HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غنا اور موسیقی (۲)

ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر


ــــــ 11 ــــــ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:1 قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ [الْمَدِينَةَ مِنْ بَعْضِ مَغَازِيهِ، أَوْ أَسْفَارِهِ ]، فَاسْتَقْبَلَهُ سُودَانُ الْمَدِينَةِ يَزْفِنُونَ [بَيْنَ يَدَيْهِ ]، وَيَقُولُونَ: جَاءَ مُحَمَّدٌ رَجُلٌ صَالِحٌ بِكَلَامِهِمْ، [وَيَتَكَلَّمُونَ بِكَلَامٍ لَا يَفْهَمْهُ،4 ] [فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’مَا يَقُولُونَ؟‘‘ قَالُوا: يَقُولُونَ: مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ5]، وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَسٌ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَاهُمْ.

__________________  

انس بن مالک   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے یا کسی سفر سے واپس مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے کچھ سیاہ فام مردوں نے آپ کا استقبال کیا۔ وہ آپ کے سامنے ناچ رہے تھے اور اپنی زبان میں  گاتے ہوئے کہہ رہے تھے: محمد آئے ہیں، وہ ایک صالح انسان ہیں۔وہ اپنی زبان میں کچھ کہہ رہے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں سے پوچھا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ کہہ رہے ہیں: محمد خدا کے صالح بندے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ  نے اِس واقعے میں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اُنھیں اِس طرح ناچنے اور گانے سے روک دیا تھا۱۔

__________________  

۱۔ یہ استدراک کا جملہ ہے۔ مذہبی ذہن چونکہ اِس طرح کی چیزوں کو بالعموم قبول نہیں کرتا ، اِس لیے راوی نے خاص طور پر بتایا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نےیہ واقعہ تو بیان کیا ہے ، لیکن اِس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گانے اور ناچنے والوں کو روک دینے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاً السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم 4236سے لیا گیا ہے۔ اِس واقعے کے راوی تنہا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم12540۔ مسند بزار، رقم6810 ۔ حديث السرَّاج، سرَّاج نیساپوری، رقم 2153۔ صحيح ابن حبان، رقم5870۔

2۔ مسندبزار، رقم6810۔

3 ۔ مسند بزار، رقم6810۔

4۔ صحيح ابن حبان، رقم5870۔

5 ۔ مسند احمد، رقم12540۔

ــــــ 12 ــــــ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،1 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا هُوَ بِجَوَارٍ يَضْرِبْنَ بِدُفِّهِنَّ، وَيَتَغَنَّيْنَ، وَيَقُلْنَ: نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ ... يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’اللہُ يَعْلَمُ إِنِّي لَأُحِبُّكُنَّ‘‘.

__________________  

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ایک گلی سے گزرے تو کچھ لڑکیاں دف بجا کر یہ گیت گا رہی تھیں : ’’ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں، ہماری خوش نصیبی کہ آج محمد ہمارے ہمسائے بنے ہیں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ میں بھی تم لوگوں سے محبت رکھتا ہوں۔

متن  کے حواشی

[1]۔ یہ روایت سنن ابن ماجہ، رقم1899 سے لی گئی ہے۔اِس واقعے کے راوی بھی تنہا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کا ایک طریق مسند بزار، رقم7334 میں دیکھ لیا جاسکتا ہے، جس میں یہ صراحت بھی ہے کہ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے۔

ــــــ 13 ــــــ

يَقُولُ أَبُو الْحُسَيْنِ خَالِدُ بْنِ ذَكْوَانَ:1 كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، وَيَتَغَنَّيْنَ، فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، فَذَكَرْنَا ذٰلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي، [فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي2 ] وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ3 تَتَغَنَّيَانِ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، [تَضْرِبَانِ بِالدُّفُوفِ4 ] وَتَقُولَانِ، فِيمَا تَقُولَانِ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدِ5، فَقَالَ: ’’أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ، مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللہُ‘‘6.

__________________  

خالد بن ذکوان کہتے ہیں: یوم عاشور کو ہم مدینہ میں تھے اور وہاں لڑکیاں دف بجا رہی اور گیت گا رہی تھیں۔ ہم نے یہ دیکھا تو ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے اور اُن سے اِس کا ذکر کیا۔اِس پر اُنھوں نے بیان کیا کہ میری شادی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت میرے ہاں تشریف لائے اور میرے بچھونے پر اِسی طرح بیٹھ گئے، جس طرح تم میرے سامنے بیٹھے ہو ۔اُس وقت میرے پاس دو لڑکیاں بیٹھی دف بجاکر بدر میں شہید ہونے والے ہمارے آبا کا نوحہ گارہی تھیں اور اپنے گیت میں وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ اِس وقت ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: (بیٹیو)،تم یہ بات  نہ کہو، آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، اِسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۱۔

__________________  

ا۔ اِس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے پر کوئی اعتراض کیا ، نہ گانے کے آلات پر، بلکہ صرف وہ بات کہنے سے منع فرمایا جو آپ کے بارے میں غلط کہی جارہی تھی ۔غنا اور موسیقی سے متعلق صحیح رویہ یہی ہے جو ہر بندۂ مومن کو اختیار کرنا چاہیے۔اِس روایت میں یہ تعلیم ایسی واضح ہے کہ اِس باب میں کسی دوسری راے کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاً سنن ابن ماجہ، رقم1897 سے لیا گیا ہے۔ اِس واقعے کی راوی تنہا رُبیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا ہیں اور اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند اسحٰق، رقم2266۔ مسنداحمد، رقم27021، 27027۔ مسند عبد بن حميد، رقم1589۔صحيح بخاری، رقم4001، 5147۔سنن ابی داؤد، رقم 4922۔سنن ترمذی، رقم1090۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم 5538۔صحيح ابن حبان، رقم5878۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم 698۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم14688۔

2 ۔صحيح بخاری، رقم5147۔

3۔ متعدد طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم4001 میں یہاں ’ جَارِيَتَانِ‘ کے بجاے ’جُوَيْرِيَاتٌ‘    کا صیغہ نقل ہوا ہے۔

4۔ مسند احمد، رقم27027 ۔

5۔ بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم27021 میں یہاں ’يَعْلَمُ مَا يَكُونُ فِي الْيَوْمِ وَفِي غَدٍ‘     ’’جو یہ بھی جانتے ہیں کہ آج کیا ہوگا اور کل کیا ہونے والا ہے‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

6۔ بعض روایتوں، مثلاً صحيح بخاری، رقم4001 میں یہ بات اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ ’حَتَّى قَالَتْ جَارِيَةٌ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:«لاَ تَقُولِي هَكَذَا، وَقُولِي مَا كُنْتِ تَقُولِينَ» ‘   ’’یہاں تک کہ ایک لونڈی نے کہا: ’’ اِس وقت ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: (بیٹی)، تم یہ بات نہ کہو۔بس وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں‘‘۔

ــــــ 14 ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ1 أَنَّهَا زَفَّتِ امْرَأةً إِلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’يَا عَائِشَةُ، مَا كَانَ مَعَكُمْ لَهْوٌ؟ فَإِنَّ الأَنْصَارَ يُعْجِبُهُمُ اللَّهْوُ‘‘.

__________________  

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُنھوں نے کسی دلہن کی رخصتی ایک انصاری کے ہاں کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عائشہ، کیا تمھارے پاس دل بہلانے  کا کوئی بندوبست نہیں تھا۱، اِس لیے کہ انصار تو اِس طرح کے موقعوں پر گانے بجانےکو پسند کرتے ہیں؟

__________________  

۱۔ اصل میں لفظ ’لهو‘ استعمال ہوا ہے۔ قرینہ دلیل ہے کہ اِس سے مراد یہاں گانا بجانا ہی ہے۔

متن  کے حواشی

[1] ۔اِس روایت کا متن صحیح  بخاری، رقم 5162 سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں:مسنداحمد،رقم26313۔مستدرک حاکم،رقم 2749۔ السنن الصغریٰ،بیہقی،رقم2596۔السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم14687۔

ــــــ 15 ــــــ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:1 أَنْكَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا [رَجُلًا ] مِنَ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ’’أَهْدَيْتُمُ الْفَتَاةَ؟‘‘ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ’’أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي‘‘؟ قَالَتْ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ: أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ‘‘.

