HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت علی رضی اللہ عنہ (۱۳)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

 ثالثی پر خوارج کا رد عمل

حضرت اشعث بن قیس اور خارجی لیڈروں زید بن حصین اور مسعر بن فدکی کے اصرار پرحضرت علی نے حضرت ابو مو سیٰ اشعری کو اپنی طرف سے حَکم مقرر کر دیا تو خوارج ہی کے زرعہ بن برج اور حرقوص بن زہیر ان کے پاس آئے، ’لاحكم إلا الله‘ کا نعرہ بلند کیا اور صلح کالعدم کرکے شامیوں سے دوبارہ جنگ کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت علی نے جواب دیا: میں نے قتال کرنا چاہا تو تم نے نافرمانی کی۔ اب ہم نے معاہدہ کر لیا ہے، شرائط اور گواہیوں سے اسے محکم کر لیا ہے، اس لیے اللہ کے حکم ’وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ ‘، ’’اور جب تم باہم معاہدہ کرو تو اﷲ کو گواہ بنا کر کیے گئے اس عہد کو پورا کرو‘‘ (النحل ۱۶: ۹۱) پر عمل کرنا ہوگا ۔ حرقوص بولا: یہ گناہ ہے، جس سے توبہ کرناآپ پر واجب ہے۔ حضرت علی نے کہا: یہ گناہ نہیں ، بلکہ فیصلے کی کم زوری ہے۔ زرعہ یہ دھمکی دے کر نکل گیا: علی، آپ نے ثالثوں کا تقرر واپس نہ لیا تو ہم اﷲ کی رضا جوئی کے لیے آپ سے قتال کریں گے۔ حضرت علی نے کہا: اللہ سے ڈرو، شیطان نے تمھیں بہکا دیا ہے۔ تب خوارج نے کوفہ سے نکل کر نواحی صحرا حرورا میں ڈیرے ڈال دیے۔ حضرت علی نے ان سے گفتگو کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس کو بھیجا، لیکن وہ قائل نہ ہوئے۔ پھر وہ خود ان کے پاس گئے اور انھیں کوفہ آنے پرراضی کر لیا۔ انھوں نے آتے ہی مشہورکر دیا کہ علی نے ان کے کہنے پر کفر سے توبہ کر لی ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے حضرت علی ظہر کی نماز کے بعد خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو خوارج نے ’لاحكم إلا الله‘ کاشور مچادیا۔ حضرت علی نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے کہا:یہ ایک حق کلمہ ہے، جس سے باطل مراد لیا جا رہا ہے۔ ہم تمھیں اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روکیں گے، نہ مال غنیمت میں تمھارا حصہ ساقط کریں گے۔ تم اگر زبان سے بات کرو گے تو ہم اپنی دلیل پیش کریں گے، لیکن اگر تلوار اٹھانے میں پہل کی تو تمھارے خلاف جہاد کریں گے۔ یزید بن عاصم محاربی اچھل کر آگے آیا اور دھمکی دی: علی، آپ ہمیں قتل سے ڈراتے ہیں ؟مجھے امید ہے کہ ہم جلداس جرم میں آپ لوگوں کو ماریں پیٹیں گے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے تین ساتھیوں سمیت مسجد سے نکل گیا۔ خارجیوں کے ہم خیال حکیم بکائی نے ایک باردوران خطبہ میں حضرت علی کو ٹوکا اور قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:’لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ‘، ’’اگر تم نے شرک کیا توتمھاراعمل اکارت جائے گا اور تو گھاٹا پانے والوں میں شامل ہو جائے گا‘‘(الزمر۳۹: ۶۵)۔ گویااس کے خیال میں تحکیم ایک مشرکانہ عمل تھا۔

 خوارج کوفہ کی ہیئت اجتماعی

۱۰ ؍ شوال ۳۷ھ:کوفہ کے خوارج عبداﷲ بن وہب کے گھر جمع ہوئے۔ اس نے کہا:جولوگ خداے رحمٰن پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہیں ، ان کے لیے جائز نہیں کہ دنیا کوامر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ترجیح دیں ۔ ان لوگوں نے اس فریضہ کو ترک کر کے دنیا کو اختیار کر لیا ہے، اس لیے، میرے بھائیو، اس ظالم بستی کو چھوڑ کر کسی پہاڑکی چوٹی یا کسی دوسرے شہرکی طرف نکل چلو۔ حرقوص بن زہیر بولا:دنیا کی زینت و رونق تمھیں طلب حق اور ظلم سے نفرت سے نہ روکے۔ حمزہ بن سنان (سیار:دینوری)نے کہا:تم درست راے پرپہنچے ہو، لیکن تمھارا ایک امیر، ایک مرکز اور ایک جھنڈا ہونا ضروری ہے، جس کے نیچے تم جمع ہو سکو۔ چنانچہ زید بن حصین، حرقوص بن زہیر، حمزہ بن سنان اور شریح بن اوفی کوباری باری امارت سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ ان سب نے انکار کیا تو عبداﷲ بن وہب کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ بیعت کے بعداس نے کہا :میں دنیا کی رغبت میں یہ عہدہ قبول کر رہا ہوں، نہ موت کے خوف سے اسے چھوڑوں گا۔ اگر مجھے مددگار نہ ملے تومیں اکیلا ہی ان سے قتال کروں گا، حتیٰ کہ شہید ہو جاؤں ۔ خارجیوں کے زاہد متقشف عبداللہ بن سخبرہ نے تلقین کی :تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کے نافرمانوں سے بغض رکھو اور ان کے خلاف تلوار اٹھاؤ۔ اگلا اجتماع شریح بن اوفی (زید بن حصن:ابن جوزی) کے ہاں ہوا، زید بولا: اﷲ نے فرمایا ہے:جو تنزیل الہٰی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، کافر، ظالم اور فاسق ہیں (المائدہ۵: ۴۴، ۴۵، ۴۷)، اس لیے اہل ایمان پر لازم ہے کہ حکم کتاب کو پرے پھینکنے والے ان ظالموں سے جہاد کیا جائے۔ ابن وہب نے کہا: کسی شہر کی طرف چلو جہاں ہم ٹھیر سکیں ۔ شریح نے تجویز پیش کی کہ مدائن کے شہریوں کونکال باہر کیا جائے اور اس شہر پر قبضہ کر کے بصرہ کے ساتھیوں کو بھی وہاں بلا لیا جائے۔ زید بن حصین نے کہا: مدائن میں ایک بڑی فوج ہے جس کا تم مقابلہ نہیں کر سکو گے۔ اگرتم اکٹھے نکلو گے تو تمھارا پیچھا کیا جائے گا۔ اس لیے اکیلے اکیلے چھپ چھپا کر نکلواور نہروان ندی (نہر جوخی: ابن کثیر) کے پل پر پہنچ جاؤ۔ انھوں نے اپنے ماں باپ اور اعزہ و اقارب کو چھوڑا اور جہالت و کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھا کہ یہ عمل ان کے رب کو راضی کر دے گا۔ تاہم کچھ لوگ اپنی اولاد اور بھائیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر واپس لے آئے۔ اس اثنا میں ابن وہب نے عبداللہ بن سعد عبسی کے ہاتھ بصرہ کے خارجیوں کو خط بھیجا کہ ہم نہروان ندی کے پل پر اکٹھے ہو رہے ہیں ، تم بھی اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس پہنچ جاؤ۔

