آج کل ایک سوال بہت پوچھا جارہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عکل/عرینہ قبیلے کے لوگوں کو بغرض علاج اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیاتھا۔اس پر اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ طاہر و مطہر نبی پیشاب جیسی ناپاک چیز کےپینے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سوال کےجواب میں اہل علم کےتین موقف جو میرے علم میں ہیں ،پہلے انھیں مختصرًا عرض کروں گا۔ پھر ان پر اٹھنے والے اعتراضات کو پیش کروں گا اور آخر میں اپنی ناقص راے کے مطابق دو جواب مزید عرض کروں گا۔ سب کو یکجا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام استدلال سامنے آجائے ، اور جس کی تسلی جس جواب سے ہوتی ہو، وہ اسے اختیار کرلے:
۱۔ پہلا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ علاج ہے ۔اس میں ہر طرح کی چیز کا استعمال کرنا روا ہو سکتا ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد میں جاری ایک علاج کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ہم، مثلاً بہت سے کیمیکل بغرض دوا استعمال کرتے ہیں، جو بظاہر گندے ہوسکتے ہیں۔ اس پر اگلا سوال وارد کیا جاتا ہے کہ آپ نبی تھے تو اس سے بہتر کوئی چیز بتا دیتے تاکہ علاج بھی ہو جاتا اور دوا بھی پاکیزہ رہتی۔اس کا جواب یہ دیا گیا کہ دوا یا علاج دینی معاملہ نہیں ہے ، بلاشبہ ہم ادویہ میں حلال و حرام کا خیال رکھیں گے، لیکن یہ علاج تجویز کرنا طہارت کے خلاف ضرور ہے، لیکن صحت کے لیے مفید ہے، اس لیے اختیار کرنا پڑا۔
۲۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ’فَيَشْرَبُوْا مِنْ أَلْبَانِهَا، وَأَبْوَالِهَا‘ کا جملہ خاص اسلوب میں ہے۔ بسااوقات ایسے جملوں میں دوسری چیز سے متعلق الفاظ نہیں بولےجاتے، لوگ خود ہی سمجھ لیتے ہیں، مثلاً ’ ہم نے کھانا کھایا اور پانی بھی...‘۔اس جملے میں پانی کے بعد ’پیا ‘نہیں بولا گیا ۔حدیث میں بھی عربی اسلوب کے مطابق ایسا ہوا کہ آپ نے فرمایا کہ ’دودھ پیو اور پیشاب...‘، تو ظاہر ہےحدیث کے جملے کا مطلب ہے کہ ’دودھ پیو اور پیشاب زخموں پرلگاؤ‘۔اس پر بھی اگلا سوال کیا گیا کہ نجس کو جسم پر لگانا بھی کوئی اچھی تجویز نہیں ہے۔ یہ سوال براے سوال تو اچھا ہے، لیکن بہت صحیح نہیں ہے،کیونکہ بعض جلدی امراض کے لیے مجھے یاد ہے ہمارے بچپن تک بھی بعض خاص جوہڑوں میں نہانے کی تجویز دی جاتی تھی، جن میں گاے بھینسیں نہاتی اورپیشاب وغیرہ کرجاتی تھیں، کیونکہ یہ کوئی اتنا کریہہ کام نہیں ہے، جتنا پیشاب پینا ہے۔
دوسرا اعتراض اس توضیح پر یہ کیا گیا ہے کہ جن جملوں میں یہ تاویل کی جاتی ہے، اس میں آئے ہوئے الفاظ لسانی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے، یعنی ان میں باہم غرابت پائی جاتی ہے ۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ ’ہم نے کھانا کھایا اور پانی بھی‘ ، اس میں ’کھا نے ‘ کا لفظ ’پانی ‘کے لیے بولنا مناسب نہیں ہے ۔ اس لیے’پانی‘ کے لیے ایک دوسرا لفظ ’پینا‘ یہاں حذف ماننا ہو گا، یعنی’ ہم نے کھانا کھایا اور پانی بھی پیا‘۔جب کہ حدیث میں ’پینے‘ کا لفظ دودھ اور پیشاب، دونوں کے لیے مناسب ہے،اس لیے یہ تاویل لسانی حدود سے تجاوز ہے۔