__________________  

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: سیدہ عائشہ نے اپنی ایک عزیزہ کا نکاح انصار کے ایک شخص کے ساتھ کرایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس موقع پر وہاں تشریف لائے اور لوگوں سے پوچھا: کیا تم نے لڑکی کی رخصتی کردی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں۔آپ نے پوچھا: کیا اُس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجا ہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی نہیں۔اِس پر آپ نے فرمایا: انصار کے لوگوں میں تو گانے کی روایت ہے۔ بہتر ہوتا کہ تم اُس کے ساتھ کسی کو بھیجتے جو یہ گیت گاتا: ہم تمھارے پاس آئے ہیں، ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔ہم بھی سلامت رہیں، تم بھی سلامت رہو۱۔

__________________  

۱۔ اِس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےخوشی کے موقعوں پر غنا اور موسیقی کے اہتمام کی ترغیب بھی دی ہے۔تاہم یہ اچھے مضامین کی رعایت کے ساتھ ہی دی گئی ہے۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاً سنن ابن ماجہ، رقم1900 سے لیا گیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے اِس کا ایک طریق شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم3321 میں بھی نقل ہوا ہے، جب کہ جابر رضی اللہ عنہ سے اِسی واقعے کا شاہد اِن مراجع میں دیکھ لیا جاسکتا ہے: مسنداحمد، رقم15209۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم5540 ۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم14691۔

2۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم3321۔

ــــــ 16 ــــــ

عَنْ أَبِي بَلْجٍ الْفَزَارِيِّ، قَالَ:1 قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ: إِنِّي قَدْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَتَيْنِ، لَمْ يُضْرَبْ عَلَيَّ بِدُفٍّ، قَالَ بِئْسَمَا صَنَعْتَ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ فَصْلَ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الصَّوْتُ [وَضَرْبُ الدُّفِّ2]‘‘. وَعَنْهُ فِي لَفْظٍ قَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:’’فَصْلٌ بَيْنَ الْحَلَالِ، وَالْحَرَامِ الدُّفُّ، وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ‘‘.

__________________  

ابو بلج فزاری کہتے ہیں: میں نے محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں دو عورتوں سے شادی کرچکا ہوں، لیکن میری کسی شادی میں دف نہیں بجائی گئی۔اُنھوں نے جواب میں کہا: یہ تم نے بہت برا کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ حلال اور حرام میں۱ فرق شادی بیاہ کے موقع پر گھروں سے آنے والی گانے کی آوازوں۲ اور اُن کے ساتھ دف بجانے ہی سے ہوتا ہے۔اِنھی محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں کہ آپ نے فرمایا: نکاح کے معاملے میں حلال وحرام کی تمیز جس چیز سے ہوتی ہے، وہ دف اور نکاح کے موقع پر آنے والی آوازیں ہی ہیں۔

__________________  

۱۔ یعنی نکاح اور سفاح میں۔

۲۔اِس لیے کہ یہی آوازیں اعلان کا ذریعہ بنتی ہیں ، جو نکاح کے لیے بہرحال ضروری ہے۔

متن  کے حواشی

[1] ۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم18280سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:سنن سعيد بن منصور،رقم629۔غريب الحديث، ہروی،رقم243 ۔مسنداحمد، رقم15451 ،  18279 ۔سنن ابن ماجہ، رقم1896 ۔سنن ترمذی، رقم 1088۔ تاريخ واسط،واسطی، رقم 62۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم 3369 ، 3370 ۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم 5537۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم 542 ۔مستدرک حاكم، رقم 2750 ۔معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم648۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم14694۔

2 ۔مسند احمد، رقم 18279۔

3 ۔مسند احمد، رقم15451 ۔

ــــــ 17 ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:1 دَخَلَ [عَلَيَّ2  ] أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ3 مِنْ جَوَارِي الأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ4، [وَتُدَفِّفَانِ، وَتَضْرِبَانِ5 ] [بِدُفَّيْنِ، وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى عَلَى وَجْهِهِ الثَّوْبُ6 لَا يَأْمُرُهُنَّ وَلَا يَنْهَاهُنَّ،7 ] قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ؟8 وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ،9 [فَكَشَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَهُ10  ]، فَقَالَ: ’’[دَعْهُنَّ11  ] يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا‘‘، [فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا12 ].

__________________  

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں : ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے ہاں تشریف لائے۔اُس موقع پر انصار کی دو لونڈیاں دف بجاتے ہوئے وہ گیت گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کےدن ایک دوسرے کے لیے گائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں اپنا چہرہ کپڑے سے ڈھانپے ہوئے آرام فرما رہے تھے، لیکن اُنھیں کچھ کہہ رہے تھے، نہ روک رہے تھے ۔ سیدہ کہتی ہیں کہ وہ دونوں لونڈیاں پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں۱۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا توتعجب سے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں موسیقی کےیہ شیطانی آلات؟۲  اُس دن عید تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات سنی تو چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: ابوبکر، اِن بچیوں کو گانے دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے ۔ پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی توجہ دوسری جانب ہوئی تو میں نے لڑکیوں کو اشارہ کیا، چنانچہ وہ دونوں وہاں سے چلی گئیں۔

__________________  

۱۔اِس وضاحت کی ضرورت غالباً اِس لیے پیش آئی کہ پیشہ ور گانے والیوں کا گھروں میں آکر گانا عرب کی روایات میں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔

۲۔یہ تبصرہ عرب جاہلی میں آلات موسیقی کے اُس استعمال کی رعایت سے ہوا ہے جو ہم اپنے زمانے میں بھی شب وروز دیکھتے ہیں۔ روایتوں میں جگہ جگہ یہ تعبیر اِسی پہلو کی رعایت سے اختیار کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے واضح کردیا کہ اِن میں سے کوئی چیز بھی اصلاً ممنوع نہیں ہے۔یہ اِن کا غلط یا صحیح استعمال ہے جو کبھی ممانعت اور کبھی جواز یا ترغیب کا باعث بن جاتا ہے۔آپ نے اِن کے اچھے اور برے استعمال میں جس فرق کو ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ، اُس کے بعد، ظاہر ہے کہ سیدنا ابو بکر کی یہ راے نہیں رہی ہوگی۔

متن  کے حواشی

[1]۔اِس روایت کا متن اصلًا صحيح بخاری، رقم  952 سے لیا گیا ہے۔ اِس واقعے کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم 779، 780۔ مسنداحمد، رقم 24049، 24541، 24682، 24952، 25028۔صحيح بخاری، رقم949، 952، 987، 2906، 3529، 3931۔صحيح مسلم، رقم892۔ سنن ابن ماجہ، رقم1898۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم1808، 1809، 1810، 8910۔السنن الصغریٰ ، نسائی،  رقم1593، 1597۔مسند ابی يعلىٰ، رقم50۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم2645، 2646، 2647، 2648، 2649، 2650۔صحيح ابن حبان، رقم5868، 5869، 5871، 5876، 5877۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم286، 287، 288۔ السنن الصغریٰ،بیہقی، رقم3362۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم 13527، 20977، 21012، 21013۔

2۔صحيح بخاری، رقم949۔

3 ۔بعض طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم3931 میں یہاں ’قَيْنَتَانِ‘   کا لفظ آیا ہے۔ ’قَيْنَة‘ کا لفظ لونڈی اور مغنیہ، دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس زمانے میں مغنیات بالعموم لونڈیاں ہی ہوتی تھیں۔

4۔ متعدد طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم949 میں یہاں ’تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ‘  ’’ وہ دونوں جنگ بعاث کے گانے گارہی تھیں ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔

5۔صحيح بخاری، رقم3529۔

6۔ بعض طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم2906 میں یہاں اِس طرح بیان ہوا ہے کہ ’فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ‘ ’’ آپ نےبچھونے پر لیٹ کر اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ‘‘۔

7۔ مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم 779۔

8۔ مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم780 میں یہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : ’أَتَفْعَلُونَ هَذَا وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ؟‘ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور آپ لوگ یہ کر رہے ہو؟‘‘، جب کہ مسند احمد، رقم25028 میں بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اِس موقع پر تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے کہ ’عِبَادَ اللهِ، أَمَزْمُورُ الشَّيْطَانِ؟‘ ’’اللہ کے بندو، موسیقی کایہ شیطانی آلہ‘‘۔

9۔سنن ابن ماجہ، رقم1898 میں بیان ہوا ہے کہ یہ واقعہ عید الفطر کے دن پیش آیا تھا۔بعض طرق ،مثلاً صحيح بخاری، رقم3931 میں شک کے اسلوب میں ’يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى‘   ’’ عید الفطر یا عید الاضحیٰ‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، جب کہ اکثر طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم987 میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ یہ واقعہ ایام منیٰ، یعنی عید الاضحیٰ کے موقع پر پیش آیا تھا۔

10۔ مسنداحمد، رقم24541۔

11۔ مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم 779۔

12۔ صحيح مسلم، رقم892۔

ــــــ 18 ــــــ

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ الْبَجَلِيِّ، قَالَ:1 دَخَلْتُ عَلَى قَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيّ، [وَثَابِتِ بْنِ زَيْدٍ2 ] فِي عُرْسٍ، وَإِذَا جَوَارٍ [يَضْرِبْنَ بِدُفٍّ لَهُنَّ وَ] يَتغَنَّيْنَ، قُلْتُ: [سُبْحَانَ اللهِ!4 ] أَنْتُمَ أَصَحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، [وَمِنْ ] أَهْلِ بَدْرٍ يُفْعَلُ هَذَا عِنْدَكُمْ؟ قَالَا: اجْلِسْ إِنْ شِئْتَ فَاسْمَعْ مَعَنَا، وَإِنْ شِئْتَ فَاذْهَبْ، فَإِنَّهُ قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ،6 وَالْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ فِي غَيْرِ نِيَاحَةٍ.

__________________  

عامر بن سعد  بجلی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک شادی میں قرظہ بن کعب، ابو مسعود انصاری  اور ثابت بن زید  کے پاس  جا کر بیٹھا  تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کچھ بچیاں دف بجا رہی اور گانے گا رہی ہیں۔ میں نے کہا:سبحان اللہ، آپ  لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، بلکہ بدر کی جنگ لڑنے والے ،اور آپ کے سامنے یہ کچھ ہو رہا ہے؟۱ قرظہ اور ابو مسعود کہنے لگے:  تم چاہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو اور چاہو تو یہاں سے جا سکتے ہو، اِس لیے کہ ہمیں شادی بیاہ کے موقع پر گانے بجانے اور میت پر رونے کی رخصت دی گئی ہے،۲اگر اُس میں نوحہ نہ کیا جائے۔ 

__________________  

۱۔ غنا اور موسیقی کے بارے میں یہ سوال کیوں پیدا ہوتا تھا، اِس کی وضاحت ہم پیچھے کرچکے ہیں کہ ہمارے زمانے کی طرح اُس زمانے میں بھی اِس کا استعمال زیادہ تر مشرکانہ تصورات اور فواحش کی ترغیب ہی کے لیے ہوتا تھا۔ روایتوں میں ’رخصت‘ کا لفظ اِسی رعایت سے بولا گیا ہے۔لفظ کے اِس طریقے پر استعمال کی مثالیں ہر زبان میں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔شادی بیاہ کی قید بھی اِس جملے میں صرف یہ بتانے کے لیے ہے کہ عام حالات میں تو ہماری یہ مشغولیت کسی پہلو سے قابل اعتراض ہوسکتی تھی ،لیکن خوشی کے اِس موقع پر اِس کا امکان بھی نہیں ہے، اِس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اِس موقع پر اور اِسی سبب سے اِس کی اجازت عطا فرمائی ہے۔

۲۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِس رخصت ، بلکہ اِس طرح کے موقعوں پر ترغیب کی روایتیں پیچھے گزر چکی ہیں۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاًالسنن الكبرىٰ، نسائی، رقم5539 سے لیا گیا ہے۔اِس واقعے کے راوی تنہا عامر بن سعد بجلی ہیں۔اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند طیالسی، رقم 1317۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم16405۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم3383۔ امالی المحاملی، روایۃ ابن یحییٰالبیع، رقم470۔معجم الصحابۃ، ابن قانع، رقم198۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم690، ۶۹۱۔ مستدرك حاکم، رقم2751۔ معرفۃ الصحابۃ، ابونعیم، رقم5793۔

2۔ معرفۃ الصحابۃ ، ابو نعیم ، رقم5793۔

3۔ المعجم الكبير، طبرانی ، رقم690۔

4۔ المعجم الكبير ، طبرانی ، رقم691 ۔

5۔ السنن الصغریٰ ، نسائی،   رقم3383 ۔

6۔ بعض طرق، مثلاً مسند طیالسی، رقم 1317 میں یہاں ’إِنَّهُ رُخِّصَ فِي الْغِنَاءِ فِي الْعُرْسِ‘  ’’ اِس لیے کہ شادی بیاہ کے موقع پر گانے بجانے کی رخصت دی گئی ہے ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔

ــــــ 19 ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:1سَمِعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةَ أَبِي مُوسَى، وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمَسْجِدِ، [وَكَانَ حَسَنَ الصَّوْتِ2 ] فَقَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ‘‘.

__________________  

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ اشعری کو قرآن پڑھتے ہوئےسنا۔ وہ نہایت خوش آواز تھے اور اُس موقع پر مسجد میں بیٹھے ہوئے تلاوت کر رہے تھے ۔آپ نے اُن کی قراءت سنی تو فرمایا:  اِس میں شبہ نہیں کہ اِس شخص کو آل داؤد کے سازوں میں سے ایک ساز ارزانی ہوا ہے۱۔

__________________  

۱۔ یہ خدا کی تمجید اور اُس کے حضور میں دعا ومناجات کے لیے سیدنا داؤد علیہ السلام کے اُن دل نواز نغموں کی طرف اشارہ ہے جو آپ نہایت خوب صورت آواز میں اور سازوں کے ساتھ گاتے تھے۔اِن کا ذکر قرآن اور بائیبل، دونوں میں ہوا ہے۔زبور کے نام سے جو کتاب اُن پر نازل کی گئی ، وہ اِنھی نغموں کا مجموعہ ہے۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم 624 سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف عبد الرزاق، رقم 4177۔مسند حميدی، رقم284۔ التفسیرمن سنن سعيد بن منصور، رقم 131 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم29940، 32259۔ مسنداحمد، رقم 24097، 25343۔ مسند عبد بن حميد، رقم1476۔سنن دارمی، رقم1530۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم 1094، 1095، 7997۔ السنن الصغریٰ ، نسائی،   رقم 1020، 1021۔ حديث السرَّاج، سرَّاج نیسا پوری، رقم 598، 1919۔صحيح ابن حبان، رقم 7195۔

 اِس کے شواہد بُریدہ بن حُصیب اسلمی رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور خود ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے نقل ہوئے ہیں۔ بریدہ رضی اللہ عنہ سے اِس کے شواہد اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف عبدالرزاق، رقم 4178۔ الامالی فی آثار الصحابۃ،عبد الرزاق، رقم 89۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 29938، 32258۔ مسند احمد، رقم22952، 22969، 23033۔سنن دارمی، رقم 3541۔ الادب المفرد، بخاری، رقم 805، 1087۔صحيح مسلم، رقم 793۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم8004۔ مسند رويانی، رقم 16۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم 3890۔صحيح ابن حبان، رقم892۔السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم986، 987۔ السنن الكبرىٰ ، بیہقی، رقم 21053۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اِس کے شواہد اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 29937۔مسنداحمد، رقم 8646، 8820، 9806۔سنن دارمی، رقم 3542۔سنن ابن ماجہ، رقم 1341۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم 1093۔السنن الصغریٰ ، نسائی،   رقم1019۔مستخرج ابی عوانہ، رقم 3887، 3888، 3889۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم1160۔فوائد ابی محمد، فاكہی، رقم 175۔صحيح ابن حبان، رقم 7196۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم 2679۔ مسندشامیین، طبرانی، رقم 1743۔

