[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
دو سال قبل (۳۶ھ میں ) حضرت علی نے حضرت قیس بن سعد کو ہٹا کر محمد بن ابوبکر کومصر کا گورنرمقرر کیا تھا۔حضرت قیس جاتے ہوئے مصر کی راہ میں محمد سے ملے اور نصیحت کی کہ عمرو بن العاص اوراہل خربتا (خرنبا)،دونوں فریقوں کو لیت ولعل میں الجھائے رکھنا، ورنہ خود مارے جاؤ گے۔محمد حضرت قیس کے بارے میں اچھا گمان نہ رکھتا تھا،اس لیے ان کی خیرخواہی کو سمجھ نہ پایا۔ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس نے اہل خربتا کووارننگ دے دی : ہماری اطاعت کرو یا ہمارے شہروں سے نکل جاؤ۔ ان لوگوں نے نئے خلیفہ کا تعین ہونے تک مہلت مانگی،لیکن محمد بن ابوبکر نے ایک نہ مانی۔ انھوں نے بھی جنگ کی تیاری کرلی اور محمد کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھا۔ اس نے ابن مضاہم کلبی کو ان کا مقابلہ کرنے بھیجا تو اسے قتل کر دیا،اس کے بعد دوسرا نمایندہ روانہ کیا تو اس کو بھی مار ڈالا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت معاویہ بن حدیج نے حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر کے پورے مصر میں محمد بن ابوبکر کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکا دی۔
۳۸ھ : محمد بن ابوبکر مصر پر کنٹرول حاصل نہ کر سکا تو حضرت علی نے سوچا کہ مصر کی امارت کے لیے دو افراد ہی موزوں ہو سکتے تھے، قیس جنھیں ہم نے معزول کیا یا اشتر۔ صفین سے لوٹنے کے بعدانھوں نے اشتر کوجزیرہ کا گورنرمقرر کیا،پھر اسے اپنے ساتھ پولیس آفیسر کے طورپر رکھا۔وہ نصیبین میں تھاجب انھوں نے یہ خط لکھ کر اسے بلایا: ’’تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے ذریعے سے میں اقامت دین کی خدمت بجا لاتا ہوں اور مجرموں کی اکڑ ختم کرتا ہوں۔ گورنر مصرمحمد بن ابوبکر کی ناتجربہ کاری اور کم عمری کی وجہ سے خارجیوں نے اس کے خلاف بغاوت کردی۔ تیرے علاوہ مصر کی حکومت کا کوئی اہل نہیں۔ فوراً وہاں چلے جاؤ۔ تجھے کسی نصیحت کی ضرورت نہیں،تاہم اﷲ سے مدد طلب کرتے رہنا،سختی اور نرمی کا امتزاج کرنا، جہاں نرمی سے کام چلے،وہی بہتر ہے۔سختی اسی وقت کرنا جب اس کے بغیر گزارا نہ ہو۔
حضرت علی نے اشتر کو مصر روانہ کیا تو اس کے ہاتھ اہل مصر کے نام ایک خط بھی بھیجا :’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔اللہ کے بندے امیر المومنین کی جانب سے۔ اما بعد،میں تمھارے پاس مالک بن الحارث کو بھیج رہا ہوں جو زمانۂ خوف میں راتوں کو نہیں سوتا اور دشمنوں سے نہیں گھبراتا۔اس کی اطاعت کرو،کیونکہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔وہ آگے بڑھنے کا حکم دے تو آگے بڑھو اورپیچھے ہٹنے کوکہے تو پیچھے ہٹو۔اللہ تمھیں ایمان و یقین پر ثابت قدم رکھے‘‘۔
اشتر کو گورنری دینے پرمحمد بن ابوبکر کو صدمہ ہوا تو حضرت علی نے اسے یہ خط ارسال کیا:’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔اللہ کے بندے امیر المومنین کی جانب سے محمدبن ابوبکر کے نام۔سلام علیک،مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنی جگہ اشتر کا تقرر کرنے پر ناراض ہو۔میں نے تمھیں اس لیے نہیں ہٹایاکہ تم نے جہاد میں کم زوری دکھائی یا میں تم سے زیادہ کوشش کا متقاضی تھا۔ اب میں تمھیں ایسی جگہ کی حکومت دوں گا جہاں زیادہ مشقت نہ ہو اور جوتجھے مصر سے زیادہ پسند آئے۔اشتر ہمارا خیرخواہ اور دشمنوں کے لیے کڑا ہے۔ہم اس سے خوش ہیں۔تو بھی اپنے دشمن کے مقابلے پر ڈٹا رہ اورجنگ کے لیے تیار رہ‘‘۔ محمد بن ابوبکر کو حضرت علی کا خط ملا تو اس نے یہ جواب تحریر کیا:’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔اللہ کے بندے امیر المومنین کی جانب، محمدبن ابوبکر کی طرف سے۔میں نے امیر المومنین کے خط کو خوب سمجھ لیا ہے۔مجھ سے زیادہ امیر المومنین کے فیصلے پر راضی ہونے والا، ان کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے والا اوران کے ولی سے محبت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ میں آپ کے حکم کا متبع اور اس پر عمل پیرا رہوں گا‘‘۔
حضرت معاویہ کے جاسوسوں نے اشتر کی آمد کی خبر ان تک پہنچائی تووہ فکر مند ہو گئے،کیونکہ ان کی مصر پر قبضہ کرنے کی خواہش میں اشتربڑی رکاوٹ بن سکتا تھا۔ انھوں نے قلزم شہر سے خراج اکٹھا کرنے والے غیرمسلم اہل کارجایستار(: طبری۔خانسار:ابن کثیر۔حابسات: ابن اثیر) کو پیغام بھیجا،اگرتو اشتر کو مصر پہنچنے سے روک دے تو تمھاراخراج ہمیشہ کے لیے معاف ہو گا۔ اشتر مصر پہنچا تو جایستار نے اس کا استقبال کیا،خوب خاطر مدارات کی،سواری کوچارہ دیا اور کھانا کھلانے کے بعد شہد کے مشروب میں زہر ملا کر اشتر کو دے دیا۔ ادھر حضرت معاویہ ہر روز اہل شام سے کہتے: علی نے اشتر کو مصر بھیجا ہے،اس کے لیے بددعا کرو۔ جب اس کی موت کی خبر پہنچی تو لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:علی کے دو ہاتھ تھے،عمار بن یاسر اور اشتر۔ ایک صفین میں منقطع ہوا اور آج دوسرا بھی کٹ گیا۔ اشتر کی موت کی خبر سن کر حضرت علی نے ’إنا للّٰه وإنا إليه راجعون‘ کہنے کے بعد فرمایا:رونے والیوں کو اس جیسے شخص پر رونا چاہیے۔ لوہا ہوتا تو سلاسل بن جاتا اور اگر پتھر ہوتا توسل کی شکل اختیار کر لیتا۔ابن کثیر کہتے ہیں :حضرت معاویہ اشتر کے قتل کو جائز سمجھتے تھے،کیونکہ وہ حضرت عثمان کو قتل کرنے والوں میں شامل تھا۔
