[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
۳۸ھ:جنگ نہروان میں شکست کھانے کے بعد خوارج نے چھوٹی موٹی کئی کارروائیاں کیں ۔ربیع الثانی ۳۸ھ میں اشرس بن عوف نے دو سو کاجتھا لے کر دسکرہ میں بغاوت کی، پھر انبار جا پہنچا۔ حضرت علی نے تین سو کی فوج دے کر ابرش بن حسان کو بھیجا،چنانچہ اشرس جہنم واصل ہوا۔جمادی الاولیٰ ۳۸ھ میں ہلال بن علفہ نے ماسبذان میں خروج کیا تو حضرت علی نے حضرت معقل بن قیس کو بھیجا۔ہلال اور اس کے دو سو سپاہی اپنے انجام کو پہنچے۔جمادی الثانی ۳۸ھ میں بجیلہ کا اشہب(یا اشعث) بن عمیر ایک سو اسّی (۱۸۰)باغیوں کو جمع کر کے ماسبذان پہنچا۔ہلال بن علفہ اور اس کے ساتھیوں کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد تدفین کی۔ حضرت علی نے حضرت جاریہ بن قدامہ یا حضرت حجر بن عدی کی سربراہی میں فوج بھیجی جس نے جرجرایا کے مقام پراشہب کا خاتمہ کیا۔سعید بن قفل نے بندنیجن کے مقام پر شورش برپا کی، پھردرزنجان پہنچا،سعد بن مسعودنے اسے موت کے گھاٹ اتارا۔ ابومریم سعدی نے دو سو (یا چارسو) کی فوج لے کرکوفہ کا رخ کیا۔حضرت علی نے اسے شہر کے اندر آکر بیعت کرنے کی دعوت دی۔اس نے کہا: ہمارے درمیان جنگ کے علاوہ کوئی معاملہ نہ ہو گا۔ حضرت علی نے شریح بن ہانی کو سات سو افرادکی فوج دے کر بھیجا۔ راستے میں خوارج نے حملہ کر کے اس فوج کو منتشر کر دیاتو دوسو افراد شریح کے ساتھ رہ گئے۔ اب حضرت علی خودنکلے اورابومریم کو دوبارہ دعوت اطاعت دی۔وہ جنگ پر بضد رہا،نتیجہ میں اس کی فوج میں سے صرف پچاس افراد بچنے پائے جن میں سے چالیس زخمی تھے۔ انھیں علاج کے لیے کوفہ لے جایا گیا۔
ابن کثیر کہتے ہیں :حضرت معاویہ یہ سمجھتے تھے کہ حکمین، حضرت عمرو بن العاص اور حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت علی کو معزول کردیا ہے، لہٰذا وہ واجب الاطاعت ہو گئے ہیں ۔ان کا خیال تھا کہ عراق حضرت علی کے تسلط میں ہے اور اہل عراق کئی معاملات میں ان کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے، اس لیے ان کی امارت بے سود ہے۔ یہی زعم حضرت معاویہ کی مہمات کی وجہ بنا۔
۳۹ھ میں حضرت معاویہ نے حضرت نعمان بن بشیر کی قیادت میں دو ہزار (طبری،ایک ہزار:ابن اثیر) کا دستہ عین التمر بھیجا، جہاں حضرت علی نے مالک بن کعب کی قیادت میں چوکی قائم کر رکھی تھی۔اس چوکی پرایک ہزار کی نفری متعین تھی، لیکن اکثریت کے کوفہ چلے جانے کے بعد سوافراد باقی رہ گئے تھے۔ حضرت نعمان کی آمد کی خبر سن کر مالک نے حضرت علی سے مدد طلب کی۔حضرت علی نے کوفہ کے مسلمانوں کونکلنے کے لیے کہا، لیکن کوئی تیار نہ ہوا۔رنجیدہ ہو کر ا نھوں نے خطبہ دیا:جب بھی تم شامی فوج کے حملے کی اطلاع سنتے ہو،گھر میں گھس کر دروازہ بند کر لیتے ہو جس طرح گوہ اپنے بل میں اور بجواپنے بھٹ میں گھس جاتا ہے۔پکار کے وقت مردہ بن جاتے ہو، مدد مانگو توساتھ نہیں دیتے۔ اندھے ہو، دیکھ نہیں سکتے؛ گونگے ہو، بول نہیں سکتے؛بہرے ہو، سن نہیں سکتے۔ حضرت نعمان سر پر آن پہنچے تو مالک بن کعب نے سامنا کیا۔سخت لڑائی میں شام ہو گئی، تب مالک کی درخواست پرقریبی کمانڈر محنف بن سُلیم نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کی سربراہی میں پچاس سپاہیوں کا دستہ مدد کے لیے بھیجا۔ اندھیرے میں حضرت نعمان یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی بڑی کمک آئی ہے، پسپا ہو گئے۔مالک نے ان کا پیچھا کیا اور تین سپاہی مارڈالے۔