جب کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے اِس کے شواہد جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: صحيح بخاری، رقم 5048۔صحيح مسلم، رقم 793۔سنن ترمذی، رقم 3855۔ مسندبزار، رقم3160، 3185۔مستخرج ابی عوانہ، رقم3891۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم 1369۔السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم 4708، 21054۔

2۔ یہ اضافہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک طریق، مستخرج ابی عوانہ، رقم3888 سے لیا گیا ہے۔

ــــــ 20 ــــــ

عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ الحُصَيْبِ الْأَسْلَمِيِّ1 أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَجُلٌ يُصَلِّي يَدْعُو، يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّكَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ سَأَلَ اللہَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ، الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ‘‘، وَإِذَا رَجُلٌ يَقْرَأُ فِي جَانِبِ المَسْجِدِ، فَقَال رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَقَد أُعِطَي مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِير آل دَاوُد‘‘، وَهُوَ عَبْدُ اللهِ بن قَيسٍ [أَبُومُوسَى الْأَشْعَرِيُّ2  ]، قَالَ: فَقُلتُ لَهُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أُخْبِرُهُ؟ فَقَالَ: ’’أَخْبِرْهُ‘‘، فَأَخْبَرْتُ أَبَامُوسَى، فَقَالَ: لَنْ تَزَالَ لِي صَدِيقًا، [ثُمَّ قَالَ أَبُو مُوسَى: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتِي لَحَبَّرْتُهَا تَحْبِيرًا3  ]. 

__________________  

بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص نماز میں دعا کرتے ہوئے کہہ رہا ہے:  اے اللہ، میں تجھ سے اپنی اِس گواہی کے وسیلے سے مانگتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ، یکتا اور سب کا سہارا، جس کا کوئی باپ ہے، اور نہ جس کا کوئی ہم سر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: اُس ذات کی قسم ، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔اِس نے واقعی اللہ کے اُس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے، جس کے وسیلے سے مانگا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے اور پکارا جائے تو لازماً سنتا ہے۱۔ پھر آپ نے مسجد کے ایک گوشے میں دیکھا کہ ایک شخص قرآن کی تلاوت کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِس میں شبہ نہیں کہ اِس شخص کو آل داؤد کے سازوں میں سے ایک ساز ارزانی ہوا ہے۔یہ عبد اللہ بن قیس تھے، جنھیں ابو موسیٰ اشعری کہا جاتا ہے۔بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ بات میں اُسے بتادوں؟ آپ نے فرمایا: بتادو۔ چنانچہ میں نے ابو موسیٰ کو بتایا تو اُنھوں نے فرط مسرت سے کہا:اب تم ہمیشہ میرے دوست رہو گے۔پھر کہا: مجھے اُس وقت معلوم ہوجاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری تلاوت سن رہے ہیں تو میں اِس سے کہیں زیادہ خوبی کے ساتھ پڑھتا۔

__________________  

۱۔اِس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار ہی وہ اسم اعظم ہے ، جس سے دنیا اور آخرت، دونوں میں کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں ۔نیز یہ بھی واضح ہے کہ اِس کا جامع ترین بیان قرآن کی سورۂ اخلاص ہی ہے۔

متن  کے حواشی

[1]۔اِس روایت کا متن اصلاًصحيح ابن حبان، رقم892 سے لیا گیا ہے۔

اِس واقعے کے راوی تنہا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اجمال وتفصیل کے کچھ فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف عبد الرزاق، رقم4178۔ الامالی فی آثار الصحابۃ، عبدالرزاق،رقم89۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 29938، 32258۔ مسنداحمد، رقم22952، 22969، 23033۔ سنن دارمی، 3541۔ الادب المفرد، بخاری، رقم805، 1087۔صحيح مسلم،رقم793۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم8004۔مسندرويانی، رقم 16۔مستخرج ابی عوانہ،رقم3890۔السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم986، 987۔ السنن الكبرىٰ،بیہقی، رقم 21053۔

2۔ مسنداحمد، رقم23033 ۔

3۔ مسند رويانی، رقم 16۔

ــــــ 21 ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:1 ’’مَا أَذِنَ اللہُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ2 لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ [يَتَغَنَّى3] بِالقُرْآنِ، يَجْهَرُ بِهِ‘‘.

__________________  

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کا کوئی نبی خوش الحانی کےساتھ اور بلند آواز سے قرآن پڑھے تو اللہ تعالیٰ جس توجہ سے اُس کو سنتا ہے ، کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم7544 سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: احاديث اسمٰعيل بن جعفر، رقم 145۔ مصنف عبد الرزاق، رقم4166، 4167۔ مسندحميدی، رقم 979۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 8741۔ مسنداحمد، رقم7670، 7832، 9805۔سنن دارمی، رقم 1529، 1532، 3533، 3540۔صحيح بخاری، رقم 5023، 5024، 7482۔ صحيح مسلم، رقم792، 793۔سنن ابی داؤد، رقم 1473۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم1091، 1092، 7994، 7998، 7999۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم1017، 1018۔مسند ابی يعلىٰ، رقم5959۔مستخرج ابی عوانہ، رقم 3866، 3867، 3868، 3870، 3912، 3913۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم1302۔صحيح ابن حبان، رقم751، 752۔ المعجم الاوسط، طبرانی،رقم2679۔السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم980، 3366۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم 2428، 4709، 21040، 21041۔

2۔ بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم 9805میں یہاں ’مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ‘ کے بجاے ’كَإِذْنِهِ لِنَبِيٍّ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ یہ، ظاہر ہے کہ محض اسلوب کا فرق ہے۔

3۔ صحيح مسلم، رقم793۔

ــــــ 22 ــــــ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:1 كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، وَكَانَ مَعَهُ غُلَامٌ أَسْوَدُ يُقَالُ لَهُ: أَنْجَشَةُ يَحْدُو [بِنِسَائِهِ]، [وَكَانَ حَسَنَ الصَّوْتِ3  ]، [فَاشْتَدَّ فِي السِّيَاقَةِ4  ]، قَالَ: [فَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهِمَا5  ] فَقَالَ [لَهُ] رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’وَيْحَكَ يَاأَنْجَشَةُ، رُوَيْدًا سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ‘‘7.