نہروان کی جانب

 جمعہ کی شب اور پورا دن خارجیوں نے عبادت میں گزارا۔ ہفتہ کا دن انھوں نے دو دو، تین تین کی ٹولیوں کی صورت میں سفر کیا۔ یزید بن حصین خچر پر سوار یہ آیت تلاوت کرتاگیا:’فَخَرَجَ مِنْهَا خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُﵟ قَالَ رَبِّ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ

‘، ’’موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے ڈرتے، ٹوہ لیتے نکلے، انھوں نے دعا کی: اے میرے رب، مجھے ظالم قوم سے بچا لے‘‘(القصص۲۸: ۲۱)۔ زید سیب پہنچا جہاں کئی خارجی جمع تھے۔ حضرت عدی بن حاتم طائی کا بیٹا طرفہ شریح کے ساتھ نکلا۔ حضرت عدی نے مدائن تک اس کا پیچھا کیا، لیکن پکڑ نہ سکے۔ عبداﷲ بن وہب نے رات کے اندھیرے میں سفر شروع کیا، کئی خارجی اس کے ساتھ مل گئے۔ وہ دریاے فرات کے کنارے انبار کی سمت میں جا رہے تھے کہ حضرت عدی سے ان کا سامنا ہو گیا جو واپس کوفہ جارہے تھے۔ ابن وہب انھیں قتل کرنا چاہتا تھا، مگر اس کے ساتھیوں نے منع کر دیا۔ حضرت عدی نے مدائن پر حضرت علی کے مقررہ حاکم سعد بن مسعودکو خارجیوں سے خبردار کیا اور ان کا مقابلہ کرنے کو کہا۔ سعد پانچ سو سپاہی لے کر خودنکلا، کرخ کے مقام پراس نے عبداﷲ بن وہب کوجا لیا۔ ابن وہب نے اپنے تیس سواروں کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ گھنٹہ بھر کی لڑائی کے بعدسعد کے فوجیوں نے یہ کہہ کرلڑنے سے انکار کر دیاکہ امیرالمومنین علی نے ان سے جنگ کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا۔ ادھر ابن وہب نے موقع غنیمت جانا اوررات کے اندھیرے میں کسانوں کی مدد سے دجلہ عبور کر کے جوخی(یا جوخا)آیا، پھر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس نہروان جا پہنچاجو اس کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ چونکہ یہاں دجلہ و فرات، دونو ں دریاؤں کا ذکر آیا ہے، اس لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ بصرہ کے شمال میں واقع شہر قرنہ کے پاس دجلہ و فرات آپس میں مل جاتے ہیں ، یہ مشترکہ دریا شط العرب یا آروند رود کہلاتا ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو بیس میل ہے اوریہ موجودہ نقشوں کے مطابق ایران و عراق کی سرحد بناتا ہوا خلیج فارس میں جاگرتا ہے۔

بصرہ کے خوارج

ادھر بصرہ میں رہ جانے والے پانچ سو خارجی اکٹھے ہوئے، مسعر بن فدکی کو اپنا امیر بنایا اوراشرس بن عوف کو مقدمہ پر مقرر کر کے روانہ ہوئے۔ سالم بن ربیعہ عبسی خارجیوں کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔ حضرت علی خود اس کے پاس گئے اور اسے منع کیا۔ قعقاع بن قیس اور عبداللہ بن حکیم کو ان کے رشتہ داروں نے روکا۔ حضرت عبداﷲ بن عباس نے ابوالاسود دئلی کو خارجیوں کا تعاقب کرنے کے لیے بھیجا۔ شوستر کے بڑے پل(دینوری) پر اس نے خارجیوں کو جا لیا، تاہم رات چھا جانے کی وجہ سے وہ بچ نکلے اوردجلہ عبور کر کے اپنے امیر کے پاس نہروان پہنچ گئے۔ راہ میں جو ملتا، اس سے سرپنچوں (حکمین)کے بارے میں سوال کرتے۔ اگر وہ ان سے اظہار براء ت نہ کرتا تو اسے قتل کر دیتے۔

