۔ ان کا درست تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کی مقامی آبادی نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ علما و فقہا نے ہندو دھرم کے مذہبی رسوم و رواج سے مسلم کمیونٹی کو بچنے کی تلقین کی، لیکن اس تلقین میں وہ مذہب و ثقافت کے فرق کو مسلسل دھندلاتےچلے گئے۔ ثقافتی ہم آہنگی سے مذہبی ہم آہنگی کے راستے کو بند کرنے کے لیے وہ مذہب کے ثقافتی امتیازات وضع کرتے چلے گئے۔ یوں دو قومی نظریہ کے خط و خال نمایاں ہونے لگے۔ دین، دعوت کے بجاے ایک پارٹی بنانے کا تاثر دینے لگا۔ جماعت بندی کی نفسیات کارفرما ہوئی۔نو مسلموں کے ’اسلامی نام‘ رکھنے کی اختراع وضع ہوئی ۔ ہندوستانی ثقافتی مظاہر میں سے ہی کچھ کو چن کر،ان میں سے کچھ میں ردوبدل کر کے اور بعض کو بغیر کسی ردوبدل کے مسلمانوں کے حلیے اور امتیازی اسلامی ثقافتی علامتوں کے طور پر جاری کر دیا گیا۔
عہد سلاطین میں محمد تغلق اور التمش جیسے متشرع سلاطین کے پاس اس وقت کے فقہا تشریف لائے تھے اور انھیں اس فقہی قضیے کی طرف توجہ دلائی کہ مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ ہندوؤں کو مشرک قرار دے کر انھیں قتل کرنے کا مطالبہ کیا۔ان سلاطین نے عملی مجبوریوں کے بہانےان مطالبات کو نظر انداز کیا۔ اس پر فقہا کی طرف سے یہ نصیحت کی گئی کہ ہندوؤں کو ذلیل کر کے رکھا جائے اور امور سلطنت میں ان کو شامل نہ کیا جائے۔ ادھر تعلیم یافتہ مسلمانوں کا حال یہ رہا کہ ہندوستان کے مسلم مورخین نے وسط ایشیا سے آنے والے مسلم حملہ آوروں کو محض اشتراک مذہب کی بنیاد پر غازی اور مجاہد بنا کر پیش کیا، حالاں کہ یہ مسلم سلاطین محض اپنی سلطنت کی توسیع کا ذاتی ایجنڈا رکھتے تھے۔ ان کے عزائم کے سامنے مسلم بادشاہ آتے یا غیر مسلم، ان کے لیے یکساں تھا، لیکن مسلم مورخین ان مسلم سلاطین کی اپنے معاصر مسلم حکمرانوں سے جنگ کو تو جنگ لکھتے، لیکن یہی جب ہندو راجاؤں سے جنگ کرتے تو اسے جہاد قرار دیتے اور جنگجوؤں کا لشکر، اسلامی لشکر قرار پا جاتا تھا۔
اس سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے بے نیاز سماجی سطح پر مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان سماجی تعامل ہمیشہ جاری رہا۔ عوام نے تعلیم یافتگان اور اہل مذہب کی پیدا کردہ تفریقات کو اپنی عملی ضرورتوں اور یکساں حالات، مشکلات اور وسائل میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ عوام کی اس بے نیازی کا سلسلہ جاری تھاکہ قومیت کا تصور مغرب سے برصغیر میں بھی درآمد ہو گیا۔ یہاں کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے ہی اسے سب سے پہلے اپنایا۔ راشٹریہ سیوک سنگ کے تعلیم یافتہ متوسط ہندوؤں نے ہندو قومیت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تعلیم یافتہ مسلم متوسط طبقے نے مسلم قومیت کو فروغ دیا۔ برطانوی راج کی طرف سے ہندوستان میں ۱۹۰۹ء میں جداگانہ انتخابات کا متعارف ہوناان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے معاون ثابت ہوا۔ جمہوریت نے حصول اقتدار کے لیے طاقت کا منبع عوام کو منتقل کر دیا تو عوام کو اس فرقہ دارانہ ایجنڈے پر قائل کرنے کی سیاست کا آغاز ہوا۔ راشڑیہ سیوک سنگھ کو تو کانگریس کے متحدہ قومیت کے نعرے کے سامنے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، تاہم آل انڈیا مسلم لیگ اپنی الگ مسلم شناخت کو بہرحال کامیابی سے برتنے میں کامیاب ہو گئی۔ یوں ایک ثقافت اور ایک تاریخ کی حامل دو مختلف مذہبی شناختیں رکھنے والی دو قوموں ـــــــ ہندو اور مسلم ـــــــ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اس تقسیم نے دو ملک ہی نہیں بنائے، بلکہ دونوں ملکوں کے سماج بھی تقسیم کر دیے اور یہ تقسیم گہری ہوتی چلی گئی ۔
مسلم لیگ کی کامیابی نے وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کو شکست دی جس سے ہندو قومیت کے احساس کو انگیخت ملی۔ یہ تاثر ہندوستان میں آنے والی دہائیوں میں بڑھتا چلا گیا۔ اس احساس نے بھارتی سماج میں ہندو مسلم تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ بھارتی مسلمانوں کا اپنے مذہبی ثقافتی اظہاریوں پر مستقل اصرار اجنبیت کو گہرا کرتا چلا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں کا ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دینا انھیں ہندوستان میں اجنبی بنا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگوں نے اس احساس کو مزید ابھارا ۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو قومیت اور ہندوتوا پر اصرار کرنے والی جماعت، آر ایس ایس، جسے تقسیم ہند کے دوران موثر پذیرائی نہ مل پائی تھی، آج اسی کے ایجنڈے کی حامی جماعت بی جے پی دوسری بار انتخابات جیت کر ہندوستان پر حاکم ہے۔
سیاسی جھگڑوں کے جھمیلے میں اسلام کا بیانیہ بے صدا رہ گیا۔ ہم اس کو یہاں نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
اسلام فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ فرد اگر حاکم ہے تو اسے دینی ذمہ داریوں کا مکلف بھی بناتا ہے، شریعت کے اجتماعیت سے متعلق احکام کی عمل داری کے لیے اسے پابندکرتا ہے۔ لیکن ریاست ایک انتظامی بندوبست کا نام ہے۔ یہ ایک غیر شخصی ادارہ ہے۔ یہ مذہب کا مخاطب بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس ریاست کا بندوبست کرنے والے افراد کا مذہب یا نظریہ ہوتا ہے، لیکن ریاست کا نہیں ہوسکتا۔ اس لحاظ سے ریاست کا شناختی نام اس کے مذہب یا عقیدے کا مظہر بھی نہیں ہوسکتا، اس لیے بھی کہ اس میں رہنے والے تمام افراد کی نمایندگی کسی ایک مذہبی شناخت کے حامل نام سے ممکن نہیں۔
مذہب و ثقافت کے قضیےمیں دین اسلام کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ فرد کے ثقافتی مظاہر کو سواے اس کے موضوع نہیں بناتا کہ ان میں شرک، فحاشی، ظلم یا عدوان جیسی کسی بد اخلاقی کا پہلو پایا جائے۔ ایک آفاقی پیغام رکھنے والے دین کو کسی مقامی ثقافت سے منسلک کرنا محض غلط ہے۔ اسلام فرد کے عقیدے اور اخلاق کو موضوع بناتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اسی کی رہنمائی کرتا ہے۔ آپ اسلام قبول کرنے والوں کے نام تبدیل نہیں فرمایا کرتے تھے، سوائے یہ کہ ان کے نام میں کوئی شرک یا کسی اور برائی کا کوئی پہلو پایا جاتا تو تبدیل فرماتے۔ اسی طرح آپ نے پہلی مسلم کمیونٹی کے ظاہری حلیے میں کبھی ایسی امتیازی علامات قائم نہیں کیں جس سے وہ عرب کے مشرک ـــــــ یہودیوں یا نصاریٰ ـــــــ سے مختلف نظر آتے اور ان کی علیحدہ شناخت قائم ہوتی، دراں حالیکہ اس وقت کے معروضی حالات میں اس کا جواز بھی پیش کیا جا سکتا تھاکہ ایسی امتیازی علامات کے ذریعے سے دوست اور دشمن میں پہچان قائم کی جا سکے۔ شناختی علامات کی یہ عدم موجودگی ہی تھی جس کی وجہ سے بعض صحابہ کے ہاتھوں سے دوران جنگ ایسے افراد بھی مارے گئے جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان تھے۔ چنانچہ قرآن کو کہنا پڑا جو تمھیں سلام کر دے، اسے مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ سلام کہنے کے علاوہ کسی بستی سے اذان کی آواز آنا، کلمۂ شہادت ادا کرنا اور نماز اور زکوٰۃ ادا کرنا کسی فرد یا قبیلے کے مسلمان ہونے کی علامت قرار پایا تھا، لیکن کہیں یہ نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت کے لیے ان کے حلیے اور لباس میں کوئی امتیاز برتا گیا ہو۔ اگر کوئی نامعلوم لاش ملتی تو یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مسلم تھا یامشرک۔ مشرکین عرب اور یہودمختون بھی ہوتے تھے۔ چنانچہ حلیہ اور لباس میں کوئی علامت موجود نہ تھی جس سے کسی فرد کے مذہب کی شناخت ممکن ہو سکتی۔
اسی فہم دین کے ساتھ صحابہ نے جب بیرون عرب فتوحات کیں تو لوگوں کے نام تبدیل کرائے، نہ ثقافتی مظاہر میں کوئی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ اس بارے میں ان کی بے تعصبی کا یہ عالم تھا کہ خالص مذہبی رسوم، مثلاً صلوٰۃ اور صوم کے مقامی زبان کے متبادلات، یعنی نماز اور روزہ کو قبول کر لیا گیا۔ دور جدید میں ان کے انگریزی متبادلات prayer اور fast کے اپنا لینے پر بھی کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں کیا گیا۔ عہد صحابہ میں مساجد کے لیے مینار بنانے کا خیال شام کے گرجا گھروں سے لیا گیا تھا، بلکہ مسجد کا منبر جسے ’منبر رسول‘ کہا جاتا ہے، اس کی تعمیر کا خیال ایک صحابی نے پیش کیا تھا جنھوں نے شام کے گرجا گھروں میں پادریوں کو اس کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔عربی ناموں کے ساتھ فارسی اور ترک نام، جیسے شہریار، پرویز، چنگیز خان وغیرہ مسلمانوں میں عام رہے۔ برصغیر میں آکر یہ رواداری برقرار نہ رہی۔ شروع میں ہندی ناموں کو بھی گوارا کیا گیا، لیکن جلد ہی یہاں عربی اور فارسی اور ترک ناموں کو اسلامی نام سمجھ کر رکھا جانے لگا۔
مذہب سے ثقافت کو تبدیل نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ لوگ تبدیلی مذہب کے باوجود اپنے سماج سے نہیں کٹتے تھے۔ وہ مندر کے بجاے مسجد جانے لگتے تھے، مگر بولی وہی بولتے تھے جو ان کے مقامی لوگ بولتے تھے، لباس وہی پہنتے تھے جو ان کے لوگ پہنتے تھے، نام ان کے وہی رہتے تھے جو ان کے ماں باپ نے دیے ہوتے تھے، جس کے ساتھ ان کی ثقافتی اور نفسیاتی وابستگی ہوتی تھی۔ یوں تبدیلی مذہب کے باوجود دومختلف مذہبی گروہوں میں اجنبیت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ برصغیر میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں اپنے ہم نسل ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر وسط ایشیائی مسلم حملہ آوروں کے خلاف لڑا کرتے تھے، لیکن جب ثقافتی امتیازات برتے جانے لگے، نماز کو پوجا کہنے نہ دیا گیا، روزہ کو بھرت کہنے پر آمادہ نہ ہو پائے، جب آکاش اور پرکاش کو محمد یوسف اور عبد اللہ نام اختیار کرنا پڑے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان کے لیے مخصوص لباس اور حلیہ اختیار کرنے کے شرائط بھی عائد کر دیے گئے، تو لوگوں میں ثقافتی تفریق پیدا ہوئی، جس نے اجنبیت کو جنم دیا اور جو آگے بڑھ کو نفرت اور دشمنی پر منتج ہوئی۔
انیسویں صدی عیسوی میں قومیت کا تصور برصغیر میں نو آبادیاتی دور میں متعارف ہوا۔یہ وطنی قومیت کا تصور تھا جس سے بعد ازاں وطنی مذہبی قومیت کا جنم ہوا۔
’’اسلامی ثقافت‘‘ کے نام پر ہونے والی امتیازی کارروائیوں نے درحقیقت ایک سماج کے لوگوں کو علیحدہ کیا، جس نے آگے بڑھ کر سیاست کی سطح پر گروہ بندی اختیار کر لی۔ برصغیر میں ثقافتی تفریق کا عمل اس وقت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا جب انگریز نے مذہب کی بنیاد پر سیاسی تفریق کی سیاست کی ابتدا کی۔ ۱۹۰۵ء میں بنگال کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وہ ہندو مسلم تقسیم دکھائی دی۔ ۱۹۰۹ء میں مذہبی تقسیم کی اساس پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اقتدار کی رقابت، سیاسی گروہ بندی کا لازمہ ہے، جب اس میں مذہبی شناخت کو شامل کر لیا گیا تو سیاسی رقابت کی منافرت نے مذہبی منافرت کا عنوان اختیار کر لیا۔ الزام مذہب پر آیا کہ مذاہب انسانوں کو لڑاتے ہیں، حالاں کہ یہ سیاست تھی جو لڑاتی ہے، یہ اس کی فطرت کا لازمہ ہے، مذہب کو اس میں بلاوجہ شامل کر لیا گیا تھا۔ سیاسی رقابت بنام مذہب سے پھر وہ نفرت پیدا ہوئی جس کا الم ناک نتیجہ یوم راست اقدام اگست ۱۹۴۶ء کی صورت میں ہندو مسلم فسادات کی صورت میں ظاہر ہوا اور جس کی انتہا تقسیم ہند کےدوران میں ہونے والے خون خرابے میں سامنے آئی۔ اس کے اثرات، پون صدی ہونے کو آئی،اب بھی جاری ہیں۔
مذہبی شناخت کے سیاسی اور ثقافتی اظہاریوں کی لہر جو چلی تو اس نے دوسرے مذاہب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہاں کے مسیحیوں نے بھی یہی راہ اپنائی۔ اپنے مقامی ثقافتی ناموں، جیسے اقبال، اختر، مبارک، شہریار کو چھوڑ کر وہ ڈیوڈ، مائیکل، سائمن جیسے یورپی نام رکھنے لگے۔ یہ رجحان شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ لوگوں اور ان سے متاثر مسیحیوں میں زیادہ نمایاں ہوا۔ دیہی علاقے کے مسیحی اب بھی زیادہ تر مقامی زبانوں کے وہی نام ہی رکھتے ہیں جو مسلم بھی رکھتے ہیں۔ مسیحی افراد شناختی امتیاز قائم کرنے کے لیے گلے میں اور گھروں پر صلیب لٹکانے لگے۔ شناختی امتیازات قائم رکھنے کی یہ لے اس قدر بڑھی کہ مسلم اور مسیحیوں کے درمیان ’’مریم‘‘ جیسے مشترکہ نام کو اردو میں ممکن نہ ہو سکا تو انگریزی کے ہجوں میں مختلف کر دیا گیا۔ مسلم اسے Maryam لکھتے ہیں اور مسیحی Marraim اور تلفظ بھی عام تلفظ سے مختلف کرتے ہیں۔
