قرآن مجید میں مختلف مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا اور آپ کو اس کا متبع قرار دیتے ہوئے مشرکین اور یہود ونصاریٰ کو بھی اس کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ آیات حسب ذیل ہیں:
سورۂ نحل میں ارشاد ہے :
ثُمَّ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. (۱۶: ۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھاری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
سورۂ حج میں اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے کہ:
وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍﵧ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَﵿ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا.(۲۲: ۷۸)
’’اور اللہ کی راہ میں اس طرح جدوجہد کرو جیسے جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اسی نے تمھیں منتخب فرمایا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر کاربند رہو۔ اسی نے تمھارا نام اس سے پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی مسلمان رکھا ہے۔‘‘
سورۂ انعام میں اس کو شکر وامتنان کے پہلو سے یوں بیان کیا گیا ہے:
قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْ٘ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍﵼ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵐ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. (۶: ۱۶۱)
’’کہہ دو کہ بے شک میرے رب نے مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے۔ ایسا دین جو بالکل راست ہے، یعنی ابراہیم کی ملت جو بالکل یکسو تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
آل عمران میں اہل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا ہے:
قُلْ صَدَقَ اللّٰهُﵴ فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.(۳: ۹۵)
’’کہہ دو کہ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے، اس لیے ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
سورۂ بقرہ میں یہی دعوت اس اسلوب میں پیش کی گئی ہے:
وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗﵧ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَاﵐ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ.(۲: ۱۳۰)
’’اور کون ہے جو ابراہیم کی ملت سے منہ موڑے گا، سواے اس کے جو خود کو حماقت میں مبتلا رکھے۔ اور یقیناً ہم نے اس کو دنیا میں بھی (ایک خاص مقام کے لیے) چن لیا اور بے شک آخرت میں بھی وہ اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوگا۔‘‘
وَقَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰي تَهْتَدُوْاﵧ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.(۲: ۱۳۵)
’’اور انھوں نے کہا کہ تم یہودی بن جاؤ یا نصرانی تو سیدھا راستہ پا لو گے۔ تم کہہ دو کہ نہیں، بلکہ (ہم تو) ملت ابراہیم (کی پیروی کرتے ہیں) جو بالکل یکسو تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵧ وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا.(۴: ۱۲۵)
’’اور اس سے اچھا دین کس کا ہو سکتا ہے جس نے نیک کام کرتے ہوئے اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا لیا اور ابراہیم کی ملت کی پیروی کی جو بالکل یکسو تھا اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔‘‘
اس ہدایت کی نوعیت اور تفصیلات سے متعلق امت کے اہل علم میں مختلف زاویہ ہاے نظر پائے جاتے ہیں۔ زیر بحث بنیادی سوال یہ ہے کہ ملت ابراہیمی کی اتباع سے مراد کیا ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پیش کردہ دین کے کون سے پہلو کی پیروی کی دعوت ان آیات میں دی گئی ہے؟ زیر نظر تحریر میں امت کی علمی روایت میں اس حوالے سے سامنے آنے والے مواقف اور ان کے استدلالات کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔
علما کے ایک گروہ کا رجحان یہ ہے کہ ملت ابراہیمی کی اتباع سے خاص طور پر عقیدۂ توحید پر ایمان لانا اور ہر قسم کے انحراف سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت وفرماں برداری کا رویہ اختیار کرنا مراد ہے، یعنی اس کا تعلق ان مخصوص عملی احکام وشرائع سے نہیں ہے جو سیدنا ابراہیم کو بتائے گئے تھے (آلوسی، روح المعانی ۱/ ۳۹۴، داراحیاء التراث العربی بیروت، امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن ۱/ ۳۴۸، ۲ /۱۴۵)۔
اس تاویل کی تائید میں ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ ان میں سے بیش تر مقامات پر ’مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ ‘ کے ساتھ ’حَنِيْفًا ‘ کی قید موجود ہے اور بعض آیات کے سیاق وسباق میں خاص طور پر شرک کو نمایاں کیا گیا ہے۔ امام رازی اس نکتے سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال قوم: إن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان علی شریعة إبراھیم علیه السلام ولیس له شرع ھو به منفرد، بل المقصود من بعثته علیه السلام إحیاء شرع إبراھیم علیه السلام وعول في إثبات مذھبه علی ھذه الآیة، وھذا القول ضعیف، لأنه تعالیٰ وصف إبراھیم علیه السلام في ھذہ الآیة بأنه ما کان من المشرکین، فلما قال ’’اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ‘‘ کان المراد ذالک.(مفاتیح الغیب ۲۰/۱۳۸)
’’ایک گروہ نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم علیہ السلام کی شریعت پر تھے اور یہ کہ آپ کو کوئی مستقل شریعت نہیں دی گئی، بلکہ آپ کی بعثت سے مقصود شریعت ابراہیمی کا ہی احیا تھا۔ اس کی تائید میں انھوں نے زیربحث آیت کو بنیاد بنایا ہے، لیکن یہ موقف کم زور ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت ابراہیم کی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ مشرکین میں سے نہیں تھے، چنانچہ اس سیاق میں جب یہ کہا گیا کہ ملت ابراہیمی کی پیروی کیجیے تو اس سے مراد بھی یہی ہے۔‘‘
مزید برآں، ان اہل علم کی راے میں یہاں شرعی و عملی احکام اس لیے بھی مراد نہیں ہو سکتے کہ وہ مختلف انبیا کے لیے مختلف رہے ہیں اور زمانہ وحالات کے تغیر سے ان میں تغیر بھی واقع ہوتا رہا ہے [1] ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، اللہ کا آخری نبی اور آپ کی شریعت کے، تمام سابقہ شرائع کے لیے ناسخ ہونے کا تصور بھی ان کے خیال میں اس سے مانع ہے کہ آپ کو ایک نئی اور مستقل شریعت کا حامل سمجھنے کے بجاے ملت ابراہیمی کا پیروکار قرار دیا جائے (مفاتیح الغیب ۴/ ۷۶۔ روح المعانی ۳/ ۱۹۶) ۔
البتہ شریعت ابراہیمی کی اتباع کو کوئی اصولی حکم قرار دیے بغیر، یہ اہل علم ایک امر واقعہ کے طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سے احکام جو ملت ابراہیمی کی روایت میں پہلے سے موجود تھے، انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں برقرار رکھا گیا ہے (شاطبی، الموافقات ۲/ ۶۵؛ ۳/ ۳۲۵)۔ امام رازی لکھتے ہیں:
لما کان غالب شرع محمد علیه السلام موافقًا لشرع إبراھیم علیه السلام فلو وقعت المخالفة في القلیل لم یقدح ذالک في حصول الموافقة.(مفاتیح الغیب ۸/ ۹۹)
