محمد عديل طارق
انسان کے علم کی تاریخ چار سے پانچ ہزار سال کی ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے علم کی تین ہی بنیادیں ہیں:
۱۔ تجربہ یا مشاہدہ
۲۔ عقلی استنباط
۳۔ تاریخ کے شواہد
اگر انسان کے علم کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں چیزوں کے ردوقبول کا فیصلہ انھی تینوں ذرائع علم کو عمل میں لا کر کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی انھی تینوں ذرائع علم کو عمل میں لا کر کرتا ہے۔ چونکہ انسان ایک ذی شعور مخلوق ہے، اس لیے کچھ سوالات اس کے سامنے ہمیشہ سے رہے ہیں، مثلاً انسان مخلوق ہے یا خالق؟ کیا انسان مرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے؟ وغیرہ، اور اسی قبیل کے سوالات انسان اس کائنات کے بارے میں بھی اٹھاتا ہے جس کا وہ دن رات مشاہدہ کرتا ہے۔
انسان نے جب اپنے اوپر اور کائنات پر غور کرنا شروع کیا تو سب سے معقول توجیہ جو سامنے آئی، وہ یہ کہ انسان اور کائنات مخلوق ہیں اور اس کا کوئی خالق ہونا چاہیے۔
استاذ جاوید احمد صاحب غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ انسان کی آنکھیں ، کان ، زبان ، دماغ ، عقل ، اعضا ، دل کی دھڑکن ، سانس ، مناسب تناسب اور اسی قبیل کی سب چیزیں تخلیق کیے جانے کا قوی تاثر رکھتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کی ہر چیز حسن تخلیق کا معجزانہ اظہار ہے؛ ہر چیز میں اتھاہ معنویت ہے، غیر معمولی اہتمام ہے؛ حکمت، تدبیر، منفعت اور حیرت انگیز نظم وترتیب ہے؛ بے مثال اقلیدس اور ریاضی ہے جس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ اس کا ایک خالق ہے اور یہ خالق کوئی اندھی اور بہری طاقت نہیں ہے، بلکہ ایک لامحدود ذہن ہے۔ اس لیے کہ طاقت کا ظہور اگر کسی علیم وحکیم ہستی کی طرف سے نہ ہو تو اسے جبر محض ہونا چاہیے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسانہیں ہے۔ بلکہ اس میں غایت درجہ موزونیت ہے، بے پناہ توافق ہے، اس سے غیرمعمولی فوائد اور عجیب و غریب تغیرات پیدا ہوتے ہیں جو کسی اندھی اور بہری طاقت سے ہرگز پیدا نہیں ہو سکتے۔‘‘ (۹۳)
جس خالق کا تقاضا انسان کی عقل کر رہی تھی، وہ علم انسان کے ظاہر میں موجود تھا۔ چونکہ انسان کی ایک تاریخ بھی ہے جو اس پہلے انسان سے شروع ہوتی ہے جس نے باقاعدہ طور پر خالق کی آواز سنی، پھر یہ علم انسان نے تواتر کے ذریعے سے اپنی نسل کو منتقل کیا۔ پھر یہی تجربہ انسانوں میں سے بعض اور انسانوں کو بھی پیش آیا جس سے یہ بات مزید موکد ہو گی۔ ان انسانوں کو الہامی مذاہب میں ’نبی‘ یا ’رسول‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ خالق نے انھی انسانوں پر اپنی کتابیں نازل کیں۔ اسی سلسلے کی آخری کتاب قرآن مجید ہے جو کہ ہمارے پاس بالکل اسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں یہ چودہ صدیاں پہلے اللہ کے آخری پیغمبر محمد بن عبداللہ پر نازل کی گئی تھی۔
خالق نے ان انسانوں کو پکارا اور کہا: میں ہوں اللہ، خالق تم سب کا اور اس کائنات کا اور میں ہی اس کائنات کا نظام چلا رہا ہوں ۔ چنانچہ فرمایا :
وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌﵐ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ. اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِيْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍﵣ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۶۳ - ۱۶۴)
’’تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ سراسر رحمت ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں، اور شب و روزکے بدل کر آنے میں، اور لوگوں کے لیے دریا میں نفع کی چیزیں لے کر چلتی ہوئی کشتیوں میں، اور اُس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے، پھر اُس سے زمین کو اُس کے مر جانے کے بعدزندہ کیا ہے اور اُس میں ہر قسم کے جان دار پھیلائے ہیں ــــــ اور ہواؤں کے پھیرنے میں، اور آسمان و زمین کے درمیان حکم کے تابع بادلوں میں، (اِس حقیقت کو سمجھنے کے لیے) بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘
دراصل خالق کے بارے میں انسان کے عقلی تقاضے کی تصدیق جو کہ انسان کے ظاہر کے علم نے کی، بالکل ایسی ہی تصدیق ہے، جیسے انسان کے پاس ’’داس کیپیٹل‘‘ (Das Kapital) کتاب موجود تھی اور تاریخ کے شواہد نے یہ تصدیق کردی کہ یہ کارل مارکس (Karl Marx) کی تصنیف ہے یا انسان کے پاس اس قانون تجاذب کا تصور موجود تھا اور تاریخ نے تصدیق کردی کہ یہ تصور آئزک نیوٹن (Isaac Newton)نے دیا تھا۔ استاذ جاوید احمد صاحب غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں لکھتے ہیں:’’انسان کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ اپنے ظاہری حواس سے جو کچھ وہ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے، اس سے بعض ایسے حقائق کا استنباط کرے جو ماوراے حواس ہیں۔ اس کی ایک سادہ مثال قانون تجاذب (Law of Gravitation) ہے۔سیب درخت سے ٹوٹتا ہے تو زمین پر گر پڑتا ہے۔ پتھر کو زمین سے اٹھانا ہو تو اس کے لیے طاقت خرچ کرنا پڑتی ہے۔ سیڑھیاں اترنے کے مقابلے میں چڑھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ چاند اور تارے آسمان میں گردش کرتے ہیں۔ انسان ان چیزوں کو صدیوں سے دیکھ رہا تھا، یہاں تک کہ نیوٹن نے ایک دن انکشاف کیا کہ یہ سب قانون تجاذب کا کرشمہ ہے۔ یہ قانون بذات خود ناقابل مشاہدہ ہے، ... یہ، ظاہر ہے کہ محسوس سے غیر محسوس کا استنباط ہے۔ انسان جب اپنی اس صلاحیت کو کام میں لا کر اپنا اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی کائنات کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا یہ مطالعہ بھی گواہی دیتا ہے۔اللہ ہی زمین وآسمان کا خالق ہے ۔‘‘(۹۲)
پھر انسان کے اس استنباط کو اس کے وجدان نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بھی قبول کر لیا، بالکل ایسے ہی جیسے بچہ ماں کو قبول کرتا ہے، حالاں کہ بچے نے اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے دیکھا نہیں ہوتا۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے، جیسے انسان کے اندر خالق کی پیاس موجود تھی اور پانی نے آکر اس کی پیاس کو اطمینان دیا۔ پھر قرآن نے ہمیں اس پیاس کا ماخذ اور مقصد بتایا۔چنانچہ فرمایا:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۣ بَنِيْ٘ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰ٘ي اَنْفُسِهِمْﵐ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْﵧ قَالُوْا بَلٰيﵑ شَهِدْنَاﵑ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ. (الاعراف ۷: ۱۷۲ )
’’(اے پیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، ( آپ ہی ہمارے رب ہیں )، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے۔‘‘
چونکہ یہ زمانہ تجربہ و شواہد کا زمانہ ہے، اس لیے انسان چیزوں کو حقیقی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جب انسان خالق کو تلاش کر رہا تھا تو اس کے تمام احساسات تقاضا کر رہے تھے کہ کائنات کا خالق ہونا چاہیے، بالکل ایسے ہی جیسے بچہ ماں کو تلاش کرتا ہے۔ انسان کے گردوپیش کے ماحول میں کچھ لوگوں نے بتایا کہ فی الوقع ان کا مکالمہ اس کائنات کے پروردگار کے ساتھ ہوا ہے۔ انھوں نے اس کی آواز سنی ہے، لیکن پھر بھی سوال باقی رہا۔
یہاں پر آکر انسانوں کے دوگروہ ہوجاتے ہیں: ایک وہ جو چیزوں کو دلائل و شواہد کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری عقل تقاضا نہیں کر رہی کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہونا چاہیے۔ اس موقع پر کائنات کے پروردگار نےخاص کران لوگوں کے لیے ایک اور اہتمام کیا۔
