سوال: ایک آیت میں قصاص کاحکم دینے کے بعدفرمایاہے: ’اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰي بِالْاُنْثٰي ‘[1]۔عام طورپران الفاظ کاجوترجمہ کیاجاتاہے ،اس میں ایک طرح کاابہام محسوس ہوتا ہے، یعنی’’آزاد کے بدلے میں آزاد،غلام کے بدلے میں غلام اورعورت کے بدلے میں عورت۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ان الفاظ کاحقیقی مدعاومفہوم کیاہے؟اوران کے ذریعے سے اُس زمانے کے عرب معاشرے کو کیا تعلیم دی گئی ہے؟
جواب: ان الفاظ کے بارے میں پہلے تویہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ ان میں قاتل زیربحث ہے، نہ کہ مقتول،یعنی ’اَلْحُر‘ سے مراد قاتل ہے اور ’بِالْحُرِّ‘ میں موجود ’اَلْحُر‘ سے مرادبھی قاتل ہے،اوراسی طرح کامعاملہ ’وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ‘ اور ’وَالْاُنْثٰي بِالْاُنْثٰي‘ کا بھی ہے ۔ ’اَلْحُر‘ سے مرادمقتول اس لیے نہیں ہو سکتا کہ یہ جملہ قصاص کے حکم کے بعداوراس کی توضیح مزیدکے طورپرآیاہے اورہم جانتے ہیں کہ قصاص کی سزا قاتل پرنافذہوتی ہے، نہ کہ اس کے برخلاف مقتول پرکہ اس کایہاں ذکرکیاجائے۔اسی طرح دوسرے ’اَلْحُر‘ سے مرادبھی مقتول نہیں لیاجاسکتاکہ اس صورت میں یہ رتبے اورحیثیت میں برابری کرنے کاحکم بن جاتا ہے، یعنی مقتول اگرآزادہوتواس کے بدلے میں آزادہی کوقتل کیا جائے،حالاں کہ قصاص سے مرادیہاں رتبے اورحیثیت میں برابری نہیں ،بلکہ سزامیں برابری ہے[2]۔
اس توضیح کے بعداب ان الفاظ کی تالیف بآسانی سمجھ لی جاسکتی ہے جو ’كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ‘ کے زیراثر،بادی النظر میں یہ بنتی ہے :’يُقتل الحر بقتل الحر‘۔اس میں ’ قتل ‘ کالفظ مصدرہے اور اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے ۔اور ’بِالْحُرِّ‘ پر آنے والی ’’ب‘‘ اصل میں عوض کی ہے اور اوپر مذکور ’قِصَاص ‘ کے لفظی معنی کی وجہ سے متعین ہوئی ہے۔ یہی تالیف ’وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ‘ اور ’وَالْاُنْثٰي بِالْاُنْثٰي‘ کے جملوں کی بھی ہے۔چنانچہ ان سب کالفظی ترجمہ اب یہ ہوتاہے:’’آزاد نے قتل کیاہوتواس قتل کے بدلے میں اُسی آزادکوقتل کیا جائے،غلام نے قتل کیاہوتواس قتل کے بدلے میں اُسی غلام کوقتل کیا جائے، اورعورت نے قتل کیاہوتواس قتل کے بدلے میں اُسی عورت کو قتل کیا جائے۔‘‘تراجم سے معلوم ہوتاہے کہ مترجمین کے سامنے بالعموم ان الفاظ کی یہی تالیف اوران کایہی مطلب رہا ہے۔ البتہ ان میں سے بعض حضرات نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ عربی زبان کے اسلوب کواپنے ترجمہ میں بھی برقرار رکھیں اوربعض نے اس کے مفہوم کوواضح کرنازیادہ ضروری سمجھا ہے۔