جنگ صفین کے بعدحکمین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اہل شام نے حضرت معاویہ کی بیعت کر لی۔ حضرت معاویہ کی قوت بڑھتی رہی، جب کہ اہل عراق کے انتشارمیں اضافہ ہوتا گیاجوجنگ نہروان کے بعد نمایاں ہو گیا۔حضرت معاویہ کی نگاہ میں مصر سے زیادہ کسی ملک کی حیثیت نہ تھی۔ان کا خیال تھاکہ مصر کو زیر کرنے اور اس کا بھاری خراج حاصل کرنے کے بعدحضرت علی سے جنگ کرنا آسان ہو گا۔ انھوں نے حضرت عمرو بن العاص،حضرت حبیب بن مسلمہ،بسر بن ابوارطاۃ،ضحاک بن قیس، عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید،حضرت ابواعور سلمی اور شرحبیل بن سمط کو طلب کر کے یہ خطاب کیا:’’اﷲ نے ہماری قوت کو جمع کر دیا ہے اور ہم میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے،جب کہ ہمارے مخالفین متفرق ہو کر ایک دوسرے کے کفر کی گواہی دینے لگے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ امر خلافت ہمارے ہاتھوں مکمل ہو گا۔میں چاہتا ہوں کہ ہم اہل مصر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔تم لوگوں کی کیا راے ہے؟‘‘حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ کو ان کا وعدہ یاد دلایاکہ حضرت علی کے خلاف ساتھ دینے کی صورت میں مصر کی گورنری ان کو دی جائے گی۔باقی لوگوں نے اس وعدے سے لاعلمی ظاہر کی، لیکن حضرت معاویہ نے اس کی تصدیق کی اور حضرت عمرو سے پوچھا :انھیں کیا کرنا ہو گا؟ حضرت عمرو نے مشورہ دیاکہ ایک تجربہ کار سالار کی قیادت میں ایک بڑالشکر بھیجا جائے جو مصر کے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کرمخالفین سے جنگ کرے۔باقی اصحاب نے حضرت عمرو کی اس راے سے اتفاق کیا۔ حضرت معاویہ لشکر کشی کے بجاے مصر میں موجود اپنے ہم خیالوں کو ساتھ ملا کر آگے چلنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مصر میں مقیم حضرت علی کی بیعت نہ کرنے والے دس ہزار مسلمانوں کے لیڈروں حضرت مسلمہ بن مخلد اورحضرت معاویہ بن حدیج کو خط لکھا: ’’تمھارا خلیفۂ مظلوم کا قصاص طلب کرنا ایک بڑا عمل ہے جس کا اجر بھی بڑا ہوگا۔اللہ کے اولیا کی مدد کرو،ہم تمھارا حق ادا کریں گے اور اپنی حکومت میں بھی شریک کریں گے‘‘۔ حضرت معاویہ کا قاصد سبیع یہ خط لے کر مصر پہنچا تو حضرت مسلمہ نے اپنی اور حضرت ابن حدیج کی طرف سے یہ جواب لکھا:’’ہم نے خون عثمان کابدلہ لینے کے لیے اپنی جانیں کھپا دی ہیں اور کسی دنیاوی صلہ و حکومت کے طلب گار نہیں۔محمد بن ابوبکر نے ہمارے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ہماری تعداد بہت کم ہے،آپ اپنی پیدل اور سوار فوج جلد روانہ کیجیے۔ آپ کی طرف سے مدد آگئی تواللہ ہمیں فتح سے نوازے گا‘‘۔یہ جواب پا کر حضرت معاویہ نے حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں چھ ہزار کی سپاہ روانہ کی۔ انھوں نے حضرت عمرو کو اللہ سے ڈرنے اور لوگوں پر نرمی کرنے کی نصیحت کی اور کہا:جو قتال کرے صرف اسے قتل کرنااور جوپشت پھیر کر بھاگے،اس سے درگذر کرنا۔رعب داب اسی وقت دکھایا جاتا ہے جب کوئی عذر باقی نہ رہے۔
صفر۳۸ھ:حضرت عمرو بن العاص نے مصرکے سرحدی علاقے میں پڑاؤ ڈالا۔مصر میں موجودحضرت عثمان کے خون بہاکا مطالبہ کرنے والے سب لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے۔انھوں نے محمد بن ابوبکر کو خط لکھا: ’’مجھ سے اپنی جان بچا لو،میں نہیں چاہتا کہ میرا ایک ناخن بھی تمھیں لگے۔اس ملک کے لوگ تمھارے خلاف اکٹھے ہو چکے ہیں۔بہتر ہے کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ ‘‘۔حضرت عمرو نے حضرت معاویہ کا لکھا ہوا خط بھی محمد بن ابوبکر کو بھیجا:’’خون محترم کو بہانے والادنیا میں ملنے والی سزا اور آخرت میں جاری رہنے والے بد انجام سے نہیں بچ سکتا۔ہم نہیں جانتے کہ عثمان کا تم سے بڑا کوئی باغی اورعیب جو ہو۔ میں پسندتو یہی کرتا ہوں کہ میرے انصار تمھارے اس ظلم و عداوت کی پاداش میں تمھیں قتل کر دیں جو تو نے عثمان کی کان کی ہڈی(mastoid) اور رگوں (jugular vein) کے درمیان بھالا (اصل میں مشاقص بمعنی تیر)چلاکر کیا تھا، تاہم میں کسی قریشی کا مثلہ کرنا نہیں چاہتا‘‘ ۔