جنگ کی تیاری

حضرت عبداﷲ بن عباس کے بصرہ جانے کے بعد حضرت علی نے اہل کوفہ کو جمع کیا۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا: یاد رکھو، معصیت حسرت وندامت کا باعث بنتی ہے۔ تم لوگوں نے جو دو حکم منتخب کیے تھے، انھوں نے قرآن کے حکم کو پس پشت ڈال دیااور کسی دلیل اور گذشتہ سنت کے بغیر فیصلہ کیا۔ انھوں نے اﷲ کی ہدایت کو چھوڑ کر صرف اپنی خواہشات کی پیروی کی، اس لیے اللہ، رسول اور نیک اہل ایمان ان سے بری ہیں ۔ اب تم شام کے سفر کی تیاری کرو او ررخت سفرباندھ کر پیر کی صبح لشکر گاہ میں پہنچ جاؤ۔ اس کے بعد انھوں نے خوارج کویہ خط لکھا:

’’اﷲ کے بندے، امیرالمومنین علی کی جانب سے زید بن حصین، عبداﷲ بن وہب اور ان کے ساتھیوں کی طرف: اما بعد، ابوموسیٰ اور عمرو بن عاص نے قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کی اورسنت پر عمل نہ کیا۔ اس لیے ہم ان کے فیصلے سے اظہار براء ت کرتے ہوئے پہلے مقام(محاربہ) پر آ کھڑے ہوئے ہیں ۔ جب میرا خط ملے تو چلے آنا۔ ہم گذشتہ موقف کے مطابق اپنے مشترکہ دشمن پر حملہ کریں گے۔ ‘‘

حضرت علی کے خط کا جواب دیتے ہوئے خارجیوں نے لکھا: آپ نے اپنے رب کی رضاکے لیے نہیں، بلکہ اپنی ذات کے لیے غصہ دکھایا۔ آپ مان لیں کہ میں نے کفر کا ارتکاب کیا اور اب توبہ کرتا ہوں تو ہم آپ کے ساتھ معاملہ کرنے پر غور کریں گے۔

خوارج کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد حضرت علی نخیلہ آئے اور لوگوں سے خطاب کیا، حمد وثنا کے بعدفرمایا:جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتا ہے اور امر الہٰی میں مداہنت کرتا ہے، ہلاکت کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔ ان گم راہوں اور مجرموں سے قتال کے لیے تیار ہو جاؤجنھیں اگر اقتدار مل جائے تو کسریٰ و ہرقل کی پیروی کریں ۔ شام جانے کی تیاری کر لو۔ ہم نے بصرہ میں موجوداپنے ساتھیوں کو فوج بھرتی کرنے کے لیے خط بھیج دیا ہے۔ امیر بصرہ حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی کا نامہ پڑھ کر سنایا اوراحنف بن قیس کو کمان سونپی تو ساٹھ ہزا ر جنگجوؤں کے شہر میں سے محض پندرہ سو آدمی نکلے۔ پھر انھوں نے جاریہ بن قدامہ کی قیادت میں نیادستہ بنانے کوکہا اور لوگوں کوتنبیہ کی کہ جو امیرکی نافرمانی کرے گا، میں اس کے خلاف کارروائی کروں گا۔ اس طرح مزید سترہ سو افراد نکل آئے۔ یہ دونوں دستے نخیلہ پہنچ گئے تو حضرت علی نے کوفہ کے رؤسا اور قبائل کے سرداروں کو بلایااور کہا: تم میرے بھائی، حق میں میرے مددگار اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ساتھ دینے والے ہو۔ ہر قبیلے کا سربراہ جنگ میں حصہ لینے کے قابل افراد کی فہرست فراہم کرے، لڑکے بالے ہوں یا غلام اور موالی۔ سب سے پہلے سعد بن قیس ہمدانی نے حضرت علی کی اپیل پر لبیک کہا، پھرحضرت معقل بن قیس ریاحی، حضرت عدی بن حاتم طائی، زیاد بن خصفہ، حضرت حجر بن عدی اوردوسرے سردار کھڑے ہوئے اور تعاون کا یقین دلایا۔ ان سرداروں نے اپنے اہل قبیلہ کو خطوط لکھے تو چالیس ہزار کی نفری فراہم ہو گئی، ان میں آزاد، غلام سبھی شامل تھے۔ مدائن کے حاکم سعد بن مسعود کو بھی سپاہی بھیجنے کو کہا گیا۔ تمام اہل کوفہ کو ملاکر پینسٹھ ہزار کی نفری ہوئی۔ اہل بصرہ کی تعداد تین ہزار دو سو تھی۔ حضرت علی کو معلوم ہوا کہ ان کے فوجی خارجیوں سے پہلے نمٹنے کی خواہش رکھتے ہیں توخطبہ دیا :میرے خیال میں عہد شکن لوگ خوارج سے زیادہ اہم ہیں ، اس لیے ان کا مقابلہ کرنے چلو جو تم سے اس لیے آمادہ بہ جنگ ہیں کہ جابر بادشاہ بن کر بندگان خدا کوغلام بنا لیں ۔ ساتھیوں نے کہا: امیر المومنین، ہم آپ کے انصار ہیں ، جدھر چاہیں لے جائیں ۔ صیفی بن فسیل نے کہا: ہم اس کے دشمن ہیں جو آپ سے عداوت رکھتا ہو اور اس کے ساتھی ہیں جو آپ کی اطاعت میں ہو۔ محرز بن شہاب بولا:آپ کی جماعت آپ کی نصرت میں یک جان و قلب ہے۔