اس اسلوب کی وضاحت کے لیے ، قرآن سے مثال دیتے ہوئے، مثلاً سورۂ حشر (۵۹) کی آیت ۹بجا طور پر پیش کی گئی ہے کہ ’وَالَّذِيْنَ تَبَوَّءُو الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ‘ میں ’الْاِيْمَان‘ کا لفظ ’تَبَوَّءُو‘ کے فعل کوقبول نہیں کرتا، کیونکہ ’ایمان کو ٹھکانا بنایا ‘ بولنا لسانی غرابت رکھتا ہے، اس لیے تاویل کی جائے گی۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ آیت کے الفاظ کا سادہ ترجمہ یوں ہے کہ ’’ انھوں نے گھر اور ایمان کو رہنے کی جگہ بنایا‘‘۔ اب واضح ہے کہ ایمان تو رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس آیت میں جیسا کہ واضح ہے کہ یہ اسلوب مانا جاسکتا ہے، الّا یہ کہ ’تَبَوَّءُو‘ کو مجازی معنی میں لیا جائے۔ اس صورت میں لفظوں کی باہمی غرابت جاتی رہے گی[1]۔ لیکن حدیث میں آیا ہوا، ’شرب‘ (پینا) کا فعل جس طرح دودھ کے لیے بولا جاسکتا ہے، اسی طرح پیشاب کے لیے بھی بولا جاسکتا ہے، کوئی لسانی غرابت یہاں موجود نہیں ہے۔ سواے طبعی کراہت کے یہاں کوئی قرینہ نہیں کہ اس تاویل کو اپنایا جائے،اوریہ کوئی ایسا قوی قرینہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کلام کو اپنی اصل سے ہٹایا جائے۔ لہٰذا اس حدیث پر اس اسلوب کا اطلاق درست نہیں ہے۔ اسی لیے پرانے علما نے اس کی یہ تاویل نہیں کی، حالاں کہ پیشاب کی کراہت اور حرمت کا یہ سوال ان کے سامنے بھی تھا۔
تیسرا اعتراض یہ ہوا ہے کہ احادیث میں سے ایسی کسی بیماری کا ذکر نہیں ہے کہ پیشاب ان کے لیے بطور مرہم استعمال ہو،یعنی احادیث میں ان کی جن بیماریوں کا ذکر ہوا ہے، ان میں زخم اور پھوڑےوغیرہ شامل نہیں۔ مثلاً ’فَاجْتَوَوْا الْمَدِيْنَةَ حَتَّى اصْفَرَّتْ أَلْوَانُهُمْ وَعَظُمَتْ بُطُوْنُهُمْ‘،’’انھیں مدینہ راس نہیں آیا، یہاں تک کہ ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور ان کے پیٹ بڑھ گئے‘‘(نسائی، رقم ۳۰۶)۔اسی طرح بعض کم زور روایات ہی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کا دودھ اور پیشاب معدے کے بعض امراض میں مفید مانا جاتا تھا[2]، اس لیے صحیح یہ ہے کہ حدیثوں کے مطابق پینے کا حکم ہی دیا گیا تھا، زخموں پر مرہم کرنے کا نہیں۔
چوتھا اعتراض اس پر یہ ہے کہ اگر پیشاب زخموں پر لگانے کا حکم تھااورفرض کرلیجیے کہ اگر یہ علاج عربوں میں عام تھا تو بھی خدا کے آخری رسول جو انسانوں کی اخلاقیات اور جسمانی و روحانی پاکیزگی کے مدرس تھے، انھیں اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تھی، نہ کہ تائید، اس لیے بھی کہ عربی طب میں پیشاب سے کہیں بہتر جراثیم کش چیزیں جیسے سرکہ ،شہد اور بعض بوٹیاں وغیرہ زمانۂ قدیم سے جلدی امراض کےعلاج کے لیے مستعمل تھیں۔ان کے استعمال کا حکم کیوں نہیں دیا گیا!ان وجوہ سے یہ جواب بھی تشفی بخش نہیں رہتا۔