اہل تشیع اس سب سے بہت پہلے سے اپنی امتیازی شناختی علامتوں کے بارے میں حساس رہے ہیں جس سے وہ نہ صرف الگ پہچانے جاتے ہیں، بلکہ اسی بنا پر ان سے الگ سے امتیازی سلوک روا رکھنا بھی دوسروں کے لیے ممکن ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کے کرتادھرتا یہ باور کریں کہ قومی ریاستوں کے اس دور میں مذہبی ریاست کا تصور ایک بے جوڑ اضافہ ہے۔ یہ ملک یہاں بسنے والی تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا۔ مسلم اکثریت کو محض عددی برتری کے زعم میں اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرانے کا حق نہیں ہے۔ سیاسی نمایندگان کا چناؤ سماج کا آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ مسلم اکثریت کے ملک میں کسی غیر مسلم کا ملک کی سربراہی کے لیے چنے جانا ویسے بھی حد امکان میں نہیں تو اس معاملے میں بلاوجہ قانون سازی کرکے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا تاثر دینا عبث ہے۔ مسلمان حکومت میں ہوں گے تو دین کے مسلم اجتماعیت سے متعلق احکام پر عمل کرنا ان کا فرض منصبی سمجھا جائے گا۔
سماجی سطح پر یہ بات مسلم کمیونٹی کو سمجھانے کی ہے کہ مذہب، ثقافت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ پرویز، ڈیوڈ اور آکاش جیسے نام ایسے ہی قابل قبول ہیں، جیسے محمد یوسف، عبد اللہ اور عبد الرحمٰن؛ صلوٰۃ کے لیے ’ورشپ‘ اور ’پوجا‘ کا لفظ بھی ایسے ہی درست ہے، جیسے نماز؛ کرتا پائجامہ اور پینٹ شرٹ بھی ایسے ہی درست لباس ہیں، جیسے عربی چغہ؛ ثقافتی اور موسمی تہوار بھی اسلامی اور غیر اسلامی نہیں ہوتے۔ دین میں ان چیزوں کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ دین کا موضوع فرد کے عقائد اور اخلاق کی اصلاح ہے۔ کسی مذہب کو اختیار کرنا کسی سیاسی پارٹی کو اختیار کرنے کی طرح نہیں ہے جس میں الگ بیج اور جھنڈے لگا کر اپنا امتیاز ظاہرکرنا ضروری ہو۔ مسلمان کی پہچان، سلام، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی بتائی گئی ہے، نہ کہ کوئی مخصوص حلیہ۔ ثقافتی امتیازات اختیار کرنےکا تصور تب پیدا ہوا جب اہل مذہب نے خود کو سیاسی اور سماجی گروہوں میں سے ایک گروہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ضروری ہے کہ مذہب و ثقافت کے درمیان حد فاصل کا شعور اجاگر کیا جائے اور لوگوں میں منافرت کی خود ساختہ بنیادوں کو ختم کیا جائے۔
ریاست کے تصورمیں اصلاح کی ضرورت
ریاست کا یہ تصور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مقدس ہے جس پر تنقید سے اس کی توہین ہو جاتی ہے۔ اور یہ کہ وہ فرد اور اس کے حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست بادشاہ کی جگہ پر آئی اور اسی وجہ سے اسے بادشاہت والا اختیار اور تقدس دے دیا گیا ہے۔ اسی بنا پر اس سے غیر مشروط وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے، لیکن یہ بنیادی حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بادشاہتوں کی یہ مطلق العنانی اور ان کے ساتھ غیرمشروط وفاداری کے مطالبات وہ برائیاں تھیں جن کو ختم کرنے کے لیے انسانیت نے جمہوریت کی طرف قدم اٹھایا تھا، لیکن ہوا یہ کہ جمہوریت سے پیدا ہونے والی حریت فکر کو صرف حکومت اور حکومتی نمایندوں تک محدود کر دیا گیا اور ریاست کے ساتھ وہی قدیم وابستگیاں برقرار رکھنے کا مطالبہ جاری ہے ۔ انسانیت کو اب ایک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ وہ تسلیم کرے کہ کسی چیز کو مقدس قرار دینے کا حق انسان کے پاس نہیں ہے۔ کسی چیز کی اہمیت اس کی افادیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ مقدس اگر ہے تو وہ فرد کی جان، مال اور آبرو ہے۔ ریاست کا وجود فرد کا مرہون منت ہے۔ ریاست اس کے ٹیکس کی محتاج اور اس کو جواب دہ ہے۔ ریاست ایک مینیجر ہے، ایک انتظامی بندوبست ہے جس کو فرد کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ وہ اپنا وجود اسی افادیت کے ثبوت پر برقرار رکھنے کا جواز رکھتی ہے۔ اس کی فلاح کی خاطر ریاست کے آئین، نظام، قانون اور جغرافیہ، سب میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔خود قومی ریاستوں کو سرحدوں میں ردو بدل کر کے وجود دیا گیا ہے، یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ ان تمام امور میں فیصلہ کن راے افراد کی ہے۔
ریاست ایک ڈھانچا ہے۔ حکومت اس میں قانون کا نفاذ کرتی ہے جس کی اطاعت کی جائے گی۔ فرد ریاست کا خیر خواہ ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے وفاداری کا تصور پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وفاداری کا تصور ہی ریاست کو فرد کے استیصال کا لائسنس دیتا ہے۔ ریاست کے ساتھ وفاداری کا تصور بادشاہت کے دور کی یادگار ہے۔ اسے اب جلد ختم ہو جانا چاہیے۔ فرد کی سلامتی، ریاست کی سالمیت پر مقدم ہے۔انسانی جان کو تقدس خدا نے دیا ہے، ایک شخص کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل خدا نے قرار دیا ہے۔ ریاست کا تقدس بیسویں صدی کے آذروں کا تراشا ہوا بت ہے جس پر انسان کو قربان کرنے کا خود ساختہ عقیدہ انسان نے ایجاد کیا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
ریاست کی سرحدوں کا ابدی نہ ہونا اور ریاست کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کی نفی ریاست کو قانون کے دائرے میں لانے اور اپنی ہیئت اور جغرافیہ کو برقرار رکھنے کی خاطر سماجی انصاف کے قیام کو یقینی بنانے کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرے گی۔ جبرسے ریاست میں بسنے والے مختلف قومی شناختوں اور مفادات رکھنے والے گروہوں کو جوڑ کر رکھا نہیں جا سکتا، ایسا کرنا مستقل خانہ جنگی اور بد امنی کو دعوت دینا ہے۔ یہ محض سماجی انصاف کا حقیقی قیام ہے جو مختلف لوگوں اور طبقات کے مل کر رہنے کا محرک بنتا ہے۔ سماجی انصاف کا یقین ہو تو عوام کی عملیت پسندی کسی قوم پرستی اور علیحدگی کی آواز پر بھی کان نہیں دھرتی۔
وفاقی اکائیوں کو آئین میں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اگر اپنی اکثریت کی مرضی سے ایک وفاق میں شامل ہوئی تھیں تو اکثریت کی راے کی بنا پر اس سے علیحدہ ہونا چاہیں تو ہو سکیں۔ اس کے لیے ریفرنڈم جیسا پرامن طریقہ اختیار کیا جا سکتاہے۔ کسی اکائی کے وفاق سے علیحدہ ہونے کا قانونی جواز موجود ہوتو یہ اندیشہ وہ قوی محرک ثابت ہو سکتا ہے جو ریاست یاوفاق کو جبریہ ہتھکنڈوں کے بجاے باہمی رضامندی سے اکائیوں کو وفاق سے جوڑے رہنے پر آمادہ کیے رکھے۔
ہمیں اپنے ریاستی اور قومی بیانیوں کی تشکیل نو کی ضرورت ہے جس کے لیے سماجی علوم کے ماہرین کی خدمات کو بروے کار لانا چاہیے۔
____________