اس نےجن انسانوں کے ساتھ مکالمہ کیا تھا، ان میں سے بعض کو خاص مرتبہ عطا فرمایا اور ان کو الہامی مذاہب میں ’رسول‘ کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے ۔ ان لوگوں کے ذریعے سے پروردگار نے انسانوں کے اوپر اتمام حجت کر دیا، بالکل ایسے ہی جیسے ایک سائنس دان پہلے ایک نظریہ پیش کرتا ہے، پھر بھی لوگ نہ مانیں تو معمل (laboratory)میں اپنے نظریے کو تجربے سے گزارتا ہے تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔ بالکل ایسے ہی ایک تنہا رسول اللہ کی طرف سے کھڑا ہو کر اپنا مقدمہ پیش کرتا ہے کہ دنیا کا ایک خالق ہے۔ اس نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے۔ چنانچہ انسان کو یہاں اس نے ایک خاص مدت کے لیے بھیجا ہے۔ اس مدت کے پورا ہو جانے کے بعد یہ دنیا لازماً ختم کر دی جائے گی اور اس کے زمین و آسمان ایک نئے زمین وآسمان میں تبدیل ہو جائیں گے۔ پھر ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ تمام انسان وہاں دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور ان کے ایمان اور عمل کے لحاظ سے انھیں جزا یا سزا دی جائے گی۔ جو لوگ یہ مقدمہ مانیں گے، وہ رسول کی سر زمین پر زندہ رہیں گے اور باقی پر اللہ کا عذاب آجائے گا۔
اس سے مقصود یہ تھا کہ جو عدالت آخرت میں لگنے والی ہے، اس کو رسول کی قوم کے لیے اسی دنیا میں لگا دیا جائے۔ یہ عدالت، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی بار لگی [2] اور آخری دفعہ اللہ کے آخری رسول محمد بن عبداللہ کی شکل میں نمودار ہوئی اور باقی انسانیت کے لیے یہ تجربے کی شکل میں حقیقت بن گئی۔
انسان کی معلوم شدہ تاریخ اڑھائی ہزار سال کی ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو خدا کا انکار کر سکا ہو، بس خدا کے تصور پر اختلاف ہے۔ پیغمبر کہتے ہیں کہ کائنات کا خالق ہے اور فلسفی اور سائنس دان کہتے ہیں کہ کائنات ہی خالق ہے۔ چنانچہ فرما یا:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ. اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَﵐ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ. (الطور ۵۲: ۳۵- ۳۶)
’’(اِن سے پوچھو، یہ آخرت کو نہیں مانتے تو) کیا بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا آپ ہی اپنے خالق ہیں؟کیا زمین اور آسمانوں کو اِنھوں نے پیدا کیا ہے؟ نہیں، یہ بات نہیں ہے، بلکہ یہ یقین نہیں رکھتے۔‘‘
جو لوگ خدا کے تصور کو سرے سے مانتے ہی نہیں، وہ ’اتفاق‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو کہ علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سائنس دانوں کا کائنات کو خالق ماننے کا تصور بھی ایک داستان کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ کائنات میں موجود اتھاہ معنویت، اس میں کارفرما قوانین، اس کا حسن و جمال اپنی توجیہ خود کرنے سے قاصر ہے۔
آج کے جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفتوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ مادہ اور نفس کے اختیارات خود اپنے نہیں ہیں، بلکہ کسی کے وضع کردہ ہیں۔یہ سب علم ، حکمت ، ارادیت اور خوشنودی کے بغیر ناممکن ہے ، لیکن مادہ اور نفس اس قد رت سے محروم ہے۔ اس لیے کائنات کے اس نظام کے پیچھے بیرونی ذہن ہونا چاہیے۔ ایک حکمت والا اور طاقت ور تخلیق کار کا ذہن۔ چنانچہ فرما یا:
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَي الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ. وَاِلَي السَّمَآءِ كَيْفَ رُفِعَتْ. وَاِلَي الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ. وَاِلَي الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ.(الغاشیہ ۸۸: ۱۷- ۲۰)
’’ (یہ نہیں مانتے) تو کیا اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟‘‘
اس لیے انسانیت کے پاس پیغمبروں کے مقدمے کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے ۔
___________