حضرت عبداللہ بن خباب کی شہادت

نہروان کے قریب پہنچ کر خارجیوں نے صحابی رسول حضرت عبداﷲ بن خباب کو اپنی ام ولد کے ساتھ گدھے پر سوار جاتے دیکھا۔ وہ انھیں دیکھ کر گھبرا گئے تو پہلے تسلی دی، پھرحدیث فتنہ کے بارے میں پوچھا۔ حضرت عبداللہ نے بتایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: جب تم فتنے کا زمانہ پاؤ تو مقتول بن جانا، قاتل نہ بننا(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۹۰۵۱)۔ خارجیوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بارے میں ان کی راے لی۔ حضرت عثمان کے آخری دور کے بارے میں پوچھا تو حضرت عبداللہ نے کہا: وہ آخری دورمیں بھی حق پر تھے۔ پھر حضرت علی کے متعلق سوال کیا:وہ حکم قبول کرنے کے بعد کیسے رہے؟ تو جواب دیا:وہ تم سے زیادہ خدا آگاہ، دین پر زیادہ عامل اور تم سے زیادہ بصیرت کے حامل تھے۔ خارجی بولے:تو خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور لوگوں کے نام دیکھ کر ان سے محبت کرتا ہے، ان کے افعال کو نہیں دیکھتا۔ پھر تاؤ میں آ کرحضرت عبداللہ بن خباب کونہروان کے کنارے لٹا لیا تو انھوں نے کہا:تم تو مجھے امان دے چکے ہو۔ گم راہوں نے ایک نہ سنی اوران کو اس طرح ذبح کیا کہ خون کی دھار بہ نکلی۔ اس کے بعدوہ ان کی نو ماہ کی حاملہ ام ولد کی طرف بڑھے۔ انھوں نے کہا: میں تو ایک عورت ہوں ، تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟خارجیوں نے جوش جنون میں ان کا پیٹ پھاڑا اور بچہ نکال کر باہر پھینک دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ حضر ت خضر نے ایک مستقبل کے برے بچے کوپیشگی ہی قتل کر دیا تھا(اردو دائرۂ معارف اسلامیہ)۔ ان کے بعدتین مزید خواتین اورام سنان صیداویہ کو شہید کیا۔ حضرت علی کو پتا چلا تو حارث بن مرہ عبدی کوحالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا، انھوں نے پوری تفصیل لکھ بھیجی۔ وہ خارجیوں سے ملنے نہر کی طرف گئے تو انھوں نے ان کو بھی شہید کر دیا۔


خوارج کی طرف رخ

اب پوری فوج نے حضرت علی سے مطالبہ کیا:امیر المومنین، آپ ہمارے اہل و عیال کو ان گم راہوں کے رحم و کرم پر چھوڑکر کیوں جا رہے ہیں ؟ شامیوں پر لشکر کشی سے پہلے انھیں طاعت و جماعت کی دعوت دیں ۔ اگر وہ توبہ نہ کریں تو ان سے قتال کرکے امت کو راحت پہنچائیں ۔ حضرت اشعث بن قیس نے بھی کھڑے ہو کر تائید کی، حالاں کہ انھیں خارجیوں کا ہم نوا سمجھا جاتا تھا۔ اتفاق راے کے بعدحضرت علی نے کوچ کا حکم دیا، حضرت حسن اور حضرت حسین ان کے ہم راہ تھے۔ لشکرروانہ ہوا، دریاکا پل عبور کر کے حضرت علی نے دو رکعت نماز ادا کی، پہلی منزل دیر عبدالرحمٰن، دوسری دیر ابو موسیٰ پر کی، پھر قریہ شاہی اور دباہا سے ہوتے ہوئے دریاے فرات کے کنارے پہنچے۔ حضرت علی نے راستے میں ملنے والے نجومی مسافربن عفیف ازدی کے اس مشورے پر کان نہ دھرے کہ آپ دن کے وقت سفر کریں ، کسی دوسر ے وقت فوج کی حرکت سے آپ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا اور کہا: اگر میں نجومی کے مشورے کو مان لوں تو سب کہیں گے کہ اس کی راے پر چلنے سے کامیابی ملی۔

اہل نہر(نہروان) کی طرف جانے سے پہلے حضرت علی انبارگئے اور حضرت قیس بن سعد کے ہاتھ اہل مدائن کو جنگ میں شرکت کا حکم دیا۔ پھر خارجیوں کو پیغام بھیجاکہ ہمارے ساتھیوں کے قاتل ہمارے حوالے کر دو۔ ان سے قصاص لے کر ہم تمھاری راہ چھوڑ دیں گے اور شام کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ انھوں نے جواب دیا: ہم نے انھیں مل کرمارا ہے اور ہم سب ان کے اور تمھارے جان و مال کو حلال سمجھتے ہیں ۔ حضرت قیس بن سعدآگے بڑھے اور کہا:اﷲ کے بندو، قاتلوں کوہمارے حوالے کرکے جمعیت اسلامی میں دوبارہ شامل ہو جاؤ۔ ہم مل کر اپنے مشترکہ دشمن سے قتال کریں گے۔ تم نے مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر اور ان کا خون بہا کر سنگین جرم کیا ہے۔ عبداﷲ بن سخبر ہ (شجرہ:ابن اثیر)نے کہا:حق ہم پر روشن ہو گیا ہے، اب تمھاری بات نہ مانیں گے، جب تک تم عمر جیسا شخص سامنے نہ لاؤ۔ حضرت قیس نے کہا: ہمیں اپنے امیر کے علاوہ کوئی شخص عمر جیسا نظر نہیں آتا۔