__________________  

 انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ ایک سیاہ فام نوجوان تھا ،جس کا نام انجشہ تھا۔   وہ خوش آواز تھا اور قافلے میں آپ کی ازواج کے ساتھ رہ کر حدی خوانی کرتا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر اُس نے قافلے کے اونٹوں کو بہت تیز چلادیا ۔انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے اور انجشہ کے قریب ہوا تو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا:  تم پر افسوس، انجشہ ، اِن آبگینوں کو ذرا آہستہ چلاؤ۱۔

__________________  

۱۔ یعنی اُن اونٹنیوں کو آہستہ چلاؤ جن پر نازک اندام عورتیں بیٹھی ہیں۔

متن  کے حواشی

[1]۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم13377 سے لیا گیا ہے۔اِس واقعے کے راوی تنہا انس رضی اللہ عنہ ہیں۔الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس باب کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسندطيالسی، رقم2161۔مسندحميدی، رقم 1243۔ مسند ابن جعد، رقم1396۔مسنداحمد، رقم 12041، 12090، 12165، 12761، 12799، 12935، 12944، 13096، 13144، 13642، 13670، 14044۔ مسند عبد بن حميد، رقم1342، 1343 ۔ صحيح بخاری، رقم 6149 ، 6161، 6202، 6209، 6210، 6211۔ صحيح مسلم، رقم 2323۔ مسند بزار، رقم 6503، 6504، 6766، 6849۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم10282، 10283، 10284، 10285، 10286۔مسندابی يعلىٰ،رقم 2809، 2810، 2868، 3126، 4064، 4075۔ مسند رويانی، رقم 1357۔ صحيح ابن حبان، رقم 5800، 5801، 5802، 5803۔ المعجم الاوسط، طبرانی،رقم1353۔ السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم 3363۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم20848، 21031، 21032، 21033۔ معرفۃ السنن والآثار، بیہقی، رقم20180۔

2۔ مسند احمد، رقم12944۔

3۔ مسند احمد، رقم13642۔

4۔ مسنداحمد 12041 ۔ بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم13670 میں یہاں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’فَحَدَا فَأَعْنَقَتِ الْإِبِلُ‘ ’’اُنھوں نے حدی خوانی کی تو اونٹ دوڑنے لگے ‘‘۔

5۔ مسند ابن جعد، رقم 1371۔

6۔ مسند احمد، رقم 12041 ۔

7۔ بعض طرق، مثلاً مسند احمد، رقم13096 میں یہاں ’«يَا أَنْجَشَةُ وَيْحَكَ، ارْفُقْ بِالْقَوَارِيرِ»‘   ’’انجشہ، تم پر افسوس، اِن آبگینوں کے ساتھ نرمی برتو‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ بعض روایتوں، مثلاً مسنداحمد، رقم13642 میں یہاں’«رُوَيْدَكَ يَا أَنْجَشَةُ، لَا تَكْسِرِ الْقَوَارِيرَ»‘   ’’ذرا آہستہ چلاؤ، اے انجشہ ، اِن آبگینوں کو توڑ نہ دینا ‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

  ــــــ 23 ــــــ

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ:1 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ: ’’لَوْ حَرَّكْتَ بِنَا الرِّكَابَ‘‘. فَقَالَ: قَدْ تَرَكْتُ قَوْلِي، قَالَ لَهُ عُمَرُ: اسْمَعْ وَأَطِعْ، قَالَ:

اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا

فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا،

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ‘‘ فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ.

__________________  

 عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سفر میں) عبد اللہ بن رواحہ سے فرمایا: تم ہماری سواریوں کو ذرا تیز چلادیتے ! عبد اللہ نے جواب دیا: میں حدی پڑھنا چھوڑ چکا ہوں۔اِس پر عمر نے کہا: سنو اور اطاعت کرو۔چنانچہ اُنھوں نے یہ اشعار گائے: ’’اے اللہ، تیری عنایت نہ ہوتی تو ہم نہ ہدایت پاتے ، نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے ، سو اب تو ہم پر سکینت نازل کر اور دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ثابت قدمی عطا فرما‘‘ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ پاکیزہ کلام سنا تو) فرمایا: اے اللہ، اِس پر رحم فرما۔عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا: اب تو رحمت لازماً ہوگی۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم8193 سے لیا گیا ہے۔ اِس واقعے کے راوی تنہا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کے باقی طرق  فضائل الصحابۃ، نسائی، رقم146 اور المخلِّصیات، ابو طاہرمخِّلص، رقم130  میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔

ــــــ 24 ــــــ

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ:1 رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الخَنْدَقِ2 [يَحْفِرُ3  ] وَهُوَ يَنْقُلُ [مَعَ النَّاسِ4   ] التُّرَابَ حَتَّى وَارَى التُّرَابُ شَعَرَ صَدْرِهِ5، وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ الشَّعَرِ، وَهُوَ يَرْتَجِزُ بِرَجَزِ عَبْدِ اللہِ [بْنِ رَوَاحَةَ، وَهُوَ يَقُولُ:6   ] ’’اللَّهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا ... وَلاَ تَصَدَّقْنَا 7 وَلاَ صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا ... وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا، إِنَّ الأَعْدَاءَ8 قَدْ بَغَوْا9 عَلَيْنَا ... إِذَا10 أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا‘‘، [فَيَقُولُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’أَبَيْنَا أَبَيْنَا‘‘11  ] يَرْفَعُ12 بِهَا صَوْتَهُ.

__________________  

 براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی کھودتے اور لوگوں کے ساتھ اُسے اٹھاکر لے جاتے  دیکھا ہے،یہاں تک کہ اُس مٹی سے آپ کے سینے کے بال تک چھپ گئے تھے، اورآپ کے جسم پر بال بہت تھے ۔آپ اُس موقع پر عبداللہ بن رواحہ کا رجز پڑھ رہے اور اُس میں کہہ رہے تھے: اے اللہ، تیری عنایت نہ ہوتی تو ہم نہ ہدایت پاتے، نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے، سو اب تو ہم پر سکینت نازل کر اور دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ثابت قدمی عطا فرما۔اِس میں کیا شک ہے کہ دشمنوں نے ہم پر چڑھائی کردی ہے ۔وہ فتنہ چاہیں گے تو ہم بھی مزاحمت کریں گے۔ بے شک، دشمنوں نے ہم پر بغاوت اور چڑھائی کی ہے، جب وہ فتنہ چاہیں گے تو ہم مانع ومزاحم ہوں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’أبينا‘ (ہم بھی مزاحمت کریں گے) کا لفظ بلند آواز سے دہراتے جارہے تھے۱۔

__________________  

۱۔ اِس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس طرح کے رجزیہ اشعار بعض موقعوں پر خود بھی پڑھتے تھے۔

متن  کے حواشی

[1]۔اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم3034 سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی تنہا براء بن عازب رضی اللہ عنہ ہیں۔اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسندطيالسی،رقم 747۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم26069، 36812۔مسنداحمد، رقم18486، 18513، 18570، 18571، 18572، 18684۔سنن دارمی، رقم2499۔صحيح بخاری، رقم2836، 2837، 4104، 4106، 6620، 7236۔صحيح مسلم، رقم1803۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم8806، 10290۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم 1716۔مسند رويانی، رقم 317، 322۔مستخرج ابی عوانہ، رقم 6921، 6922۔صحيح ابن حبان، رقم 4535۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم 13293۔

2۔ بعض روایتوں، مثلاً صحيح مسلم، رقم1803 میں یہاں ’يَوْمَ الخَنْدَقِ‘ کے بجاے ’يَوْمَ الْأَحْزَابِ‘ کے الفاظ نقل ہو ئے ہیں۔

3۔ مسند طيالسی، رقم 747۔

4۔ مسند احمد، رقم18486۔

5۔ کئی طرق، مثلاً مسندطيالسی، رقم 747 میں یہاں ’شَعَرَ صَدْرِهِ‘  ’’آپ کے سینے کے بال‘‘ کے بجاے ’بَيَاضَ بَطْنِهِ‘  ’’آپ کے پیٹ کی سفیدی‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، جب کہ بعض روایتوں، مثلاً سنن دارمی، رقم2499 میں یہاں ’بَيَاضَ إِبِطَيْهِ‘  ’’آپ کی بغلوں کی سفیدی‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔

6 ۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 26069 ۔

7۔ صحيح بخاری، رقم6620میں یہاں ’وَلاَ تَصَدَّقْنَا‘ ’’ ہم نہ صدقہ دیتے‘‘ کے بجاے ’وَلَا صُمْنَا‘   ’’ہم نہ روزہ رکھتے‘‘    کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

8۔صحيح بخاری، رقم6620 میں یہاں ’إِنَّ الأَعْدَاءَ‘ کے بجاے ’وَالمُشْرِكُونَ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔ بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم18570میں یہاں ’الملَا‘ کا لفظ روایت ہوا ہے، جب کہ اکثر روایتوں، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 26069 میں یہاں ’إِنَّ الْأُلَى‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔

9۔ بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم18570 میں یہاں ’بَغَوْا عَلَيْنَا ‘ ’’اُنھوں نے ہم پر چڑھائی کی ہے‘‘کے بجاے ’أبَوْا‘ ’’وہ ہمارے دشمن ہوگئے ہیں‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔

10۔ کئی طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 26069 میں یہاں ’إِذَا أَرَادُوا ‘ کے بجاے ’وَإِنْ أَرَادُوا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔

11۔ مسندطيالسی، رقم 747۔

12۔ بعض طرق، مثلاً مسند احمد، رقم18486 میں یہاں ’يَرْفَعُ‘  ’’بلند کر رہے تھے‘‘کے بجاے ’يَمُدُّ‘ ’’لمبا کر رہے تھے‘‘  کا لفظ آیا ہے۔صحيح بخاری، رقم4106 میں ہے کہ ’ثُمَّ يَمُدُّ صَوْتَهُ بِآخِرِهَا‘ ’’ پھر آخری کلمات کو آپ لمبا کرکے پڑھ رہے تھے‘‘۔

ــــــ 25 ــــــ

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ:1 خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَتَسَيَّرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: [يَا عَامِرُ،] أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ؟3 وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ، [يَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، يَسُوقُ الرِّكَابَ وَهُوَ4  ] يَقُولُ:

اللهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا

[إِنَّ الَّذِينَ5 قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا

وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا]

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا

إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا،

إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا،

فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا7،

وَأَلْقِيَنْ8سَكِينَةً عَلَيْنَا،

وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟‘‘ قَالُوا: عَامِرٌ، قَالَ: ’’يَرْحَمُهُ اللهُ‘‘، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَارَسُولَ اللهِ...‘‘.

__________________  

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہم خیبر روانہ ہوئے۔ یہ رات کا سفر تھا۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عامر بن اکوع سے کہا: عامر،  کیا اپنے کچھ شعر نہیں سناؤ گے؟ عامر رضی اللہ عنہ شعر کہا کرتے تھے۔چنانچہ وہ سواری سے اترے اور لوگوں کے لیے حدی خوانی کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور وہ آپ کے صحابہ کے سامنے رجزیہ اشعار پڑھ رہے اورسواریوں کو تیز چلارہے تھے۔ وہ اُس موقع پر کہہ رہے تھے: اے اللہ، تیری عنایت نہ ہوتی تو ہم نہ ہدایت پاتے، نہ نماز پڑھتے اور نہ زکوٰۃ دیتے ۔ جن لوگوں نے ہم پر چڑھائی کی ہے ، یہ جب فتنہ چاہیں گے تو ہم بھی مزاحمت کریں گے۔تیری عنایت سے، البتہ ہم کبھی مستغنی نہیں ہوسکتے۔ہم تجھ پر فدا ہوں، سو ہماری وہ خطائیں بخش دے جو ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہم پر سکینت نازل کر۔ہم وہ لوگ ہیں کہ آواز دی جائے تو آتے ہیں اور لوگوں نے ہمیں آواز دی ہے تو اِسی لیے کہ اُنھوں نے ہم پر اعتماد کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اشعار سنے تو پوچھا: یہ کون ہے جو اونٹنیوں کو اِس طرح ہنکارہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: عامر ہے۔آپ نے فرمایا: اللہ اِس پر رحم فرمائے۱۔  اِس پر ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ، اب تو رحمت واجب ہوگئی۔

__________________  

۱۔یہ اُس مضمون کی تحسین ہے جو عامر کے اشعار میں بیان ہوا ہے۔اِس روایت میں دو جگہ سلمہ نے اُنھیں اپنا بھائی بتایا ہے ۔ تاہم تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رشتے میں اُن کے چچا اور رضاعت کے تعلق سے بھائی تھے۔ اُنھوں نے یہ لفظ غالباً اِسی رعایت سے استعمال کیا ہے۔

متن  کے حواشی

[1]۔اِس روایت کا متن اصلاًصحيح مسلم،رقم1802 سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ،رقم36874۔مسنداحمد،رقم16503، 16511، 16525، 16538۔ صحيح بخاری، رقم 4196، 6148، 6331، 6891۔سنن ابی داؤد،رقم2538۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم4343، 10291، 10292۔ السنن الصغریٰ،نسائی،رقم3150۔مسندرويانی، رقم 1128۔مستخرج ابی عوانہ، رقم6829، 6830، 6831، 6833، 6834، 6835، 6952، 6953۔صحيح ابن حبان، رقم3196، 5276، 6935۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم6227، 6229، 6230، 6243، 6294، 6295۔ معرفۃ الصحابہ ، ابو نعیم، رقم 5160، 5163۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم21034۔

 سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہ واقعہ بالاجمال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےبھی روایت ہوا ہے، جس  کے طرق کو اِن مصادر میں دیکھ لیا جا سکتا ہے: معرفۃ الصحابہ، ابو نعیم، رقم5166، 5167۔ مسند بزار، رقم 8375۔

2۔صحيح بخاری، رقم4196۔

3۔ بعض طرق، مثلاً مسند رويانی، رقم1128 میں یہاں ’هُنَيْهَاتِكَ‘ کے بجاے ’هُنَيَّاتِكَ‘  کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

4۔ مسنداحمد، رقم16538۔

5۔بعض طرق، مثلاً المعجم الكبير، طبرانی، رقم6294 میں یہاں ’الَّذِينَ‘ کے بجاے ’الْأُولَى‘   کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔

6۔ مسنداحمد، رقم16538۔

7۔ صحيح بخاری، رقم4196 ’مَا اقْتَفَيْنَا‘ کے بجاے ’مَا أَبْقَيْنَا‘ کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ المعجم الكبير، طبرانی، رقم6294میں اِس پورے مصرعے کے بجاے ’فَاغْفِرْ بِذَلِكَ مَا اقْتَضَيْنَا‘ کا مصرع نقل ہوا ہے۔

8۔بعض طرق، مثلاً مسنداحمد، رقم16538 میں یہاں ’وَأَلْقِيَنْ‘ کے بجاے ’وَأَنْزِلَنْ‘   کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

ــــــ 26 ــــــ

وَعَنْهُ قَالَ:1 لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ: رَجُلٌ مَاتَ فِي سِلَاحِهِ، وَشَكُّوا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَرْجُزَ لَكَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ، قَالَ: فَقُلْتُ:

وَاللهِ لَوْلَا اللهُ مَا اهْتَدَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’صَدَقْتَ‘‘،

وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا

وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا

[إِنَّ الَّذِينَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا،

[قَالُوا اكْفُرُوا قُلْنَا لَهُمْ أَبَيْنَا2  

إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا3

قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’مَنْ قَالَ هَذَا؟‘‘ قُلْتُ: قَالَهُ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’يَرْحَمُهُ اللهُ‘‘، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُونَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ، يَقُولُونَ: رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ... ’’كَذَبُوا، مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا، فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ‘‘ وَأَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ.

