HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوی ٰنبوت کےایک بنیادی استدلال کا جائزہ

[”نقطۂ نظر“  کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

مرزا غلام احمدصاحب سورۂ جمعہ (۶۲) کی آیت ۲اور ۳ کے تحت اپنے دعویٰ نبوت پر استدلال کرتے ہیں۔ یہ استدلال ان کے دعویٰ کا مدار المہام ہے۔ وہ بڑے اعتماد سے اسے اپنی کتب اور بیانات میں جگہ جگہ پیش کرتے ہیں [1] ۔ احمدیت کے تعارفی اور دعوتی لٹریچر میں اسے ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔

زبان و بیان کے مسلمہ اصولوں اور روایت اور درایت کے معیارات کے ساتھ ہم تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کے اس استدلال کی کیا حقیقت ہے۔

 پہلے ان کا استدلال ملاحظہ کیجیے:

قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَﵯ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٢ﶫ وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(الجمعہ ۶۲: ۲- ۳)

ان آیات کا ترجمہ احمدی حضرات کی نمایندہ تفسیر، ’’تفسیر صغیر‘‘ میں یوں کیا گیا ہے۔ (ترجمے کے خط کشیدہ الفاظ پر نظر رہے):

’’وہی خدا ہے، جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا بھیجا (جو باوجود ان پڑھ ہونے کے) ان کو خدا کے احکام سناتا ہے، اور ان کو پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے۔ اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔‘‘

پھراس کی تفسیر صحیح بخاری( رقم ۴۸۹۷) کی ایک روایت سے یوں کی جاتی ہے :

’’اس آیت میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آخرین کون ہیں؟ تو آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’لو كان الإيمان معلقا بالثريا لناله رجل او رجال من فارس‘ (بخاری) یعنی اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اڑ گیا تو اہل فارس کی نسل سے ایک اور ایک سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے۔ اس میں مہدی معہود کی خبر ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ۷۴۵)

بتایا گیا ہے کہ مرزا صاحب کا خاندان خراسان سے ہندوستان ہجرت کر کے آیا تھا ۔ خراسان قدیم زمانے میں فارس میں شمارکیا جاتا تھا، اس لیے اس پیشین گوئی کے مصداق مرزا صاحب ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی بدولت ایمان و اسلام کی تجدید ہوئی اورگویاایک بار پھر بعثت محمدی ہوئی، مگر اس بار روحانی طورپر مرزا صاحب کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ یہ روحانی بعثت محمدی ہوتی رہے گی تاکہ بعد کے ادوار کے لوگ بھی بموجب آیت بالا اُس درجے میں شامل ہو سکیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو حاصل ہوا تھا۔

مرزا صاحب نے ان آیات سے دو استدلالات کیے ہیں: ایک یہ کہ ایک دوسری بعثت محمدی ہوگی۔ دوسرے یہ کہ ’مِنْهُمْ‘ میں ’هُمْ‘ کی ضمیر میں عجمی اقوام بھی شامل ہیں تاکہ یہ بعثت ان میں بھی ہو سکےاور وہ خود بھی اس میں شامل ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’...آیت ’و آخرین منھم لما یلحقوا بھم‘ اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گویا آنحضرت ﷺ کی حیات اور ہدایت کا ذخیرہ کامل ہوگیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں ’منھم‘ کا لفظ وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لیے موزوں ہے، مبعوث ہوگا جو آنحضرت کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے۔‘‘ ( روحانی خزائن ۱۷/ ۲۶۱)

بعض مفسرین نے ’وَاٰخَرِيْنَ ‘ کا عطف ’يُعَلِّمُهُمُ ‘ پر مانا ہے۔ جس سے مفہوم یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ان میں سےان دوسروں کو بھی رسول کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ مرزا غلام احمد نے اپنے دعویٰ نبوت کی تائید میں یہ دوسرا مفہوم بھی پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اورانہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے اس سے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ۔ ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہوجاویں گے...۔‘‘
’’گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے :’ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاته ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة ویعلم آخرین منھم...۔‘ یعنی ہمارے خالص اور قابل بندے بجز صحابہ ؓ کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا۔ اور جیسی نبی کریم ﷺ نے صحابہ ؓ کی تربیت فرمائی۔ ایسا ہی آنحضرت ﷺ اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔‘‘ (روحانی خزائن ۵ / ۲۰۸- ۲۰۹)

