امام حمید الدین فراہی
ترجمہ: ڈاکٹرسید عدنان حیدر٭
امام حمید الدین فراہی کی عربی کتاب ’’حجج القرآن: الحکمۃ البازغۃ و الحجۃ البالغۃ‘‘ (قرآن کا منہج استدلال: حکمت کا نور اور دل میں اتر جانے والے دلائل)[1] کا ترجمہ نذر ناظرین ہے۔ ’’حجج القرآن‘‘ امام فراہی کی ان تصانیف میں سے ہے جو ان کی وفات کے بعد ناتمام حالت میں ان کے مسودات میں ملیں۔ امام صاحب کا انتقال ١٩٣٠ء میں ہوا، جب کہ یہ کتاب وفات کے تقریباً اسی سال بعد ٢٠٠٩ ء میں پہلی بار دائرۂ حمیدیہ( الدائرۃ الحمیدیۃ)، سرائے میر، اعظم گڑھ، انڈیا سے شائع ہوئی۔ زیر نظر کتاب کا اردو ترجمہ پہلی بار ان اہل علم حضرات کے لیے مرتب کیا جا رہا ہے جو عربی زبان پر دسترس نہیں رکھتے، مگر قرآنی علوم میں دل چسپی کے ساتھ ساتھ قدیم اور جدید مغربی فلسفہ میں بھی شغف رکھتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام فراہی نے اس کتاب میں جس طرزفکر سے قرآن کے انداز استدلال کو فلاسفہ (قدیم یونانی فلاسفہ،سقراط، افلاطون اور ارسطو؛ مسلمان فلاسفہ، الکندی، الفرابی اور الغزالی؛ اور جدید مغربی فلاسفہ، ڈیکارت، ہیوم اور برکلے) کے طریقۂ استدلال سے اعلیٰ اور افضل ہونے اور اہل فلاسفہ اورمتکلمین کے منطقی دلائل میں موجود کم زوریوں، خیالی ڈھکوسلوں اورمحض عقلی فساد کو ظاہر کرنے کی تصحیح فرمائی ہے، اس فکرو استدلال سے ہمارے نوجوان طالب علموں کی واقفیت ضروری ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مذہبی علم الکلام کے موضوع پر یہ ایک شاہ کار تصنیف ہے اور اردو دان طبقہ کے لیے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مترجم اپنے ابتدائی کلمات کے آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ فلسفے جیسے دقیق علم کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ کام فلسفے کی بنیادی اصطلاحات کے علاوہ دونوں زبانوں پر عبور بھی مانگتا ہے اور اس بات کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ اصل متن کی حرف بہ حرف پیروی ہو۔ چنانچہ اگر قاری کو کسی دقیق مفہوم کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو مترجم سے ای میل ([email protected])کے ذریعے سے رابطہ کرکے وضاحت طلب کی جا سکتی ہے۔ واللہ الموفق، وصلي الله وسلم على نبينا محمد وعلٰي آلهٖ وصحبه أجمعين (مترجم)۔
الحمد للّٰہ رب العالمين، والصلاة والسلام على خاتم النبيين رسولنا محمد وعلٰى آلهٖ وأصحابه أجمعين۔
اما بعد :یہ کتاب جو کہ امام حمید الدین فراہی کی عظیم تالیفات میں سے ایک ہے پہلی بار چھپ رہی ہے اور یہ علوم قرآنی پر مشتمل بارہ کتابوں کے سلسلے میں سے ایک جز ہے،جن میں سے پانچ كتب كے موضوعات یہ ہیں : ’’الفاظ قرآن‘‘، ’’اسالیب قرآن‘‘، ’’تاویل کے اصول‘‘، ’’نظم قرآن کے دلائل‘‘ اور ’’قرآن کریم کی تاریخ جمع و تدوین‘‘ اورعلوم القرآن پر مشتمل باقی سات موضوعات میں ’’حکمت القرآن‘‘ (قرآن کا مفہوم حکمت)، ’’حجج القرآن ‘‘ (قرآن کریم کا منہج استدلال)، ’’القائد