۳۔تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ دراصل حلال جانوروں کا پیشاب بھی حلال ہے،لیکن اسی میں پھر یہ بحث پیدا ہوگئی تھی کہ اونٹوں کے باڑے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے سے روک دیا تھا،جس کا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ اونٹوں کا بول وبراز ناپاک ہے، اور اس حدیث میں انھی اونٹوں کا پیشاب پینے کا حکم ہوا ہے،اس لیے یہ جواب بھی شافی نہیں ہے۔
میرے مطالعے کی حد تک اس کے ان متون کودرج ذیل دو طریقوں سے دیکھا جاسکتا ہے:
ایک یہ کہ آپ نے ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں تھی، بلکہ راویوں کے تصرف سے یہ بات پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے لیے صرف بخاری ہی کے طرق پر نگاہ ڈال لی جائے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے۔اختصار کے لیے روایات کا متعلقہ حصہ ہی نقل کررہا ہوں، اور صرف مذکورہ بالاسوال سے متعلق تصرفات کا ذکر کروں گا، وگرنہ اس مضمون کی روایات میں بہت تصرفات ہوئے ہیں:
عَنْ انَسِ بْنِ مَالِك رَضِي اللہ عَنْه، أنَّ رَهطًا مِنْ عُكلٍ، ثَمَانِیة، قَدِمُوا عَلَى النَّبِي صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا المَدِینَة، فَقَالُوا: یارَسُولَ اللہ، ابْغِنَا رِسْلًا،
قَالَ: ’’مَا أجِدُ لَكمْ إلَّا أنْ تَلْحَقُوا بِالذَّوْدِ‘‘، فَانْطَلَقُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أبْوَالِها وَألْبَانِها، حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا، .... (بخاری، رقم۳۰۱۸)
’’انس بن مالک کہتے ہیں کہ عکل قوم کا آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا، انھیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں دودھ فراہم کرائیے[3]۔ آپ نے فرمایا: میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ تم میرے اونٹوں کے ریوڑ میں چلے جاؤ تو وہ چلے گئے، تو انھوں نے ان کے دودھ اور پیشاب کو پیا، یہاں تک کہ تندرست اور فربہ ہوگئے ...۔‘‘
بخاری کی اس روایت میں خط کشیدہ الفاظ دیکھیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےانھیں صرف اپنے اونٹوں کے باڑے میں جانے کو کہا ہے۔ باقی دودھ اور پیشاب پینے کا عمل ان کا اپنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کے برخلاف، بخاری کا ایک دوسرا متن یوں ہے:
أنَّ أنَسًا رَضِي اللہ عَنْه حَدَّثَهمْ أنَّ نَاسًا مِنْ عُكلٍ وَعُرَینَة قَدِمُوا المَدِینَة عَلَى النَّبِي صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ وَتَكلَّمُوا بِالإسْلاَمِ، فَقَالُوا: یا نَبِي اللہ، إنَّا كنَّا أهلَ ضَرْعٍ، وَلَمْ نَكنْ أهلَ رِیفٍ، وَاسْتَوْخَمُوا المَدِینَة، فَأمَرَ لَهمْ رَسُولُ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ، وَأمَرَهمْ أنْ یخْرُجُوا فِیه فَیشْرَبُوا مِنْ ألْبَانِها وَأبْوَالِها.... (بخاری، رقم۴۱۹۲)
