محمد تہامی بشر علوی
انسان اپنی حقیقت میں خدا کی ایک نہایت حیرت انگیز اور بہت غیرمعمولی تخلیق ہے۔ گردوپیش کی تمام مخلوقات میں اسے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اسے عقل کی بے پناہ قوت سے نوازا گیا ہے۔ انسان کی اسی عقل و فکر کی قوت کا کرشمہ جدید دور میں سائنس کی نت نئی ایجادات کی صورت میں کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ انسانی عقل کے کرشمے کچھ ایسے مخفی نہیں کہ ان کی طرف توجہ دلانے میں وقت صرف کیا جائے۔ یہ سب اب ایک ایسی حقیقت بن کر ہم سب کے سامنے ابھر آئی ہے کہ انسان کی اس قوت کے لاکھوں مظاہر ہرسو بکھرے پڑے ہیں، جسے ہر کوئی ہروقت بہ آسانی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ اس سب نے انسان کی سہولتوں میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ اب وہ ان مشکلات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ جن سے کبھی ماضی کا انسان دوچار تھا۔ ماضی کا انسان ان سہولتوں کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا جتنا کہ اس عقل کی قو ت کو استعمال کرتے رہنے کے نتیجے میں اب اس نے اپنے لیے پیدا کر دی ہیں۔ ایجادات کے اس بھر پور دور میں بھی انسانوں کے ارمان ہیں کہ تھمنے نہیں پاتے۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں ڈھونڈا جا سکتاجسے اس سب پر اطمینان نصیب ہو چکا ہو جو کہ اسے میسر ہو چکاہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی سائنسی دریافتوں نے اسے ماضی کے انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ سہولتیں فراہم کر دی ہیں، مگر یہ ایک دوسری حقیقت ہے کہ یہ سب سہولتیں انسان کی خواہشات کو ٹھیک اس کی خواہشات کے موافق پورا کرنے میں مکمل طورپر ناکافی ہیں۔ آج کا انسان بھی موجود و میسر سے اسی طرح غیرمطمئن ہے، جس طرح کہ کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ روے زمین پر کوئی ایک انسان بھی ایسا موجود نہیں جو اتنی بے پناہ ایجادات کے بعدلمحے بھر کا اطمینان پا سکا ہو۔ انسان اپنے وجود پر غور کرتا ہے تواسے اپنا وجود اپنی منشا کے مطابق نہیں لگتا۔آنکھ، ناک،آواز، قد، رنگ روپ ٹھیک اس طرح کہاں، جیسا کہ ٹھیک اس کی چاہت ہے؟ اس کے مَن میں اٹھنے والی بے کنار خواہشات کی بے پناہ پیاس اس قدر شدید ہے کہ یہ قدرتی کائنات اور اس میں کی جانے والی یہ ساری مصنوعی ایجادات بھی اس طوفانی پیاس کو چند لمحوں کے لیے بجھا دینے کے لیے بھی مکمل طور پر ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔اسے بہت کچھ مل کر بھی ابھی کچھ نہیں ملا، خواہشات کا طوفان ہے کہ کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ایک طرف انسان کی خواہشات کو رکھ لیجیے اور دوسری طرف موجود وسائل و ایجادات کو، انسانی خواہشات کے سامنے اس سب کی حیثیت اک حقیرسے بے قیمت ذرے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
انسان اپنی خواہشات کو اپنی خواہش کے مطابق پورا ہوتا نہ دیکھ کر مایوسی کی قبر میں دفن ہو جاتا ہے۔ وہ اگر دنیا میں منہمک محسوس ہو رہا ہے تو محض خود کو بہلائے رکھنے کے لیے، ورنہ یہ سب جانتا ہے کہ یہ دنیا ساری کی ساری پا کر بھی اس کی خواہشات کی پیاس مٹ نہ پائے گی۔اس شدید مایوسی کے عالم میں تنہا مذہب ہے جو اس مایوس انسان کا ہاتھ تھام لیتا ہے اور اس کے سامنے خوشی اور اطمینان کی کھڑکی کھول دیتا ہے۔مذہب کی کھولی ہوئی اس کھڑکی سے اسے وہ سب نظر آنے لگتا ہے جسے یہ اپنی خواہشات کے عین مطابق پاتا ہے ۔
____________