محمدبن ابوبکر نے یہ دونوں خط لپیٹ کر حضرت علی کو بھیج دیے اور ایک خط اپنی طرف سے لکھا:’’ابن العاص کے مصر میں داخلے کے بعد معاویہ کے تمام حامی ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔سوار دستوں اور مال سے فوراً میری مدد کیجیے‘‘۔حضرت علی نے جواب بھیجا:’’تمھارے ساتھیوں نے کم زوری دکھائی ہے، لیکن تم بزدلی ہرگز نہ دکھانا۔اپنے شہر کو محفوظ بنا کر اپنے حامیوں کو اکٹھا کر لو۔کنانہ بن بشر سے مدد لے لوجو ہم سے خیر خواہی اور اپنی دلیری کی وجہ سے مشہور ہے۔ میں تمھاری مدد کے لیے لوگ اکٹھے کر رہا ہوں۔اپنی بصیرت سے کام لو اور صبر اور ثواب کی نیت سے جہاد جاری رکھو‘‘۔محمد بن ابوبکر نے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت معاویہ کے خطوط کا جواب بھی دیااور انھیں باطل پرست قرار دیا۔حضرت عمرو نے خط پڑھ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔انھوں نے شام ومصر کی مشترکہ سولہ ہزار کی فوج لے کر مسناۃ کے مقام پر پیش قدمی کی تو محمد بن ابوبکر بھی دوہزار سپاہیوں کی فوج لے کرآ پہنچا، کنانہ بن بشر مقدمہ پر مامورتھا۔حضرت عمرو نے اپنے لشکر کو کئی دستوں میں تقسیم کیا اور یکے بعد دیگرے کنانہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا، لیکن کنانہ نے ان سب کوپیچھے دھکیل دیا۔آخرمیں انھوں نے حضرت معاویہ بن حدیج کو بھیجا جو سیاہ آندھی کی طرح عقب سے آئے اور کنانہ اور اس کے سپاہیوں کو گھیرے میں لے لیا۔کنانہ نے دیکھا کہ اس کی فوج گھر چکی ہے تو وہ اور اس کے ساتھی گھوڑوں سے اترے۔ اس حال میں وہ کب تک لڑتے، تلوار زنی کرتے کرتے سب مارے گئے۔کنانہ کے قتل کے بعد محمد بن ابوبکر کے تمام ساتھی چھٹ گئے۔ اس نے حضرت عمرو کو اپنی طرف آتے دیکھا توبھاگ کھڑا ہوا۔ شہرکی گلیوں میں دوڑتے ہوئے اسے ایک بے آبادچھپنے کی جگہ نظر آئی تو وہ اس میں گھس گیا۔حضرت عمرو شہر فسطاط میں داخل ہو گئے اور حضرت معاویہ بن حدیج محمد کو ڈھونڈنے لگے۔آخر کار ایک شخص نے انھیں بتایا کہ اس نے اس ویرانے میں ایک آدمی بیٹھا دیکھا ہے۔ حضرت معاویہ بھوکے پیاسے محمد کو پکڑکر فسطاط لے آئے۔ حضرت عمرو بن العاص کی فوج میں شامل حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر نے اپنے بھائی کو بندھا ہوا دیکھاتو کہا : کیا تم اسے ترسا ترسا کر مارو گے؟انھوں نے حضرت عمرو بن العاص سے التماس کی کہ حضرت معاویہ کو اس کے قتل سے روکا جائے۔ حضرت معاویہ بن حدیج نے حضرت عمرو کی ہدایت کے باوجوداسے چھوڑنے سے انکار کردیا اور کہا:میں نے عثمان کے قصاص میں اپنی قوم کے اسّی (۸۰) آدمیوں کو قتل کیا ہے،تجھے کیسے چھوڑ دوں ؟محمد نے پانی مانگا تو کہا: تم لوگوں نے عثمان کا پانی بند کر دیا تھا اور انھیں روزے کی حالت میں ناحق قتل کیا تھا۔اللہ مجھے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پلائے اگر میں تجھے پانی دے جاؤں۔میں تجھے گدھے کی کھال میں گھسا کر اسے آگ لگا ؤں گا۔محمد نے جواب دیا:اللہ کے اولیا سے ایسا سلوک ہوتا آیا ہے۔ طویل مکالمے کے بعد حضرت معاویہ بن حدیج نے کہا: میں تجھے قصاص عثمان میں قتل کر رہا ہوں۔محمد بن ابوبکر نے کہا: عثمان نے ظلم سے حکومت کی اور قرآن کے حکم کو پس پشت ڈالا، اس لیے ہم نے ان کو ختم کیا۔انھوں نے حضرت عثمان، حضرت معاویہ بن ابوسفیان، حضرت عمرو اور حضرت معاویہ بن حدیج کو گالیاں دیں،اس پر حضرت معاویہ بن حدیج کو غصہ آیا۔انھوں نے محمد کوقتل کیا، پھر مردہ گدھے کی کھال میں لپیٹ کر جلا دیا۔محمد کوجس گلی میں جلایا گیا،یعقوبی نے اس کا نام ’زقاق حوف‘بتایا ہے۔ واقدی کی روایت کے مطابق محمدجبلہ بن مسروق کے پاس چھپا۔حضرت معاویہ بن حدیج نے اسے گھیرے میں لے لیا تو وہ لڑتا ہوا جاں بحق ہوا۔
حضرت علی کومحمدبن ابوبکر کاخط ملا تو فوراًمنادی کرائی اور اہل کوفہ کو جمع کر کے بتایا کہ عمرو بن العاص فوج لے کر مصر پہنچ چکے ہیں اور اب ہمیں محمد کی نصرت کے لیے کمک بھیجنا ہے۔آپ لوگ علی الصبح (کوفہ وحیرہ کے مابین واقع)جرعہ کے مقام پر اکٹھے ہوں۔اگلے روز حضرت علی طلوع آفتاب کے وقت جرعہ پہنچے اور ظہر تک وہیں قیام کیا،لیکن ایک شخص بھی نہ آیا، حالاں کہ ان کی فوج میں کوفیوں کی تعدادتریسٹھ ہزار تھی۔وہ لاچار ہو کر کوفہ واپس آئے اور شام کے وقت شہر کے شرفا ورؤسا کو طلب کیااورملول ہو کرفرمایا: ’’اﷲ نے تمھارے ذریعے سے مجھے آزمایش میں مبتلا کیا ہے، بلاتا ہوں تو سن کر نہیں دیتے اور کچھ کرنے کو کہتا ہوں تو ماننے کی طرف نہیں آتے، حالاں کہ دشمن تمھارے شہروں میں گھس آیا ہے اور تمھارے بھائیوں پرغارت گری کر رہا ہے۔ معاویہ سال میں تین تین بار بلاتے ہیں تو نچلے طبقوں کے گنوار بھی بے تنخواہ بھاگے چلے آتے ہیں‘‘۔اس پر کعب بن مالک ارحبی نے لوگوں سے خطاب کیا:لوگو، اﷲ سے ڈرو اور اپنے امام کی پکارپر لبیک کہو، میں بھی تمھارے ساتھ چلوں گا۔ تب دو ہزار افراد جانے کے لیے نکل آئے۔حضرت علی نے انھیں کعب بن مالک کی قیادت میں رخصت کیا۔یہ لشکر پانچ میل دورگیا ہو گاکہ حضرت حجاج بن غزیہ مصر سے آئے اور محمد بن ابوبکر کے قتل کی خبر سنائی۔شام میں حضرت علی کے جاسوس عبدالرحمٰن بن شبیب بھی پہنچے اور بتایا کہ اہل شام محمد کے قتل سے بہت خوش ہیں۔ حضرت علی نے کہا:ہمیں محمد بن ابوبکر کے قتل کا شامیوں کو ملنے والی خوشی سے کئی گنا زیادہ غم ہے۔ پھر عبدالرحمٰن بن شریح کو بھیج کر کعب کی فوج کو واپس بلا لیا۔
