[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
یہ تو درست ہے کہ کوئی جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا، لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہر صادق کے ہر دعویٰ کا سچا ہونا بھی لازم نہیں۔ حقائق اس کے برعکس موجود ہیں کہ انسانوں سے جھوٹ نہ بولنے والے بھی بعض اوقات خدا پرجھوٹ باندھ دیتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ وضع حدیث میں سب سے زیادہ حصہ ’صالحین‘ کا رہا ہے جن پر محدثین نے سخت جرح کی ہے۔ یہ بڑی نیک نیتی سے حدیثیں گھڑا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو نیکی کی راہ پر لایا جائے۔ اس کے علاوہ یہ امکان بھی پوری طرح موجود ہےکہ کوئی صالح شخص کسی نفسیاتی عارضے، (مثلاً شیزوفرینیا) کی بنا پر دعویٰ کر بیٹھےکہ وہ خدا یا فرشتوں سے مخاطبت کا شرف رکھتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مذہبی اور سیاسی قائدین کو مزعومہ سلام، پیغام اورمقدس خوابوں کا عام استعمال تو ہمارے دور کی بات ہے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ نبی کے مخاطب ہرشخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پہلے نبی کے کردارکا مشاہدہ کرکے اس کی صداقت کا یقین حاصل کرے اور پھر اس پر ایمان لائے۔ چنانچہ فرد کا ذاتی صدق و کردار نبوت کی تصدیق کے لیے حتمی معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
امکان نبوت کے عرصہ میں جب ایک جانا پہچانا، معقول شخص، جس پر جھوٹ بولنے کا گمان نہیں کیا جا سکتا، جب نبوت کے دعویٰ کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرتا تو اس کی شخصیت اورحالات میں موجود معروف مؤید اس کی عقلی تصدیق کرتے ہیں۔ نبی کی نبوت کے پیچھے اخذ و اکتساب کا کوئی پس منظر نہیں ہوتا، اس کی زبان سے صادر ہونے والا کلام الہٰی عقل و بصیرت کے آخری معیار پراُنھی چیزوں کے بارے میں دعوت دیتا ہے جن کی قبولیت انسان کے عقل و فطرت کا تقاضا ہوتا ہے، لیکن انسان ان سے غافل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اُس کو پہچاننے میں کسی سلیم الفطرت شخص کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ تاہم نبی کا ذاتی صدق اورکردار اس کے دعویٰ نبوت کے سچا ہونے کا قرینہ تو بنتاہے، لیکن یہ غیرمتنازع حتمی معیار نہیں ہوتا جس پر اس کے دعویٰ کو ہر کوئی پرکھ سکےاور ان پر حجت قائم کی جا سکے ۔ نبوت کی تصدیق کا معاملہ نازک ہے۔خدا اور رسولوں کی طرف سے ان کے کردار کےصدق کو نبوت کی تصدیق کے لیے بطور معیار اور کسوٹی کبھی پیش نہیں کیا گیا۔ مسیح علیہ السلام نے اس بات کو یوں بیان فرمایا ہے:
’’اگر میں صرف اپنے بارے میں گواہی دیتا تو میری گواہی سچی نہ ہوتی، لیکن ایک اور ہے جو میرے بارے میں گواہی دیتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کی گواہی سچی ہے۔ آپ لوگوں نے یوحنا کے پاس آدمی بھیجے اور اس نے سچائی کے بارے میں گواہی دی۔ مجھے انسانوں کی گواہی سے کوئی لینا دینا نہیں مگر یہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ آپ نجات پائیں... لیکن میرے پاس یوحنا کی گواہی سے بھی بڑی گواہی ہے کیونکہ جو کام میں کررہاہوں وہ گواہی دے رہے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ (یوحنا ۵: ۳۱ - ۳۷)
قرآن مجید کی ایک آیت کے غلط فہم سے یہ خیال پیدا ہوا ہےکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کےصدق کو ان کی نبوت کی گواہی میں پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس آیت کا سیاق صاف بتادیتا ہے کہ وہاں کردار کی ضمانت پیش نہیں کی گئی، بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سےیہ کہا گیا ہے کہ یہ کلام معجز بیان، جواچانک مجھ سے صادر ہونے لگا ہے، اس طرح کی کوئی بات اس تمام عرصے میں جو میں نے تم میں گزارا، کبھی تم نے مجھ سے نہیں سنی۔ تو کیا یہ عجیب بات یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتی کہ یہ کلام میرا نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کی طرف سے نازل ہوا ہے؟
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَا٘ اَدْرٰىكُمْ بِهٖﵳ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.(یونس ۱۰: ۱۶)
’’کہہ دو، اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا، نہ اللہ اِس کی خبر تمھیں دیتا۔ یہ اُسی کا فیصلہ ہے، اِس لیے کہ میں تو اِس سے پہلے ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں۔ (میں نے کب اِس طرح کی کوئی بات کبھی کی ہے)؟ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
اسی طرح کوہ صفاپر جب پہلی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسرعام قریش مکہ کو دعوت دی تو یہاں بھی یہ سمجھا گیا ہے کہ آپ نے اپنے کردار کی گواہی پیش کر کے قریش کودعوت ایمان دی تھی، لیکن صورت حال یہ نہیں تھی۔ آپ نے عرب کی روایت کے مطابق کسی دشمن قبیلے کے اچانک حملے کےخطرے سے آگاہ کرنے والے کی طرح ’ يا صباحاه‘ پکار کر لوگوں کو اکٹھا کیا۔ لوگ فوراً ہوشیار ہوکر اکٹھا ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے کو ہے تو کیا میری بات کا یقین کرو گے؟ سب نے جواب دیا :
نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا.
