HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت علی رضی اللہ عنہ (۱۶)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

 حضرت علی کا حلیہ

حضرت علی کا قد میانہ اوربد ن دہراتھا۔ان کا گندمی رنگ کندن کی طرح چمکتا تھا۔چہرہ روشن،آنکھیں بڑی اور پیٹ نمایاں تھا۔ ڈاڑھی گھنی اور حلقہ دار تھی۔ آخری عمر میں سر پر بال نہ رہے تھے۔گردن متناسب اور کندھے چوڑے تھے، سینے پر گھنے بال تھے۔بازو اورکلائیاں بھری بھری اور پنڈلیاں کسی ہوئی تھیں ۔ خوب صورت تھے، اکثر مسکراتے رہتے۔ بال چاندی کی طرح سفید تھے، ان پر کوئی رنگ نہ لگاتے تھے،شاذ روایت میں منہدی یا خضاب لگانے کا ذکر ہے۔ پیشانی پر سجدے کا نشان تھا۔

ازواج و اولاد

۱۔جب تک سیدہ فاطمہ زندہ رہیں ،حضرت علی نے دوسری شادی نہ کی۔حضرت فاطمہ سے حضرت حسن، حضرت حسین،حضرت زینب (کبریٰ)اورحضرت ام کلثوم (کبریٰ) پیدا ہوئے۔ایک روایت کے مطابق حضرت حسن ۲ھ میں پیدا ہوئے۔حضرت حسین کی ولادت شعبان۴ھ میں ہوئی۔حضرت فاطمہ سے ایک اور بیٹا محسن بھی ہوا جوبچپن ہی میں چل بسا۔حضرت علی فرماتے ہیں :میں جنگ اور قتال کو پسند کرتا تھا۔جب میرے ہاں بیٹا پیداہواتو میں نے اس کا نام حرب رکھنا چاہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ حسن ہے(احمد ۷۶۹)۔ ۲۔حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت علی نے ام بنین بنت حرام سے شادی کی۔ ان سے عباس، جعفر، عبداﷲاورعثمان نے جنم لیا۔جعفر،عبداللہ اور عثمان کربلا میں شہید ہوئے۔ابن اثیرکا کہنا ہے کہ یہ چاروں طف میں شہید ہوئے۔۳۔لیلیٰ بنت مسعود سے عبیداﷲ اور ابوبکر کی ولادت ہوئی،یہ دونوں حضرت حسین کے ساتھ طف (کربلا :ابن اثیر،ابن کثیر)میں قتل ہوئے۔ ۴۔حضرت اسماء بنت عمیس سے محمد (اصغر)، (عون: واقدی) اور یحییٰ پیدا ہوئے۔ان دونوں کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔۵۔بنو تغلب کی صہبا (یا ام حبیب یا حبیبہ) بنت ربیعہ عین التمر کی جنگ میں قید ہوکر حضرت علی کے حصے میں آئیں ۔ انھوں نے عمر اور رقیہ کو جنم دیا۔عمر پچاسی برس کے ہوئے اور انھوں نے حضرت علی کی نصف میراث پائی۔ ۶۔حضرت امامہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نواسی تھیں ۔ ان کی والدہ حضرت زینب بنت محمد زمانۂ قبل نبوت میں ابوالعاص بن ربیع سے بیاہی ہوئی تھیں ۔ یہی امامہ تھیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اٹھا لیتے تھے۔ یہ حضرت علی کی زوجیت میں آئیں تو محمد (اوسط) کا جنم ہوا۔ ۷۔بنو حنیفہ کی خولہ بنت جعفر سے محمد(اکبر) پیدا ہوئے جو محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۸۔ام سعید بنت عروہ سے ام الحسن، رملہ (کبریٰ) اور ام کلثوم نے جنم لیا۔ ۹۔بنو کلب کی مخباۃ بنت امرؤ القیس سے حضرت علی کی بیٹی جاریہ ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئی۔ حضرت علی کی کئی بیٹیاں تھیں جوامہات اولاد (باندیوں ) سے پیدا ہوئیں ۔ان کے نام یہ ہیں :ام ہانی، میمونہ، زینب(صغریٰ)، رملہ (صغریٰ)، ام کلثوم (صغریٰ)، فاطمہ، امامہ،خدیجہ،ام الکرام،ام سلمہ،ام جعفر، جمانہ اور نفیسہ۔مؤرخین نے حضرت علی کی کل اولاد کا یہ شمار کیا ہے:چودہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں ۔حضرت حسن ،حضرت حسین،محمد بن حنفیہ،عباس بن کلابیہ اور عمر بن تغلبیہ سے حضرت علی کی نسل آگے چلی۔