حضرت علی نے اس موقع پر لوگوں سے خطاب بھی کیا:’’مصر فاسقوں اور ظالموں نے فتح کر لیا ہے اور محمد نے شہادت پائی۔میں اپنے آپ کو کسی کوتاہی پر ملامت نہیں کرسکتا،میں تو جنگوں کی سختیاں برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ پچھلے پچیس دنوں سے تمھیں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے بلاتا رہا، مگر تم چوڑی تھوتنی والے اونٹ کی طرح غرغرے کرتے رہے۔میری کوئی بات سنتے ہو،نہ مانتے ہو، حتیٰ کہ برے انجام دیکھنے پڑتے ہیں۔ پہلے زمین سے چپک رہے، پھر ایک چھوٹاساانبوہ ڈانواں ڈول ہوکر نکلا، گویا انھیں دیکھتے بھالتے موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے‘‘۔
حضرت علی نے حضرت عبداللہ بن عباس کو تعزیت کا خط بھی لکھا:’’ہم محمد کی موت کو اللہ کے ہاں اجر پانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھے ان نکمے ساتھیوں سے جلد چھٹکارااور نجات دے دے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے جواب میں لکھا:’’لوگ کبھی سہل انگار ہوتے ہیں، پھر چست بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے امیر المومنین،ان سے نرم برتاؤ اور ان پر احسان کریں۔اللہ ان کی طرف سے پہنچنے والارنج دور کر دے گا‘‘ ۔
ایک موقع پر حضرت علی نے فرمایا:’’محمد نوجوان لڑکا تھا، کاش میں اس کے بجاے ہاشم بن عتبہ (لقب: مرقال،تیز دوڑنے والا)کو مصر کا والی بنادیتا۔وہ عمرو بن العاص اور اس کے فاجر مدد گاروں کے لیے میدان خالی نہ چھوڑتا‘‘۔
حضرت معاویہ بن حدیج نے محمد بن ابوبکر کا قمیص دے کر اپنے غلام سلیم کواس کے قتل کی بشارت دینے کے لیے مدینہ بھیجا۔ چنانچہ حضرت عثمان کے گھر میں ان کے تمام اہل خانہ، مردا ور عورتیں جمع ہوئیں اور محمد کے انجام پر مسرت کا اظہار کیا۔دوسری طرف حضرت عائشہ نے اپنے سوتیلے بھائی کے قتل پر بہت دکھ کا اظہار کیا۔وہ ہر نماز کے بعد دعاے قنوت پڑھتیں او ر حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص کے لیے بددعا کرتیں۔
۳۸ھ :مصر پر قبضہ کرنے کے بعد حضرت معاویہ کا حوصلہ بڑھا اورانھوں نے بصرہ کو زیر کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔بہت سے اہل بصرہ حضرت عثمان کا قصاص چاہتے تھے اور حضرت علی سے نا خوش تھے۔ حضرت معاویہ نے عبداﷲ بن عمرو بن حضرمی کو بصرہ بھیجا تاکہ وہ مضر، ازد اور دیگر قبائل کو اکٹھا کر کے حضرت عثمان کے حامیوں کو منظم کرے،یہ لوگ قصاص کا مطالبہ کرتے ہوئے جانیں دے چکے تھے۔حضرت معاویہ نے بنوربیعہ سے بچنے کی ہدایت کی اورکہا:یہ سب ترابی، یعنی حضرت علی کے حمایتی ہیں۔اس وقت حضرت علی کے مقرر کردہ گورنر بصرہ حضرت عبداﷲ بن عباس شہر میں موجود نہ تھے۔ وہ زیاد بن ابیہ کو قائم مقام مقرر کر کے حضرت علی سے ملنے کوفہ گئے ہوئے تھے۔ ابن حضرمی کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا، بصرہ پہنچ کروہ بنو تمیم کے ہاں ٹھیرا۔حضرت عثمان کو چاہنے والے اس سے ملنے آئے تو اس نے کہا: علی، عثمان کی شہادت کے ذمہ دار ہیں۔ کوتوال ضحاک بن قیس نے اسے ڈانٹااور کہا:تم طلحہ و زبیر کی طرح ہمیں دوبارہ لڑانا چاہتے ہو تاکہ معاویہ امیر بن جائیں۔ ہم علی کی بیعت پر متفق ہو چکے ہیں، وہ ہم میں سے لغزش کھاکر قتال کرنے والوں کو معاف کرچکے ہیں۔ واللہ،علی کی حکومت کاایک دن معاویہ کے کئی ایام سے بہتر ہے۔ عبداﷲ بن خازم نے کھڑے ہو کر ضحاک کو خاموش کرایا اورابن حضرمی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔بقیہ اہل بصرہ میں بھی پھوٹ پڑ گئی، احنف بن قیس اور عمرو بن مرحوم نے حضرت علی کی اطاعت سے چپکے رہنے پر زور دیا، جب کہ عباس بن صحارنے ابن حضرمی کاساتھ دینے کا اعلا ن کیا۔ مثنیٰ بن مخربہ نے ابن حضرمی سے کہا:واپس چلے جاؤ،نہیں تو ہم تلواروں اور نیزوں سے قتال کریں گے۔
ادھر قائم مقام گورنر زیاد بن ابیہ نے قبیلۂ بکر بن وائل کے لیڈروں حضین بن منذر اورمالک بن مسمع سے اپیل کی کہ امیر المومنین علی کا حکم آنے تک اس کا ساتھ دیں۔حضین نے ہامی بھر لی، جب کہ مالک نے جو بنوامیہ کی طرف مائل تھا،لیت و لعل کی۔زیاد کو بنو ربیعہ کی طرف سے بھی اختلاف کا اندیشہ ہوا توبنو ازد کی شاخ بنوحدان کے صبرہ بن شیمان کے گھر پناہ لی اور بنو ازد سے مدد مانگی، لیکن انھوں نے بھی ٹال مٹول کی۔ یہ حالات دیکھ کر زیاد نے حضرت علی کوخط لکھا: ’’ابن حضرمی شام سے آیا ہوا ہے اور بنو تمیم کے ہاں ٹھیرا ہواہے۔بنوتمیم اور بصرہ کے اکثر شہریوں نے اس کی بیعت کر لی ہے۔میرے ساتھ اتنے لوگ نہیں رہے کہ اپنا دفاع کر سکوں،اس لیے صبرہ بن شیمان کی پناہ لی ہے اور بیت المال اس کی حفاظت میں دے دیا ہے‘‘۔حیرت ہے کہ ابن حضرمی بھی صبرہ سے پناہ طلب کر چکا تھا اور اس نے اسے بھی اپنے گھر منتقل ہونے کی شرط پرپناہ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی(ابن اثیر)۔