۳۹ھ میں حضرت معاویہ نے چھ ہزار کی فوج دے کر سفیان بن عوف کوہیت،انبار اور مدائن پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ہیت میں کوئی بھی مزاحمت کرنے والا نہ تھا،پھر یہ فوج انبار پہنچی۔ انبار میں حضرت علی کی قائم کردہ چھاؤنی میں پانچ سو فوجی متعین تھے جن میں سے دوسو(ایک سو:طبری) حاضر تھے،بقیہ حضرت علی سے اجازت لیے بغیر قرقیسیا جا چکے تھے، کیونکہ وہاں کچھ لوگ حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ سفیان نے کم نفری دیکھ کرحملہ کر دیا، حضرت علی کے سپاہیوں نے مقابلہ کیا، لیکن کمانڈر اشرس بن حسان اور تیس سپاہی جاں بحق ہوئے اور حضرت معاویہ کی فوج مال و دولت لوٹ کرواپس لوٹ گئی۔حضرت علی کو خبر ملی تو وہ خود نخیلہ پہنچے اورحضرت سعید بن قیس کادستہ حملہ آوروں کاپیچھا کرنے کے لیے بھیجا۔حضرت سعید ہیت تک گئے، لیکن سفیان کی فوج ہاتھ نہ آئی۔
۳۹ھ ہی میں حضرت معاویہ نے عبداﷲ بن مسعدہ کو سترہ سو کی سپاہ دے کر تیما روانہ کیا۔ا نھوں نے دیہاتیوں سے صدقات وصول کرنے کی ہدایت کی اور انکار کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔وہ لوگوں سے ٹیکس وصول کرتا ہوا مکہ و مدینہ تک پہنچ گیا۔حضرت علی کو معلوم ہوا تو ا نھوں نے دو ہزارکی فوج دے کر مسیب بن نجبہ کو بھیجا۔ تیما کے مقام پر مسیب کا ابن مسعدہ سے سامنا ہوا۔سخت لڑائی ہوئی جو سورج ڈھلنے تک جاری رہی۔مسیب نے تین وار کر کے ابن مسعدہ کو شدید گھائل کر دیا، لیکن جان نہ لی۔وہ اپنے ساتھیوں سمیت قلعہ بند ہوا،صدقہ کے اونٹ بدوؤں نے لوٹ لیے،بقیہ فوج شام کو بھاگ گئی۔تین دن کے محاصرے کے بعد مسیب نے قلعہ کے دروازہ پر لکڑیاں رکھ کر آگ لگوا دی۔ اہل قلعہ جلنے لگے تو یہ کہہ کر پنا ہ مانگی کہ ہم آپ کی قوم بنو فزارہ ہی کے ہیں ، مسیب نے ترس کھا کر انھیں چھوڑ دیا تووہ شام کی طرف واپس چلے گئے۔اس پر عبدالرحمٰن بن شبیب نے اعتراض کیا کہ تم نے امیر المومنین سے خیانت کی ہے۔
اسی سال حضرت معاویہ نے ضحاک بن قیس کو تین ہزار سپاہی دے کر واقصہ بھیجااور ہدایت کی کہ راستے میں آنے والے، حضرت علی کا دم بھرنے والے تمام بدوؤں کو لوٹ لو۔حضرت علی کے گھڑ سوارسپاہی عمیر بن عمر حج پر جا رہے تھے،ضحاک نے ان کا سامان سفر چھینا اورغارت گری کرتا ہوا ثعلبیہ پہنچا، وہاں حضرت علی کا اسلحہ خانہ لوٹ کرقطقطانہ کا رخ کیا۔ حضرت علی کو اس کی کارروائیوں کا علم ہوا تو حضرت حجر بن عدی کی کمان میں چار ہزار کی نفری بھیجی،ہر سپاہی کو پچاس درہم دیے۔تدمر کے مقام پر دونوں فوجوں کا سامنا ہوا۔دن بھر کی لڑائی میں ضحاک کے انیس اورحضرت حجر کے دوسپاہی کام آئے۔ رات کو ضحاک نے راہ فرار پکڑی اور حضرت حجر لوٹ آئے۔
۳۹ھ میں حضرت علی نے حضرت قثم بن عباس (دوسری روایت:حضرت عبیداللہ بن عباس )کو امیر حج مقرر کیا۔دوسری طرف حضرت معاویہ نے اپنے ایک مصاحب یزید بن شجرہ کو امیر حج بناکر مکہ روانہ کر د یا، تین ہزار کی فوج ساتھ دے کر ان کی ذمہ داری لگائی کہ مکہ کے لوگوں سے بیعت لیں اور حضرت علی کے عامل حضرت قثم بن عباس کو نکال باہر کریں ۔ حضرت قثم کو خبر ملی تو مکہ کے لوگوں کو شامی فوج کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔حضرت شیبہ بن عثمان عبدری کے علاوہ کسی نے ان کی پکار پر لبیک نہ کہا۔ا نھوں نے مکہ چھوڑ کر کسی گھاٹی میں پناہ لینے اور امیر المومنین کی طرف سے کمک کا انتظار کرنے کا ارادہ کیا، لیکن حضرت ابوسعیدخدری نے انھیں مکہ سے نکلنے سے منع کیا۔یکم ذی الحجہ کو حضرت علی نے فوج بھیجی جس میں ریان بن ضمرہ اور ابوطفیل شامل تھے۔۶؍ ذی الحجہ کو ابن شجرہ نے مکہ پہنچ کراعلان کیا: جو ہم سے قتال نہ کرے گا،امان پائے گا۔اس نے حضرت ابوسعیدخدری کو بلا کر تجویز دی کہ آپ اپنے امام کو ہٹا لیں ،میں بھی پیچھے ہٹ جاتا ہوں ۔لوگ اپنا امام خودمنتخب کرلیں ۔تب اکثریت نے حضرت شیبہ بن عثمان کو چن لیا،ا نھوں نے نمازیں پڑھائیں اور خطبۂ حج دیا۔ حج کے بعد یزید بن شجرہ نے شام واپسی کی راہ لی۔تب حضرت علی کے جرنیل حضرت معقل بن قیس پہنچے، انھوں نے اہل شام کا پیچھا کیا، کچھ سپاہیوں کو قید کیا اور مال و دولت لوٹ لیا۔ بعد میں حضرت علی نے ان قیدیوں کے بدلے میں حضرت معاویہ سے اپنے اسیر چھڑائے۔