’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت زیادہ تر ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق ہے تو چند چیزوں میں اس سے مختلف ہونے سے دونوں کے باہم مطابق ہونے پر کوئی زد نہیں پڑتی۔‘‘
اس نقطۂ نظر کے قائلین کے سامنے بعض اہم سوالات بھی ہیں جن کا انھوں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
مثلاً ایک اہم سوال یہ ہے کہ توحید تو تمام انبیا کا دین ہے، اس لیے اسے خاص طور پر سیدنا ابراہیم کی نسبت سے بیان کرنے کی کیا وجہ ہے؟ مفسرین نے مذکورہ اشکال کے تناظر میں، اس کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں جن کا ایک جامع خلاصہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی تفسیر میں بیان کر دیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’اگرچہ اسلام کو ملت نوح، ملت موسیٰ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم، لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے، کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ واثر رچا ہوا تھا، وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان، مشرکین عرب، اور شرق اوسط کے صابی سب متفق تھے۔ انبیا میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدایش سے پہلے گزرے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور صابئیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکین عرب تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمرو بن لحی سے شروع ہوا۔ … لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجاے ملت ابراہیم کو اختیار کرو تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم برحق اور برسرہدایت تھے اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں، اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/ ۲۵۵)
البتہ امام رازی کا زاویۂ نظر اس حوالے سے عام مفسرین سے کچھ مختلف ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ ملت ابراہیمی کی پیروی، تقلید کی ایک صورت ہے جو فروعی احکام میں تو جائز ہے، لیکن اعتقادی امور میں جائز نہیں۔ چونکہ قرآن مجید میں توحید کے اثبات اور شرک کی نفی قطعی عقلی دلائل کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس لیے یہ بات باعث اشکال ہے کہ اس معاملے میں کسی پیغمبر کی تقلید کی دعوت کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اس اشکال کے پیش نظر رازی نے مختلف آیات میں ملت ابراہیمی کی اتباع کی دعوت کو مختلف معنوں پر محمول کیا ہے۔
مثلاً سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۵ میں یہود ونصاریٰ کو ’بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِيْفًا ‘ کے الفاظ میں دعوت دی گئی ہے۔ اس کی توجیہ رازی کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا حق ہونا دلائل سے واضح فرما دیا اور اس کے جواب میں یہود ونصاریٰ نے اپنے آبا واجداد کی پیروی کو بطور حجت پیش کیا تو اس کے جواب میں اس آیت میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر دین کے معاملے میں نظر واستدلال کے بجاے تقلید حجت ہے تو پھر یہودیت ونصرانیت کے بجاے دین ابراہیم کی پیروی بہتر ہے۔ چونکہ ابراہیم توحید خالص پر ایمان رکھتے تھے جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں، جب کہ مشرکین اور یہود ونصاریٰ سب کسی نہ کسی رنگ میں شرک میں مبتلا ہیں، اس لیے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ملت ابراہیم کے اصل پیروکار محمد ہی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ یہاں مثبت معنوں میں یہود ونصاریٰ سے ملت ابراہیمی کی اتباع کا مطالبہ نہیں کیا گیا، بلکہ الزامی طور پر یہ بات کہی گئی ہے (مفاتیح الغیب ۴/ ۸۸)۔
اسی طرح سورۂ نحل کی آیت ۱۲۳ کے تحت لکھتے ہیں کہ اگر اس ہدایت سے دعوت توحید کے اسلوب اور طرز استدلال وغیرہ میں سیدنا ابراہیم کی پیروی مراد لے لی جائے تو اس معنی میں اتباع کی تعبیر موزوں اور برمحل ہو جاتی ہے (مفاتیح الغیب ۲۰/ ۱۳۸)۔
سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۰ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بعینہ ملت ابراہیمی قرار دیتے ہوئے اس کو آپ کی دعوت کے برحق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا اور اس کی بنیاد پر مشرکین اور یہود ونصاریٰ کو اسے قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہاں رازی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا دین محمدی اصول وفروع، دونوں میں ملت ابراہیمی پر مبنی ہے یا اس موافقت کا دائرہ صرف بنیادی اعتقادات اور مکارم اخلاق تک محدود ہے، جب کہ شرائع واعمال، دونوں میں مختلف ہیں؟ پہلی صورت اس لیے مراد نہیں ہو سکتی کہ شریعت محمدی تو سابقہ تمام شرائع کی ناسخ ہے، اس لیے وہ بعینہ کسی سابقہ شریعت پر مبنی کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر مراد صرف عقائد واخلاق میں موافقت ہو تو اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے برحق ہونے پر استدلال تام نہیں، کیونکہ توحید، آخرت اور مکارم اخلاق کو مان لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی قبول کر لیا جائے۔ رازی نے اس الجھن کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہاں دین محمدی کو ملت ابراہیمی سے تعبیر کرنے کا مطلب سرے سے اس کا دین ابراہیمی پر مبنی یا اس کے ساتھ موافق ہونا ہے ہی نہیں، بلکہ چونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے آپ کی بعثت کی اور آپ کے دین کی تائید ونصرت کی دعا فرمائی تھی، اس لیے مجازی طور پر آپ کے دین کو ملت ابراہیمی سے تعبیر کر دیاگیا ہے (مفاتیح الغیب ۴/ ۷۶) ۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیات میں بعض مقامات پر ملت ابراہیم کی اتباع کا ذکر جس سیاق میں ہوا ہے، وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ توحید کے ساتھ احکام وشرائع بھی اس سے مراد ہیں۔ مثلاً آل عمران اور الانعام میں متعلقہ آیات کے سیاق میں خور ونوش میں حلت وحرمت کے احکام کا اور سورۂ نحل میں سبت کی حرمت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں قائم نہ رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ سیاق وسباق کی اس دلالت کے پیش نظر بعض اہل علم جزوی طور پر اتباع کے مفہوم میں شریعت ابراہیمی کو بھی داخل قرار دیتے ہیں، تاہم اسے کوئی اصولی اور بنیادی نوعیت کا حکم تصور کرنے کے بجاے سیاق وسباق میں زیر بحث یہود کے بعض اعتراضات کا جواب سمجھتے ہیں۔ یعنی چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں بنی اسرائیل کے لیے مقرر کیے گئے بعض مخصوص احکام، مثلاً سبت کی حرمت اور خور ونوش کی بعض پابندیوں کو چھوڑ کر ملت ابراہیمی کے اصل شرائع کو اختیار کیا گیا تھا، اس لیے یہود اس پر اعتراض کرتے تھے۔ ان کے اعتراض کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ان احکام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شریعت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے جو اصل ہے، جب کہ یہود پر عائد کی گئی پابندیوں کی نوعیت عارضی اور خصوصی احکام کی تھی۔