خط ملتے ہی حضرت علی نے اعین بن ضبیعہ کو زیاد کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ابن حضرمی کے گرد جمع لوگوں میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ اگر وہ چھٹ جائیں تو درست،لیکن اگر وہ اڑ جائیں تو ان پر ٹوٹ پڑنا۔ اگر تمھیں اپنے ساتھیوں کی طرف سے کم زوری نظر آئے تو انھیں کچھ مہلت دینا۔
اعین بصرہ پہنچ کر زیاد بن ابیہ سے ملا،پھر اپنی قوم بنو مجاشع (بنو تمیم کی شاخ)کے پاس آیا اور کچھ آدمیوں کو جمع کر کے ابن حضرمی کے پاس پہنچااوراسے فتنہ انگیزی سے رکنے اورامت میں اختلاف پیدا نہ کرنے کی دعوت دی۔ابن حضرمی کے ساتھیوں نے اسے گالیاں دیں اوربرا بھلا کہا۔وہ واپس جا رہا تھا کہ خوارج یا ابن حضرمی کے بھیجے ہوئے لوگوں نے اس پر حملہ کیا اوراسے قتل کر دیا۔ذہبی کہتے ہیں کہ اعین کو سوتے ہوئے بستر پر مارا گیا۔
اعین کے قتل کے بعد گورنر زیاد بن ابیہ نے بنو تمیم سے جنگ کا ارادہ کیاتو بنوتمیم نے اسے پیغام بھیجا کہ ہم تمھاری پناہ میں آئے شخص پرہاتھ نہیں اٹھاتے، تم بھی ہماری پناہ دیے سے تعرض نہ کرو۔اس پر بنوازد نے جنگ کا ارادہ ترک کر دیا۔ تب زیاد بن ابیہ نے حضرت علی کو ایک اور خط لکھا، انھیں اعین کے قتل کی خبر دی او ربتایا کہ میں بنوتمیم سے جنگ نہیں کر سکا، کیونکہ کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔خط پڑھ کر حضرت علی نے حضرت جاریہ (حارثہ:ابن جوزی)بن قدامہ کو بنو تمیم کے پچاس(دوسری روایت :پانچ سو)آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ حضرت جاریہ بصرہ پہنچ کر زیادسے ملے تواس نے انھیں نصیحت کی کہ اپنی قوم کے کسی فرد پر بھروسا نہ کرنا، کہیں تمھارابھی اعین جیسا حشر نہ ہو۔ انھوں نے حضرت علی کا خط پڑھ کر سنایا جس میں بصرہ کے لوگوں کے طرزعمل پر توبیخ کی گئی۔اس پر ان کی اکثر یت نے رجوع کیا اور حضرت علی کی سمع و طاعت کا عہد کیا۔حضرت جاریہ اب اپنی قوم بنوسعد اور بنوازد کے دستوں کو لے کر ابن حضرمی کی سپاہ پر حملہ آور ہوئے۔عبداللہ بن خازم نے ان کے گھڑ سواروں کی کمان سنبھال رکھی تھی۔گھنٹا بھر کی لڑائی کے بعد ابن حضرمی نے شکست کھائی اورابن خازم اور دوسرے بصری ساتھیوں کے ساتھ بنو تمیم کے قصر سنبیل میں قلعہ بند ہوا۔ابن خازم کو اس کی حبشی ماں عجلٰی نے اپنے کپڑے اتارنے کی دھمکی دی تو وہ نکل آیااور بچ گیا۔ ابن حضرمی کو اطاعت کی دعوت دی گئی اور ڈرایا دھمکایا گیا۔وہ نہ مانا تو حضر ت جاریہ نے قصر کو آگ لگوا دی،اس طرح قصر منہدم ہوا اورابن حضرمی اپنے ستر ساتھیوں سمیت جل کر خاکستر ہوا۔
۳۸ھ: بنو ناجیہ کا خریت بن راشد اپنے تین سو ساتھیوں سمیت جمل، صفین (اور نہروان:طبری) کی جنگوں میں حضرت علی کا ساتھ دے چکا تھا۔وہ اسی سال تیس سواروں کے ساتھ آیا اورحضرت علی کے سامنے کھڑے ہو کر کہا: اب میں آپ کی اطاعت کروں گا، نہ آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا اور کل آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ حضرت علی نے کہا:تیری ماں تجھ پر روئے،تب توتم اپنے رب کے نافرمان ہو جاؤ گے اور نقض عہد بیعت کا ارتکاب کرکے اپنا ہی نقصان کرو گے۔ یہ بھی بتاؤ کہ تم یہ حرکت کر کیوں رہے ہو؟خریت نے کہا:آپ نے کتاب اللہ میں حکم قبول کیے اور حق کے معاملہ میں کم زوری دکھائی، جب کہ کوشش پوری ہو چکی تھی۔حضرت علی نے کہا: میں کتاب و سنت کی روشنی میں وہ معاملات بتاتا ہوں جو تم سے بہتر جانتا ہوں، شاید توسمجھ جائے۔ اس نے کہا:میں پھر آؤں گا۔ حضرت علی نے کہا: شیطان تمھیں دھوکے میں اور جاہل لوگ شرمندگی میں نہ مبتلا کر دیں۔خریت کے چچا زادمدرک بن الریان کا دوست عبداللہ بن فقیم یہ ساری گفتگو سن رہا تھا۔وہ خریت کے پیچھے پیچھے گیا۔خریت نے اپنے ساتھیوں کو جو اس کے گھر جمع تھے،بتایاکہ میں کل علی سے قطعی جدائی اختیار کر لوں گا۔اس کے زیادہ تر دوستوں نے کہا کہ کل ان سے ملاقات کر کے ان کی بات سننا اور اگر مناسب ہوا تو قبول کر لینا۔عبداللہ بن فقیم بھی اجازت لے کر گھر میں داخل ہوا اور کہا:اگر تو امیرالمومنین کا ساتھ چھوڑے گا توانھیں تم پر دست درازی کا حق حاصل ہو جائے گا۔اس صورت میں تو خود اور تیرے اہل قبیلہ بھی مارے جائیں گے۔عبداللہ اپنے دوست اور خریت کے چچا زادمدرک کے پاس بھی گیا اور کہا کہ اپنے چچیرے کو سمجھا اور اس کی راے بدلنے کی کوشش کر۔