۳۹ھ: حضرت معاویہ نے عبدالرحمٰن بن قباث کی سربراہی میں فوج الجزیرہ روانہ کی،بلاذری کا بیان ہے کہ یہ ان کی ساتویں مہم تھی۔الجزیرہ کے عامل شبیب بن عامرنے جواس وقت نصیبین میں تھے، کمیل بن زیاد کو خبر کی تو وہ ہیت سے چھ سو سوار لے کر پہنچے اور عبدالرحمٰن بن قباث اور اس کے ساتھی معن بن یزید کو شکست سے دوچارکیا۔شامی فوج کا بہت جانی نقصان ہوا، جب کہ کمیل کے فقط دو سپاہی مارے گئے۔ کمیل نے زخمیوں کو زندہ چھوڑنے اور مفروروں کا پیچھا نہ کرنے کی ہدایت جاری کی۔ حضرت علی نے کمیل کی کامیابی کو بہت سراہا اور ان سے پچھلی ناراضی بھول گئے۔ اس کے برعکس شبیب بن عامر نصیبین سے لوٹے تو شکست خوردہ فوج کا پیچھا کیا۔شامی فوج تو ہاتھ نہ آئی، تاہم دریاے فرات عبور کر کے وہ بعلبک اور رقہ تک گئے۔ اہل شام کو خوب لوٹا، رقہ کے نواحی علاقوں پر یورش کرتے ہوئے اسلحہ چھینا اورمویشی ہانک لائے۔حضرت علی نے انھیں عوام کا مال و متاع لوٹنے سے منع کیا اور فرمایا:گھوڑوں اور اسلحے کے علاوہ کسی شے کو ہاتھ نہ لگاؤ۔تم نے فتح پانے میں جلد بازی کی۔
یزیدبن شجرہ کی واپسی کے بعدحضرت معاویہ نے حارث بن نمر کو الجزیرہ بھیجاتاکہ وہ حضرت علی کے کچھ ساتھیوں کو پکڑ لائے۔ بنوتغلب کے سات اشخاص اس کے ہاتھ آئے۔اب حضرت معاویہ نے حضرت علی کو خط لکھا کہ ان قیدیوں کے بدلے میں معقل بن قیس کے پکڑے ہوئے آدمی چھوڑ دیں ۔ اس طرح اسیروں کا تبادلہ عمل میں آیا۔انھی دنوں حضرت علی نے عبدالرحمٰن خثعمی کو بنوتغلب سے اظہار ہم دردی کے لیے موصل بھیجا، لیکن ا نھوں نے گالی گلوچ کر کے اسے مار ڈالا۔ حضرت علی ان کی سرکوبی کرنا چاہتے تھے، لیکن بنوربیعہ کے لوگوں نے انھیں یقین دلایا کہ یہ قتل خطا سے ہوا۔
اسی سال حضرت معاویہ نے زہیر بن مکحول کو ٹیکس وصول کرنے سماوہ بھیجا۔حضرت علی کو معلوم ہوا تو انھوں نے جعفر بن عبداﷲ،عروہ بن عشبہ اور جلاس بن عمیر کو اسی مقصد کے لیے اپنے مطیع قبائل بنو کلب اور بنوبکر بن وائل کے پاس بھیجا۔ ان اشخاص کا زہیر سے سامنا ہوگیا،باہمی لڑائی ہوئی جس میں جعفربن عبداﷲ شہید ہو گئے۔ابن عشبہ حضرت علی کے پاس واپس آئے توا نھوں نے خوب سرزنش کی اور درے سے پیٹا۔وہ ناراض ہو کرحضرت معاویہ سے جا ملے۔ جلاس بچتے بچاتے کوفہ پہنچ گئے۔
۳۹ھ:دومۃ الجندل کے باسیوں نے حضرت علی اور حضرت معاویہ، دونوں کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا توحضرت معاویہ نے مسلم بن عقبہ کو بھیجا۔ان کی دعوت پر بھی لوگ حضرت معاویہ کی بیعت پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت علی نے مالک بن کعب کوفوج دے کر روانہ کیا۔مالک نے مسلم بن عقبہ پر اچانک چڑھائی کر دی،ایک دن کی جنگ کے بعد مسلم کوشکست ہوئی۔مسلم بن عقبہ کے جانے کے بعدمالک نے کچھ دن رہ کراہل دومۃ الجندل کو حضرت علی کی بیعت پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ا نھوں نے سختی سے انکار کیا اور مطالبہ کیا کہ پہلے تمام مسلمان ایک امام پر اکٹھے ہوں تو وہ بیعت کریں گے۔ان حالات میں مالک واپس چلے آئے۔
۳۹ ھ میں حارث بن مرہ نے حضرت علی کے حکم پر سندھ کا رخ کیا اور بے شمار مال ودولت اور اسیر لے کر لوٹے۔
۴۰ھ:حضرت معاویہ نے بسربن ابو ارطاۃ کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر مدینہ بھیجا۔حضرت علی کے مامور گورنرحضرت ابوایوب انصاری مدینہ چھوڑ کر کوفہ چلے گئے اوربسر کو بغیر کسی مزاحمت کے شہر میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ اہل مدینہ سے بیعت لینے کے بعدبسر نے خطاب کیا: کہاں ہیں میرے شیخ عثمان ؟ پھر بنو سلمہ کو پیغام بھیجا: تمھیں امان نہ ملے گی جب تک جابر بن عبداﷲ کونہ لاؤ گے۔حضرت جابر ام المومنین حضرت ام سلمہ سے ملے اور کہا:مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ بیعت ضلالت نہ کی تو قتل کر دیا جاؤں گا۔ حضرت ام سلمہ نے کہا: میں نے اپنے بیٹے عمر بن ابوسلمہ اور دامادعبداللہ بن زمعہ کوبیعت کرنے کا کہا ہے،اس لیے میرا مشورہ ہے کہ تم بھی بیعت کر لو۔