مثلاً سورۂ آل عمران کی آیت ۹۵ کے تحت امام رازی لکھتے ہیں:
صدق اللہ في قوله: إن لحوم الإبل وألبانھا کانت محللة لإبراھیم علیه السلام وإنما حرمت علی بنی إسرائیل لأن إسرائیل حرمھا علی نفسه، فثبت أن محمدًا صلی اللہ علیه وسلم لما افتی بحل لحوم الإبل وألبانھا فقد افتی بملة إبراھیم.(مفاتیح الغیب ۸/ ۱۵۵)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بالکل سچ ہے کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ ابراہیم علیہ السلام کے لیے حلال تھا، جب کہ بنی اسرائیل کے لیے ان کو اس لیے حرام کیا گیا کہ حضرت یعقوب نے انھیں اپنے اوپر حرام ٹھیرا لیا تھا۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ کے گوشت اور دودھ کے حلال ہونے کا فتویٰ دینا ملت ابراہیم کے مطابق ہے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی (تدبر قرآن ۲/ ۱۴۳- ۱۴۴) اور مولانا مودودی کے ہاں بھی یہی رجحان دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ سورۂ نحل کی آیت ۱۲۳ میں ملت ابراہیمی کے حوالے کا پس منظر واضح کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’ملت ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلاً یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر ملت ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملت ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال ہیں۔ ... سبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور ملت ابراہیمی میں حرمت سبت کا کوئی وجود نہ تھا، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو، یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں، بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کر دی گئی تھیں۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/ ۵۸۰- ۵۸۱)
ابوبکر الجصاص اور دیگر حنفی اصولیین اس راے سے اتفاق کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور تھے اور آپ کی شریعت دراصل ملت ابراہیمی اور اس کے ساتھ کچھ مزید احکام پر مشتمل ہے (احکام القرآن ۱/ ۸۱)۔ تاہم وہ اس ہدایت کو استصحاب کے اصول کے تحت ایک عبوری نوعیت کی ہدایت تصور کرتے ہیں۔ جصاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اہل عرب کے لیے استصحاب کے اصول پر انھی احکام ورواجات کو برقرار رکھا گیا اور آپ نے بھی بہت سے معاملات میں اسی طریقے کے مطابق فیصلہ فرمایا جس پر زمانۂ جاہلیت میں ان کا عمل جاری تھا، چاہے وہ ملت ابراہیمی کے باقی ماندہ احکام ہوں یا عقل وفطرت کی رو سے مستحسن ہوں یا مختلف مصالح کے تحت لوگوں نے خود انھیں وضع کر لیا ہو (احکام القرآن ۱/ ۶۶، ۷۳؛ ۲/ ۷۵، ۷۹)۔ اسی اصول کے تحت جصاص اور حنفی اصولیین تمام انبیا سابقین کی شریعتوں کے احکام کو بھی، جن کا ذکر قرآن یا حدیث میں ہوا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں محکم اور غیر منسوخ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک ان شرائع میں سے کسی حکم کے متبادل کے طور پر نیا حکم نہ دیا جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تورات وانجیل اور دیگر انبیا کو دیے گئے شرعی احکام کی پابندی پر بھی مامور تھے (احکام القرآن ۱/ ۶۶، ۲/ ۴۳۸، ۴۴۲، ۴۵۰۔ اصول السرخسی ۲/ ۱۰۲) ۔
جصاص یہاں اس اشکال سے تعرض نہیں کرتے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سابقہ انبیا کے شرائع یا ملت ابراہیمی کا پابند کیا گیا تھا تو پھر اہل عرب کو زمانۂ جاہلیت کے تعامل اور رواج پر کس اصول پر قائم رکھا گیا۔ اسی طرح وہ اس سوال پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالتے کہ بہ یک وقت ملت ابراہیمی اور دیگر انبیا کی شرائع کی پیروی کی ہدایت کن معنوں میں دی گئی اور تعارض کی صورت میں آپ کے لیے کیا لائحۂ عمل مقرر کیا گیا۔ بہرحال ان اشکالات سے قطع نظر، ان کا اصولی زاویۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ وہ اس ہدایت کو ملت ابراہیمی کے حوالے سے کوئی خصوصی حکم نہیں سمجھتے، بلکہ شرائع من قبلنا کی اتباع کے ایک ذیلی اور ضمنی حکم کے طور پر دیکھتے ہیں جو اصلاً عبوری عرصے کے لیے استصحاب کے اصول پر دی گئی تھی۔
اہل علم کے ایک چوتھے گروہ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم، عقائد واحکام، دونوں میں ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور تھے، البتہ اس سے وہ احکام مستثنیٰ ہیں جن کو آپ کی شریعت میں منسوخ کر دیا گیا ہو (تفسیر الطبری ۳/ ۱۰۷- ۱۰۸۔ الکیا الہراسی، احکام القرآن ۱/ ۲۰۔ بغوی، معالم التنزیل ۵/ ۵۱) ۔
بغوی نے اس موقف کے مجموعی حاصل کو یوں بیان کیا ہے:
وإنما أمرنا باتباع ملة إبراھیم لأنھا داخلة في ملة محمد. (معالم التنزیل ۵/ ۴۰۳)
’’اور ہمیں ملت ابراہیم کی پیروی کا اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت میں داخل ہے۔‘‘
ابن الجوزی لکھتے ہیں :
أمر باتباعه في جمیع ملته إلا ما أمر بترکه، وھذا ھو الظاھر . (زاد المسیر ۴/ ۵۰۴)
’’آپ کو ابراہیم علیہ السلام کی پوری ملت کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، سواے ان احکام کے جن کو ترک کرنے کی ہدایت دی جائے۔ اور یہی قول ظاہر ہے۔‘‘
ابن القیم نے اس تاویل کے حق میں ’مِلَّة‘ کے لفظ کے جامع مفہوم سے استدلال کیا اور اس کو صرف توحید تک محدود کرنے کی نفی کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
فالملة ھي الدین وھي مجموعة أقوال وأفعال واعتقاد ودخول الأعمال في الملة کدخول الإیمان، فالملة ھي الفطرة وھي الدین، ومحال أن یامر اللہ سبحانه باتباع إبراھیم في مجرد الکلمة دون الاعمال وخصال الفطرة وإنما أمر بمتابعته في توحیده وأقواله وأفعاله. (تحفۃ المودود باحکام المولود۲۵۸)
’’ملت، دین کو کہتے ہیں جو اقوال و افعال اور اعتقادات، سب کا مجموعہ ہوتا ہے اور ایمان کی طرح اعمال بھی ملت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ پس ملت اور فطرت اور دین ایک ہی چیز ہیں اور یہ بات ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف کلمۂ توحید میں سیدنا ابراہیم کی پیروی کا حکم دیں اور اعمال اور خصال فطرت میں نہ دیں۔ درست بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابراہیم کی توحید اور اقوال و افعال، سب میں ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘
اس کے علاوہ بعض مقامات پر ملت ابراہیم کی اتباع کا ذکر جس سیاق میں ہوا ہے، وہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ توحید کے ساتھ احکام وشرائع بھی اس سے مراد ہیں۔ اس نکتے کی وضاحت سابقہ سطور میں کی جا چکی ہے۔
ابن حزم نے بھی اسی راے کی تاکید کی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابراہیم کی شریعت کی اتباع پر مامور کیا گیا تھا اور مسلمانوں کو جو شریعت دی گئی ہے، وہ بعینہ شریعت ابراہیمی ہے (الاحکام فی اصول الاحکام ۵/ ۱۶۱، ۱۷۴) ۔