مدرک نے جواب دیا: اگر اس نے امیر المومنین کا ساتھ چھوڑا تو میں اسے چھوڑ دوں گا۔عبداﷲبن فقیم اگلے روز چاشت کے وقت حضرت علی کی خدمت میں پھرحاضر ہوا اور انھیں گذشتہ روزکی روداد سنا کر مشورہ دیا :کیوں نہ خریت کو ابھی پکڑ کر قید کر لیا جائے۔حضرت علی نے کہا: اس نے حق قبول کیا تو ہم اس کا عذر قبول کر لیں گے۔ اگر ہم بغاوت اور نافرمانی کا الزام لگنے والے تمام لوگوں کوبند کردیں توقید خانے بھر جائیں گے۔ میں لوگوں کی پکڑ دھکڑ کرنا اور انھیں سزا دینا اس وقت تک مناسب نہیں سمجھتا جب تک وہ کھلم کھلا بغاوت نہ کر دیں۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی نے عبداللہ کو بلا کر حکم دیا کہ اس کے گھر جا کر دیکھو کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ عبداللہ نے آ کر خبر دی کہ وہ اوراس کے تمام ساتھی کوفہ سے جا چکے ہیں۔حضرت علی نے فرمایا:یہ ہلاک ہوں گے، جیسے قوم ثمود برباد ہوئی۔آج تو شیطان نے ان لوگوں کو تمناؤں میں مبتلا کر کے گم راہ کر رکھا ہے،کل کوان سے بری الذمہ ہوجائے گا۔
زیاد بن خصفہ نے کھڑے ہو کرکہا: امیرالمومنین ، ہمیں ان کے جانے پر افسوس نہیں کرنا چاہیے،تاہم اندیشہ ہے کہ وہ ہماری اطاعت کرنے والے بہت سے لوگوں کوبے راہ کردیں گے۔مجھے ان کا پیچھا کرنے کی اجازت دے دیجیے تاکہ میں انھیں پکڑ کر آپ کے پاس لے آؤں۔حضرت علی نے کہا: تمھیں خبر ہے کہ وہ کہاں گئے ہیں ؟زیاد نے کہا:نہیں ، میں پوچھ لوں گا اور ان کے نقش قدم کا پیچھا کروں گا۔حضرت علی نے کہا:دیر ابو موسیٰ پہنچ کر رک جاؤ اور میرا حکم آنے تک آگے نہ جانا۔اگر وہ علانیہ جماعت کی صورت میں نکلے ہیں تو میرے عامل مجھے اطلاع کر دیں گے۔اگر الگ الگ،چھپ چھپا کر گئے ہوئے تو ان کے علم میں نہ ہوگا۔اس کے بعد حضرت علی نے عمال کے نام حکم نامہ لکھوایا: ’’کچھ لوگ کوفہ سے بھاگ نکلے ہیں۔چاروں طرف اپنے جاسوس پھیلا دو اور مجھے اطلاع کرو‘‘۔زیاد بن خصفہ اپنے گھر گیا، اپنے ساتھیوں کوجمع کیا اور بکر بن وائل سے خطاب کیا:’’امیر المومنین نے مجھے ایک اہم مہم پر بھیجا ہے۔تم لوگ ان کی جماعت اور انصار میں شامل ہو اورانھیں تمھارے قبیلے پر سب سے زیادہ اعتما د ہے۔اسی وقت میرے ساتھ چلو اور عجلت سے کام لو‘‘۔ایک گھنٹے کے اندر ایک سو بیس (یا ایک سو تیس)رضاکار تیار ہو گئے۔یہ دستہ کوفہ سے نکلا اوردریائے فرات کاپل پار کر کے دیر ابو موسیٰ پہنچا اور امیر المومنین کے حکم کے انتظار میں تمام دن وہاں مقیم رہا۔
ادھرحضرت قرظہ بن کعب نے حضرت علی کو اطلاع بھیجی کہ کچھ سوار کوفہ کی جانب سے آئے، پھرنواحی بستی نِفّر کا رخ کیا۔ فرات کے نشیبی علاقے میں انھیں ایک نومسلم جاگیر دارزاذان فرخ ملا۔انھوں نے حضرت علی کے بارے میں اس کی راے پوچھی،جب اس نے ان کی مدح کی تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چلتے بنے۔انھیں ایک ذمی بھی ملا تو اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ ذمیوں کا قتل ہمارے لیے جائز نہیں۔حضرت علی نے جواب میں خط لکھا:’’جس جماعت نے مسلمان کو قتل کیا اور کافر کو چھوڑ دیا، یہ وہی لوگ ہیں جنھیں شیطان نے گم راہ کر دیا ہے‘‘۔حضرت علی نے زیاد بن خصفہ کو بھی خط لکھا:’’مجھے ابھی پتا چلا ہے کہ یہ لوگ نِفّر نامی گاؤں کی طرف گئے ہیں۔ان کا پیچھا کرو اور انھیں پکڑ کر لے آؤ۔اگر وہ انکار کریں تو ان کا مقابلہ کرنا اور اللہ سے مدد طلب کرنا‘‘۔حضرت علی کے نامہ بر عبداللہ بن وال نے پوچھا:امیر المومنین،میں خط پہنچا کر دشمن کے مقابلے پر نہ نکل جاؤں ؟حضرت علی نے کہا:میری تو آرزو ہے کہ تو ظالم قوم کے خلاف میرا مددگار بن جائے۔ادھر زیاد نے بھی عبداللہ کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے دی۔ دیر ابوموسیٰ سے یہ دستہ نِفّر پہنچا تو معلوم ہوا کہ خارجی جرجرایاکی طرف چلے گئے ہیں۔جرجرایا جا کر علم ہوا کہ وہ مذار گئے ہیں۔ مذار کے مقام پر زیاد نے انھیں جا لیا،وہ ایک دن آرام کرنے کے بعد وہاں سے بھی چلنے کو تیار کھڑے تھے، جب کہ زیاد کی فوج تھکی ہوئی تھی۔
خریت نے زیاد کوآتے دیکھا تو پکارا: تم اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت کا ساتھ دیتے ہو یا ظالموں کے ساتھ ہو؟زیاد نے جواب دیا: ہم اللہ کے ساتھ ہیں، اس کے احکام کو مانتے اور اس کے رسول کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔خریت نے پوچھا: تمھاراارادہ کیا ہے؟زیاد نے کہا:تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تھکے ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سواریوں سے اتر کر بالمشافہ گفتگو کرلیں۔زیادکی فوج ایک چشمے پر اتری، خود کھایا پیا اور گھوڑوں کو بھی چارہ دیا۔پھرباہمی رضامندی کے بعد طرفین کی طرف سے پانچ پانچ افراد مکالمہ کرنے آئے، اس اثنا میں دونوں فریق جنگ کی تیاری بھی کر چکے تھے۔زیاد نے خریت سے سوال کیا:تم نے کون سی خامی دیکھنے پر امیرا لمومنین کا ساتھ چھوڑا؟