__________________  

اِنھی سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ غزوۂ خیبر کے دن میرے بھائی (عامر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سخت جنگ کی۔لیکن پھر ہوا یہ کہ ایک موقع پر اُس کی اپنی تلوار پلٹ کر اُس کو لگی،جس سے وہ شہید ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اِس حادثے پر چہ میگوئیاں کرنے لگے ۔اُنھیں اُس کی شہادت کے بارے میں شبہ تھا، اِس لیے کہ وہ ایک ایسا شخص تھا، جس کی موت خود اُسی کے اسلحے سے ہوئی تھی۔وہ اُس کے بعض دوسرے معاملات میں بھی شبہات کا اظہار کر رہے تھے۔سلمہ کا بیان ہے کہ اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹے تو میں نے (راستے میں) عرض کیا: اللہ کے رسول، آپ مجھے اجازت دیں  تو میں آپ کو کچھ رجزیہ اشعار سناؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں اجازت دے دی تو عمر بن خطاب نے کہا: سلمہ، جو کچھ کہنا، سوچ سمجھ کر کہنا۔ چنانچہ میں نے یہ اشعار پڑھے: بخدا،   اللہ کی عنایت نہ ہوتی تو ہم نہ ہدایت پاتے، نہ نماز پڑھتے اور نہ زکوٰۃ دیتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: سچ کہتے ہو۔ (اُنھوں نے آگے پڑھا): تو ہم پر سکینت نازل کر اور دشمن سے مڈبھیڑ ہوتو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔ ہم پر مشرکوں نے چڑھائی کی ہے۔اُن کا مطالبہ تھا کہ ہماری طرح تم بھی انکار کرو ، لیکن ہم نے کہہ دیا کہ ہم تمھاری بات نہیں مان سکتے۔اِس میں شبہ نہیں کہ جن لوگوں نے ہم پر چڑھائی کی ہے، وہ جب فتنہ چاہیں گے تو ہم بھی مزاحمت کریں گے۔سلمہ نے بتایا کہ میں یہ رجز پڑھ کر فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کس کے اشعار ہیں؟ میں نے عرض کیا: یہ اشعار میرے بھائی (عامر)نے گائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ اُس پر رحم فرمائے۔سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، یہاں تو بعض لوگ اُن کی نماز جنازہ ادا کرنے سے بھی ہچکچا رہے تھے، اُن کا کہنا تھا کہ یہ تو ایسا شخص ہے جو اپنے ہی اسلحے سے مارا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ بات سنی تو فرمایا: لوگوں نے بالکل غلط کہا ہے، بلکہ وہ تو سچا مجاہد تھا اورخدا کی راہ میں جد و جہد کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ۔سو اُس کے لیےدوہرا اجر ہے۱

اور یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ بھی فرمایا۔

__________________  

۱۔ یعنی ایک مجھ پر ایمان لانے کا اجر اور دوسرے اللہ کی راہ میں جہاد کا۔

متن  کے حواشی

[1]۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح مسلم، رقم1802 سے لیا گیا ہے۔

2۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم6833۔

3۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم6227، 6229۔

المصادر والمراجع

ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1409ه). المصنف في الأحاديث والآثار. ط1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.

ابن أبي عاصم أبو بكر أحمد بن عمرو الشيباني. (1411هـ/1991م). الآحاد والمثاني. ط1. تحقيق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة. الرياض: دار الراية.

ابن الجعد علي بن الجعد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي. (1410ه/1990م). المسند. ط1. تحقيق: عامر أحمد حيدر. بيروت: مؤسسة نادر.

ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1414ه/1993م). الصحيح. ط2. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1396ﻫ). المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين. ط1. تحقيق: محمود إبراهيم زايد. حلب: دار الوعي.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406ﻫ/1986م). تقريب التهذيب. ط1. تحقيق: محمد عوامة. سوريا: دار الرشيد.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404ﻫ/1984م). تهذيب التهذيب. ط1. بيروت: دار الفكر.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1379ه). فتح الباري شرح صحيح البخاري. د.ط. بيروت: دار المعرفة.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (2002م). لسان الميزان. ط1. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. د.م: دار البشائر الإسلامية.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1419هـ). المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية. ط1. تحقيق: (17) رسالة علمية قدمت لجامعة الإمام محمد بن سعود. تنسيق: د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشثري. السعودية: دار العاصمة.

ابن خزيمة أبو بكر محمد بن إسحٰق النيسابوري. (د.ت). الصحيح. د.ط. تحقيق: د. محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن راهويه إسحٰق بن إبراهيم الحنظلي المروزي. (1412ه/1991م). المسند. ط1. تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي. المدينة المنورة: مكتبة الإيمان.

ابن قانع أبو الحسين عبد الباقي بن قانع بن مرزوق البغدادي. (1418ه). معجم الصحابة. ط1. تحقيق: صلاح بن سالم المصراتي. المدينة المنورة: مكتبة الغرباء الأثرية.

ابن ماجه أبو عبد الله محمد القزويني. (د.ت). السنن. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي د.م: دار إحياء الكتب العربية.

ابن الملك محمد بن عز الدين الرومي الكرماني الحنفي. (1433هـ/2012 م). شرح مصابيح السنة للإمام البغوي. ط1. تحقيق ودراسة: لجنة مختصة من المحققين بإشراف: نور الدين طالب. د.ن: إدارة الثقافة الإسلامية.

أبو داود سليمان بن الأشعث السِّجِسْتاني. (د.ت). السنن. د.ط. تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد. بيروت: المكتبة العصرية.

أبو عوانة يعقوب بن إسحٰق الإسفراييني النيسابوري. (1419هـ/1998م). المستخرج. ط1. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (1406هـ/1986م). دلائل النبوة. ط2. تحقيق: الدكتور محمد رواس قلعه جي، وعبد البر عباس. بيروت: دار النفائس.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (1419هـ/1998م). معرفة الصحابة. ط1. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي. الرياض: دار الوطن للنشر.

أبو يعلى أحمد بن علي التميمي الموصلي. المسند. ط1. (1404ه/1984م) تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

الآجُرّي أبو بكر محمد بن الحسين البغدادي. (1402هـ/1982م). تحريم النرد والشطرنج والملاهي. ط1. دراسة وتحقيق واستدراك: محمد سعيد عمر إدريس.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1403هـ/1983م). فضائل الصحابة. ط1. تحقيق: د. وصي الله محمد عباس. بيروت: مؤسسة الرسالة.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1421هـ/2001م). المسند. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بيروت: مؤسسة الرسالة.

إسمٰعيل بن جعفر بن أبي كثير أبو إسحٰق الأنصاري المدني. (1418هـ/1998م). حديث علي بن حجر السعدي عن إسمٰعيل بن جعفر المدني. ط1. دراسة وتحقيق: عمر بن رفود بن رفيد السّفياني. الرياض: مكتبة الرشد للنشر.

البخاري، محمد بن إسمٰعيل، أبو عبدالله الجعفي. (1409ه/1989م). الأدب المفرد. ط3. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار البشائر الإسلامية.

البخاري محمد بن إسمٰعيل أبو عبد الله الجعفي. (1422هـ). الجامع الصحيح. ط1. تحقيق: محمد زهير بن ناصر الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.

البزار أبو بكر أحمد بن عمرو العتكي. (2009م). المسند. ط1. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين الله، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1410ه/1989م). السنن الصغرى. ط1. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. كراتشي: جامعة الدراسات الإسلامية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1424هـ/2003م). السنن الكبرى. ط3. تحقيق: محمد عبد القادر عطا. بيروت: دار الكتب العلمية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1412هـ/1991م). معرفة السنن والآثار. ط1. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. القاهرة: دار الوفاء.

الترمذي أبو عيسى محمد بن عيسى. (1395هـ/1975م). السنن. ط2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر، ومحمد فؤاد عبد الباقي، وإبراهيم عطوة عوض. مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.

تمام بن محمد أبو القاسم الرازي البجلي. (1412ه). الفوائد. ط1. تحقيق: حمدي عبد المجيد السلفي. الرياض: مكتبة الرشد.

الجديع عبد الله بن يوسف. (1406ه/1986م). أحاديث ذم الغناء والمعازف في الميزان. ط1. الكويت: مكتبة دار الأقصى.

الجديع عبد الله بن يوسف. (2005م). الموسيقى والغناء في ميزان الإسلام. ط2. بيروت: مؤسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع.

الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله النيسابوري. (1411ه/1990م). المستدرك على الصحيحين. ط1. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا. بيروت: دار الكتب العلمية.

الحميدي أبو بكر عبد الله بن الزبير القرشي الأسدي. (1996م). المسند. ط1. تحقيق وتخريج: حسن سليم أسد الداراني. دمشق: دار السقا.

الخطابي أبو سليمان حمد بن محمد الخطاب البستي. (1351هـ/1932م). معالم السنن. ط1. حلب: المطبعة العلمية.

الدارمي أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمٰن التميمي. (1412هـ/2000م). السنن. ط1. تحقيق: حسين سليم أسد الداراني الرياض: دار المغني للنشر والتوزيع.