 اب حضرت ابوایوب انصاری خوارج سے مخاطب ہوئے: اللہ کے بندو، ہم تم اسی حالت پر لوٹ آئے ہیں جس پر پہلے تھے۔ اب کیوں ہم سے جنگ پر آمادہ ہو؟خوارج نے جواب دیا: ہم آج تمھارے امیر کی بیعت کرلیں تو کل تم پھر حکم مان لو گے۔ حضرت ابوایوب نے کہا:آیندہ سال کے اندیشے میں تم اسی سال فتنے میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ آخر میں حضرت علی اٹھے اور یوں خطاب فرمایا:اے وہ جماعت جسے دشمنی اور ضد بازی نے امت سے خارج اور ہواے نفس نے حق سے دور کر دیا ہے، میں تمھیں خبردار کرتا ہوں کہ کل یہ امت تمھیں اس وادی میں پچھڑا پائے گی۔ تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں ثالثی قبول کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ شامیوں کاتمھیں تحکیم کی پیش کش کرنا ایک چال ہے، ان کا مقصد تمھاری قوت کوپارہ پارہ کرناہے۔ میں انھیں تم سے زیادہ جانتا ہوں ، ان کے بچپن اور ان کی جوانی سے واقف ہوں ۔ مگر تم نہ مانے، مجبوراً میں نے تحکیم قبول کی، لیکن ثالثوں سے پیمان لیا کہ قرآن جو حکم دیتا ہے، اسے جاری کریں گے اور جس شے کو ختم کرنا چاہتا ہے، اسے نابود کر دیں گے۔ جب ثالثوں نے باہم اختلاف کیا اور کتاب و سنت کے حکم کے مخالف چلے تو ہم نے ان کا فیصلہ پرے دے مارا۔ اب ہم تحکیم سے پہلے والے مقام پر آ گئے ہیں ۔ تم بولو، تم کیوں مقابلے پر اتر آئے ہو؟خوارج نے اصرار کیا کہ تحکیم کاگناہ کرنے سے ہم سب کافر ہو گئے تھے، ہم نے تواپنے کفر سے توبہ کرلی ہے۔ آپ بھی توبہ کا اعلان کریں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے اوراگر رجوع نہ کیا تو مقابلہ کریں گے۔ حضرت علی بولے: تم پر سنگ باری ہو اور تم میں سے کوئی ایک نہ بچے، رسول پر ایمان لانے اور ہجرت و جہاد کرنے کے بعد بھی میں اپنے کفر کی گواہی دوں؟ تب تو میں گم راہ تر ہو جاؤں گا۔


تب حضرت علی نے خوارج کو تجویز پیش کی:تم اپنی مرضی کا ایک نمایندہ میرے پاس بھیجو تاکہ وہ اپنی بات کہہ لے اورمیں اپنا موقف پیش کر لوں ۔ وہ راضی ہو گئے اور اپنے لیڈرعبداللہ بن کواکوبھیجا۔ حضرت علی نے اس سے پوچھا : کیا تم جنگ جمل کے معاملے میں مجھے بے قصورسمجھتے ہو؟ ابن کوا نے جواب دیا: ا س وقت تو تحکیم نہ ہوئی تھی۔ حضرت علی کا اگلا سوال تھا: کیا میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے؟ ابن کوا بولا: یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضرت علی نے پوچھا: تو کیا اللہ تعالیٰ کو نصاریٰ کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک تھا جب اس نے آپ کو ان سے مباہلہ کرنے کا حکم دیا؟ ابن کوا نے جواب دیا: یہ بات تو آپ کے خلاف دلیل بنتی ہے، آپ نے دو سر پنچ مان کر اپنے اوپر شک کیا، اس لیے ہمیں زیادہ حق ہے کہ آپ پر شک کریں ۔ ابن کوانے جب حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بھی حکم بننے کی وجہ سے کافر قرار دیاتو حضرت علی نے پوچھا: کیا ابوموسیٰ کے گم راہ ہونے سے تمھارے لیے جائز ہو گیا کہ کندھوں پر تلواریں رکھ کر لوگوں کی گردنیں مارنے لگو۔ واﷲ!اس طرح تمھارا ایک مرغی مارنا بھی اﷲکے ہاں سنگین جرم ہو گا، کجا ایسی جان لینا جو عنداﷲ حرام و محترم ہو۔ دوسرے خارجی زعما نے حضرت علی کے دلائل سنے تو آوازدی:ان سے بات چیت بند کر کے لوٹ آؤ اور اﷲ کی جنت میں جانے کی تیاری کرو۔ حضرت علی نے بھی اپنی فوج کو ہتھیار اٹھانے کا حکم دے دیا۔

جنگ نہروان ۳۷ھ (۱۷ جولائی۶۵۸ء )، دوسری روایت :۳۸ ھ (۶۵۹ء )

نہروان بغداد اور واسط کے درمیان وسیع علاقے کا نام ہے۔ اس میں بہنے والی نہر کوبھی نہروان کہا جاتا تھا جوحلوان سے بہتی ہوئی عراق کی کئی بستیوں کو سیراب کرتی ہوئی زیریں مدائن میں دجلہ میں جا گرتی تھا۔ فارسی میں اسے جوروان اور سریانی میں تامرّا کہا جاتاتھا۔ یاقوت الحموی کہتے ہیں : عہد سلاجقہ میں ہونے والی جنگوں میں یہ نہر خشک ہوئی اور اس پرآبادبستیاں اجڑ گئیں ۔ بعد کے ادوارمیں اس کا احیا نہ ہو سکا، کیونکہ ایسا اتفاق ہواکہ جس نے اسے جاری کرنے کی کوشش کی، زندگی نے اسے مہلت نہ دی۔

فوجوں کی ترتیب

خوارج نے نہر کے پل کا رخ کیا تو حضرت علی کے ساتھی بولے: یہ نہر عبور کر جائیں گے۔ ایک جاسوس نے خبر دی کہ وہ نہر پار کر رہے ہیں ۔ حضرت علی نے اصرار کیا کہ ایسا نہیں ہو گا، ان کا انجام ندی کے اِس پار ہی ہوگا، تمھارے دس سپاہی بھی شہید نہ ہوں گے اور ان میں سے دس بھی نہ بچیں گے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۹۰۴۸)۔ اب انھوں نے فوج کو ترتیب دینا شروع کیا، میمنہ پرحضرت حجر بن عدی، میسرہ پر شبث بن ربعی، گھڑ سواروں پرحضرت ابو ایوب انصاری اور پیادوں پر حضرت ابوقتادہ انصاری کو مقرر کیا۔ حضرت قیس بن سعد اہل مدینہ کی کمان کر رہے تھے۔ زید بن حصین، شریح بن اوفی، حمزہ بن سنان اور حرقوص بن زہیرعلی الترتیب خارجیوں کے میمنہ، میسرہ، گھڑ سواراورپیادہ دستوں کے کمانڈر تھے، جب کہ عبداﷲبن وہب کمانڈر ان چیف تھا۔ طبری، ابن اثیر، ابن کثیراور ابن جوزی نے (ایک جگہ) شبث بن ربعی کوحضرت علی کی فوج کا امیر میسرہ، جب کہ ابن جوزی نے دوسرے مقام پراسے خوارج کا امیر قتال بتایا ہے۔ ابن حجر کہتے ہیں : شبث خارجی تھا، لیکن پھر تائب ہوگیا۔ اس نے حضرت عثمان کے قتل میں معاونت کی اورپھر حضرت حسین کے خلاف جنگ میں شریک رہا۔