الی عیون العقائد‘‘ (دین اسلام کے بنیادی عقائد کی طرف رہنمائی)، ’’الرائع فی اصول الشرائع‘‘ ( شریعت کے اصولوں پر مبنی کتاب)، ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ (پیامبر اسلام کے احکامات کے استحکام میں )، ’’اسباب النزول‘‘ (قران میں مذکور احکام اور واقعات کا پس منظر) اور ’’الرسوخ فی معرفۃ الناسخ والمنسوخ‘‘ (قرآن کے ناسخ اور منسوخ آیات کوپہچاننے کے اصول) شامل ہیں۔ امام صاحب رحمہ اللہ ان سب کتابوں کو اپنی ’’تفسیر نظام القرآن وتاویل الفرقان بالفرقان‘‘ کے مقدمے کے اجزا میں شمار فرمایا کرتے تھے۔
اس کتاب (حجج القرآن ) میں مؤلف رحمہ اللہ نے قرآن کے بنائے استدلال اورطرز استدلال کی شرح و وضاحت کی ہے اور قرآن کے انداز استدلال کو فلاسفہ کے طرز استدلال سے اعلیٰ اور افضل ہونے اور اہل فلاسفہ اورمتکلمین کے منطقی دلائل میں موجود کم زوریوں، خیالی ڈھکوسلوں اورمحض عقلی فساد کو بیان كیا ہے۔ پھر اس کے بعد قرآن میں اللہ کی وحدانیت (یکتا ہونے) اور رسالت اور عقیدۂ معاد (قیامت كے بعد كی زندگی) کو شرح و بسط سے بیان کیا ہے۔
کتاب كے ایك مسودے میں، مؤلف رحمہ اللہ (امام فراہی)نے اس كے مقدمہ میں اس کی اہمیت اور موضوع کے بارے میں فرمایا کہ:
’’یہ کتاب ’’تفسیر نظام القرآن‘‘ کے مقدمے کا جز ہے ، میں نے اس کو الگ کتاب کی شکل اس لیے دی ہے تاکہ اللہ کی کتاب کے ایک بنیادی موضوع کو الگ سے اہمیت دوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صفات كا جو پہلا اور آخری وصف ہے، اسے پوری اہمیت حاصل ہو۔ آپ كی چار صفات یوں ہیں : قرآن کی تلاوت کرنے والا، تزکیۂ نفس کرنے والا، کتاب اللہ کی تعلیم دینے والا اور اس کی حکمت سکھانے والا۔ ان چار صفات كا پہلا وصف اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن كو بنایا ہے، اور آخری وصف حکمت کو، یہ دونوں باہم بیج اور پھل كی طرح ہیں۔ ...قرآن کریم کی آیات میں سب سے نمایاں اور مقدم پہلو انسان کو اس کی فطرت کے مطابق پیغام دینا ہے اور اس كی بصیرت كے لحاظ سے حق كی دعوت دینا ہے۔اسی لیے قرآن کریم میں شروع شروع میں ان آیات کا زیادہ ذکرہے جو اللہ کی وحدانیت، عقیدۂ آخرت اور رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔ ...اب یہ بات واضح ہے كہ جو علم دین كی ان تین اصولی ہدایات كے فہم كا راستہ واضح كرے گا، تو وہ علم مرتبے کے لحاظ سےاعلیٰ بھی ہوگا اور اپنے موضوع کے پہلو سے سب سے زیادہ توجہ طلب بھی ہوگا، اس لیے کہ (ان تین باتوں پر)ایمان ہی وہ سر چشمہ ہے جس سےباقی شریعت كے مخصوص احكام پھوٹتے ہیں۔‘‘
اب رہی یہ بات کہ امام فراہی رحمہ اللہ کو اس علم کی بنیاد رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو انھوں نے اس میں سیر حاصل بحث فرمائی اور سات اسباب بیان کیے ہیں، جن میں سے دوان كے نزدیك بہت اہمیت کے حامل ہیں:
