HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

رمضان سے پہلے

رمضان کا مبارک مہینا قریب آرہاہے، مگر اُس کی ر حمتوں اوربرکتوں سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جوصبر و تقویٰ کی اِس سالانہ تربیت گاہ میں داخل ہونے سے پہلے اُس کے لیے تیاری کرے، جو اِس فیضان رحمت سے پہلے اِس طرح اُس کا مہبط بنے کہ رمضان کا ابر کرم برسے تو اُس کا ربانی ذوق اُسے اپنے دل ودماغ میں پوری طرح جذب کرسکے۔ رمضان کو پانے والے صرف وہ لوگ ہیں جو سال بھر روزہ دارانہ زندگی گزاریں۔جو لوگ سال کے بقیہ دنوں میں غیرروزے دار بنے ہوئے ہوں،اُن کے لیے رمضان، بلاشبہ صرف اُسی بے روح ’مذہبیت‘ کی دھوم اور اُسی دنیا پرستانہ کلچر میں اضافے کے ہم معنی ہو گا جس میں وہ اِس سے پہلے زندگی گزاررہے تھے۔

یہ بلاشبہ مومن کا طریقہ نہیں کہ غفلت کی زندگی گزارتے ہوئے اچانک وہ رمضان کے مہینے میں داخل ہو اور پھر بھوک پیاس کی حالت میں بے روح طورپر چند مراسم اداکرتے ہوئے پورا مہینا اِس طرح گزار دے کہ محرومی کے سوا اور کوئی چیز اُسے حاصل نہ ہوسکے۔

خالق نے ماہ و سال کی گردش کا نظام اِس طرح مقرر کیا ہے کہ اُس میں سے ایک مہینے کو رمضان کے لیے خاص کردیا گیاہے۔یہ گویا بندے کے لیے اُس کے پروردگار کی طرف سے ایک سنہرا موقع اور حدیث کے الفاظ میں، وہ لطیف ربانی جھونکا [1] ہے جس کے بعد محرومی کبھی اُس کا مقدر نہیں بن سکتی۔

اِس لیے ضرور ی ہے کہ ایک مومن خدا کی اِس اسکیم کو سمجھ کر رمضان کے مہینے میں داخل ہو۔وہ اُن چیزوں کو رمضان سے پہلے ہی اختیار کرلے جنھیں رمضان میں اختیار کیا جانا چاہیے۔ جیسے وقت پر سونا اور جاگنا، حفظان صحت، ذکر وفکر،پاکیزگی،نمازوں کا اہتمام، راہ خدا میں انفاق اورتلاوت و تدبر کے ساتھ قرآن مجید کے مختلف حصوں اوردعاے ماثور کو حفظ کرنا، وغیرہ۔اِسی طرح وہ اُن عادات وممنوعات کو مکمل طورپر ترک کردے جنھیں ترک کیے بغیر کوئی شخص سچا روزے دار نہیں بن سکتا۔ جیسے ذکر وتلاوت اور نمازوصدقات سے غفلت، جھوٹ اور جھوٹ پر عمل،بحث وتکرار،غیبت ، عیب جوئی،فضول گوئی، سگریٹ اور منشیات جیسے ’خبائث‘ [2] کی عادت، طہارت اورپاکیزگی کا عدم اہتمام، مجنونانہ حد تک موبائل اور سوشل میڈیا جیسی چیزوں کے استعمال میں اپنا وقت اور توانائی بربادکرنا،وغیرہ۔

ر مضان سے پہلے اُس کی تیاری معروف معنی میں، کھانے پینے کے اُس مسرفانہ کلچر کی توسیع کا نام نہیں جسے غالب نے اپنے ایک فارسی شعر میں اِس طرح بیان کیا تھا  ــــ روزے کا مقصد عبادت و ریاضت تھا، مگر رمضان کا مہینا عملاً اب صرف گرمی افطار کی دھوم میں ایک مزید اضافہ بن کر رہ گیا ہے:

تن پروریِ خَلْق فزوں شد ز ریاضت

جز گرمیِ افطار نہ دارد رمضاں ہیچ

اِسی طرح رمضان کی تیاری ہرگز کسی قسم کی بے روح عملیات کی کثرت کا نام نہیں،یہ دراصل ایمان اور عمل صالح کی اُسی مومنانہ سرگرمی میں مزید اضافہ ہے جو ایک خداپرست آدمی کی زندگی میں سال بھر جاری رہتی ہے  ـــــ تزکیۂ نفس،تقویٰ کی تربیت، شکرکا مزاج، لغو سے پرہیز،عبادت کا ذوق،غور و فکر، قرآن مجید سے تعلق،صالحین کی صحبت،خدا کے سچے بندوں کی سیرت کا مطالعہ،اصلاح ودعوت،صبر و غم خواری، انفاق، انسانی ہم دردی اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ، وغیرہ۔رمضان سے پہلے اُس کی تیاری کے اِس عمل کے لیے حدیث و سیرت اور اسلامی تاریخ میں واضح رہنمائی موجود ہے۔

٭ رمضان کی آمد سے پہلے ضروری ہے کہ آدمی سچی توبہ کرے۔ وہ غفلت اور بے دلی کے بجاے دعااور شوق کے ساتھ اُس کا استقبال کرے۔ خدا کے سچے بندوں کا طریقہ یہ تھا کہ رمضان کی آمد سے پہلے رجب ہی سے اُن کی زبان پر اِ س طرح کی دعائیں جاری ہوجاتی تھیں: ’اللّٰھم بارک لنا في رجب وشعبان وبلِّغنا رمضان‘[3]۔