متاخرین میں سے اس راے کی تائید کرنے والے نمایاں اہل علم میں شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزند شاہ عبدالعزیز شامل ہیں۔ ان میں سے شاہ ولی اللہ کی راے کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگے چل کر نقل کی جائے گی۔ یہاں شاہ عبد العزیز کی تفسیر ’’فتح العزیز‘‘ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
وبرخی از محققین بآں رفتہ اند کہ شریعت خاتم المرسلین بعینہا شریعت ابراہیمی است و فرق ملت و شریعت نکردہ اند و گفتہ اند کہ اصول و فروع ایں شریعت موافق اصول و فروع شریعت ابراہیمی است بلا تفاوت لیکن بایں معنی کہ احکام ملت ابراہیمی بتمامہا دریں شریعت محفوظ است کو چیزہای بسیار براں افزودہ باشند، وآں چیزہا نیز مخالف آن احکام نیستند بلکہ شرح و بسط و تتمیم و تکمیل ہماں احکام اند، پس ملت ابراہیمی حکم متن دارد و شریعت مصطفوی حکم شرح آں متن. (تفسیر فتح العزیز ۱/۳۴۱)
’’محققین کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بعینہ شریعت ابراہیمی ہے۔ یہ حضرات ملت (اصول و عقائد) اور شریعت (شرائع وفروع) میں فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس شریعت کے اصول و فروع کسی فرق کے بغیر شریعت ابراہیمی کے اصول و فروع کے عین مطابق ہیں، لیکن اس معنی میں کہ ملت ابراہیمی کے تمام احکام اس شریعت میں محفوظ ہیں، جب کہ ان پر بہت سے احکام کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ اضافی احکام بھی ملت ابراہیمی کے احکام کے مخالف نہیں، بلکہ انھی کی تفصیل و تشریح اور تکمیل و اتمام ہیں۔ پس ملت ابراہیمی کا درجہ متن کا ہے اور شریعت مصطفوی کی حیثیت اس متن کی شرح کی ہے۔‘‘
اس راے کے حاملین میں سے بعض اہل علم، مثلاً امام طبری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے لیے شریعت ابراہیمی کے انتخاب کے حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ یہ واضح کیا ہے کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اس تکوینی فیصلے سے ہے جس کی رو سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کی قوموں کا پیشوا قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ سلسلۂ انبیا میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی خصوصی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے امام طبری لکھتے ہیں:
ان کل من کان قبل إبراھیم من الأنبیاء کان حنیفًا متبعًا طاعة اللہ ولکن اللہ تعالیٰ ذکرہ لم یجعل أحدًا منھم إماما لمن بعده من عبادہ إلی قیام الساعة کالذي فعل من ذالک بإبراھیم، فجعله إماما في ما بینه من مناسک الحج والختان وغیر ذالک من شرائع الإسلام تعبدًا به أبدًا إلی قیام الساعة، وجعل ما سن من ذالک علمًا ممیزًا بین مومني عباده وکفارھم والمطیع منھم والعاصي، فسمي الحنیف من الناس ’’حنیفًا‘‘ باتباعه ملته واستقامته علی ھدیه ومنھاجه، وسمي الضال من ملته بسائر أسماء الملل فقیل: یھودي ونصراني ومجوسي وغیر ذالک من صنوف الملل. (تفسیر الطبری ۳ /۱۰۸)
’’سیدنا ابراہیم سے پہلے بھی جتنے انبیا تھے، سب کے سب اللہ کی طرف یکسو اور اللہ کی اطاعت کرنے والے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی کو ان کے بعد قیامت تک کے لیے اپنے بندوں کا پیشوا مقرر نہیں کیا جیسا کہ سیدنا ابراہیم کو کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں مناسک حج، ختنہ اور دیگر اسلامی شرائع و احکام کے باب میں قیامت تک کے لیے اپنے بندوں کا پیشوا بنایا اور انھیں ان احکام کا پابند ٹھیرایا ہے اور ان مقررہ طریقوں کو اپنے مومن و کافر اور فرماں بردار و نافرمان بندوں کے مابین ذریعۂ امتیاز قرار دیا ہے۔ چنانچہ لوگوں میں سے جو سیدنا ابراہیم اور ان کی ملت کی پیروی کریں اور ان کے طریقے اور اسوے پر ثابت قدم رہیں، انھیں ’’حنیف‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جب کہ ان کی ملت میں سے گم راہ ہو جانے والوں کو یہودی، نصرانی، مجوسی اور دیگر مذہبی عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘
یہی بات ابو حیان نے بھی بیان کی ہے (البحر المحیط ۱/۵۷۸) [2]۔
اس نقطۂ نظر کے مویدین نے پہلے نقطۂ نظر کے حاملین کی طرف سے اٹھائے گئے اس سوال سے بھی تعرض کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیمی شریعت کا پیروکار قرار دینا آپ کے ایک نئی اور مستقل شریعت کا حامل ہونے کے منافی ہے۔ البتہ معترضین میں اس حوالے سے تھوڑا سا داخلی اختلاف نظر آتا ہے کہ اگر ابراہیمی شریعت کو منسوخ مان کر یہ کہا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسے دوبارہ بحال کیا گیا تو کیا اس سے آپ کی مستقل تشریعی حیثیت کا سوال حل ہو جاتا ہے یا نہیں؟ امام رازی کا رجحان یہ ہے کہ اگر ابراہیمی شریعت کے لیے شریعت موسوی کو ناسخ تصور کیا جائے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے شریعت موسوی کا ناسخ بن کر ابراہیمی شریعت کو ازسرنو بحال کیا ہو تو اس صورت میں آپ کی حیثیت مستقل صاحب شریعت ہی کی بن جاتی ہے (مفاتیح الغیب ۸/ ۹۹)۔ تاہم علامہ آلوسی اس استدلال پر مطمئن نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک نبی نے سابقہ انبیا میں سے کسی نبی کی شریعت کو منسوخ کر کے کسی دوسرے نبی کی شریعت کا احیا کر دیا ہو تو اس سے وہ مستقل شریعت کا حامل نہیں بن جاتا، اس لیے کسی بھی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو، ابراہیمی شریعت پر مبنی قرار دینا آپ کے، صاحب شریعت جدیدہ ہونے کے منافی ہے (روح المعانی ۳/ ۱۹۶) ۔
بہرحال، مذکورہ سوال کے جواب میں ابن حزم واضح کرتے ہیں کہ ہم پر شریعت ابراہیمی کی اتباع اس لیے لازم نہیں ہے کہ سیدنا ابراہیم کی بعثت عام تھی اور ہم براہ راست اس شریعت کے مخاطب ہیں، بلکہ اس لیے لازم ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لیے مبعوث کرنے کے بعد آپ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں۔ یوں مسلمان براہ راست سیدنا ابراہیم کی نہیں، بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے مکلف ہیں جنھیں شریعت ابراہیمی ہی کو اپنی امت کے لیے بطور شریعت مقرر کرنے کا پابند کیا گیا تھا اور چونکہ آپ کی بعثت ایک مستقل بعثت تھی، اس لیے آپ نے شریعت ابراہیمی کے بہت سے احکام کو منسوخ بھی فرمایا ہے (الاحکام فی اصول الاحکام ۵/ ۱۸۲) ۔
شاہ عبد العزیز نے بھی اس سوال سے تعرض کیا ہے کہ کیا اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت جدیدہ نہیں تھے، یعنی صاحب شریعت ہونے میں آپ کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی اور آپ صرف شریعت ابراہیمی پر عمل کے پابند تھے؟ شاہ عبد العزیز اس کا ایک جواب یہ دیتے ہیں کہ صاحب شریعت جدیدہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی پیغمبر کو جو حکم دیا جائے، وہ اس سے پہلے کبھی کسی پیغمبر کو نہ دیا گیا ہو، بلکہ کسی مٹ جانے والی شریعت کے احکام نئی وحی کے ذریعے سے کسی نبی کو بتائے جائیں تو اس کی حیثیت بھی شریعت جدیدہ کی ہوتی ہے۔ شاہ صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب شریعت جدیدہ ہونے کا دوسرا پہلو یہ ذکر کیا ہے کہ آپ نے ملت ابراہیمی کے احکام پر بے شمار احکام کا اضافہ بھی فرمایا ہے۔ اس ضمن میں شاہ صاحب نے نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کی تفصیلات، مسائل جہاد، خلافت کبریٰ، قضاۃ ومحتسبین کے تقرر، جزیہ و خراج کی وصولی، فے و غنائم کی تقسیم، جمعہ و جماعات اور عیدین کی اقامت اور تقسیم مواریث وغیرہ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان بہت سے احکام کے اضافہ کی وجہ سے بھی آپ کو صاحب شریعت جدیدہ قرار دینا بالکل درست ہے (فتح العزیز ۱/ ۳۴۲)۔