مدینہ کے کئی گھر منہدم کرنے کے بعد بسرنے مکہ کا رخ کیا۔ وہاں پر موجودحضرت ابوموسیٰ اشعری کو بھی اپنے قتل کا خطرہ محسوس ہوا، لیکن بسر نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میں صحابی رسول کو قتل نہ کروں گا۔ بسر نے مکہ کے لوگوں کو حضرت معاویہ کی بیعت پر مجبور کرنے کے بعد یمن کا رخ کیاجہاں حضرت عبیداﷲ بن عباس حضرت علی کے مقرر کردہ گورنرتھے۔وہ بسر کی آمدکی خبر سن کر یمن چھوڑ کر کوفہ بھاگ آئے۔حضرت علی نے عبداﷲ بن عبدالمدان کا تقرر کیا، لیکن بسر نے انھیں اور ان کے بیٹے کو قتل کر دیا، پھر حضرت عبیداﷲ بن عباس کے دوچھوٹے بیٹوں ،عبدالرحمٰن اور قثم کو ذبح کیا۔بسر نے یمن میں موجودحضرت علی کے متبعین کا قتل عام بھی کیا۔ابن کثیر کہتے ہیں : مجھے اس روایت کے صحیح ہونے میں شبہ ہے۔
حضرت علی کو بسر کی کارروائیوں کی خبر ملی تو حضرت جاریہ (حارثہ:ابن جوزی) بن قدامہ اور وہب بن مسعود کودو دوہزار کی فوج دے کر بھیجا۔ حضرت جاریہ نے نجران پہنچ کر حضرت عثمان کے حمایتیوں کا خون بہایا تو بسر کی فوج بھاگ نکلی۔حضرت جاریہ نے مکہ تک ان کا پیچھا کیا اور انھیں حضرت علی کی بیعت پر مجبور کیا۔پھر وہ مدینہ گئے، حضرت ابوہریرہ مدینہ میں نمازوں کی امامت کر رہے تھے،حضرت جاریہ کی آمد کی خبر سن کر بھاگ نکلے۔ حضرت جاریہ نے مدینہ کے باشندگان سے حضرت حسن بن علی کی بیعت لی اور کہا: اگر ابوسنور (ابوہریرہ )میرے ہاتھ آتے تو میں ان کی گردن اڑا دیتا۔
حضرت علی نے حضرت عبیداﷲ بن عباس کے بیٹوں کی شہادت پر بہت رنج کا اظہار کیا اورخطبۂ جمعہ میں فرمایا:یہ سب تمھاری اپنے امام کی نافرمانی اور حکم عدولی کے سبب سے ہوا ہے۔یا اللہ، مجھے ان لوگوں سے نجات دے،میں ان سے تنگ آ گیا ہوں ۔ا نھوں نے بددعا کی: اﷲ،بسر کا دین اور اس کی عقل سلب کر لے۔ یہ دعا قبول ہوئی،بسر پردیوانگی طاری ہوئی،ہذیان میں بار بارنعرہ لگاتے: کہاں ہیں میرے شیخ؟ کہاں ہیں عثمان ؟انھیں لکڑی کی تلوارتھما دی گئی، اسے لوگوں پر اور ہوا بھرے مشکیزے پر چلاتے رہتے۔دارقطنی کہتے ہیں : بسر صحابی تھے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان میں استقامت نہ رہی۔ ا نھوں نے حضرت عبیداللہ بن عباس کے دو کم عمر بیٹوں کوقتل کیا اور مسلمان عورتوں کو اسیر بنا کر فروخت کیا۔واقدی اور یحییٰ بن معین ان کا صحابی ہونا نہیں مانتے۔
۴۰ھ میں حضرت معاویہ نے حضرت علی کو خط لکھا:کیاآپ اس بات پررضامند ہیں کہ عراق آپ کی عمل داری میں رہے اور شام کی حکومت میرے پاس رہے۔آپ مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھائیں ،نہ ان کا خون بہائیں۔ حضرت علی نے اس تجویزکو تسلیم کر لیا توان دونوں میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا۔یہ طے ہوا کہ حضرت معاویہ اپنی فوجیں شام میں محدود رکھیں گے اور شام کا خراج وصول کریں گے، جب کہ حضرت علی اپنی فوج عراق میں متعین رکھیں گے اور عراق کا خراج ان کے پاس جمع ہوگا۔ فریقین ایک دوسرے پر فوج کشی اورغارت گری نہ کریں گے۔مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ، دونوں شہروں کو آزاد چھوڑ دیا گیا، یعنی حضرت علی اور حضرت معاویہ ان دونوں شہروں میں اپنی حکومت قائم نہ کرنے پر راضی ہو گئے۔