اور یہ ’دوسرے‘ آں حضرت مرزا صاحب تھے جنھوں نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔ (نعوذ باللہ)

درحقیقت یہ استدلال مسلم تفسیری روایات سے اٹھایا گیا ہے ۔ مفسرین کا ایک طبقہ تو ’اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ ‘ سے امیین عرب ہی مراد لیتا ہے ، لیکن ایک دوسرا طبقہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ آیت کے مصداق میں تاقیامت عجمی اقوام بھی شامل ہیں[2]۔مرزا صاحب نے اسی دوسرے مفہوم کو اختیار کر کےاس پر اپنے استدلال کی بنا رکھی ہے۔

اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ ‘ میں عجمی اقوام کی شمولیت کے موقف پر نقد

زبان و یبان کے اصولوں کی رو سےغور کیجیے تو آیت میں ’اٰخَرِيْنَ ‘ (دوسرے) کے بعد ’مِنْهُمْ ‘ (ان میں سے) میں ’هُمْ ‘ کی ضمیر ’اُمِّيّٖنَ ‘ کی طرف راجع ہے، یعنی یہ صاف طو پر معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ’دوسرے‘ بھی ’اُمِّيّٖنَ‘ میں سے ہی ہوں گےجو (لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ) ابھی تک ایمان لا کر مومنین کی جماعت میں شامل نہ ہوئے تھے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ یہاں غیر عرب،عجمی اقوام مراد لینے کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ یہاں لفظ ’اُمِّيّٖنَ ‘ مذکور ہوا ہے، ’مُسْلِمِيْنَ ‘ یا ’مُؤْمِنِيْنَ ‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ بعد والے ایمان لا کر مسلمین اور مومنین تو کہلائیں گے، لیکن انھیں ’اُمِّيّٖنَ ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ وہ یہاں کسی طرح بھی مراد نہیں لیے جا سکتے۔

مزید غور کیجیے کہ ’اٰخَرِيْنَ ‘ سے پہلے واؤ عاطفہ ہے۔ عطف کے بعد ’بَعَثَ ‘ کا فعل ماضی ہی آگے جاری ہوا ہے،یعنی ’بعث محمدًا في آخرین منھم، أي من أمیین‘، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دوسرے امیوں میں بھی رسول بنا کر بھیجا۔ لیکن ’’تفسیر صغیر‘‘ کے ترجمے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے عطف کے بعد جب دوسری بار ’بَعَثَ ‘ کا ترجمہ کیا تو اسے ماضی، ( یعنی رسول بنا کر بھیجا) کے بجاے مضارع، (یعنی رسول بنا کر بھیجے گا) کر دیا ہے۔ مرزا صاحب نے بھی یہی مفہوم مراد لیا ہے،’’ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کےلیے موزوں ہے، مبعوث ہوگا جو آں حضرت کے رنگ میں ہوگا‘‘۔

عطف کے بعد فعل ماضی کوفعل مضارع میں تبدیل کر نا زبان و بیان کے قواعد کی رو سے صراحتاًغلط ہے۔ چنانچہ ترجمہ یہ ہونا چاہیے کہ دوسرے امیوں میں بھی اسے بھیجا، نہ کہ اسے بھیجےگا۔

تیسری اہم بات یہ کہ یہاں ’بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ‘ (ان امیوں میں رسول بھیجا) آیا ہے، ’بعث إلی الأمیین أو الناس‘ (ان امیوں یا لوگوں کی طرف رسول بھیجا)نہیں آیا۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ کی بعثت جزیرۂ عرب کے امیوں میں ہوئی، لیکن آپ کی بعثت عامہ تما م انسانیت کی طرف ہوئی ہے۔ مثلاً دیکھیے، جب یہ کہنے کا موقع آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام لوگوں کی طرف ہے تو ’اِلٰی‘ (کی طرف)استعمال کیا گیا:

قُلْ يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا.(الاعراف ۷: ۱۵۸)
’’کہہ دو، (اے پیغمبرکہ) لوگو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا رسول ہو کر آیا ہوں۔‘‘

لیکن آیت زیر بحث میں ایسا نہیں کہا گیا۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نماے عرب کے امیوں میں مبعوث ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’وَاٰخَرِيْنَ ‘کے بعد ’بَعَثَ فِي‘ ہی معطوف ہوا ہے، جو صاف بتا رہا ہے کہ ان دوسرے امیوں میں بھی آپ کی بعثت ہوئی ہے جو ابھی ایمان لا کر مومن امیوں میں شامل نہیں ہوئے۔