خریت بولا:میں ان کی سیرت سے خوش نہیں،میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کے مشورے سے نیا خلیفہ چنا جائے۔زیاد نے پوچھا : کیا امت ایسے خلیفہ پر متفق ہو سکتی ہے جو علی کے برابر کتاب اللہ اورسنت رسول کا علم رکھتاہواوراسلام کی طرف سبقت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قر ابت داری میں ان کے مانند ہو؟خریت نے کہا: میں نے جو کہنا تھا،کہہ دیا۔زیاد نے پوچھا: تم نے اس مسلمان دہقان کوقتل کیوں کیا تھا؟خریت نے کہا: اسے میں نے نہیں،میری جماعت کے لوگوں نے قتل کیا۔زیاد نے کہا:تو پھر اس کے قاتلوں کو ہمارے سپرد کر دو۔ خریت بولا: مجھے اس کا اختیار نہیں۔اب دونوں فوجیں صف آرا ہو گئیں۔ ایسی سخت جنگ ہوئی کہ نیزے ٹوٹے، تلواروں میں خم آگیا، گھوڑوں کی ٹانگیں ناکارہ ہوئیں اور طرفین کے اکثر لوگ زخمی ہو گئے۔ زیادکا غلام سوید اور اس کے دستے میں شامل وافد بن بکر شہید ہوئے، وہ خود زخمی ہوا۔ خریت کے پانچ ساتھی مارے گئے۔رات گئے لڑائی بند ہوئی۔ میدان جنگ کی ایک جانب زیادکا دستہ اور دوسری طرف خریت کے سپاہی پڑ گئے۔کچھ رات گزری تو خریت نے راہ فرار اختیار کی۔ زیادبن خصفہ نے بصرہ تک اس کا پیچھا کیا، لیکن خریت اہواز کی طرف نکل گیا اور زیاد بصرہ میں داخل ہو گیا۔
زیاد نے خط لکھ کر حضرت علی کو صورت حال سے آ گاہ کیا۔ان کی مجلس میں حاضرحضرت معقل بن قیس نے خط کا مضمون سنا توکھڑے ہو کر عرض کیا :امیر المومنین، آپ خارجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم دس گنا بڑا لشکر روانہ کریں۔برابر کے ٹکراؤ میں عرب ثابت قدمی دکھاتے ہیں۔حضرت علی نے حضرت معقل سے کہا: تم خودجانے کی تیاری کرو۔کوفہ کے دو ہزار افرادان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوئے۔حضرت علی نے حضرت عبداللہ بن عباس کو بھی خط لکھا:’’دو ہزار کی فوج ایک آزمودہ کار،بہادر،نیکی میں مشہورشخص کی قیادت میں بھیجو۔اسے حکم دو کہ وہ معقل کے لشکر میں مل جائے۔مشترکہ فوج کا سالار معقل ہو گا۔ زیاد بن خصفہ کو حکم دو کہ اپنے ساتھیوں کو لے کرکوفہ آ جائے‘‘۔حضرت علی نے زیاد کو ایک الگ خط بھی لکھا۔
خریت بن راشد نے اہواز کی ا یک جانب ڈیرا ڈال دیا۔اس کے خاندان کے بہت سے کاشت کار او راہواز کے گنواراور چوراس کے پاس جمع ہوگئے۔ انھوں نے خراج دینے سے انکار کر دیا اور مل کر کرمان اور فارس پر حضرت علی کے مقرر کردہ عامل حضرت سہل بن حنیف کو نکال باہر کیا(ایک قول کے مطابق حضرت سہل اس واقعہ سے قبل ۳۷ھ میں وفات پا چکے تھے)۔ حضرت عبداﷲ بن عباس نے مشورہ دیا کہ بصرہ کے قائم مقام حاکم زیاد بن ابیہ کو فارس بھیج دیا جائے،وہ وہاں کے لیے کافی ہوں گے۔چنانچہ زیاد ایک بڑی فوج لے کر فارس روانہ ہوئے۔ انھوں نے کچھ لوگوں کو طمع دلائی، کچھ کو ڈرایا دھمکایا۔ نتیجتاً اہل فارس بغیر لڑائی کے مطیع ہوئے اور خراج دینے پر آمادہ ہوگئے۔
حضرت معقل بن قیس اہواز روانہ ہونے سے پہلے حضرت علی کے پاس آئے تو انھوں نے نصیحت کی:’’اللہ سے ڈرنا،اہل قبلہ پر دست درازی نہ کرنا،اہل ذمہ پر ظلم نہ کرنااور تکبر نہ کرنا،اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔حضرت معقل نے اہوازپہنچ کر پڑاؤ ڈالا اور بصرہ سے لشکر کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ جب بہت تاخیر ہو ئی تو یہ کہہ کرکہ واللہ،ہمیں کوئی خوف ہے،نہ ہم واپس جانا چاہتے ہیں،آگے چل پڑے۔ ایک ہی روزکا سفر کیا تھاکہ قاصد حضرت عبداللہ بن عباس کا خط لے کر پہنچاجس میں رک کر کمک کاانتظار کرنے کی ہدایت تحریر تھی۔اگلے دن خالد بن معدان کی قیادت میں مزید فوج آئی تو خریت کی تلاش شروع ہوئی۔شہریوں نے بتایا کہ خریت اور اس کے ساتھی رامہرمز کے ایک پہاڑپرواقع قلعہ میں محفوظ ہونے جا رہے ہیں۔حضرت معقل اورخالد بن معدان نے ان کا پیچھا کیا،خارجی پہاڑکے قریب پہنچ چکے تھے۔وہیں میدان جنگ لگ گیا اور فوجیں صف آرا ہوگئیں۔حضرت معقل نے میمنہ پر یزید بن مغفل (معقل: ابن اثیر)اور میسرہ پر خالد کی فوج میں شامل منجاب بن راشد کو مقرر کیا۔خریت نے عربوں اور اپنے ساتھیوں کو میمنہ میں رکھا،کاشت کاروں، خراج کے منکروں اور کردوں کو میسرہ میں متعین کیا۔حضرت معقل نے ہر صف میں جا کر اپنی فوج کوانگیخت کیا اور یہ کہہ کر جوش دلایا کہ دین سے خارج ہونے والے باغی تمھارے مدمقابل ہیں۔نگاہیں نیچی رکھو اور اپنی توجہ نیزہ بازی اور شمشیر زنی پر مرکوزکر دو۔پھر وہ لشکر کے قلب میں کھڑے ہوئے، دو دفعہ اپنا سر ہلایا، ان کی تیسری جنبش پر فوج دشمن پر ٹوٹ پڑی۔ کچھ دیر مقابلہ کرنے کے بعد خریت کی مخلوط فوج نے شکست کھائی۔ بنوناجیہ اور عربوں کے سترافراد، جب کہ کردوں اور عجمی کاشت کاروں کے تین سو اشخاص مارے گئے۔ خریت بچ نکلا اورعمان کے ساحل پر آباد اپنی قوم میں چلا گیا۔وہ برابر لوگوں کوحضرت علی کے خلاف اکساتا رہا اورکہتا رہا کہ جنگ کرنے ہی میں ہدایت ہے۔خوارج کی ہاں میں ہاں ملاتا، مانعین زکوٰۃ کو تھپکی دیتا اور حضرت عثمان کے حامیوں سے ہم دردی جتاتا۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات دیکھ کرنو مسلم عیسائی دوبارہ عیسائیت کی طرف مائل ہونے لگے تو خریت نے انھیں ڈرایا کہ تم علی کا ساتھ دو گے تو وہ ارتداد کا فتویٰ لگاکر تمھارے قتل کا حکم دے دیں گے،اس لیے خود بچنے کے لیے تمھارا ان کو ختم کرنا ضروری ہے۔