’’انس رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بتایا کہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مدینہ آئے اور اسلام کے بارے میں بات چیت کی ۔ پھر کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی، ہم تو چرواہے ہیں، کبھی دہقان نہیں رہے۔ گویاانھیں مدینہ کی فضا راس نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ انھیں ایک ریوڑ اور ایک چرواہا فراہم کیا جائے، اور ان لوگوں سے کہا کہ وہ اونٹوں کے اس ریوڑ میں نکلیں، پھر ان اونٹوں کے دودھ اور پیشاب پئیں... ۔ ‘‘
اس روایت میں دیکھیے کہ الفاظ بدل گئے ہیں، موازنے کے لیے دونوں روایتوں کے خط کشیدہ جملوں پر نگاہ ڈال لیجیے۔وہ بات جو پہلی روایت میں آپ کا حکم نہیں، وہ اب اس دوسری روایت میں نبی طاہر و مطہر کا حکم بن کرسامنے آئی ہے۔ ہم جان سکتے ہیں کہ یہ راویوں کے تصرف سے تبدیلی آئی ہے۔گویا ایک جواب مذکورہ بالا سوال کا یہ ہو سکتا ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں تھی، یہ راویوں نے آپ کے نام منسوب کردی ہے۔امام بخاری ہی ایک روایت اور لائے ہیں، جس میں آپ کی زبان مبارک سے صرف دودھ پینے کاذکر ہوا ہے، پیشاب پینے کا نہیں: ’اشْرَبُوا ألْبَانَها‘، یعنی ان کا دودھ پیو۔متن کا متعلقہ حصہ یوں ہے:
عَنْ أنَسٍ، أنَّ نَاسًا كانَ بِهمْ سَقَمٌ، قَالُوا: یا رَسُولَ اللہ، آوِنَا وَاطْعِمْنَا، فَلَمَّا صَحُّوا، قَالُوا: إنَّ المَدِینَة وَخِمَة، فَأنْزَلَهمُ الحَرَّة فِي ذَوْدٍ لَه، فَقَالَ: ’’اشْرَبُوا ألْبَانَها‘‘، فَلَمَّا صَحُّوا....(بخاری، رقم ۵۶۸۵)
اس کی تائید مسند احمد کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے،جس کے (خط کشیدہ الفاظ میں )یہ کہا گیا ہے کہ ’پیشاب‘ کا اضافہ انس سے قتادہ کی روایت میں ہوا ہے، یعنی روایتوں کے ایک سلسلے میں آپ کے فرمان میں ’پیشاب‘ کا لفظ ہی نہیں تھا، آپ نے صرف دودھ پینے کا حکم دیا تھا: ’فَشَرِبْتُمْ مِنْ ألْبَانِها‘،(یعنی تم ان کا دودھ پیتے):
عَنْ أنَسٍ، قَالَ: أسْلَمَ نَاسٌ مِنْ عُرَینَة فَاجْتَوَوْا الْمَدِینَة. فَقَالَ لَهمْ رَسُولُ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ: ’’لَوْ خَرَجْتُمْ إلَى ذَوْدٍ لَنَا فَشَرِبْتُمْ مِنْ ألْبَانِها‘‘. قَالَ حُمَیدٌ: وَقَالَ قَتَادَة: عَنْ أنَسٍ: ’’وَأبْوَالِها‘‘، فَفَعَلُوا، فَلَمَّا صَحُّوا كفَرُوا بَعْدَ إسْلَامِهمْ، ... . (احمد، رقم۱۳۱۲۸)
امام ابوداؤد یہ کہتے ہیں کہ پیشاب کے ساتھ یہ روایت صرف اہل بصرہ ہی نے انس سے روایت کی ہے:
وَلَیسَ فِي أبْوَالِها إلَّا حَدِیثُ أنَسٍ تَفَرَّدَ بِه أهلُ الْبَصْرَة. (ابو داؤد، رقم ۳۳۳)
’’پیشاب سے متعلق صرف انس کی روایت ہے، جو اہل بصرہ کا تفرد ہے‘‘۔
میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں پیشاب پینے کے حکم کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہی نہیں ہوتی کہ اعتراض کیا جاسکے،اس لیے محتاط ترین اور شاید صائب ترین جواب یہی ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاً یہ حکم دیا ہی نہیں ہے۔
اگر دودھ اور پیشاب پینے کے حکم کو مان لیا جائے کہ وہ آپ ہی نے دیا تھا تو اس صورت میں ان روایات کو دیکھنے کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ دودھ اور پیشاب پینے کے جملے کو مجازًا لیا جائے، واقعہ میں اصل حکم یہ ہے کہ انھیں مدینہ سے باہر بیت المال کے اونٹوں کے ریوڑ میں بھیجا گیا تھا۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسا تو نہیں تھا کہ مدینہ میں اونٹ کا دودھ اور پیشاب میسر نہیں تھا۔ معلوم ہے کہ وہاں یہ دونوں چیزیں میسر تھیں ، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر انھیں دودھ اور پیشاب کے استعمال کے لیے شہر سے باہر اس باڑے میں کیوں بھیجا گیا۔ مجھے اصل بات یہ لگ رہی ہے کہ انھیں بس مدینہ سے باہر اونٹوں کے ریوڑ میں بھیجنا پیش نظر تھا ۔ اس لحاظ سے یہ جملہ نہایت بلیغ ہے،یعنی وہاں جاؤ اور دودھ بھی پیو اور پیشاب بھی، یعنی اونٹوں کے دودھ، گوبر اور پیشاب کے جس ماحول کے تم عادی ہو، وہ تمھیں مل جائے گا، اس میں جا کروقت گزارواور ان چیزوں سے سیراب ہو جاؤ، یعنی انھیں مدینہ میں وہی آب و ہوا فراہم کرنا پیش نظر تھی، جو اونٹوں کے مالکوں کو اپنے ریوڑوں میں میسرہوتی ہے۔مجھے تمام طرق دیکھ کر اس راے کے قوی امکانات معلوم ہوتے ہیں۔اس کی تفصیل یوں ہے:
تمام طرق کو اکٹھا کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نہ انھوں نے دودھ پینے کا مطالبہ کیا تھا، نہ انھیں دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم شتربان ہیں، ہم دہقان نہیں ہیں۔ مدینہ جو کہ کھیتی باڑی کا علاقہ ہے ہمیں راس نہیں آیا۔ ہمیں اونٹوں کا کوئی ریوڑ دے دیا جائے جس کے ساتھ ہم وقت گزاریں اور ان کے دودھ اور پیشاب وغیرہ پا کر ــــ جس سے وہ شتربان ہونے کی وجہ سے مانوس تھے ــــ راحت پائیں۔
میں پھر بخاری ہی کے متون پر بنیاد رکھ کر اپنی راے کے شواہد پیش کرتا ہوں تاکہ حدیث کی صحت کا مسئلہ رکاوٹ نہ بنے۔
پہلا نکتہ: وہ دہقان نہیں شتربان تھے:
إنَّا كنَّا أهلَ ضَرْعٍ، وَلَمْ نَكنْ اهلَ رِیفٍ. (بخاری، رقم۴۱۹۲)
’’ہم شتربان ہیں، ہم دہقان نہیں ہیں۔‘‘
دوسرا نکتہ :انھوں نے دودھ نہیں مانگا، بلکہ اونٹ ہی مانگے تھے کہ جن کے ساتھ وہ مدینہ کے دہقانی علاقے سے باہر جا کر وقت گزاریں۔ یہ بات آپ کے ان کے لیے جاری کردہ حکم سے واضح ہوتی ہے کہ انھیں مدینہ سے باہر حرة میں ٹھیرایا جائے (بخاری، رقم ۵۶۸۵) اور: ’فَأمَرَ لَهمْ رَسُولُ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ‘،’’آپ نے ان کے لیے حکم جاری فرمایا کہ انھیں اونٹوں کا چھوٹا سا ریوڑاور ایک چرواہا دے دیا جائے‘‘(بخاری، رقم۴۱۹۲)۔