زمانۂ جاہلیت کے موحد زید بن عمرو بن نفیل کی بیٹی حضرت عاتکہ حضرت ابوبکر کے بیٹے حضرت عبداﷲ سے بیاہی ہوئی تھیں ۔ان کے قتل کے بعد حضرت عمر کی زوجیت میں آئیں ،وہ شہید ہوئے توحضرت زبیر بن عوام سے ان کی شادی ہوئی۔حضرت زبیر نے بھی شہادت پائی توحضرت علی نے نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت عاتکہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں نہیں چاہتی کہ آپ بھی قتل ہو جائیں، کیونکہ بہترین لوگوں میں آپ ہی باقی رہ گئے ہیں ۔

حضرت علی کے مناقب

سبقت الی الاسلام

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍﶈ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اَبَدًاﵧ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ. (التوبہ ۹: ۱۰۰)
’’اور مہاجرین و انصار میں سے اول اول سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے ان کی خوب پیروی کی،اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا اولین مصداق حضرت علی ہیں، کیونکہ یہ ربانی مدح ان پر کاملاً صادق آتی ہے۔ حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ہی سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حوض کوثر پر پہنچیں گے (مستدرک حاکم، رقم ۴۶۶۲۔ کنز العمال، رقم ۱۱ / ۳۲۹۹۱)۔

حضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبی تعلق رکھنے کے ساتھ دامادی کا شرف رکھتے ہیں ، آپ کے سایۂ شفقت میں پروان چڑھے اور ہمہ وقت آپ کی تربیت میں رہے۔آپ کے بستر پر استراحت کی اور آپ کی امانتیں لوٹائیں ۔ ہجرت کا شرف حاصل کیا اور تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ بدر، احد، احزاب اور خیبر کے معرکوں میں شجاعت کے کارنامے دکھائے۔غزوۂ تبوک کے موقع پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کی۔آپ پر نازل ہونے والی وحی اور کئی خطوط اور وثائق کی کتابت کی۔ ۱۰ھ کے حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مشرکین مکہ سے اظہار براء ت کیا۔مرض وفات میں آپ کی تیمار داری کی اور آپ کو غسل دینے میں شریک ہوئے۔آپ کے خلیفۂ چہارم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جبل حرا پرتشریف لے گئے۔حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان، حضرت علی،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید آپ کے ساتھ تھے۔ ایک چٹان ہلی تو فرمایا:رک،ساکن ہو جا،تم پر نبی ،صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں (مسلم، رقم ۶۲۴۸۔ابوداؤد، رقم ۴۶۴۸۔ابن ماجہ ، رقم ۱۳۴۔السنن الکبریٰ،نسائی، رقم ۸۱۰۰)۔

حضرت علی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے محکم خبر دی کہ مجھ سے مومن ہی محبت کریں گے اور بغض منافق ہی رکھیں گے (مسلم، رقم ۲۴۰۔ترمذی، رقم ۳۷۳۶۔ احمد، رقم ۲۶۵۰۷۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۰۹۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۷۲۷)۔

 حضرت عائشہ فرماتی ہیں:اب عرب جوچاہیں، سو کریں ؛علی کی وفات کے بعد کوئی ایسا نہیں رہا جو انھیں برے کام سے منع کرے۔

ایک آدمی حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور کہا:دیکھو فلاں شخص(گورنر مدینہ مروان بن حکم) برسرمنبر علی کو برا بھلا کہتا ہے۔انھوں نے پوچھا: کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا : ابوتراب بولتا ہے۔حضرت سہل بن سعد ہنسنے لگے اور کہا:واللہ، انھیں یہ نام تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے عطا کیا تھا۔خود علی کو اس سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا(بخاری، رقم ۳۷۰۳)۔

جنت کی بشارت

حضرت علی عشرۂ مبشرہ میں سے ایک تھے،انھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ نے فرمایاتھا: ’’ابوبکر جنت میں جائیں گے،عمر جنت میں ہوں گے،عثمان جنتی ہیں ،علی جنت میں جائیں گے،طلحہ اہل جنت میں سے ہیں ،زبیر جنتی ہیں ،عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں جائیں گے،سعد جنت میں ہوں گے،سعید جنتی ہیں اور ابو عبیدہ بن جراح کا حسن انجام جنتیوں کے ساتھ ہو گا‘‘ (ابو داؤد ، رقم ۴۶۴۹۔ ترمذی، رقم ۳۷۴۷۔ احمد، رقم ۱۶۲۹)۔عشرۂ مبشرہ میں سے چار حضرت سعد، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت علی ہم عمر تھے۔