 ٭ اِسی طرح رمضان سے قبل اُن کی زبان پر اِس طرح کی دعائیں جاری ہو جایا کرتی تھیں: ’اللّٰھم سلِّمني لرمضان، وسلِّم رمضان لي، وسلِّمه لي متقبَّلاً[4]۔

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماہ شعبان کے شروع ہوتے ہی اہل ایمان قرآن مجید کی تلاوت و تدبر میں منہمک ہوجاتے۔وہ اپنے مال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غربا ومساکین کو رمضان کے روزوں کے لیے تقویت مل سکے:’کان المسلمون إذا دخل شعبان أکبُّوا علی المصاحف فقرؤوھا، وأخرجوا زکٰوة أموالھم تقویةً للضعیف والمسکین علیٰ صیام رمضان‘[5]۔

٭ ر مضان کی تیاری کا ایک اہم عمل ماہ شعبان کے روزے ہیں۔رمضان کے علاوہ، یہی مہینا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر روزے رکھتے تھے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے شعبان سے زیاد ہ آپ کو کسی اور مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا[6]۔

 ٭ رمضان کی عبادت کا ایک اہم حصہ قیام اللیل یا نماز تراویح میں قرآن مجیدکو سننا ہے۔ افسوس کہ اب قرآن مجید سے تعلق کا یہ اجتماعی طریقہ محض ایک رسم بن کر رہ گیا ہے اور ’ثمن قلیل‘ (البقرہ ۲: ۴۱) پر تجارت قرآن کی گرم بازاری میں بہت سے امام اپنے مقتدیوں کی مجبوری یا رضامندی کے تحت برسر منبر و محراب اِس طرح قرآن پڑھتے ہیں، گویا ،نعوذ باللہ،وہ قرآن کو روند رہے ہوں۔ یہ بلا شبہ اِن ائمہ اور نمازیوں کی طرف سے قرآن کی بدترین اِہانت، اُس کا مذاق اور ایک سنگین جرم ہے۔اِس ظاہرے کا بنیادی سبب ’ختم قرآن ‘[7] کا وہ خلاف سنت معیار ہے جس میں’ حق تلاوت‘(البقرہ ۲: ۱۲۱) اور تدبر و تذکر (ص ۳۸: ۲۹)کے اصل مقصدکو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو بیان کرتے ہوئے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ’نعم البدعة ھٰذہ، والتي ینامون عنھا أفضل من التي یقومون‘[8]۔

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اِس ارشاد کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اِس قسم کی تراویح اور ’ختم قرآن‘ سے، بلاشبہ وہ قیام اللیل بہترہے جس میں حسب استطاعت اپنی یادداشت یا مصحف کی مدد سے قرآن مجید کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھا اور سنا جائے۔

 دوران تراویح قرآن مجید سننے والوں کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ پیشگی طورپرسنجیدہ منصوبہ بندی کرکے وہ ایسے امام اور ایسی جگہ کا انتخاب کریں،جہاں ترتیل کے ساتھ وہ قرآن مجید کوسن سکیں۔اِسی کے ساتھ وہ اِس بات کا اہتمام کر یں کہ زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا اور سنا جائے۔ اِس سلسلے میں لازمی طورپر اِس بات کا لحاظ نہایت ضروری ہے کہ چند دنوں میں’ختم قرآن‘ اور’ شبینہ‘ جیسے مبتدعانہ طریقوں کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے۔اِس انقلابی عمل کے بغیراِس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے خدا کے نزدیک عملاً نہ پڑھنے والے ٹھیریں [9]، اور ایک صحابی رسول کے الفاظ میں، بہت سے قاری ایسے ہوں جو قرآن سے ہدایت اور رحمت پانے کے بجاے صرف اُس کی لعنت کے مستحق قرار پائیں[10]۔

(لکھنؤ، یکم اپریل ۲۰۱۹ء)

___________

[1]۔ ’إنّ لربکم في أیّام دھرکم نَفَحات، فتعرّضوا لھا، لعلّ أحدکم أن یصیبه منھا نفحة لا یشقیٰ بعدھا أبدًا‘ (مجمع الزوائد ۱۰/ ۲۳۴)۔

[2]۔ الاعراف۷: ۱۵۷۔

[3]۔ مسند البزار، رقم ۲۰۳۲۔’’خدایا، تو ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘

[4]۔ الدعاء للطبرانی، رقم ۸۳۹۔’’خدایا، مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے درست رکھ،اوراُس کو سلامتی کے ساتھ میری طرف سے قبول فرما۔‘‘

[5]۔ لطائف المعارف، ابن رجب الحنبلی۲۵۸۔

[6]۔ بخاری، رقم ۱۹۷۰۔

[7]۔ ’...لا یکوننّ ھَمُّ أحدکم آخرَالسُّورة‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۸۷۳۳ )، یعنی تم میں سے کسی شخص کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہو نا چاہیے کہ بس کسی نہ کسی طرح وہ قرآن کی سورتوں کو ختم کر لے۔

[8]۔ بخاری، رقم ۱۹۰۶۔’’یہ نئی چیز ٹھیک ہے۔تاہم جس چیز ـــ تہجد ـــ کوچھوڑکریہ لوگ سوئے رہتے ہیں، وہ اِس سے زیادہ افضل ہے ۔‘‘

[9]۔ ’أولٰئک قرؤوا، ولم یقرؤوا‘ (احمد، رقم ۲۴۷۵۴ )۔

[10]۔ ’رُبَّ تالٍ للقرآن والقرآنُ یلعنه‘(احیاء علوم الدین ۱/ ۲۷۴)۔

B