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصول کے علاوہ فروع اور احکام وشرائع میں بھی ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور مانا جائے تو ایک بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ دین ابراہیمی کے یہ احکام کیا تھے اور آپ کے لیے اس کے احکام کو جاننے کا ذریعہ اور ماخذ کیا تھا؟ کیا ملت ابراہیمی کی تفصیلات، مجموعی یا جزوی طور پر، اہل عرب کی تاریخ میں محفوظ تھیں جہاں سے انھیں حاصل کیا جا سکتا تھا یا ان کو جاننا آپ کے لیے وحی الہٰی پر منحصر تھا؟ بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ دین ابراہیم کو جس شخص نے سب سے پہلے تبدیل کیا اور اہل عرب میں مشرکانہ رسوم کو رواج دیا، وہ بنو خزاعہ کا جد امجد عمرو بن لحی تھا (بخاری، رقم ۳۵۲۱) ۔ تحقیق طلب سوال یہ ہے کہ ان تین صدیوں میں کس نوعیت کے مزید تغیرات رونما ہو چکے تھے اور بعثت نبوی کے وقت عرب معاشرے میں دین ابراہیمی کے احکام وشرائع کس حد تک معمول بہ اور رائج تھے؟
اس ضمن میں جاہلی زبان و ادب کے بعض ماہرین کی یہ راے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اہل عرب میں دین ابراہیمی کے احکام میں سے صر ف حج اور ختنہ باقی رہ گیا تھا اور وہ اسی نسبت سے حج کرنے والے اور مختون کو ’’حنیف‘‘ قرار دیتے تھے۔ مثلاً دوسری صدی ہجری کے ممتاز ماہر عربیت ابو عبیدہ معمر بن المثنی نے ’حنیف‘ کا مفہوم و اضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
الحنیف في الجاھلیة من کان علی دین إبراھیم، ثم سمي من اختتن وحج البیت حنیفًا، لما تناسخت السنون وبقي من یعبد الأوثان من العرب قالوا: نحن حنفاء علی دین إبراھیم ولم یتمسکوا منه إلا بحج البیت والختان. (مجاز القرآن ۱/ ۵۸)
’’زمانۂ جاہلیت میں ’’حنیف‘‘ اس کو کہتے تھے جو دین ابراہیمی پر ہو۔ پھر اس کے بعد ختنہ کروانے اور بیت اللہ کا حج کرنے والے کو حنیف کہا جانے لگا۔ پھر جب طویل زمانہ گزر گیا اور اہل عرب میں بتوں کو پوجنے والے ہی باقی رہ گئے تو وہ اپنے آپ کو حنفا اور دین ابراہیم کے پیروکار کہنے لگے، حالاں کہ وہ صرف حج بیت اللہ اور ختنے پر عمل پیرا تھے۔‘‘
اہل سیرت اور علماے اصول کے ہاں بھی عموماً اسی راے کی ترجمانی ملتی ہے۔ چنانچہ امام شاطبی لکھتے ہیں کہ اہل عرب ملت ابراہیمی کے وارث تھے، لیکن انھوں نے اس میں بہت کچھ تحریفات اور بدعات شامل کر دی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اس کے چند گنے چنے احکام ہی محفوظ رہ گئے تھے۔ اس ضمن میں شاطبی نے حج اور روزے کا ذکر کیا ہے (الموافقات ۲/ ۲۴۹؛ ۳/ ۴۱، ۴۲)۔ ان باقیات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعات وتحریفات کی اصلاح کے ساتھ اپنی شریعت کا حصہ بنا لیا (الموافقات ۲/ ۶۵؛ ۳/ ۳۲۵)۔ شاطبی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملت ابراہیمی کا متبع ہونے کا ذکر اور اہل عرب کو ملت ابراہیمی کی پیروی کی دعوت بنیادی طور پر تالیف قلب کے پہلو سے اور دعوت کی حکمت کے تحت دی گئی ہے تاکہ ان کے دلوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے آمادگی پیدا کی جا سکے (الموافقات ۲/ ۷۷، ۷۸؛ ۴/ ۱۹۷)۔ گویا شاطبی کے نقطۂ نظر سے صورت حال یہ تھی کہ ملت ابراہیمی بہ حیثیت مجموعی اپنی تفصیلات میں محو ہو چکی تھی، تاہم اہل عرب کے ہاں اصولی طور پر اس کی حیثیت معروف اور مسلم تھی، اس لیے اس کا حوالہ دے کر انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔
مولانا حمید الدین فراہی کے خیال میں بھی ’’امتداد زمانہ کے بعد حضرت ابراہیم کی تعلیمات بالکل فراموش ہو گئیں اور کوئی دوسرا نبی یاد دہانی کے لیے مبعوث نہیں ہوا‘‘ (مجموعہ تفاسیر فراہی ۳۷۹)، البتہ ’’دین حنیفی کی تعلیمات میں سے حج، قربانی اور نماز کے کچھ بقایا موجود تھے‘‘(مجموعہ تفاسیر فراہی ۵۷)۔ ان میں خاص طور پر حج کے مناسک کے متعلق مولانا یہ قبول کرتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم کے وقت سے چلے آ رہے تھے اور احرام، استلام، طواف، طیر حرم، صفا و مروہ، ہدی و نحر، زیارت عرفہ، وقوف منیٰ، غرض خانہ کعبہ اور حج سے متعلق تمام چیزیں جو عربوں نے حضرت ابراہیم سے سیکھی تھیں، ان پر تسلسل سے عمل چلا آ رہا تھا (ایضاً ۴۰۳)۔ البتہ رمی جمرات کے متعلق مولانا فراہی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ سیدنا ابراہیم کے مقرر کردہ مناسک حج کا حصہ نہیں تھی، جیسا کہ عموماً اہل سیرت کا خیال ہے، بلکہ یہ رسم قریش نے واقعۂ فیل کے بعد ابرہہ کے لشکر پر سنگ باری کی یاد کے طور پر شروع کی تھی (مجموعہ تفاسیر فراہی ۴۰۳- ۴۰۸)۔
جو اہل علم شریعت محمدی کو بعینہ شریعت ابراہیمی قرار دیتے ہیں، ان کے ہاں بھی عمومی رجحان یہی دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً ابن حزم نے اس سوال پر براہ راست تو کوئی کلام نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور کیا گیا، اہل عرب کے ہاں اس کے کون سے احکام وشرائع معروف اور رائج تھے، تاہم ان کے مجموعی انداز فکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یا تو وہ انھیں بالکل مفقود اور معدوم تصور کرتے ہیں یا ان کے نزدیک اہل عرب کے عرف میں جاری اور معلوم باقیات کی کوئی دینی حیثیت تسلیم نہیں کی گئی، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے ازسرنو شریعت ابراہیمی کے اصل احکام و شرائع کا علم دیا گیا اور آپ نے، اہل عرب کی مذہبی روایت سے بالکل قطع نظر کرتے ہوئے، بالکل ابتداءً انھیں مسلمانوں کے لیے مقرر فرما دیا۔ چنانچہ ابن حزم نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو قرآن مجید کے مجملات میں شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے مفہوم سے اہل عرب واقف نہیں تھے، تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مفہوم واضح کیا (النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین ۳۷، ۳۸، ۶۲)۔ ابن حزم کا کہنا ہے کہ مکی سورتوں میں جب مثال کے طور پر زکوٰۃ، روزہ اور حج کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا تو چونکہ یہ مجمل الفاظ تھے جن کا مفہوم سننے والوں کو معلوم نہیں تھا، اس لیے اس مرحلے پر مخاطبین صرف ایک اصولی ہدایت کے طور پر، نہ کہ ایک عملی حکم کے طور پر، ان کو مان لینے کے پابند تھے اور ان کی نوعیت ایسی ہی تھی جیسے متشابہ آیات کی ہوتی ہے جن پر ایمان رکھنا تو واجب ہوتا ہے، لیکن ان کی مراد مکلف کے علم میں نہیں ہوتی۔ بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان عبادات کا عملاً مکلف کرنا چاہا تو اس مرحلے پر ان کا مفہوم اور ضروری احکام بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے لوگوں کو بتا دیے گئے (الاحکام فی اصول الاحکام ۱/۸۴، ۸۶، ۸۷، ۸۹، ۹۰)۔ نماز کے بہت سے احکام چونکہ مکہ میں ہی نازل کیے جا چکے تھے، اس لیے ابن حزم مدنی سورتوں میں ’اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ‘ کے حکم کو پہلے سے واضح اور معلوم حکم کا حوالہ قرار دیتے ہیں (ایضاً ۱/۸۴)۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مکی سورتوں میں اگر ’الصَّلٰوة ‘ کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اس کے مفہوم کی وضاحت سے پہلے وارد ہوا ہو تو ابن حزم کے نزدیک اس کی نوعیت بھی ایک متشابہ حکم کی ہونی چاہیے۔ حاصل یہ ہے کہ وہ ملت ابراہیمی کی اتباع کے حکم کو اہل عرب کی دینی روایت کے پس منظر میں نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ایک اصولی حکم تصور کرتے ہیں جس کی تفصیلات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست وحی کے ذریعے سے بتائی گئیں۔