اس مفہوم پر پردہ ایک لفظ ’رسل‘ سے پڑا۔ اس کا تلفظ ’رَسَلٌ‘ ہو تو اس کے معنی ریوڑ کے ہیں، اور ’رِسْلٌ‘ ہوتو اس کے معنی توقف، آہستگی اوردودھ کے ہیں۔گویا اس کا ایک مطلب بلاشبہ دودھ ہے، لیکن ایک مطلب وہی ہےجو ’ذود‘ کا ہے، یعنی اونٹوں کا ایک چھوٹا ریوڑ۔بخاری کے الفاظ ہیں: ’یارَسُولَ اللہ، ابْغِنَا رسلًا‘، اس کے دونوں ترجمے ممکن ہیں: ’ہمیں دودھ فراہم کرا دیجیے‘ یا ’ہمیں ریوڑ بہم پہنچایئے‘۔
ذرا غور کریں کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم شتربان ہیں، ہمیں دودھ چاہیے۔ تو اس کے جواب میں حکم یہ جاری ہونا چاہیے تھا کہ انھیں صبح وشام دودھ پلایا جائے،لیکن فرمان جاری ہوتا ہے کہ انھیں ایک ریوڑ اور ایک چرواہا فراہم کیا جائے۔ظاہر ہے کہ یہ ان کے مطالبے کا صحیح جواب نہیں ہے،اس لیے ’رِسْلًا‘ کو ’رَسَلًا ‘ پڑھنا چاہیے۔ جب احادیث کتابت اور مناولہ کے طریقے پر منتقل ہوئیں تو قراءت کایہ اختلاف عین قرین قیاس ہے۔اسی لیے قرآن مجید کو حافظے سے محفوظ کر کے قراءت کے ساتھ منتقل کیا گیا ہے تاکہ اس طرح کے مسائل پیدانہ ہوں۔
تو معاملہ یہ ہوا کہ نہ انھیں دودھ پینا تھا اور نہ پیشاب، دراصل وہ اونٹوں کے اس ماحول میں رہنے کا مطالبہ کررہے تھےجس میں انھیں اونٹوں کی قربت ، دودھ اور بول وبراز کی فضا حاصل ہو جس کے وہ عادی تھے۔لہٰذا مجھے لگتا ہے کہ یہاں ’فَیشْرَبُوا مِنْ ألْبَانِها وَأبْوَالِها‘ (بخاری، رقم۴۱۹۲)اپنے مجازی معنی میں آیا ہے، یعنی ان کے بول وبراز اور دودھ کی پیاس بجھا لو، یعنی کمی پوری کرلو،اس مفہوم کی تائید بخاری کی درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جس میں ’فَیشْرَبُوا‘ کے بجاے ’فَتُصِیبُونَ‘ کےالفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ’’تم پیو‘‘ کے بجاے الفاظ ہیں کہ’’تم پاؤ‘‘۔اس روایت کا متعلقہ حصہ ذیل میں ہے:
حَدَّثَنِي أنَسٌ، أنَّ نَفَرًا مِنْ عُكلٍ ثَمَانِیة، قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ فَبَایعُوه عَلَى الإسْلاَمِ، فَاسْتَوْخَمُوا الأرْضَ فَسَقِمَتْ أجْسَامُهمْ، فَشَكوْا ذَلِك إلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى الله عَلَیه وَسَلَّمَ، قَالَ: ’’أفَلاَ تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِینَا فِي إبِلِه، فَتُصِیبُونَ مِنْ ألْبَانِها وَأبْوَالِها‘‘....(بخاری، رقم ۶۸۹۹)
یعنی تجویز یہ تھی کہ اونٹوں کے جس دودھ اور بول و براز سےتم محروم ہو ، جاؤاسے پا لو۔اس مفہوم کے پیش نظر ممکن ہے کہ ’فیشربوا ‘ بطور تفنن بولا گیا ہو،یعنی جاؤ،ان کے دودھ اور پیشاب سے لطف اٹھاؤ۔
اس توجیہ سے ایک امکان اس واقعے کے آخری حصہ سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ دل سے ایمان لائے ہی نہیں تھے، چند دن مدینہ میں رہ کر انھوں نے بہانے سے اونٹ چرانے کا فیصلہ کیا، شتربانی کو بہانا بنا کر اونٹوں کا ریوڑ ہی مانگ لیا،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چرواہا ساتھ لگا دیا، جس کی موجودگی میں وہ اونٹ لے کر بھاگ نہیں سکے، نتیجتاً انھیں اس نگران چرواہے کو مار ناپڑا،پھر اسے مار کر اونٹ لے بھاگے، انھوں نے آپ کی نگرانی کا اندازہ غلط لگایا تھا، اس لیے فوراً دھر لیے گئے، اور قصاص کی سزا سے دو چار ہوئے۔