خلاصہ یہ کہ آیت میں کسی طور پر مستقبل میں کسی نئی بعثت کی بات نہیں ہوئی۔ ’بَعَثَ ‘ کا فعل ماضی ایسے کسی معنی کو لینے سے قاطع ہے۔

امیوں کے علاوہ دوسری کسی قوم میں بعثت کا امکان یہاں نہیں پایا جاتا۔ ’مِنْهُمْ‘ میں ’هُمْ‘ کی ضمیر اور حرف جر’ في‘ اس معنی کو لینے سے مانع ہیں۔

اس وضاحت کے بعد یہ بالکل واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مرزا صاحب کا استدلال ہرگز کوئی درست علمی بنیاد پر استوار نہیں ۔ یہ ایک تفسیری روایت کی بنا پر سرتاسر سوء فہم پر مبنی ہے۔

تفسیری روایت پر تبصرہ

آیت زیر بحث کے مصداق میں عجمی اقوام کی شمولیت کی مذکورہ بالا روایت سند کے اعتبار سےبخاری کی صحیح روایت ہے، لیکن دیکھا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اسےکسی طور قبول نہیں کرتے ۔

یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ روایت راویوں کے شعوری یا لاشعوری تصرفات سے آزاد نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہی روایت قبول کی جا سکتی ہے جس کی اجازت قرآن مجید کےالفاظ دیتے ہوں۔ روایت کی اگر کوئی توجیہ ممکن ہو توکی جائے گی، ورنہ اسے انسانی خطا کا نتیجہ قرار دے کر رد کرنا ہوگا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس روایت کی توجیہ ممکن ہے۔ تفحص سے معلوم ہوا کہ یہ روایت درج بالا تناظر کے علاوہ دیگر دوتناظرات کے ساتھ بھی بیان ہوئی ہے۔ اسےقرآن مجید کی ایک اور آیت کے شان نزول کے تناظر میں بھی بیان کیا گیا ہے، جب کہ ایک دوسری سند اسےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی تعبیر کے تناظر میں بیان کرتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: ™وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْﶈ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْ٘ا اَمْثَالَكُمْ— [محمد۴۷: ۳۸]، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللہ، مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ إِنْ تَوَلَّيْنَا اسْتُبْدِلُوا بِنَا، ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَنَا؟ فَضَرَبَ عَلَى فَخِذِ سَلْمَانَ الْفَارِسَيِّ، ثُمَّ قَالَ: ’’هَذَا وَقَوْمُهُ لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ فَارِسٍ‘‘.  (صحيح ابن حبان، رقم   ۷۱۲۳)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْﶈ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْ٘ا اَمْثَالَكُمْ‘ [محمد۴۷: ۳۸]، صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول، یہ کون لوگ ہیں کہ اگر ہم نے روگردانی کی تووہ ہماری جگہ آ جائیں گے پھر وہ ہماری طرح نہ ہوں گے؟ توآپ نے سلمان فارسی کی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا: یہ اور اس کی قوم۔ دین اگر ثریا کے پاس بھی ہوگا تو فارس کے لوگ اس تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ ‘‘

علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے[3]۔

ایک دوسری سند سے یہ بات یوں مروی ہے:
عن ابن عمر رضي اللہ عنھما قال: قال النبي صلی اللہ علیه وسلم: رأيت غنمًا كثيرة سوداء، دخلت فيها غنم كثيرة بيض، قالوا: فما أولته يارسول الله؟ قال: ’’العجم، يشركونكم في دينكم وأنسابكم‘‘. قالوا: العجم يا رسول الله؟ قال: ’’لو كان الإيمان معلقًا بالثريا لناله رجال من العجم، وأسعدهم به الناس‘‘.  (المستدرك على الصحيحين للحاكم ، رقم ۸۱۹۴)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏میں نے خواب میں سیاہ رنگ کی بہت زیادہ بکریاں دیکھیں، ان میں بڑی تعداد میں سفید رنگ کی بکریاں داخل ہو گئیں۔صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول، آپ نے اس خواب کی کیا تعبیر کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجمی لوگ تمھارے دین اور نسب میں شریک ہوں گے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول، عجم؟ (‏‏‏‏ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ایمان ثریا ستارے کے ساتھ معلق ہوتا تو عجم کے بعض لوگ اس تک بھی رسائی حاصل کر لیتے، (‏‏‏‏ذہن نشین کر لو کہ) وہ انتہائی سعادت مند لوگ ہوں گے۔‘‘