’’ہاں، ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔‘‘
اس پر آپ نے فرمایا :
فإنّي نَذِيْرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذابٍ شَدِيد.( بخاری، رقم ۴۷۷۰)
’’تو میں خدا کی طرف سے عذاب شدید سے پہلے تمھیں خبردار کررہا ہوں۔‘‘
عرب کی روایت کے مطابق دشمن کے حملے کے خطرے سے آگاہی دینے کے لیے بستی کا کوئی شخص کپڑے پھاڑ کر ’ يا صباحاه‘ چلا کر خبردار کرتاتھا۔ اسے ’نذیر عریاں ‘،یعنی برہنہ آگاہ کرنے والا کہا جاتا تھا۔ یعنی کوئی بھی پہاڑ پر چڑھ کر خطر ے سے آگاہی کا اشارہ دیتا تو لوگ اس پر یقین کرتےتھے۔ ایسا گھمبیر مذاق کر کے کوئی شخص سماج میں اپنی حیثیت عرفی کھونے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ صورت واقعہ میں آپ کے کردار کا صدق زیر بحث نہیں، بلکہ یہ تمثیل بیان کرنا مقصود تھی کہ جس طرح ’نذیر عریاں‘ کے چلانے پر لوگ ہوشیار ہو کر خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بڑے خطرے، یعنی عذاب خداوندی سے ڈرانے کے لیے ’نذیر مبین‘ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ وہ خطرہ ان کے سروں پر آ گیا ہے۔ جس طرح ’نذیر عریاں‘ پہاڑ کے عقب سے خطرے کو دیکھ کر آ گاہ کرتاہے اور لوگ اپنی سلامتی کی خاطر اس کی بات کا یقین کرتے ہیں، اسی طرح خدا کے عذاب کی خبر پا کر جو شخص انھیں آ گاہ کر رہا ہے، اس کی بات کو جھٹلانے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے، جب کہ وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ خبردار کرنے والا کوئی جھوٹا بھی نہیں، اس کی سچائی کا تجربہ وہ بارہا کر چکے ہیں۔
یہ قضیہ کہ ایک شخص جوجھوٹا نہیں ہوتا، اس کا دعویٰ نبوت بھی سچا ہوگا، مسلم ڈسکورس میں بطور معیار غالباً بازنطینی شہنشاہ قیصر اور حضرت ابو سفیا ن کے درمیان ہونے والے مکالمے سے داخل ہوا ہے۔ اس مکالمے میں قیصر کہتا ہے کہ جو شخص لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا،وہ خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے، لیکن یہ درحقیقت کوئی کلیہ نہیں ہے۔
اس کے بجاے دعویٰ نبوت کی تصدیق و شہادت کے لیے خدا کی طرف سے خاص تصدیقی اسناد جاری کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
انبیا کی سرگذشتوں پرغورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نبوت کی تصدیقی اسناد کی دو صورتیں رہیں: ایک یہ کہ جن اقوام میں پہلی بار کوئی نبی آیا اوران میں نبوت کی روایت موجود نہ تھی یا وہ اس سے مانوس نہ تھے، وہاں انبیا کو متشککین اور مکذبین کے سامنے اپنی بعثت من جانب اللہ ثابت کرنے کے لیے بینات، یعنی معجزات دیے گئے۔ انھیں برہان، یعنی نشان کا نام بھی اسی لیے دیا گیا کہ وہ نبوت کی تصدیق کے لیے بطور نشان الہٰی دیے جاتے ہیں۔ یہ معجزات، قوم کے حالات اور نفسیات کو مد نظر رکھ کر دیے جاتے تھے۔ مثلاً ساحری کے شعبدوں سے متاثر فرعونیوں کو مرعوب اور قائل کرنے کے لیےموسیٰ علیہ السلام کو عصا اور ید بیضا کے دو معجزات دیے گئے:
وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَﵧ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰي مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْﵧ يٰمُوْسٰ٘ي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْﵴ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ. اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍﵟ وَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۠ئِهٖﵧ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ.(القصص ۲۸: ۳۱ - ۳۲)
’’اور یہ بھی کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے دیکھا کہ لاٹھی بل کھا رہی ہے، گویا کہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اُس نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ فرمایا: موسیٰ، آگے آؤ اور ڈرو نہیں، تم بالکل مامون ہو۔اپنا ہاتھ ذرا اپنے گریبان میں ڈالو، وہ بغیر کسی مرض کے سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا اور اِس کے لیے اپنا بازو اپنی طرف سکیڑ لو، جس طرح خوف سے سکیڑتے ہیں۔ سو تیرے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اُس کے درباریوں کے پاس جانے کے لیے یہ دو نشانیاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔‘‘
اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے فراعنہ کو قائل اور عاجز کرنے کے لیے قرآن مجید کی زبان و بیان کا معجزہ اس چیلنج کے ساتھ دیا گیا کہ اگر یہ انسانی تصنیف ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دیں۔ یہ معجزہ بھی ان کے حالات اور نفسیات کے مطابق تھا۔
تصدیقی سند کی دوسری صورت یہ تھی کہ جس قوم میں نبوت کی روایت موجود تھی، ان کے پہلے انبیا آنے والے انبیا کی آمد کی تصدیق کیا کرتے تھے۔ اس کی پھر دو صورتیں تھیں: ایک یہ کہ پہلے انبیا آنے والے انبیا کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے۔ یہ پیشین گوئیاں آنے والے انبیا کے ذاتی اور مخصوص صفاتی ناموں اور خصوصیات کے ساتھ بیان کی جاتی تھیں ۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ایک نبی اگر اپنے سے پہلے نبی کی زندگی میں ہی آجاتا تو پہلا نبی بعد والے کا پانی یا تیل سے مسح کر کے اس کی نبوت کا اعلان کرتا۔ یہ دونوں طریقے بنی اسرائیل میں رائج تھے۔عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت رہی کہ ان کے لیے تصدیقی اسناد کی ساری صورتیں جاری کی گئیں۔ حضرت ابراہیم[1] علیہ السلام سے یوحنا تک مسیح علیہ السلام کی آمد کے بارے میں مسلسل پیشین گوئیاں ان کے مخصوص صفاتی نام ’مسیح‘ اور شخصی خصوصیات کے ساتھ کی گئیں۔ اس کے علاوہ معجزات کی کثرت بھی ان کے ہاتھوں سے دکھائی گئی۔ مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل پر اپنے معجزات اور ان پیشین گوئیوں کے ذریعے سے اتمام حجت کرتے جن میں آپ کی آمد کا تذکرہ آپ کے نام اور صفات سے کیا گیا تھا :
’’پس یہودیوں نے آپ کے گرد جمع ہو کر آپ سے کہا تم کب تک ہمارے دل کو ڈانوا ں ڈول رکھو گے ؟ اگر تم مسیح ہو تو ہم سے صاف کہہ دو۔ سیدنا عیسیٰ نے انھیں جواب دیا کہ میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام (معجزات) میں اپنے پروردگار کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔‘‘ (یوحنا۱۰: ۲۴- ۲۵)
’’جب یوحنا نے قید خانے میں یسوع کے کاموں کے بارے میں سنا تو انھوں نے اپنے شاگردوں کو ان کے پاس بھیجا تاکہ ان سے پوچھیں کہ’’کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جسے آنا تھا، یا کیا ہم کسی اور کا انتظار کریں؟‘‘ یسوع نے جواب دیا: یوحنا کے پاس واپس جائیں اور انھیں ان باتوں کے بارے میں بتائیں جو آپ دیکھ اور سن رہے ہیں: اندھے دیکھنے لگےہیں، لنگڑے چلنے پھرنے لگے ہیں، بہرے سننے لگےہیں، کوڑھی ٹھیک ہو رہے ہیں، مردے زندہ کیے جا رہے ہیں اور غریبوں کو خوش خبری سنائی جا رہی ہے۔ وہ شخص خوش رہتا ہے جو میرے بارے میں شک نہیں کرتا۔‘‘ (متی۱۱: ۲- ۶)
پیشین گوئیوں کے ذریعے سے نبوت کی تصدیقی سند کا اجرا حضرت ابراہیم کی ذریت میں جاری کیا گیا، جن میں نبوت ایک روایت کے طور پر مسلسل موجود رہی۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ آنے والے انبیا کی پیشین گوئیوں میں ان کی خصوصیات ہی نہیں، ان کے ذاتی اور مخصوص صفاتی ناموں کا بھی ذکر کیا جاتا تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس پیشین گوئی کو نوشتۂ الہٰی میں درج کیا جاتا تھا۔ اسے روایت کی صورت میں درجۂ تواتر تک پہنچایا جاتا تھا تاکہ کسی کو کوئی ابہام نہ رہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل ہر آنے والے نبی کے نام اور صفات سے واقف اور اس کے منتظر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کواسمٰعیل، اسحٰق، یعقوب، اور محمد علیہم السلام کی بشارتیں، موسیٰ علیہ السلام سے یحییٰ تک مسیح علیہ السلام کی بشارت اور زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام کی بشارت، ان سب کے ذاتی اور صفاتی ناموں اور خصوصیات کے ساتھ ملنا ہمارے علم میں ہے۔ پھر یحییٰ علیہ السلام نے مسیح علیہ السلام کی آمد کی باقاعدہ منادی کی اور مسیح علیہ السلام نے محمد رسول اللہ کی آمد کا اعلان تسلسل سےکیا۔ پیشین گوئیوں کا یہ تسلسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر رک جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کے آخری دور میں وہ تین انبیا کے منتظر تھے جن کی صفات ہی نہیں، ان کے نام بھی انھیں معلوم تھے، یعنی ایلیاہ، مسیح اور احمد / محمد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ان دونوں ناموں سے ان کے ہاں موجود تھی۔ ان تینوں شخصیات کا ذکر اکٹھا ایک جگہ یوحنا کی انجیل میں آیا ہے:
’’یہ وہ گواہی ہے جو یوحنا نے اُس وقت دی جب یہودیوں نے کاہنوں اور لاویوں کو اُن کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ ”تُم کون ہو؟“ یوحنا نے اُن کی بات کا جواب دینے سے اِنکار نہیں کیا، بلکہ صاف صاف کہہ دیا: ”میں مسیح نہیں ہوں۔“ اِس پر اُنھوں نے اُن سے پوچھا: ”تو کیا تُم ایلیاہ ہو؟“ اُنھوں نے جواب دیا: ”نہیں۔“ اُنھوں نے پھر سے پوچھا: ”تو کیا تُم وہ نبی ہو جس کے آنے کے بارے میں پیشگوئی کی گئی تھی؟“ اُنھوں نے جواب دیا: ”نہیں۔“ تب اُنھوں نے کہا: ”تو پھر تُم کون ہو؟ تُم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ہمیں کچھ تو بتاؤ تاکہ ہم جا کر اُن کو جواب دے سکیں جنھوں نے ہمیں بھیجا ہے۔“ یوحنا نے جواب دیا: ”جیسا کہ یسعیاہ نبی نے کہا، میں وہ آواز ہوں جو ویرانے میں پکار رہی ہے کہ ”یہوواہ کی راہ ہموار کرو۔“ اُن کاہنوں اور لاویوں کو فریسیوں نے بھیجا تھا۔ لہٰذا اُنھوں نے یوحنا سے پوچھا: ”اگر تُم مسیح یا ایلیاہ یا وہ نبی نہیں ہو جس کے آنے کے بارے میں پیشگوئی کی گئی تھی تو تُم لوگوں کو بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟“ یوحنا نے اُنھیں جواب دیا: ”میں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں۔ آپ کے درمیان ایک شخص ہے جسے آپ نہیں جانتے۔ یہ وہ شخص ہے جو میرے پیچھے آ رہا ہے اور میں تو اِس لائق بھی نہیں کہ اُس کے جُوتوں کے تسمے کھولوں۔‘‘ (یوحنا۱: ۱۹- ۲۸)
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشین گوئی آپ کے ذاتی نام ’احمد‘ سے پیش کی تھی:
وَاِذْ قَالَ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًاۣ بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۣ بَعْدِي اسْمُهٗ٘ اَحْمَدُﵧ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ.(الصف ۶۱: ۶)
’’یاد کرو، جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تورات کی اُن پیشین گوئیوں کا مصداق ہوں جو مجھ سے پہلے موجودہیں، اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہو گا۔ مگر اُن کے پاس جب وہ کھلی کھلی نشانیاں لے کر آگیا تو اُنھوں نے کہا: یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔‘‘
بائیبل کے مترجمین نے، معلوم ہوتا ہے کہ ’احمد‘ کے نام کے ساتھ کی گئی پیشین گوئیوں میں ’احمد‘ کے نام کا بھی ترجمہ کر دیا۔ چنانچہ ’’کسی نے اس کا ترجمہ ’مددگار‘ کیا ہے، کسی نے ’وکیل‘، کسی نے ’شفیع‘، کسی نے ’سچائی کی روح‘۔ رہا یہ کہ وہ لفظ کیا ہے تو یوحنا میں جو یونانی لفظ استعمال ہوا ہے، وہ (Paracletus) بتایا جاتا ہے، جس کے معنی بیان کرنے میں وہ موشگافیاں کی گئی ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ یہ یونانی لفظ ظاہر ہے کہ کسی سریانی لفظ کا ترجمہ ہو گا، اس لیے کہ انجیل کی اصل زبان سریانی تھی، تو اب اس کی تحقیق کون کرے کہ وہ کیا تھی۔ جب ایک لفظ کو گم کرنے کی جدوجہد میں صدیوں سے ایک پوری قوم کی قوم لگی ہو تو اس کا سراغ لگانا کس کے امکان میں ہے! یہ تو قرآن کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس کا کچھ سراغ دیا۔ بعض مسلمان مورخین کی تحقیق یہ ہے کہ اصل سریانی لفظ ’منحمنا‘ ہے جس کے معنی سریانی میں وہی ہیں جو ’محمّد‘ اور ’احمد‘ کے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن، تفسیری نوٹ سورۃ الصف ۶۱: ۶)