· ایک ضمنی سوال یہ بھی مجھے پیش کیا گیا ہے کہ ’فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا‘ کے الفاظ آئے ہیں، جن کا مطلب بالکل واضح ہے۔ اگر تاویل کی گنجایش والی روایات موجود ہیں تو امام بخاری نے ان کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟
میں نے اوپر بخاری ہی کی روایات نقل کردی ہیں جن سے دوسری تاویل ثابت ہوتی ہے۔
· ایک سوال اسی ضمن میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی مہلک بیماری تھی تو مریض اتنی جلدی صحت مند ہونے کے بعد اس قابل کیسے ہو گئے کہ راتوں رات قتل کر کے فرار بھی ہو گئے؟ اور اگر یہ لوگ لمبا عرصہ یہاں رہے توکیا وجہ ہے کہ یہ روایت چند لوگ ہی بیان کررہے ہیں۔ یعنی اگر معاملہ کئی ماہ یا ہفتوں کے قیام کا ہوتا تو اس کے کئی طرق ہوتے ۔ اس میں موجودہ لوگوں کے نام خاص طورپر مقتول کا نام تو لازمی ذکر ہونا چاہیے تھا؟
بعض روایتوں میں ’حتی سمنوا‘ (بخاری، رقم۳۰۱۸)کے الفاظ آئے ہیں، یعنی وہ ریوڑ کے ساتھ اس وقت تک رہے، جب تک کہ صحت مند نہیں ہوگئے۔لیکن میں نے اوپر یہ عرض کردیا ہے کہ شتربانی کو انھوں نے اونٹ چرانے کے لیے بہانا بنایا تھا۔یہ دو تین دن کے اندر ہی سارا معاملہ ہوا ہے۔وہ بدقسمتی سے ایمان نہیں لاسکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی اور دل نواز نرم شخصیت کی لطافت طبعی سے فائدہ اٹھانے کا پروگرام بنا بیٹھے، لہٰذا قصاص کے اصول پر مارے گئے۔
· یہ سوال بھی پیش کیا گیا ہے:بعض لوگوں نے اس کی توضیح یہ کی ہے کہ یہ لوگ فسادی اور منافق تھے، لہٰذا وحی کی روشنی میں ان کو سزا دی گئی۔ یہ تو مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہےکہ رسول کو کسی منافق اور فسادی کے متعلق خبردار رہنے یا وعظ و نصیحت کرنے کے بجاے انھیں پیشاب پلا کر ان کی تذلیل کرنے کا حکم دیں، جس کا نتیجہ ایک معصوم کے سفاکانہ قتل کی صورت میں نکلا؟
میری توضیح سے یہ سوال بھی باقی نہیں رہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تذلیل منافقین کی نوع کا کوئی کام نہیں کیا۔
· ’فَیشْرَبُوا مِنْ ألْبَانِها وَأبْوَالِها‘ کا ترجمہ ’ پیو دودھ ،مگر ، پیشاب (سے بچو)‘ کر لیا جائے تو کیسا ہے؟
پوری بات واضح ہونے کے بعد اس کی ضرورت نہیں ہے،لیکن اس کے جواب میں عرض ہے کہ اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ اسلوب یہاں ماننا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ ’شرب‘ کی پیشاب کے ساتھ لسانی غرابت موجود نہیں ہے۔’پیشاب‘ کے ساتھ ’پینے‘ کا لفظ لغوی طور پر بولنا ایسا ہی مناسب ہے، جیسا دودھ کے ساتھ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ ’يشربوا‘ کے بعد اسی کا ہم وصف لفظ بولا جائے گا نہ کہ اس کا الٹ ، یعنی پیو اور برتو، تو ہوسکتا ہے پیو اور بچو نہیں۔