علامہ البانی نے اسے حسن بشواہدقرار دیا ہے۔ یعنی یہ بھی قابل احتجاج ہے[4]۔

تینوں روایات کو سامنے رکھ کردیکھیے تومعلوم ہوتا ہے کہ اصل روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی روایت ہے۔ پھر کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجمی اقوام کی امت مسلمہ میں شمولیت کوسورۂ محمد کی آیت ۳۸ کے تناظر میں بھی بیان کر دیا، جس کے الفاظ اس روایت کو قبول کرتے ہیں۔ پھر کسی راوی کے وہم سے یہ سورۂ جمعہ کی آیت ۳ کے تناظر میں بیان ہو گئی ۔یوں جو غلط فہمی پیدا ہوئی وہ ہماری تفسیری روایت میں در آئی اور وہاں سے مرزا صاحب نے اسے اختیار کر لیا۔

ان ملاحظات کی روشنی میں سورۂ جمعہ کی متعلقہ آیات کا مفہوم قطعی طور پر اس بات کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ یہاں امیوں کے علاوہ کسی دوسری قوم کا ذکر نہیں کیا گیا۔ آیت کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

’’اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے بھیجا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اِس کے لیے اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس سے پہلے یہ لوگ کھلی گم راہی میں تھے ۔ اور امیوں میں سے اُن دوسروں میں بھی یہ رسول بھیجا ہے جو (ایمان لا کر) ابھی اُن میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ ‘‘

اس اسلوب میں بیان کرنے کے چند فائدے ہیں:

ایک یہ کہ ان امیوں میں سے اب تک جو ایمان نہیں لائے تھے، انھیں گویا یہ ترغیب دی گئی کہ تم جس کا انکار کر رہے ہو، وہ تمھی میں سے ایک شخص ہے جسے رسول بنا کر بھیجا گیاہے۔ اس نعمت کی قدر کرو۔ تم میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں، تم بھی ایمان لا کر ان کے ساتھ اس سعادت میں شامل ہو جاؤ۔

دوسرے یہ کہ آیت میں یہ بشارت بھی ہے کہ ان امیوں میں سے وہ جو ابھی تک ایمان نہیں لائے وہ بھی ایمان لا کر مومنین کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔

تیسرے یہ کہ مومن امیوں کےلیے یہ تنبیہ بھی ہے کہ جو ایمان لا چکے ہیں وہ نہ بھولیں کہ وہ بھی اس سے پہلے گم راہی میں تھے، پھر ایمان سے مشرف ہوئے۔ چنانچہ وہ جو ابھی گم راہی میں ہیں، ان کی گم راہی بھی اسی طرح ختم ہو سکتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔

یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مرزا صاحب اگر واقعی خدا کے نبی ہوتے تو قرآن مجید سے اپنے دعویٰ نبوت کے بنیادی اور مرکزی استدلال میں ان سے ایسی فاش غلطی کا صدور ممکن نہیں تھا ۔ نبی کے ہاں یہ امکان نہیں ہوتا کہ وہ کسی دینی معاملےمیں خطا کرے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کا دین اور قرآن مجید کا فہم بھی ایک عام خطا کارانسانی فہم ہی تھا، نہ کہ خدا سے حاصل ہونے والی وحی سے ان کے پاس کوئی قطعی علم آیا تھا جس میں غلطی کا امکان نہیں ہو سکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ متلاشیان حق کے لیے مرزا صاحب کی یہی ایک فاش خطا ان کے دعویٰ نبوت کی حقیقت جاننے کے لیے کفایت کرتی ہے۔

____________

[1]۔مثلاً دیکھیے: ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘۹ اور دیگر مقامات۔ ’’تریاق القلوب‘‘۱۷۰- ۱۷۱ وغیرہ۔

[2]۔ مثلاً دیکھیے ’’زاد المسیر‘‘ کا تفسیری نوٹ۔

[3]۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها، رقم ۱۰۱۸۔

[4]۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها، رقم ۱۰۱۸۔

B