۴۰ھ:گورنر بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس نے بصرہ کے قاضی ابو الاسوددوئلی کی اہانت میں دو جملے کہے: اگر تو چوپایہ ہوتا تو اونٹ ہوتا اور اگر گلہ بان ہوتا تو چراگاہ تک پہنچ ہی نہ پاتا۔ابوالاسود نے ناراض ہوکرحضرت علی کو خط لکھ دیا کہ ہم نے آپ کو تو بہت امانت دار اور رعیت کا خیرخواہ پایاہے، لیکن آپ کے چچا زاد نے اپنی نگرانی میں آیا ہوامال امانت آپ کو اطلاع دیے بغیر ہڑپ کر لیا ہے۔جواب میں حضرت علی نے دوخط تحریر کیے،ایک حضرت ابن عباس کوبھیجا اور دوسرا ابوالاسود کو لکھاکہ تو نے امیر اور امت کی خیر خواہی کی۔میں نے تمھارا نام لیے بغیر خط کے مندرجات عبداﷲ بن عباس تک پہنچا دیے ہیں ۔حضرت عبداﷲ بن عباس نے جواب میں تحریر کیا:آپ بدگمانی نہ کریں ،آپ تک پہنچنے والی خبر باطل ہے۔ حضرت علی نے پھر بھی جزیہ دینے والے افراد، آمدہ رقم اور خرچ کا تفصیلی حساب طلب کیا تو حضرت ابن عباس نے گورنری چھوڑی اور مکہ چلے آئے۔ ایک روایت کے مطابق وہ تمام جمع شدہ مال اور خمس ساتھ لے گئے، لیکن ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے جمع شدہ مشاہرے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ حضرت علی کی شہادت کے وقت اور بعد میں بھی بصرہ کے گورنر رہے۔جب حضرت حسن کی حضرت معاویہ سے صلح ہوئی، تب وہ بصرہ چھوڑ کر مکہ گئے۔مدائنی کہتے ہیں:حضرت حسن کی صلح میں حضرت عبداللہ کی جگہ حضرت عبیداللہ بن عباس شریک ہوئے۔حضرت عبداﷲ بن عباس نے جنگ جمل، جنگ صِفِین اور خوارج کے ساتھ جنگوں میں حضرت علی کا ساتھ دیا۔وہ میسرہ کے کمان دار تھے۔
اہل شام نے حضرت معاویہ کو امیر تسلیم کر لیا، جب کہ اہل عراق حضرت علی کے زیر نگیں ہونے کے باوجود منتشر رہے۔حضرت علی کی فوج بھی ان سے تعاون نہ کرتی۔اس پر وہ دل برداشتہ ہو گئے اور موت کی تمنا کرنے لگے (مسند ابویعلیٰ، رقم ۴۸۵)۔ فرماتے: یہ ڈاڑھی اس کھوپڑی کے خون سے ضرور رنگین ہو گی۔اس امت کے بدبخت ترین آدمی کو کس نے روک رکھا ہے؟وہ کس کا انتظار کر رہا ہے؟قتل کیوں نہیں کرتا؟یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف اشارہ تھاجو ان روایات میں مذکور ہے: ایک بارحضرت علی بیمار ہوئے، حضرت ابوبکر،حضرت عمر اورحضرت انس ان کے پاس تھے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر وحضرت عمر نے عرض کیا: اﷲ کے نبی،ہمیں تویہ جاں بر ہوتے نظر نہیں آتے۔ آپ نے فرمایا: علی ہرگز وفات نہیں پائے گا ، حتیٰ کہ غیظ وغضب سے پر نہ ہوجائے، یہ قتل ہو گا (ابن اثیر) دوسری روایت مختلف ہے: ابوسنان دؤلی (یا حضرت ابوفضالہ انصاری) حضرت علی کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: امیر المومنین،اس بیماری نے تو ہمیں آپ کے بارے میں اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔حضرت علی نے کہا : مجھے تو اپنی جان جانے کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ میں نے سچ بولنے والے اور سچا سمجھے جانے والے رسول کواپنے سر کے بائیں طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تمھیں یہاں چوٹ لگے گی اور خون بہ کر تمھاری ڈاڑھی رنگ دے گا۔یہ کام اس امت کا بدبخت ترین آدمی کرے گا جس طرح قوم ثمود کے سب سے زیادہ تیرہ بخت نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں(مسند احمد، رقم ۸۰۲۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۵۹۰۔ مسند ابو یعلیٰ ، رقم ۵۶۹)۔
آخری رمضان میں وفات سے تین چار روز پہلے حضرت علی نے اپنے بیٹوں حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت جعفرکے ہاں باری باری افطاری کی اور تین لقموں سے زیادہ نہ کھایا۔فرمایا: میں چاہتا ہوں،مجھے اﷲ کا حکم اجل آئے تو میں دبلا پتلا ہوں۔ (الکامل ابن اثیر:ذکر مقتل امیر المومنین علی) ایک بار حضرت علی فجر کی نماز کے لیے نکلے تومرغابیاں ان کے کپڑوں سے لپٹ کر شور کرنے لگیں۔لوگوں نے ان کو پرے ہٹایا تو فرمایا: رہنے دو،یہ نوحہ کر رہی ہیں۔اسی روزابن ملجم نے انھیں شہید کر دیا (تاریخ الیعقوبی:خلافۃ امیر المومنین علی، الکامل ابن اثیر:ذکر مقتل امیر المومنین علی)۔