تاہم، بائیبل میں سلیمان علیہ السلام کی ’’غزل الغزلات‘‘ میں آپ کا نام ’محمدیم‘ آیا ہے جو اب تک محفوظ ہے۔ اس کے عبرانی الفاظ یہ ہیں:
’’ ’واکُلُّو محمدیم‘ عبرانی قاعدے کے مطابق، محمدیم میں ی او ر میم عبرانی میں جمع بنانے کےلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تعظیم کے لیے واحد کو جمع بنا لینا تقریباً ہر زبان کا اسلوب ہے۔ وہی یہاں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا مطلب ’’وہ سراپا محمد عظیم ہیں ‘‘ یا سراپا قابل تعریف بنتے ہیں۔ نیز یہ یہاں اسم معرفہ کے طورپر استعمال ہوا ہے جو شخصیت کےنام پر دلالت کرتا ہے [2]۔
قرآن مجید کے بیان کے مطابق، اہل کتاب قرآن مجید کو ایسے پہچانتے تھے، جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے:
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْﵧ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ. (البقرہ ۲: ۱۴۶)
’’(یہ حقیقت ہے کہ) جن کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اِس چیز کو ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور اِن میں یہ ایک گروہ ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے۔‘‘
قرآن مجیدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار ان پیشین گوئیوں کے مصداق کی حیثیت سے پیش کرتا ہے جن کا ذکر تواتر سے اہل کتاب کی کتب اور روایت میں نقل ہوتا چلا آتا تھا:
وَلَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيْقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَﵱ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. (البقرہ ۲: ۱۰۱)
’’اور جب اللہ کی طرف سے ایک پیغمبراُن پیشین گوئیوں کے مطابق اِن کے پا س آ گیا ہے جو اِن کے ہاں موجود ہیں تو یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، اِن میں سے ایک گروہ نے اللہ کی اِس کتاب کو اِس طرح اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا وہ اِسے جانتے ہی نہیں۔‘‘
قرآن مجید میں جہاں ’مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ /مَعَكُمْ‘ اور ’مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ‘ آیا ہے، وہاں گذشتہ کتب کی موجودہ حالت کی تصدیق مراد نہیں، اس لیے کہ یہاں موقع نبوت کی دلیل بیان کرنے کا ہے، گذشتہ آسمانی کتب کی تصدیق کرنے سے نبوت کی دلیل قائم نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کے ان مقامات میں یہ بتایا گیا ہےکہ یہ نبی ان پیشین گوئیوں کا مصدق یا مصداق بن کر آ گیا ہے جنھیں وہ اپنی کتاب میں پاتے ہیں، اب وہ اسے پہچاننے سے انکارنہ کریں۔
’مصدق ‘ کا ایک مطلب ’تصدیق کرنے والا‘ ہے یہی اکثر مفسرین نے لیا ہے، لیکن اس کا ایک دوسرا مطلب کسی متوقع بات کی تصدیق کرنا یا سچ کر دکھانا بھی ہوتا ہے، جیسے قرآن مجید میں آیا ہے:
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.(سبا ۳۴: ۲۰)
’’اِس میں کیا شبہ ہے کہ اُن پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا۔ سو وہ اُسی کے راستے پر چلے، ایمان والوں کے ایک گروہ قلیل کےسوا۔‘‘
یہ دوسرا معنی آیت بالااور اس جیسی آیات میں مراد لینا درست ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کے ہاں موجود آخری نبی کی پیشین گوئیوں کے مصدق، یعنی مصداق بن کر آئے ہیں۔ آپ نے آکر ان پیشین گوئیوں کو سچ کر دکھایا۔ نبوت کی دلیل اگر بن سکتی ہےتو یہی بن سکتی ہے۔
بنی اسرائیل کے آخری دور میں آنے والے انبیا کی تعداد تین سے آگے نہیں بڑھی۔ ’وہ نبی‘، ’عہد کا نبی‘ ’محمدیم‘ یا ’احمد‘ کے بعد کسی اور نبی کی آمد کی پیشین گوئی نہیں کی گئی۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی پیشین گوئی موجودنہیں۔ ختم نبوت کی یہی دلیل کافی تھی کہ یہ امت اب کسی نئے نبی یا انبیا کی منتظر نہ رہتی۔ اس کو مزیدموکد کرنے کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی گذشتہ انبیا کی روایت کے برعکس یہ اعلان کر دیا گیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گااور آخر میں قرآن مجید میں ختم نبوت کا ذکر کر کے سلسلۂ انبیا کے اختتام پرآخری درجے میں مہر لگا دی گئی۔