دَعْلَج بن أحمد أبو محمد السجستاني. (1405م). المنتقى من مسند المقلين. ط1. تحقيق: عبد الله بن يوسف الجديع. الكويت: مكتبة دار الأقصى.

الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1405ﻫ/1985م). سير أعلام النبلاء. ط3. تحقيق: مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرنؤوط. د.م: مؤسسة الرسالة.

الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1413ﻫ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تحقيق: محمد عوامة أحمد محمد نمر الخطيب. جدة: دار القبلة للثقافة الإسلامية-مؤسسة علوم القرآن.

الرُّوياني أبو بكر محمد بن هارون. (1416ه). المسند. ط1. تحقيق: أيمن علي أبو يماني. القاهرة: مؤسسة قرطبة.

السَّرَّاج أبو العباس محمد بن إسحٰق النيسابوري. (1425 هـ/2004م). حديث السراج. ط1. تحقيق: أبو عبد الله حسين بن عكاشة بن رمضان. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.

سعيد بن منصور بن شعبة أبو عثمان الجوزجاني. (1417هـ/1997م).التفسير من سنن سعيد بن منصور. ط1. دراسة وتحقيق: د سعد بن عبد الله بن عبد العزيز آل حميد. الرياض: دار الصميعي للنشر والتوزيع.

سعيد بن منصور بن شعبة أبو عثمان الجوزجاني. (1403هـ/1982م). السنن. ط1. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: الدار السلفية.

السيوطي جلال الدين عبد الرحمٰن بن أبي بكر. (1416هـ/1996م). الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج. ط1. تحقيق وتعليق: أبو اسحٰق الحويني الأثري. الخبر: دار ابن عفان للنشر والتوزيع.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (1405ه/1984م). مسند الشاميين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الأوسط. د.ط. تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني. القاهرة: دار الحرمين.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (1405ه/1985م). المعجم الصغير. ط1. تحقيق: محمد شكور محمود الحاج أمرير. بيروت: المكتب الإسلامي.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الكبير. ط2. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.

الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد الأزدي المصري. (1415هـ/1494م). شرح مشكل الآثار. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الطيالسي أبو داود سليمان بن داود البصري. (1419هـ/1999م). المسند. ط1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي. مصر: دار هجر.

الطيبي شرف الدين الحسين بن عبد الله. (1417هـ/1997م). الكاشف عن حقائق السنن المعروف بـــ شرح الطيبي على مشكاة المصابيح. ط1. تحقيق: د. عبد الحميد هنداوي. مكة المكرمة: مكتبة نزار مصطفى الباز.

عبد الحميد بن حميد بن نصر الكَسّي. (1408ه/1988م). المنتخب من مسند عبد بن حميد. ط1. تحقيق: صبحي البدري السامرائي، محمود محمد خليل الصعيدي. القاهرة: مكتبة السنة.

عبد الرزاق بن همام أبو بكر الحميري الصنعاني. د.ت. الأمالي في آثار الصحابة. د.ط. تحقيق: مجدي السيد إبراهيم. القاهرة: مكتبة القرآن.

عبد الرزاق بن همام، أبو بكر، الحميري، الصنعاني. (1403ه). المصنف. ط2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: المجلس العلمي.

العيني بدر الدين أبو محمد محمود بن أحمد الغيتابى الحنفى. (1420هـ/1999م). شرح سنن أبي داود. ط1. تحقيق: أبو المنذر خالد بن إبراهيم المصري. الرياض: مكتبة الرشد.

العيني بدر الدين أبو محمد محمود بن أحمد الغيتابى الحنفى. د.ت. عمدة القاري شرح صحيح البخاري. د.ط. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

الفاكهي أبو عبد الله محمد بن إسحٰق المكي. (1414م). أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه. ط2. تحقيق: د. عبد الملك عبد الله دهيش. بيروت: دار خضر.

الفاكهي أبو محمد عبد الله بن محمد بن العباس المكي. (1419هـ/1998م). فوائد أبي محمد الفاكهي. ط1. دراسة وتحقيق: محمد بن عبد الله بن عايض الغباني. الرياض: مكتبة الرشد.

القاضى عياض بن موسى أبو الفضل اليحصبي. (1419هـ/1998م). إكمال المعلم بفوائد مسلم. ط1. تحقيق: الدكتور يحيى إسمٰعيل. مصر: دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع.

القحطاني سعيد بن علي بن وهف. (1431ه/2010م). الغناء والمعازف في ضوء الكتاب والسنة وآثار الصحابة. ط.1. الرياض: مكتبة الملك فهد الوطنية.

الكشميري محمد أنور شاه بن معظم شاه الهندي ثم الديوبندي. (1426هـ/2005م). فيض الباري على صحيح البخاري. ط1. تحقيق: محمد بدر عالم الميرتهي. بيروت: دار الكتب العلمية.

مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني. د.ت. الموطا. (رواية محمد بن الحسن الشيباني). د.ط. تعليق وتحقيق: عبد الوهاب عبد اللطيف. بيروت: المكتبة العلمية.

المحاملي أبو عبد الله الحسين بن إسمٰعيل البغدادي. (1412ه). أمالي المحاملي (رواية ابن يحيى البيع). ط1. تحقيق: د. إبراهيم القيسي. الدمام: دار ابن القيم.

المخلص أبو طاهر محمد بن عبد الرحمٰن البغدادي. (1429هـ/2008م). المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص. ط1. تحقيق: نبيل سعد الدين جرار. قطر: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية لدولة قطر.

المزي أبو الحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمٰن. (1400ه/1980م). تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق : د. بشار عواد معروف. بيروت: مؤسسة الرسالة.

مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

المظهري الحسين بن محمود مظهر الدين الكوفي الشيرازي الحنفي. (1433هـ/2012م). المفاتيح في شرح المصابيح. ط1. تحقيق ودراسة: لجنة مختصة من المحققين بإشراف: نور الدين طالب. وزارة الأوقاف الكويتية: دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية.

معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي البصري. (1403هـ). الجامع. ط2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. بيروت: توزيع المكتب الإسلامي.

الملا القاري علي بن سلطان محمد أبو الحسن الهروي. (1422هـ/2002م). مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح. ط1. بيروت: دار الفكر.

المناوي زين الدين محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفين القاهري. (1408هـ/1988م). التيسير بشرح الجامع الصغير. ط3. الرياض: مكتبة الإمام الشافعي.

المناوي زين الدين محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفين القاهري. (1356هـ). فيض القدير شرح الجامع الصغير. ط1. مصر: المكتبة التجارية الكبرى.

موسى شاهين لاشين. (1423هـ/2002م). فتح المنعم شرح صحيح مسلم. ط1. القاهرة: دار الشروق.

النسائي أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعيب الخراساني. (1406ه/1986م). السنن الصغرى. ط2. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مكتب المطبوعات الإسلامية.

النسائي أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعيب الخراساني. (1421ه/2001م). السنن الكبرى. ط1. تحقيق وتخريج: حسن عبد المنعم شلبي. بيروت: مؤسسة الرسالة.

النسائي أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعيب الخراساني. (1405ه). فضائل الصحابة. ط1. بيروت: دار الكتب العلمية.

النووي يحيى بن شرف أبو زكريا. (1428هـ/2007م). الإيجاز في شرح سنن أبي داود. ط1. تقديم وتعليق وتخريج: أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان. عمان - الأردن: الدار الأثرية.

النووي يحيى بن شرف أبو زكريا. (1392ه). المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج. ط2. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

الواسطي أبو الحسن أسلم بن سهل الرزّاز بَحْشَل. (1406هـ). تاريخ واسط. ط1. تحقيق: كوركيس عواد، بيروت: عالم الكتب.

الهروي أبو عبيد القاسم بن سلام. (1404هـ/1984م). غريب الحديث. ط1. تحقيق: الدكتور حسين محمد محمد شرف. القاهرة: الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية.

ـــــــــــــــــــــــــ

B