شاہ عبد العزیز کا نقطۂ نظر بھی اس حوالے سے یہی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
آرے احکام ملت ابراہیمی بسبب اندراس آثارآں و عدم تدوین آں در کتب و افتادن آن احکام بدست جاہلاں و نسخ شدن اکثر آں احکام در زمان حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ و فیما بینہما کہ مدت طویلہ بود از عالم اختفای کلی پذیرفتہ بودند بحدے کہ اطلاع براں احکام بدون وحی جدید بشر را ممکن الحصول نبود، خاتم المرسلین آں احکام را بواسطہ وحی تلقی فرمودند واز مقامی کہ بر حضرت ابراہیم نزول یافتہ بود بر آنجناب نیز بہ تجدید نزول یافت. (فتح العزیز ۱/ ۳۴۱- ۳۴۲)
’’البتہ ملت ابراہیمی کے احکام درج ذیل اسباب سے اس طرح کلی طور پر مخفی ہو چکے تھے کہ انسانوں کے لیے کسی نئی وحی کے بغیر ان پر اطلاع پانا ممکن نہیں رہ گیا تھا : مرور زمانہ سے ان احکام کا مٹ جانا، انھیں کتابوں میں محفوظ نہ کیا جانا، ان احکام کا جاہلوں کے ہاتھوں میں چلا جانا، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے زمانے میں اور ان دونوں کے درمیان واقع طویل عرصے میں ان میں سے زیادہ تر احکام کا منسوخ کر دیا جانا۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ احکام وحی کے ذریعے سے حاصل ہوئے تھے اور جس مقام سے وہ حضرت ابراہیم پر نازل کیے گئے تھے، اسی مقام سے آپ پر ازسرنو نازل کر دیے گئے۔‘‘
اسلامی روایت میں دین ابراہیمی کے تاریخی ثبوت واستناد کے حوالے سے مذکورہ عام اور شائع نقطۂ نظر سے پہلا نمایاں اختلاف ہمیں شاہ ولی اللہ کے ہاں ملتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت تمام انبیا کے باب میں یہی رہی ہے کہ انھیں جس قوم میں مبعوث کیا جائے، وہ اس کے ہاں پہلے سے موجود مذہبی ومعاشرتی روایت ہی پر اپنی دعوت کی بنیاد رکھتے ہیں اور اسی میں ضروری اصلاح واضافہ کے ساتھ اسے شریعت کے طور پر جاری کر دیتے ہیں۔ اس سنت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ بنی اسمٰعیل میں ہوئی تھی جو ملت ابراہیمی کے وارث تھے، اس لیے یہ ضروری تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی ملت کے احیا اور تجدید و اصلاح کی ذمہ داری تفویض کی جائے۔ گویا شاہ صاحب کے نظریے کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور کرنے کی وجہ ہی یہ تھی کہ زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب اس ملت اور اس کے احکام وشرائع سے مانوس تھے اور بعض تحریفات کے باوجود اس ملت کے بیش تر اصولی وفروعی احکام ان کے ہاں متوارث چلے آرہے تھے۔
شاہ صاحب نے اپنے اس موقف کی تائید میں ان تمام عقائد وتصورات اور مذہبی ومعاشرتی احکام کی تفصیل بھی بیان کی ہے جو اہل جاہلیت کے ہاں معروف ومسلم تھے اور جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیاد قرار دے کر ضروری اصلاح واضافہ کے ساتھ اسے آخری شریعت کی شکل دے دی۔ اس تفصیل کی رو سے اہل عرب عقائد میں اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک ہونے، فرشتوں کے وجود، انبیا کی بعثت، آسمانی کتابوں کے نزول، تقدیر الہٰی، جزا و سزا اور معاد و آخرت کو مانتے تھے۔ ان میں استنجا، وضو، غسل اور بچوں کا ختنہ کروانے کا طریقہ رائج تھا، جب کہ ڈاڑھی بڑھانے، مونچھیں کتروانے، مسواک کرنے، کلی کرنے، ناک کی صفائی کرنے، ناخن تراشنے، بغل اور زیر ناف کے بالوں کو صاف کرنے جیسے خصال فطرت بھی ان کے ہاں معروف تھے۔ وہ نماز، زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، روزہ، اعتکاف، طواف بیت اللہ، عمرہ وحج اور قربانی جیسی عبادات سے واقف تھے اور ان کی کوئی نہ کوئی صورت ان کے ہاں معمول بہ تھی۔ خاندانی زندگی کے دائرے میں نکاح و طلاق، خطبہ، مہر، محرمات سے نکاح کی پابندی، رضاعی رشتوں کی حرمت، عدت اور سوگ کا ایک پورا نظام اہل جاہلیت کے ہاں موجود تھا۔ وہ ملاقات پر دعا کے کلمات کہنے، مصافحہ ومعانقہ کرنے، کھانے پینے سے پہلے اور جانور کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لینے کا اہتمام کرتے تھے۔ مرنے والے کی تجہیز وتکفین، تدفین اور تعزیت کی رسوم بھی ان کی معاشرتی زندگی کا حصہ تھیں۔ قصاص و دیت کے علاوہ زنا اور چوری وغیرہ جیسے جرائم کی سزا کے طریقے بھی ان کے مابین رائج تھے (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۶۰- ۳۷۰) ۔
مذکورہ امور میں سے ایک ایک چیز انھیں براہ راست ملت ابراہیمی سے نہیں ملی تھی اور بعض دیگر مذاہب کے اثرات کے علاوہ اہل عرب کے اپنے تمدنی اجتہادات بھی ان میں شامل تھے، لیکن شاہ صاحب کے نقطۂ نظر سے بہ حیثیت مجموعی دین ابراہیمی اپنی بیش تر تفصیلات کے ساتھ اہل عرب کے لیے معلوم ومعروف تھا۔
گذشتہ صدی میں دو ممتاز محققین محمود شکری آلوسی اور ڈاکٹر جواد علی نے اپنی تصانیف ’’بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب‘‘ (تحقیق: محمد بہجۃ الاثری، الطبعۃ الثانیۃ) اور ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ (الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۱۳ھ) کے متعلقہ ابواب میں تاریخ اور حدیث وسیرت کے ذخیرے کی روشنی میں زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب کے مذہبی تصورات و رسوم اور معاشرتی قوانین سے متعلق تفصیلات کا قابل قدر ذخیرہ جمع کیا ہے جس سے شاہ صاحب کی مذکورہ راے کی تائید ہوتی ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے بھی اپنی کتاب ’’گلدستہ توحید‘‘ (مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ، اگست ۲۰۰۵ء) میں خاص طور پر ذخیرۂ حدیث کی روشنی میں اس ضمن کی اہم تفصیلات بیان کی ہیں، تاہم اس حوالے سے تاریخی روایات وشواہد کا اب تک کا جامع ترین استقصا ممتاز معاصر مورخ ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی نے اپنی کتاب ’’مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء‘‘ (نشریات لاہور ۲۰۰۸ء) میں کیا ہے ۔
اس پس منظر میں اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس ہدایت اور اس کے عملی مضمرات کے حوالے سے جاوید احمد صاحب غامدی نے کیا نقطۂ نظر پیش کیا ہے؟