’خاتَم‘ کے لفظ میں زینت یا افضلیت یا کمال درجہ کا اختتام کا اضافی معنی پیدا کرنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ ’خاتَم‘ کا معنی انگوٹھی یا مہر ہے، انگوٹھی کو بھی مہر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، اس لیے یہ ایک ہی لفظ دونوں کے لیے مستعمل ہو گیا۔ یعنی ’خاتَم‘ کا اصل مطلب مہر ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں زینت کا مفہوم آپ سے آپ شامل نہیں، جب تک زینت کے لیے الگ لفظ نہ لایا جائے جو ’خاتَم‘ کو موصوف قرار دے کر اس کی صفت بنے ۔ جیسے کتاب کہہ دینے سے کوئی کتاب دل چسپ کتاب نہیں بن جاتی، جب تک اس کے دل چسپ ہونے کا مفہوم دینے والا لفظ بطور صفت ساتھ موجود نہ ہو، اسی طرح محض مہر کہنے سے مہر کی زینت بیان نہیں ہو جاتی جب تک اس کی زینت بیان کرنے کے لیے کوئی دوسرا لفظ ساتھ موجود نہ ہو، یا پھر اس کے لیے کوئی واضح قرینہ ہو جیسے ’خاتم المَلِک‘، یعنی بادشاہ کی انگوٹھی۔ مہر کے لیے تو زینت کا مفہوم موزوں بھی نہیں، یہ انگوٹھی کے لیے ہی موزوں ہو سکتا تھا، لیکن سیاق و سباق کے لحاظ سے یہاں انگوٹھی کا مفہوم کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ بشمول احمدی حضرات کے کسی نے بھی اس کا مفہوم انگوٹھی نہیں لیا، یعنی یہ کہنےکا کوئی محل نہیں کہ یہ رسول، نبیوں کی انگوٹھی ہیں، اور اس کا مزین ہونا بھی بیان میں نہیں آیا، اس لیے بالاتفاق ’خاتَم‘ سے یہاں مہر کے معنی ہی لیے جا سکتے ہیں، جس میں زینت کا کوئی مفہوم شامل نہیں۔
دوسرے یہ کہ اسی بنا پر ’مہر‘ کے لفظ میں افضلیت کا بھی کوئی مفہوم شامل نہیں، اس لیے کہ افضلیت کا مفہوم زینت ہی کے مفہوم سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب زینت کا مفہوم یہاں مفقود ہے تو افضلیت کا مفہوم بھی موجود نہیں ہے۔
’خاتَم‘ میں کمال درجہ کے اختتام کا بھی کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا۔ یہ مفہوم پیدا کرنے کے لیے جو استدلال کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت بھی دیکھ لیجیے:
یہ غلط فہمی ’خاتِم الشعرا‘ اور ’خاتِم الاولیا‘ جیسی تراکیب سے پیدا ہوئی ہے۔ استدلال یہ کیا گیا ہے کہ ’خاتِم الشعرا‘ یا ’خاتِم الاولیا‘ کا مفہوم آخری شاعر یا آخری ولی نہیں ہوتا، بلکہ صاحب خطاب کے کمال پر دلالت کا یہ مجازی اسلوب ہے کہ اس جیسا باکمال شاعر یا ولی دوبارہ نہیں آئے گا، لیکن اس سے کم تر درجے کے لوگ آ سکتے ہیں۔ اس استدلال میں غلطی یہ ہوئی ہے کہ یہ ترکیب ’ت‘ کے کسرہ، یعنی زیر کے ساتھ مستعمل ہے، فتح، یعنی زبر کے ساتھ نہیں۔ یعنی یہ خاتِم الشعرا یا خاتِم الاولیا ہے، نہ کہ خاتَم الشعرا اور خَاتَم الاولیا۔ کلامِ عرب میں یہ ترکیب کمال درجہ کے اختتام کے مفہوم میں لفظ ’خَاتم‘ کے ساتھ مستعمل نہیں ہے، جب کہ قرآن نے لفظ ’خَاتَم‘ استعمال کیا ہے۔
میری بساط بھر تلاش و تحقیق کے بعد معلوم یہ ہوا ہے کہ تاے مکسورہ کے ساتھ خاتِم الشعرا جیسی تراکیب جو کمال درجہ کے اختتام پر دلالت کرتی ہیں، زمانۂ جاہلیت کے کلام عرب کے اسالیب میں موجود نہیں ہیں، اس کا سب سے پہلے استعمال ابو بکر الصولی (وفات ۳۳۵ہجری) کی کتب میں ملا ہے جو چوتھی صدی ہجر ی کا ادیب ہے۔ اس نے اس ترکیب کو کچھ یوں برتا ہے:
وفلان خاتم القوم وخاتمتهم أي آخرهم. (أدب الكتاب للصولي ۱۴۰)
’’فلاں خاتم القوم ہے، یعنی ان کاآخری آدمی۔‘‘
یہاں ’خاتم ‘ پر کوئی اعراب نہیں، تاہم،’خاتمتھم ‘ سے یہاں ’خاتم ‘ کی ’ت ‘ پر کسرہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم یہ اگر بفتح ’ت ‘ بھی ہو تو معنی یہاں بھی مصنف نے آخری آدمی ہی مراد لیا ہے، نہ کہ کمال درجے کا آخری آدمی۔ اسی مصنف کے ہاں یہ ترکیب صرف ایک جگہ پر ’خاتم‘ کی ت پر فتح کے ساتھ بھی استعمال ہوئی ہے۔ پورے کلام عرب سے فقط یہ ایک ہی شعر ہے جو خاتم بفتح ت بمعنی اختتامِ کمال کے مفہوم میں احمدی حضرات کی طرف سے پیش کیا جا سکا ہے:
فُجِعَ القَريضُ بخاتَمِ الشُّعراءِ ...