مثلاًصاحب’’ البیان‘‘ نے عربی اسلوب کوقائم رکھتے ہوئے یوں ترجمہ کیاہے:’’ قاتل آزادہوتواس کے بدلے میں وہی آزاد،غلام ہوتواس کے بدلے میں وہی غلام،عورت ہوتواس کے بدلے میں وہی عورت۔‘‘لیکن صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ نے اس کے مدعاکوسامنے رکھتے ہوئے یہ ترجمہ کیاہے:’’آزادآدمی نے قتل کیاہوتواس آزادہی سے بدلہ لیاجائے،غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیاجائے،اورعورت اِس جرم کی مرتکب ہوتواس عورت ہی سے قصاص لیاجائے۔‘‘
آیت کے اس مفہوم کی روشنی میں اب وہ تعلیم بھی جان لی جاسکتی ہے جواس کے ذریعے سے اُس وقت کے عرب معاشرے کودینا پیش نظرہے۔ہم جانتے ہیں کہ عربوں میں اس طرح کے معاملات میں بہت زیادہ تجاوز پایا جاتا تھا اور اس کے پیچھے اُن کے بعض جاہلی نظریات،گروہی تعصبات، اُن کی رعونت اورنخوت اور حد سے بڑھے ہوئے جذبات ہواکرتے تھے۔مثال کے طورپراگراُن کاکوئی غلام قتل کردیاجاتا تو وہ کہتے کہ اس کے بدلے میں ہم دوسروں کاآزادشخص قتل کریں گے یا ہمارا ایک مارا گیا ہے تو ہم دشمنوں کے سو آدمی مار دیں گے۔ایک صورت یہ بھی ہوتی کہ اگردوسرے قبیلے کے غلام نے اُن کے آزادفرد کوقتل کردیاہے تووہ اس کے بدلے میں کسی آزاد فردہی کوقتل کردینا چاہتے جواُن کے خیال میں مقتول کاہم رتبہ اورقدرومنزلت میں اس کے برابرہوتا۔اوراگرصورت حال یہ ہوتی کہ وہ لوگ مقتول کے بجاے قاتل کے والی ہوتے اوراُن کے آزادنے دوسروں کاکوئی غلام ماردیاہوتاتووہ اُس آزادکوحوالے کرنے پر ہرگز تیار نہ ہوتے اورکہتے کہ تم اپنے غلام کے بدلے میں ہمارابھی کوئی غلام قتل کرڈالو۔تجاوزکی ان تمام صورتوں میں بنیادی طورپردوطرح کی ناانصافیاں پائی جاتی تھیں : ایک یہ کہ قاتل کے بجاے کسی اورکوقتل کردیاجائے اوردوسرے یہ کہ اس نوع کے سب معاملات کورتبہ اورحیثیت کے لحاظ سے طے کیا جائے۔اس تناظر میں مذکورہ آیت کودیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس نے کس خوب صورتی سے اس ظلم وعدوان کایہ کہتے ہوئے خاتمہ کردیاہے کہ جس شخص نے قتل کیا ہے،وہ کسی بھی حیثیت کامالک ہو، آزاد ہو یا غلام، حتیٰ کہ کوئی عورت ہو[3]،بدلے میں اُسی کوقتل کیاجائے ۔
____________
۱۔ البقرہ ۲: ۱۷۸۔
۲۔ اورمزیدیہ کہ ایساکرنے سے یہ حکم انصاف کے بجاے سراسر ظلم ہو جاتا اور قرآن کی آیت ’النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ‘ (المائدہ ۵: ۴۵) کے بھی بالکل خلاف قرارپاتا ۔
۳۔ آیت میں آزاداورغلام،دونوں کاذکرہواہے،مگرعورت کے ساتھ مردکاذکرنہیں ہوا۔ بارہاخیال ہوتاہے کہ اس سے یہاں ’’حتیٰ کہ‘‘ کامعنی پیداکرنامقصود ہے، یعنی زنااورچوری کی سزاؤں کی طرح یہاں بھی واضح کردیناپیش نظرہے کہ قصاص کے اس معاملے میں عورتوں کوبھی کوئی رعایت حاصل نہیں ہے۔