حضرت علی نے حضرت ابوایوب کے ہاتھ میں صلح کا پرچم تھمایااور یہ اعلان کرنے کا حکم دیا: جواس پرچم تلے آ جائے گا، مامون ہو گا، بشرطیکہ اس نے کوئی قتل نہ کیا ہو، اورجو لشکر چھوڑ کر کوفہ یا مدائن چلاجائے گا، اسے بھی امان دی جائے گی۔ ہمیں اپنے مقتول بھائیوں کا قصاص لینے کے بعد تمھارا خون بہانے کی حاجت نہ ہو گی۔ اس اثنا میں فروہ بن نوفل پانچ سو گھڑ سوار لے کر نکل آیا اور کہا: مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہم علی سے جنگ کیوں کر رہے ہیں ، جب کہ انھیں قتل کرنے کی ہمارے پاس کوئی حجت نہیں ۔ کچھ خارجی لشکر چھوڑ کر کوفہ چلے گئے، جب کہ ایک ہزار افراد نے پرچم تلے پناہ لی۔ عبداﷲ بن وہب کے چار ہزارساتھیوں میں سے دو ہزار آٹھ سو اس کے ساتھ رہ گئے۔ یہ حضرت علی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ حضرت علی نے اسود بن یزیدمرادی کی قیادت میں دوہزارشہ سواروں پر مشتمل رسالے (cavalry)کو آگے رکھا اورپیدل فوج کی دو صفیں بنائیں ، اگلی صف تیراندازوں پر مشتمل تھی۔ انھوں نے فوج کوحکم دیا: اس وقت تک جنگ نہ کرناجب تک ان کی طرف سے ابتدانہ ہو۔ اگر انھوں نے سخت حملہ بھی کیا تو ان کے پیادے اپنا نقصان کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

جنگ کی ابتداو انتہا

بالآخر خارجیوں نے پیش قدمی کی۔ تین سو سواروں پر مشتمل ان کے گھڑ سوار دستے کی کمان حمزہ بن سنان کے ہاتھ میں تھی۔ جیش علی کے پاس پہنچنے پر کچھ خارجیوں نے حاکم اصفہان حضرت یزید بن قیس کو آواز دی: ’لاحكم إلا الله‘۔ عباس بن شریک اور قبیصہ بن ضبیعہ خوارج نے جواب دیا:اللہ کے دشمنو، کیا تم میں شریح بن اوفی جیسا خطا کار نہیں ؟اور کیا تم بھی اس جیسے نہیں ؟ خارجی بولے:ہم نے تو توبہ کر لی ہے، تمھارے پاس کیا دلیل ہے کہ فتنہ میں مبتلا ایک شخص کا ساتھ دے رہے ہو؟پھر وہ چیخنا شروع ہو گئے :’چلو، جلدی سے جنت کی طرف چلو‘یہ نعرہ لگاتے ہی وہ حضرت علی کی فوج کے آگے چلنے والے رسالے پر ٹوٹ پڑے۔ حملے کی شدت سے گھوڑے اپنی جگہ پر ٹھیر نہ سکے اور دو حصوں میں بٹ کر دائیں بائیں ہو گئے۔ اس سے انھیں حضرت علی کی پیدل فوج تک بڑھنے کا موقع مل گیا، لیکن پہلی صف میں موجود تیر اندازوں نے ان کے مونہوں پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس دوران میں سوار فوج نے بھی دائیں بائیں سے واپس مڑ کر خارجیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ پھردوسری صف میں کھڑے پیادوں نے تلواروں اور نیزوں سے وار کرنے شروع کر دیے۔ زخمی ہونے کے باوجود وہ لڑتے جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیرگزری تھی کہ حضرت علی کے جاں نثاروں نے خوارج کی پیدل فوج کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ خارجی سوار دستوں کے امیرحمزہ بن سنان نے اپنے لشکر کو تباہ ہوتے دیکھا تو سپاہیوں کوللکار کرکہا کہ فوراً گھوڑوں سے نیچے اترآؤ۔ انھوں نے گھوڑوں کی پیٹھیں چھوڑی ہی تھیں کہ اسودبن قیس کا دستہ ان پر ٹوٹ پڑا، حضرت علی کے بھیجے ہوئے مزیدشہ سوار بھی مدد کے لیے آن پہنچے۔ خارجی سواربھی اب مکمل طور پر خاموش ہو چکے تھے۔ بمشکل دس خارجیوں کو فرار ہونے کا موقع ملا۔ یہ بعد میں حضرت علی کی شہادت میں شریک رہے۔

شریح بن اوفی کا قتال

شریح بن اوفی نے ایک دیوار کے پیچھے پناہ لی اور اس کے شگاف سے نکل کر دن بھرلڑتا رہا۔ اس نے تین ہمدانیوں کو بھی قتل کیا اور کچھ اشعار بھی پڑھے:

إني سأحمي ثلمتي العشیة
’’میں اپنے اس شگاف میں شام تک پناہ لوں گا۔‘‘
أضربھم ولو أری علیا


ألبسته أبیض مشرفیا


’میں علی کی فوج پرتلوارچلا رہا ہوں اور اگر علی کو دیکھ لیتا تو ان کو سفید چمک دارشمشیر کا لباس پہنا دیتا۔‘‘