ملت ابراہیمی کی اتباع سے متعلق قرآن مجید کی ہدایت کے حوالے سے غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصول وفروع، دونوں میں دین ابراہیمی کی پیروی پر مامور فرمائے گئے تھے۔ غامدی صاحب اس ضمن میں بنیادی ماخذ سورۂ نحل کی اس آیت کو قرار دیتے ہیں:
ثُمَّ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. (۱۶: ۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھاری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
اس کی تشریح میں ’’البیان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یعنی دین کو ٹھیک اُس طریقے پر قائم کر دو، جہاں ابراہیم علیہ السلام نے اُسے چھوڑا تھا۔ چنانچہ تمھارے عقائد و اعمال میں نہ شرک کا کوئی شائبہ ہونا چاہیے اور نہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب کی بدعتوں کا۔ تم نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے تمام دینی اعمال اور رسوم و آداب کو ہر آمیزش سے پاک کرکے بالکل اُسی صورت میں جاری کرو، جس طرح وہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں انجام دیے جاتے تھے۔ حلال و حرام کے معاملے میں بھی ہر چیز ٹھیک اپنی اصل پر آجانی چاہیے اور ہر شخص پر واضح ہو جانا چاہیے کہ ملت ابراہیم کے پیرو درحقیقت تمھی ہو، تمھارے مخالفین کا ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی ملت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘(٣/ ٥٧)
اس بنیادی نکتے کے تعلق سے، غامدی صاحب کے نقطۂ نظر اور ان اہل علم کے موقف میں اتفاق پایا جاتا ہے جن کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت ابراہیمی کو ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی شریعت قرار دیا ہے۔
ابراہیمی شریعت کو اللہ کی آخری شریعت قرار دینے کی حکمت کے ضمن میں، غامدی صاحب ان علما کی راے سے بھی اتفاق کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دین کے باب میں اقوام عالم کی پیشوائی اور امامت کا جو منصب دیا گیا، اسی کے تحت ان کو دی گئی شریعت کو بھی پہلے دن سے انسانوں کے لیے ایک ابدی اور آفاقی ضابطے کی حیثیت حاصل تھی۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا اور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے ان کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اس میں حکمت بھی تھی اور شریعت بھی۔ حکمت، ظاہر ہے کہ ہر طرح کے تغیرات سے بالاتر تھی، لیکن شریعت کا معاملہ یہ نہ تھا۔ وہ ہر قوم کی ضرورتوں کے لحاظ سے اترتی رہی، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں پوری انسانیت کے لیے اس کے احکام بہت حد تک ایک واضح سنت کی صورت اختیار کر گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب بنی اسرائیل کی ایک باقاعدہ حکومت قائم ہو جانے کا مرحلہ آیا تو تورات نازل ہوئی اور اجتماعی زندگی سے متعلق شریعت کے احکام بھی اترے۔‘‘ (میزان ۴۵)
چنانچہ سیدنا ابراہیم کی دعا کے مطابق جب ایک مقررہ وقت پر بنی اسمٰعیل کو عملاً شہادت علی الناس کی ذمہ داری تفویض کی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں مبعوث کیا گیا تو اسی شریعت کا احیا عمل میں لایا گیا اور ضروری اصلاحات واضافات کے ساتھ اسے ہی امت مسلمہ کی شریعت کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔
تاہم اس سے اگلے نکتے کے حوالے سے غامدی صاحب کی راے، ابن حزم اور شاہ عبد العزیز کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے جو شریعت ابراہیمی کے احکام کی تعیین کے حوالے سے اہل عرب کی مذہبی روایت کا کوئی حوالہ نہیں دیتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا ماخذ وحی الہٰی کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح غامدی صاحب کو ان اہل علم کے موقف سے بھی اتفاق نہیں جن کے خیال میں دین ابراہیمی کی روایت کا بیش تر حصہ ضائع ہو چکا تھا اور بعثت نبوی کے وقت اس کی صرف چند باقیات، مثلاً حج اور ختنہ وغیرہ اہل عرب میں باقی رہ گئے تھے۔ غامدی صاحب اس حوالے سے شاہ ولی اللہ کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے ملت ابراہیمی کا ذکر ایک معروف اور مسلم دینی روایت کی حیثیت سے کیا ہے جس سے اس کے اولین مخاطبین پوری طرح واقف تھے اور بہت سی تحریفات اور انحرافات کے باوجود، یہ روایت نہ صرف اپنی اصولی حیثیت میں اہل عرب کے ہاں مسلم تھی، بلکہ اس کا بنیادی ڈھانچا بھی اہل عرب کی معاشرتی ومذہبی زندگی کا معمول بہ حصہ تھا۔ لکھتے ہیں:
’’دوسری چیز کے لیے قرآن نے ملت ابراہیمی کی تعبیر اختیار کی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، یہ سب اسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک ان پر عامل تھے۔ ... یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم وآداب کا ہے۔ یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم ومتعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن ان کی تفصیل کرتا۔ لغت عرب میں جو الفاظ ان کے لیے مستعمل تھے، ان کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے انھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج وعمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج وعمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ قرآن نے ان میں سے کسی چیز کی ابتدا نہیں کی، ان کی تجدید و اصلاح کی ہے اور وہ ان سے متعلق کسی بات کی وضاحت بھی اسی حد تک کرتا ہے، جس حد تک تجدید و اصلاح کی اس ضرورت کے پیش نظر اس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔‘‘ (میزان ۴۶، ۴۷)
غامدی صاحب نے رمی جمرات سے متعلق مولانا فراہی کی اس راے سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ اہل عرب میں اس کی ابتدا ابرہہ کے لشکر پر سنگ باری کی یاد کے طور پر ہوئی تھی۔ اس کے بجاے وہ اسے ابراہیمی روایت میں چلے آنے والے مناسک ہی کا حصہ اور شیطان سے اظہار براء ت کی ایک علامتی رسم شمار کرتے ہیں (میزان ۳۷۷، ۳۸۹)۔
مذکورہ دو بنیادی مقدمات کی روشنی میں غامدی صاحب یہ قرار دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین ابراہیمی کی اسی روایت کو تجدید و اصلاح اور حسب مصلحت ضروری اضافوں کے ساتھ اپنی امت میں جاری فرما دیا۔ دین ابراہیمی کی اس تجدید و اصلاح شدہ اور امت مسلمہ میں جاری کردہ روایت کے لیے غامدی صاحب نے اپنی خاص اصطلاح کے لحاظ سے ’سنت‘ کا عنوان اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ دین کا جو حصہ اِس وقت سنت کہلاتا ہے، وہ اِسی حکم کے تحت جاری کیا گیا ہے، لہٰذا اُسی طرح واجب الاطاعت ہے، جس طرح قرآن کی دوسری ہدایات واجب الاطاعت ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِس کی تجدید و اصلاح اور اِس میں بعض اضافوں کے ساتھ اِس کے جو احکام مسلمانوں کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ نماز۔ ۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر۔ ۳۔ روزہ و اعتکاف۔ ۴۔ حج و عمرہ۔ ۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں۔ ۶۔ نکاح و طلاق اور اُن کے متعلقات۔ ۷۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔ ۸۔ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت۔ ۹۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔ ۱۰۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ ۱۱۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘ اور اُس کا جواب۔ ۱۲۔ چھینک آنے پر ’الحمد للہ‘ اور اُس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘۔ ۱۳۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۱۴۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ ۱۵۔ بغل کے بال صاف کرنا۔ ۱۶۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۱۷۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ ۱۸۔ ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۹۔ استنجا۔ ۲۰۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۲۱۔ غسل جنابت۔ ۲۲۔میت کا غسل۔ ۲۳۔ تجہیز و تکفین۔ ۲۴۔ تدفین۔ ۲۵۔ عید الفطر۔ ۲۶۔ عید الاضحٰی۔‘‘(میزان ۱۴)