وغَديرِ رَوْضَتِهَا حَبيبِ الطَّائي. (كتاب في أخبار أبي تمام. ألفه الصولي، أخبار أبي تمام ۴۳)
یہ معلوم ہے کہ قرآن مجید پر کلام عرب سے کوئی استشہاد پیش کرنے کا اصول یہ ہے کہ وہ شاہد قرآن سے پہلے موجود ہو۔ یہ ترکیب اول تو ایجاد ہی قرآن کے بعد کے دور کی ہے، دوسرے یہ کہ یہ’’خاتم‘‘ کی ت کے کسرہ کے ساتھ مستعمل ہے، جب کہ قرآن میں یہ تاے مفتوحہ کے ساتھ آئی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ابو بکر الصولی کے کلام میں اگر یہ تاے مفتوحہ کے ساتھ پائی گئی ہے تو اس میں دو احتمالات ہیں: ایک یہ کہ یہ کاتب کی خطا ہو سکتی ہے، شاعر نے اسے تاے مکسورہ کے ساتھ ہی برتا ہوگا، دوسرے یہ کہ شاعر نے تاے مفتوحہ کے ساتھ اس کا یہ استعمال قرآن سے متاثر ہوکر کیا ہے۔ مزید یہ کہ تاے مفتوحہ کے ساتھ یہ ترکیب رواج بھی نہیں پا سکی۔ رواج پا بھی جاتی تو بھی قرآن کے بعد کے دور کی ہونے کی بنا پر یہ قرآن پر استشہاد نہیں بن سکتی تھی۔
پورے ذخیرۂ حدیث میں صرف ایک روایت ہے جس میں ’’خاتم‘‘ بفتح ت کو اس معنی میں پیش کیا جاتا ہے کہ آخری سے حقیقی آخری مراد نہیں، بلکہ مجازاً کمال درجے کا آخری فردمراد ہے۔ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ا ن کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو’خاتَم المھاجرین‘ فرمایا گیا ہے۔ احمدی حضرات کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی اور مہاجر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ الفاظ ’أفضل المھاجرین‘ کے معنی میں آئے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہ بْنُ مُوسَى بْنِ شَيْبَةَ الأَنْصَارِيُّ السُّلَمِيُّ، قثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَدْرٍ وَمَعَهُ عَمُّهُ الْعَبَّاسُ، قَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللہ، لَوْ أَذِنْتَ لِي فَخَرَجْتُ إِلَى مَكَّةَ فَهَاجَرْتُ مِنْهَا، أَوْ قَالَ: فَأُهَاجِرُ مِنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’يَا عَمِّ اطْمَئِنَّ، فَإِنَّكَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ فِي الْهِجْرَةِ، كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ‘‘ .(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل)
’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر سے واپس تشریف لائے تو آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس بھی تھے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں تو میں وہاں سے ہجرت کر کے آؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چچا اطمینان رکھیے۔ آپ خاتم المہاجرین ہیں، جیسے میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
سند کے لحاظ سے یہ ایک منفرد اورغریب روایت ہے، یعنی یہ فقط ایک ہی سند سے منقول ہے۔ اس کے راوی اسمٰعیل بن قیس بن سعد بن زید بن ثابت انصاری خزرجی کو محدثین نے ضعیف، منکر الحدیث، اور متروک قرار دیا ہے(میزان الاعتدال ۱ / ۲۴۵۔ مجمع الزوائد ۹/ ۲۶۹)۔
سند کی غرابت سے قطع نظر، کلام عرب کے معیار سے اس کا متن قابل قبول ہو بھی تو یہ روایت بھی اُس ہجرت کے خاتمے کا اعلان سنا رہی ہے جس کا کرنا اس وقت کے مسلمانو ں پر فرض قرار دیا گیا تھا۔ یہ معلوم ہے کہ حضرت عباس فتح مکہ سے کچھ ہی وقت پہلے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے۔ اس کے فوراً بعد ہی مکہ فتح ہوا اور لازمی ہجرت کا حکم ختم ہو گیا تھا۔ گویا حضرت عباس آخری مہاجر تھے جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی۔ چنانچہ اس روایت سے بھی اختتام سے حقیقی اختتام کا مطلب ہی واضح ہوتا ہے، نہ کہ ’افضل المهاجرين‘ کا۔ نیز عقلی طور پر یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام کے شروع کے مشکل دور میں اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈال کر ہجرت کی، ان کی ہجرت سے اس آخری دور کی ہجرت کو افضل قرار دے دیا جائے، جب کہ حالات مسلمانوں کے حق میں پلٹ چکے تھے۔
اسی ضمن میں صوفیانہ حلقوں میں مشہورایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے جس میں حضرت علی بن ابی طالب کو خاتم الاولیا کہا گیا ہے:
أنا خاتم النبیین و أنت، یا علي، خاتم الأولیاء.