 قیس بن معاویہ دہنی (برجمی:دینوری)نے شریح کودیکھا توایک زبردست وار کر کے اس کا پاؤں کاٹ ڈالا۔ زخمی ہونے کے با وجود وہ بدبخت لڑائی سے باز نہ آیا تو قیس نے دوسری ضرب لگائی اور اس کا کام تمام کر دیا۔

خارجی لیڈروں کا انجام

جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت ابوایوب انصاری حضرت علی کے پاس آئے اور بتایا کہ میں نے زید بن حصین کے سینے میں نیزے کا پھل گاڑ دیا، حتیٰ کہ اس کی کمر کے پا ر ہو گیا۔ حضرت علی نے پوچھا:تم دونوں میں کوئی گفتگو ہوئی تھی؟حضرت ابو ایوب نے بتایا:میں نے اسے جہنم کی وعید سنائی تو بولا: تو جلدجان جائے گا کہ ہم میں سے کون جہنم میں جانے کا زیادہ حق دار ہے۔ اس پر حضرت علی خاموش رہے۔ دوسری روایت ہے کہ انھوں نے کہا:وہی دوزخ میں داخلے کا زیادہ سزا وار ہے۔ عائذ بن حملہ نے بتایا کہ میں نے کلاب کوقتل کیا۔ حضرت علی نے کہا: توحق پر ہے اور تم نے ایک باطل پرست کو مارا ہے۔ ہانی بن خطاب اور زیاد بن خصفہ، دونوں نے دعویٰ کیا کہ اس نے عبداﷲ بن وہب راسبی کو قتل کیا ہے۔ حضرت علی نے پوچھا:تم نے اسے کیسے مارا؟دونوں نے کہا:ہم اس کی طرف لپکے اور اپنے اپنے نیزے اس کے جسم میں پیوست کر دیے۔ حضرت علی نے فرمایا: مت جھگڑو، تم دونوں اس کے قاتل ہو۔ جیش بن ربیعہ نے حرقوص بن زہیر کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ عبداﷲ بن زحر نے عبداﷲ بن سخبرہ (شجرہ:ابن اثیر)کو قتل کیا۔

پستان والے کی تلاش

خوارج کا فتنہ برپا ہونے سے پہلے حضرت علی کہاکرتے تھے: آخری زمانے میں ایک ایسا گروہ ظاہر ہوگا جن کی زبانوں پر قرآن تو ہو گا، لیکن وہ ان کی ہانسوں (clavicles) سے نیچے نہ اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہو جائیں گے، جس طرح تیر کمان سے نکلتا ہے۔ ا س گروہ میں ایک ٹنڈا شخص شامل ہو گاجس کا ہاتھ پیدایشی طور پر ناقص ہو گا۔ جس کسی کا ان سے سامنا ہو، انھیں قتل کر دے، کیونکہ ان کا قتل اللہ کے ہاں باعث اجر ہو گا(بخاری، رقم ۳۶۱۱۔ مسلم، رقم ۲۴۲۷۔ نسائی، رقم ۴۱۰۷۔ احمد، رقم ۱۰۸۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۹۰۳۸، ۳۹۰۸۲۔ مسند بزار، رقم ۵۶۸۔ ابن حبان، رقم ۶۷۳۹)۔ جنگ نہروان کے اختتام پر انھوں نے خوارج کی لاشوں میں سے اس نشانی کے حامل آدمی کی تلاش کرنے کو کہا۔ ایسی کوئی لاش نہ ملی تو حضرت علی بولے: نہ میں نے جھوٹ بولا، نہ مجھے بتانے والے کے بارے میں جھوٹ کا گمان کیا جا سکتا ہے۔ آخر کاروہ خود کھوج میں نکلے، سلیمان بن ثمامہ اور ریان بن صبرہ ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے جوروان کے کنارے ایک گڑھے کے اندر پچاس لاشوں میں پھنسی ہوئی ایک نعش دیکھی۔ اس کے بازو کی جگہ گوشت کا ایک لوتھڑا لٹک رہا تھا جو عورت کے پستان سے مماثلت رکھتا تھا، سر پستان (nipple، چوچی) پر چند سیاہ بال اور سات تل بھی تھے۔ اسے پکڑ کر کھینچا گیا تو دوسرے بازو جتنا لمباہو گیا اور چھوڑنے پر کندھے سے چپک کر پستان کی طرح نظر آنے لگا۔ حضرت علی نے ا ﷲ اکبر کا نعرہ لگایا، طویل سجدۂ شکر اداکر کے کہا:میں نے جھوٹ کہا نہ مجھے بتانے والے نبی کی بات جھوٹ تھی۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم بے عمل ہو کر بیٹھ جاؤ گے تو میں تمھیں وہ فیصلہ سناتا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ان خارجیوں سے قتال کرنے والوں کے حق میں سنا رکھا ہے (احمد، رقم ۶۲۶، ۸۴۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۹۰۳۶۔ مسند بزار، رقم ۵۳۸)۔ اس طرح ان خوارج سے برسر پیکار اپنی معرکہ آرائی کی پوری بصیرت رکھتا اورہم جس حق پر ہیں ، اسے خوب پہچان رہا ہوتا۔