حضرت معقل اہواز میں رک گئے، حضرت علی کوفتح کی خوش خبری کا خط ارسال کیااور بتایاکہ ہم نے آپ کی ہدایات سے تجاوز نہیں کیا۔حضرت علی نے خط پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور مشورہ طلب کیا۔ حاضرین نے راے دی کہ خریت فاسق کا پیچھا کیا جائے اور اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ حضرت علی کے حکم پر حضرت معقل ساحل سمندر پر پہنچے، امان کا پرچم گاڑ دیا اور اعلان کیا،خریت اور ا س کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے والے اس کے اولین ساتھیوں کے ما سوا جو لوگ اس پرچم کے پاس پہنچ جائیں گے، انھیں امان دے دی جائے گی۔ خریت کا ساتھ دینے والے دوسری قوموں کے اکثرلوگ علم امان تلے آگئے، بنوناجیہ کے مسلمان اورعیسائی اور زکوٰۃ کا انکار کرنے والے اس کے ساتھ رہ گئے۔ حضرت معقل نے فوج کو خریت کے ٹھکانوں کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے فوج کو دلیری دلائی کہ مرتدوں، علی کی بیعت توڑنے والوں اور خراج کا انکار کرنے والوں سے خوب جم کر لڑنا! ان شاء اﷲ شہدا کو جنت ملے گی اور غازی فتح سے سرشار ہوں گے۔شدید جنگ ہوئی، نعمان بن صہبان نے خریت کو دیکھتے ہی تاک کر نیزہ مارا اور گھوڑے سے گرا دیا اور پھر تلوار مار کر جہنم رسید کردیا، اس کے ایک سو ستر سپاہی مارے گئے،باقی فرار ہو گئے یا قید کر لیے گئے۔حضرت معقل نے مرتدین کو رجوع کرنے کی دعوت دی اوردائرۂ اسلام میں ازسر نو آنے والے تمام لوگوں کو چھوڑ دیا۔ ایک بوڑھا نصرانی رماحس نہ مانا تو اسے قتل کر دیا گیا۔ مانعین زکوٰۃ و خراج سے گذشتہ دو سالوں کی وصولی کی گئی۔ پھر حضرت علی کو فتح کی خبر بھیجی گئی۔
واپسی کے سفر میں حضرت معقل کا گزر اردشیرخرہ پرحضرت علی کے مقررہ عامل مصقلہ بن ہبیرہ پر ہوا۔ حضرت معقل کی تحویل میں آئے ہوئے پانچ سو جنگی قیدی مصقلہ کی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔مصقلہ کودیکھ کراسیر عورتیں اور بچے رونے لگے۔مردوں نے بھی احسان کرنے یا خرید کر آزاد کرنے کی التجائیں کرنا شروع کر دیں۔مصقلہ نے قسم کھائی کہ میں تم پر ضرور صدقہ کروں گا، پھر ان سب غلاموں اورلونڈ یوں کا پانچ لاکھ درہم میں سودا کر لیا۔حضرت معقل نے رقم جلد حضرت علی کو بھیجنے کا کہاتو اس نے جواب دیا: میں کچھ رقم ابھی بھیجتا ہوں اور بقیہ تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کروں گا۔مصقلہ نے تمام غلام کوئی رقم لیے بغیر آزاد کر دیے توحضرت علی نے کہا:مصقلہ نے اتنا بوجھ اٹھا لیا ہے جو اٹھانے سے جلد ہی قاصر ہو جائے گا۔انھوں نے اسے طلب کیا تو وہ کوفہ آنے کے بجاے بصرہ پہنچا اوربمشکل دو لاکھ درہم (یا ایک لاکھ باختلاف روایت) گورنرحضرت عبداللہ بن عباس کو ادا کیے۔بعد میں ذہل بن حارث سے کہا: امیرالمومنین مال مانگ رہے ہیں اور میں ادا نہیں کر سکتا۔ان کی جگہ ابن ہند(حضرت معاویہ )ہوتے تو کبھی تقاضا نہ کرتے۔سیدنا عثمان بن عفان ہوتے تواتنی رقم ہبہ ہی کر دیتے۔اسی رات فرار ہو کر مصقلہ حضرت معاویہ سے جا ملا۔حضرت علی نے کہا:اﷲ اسے رنجور کرے! اس نے سرداروں والا عمل کیا، غلاموں کی طر ح فرار ہوا اور فاجروں کے مانند خیانت کی۔ میں زیادہ سے زیادہ اسے قید کی سزا دیتا،کچھ مل جاتا تو لے لیتا، ورنہ چھوڑ دیتا، پھر اس کا گھر ڈھانے کا حکم دیا اور قیدیوں کی آزادی برقرار رکھی۔حضرت علی نے فرمایا:خریدار نے غلاموں کو آزاد کیا،اب ان کے اثمان اسی کے ذمہ قرض ہیں۔ مصقلہ کا بھا ئی نعیم بن ہبیرہ حضرت علی کی سپاہ میں تھا،شام پہنچنے کے بعدمصقلہ نے اپنے عیسائی قاصد حلوان کے ذریعے سے اسے پیغام بھیجا کہ حضرت معاویہ نے اسے بھی عہدہ اور عزت دینے کا وعدہ کیا ہے،اس لیے اسی وقت شام چلے آؤ۔ مالک بن ارحبی نے حلوان کو پکڑ کرحضرت علی کے سامنے پیش کردیا۔انھوں نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔اس کی وفات اسی زخم سے ہوئی۔
۳۸ھ میں حضرت علی کی جانب سے حضرت قثم بن عباس نے لوگوں کو حج کرایا۔
مطالعۂ مزید:تاریخ الیعقوبی(احمد یعقوبی)،تاریخ الامم والملوک (طبری)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی )،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ و النہایۃ(ابن کثیر)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)۔
[باقی]
____________