لوگوں نے پوچھا: امیر المومنین کیا آپ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے؟کہا: میں تمھیں اسی طرح چھوڑ کرجاؤں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا(مسندابو یعلٰی، رقم ۳۴۱)۔
حضرت علی پر قاتلانہ حملہ ۱۷ ؍رمضان ۴۰ھ کو ہوا، شاذ روایت میں ربیع الثانی وفات کا مہینابتایا گیا ہے۔
عبدالرحمٰن بن ملجم،بُرک (یا حجاج)بن عبداﷲ اورعمرو بن بکر تینوں خارجی سیاسی امور پر گفتگو کر رہے تھے۔ جنگ نہروان میں اپنے مارے جانے والے ساتھیوں کے لیے دعاے مغفرت کے بعدبولے:ان کے بعد ہم جی کر کیا کریں گے۔ اپنے تئیں اپنے امرا کو گم راہ قرار دینے کے بعد ا نھوں نے ان کو قتل کرنے کی ٹھانی۔ ابن ملجم نے حضرت علی،بُرک نے حضرت معاویہ اور عمرو بن بکرنے حضرت عمرو بن عاص کو ختم کرنے کی ذمہ داری لی۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ملت میں پایا جانے والا انتشار اور باہمی جنگ و جدال ختم ہو جائے گا۔تینوں نے اپنی تلواریں تیز کیں ، انھیں زہر آلود کیا اور باہم عہد کیا، اپنے ٹارگٹ کو قتل کرنے یا اپنی جان دینے تک نہ ٹلیں گے۔ ۱۷؍رمضان کو کارروائی کا دن مقرر کر کے وہ روانہ ہوئے، ابن ملجم کا رخ کوفہ کی طرف تھا۔ تیم الرباب قبیلے کے افراد سے اس کی ملاقات ہوئی جس کے کئی لوگ جنگ نہروان میں حضرت علی کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔وہیں اس نے حسین و جمیل قطام بنت شجنہ کو دیکھا تو اس پر فریفتہ ہو گیااور شادی کی پیش کش کر دی۔قطام کا باپ اور بھائی بھی اس جنگ میں کام آ چکے تھے، شادی کے لیے اس نے تین شرائط رکھیں اور انھیں اپنا مہر قرار دیا، ابن ملجم اسے تین ہزار دینار، ایک غلام،ایک لونڈی دے اور علی کو قتل کر کے اس کا جی ٹھنڈا کرے۔ اس نے بتایا: وہ علی ہی کو قتل کرنے کوفہ پہنچا ہے۔باقی شرائط کی بجا آوری سے اس وقت معذور ہوں ۔قطام نے کہا:تم یہ شرط پوری کر دو تو میں دوسری دو شرطیں ساقط کر دوں گی۔ ابن کثیر کہتے ہیں : ان کی شادی ہو گئی،اس کے بعد قطام نے معاونت کے لیے اسے اپنی قوم تیم الرباب کے شخص وردان کے پاس بھیجا۔بنو اشجع کا شبیب بن بجرہ حضرت علی کے قتل میں شریک نہ ہونا چاہتا تھا، لیکن ابن ملجم نے اسے اہل نہروان کا بدلہ لینے پر قائل کر لیا۔یہ تینوں جمعہ کی شب قطام کے پاس پہنچے۔اس نے ایک ریشمی پٹی ان کے سروں پر باندھ دی۔ فجر سے پہلے یہ تینوں سدہ نامی دروازے کے پاس بیٹھ گئے جہاں سے حضرت علی مسجدآتے تھے۔ نماز کا وقت ہوا تو حضرت علی مسجد میں پہنچے اور الصلاۃ، الصلاۃ کی پکار دی۔ شبیب نے فوراًتلوار نکال کر وارکیا جو خطا ہو کر دروازے کے طاق پر لگا،پھر ابن ملجم نے نعرہ لگایا: علی، حکم اللہ کا ہے،آپ کا نہ آپ کے ساتھیوں کااورحضرت علی کی سر کی چوٹی( parietal bone،اصل میں قرن ہے، یعنی سر کا وہ حصہ جہاں جانوروں کے سینگ ہوتے ہیں ) پرضرب لگائی جو کاری ہوئی۔حضرت علی کا خون ان کی ڈاڑھی پر بہ نکلا، وہ چلائے: یہ آدمی جانے نہ پائے۔لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔حضرت علی پیچھے ہٹے اور حضرت جعدہ بن ہبیرہ کوآگے مصلے پر کھڑا کر دیا۔یہ ان کی بہن حضرت ام ہانی کے بیٹے تھے۔ابن ملجم کو لوگوں نے پکڑا تو ایک شخص ابو ادما نے اس کے پاؤں پر تلوار سے ضرب لگائی جس سے اس کا پاؤں کٹ گیا۔
اس اثنا میں وردان بھاگ کر اپنے گھر میں گھس گیا۔ اس کے ایک رشتہ دار نے اسے تلوارلیے،ریشم کی پٹی اتارتے دیکھا توپوچھا کہ ماجرا کیاہے؟ وردان نے سچ سچ بتا دیا تو اس شخص نے تلوارپکڑ کر اسے ہی مار ڈالا۔شبیب مسجد سے واپس نکلا تو کچھ لوگوں نے اس کا تعاقب کیا،عویمر حضرمی نے اسے پکڑ لیا اور اس کی تلوار قابوکر لی، لیکن پھرگھبرا کر چھوڑ دیا۔اس طرح شبیب بچ گیا۔