تفضیل علی

حضرت علی کا ارشاد ہے:رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بہترین انسان ابوبکر پھر عمر پھر عثمان ہیں۔ مزیدفرماتے ہیں : میرے پاس ایسا کوئی شخص نہیں لایا گیاجس نے مجھے ابو بکر و عمر پر فضیلت دی ہو اورمیں نے اسے افترا باندھنے والے کی حد، یعنی کوڑے نہ لگوائے ہوں ۔

علماے اہل سنت اور اہل حدیث علما کی اکثریت حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کی فضیلت اسی ترتیب سے مانتی ہے جس ترتیب سے وہ خلیفہ بنے، تاہم امام مالک اور یحییٰ بن سعید قطان حضرت عثمان اور حضرت علی کے باب میں توقف کرتے ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کو دسرے پر ترجیح نہیں دیتے۔ بنوامیہ حضرت علی کی عیب جوئی کرتے ہیں۔

سفیان ثوری کہا کرتے تھے :جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ علی،ابوبکر و عمر سے زیادہ خلافت کے حق دار تھے تو اس نے ان دونوں کواور تمام مہاجرین و انصارکو خطا وارٹھیرایا۔میں نہیں سمجھتا کہ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے اس کا کوئی عمل بارگاہ آسمانی میں قبولیت حاصل کرے گا(ابوداؤد، رقم ۰ ۴۶۳) ۔

پہلے خلفا سے تعاون

حضرت علی پہلے تینوں خلفا کی مجلس شوریٰ میں شامل تھے۔انھوں نے ہر عمل میں ان کی رہنمائی کی۔

جب ارتداد کا طوفان اٹھا اور کچھ لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو خلیفۂ اول نے مدینہ آنے والے راستوں پر پہرہ دار دستے مقرر کیے اوران کی سربراہی حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداﷲ بن مسعود کو سونپی۔ان کی خلافت کو تیسرا دن ہواتھا کہ منکرین زکوٰۃ نے مدینہ پر حملہ کر دیا۔ ان دستوں نے فوری کارروائی کی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔

خلیفۂ ثانی حضرت عمر نے حضرت علی کومدینہ کا قاضی مقرر کر رکھا تھا۔

عہد عثمانی میں بلوائی مدینہ کے قریب پہنچے تھے کہ حضرت عثمان نے حضرت علی سے درخواست کی کہ انھیں مدینہ میں داخل ہونے سے روکیں ۔وہ تیس صحابہ کی جماعت لے کر نکلے اورحضرت عثمان کا پورا دفاع کیا۔ شر پسندوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو صحابہ کی اکثریت بھی گھروں میں مقید ہو گئی، تاہم حضرت علی نے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ حضرت حسن اورحضرت حسین کو ان کے دفاع پر مامورکیا۔

حضرت علی کا معاش

 ہجرت کے بعدمدینہ میں کوئی مہاجر خاندان ایسا نہ تھا کہ ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ لے کر کاشت نہ کرتا ہو۔حضرت علی،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداﷲ بن مسعودنے بھی کاشت کاری کی(بخاری: باب المزارعة بالشطر ونحوه)۔ حضرت علی نے کوفہ کی بے آباد زمین کو آباد کیا(بخاری:باب من أحیا ارضاً مواتاً)۔

عہدنبوی میں حضرت علی کو خمس اور غنائم سے اتنی آمدنی ہوتی تھی کہ چالیس ہزار سالانہ زکوٰۃ دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے لیے کئی قطعات اراضی مختص فرمادیے تھے۔ الفقیران،بئر قیس اور الشجرۃ ان کے نام تھے۔

مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح(بخاری، شرکۃ دار الارقم )،المسند الصحیح المختصر (مسلم :صالح بن عبدالعزیز)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، البدایۃ و النہایۃ(ابن کثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،تاریخ اسلام ( شاہ معین الدین)،تاریخ اسلام (اکبرشاہ نجیب آبادی)،سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ(البانی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ جات: محمد حمید اللہ، مرتضیٰ حسین فاضل)،سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)۔

[باقی]

___________

B