’’میں خاتم النبیین ہوں اور تم، اے علی، خاتم الاولیا ہو۔‘‘
یہ روایت موضوع ہے، اور گھڑنے والے نے نہ صرف روایت گھڑی، بلکہ اولیا کو صوفیا کے خاص مفہوم میں بھی گھڑا، حالاں کہ یہ درحقیقت اس مفہوم میں ہندوستان کی اختیار کردہ اصطلاح ہے جو کلام عرب کے لیے اجنبی ہے۔
خاتم، یعنی مہر کے دو مفاہیم پیش کیے جا سکتے ہیں :seal، یعنی مہر بند اور stamp ۔ یعنی اس کا ایک معنی یہ ہوسکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے سلسلے کے لیے مہر بند ہیں، اب ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، سیاق و سباق کے لحاظ سے یہی مفہوم درست ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نبیوں کے تصدیق کرنے والے ہیں۔ احمدی حضرات کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہر، مہر لگانے کے عمل میں نقش پیدا کرتی ہے جو تصدیق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب جس شخص پر نبوتِ محمدی کا نقش ہوگا، وہ نبی ہوگا۔ آیت کے سیاق و سباق میں اس مفہوم کے لیے کوئی گنجایش نہیں، جیسا کہ ہم نے اوپر بحث کر کے دکھایا۔ آیت کے سلسلۂ کلام میں یہ کہنا تو موزوں ہے کہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں، اس لیے متبنیٰ کی مطلقہ سے نکاح کی بدعت کا خاتمہ آپ سے کرانا ضروری ہے، لیکن یہاں یہ کہنے کا کیا موقع ہے کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں جو نقش پیدا کرتی ہے؟ ہمارے جن علما نے ’خاتم‘ میں زینت اور افضلیت کے معنی پیدا کیے ہیں، انھوں نے ایسا زبان کے کسی قاعدے یا استعمال کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ شاید عقیدت میں کیا ہے، کیونکہ کلام عرب میں اس کا کوئی ثبوت ہمیں نہیں مل سکا۔
کلام عرب میں ’خاتم‘ کا لفظ مہر کے معنی میں مستعمل ہے اور آیت زیر بحث میں یہ مہر، یعنی مہر بند کے علاوہ کسی اور معنی کے لیے موزوں نہیں۔ اس معنی میں کلام عرب میں ’خاتم البريد‘ (ڈاک کی مہر)، ’خاتم الكتاب‘، (کتاب پر مہر) جیسی تراکیب مستعمل ہیں جو یہی مفہوم دیتی ہیں کہ مہر لگنے کے بعد اس میں مزید کسی چیز کے دخول کی گنجایش نہیں ہے۔
تاہم برسبیل تنزل یہ مفہوم تسلیم کر بھی لیا جائے کہ مہر نقش کے لیے اور نقش تصدیق کے لیے ہوتا ہے اور جو بھی نبی ہوا یا ہوگا، وہ آپ کی تصدیق سے تسلیم کیا جائے گا۔ اب گذشتہ انبیا کا معاملہ تو واضح ہے، لیکن آیندہ کوئی نبی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے کوئی تصدیق کہاں سے لا سکتا ہے؟ بعد کے لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق کیسے کر سکتےہیں؟ قرآن مجید اور حدیث سے کسی نئے رسول کی آمد کی خبر ثابت نہیں ہے۔آنے والے کسی نبی یا انبیا کی کوئی نشانیاں نہیں بتائی گئیں۔ تسلسل نبوت کا نظریہ اگر درست ہوتو بھی ہر آنے والے نبی کے ذاتی اور مخصوص صفاتی نام اور اس کی خصوصیات کا بیان محمد رسول اللہ سے ثابت ہونا ضروری ہے اور یہ اب کسی طرح ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بار بار اعلان کیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ پھر یہی نہیں، اِس سے آگے یہ بات بھی آپ نے واضح کر دی ہے کہ نبوت کا منصب ہی ختم نہیں ہوا، اُس کی حقیقت بھی ختم ہو گئی ہے، لہٰذا اب کسی شخص کے لیے نہ وحی و الہام کا امکان ہے اور نہ مخاطبہ و مکاشفہ کا۔ ختم نبوت کے بعد اِس طرح کی سب چیزیں ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئی ہیں۔ خبر جسے عربی میں ’نبأ‘ کہتے ہیں، یہ جس پر خدا کی طرف سے بھی آئے، اسے لفظی اور اصطلاحی اعتبار سے ’نبی‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ چیز اب ختم کر دی گئی ہے۔’النبیین‘ کے لفظ میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس میں تمام قسم کے انبیا شامل ہیں۔ چنانچہ ’خاتم النبيين‘ سےہر قسم کے نبیوں کے سلسلے کا اختتام واضح ہو رہا ہے۔ اسی مضمر حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں واضح فرمایا:
لم یبق من النبوة إلاالمبشرات. قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحة.(بخاری، رقم ۶۹۹۰)
’’نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی، صرف بشارت دینے والی باتیں رہ گئی ہیں۔ عرض کیا گیا: وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں؟ فرمایا: اچھا خواب۔‘‘
یہ خواب کسی کو نبی نہیں بنا سکتے، ان کی حد بتا دی گئی ہے، اور نہ کسی کو کسی نئے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کی ترغیب دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ حقیقت ہی میں موجود نہیں۔ رحمانی خواب اور شیطانی یا نفسانی خواب میں بھی حد امتیاز اور فیصلہ کن اتھارٹی خدا کا کلام ہے ۔ جو خواب وحی کی تصریحات کے خلاف ہو، وہ سچا ہے، نہ خدا کی طرف سے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آیت زیر بحث میں لفظ ’خاتم‘ میں زینت، افضلیت، نقش پیدا کرنا اور کمال درجہ کے اختتام کے معانی نہیں پائے جاتے۔ اس کا ایک ہی مفہوم متعین ثابت ہوتا ہے اور وہ ہے مہر، یعنی خاتمیت۔لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ آیت زیر بحث، خاتمیت نبوت کے مفہوم میں قطعی اور محکم آیت ہے۔ختم نبوت قرآن مجید سے قبل طے ہو چکا تھا جسے قرآن مجید نے قطعی طور پر موکد کردیا۔
____________
[1]۔ تمھارا باپ ابراہیم میرا دن دیکھنے کی امید پر بہت خوش تھا چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا(یوحنا۸: ۵۶)۔
[2]۔تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’محمدر سول اللہ ﷺکے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں ‘‘ ۲۲ - ۲۴۔
_______________________