نمازمکمل ہوئی توحضرت علی کوگھر لے جایا گیا۔ا نھوں نے ابن ملجم کو بلا کر پوچھا: میں نے تم پر احسانات نہ کیے تھے؟اس نے کہا: ہاں ۔فرمایا:پھرتم نے ایسا کیوں کیا ؟اس نے کہا: میں نے اپنی تلوار کو چالیس دن صبح سویرے اٹھ کر تیز کیا ہے اور اﷲ سے دعا کی ہے کہ اس کے ذریعے سے بدترین خلائق کو قتل کرے۔ حضرت علی نے کہا: میں اس سے تمھیں ہی قتل ہوتے دیکھ رہا ہو ں ، تو ہی بدترین مخلوق ہے۔ پھر فرمایا:جان کا بدلہ جان ہے۔ میں مر گیا تو اسے اسی طرح قتل کر دینا، جیسے اس نے مجھے قتل کیاہے۔ حسن، سنو،میں اس کی ایک ضرب سے مرا توتم بھی بدلے میں ایک ہی ضرب لگانااور مثلہ ہرگز نہ کرنا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: مثلہ کرنے سے پرہیز کرو، اگرچہ مرنے والا پاگل کتاہی ہو (المعجم الکبیرطبرانی:مسند علی بن ابی طالب۱۶۸)۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی نے حکم دیا:ابن ملجم سے وہ سلوک کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کیا تھا جوآپ کی جان کے درپے ہوا۔اسے قتل کر کے جلا دو(مسند احمد، رقم۷۱۳)۔ ام کلثوم بنت علی نے بندھے ہوئے ابن ملجم سے کہا: دشمن خدا، اﷲ تمھیں رسوا کرے گا۔ابن ملجم نے کہا:کیوں رو رہی ہو؟میں نے یہ تلوارایک ہزار درہم میں خریدی اور ایک ہزار ہی کا زہر لگایا۔ اگرتمام اہل مصر کو یہ تلوار لگی ہوتی تو کوئی بھی نہ بچتا،میں نے صرف تمھارے باپ کو مارا ہے۔
اس اثنا میں جندب بن عبداﷲ آئے اور پوچھا: امیر المومنین ،اﷲ نہ کرے آپ ہم سے جدا ہو جائیں ۔اگر ایسا ہوا تو کیا حسن کی بیعت کر لیں ؟حضرت علی نے جواب دیا:میں ہاں کہتا ہوں نہ تم کو منع کرتا ہوں ، تم خود صاحب بصیرت ہو۔پھر حضرت حسن ا ور حضرت حسین کو بلایا اور تقویٰ اختیار کرنے اور قول حق کہنے کی نصیحت کی۔ فرمایا:دنیا کے طلب گار نہ بننا، یتیم پر رحم کرنا، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بن جانا، کتاب اللہ کی تعلیمات پر عمل کرنا۔پھر محمد بن حنفیہ کی طرف دیکھ کر کہا: بھائیوں کو کی جانے والی نصیحتیں تم نے بھی ذہن نشین کر لی ہیں ؟ تمھارے لیے بھی یہ وصیت ہے:بھائیوں کا احترام کرنا، ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔ حضرات حسنین کو پھر حکم دیا:محمد سے حسن سلوک کرنا، وہ تمھارا بھائی ہے اور تمھارے باپ کو بہت محبوب ہے۔ حضرت حسن کو مکرر ارشاد فرمایا: وضو اچھی طرح کرنا،نماز وقت پر اداکرنا، زکوٰۃ میں تاخیر نہ کرنا،گناہوں کی مغفرت طلب کرتے رہنا، غصہ پی لینا،صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہنا۔
حضرت علی نے وصیت بھی لکھوائی:میں حسن، اپنی تمام اولاد اوران سب کوجن تک میری یہ تحریر پہنچے، اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔حالت اسلام میں جان دینا،ذوی الارحام کا خیال رکھنا، اللہ تمھارا حساب آسان کر دے گا۔یتیموں اور پڑوسیوں کے بار ے میں خوف خدا رکھنا۔قرآن،نمازاور بیت اللہ کے بارے میں خشیت الہٰی سے کام لینا۔زکوٰۃ،رمضان کے روزوں ،جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں اللہ کا خوف رکھنا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب نبی کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرنا۔فقرا ومساکین کو اپنی معاش میں سے حصہ دینا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری بات یہ فرمائی تھی:’’میں تمھیں دو کم زوروں ،بیویوں اور غلاموں سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں ‘‘ (المعجم الکبیرطبرانی:مسند علی بن ابی طالب۱۶۸)۔اللہ کا حق ادا کرتے ہوئے ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنا۔لوگوں سے اچھی بات کرنا، امر بالمعروف، نہی عن المنکر نہ چھوڑنا۔ ایک دوسرے سے منہ موڑنا،نہ قطع تعلق کرنا۔ میں تمھیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ،والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