 اموال کی تقسیم اور قیدیوں کی رہائی


 حضرت علی خارجیوں کی نعشوں کے پاس سے گزرے توبولے: تمھارا ناس ہوا، تمھیں دھوکے میں ڈالنے والے نے تباہ کر دیا۔ لوگوں نے پوچھا: امیرالمومنین، انھیں کس نے دھوکے میں ڈالا؟فرمایا: شیطان نے اور نفس امارہ نے انھیں جھوٹی تمناؤں میں مبتلا کر کے یہ یقین دلا دیاکہ وہ غالب آئیں گے۔ اس کے بعد حضرت علی نے ان زخمیوں کو ڈھونڈاجن میں ابھی زندگی کی رمق تھی۔ ایسے افراد کی تعداد چار سو تھی۔ انھوں نے حکم دیا کہ ان کو ان کے قبیلوں تک پہنچا دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ ان کا دو ادارو کر کے کوفہ لے جائیں ، لشکر گاہ میں موجود ان کا سازوسامان بھی لے جاؤ۔ حضرت علی نے خارجی فوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ اور ان کی سواریاں مسلمانوں میں بانٹ دیں، لیکن ان کا کامل ما ل و متاع اور غلام لونڈیاں ان کے گھر والوں کو واپس کر دیے، خمس بھی نہیں نکالا۔ ایک ہنڈیا ان کے سامنے لائی گئی، وہ بھی واپس کردی۔ حضرت عدی بن حاتم طائی نے اپنے بیٹے طرفہ کی نعش تلاش کر کے اسے دفنایا۔ باقی لوگوں نے اپنے مقتولوں کی تدفین کی۔ بنو سدوس کے ایک خارجی عیزار بن سدوس کو حضرت عدی نے پکڑا اور حضرت علی کے پاس لے آئے۔ انھوں نے کہا: اس کا خون ہمارے لیے حلال نہیں، لیکن ہم اس کو قید ضرور کریں گے۔ حضرت عدی نے کہا:اسے میرے سپرد کر دیں ، میں اس کا ضامن رہوں گا۔


 ۳۸ھ میں واقع ہونے والے معرکۂ نہروان میں حضرت علی کے صرف سات سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں ایک صحابی حضرت یزید بن نویرہ انصاری بھی تھے جو جنگ کی ابتدا ہی میں شہید ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے روز انھیں جنت کی بشارت دی تھی۔ فرمایاتھا:جو اس ٹیلے کو پار کرے گا، اسے اجر میں جنت ملے گی۔ حضرت یزید اور ان کے چچازاد، دونوں تلوار زنی کرتے ہو ئے اس ٹیلے کو پار کرگئے تو فرمایا: یزید، تمھیں اپنے بھائی پر ایک درجہ زیادہ حاصل ہو گا (تاریخ بغداد ۱ / ۲۰۳)۔

جیش علی کامزید جنگ سے کترانا

جنگ نہروان میں نصرت حاصل کرنے پر حضرت علی نے اﷲ کی حمد وثنا کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا: اللہ نے تم پربہت احسان کیا اور تمھاری خوب مدد فرمائی ہے، اس لیے اب تم فور اً اپنے شامی دشمنوں کے مقابلہ پر چلو۔ حضرت اشعث بن قیس نے جواب دیا: امیرالمومنین، ہمارے تیر ختم ہو چکے، تلواریں کند ہو گئیں اور نیزوں کی انیاں جھڑ گئی ہیں ، اس لیے آپ شہر واپس چلیں تاکہ ہم دوبارہ اچھی طرح تیار ی کرسکیں ۔ ہو سکتا ہے، امیر المومنین مزید اسلحہ فراہم کر دیں ، شاید ہماری تعدادمیں اضافہ ہوجائے اور جولوگ فوت ہوئے، ان کی کمی پوری ہوجائے۔ چنانچہ حضرت علی نخیلہ پہنچے، لشکر کو ٹھیرایا اورفوجیوں کو تلقین کی کہ دل میں جہاد کا ارا دہ رکھتے ہوئے بیوی بچوں سے مختصر ملاقات کر لیں ۔ ان کی ہدایت کے برعکس کچھ ہی دنوں میں سپاہی کھسکنا شروع ہو گئے اور چھاؤنی خالی ہو گئی، چند جرنیل ہی واپس آئے۔


حضرت علی مایوس ہو کر کوفہ پہنچے اور لوگوں کوجہاد پر چلنے کی پھرترغیب دی، فرمایا: جہاداللہ کا قرب اور اس کا وسیلہ پانے کا ذریعہ ہے۔ جتنی قوت اور گھوڑے جمع کر سکتے ہو، کرواور اللہ پر بھروسا رکھو، وہی کارساز اور مددگار ہے۔ انھوں نے کچھ روز انتظار کیا، لیکن جب ایک شخص بھی آمادہ ہوا، نہ کوئی تیاری کی تو انھوں نے رؤسا اور سرداروں کو جمع کیا اوران سے خطاب کیا:کیا وجہ ہے کہ میں نے تمھیں جہاد کے لیے کہا تو تم زمین پرڈھے جاتے ہو؟( اثَّاقَلْتُمْ اِلَي الْاَرْضِ، التوبہ۹: ۳۸)، دنیا وی زندگی کو ترجیح دینے اور عزت کے بجاے ذلت و رسوائی کو پسند کرنے لگے ہو؟امن کے زمانہ میں شیر اور زمانۂ جنگ میں لومڑی ہو جو دم دباکر بھاگتی ہے۔ تم دوسروں کی چال میں آنے والے ہو، خود کوئی چال نہیں چل سکتے۔ جنگجوتووہ ہوتا ہے جو بیدار رہے اور عقل استعمال کرے۔ تمھاری خیر خواہی کرنا اور تمھیں جہالت کے اندھیروں سے باہر لانا مجھ پر لازم ہے، لیکن بیعت کی ذمہ داریاں ادا کرنا اور میری پکار پر چلے آنا ایسے فرائض ہیں جو تمھیں نبھانے ہوں گے۔ افسوس کہ حضرت علی کا دردمندانہ خطاب رایگاں گیا۔ چند سرداروں نے صاف انکار کیا، کچھ نے بادل نخواستہ ہاں کی، خوشی سے جہاد پر جانے والے تھوڑے ہی تھے۔ یہ حال دیکھ کرحضرت علی کو شامیوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ ملتوی کرنا پڑا۔

 ۳۸ھ میں حضرت علی نے حضرت عبیداﷲ بن عباس کو امیر حج مقرر کیا۔

مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاخبار الطوال (احمد دینوری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، دلائل النبوۃ(بیہقی)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی )، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، تاریخ اسلام (شاہ معین الدین)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:ڈاکٹر حمید اللہ )، سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)۔


[باقی]

____________

B