’’میزان‘‘ میں سنت کی تعریف کرتے ہوئے بھی اس نکتے کو واضح کیا گیا ہے:
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اسی کا حصہ ہے۔‘‘ (۱۴)
’’میزان‘‘ میں متعلقہ مقامات پر مذکورہ سنن پر کلام کرتے ہوئے غامدی صاحب نے ابراہیمی مذاہب کی روایت، اہل عرب کی تاریخ اور سیرت وحدیث کی روایات سے وہ شواہد بھی بیان کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں ان کا تقرر کسی نئے اور غیر مانوس مجموعۂ احکام کے طور پر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اپنے مذہبی اور تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اہل جاہلیت ان سے پوری طرح واقف اور بڑی حد تک ان پر عامل تھے۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کا پیروکار قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو دی جانے والی شریعت، ملت ابراہیمی کے احکام تک محدود ہے۔ غامدی صاحب شریعت محمدی کو دو طرح کے احکام وشرائع کا مجموعہ قرار دیتے ہیں: ایک وہ جو ملت ابراہیمی کی پہلے سے چلی آنے والی روایت پر مبنی ہیں اور جس کی تجدید واصلاح شدہ شکل کو وہ ’’سنت‘‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ دوسرا اور کم وبیش اتنا ہی بڑا حصہ وہ ہے جسے قرآن مجید میں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بالکل ابتداءً شریعت کا جز بنایا گیا ہے۔ دوسرے حصے کی مثال کے طور پر بطور خاص سیاست وحکومت، جہاد، حدود وتعزیرات، معیشت اور وراثت سے متعلق احکام کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو اگرچہ تورات میں بنی اسرائیل کے لیے مقرر کردہ شریعت میں شامل تھے، لیکن پہلے مرحلے میں بنی اسمٰعیل میں جاری کی گئی دینی روایت کا حصہ نہیں بنائے گئے تھے۔
اسی طرح امت مسلمہ میں جاری کی گئی سنت کا ماخذ ابراہیمی روایت کو قرار دینے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان احکام کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار بس تجدید و احیا یا جزوی اصلاح واضافہ تک محدود تھا۔ اس قید کی اہمیت دراصل اس تاریخی تسلسل کو واضح کرنے کے پہلو سے ہے جو دین ابراہیمی کی پہلے سے چلی آنے والی روایت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت کے مابین پایا جاتا ہے، ورنہ آپ خود ایک صاحب شریعت پیغمبر تھے اور مستقل تشریعی اختیار رکھتے تھے، اس لیے ابراہیمی روایت کی تجدید واصلاح کے علاوہ اس میں اضافے کرنا اور بہ حیثیت مجموعی اسے ایک نیا قالب دینا بھی آپ کی ذمہ داری اور اختیار کا حصہ تھا۔ غامدی صاحب نے اس حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت یوں کی ہے:
’’سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید واصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ... اس لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔‘‘ (مقامات ۱۵۰- ۱۵۱)
اس کی مزید وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ مصنف نے سنت کی تعریف میں ’’دین ابراہیمی کی روایت‘‘ کا ذکر کرنے کے باوجود سنت کی تعیین کے اصولوں میں ایسا کوئی اصول بیان نہیں کیا جو ایسے امور کو جو دین ابراہیمی کی روایت میں شامل نہیں تھے، سنت سے خارج قرار دیتا ہو۔ اسی طرح سنت کے تاریخی ثبوت کا نقطۂ حوالہ (point of reference) بعثت نبوی سے پہلے دین ابراہیمی کی روایت کو نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی امت کے اجماع وتواتر کو قرار دیا ہے جس کا تعلق، ظاہر ہے، ملت ابراہیمی کی روایت کی اس نئی تشکیل سے ہے جس میں اصل اتھارٹی کی حیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل تھی۔
___________
[1]۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ۲/ ۹۸، تحقیق: مصطفیٰ السید محمد ونخبۃ من المحققین، دار قرطبۃ القاہرۃ ۱۴۲۱ھ۔ ابوالسعود، ارشاد العقل السلیم ۲ /۵۹، دار احیاء التراث العربی بیروت۔ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۱۲/۴۵۸، ۴۵۹، تحقیق: عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴۲۷ھ۔
[2]۔ مولانا موددی کا نقطۂ نظر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ابراہیمی شریعت کا تسلسل قراردینے کے حوالے سے تو زیر بحث راے سے مختلف ہے اور ان کا رجحان بنیادی طور پر پہلے نقطۂ نظر کی طرف ہے، تاہم طبری نے اقوام عالم کے لیے سیدنا ابراہیم کو امام اور پیشوا قرار دینے کے جس نکتے کا ذکر کیا ہے، اسے انھوں نے بہت خوبی سے واضح کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ انھوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام وفلسطین سے ریگستان عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت وفرماں برداری (یعنی اسلام) کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ پھر اپنے اس مشن کی اشاعت کے لیے مختلف علاقوں میں خلیفہ مقرر کیے۔ شرق اردن میں اپنے بھتیجے حضرت لوط کو، شام وفلسطین میں اپنے بیٹے حضرت اسحٰق کو، اور اندرون عرب میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل کو مامور کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکے میں وہ گھر تعمیر کیا جس کا نام کعبہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ اس مشن کا مرکز قرار پایا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/ ۱۰۸)
’’یہی خدمت تھی جس کے لیے وہ دنیا کے امام وپیشوا بنائے گئے تھے۔ ان کے بعد یہ امامت کا منصب ان کی نسل کی اس شاخ کو ملا جو حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی میں انبیا پیدا ہوتے رہے، اسی کو راہ راست کا علم دیا گیا، اسی کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ اس راہ راست کی طرف اقوام عالم کی رہنمائی کرے، اور یہی وہ نعمت تھی جسے اللہ تعالیٰ بار بار اس نسل کے لوگوں کو یاد دلا رہا ہے۔ ... پھر یہ بات ارشاد ہوتی ہے کہ اب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی دوسری شاخ، بنی اسمٰعیل میں وہ رسول پیدا کیا ہے جس کے لیے ابراہیم اور اسمٰعیل نے دعا کی تھی۔ اس کا طریقہ وہی ہے جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحٰق ، یعقوب اور دوسرے تمام انبیا کا تھا۔‘‘ (ایضاً ۱/ ۱۰۹)