حضرت علی پر قاتلانہ حملہ جمعہ کے دن فجر کے وقت ہوا،جمعہ اور ہفتہ دو دن گزرنے کے بعد اتوار ۱۹ ؍ رمضان ۴۰ ھ کے روز ا نھوں نے وفات پائی۔ وفات سے پہلے لا الہٰ الا اﷲ کا ورد کرتے رہے، اسی حالت میں جان جان آفرین کے سپرد کی۔ایک روایت کے مطابق ’فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ. وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ‘، ’’اور جوذرہ برابر بھلائی کرے گا،اس کا صلہ پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا، اس کا انجام دیکھ لے گا‘‘(الزلزال ۹۹: ۷- ۸ ) ان کے آخری الفاظ تھے۔
حضرت حسن،حضرت حسین اورحضرت عبداﷲ بن جعفر نے حضرت علی کو غسل دیا۔انھیں تین کپڑوں کا کفن دیا گیا،اس میں قمیص نہ تھی۔ حضرت حسن نے نو تکبیریں کہہ کر نماز جنازہ پڑھائی۔حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن جعفر اور محمد بن حنفیہ جنازے میں شریک ہوئے۔قصر امارت میں یا کوفہ کی جامع مسجد میں ان کی تدفین ہوئی،خوارج کی فساد انگیزی سے بچنے کے لیے قبر کو پوشیدہ رکھا گیا۔ موضع تدفین کے بارے میں کچھ روایات عجیب بھی ہیں ، حضرت علی کو جنت البقیع میں حضرت فاطمہ کے مدفن کے پاس خاک میں اتارا گیا۔جس اونٹ پر میت کولے جایا جا رہا تھا، وہ گم ہو گیا۔تابوت بنوطے کے ہاتھ لگ گیا اور ا نھوں نے نا معلوم مقام پر دفنا دیا۔ ایک روایت کے مطابق انھیں آل جعدہ کے گھروں کے ایک کمرے میں دفن کیا گیا۔ ابن کثیر کہتے ہیں : نجف میں جس مقبرے کو حضرت علی سے منسوب کیا جاتا ہے،وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ہے۔ حضرت علی کی عمر کے بارے میں اقوال مختلف ہیں ، اٹھاون برس (امام جعفر صادق)، تریسٹھ برس (امام باقر) یا پیسنٹھ سال۔چار سال نو ماہ ان کی مدت خلافت ہے۔ حضرت علی پہلے ہاشمی خلیفہ تھے۔ان کے بعد ہاشمیوں میں سے ان کے بیٹے حضرت حسن اور امین الرشید خلیفہ بنے۔
حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن نے ابن ملجم کو بلایا۔اس نے حضرت حسن سے پوچھا:ایک اچھا کام کرنے کی اجازت دیں گے؟ میں نے حطیم کے پاس کھڑے ہو کر اﷲ سے عہد کیا تھا کہ علی اور معاویہ، دونوں کو قتل کر دوں گایا ان کے سامنے اپنی جان دے دوں گا۔مجھے چھوڑ دیں ،معاویہ کو ختم کر کے اپنے آپ کو آپ کے سپرد کر دوں گا۔حضرت حسن نے کہا: میں اس کام کے لیے تجھے ہر گز نہیں چھوڑ سکتا کہ تو آگ کو اور بھڑکا دے۔پھر آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا۔اس کی لاش کو چٹائی میں لپیٹ کر آگ سے جلا دیا گیا۔
حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن نے لوگوں سے خطاب کیا:تم نے آج کی رات ایک شخص کو شہید کیا۔آج ہی کی رات قرآن نازل ہوا،اسی رات عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھایا گیا اور یوشع بن نون علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ان سے پہلے والے ان سے آگے نہیں نکلے اور بعد والے انھیں پا نہیں سکتے۔ ا نھوں نے سونا چھوڑا ہے نہ چاندی۔محض سات آٹھ سو درہم اپنے خادم کے لیے رکھ چھوڑے تھے(المعجم الاوسط،طبرانی، رقم ۸۴۶۹۔ مسند ابویعلٰی، رقم۶۷۵۷۔ مسند بزار، رقم ۱۳۴۰)۔
مطالعۂ مزید:تاریخ الامم والملوک(طبری)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی )،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،البدایۃ و النہایۃ(ابن کثیر)،تاریخ اسلام ( شاہ معین الدین)،تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)، سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)۔
[باقی]
___________