اس مضمون کے آغاز میں پیش کردہ اہل علم کے دونوں جواب اچھےہیں، البتہ احادیث کے متون کے جائزہ کی روشنی میں دو مزیدتوجیہات اس مضمون میں پیش کی گئی ہیں، جو یوں ہیں:
۱۔ راویوں کے تصرفات کی وجہ سے عکل اور عرینہ کے لوگوں کا اپنا عمل نبی کریم کے نام غلطی سے منسوب ہو گیا ہے۔ آپ نے پیشاب پینے کا حکم ہرگز نہیں دیا تھا۔یہ توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔
۲۔ پینے کا فعل مجازًا ضرورت پوری کرنے کے معنی میں آیا ہے، آپ کی مراد یہ تھی کہ اونٹوں کی بو باس ، جس سے تم محروم ہو، وہ حرة میں موجود ہمارے باڑے میں جا کر تم پا سکتےہو۔وہاں جاؤ اور ان کے بول و براز اور دودھ وغیرہ کی صحبت اٹھانے کی تمنا پوری کرلو۔اگر راویوں کے تصرفات کو ماننا ناگوار ہو تو یہ توجیہ تمام روایات کی بہتر تشریح کرتی ہے۔
___________
[1]۔ علامہ زمخشری ان دونوں معنی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإن قلت: ما معنى عطف الإيمان على الدار، ولا يقال: تبوّؤا الإيمان؟ قلت: معناه تبوّؤا الدار وأخلصوا الإيمان، كقوله: علفتها تينًا وماء باردًا. أو: وجعلوا الإيمان مستقرًا ومتوطنًا لهم لتمكنهم منه واستقامتهم عليه، كما جعلوا المدينة كذلك.
’’اگر آپ یہ پوچھیں کہ ايمان کو ’الدار‘ پر عطف کرنے سے کیا مقصد ہے، کیونکہ یہ جملہ نہیں بولا جاتا کہ ’تبوّؤا الإيمان‘، یعنی انھوں نے ایمان کو رہنے کی جگہ بنایا؟ میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے مدینہ کو گھر بنایا اور ایمان کو خالص کیا، جیسے ’علفتها تينًا وماء باردًا‘، یعنی میں نے اس کے لیے انجیر اور ٹھنڈے پانی کو چارا بنایا (یہاں پانی کے لیے چارے کا لفظ درست نہیں)۔یا یہ کہو کہ اس کے معنی ہیں کہ ان کے تمکن اور استقامت کی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان کو بھی وطن اور مستقر بنالیا ہے کہ وہ اس میں گھر ہی کی طرح رہنے لگے ہیں، بالکل اسی طرح، جس طرح انھوں نے ہجرت کے بعد مدینہ کو اپنا وطن بنالیا ہے۔‘‘
[2]۔ مثلاً: ’قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْوَالُ الْإِبِلِ، وَأَلْبَانُهَا شِفَاءٌ لِلذَّرِبَةِ بُطُوْنِهُمْ‘، ’’آپ نے فرمایا کہ اونٹ کا پیشاب اور دودھ بد ہضمی وغیرہ میں شفابخش ہیں‘‘(احمد، رقم ۲۶۷۷)۔( یہ روایات اصلاً سب ضعیف ہیں ، شعیب الارنؤوط کے نزدیک یہ عرینہ قبیلہ والی روایات کی بنیا د پر حسن لغيره ہیں۔ان روایات کے معنی واضح ہونے کے بعدیہ روایت حسن لغیرہ کے درجے سے گر جائے گی)۔
[3]۔ یہ ترجمہ میں نے مقبول عام ترجمہ کے مطابق کیا ہے، کیونکہ ابھی مجھے صرف مختلف طرق کو دکھانا پیش نظر ہے، معروف تراجم میں ’رسلًا‘ کا مفہوم غلط متعین کیا گیا ہے، آگے میں اس کی وضاحت کروں گا کہ یہ کس معنی میں آیا ہے۔