پہلا سبب: اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو عموماً منطقی قسم كی معقولات كے درپے رہتے ہیں۔ امام فراہی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’ چونكہ یہ لوگ ایسی عقلیات میں مبتلا ہوگئے جو کہ انتہائی نچلے درجہ كی، انسانی فطرت کے طریقے اور ہدایت سے کوسوں دور اور حیرت اور بے بصیرتی كی طرف لے جانے والی تھیں ...اس لیے اسلاف (بزرگوں) نے ان عقلیات میں مشغول ہونے سے منع فرمایا، لیکن لوگوں نے اسی میں غورو فکر کو اپنایا،اسی سے شغف رکھنا پسند کیا اوراسی کی طرف مائل رہنے اورانھی كا سہارا لینے کی ٹھانی۔پھر تجربے کے بعد اس کے نقصانات سے واقف ہوئے۔ بعض لوگوں نے پھراس کے کچھ حصے کو باطل قرار دیا اور کچھ کو اچھا شمار کیا جیسے امام ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ (متوفی ۵۰۵ ھ)ہیں۔ انھوں نے یونانیوں کی الہٰیات میں موجود كم زوریوں اور تناقضات کو واشگاف کیا، لیکن امام غزالی ہی نے ان کے فلسفہ ومنطق کو اسلام میں داخل کیا۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ سانپ کو ماردیا جائے اور اس کے بچے پال لیے جائیں۔ اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ نے ان کے فلسفۂ اخلاقیات کو لیا اور اس پر اپنی کتاب ’’میزان العمل‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یونانی فلسفیوں کے شدید رد کے باوجود وہ اس کتاب میں ان کی پیروی سے بچ نہیں سکے اور ابن مسکویہ (م ۴۲۱ھ) اور طوسی (م۶۷۲ھ) اور ان جیسے علماے کرام تو بالکل علانیہ یونانی فلسفۂ اخلاقیات کے مقلد نظر آتے تھے اور کچھ علما نے ان کی عقلیات سے بچنے کی تنبیہ فرمائی، مثلاً ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ھ)۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’الرد علی المنطقیین‘‘ میں یونانی فلسفہ و منطق کی کج روی کو ظاہر کرتے ہوئے اس کا مفصل طریقےسے رد توکیاہے ، لیکن انھوں نے فلسفہ و منطق کی بنیاد ڈھانے پر ہی اکتفا کیا اور ان کے لیے ایك ایسے قلعے کی تعمیر نہیں كی جس میں وه پناہ لے سكتے، كیونكہ لوگ جس چیز كے عادی ہوں، اسے اس وقت تك كم ہی ترك كرتے ہیں، جب تك كہ اس كا بدل نہ مل جائے جسے وه عادی چیز كے بدلے اختیار كرسكیں۔
میں قرآن مجید میں استدلال اور غور وفكركے وه اصول پاتا رہا ہوں جو یونانی منطق کے اصولوں كے مقابلے میں زیادہ عقل كے قریب اور دل میں زیادہ اترنے والےہیں۔ یہ دلائل قرآنی فلاسفہ اور مناطقہ کے براہین سے صحیح تر اور مضبوط ترہیں۔میں لوگوں كے ان دلائل سے تجاہل عارفانہ پر متعجب رہا ہوں، لہٰذا مجھے شدت سے اسے ایک مستقل علم کا موضوع بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔چنانچہ میں نے اس کام کا کچھ حصہ بعض ذہین علما کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے شدید اصرار کیا کہ اس کام کو مکمل کیا جائے۔ چنانچہ میں امید کرتا ہوں کہ اہل علم و نظر اسے پسند کریں گے، اور ان شاء اللہ اس سے وہ موانع زائل ہو جائیں گے جو قرآن میں آئے ہوئے قاطع دلائل کے فہم میں اس لیے رکاوٹ ہیں كہ لوگ ان علوم میں مشغول ہو گئے تھے كہ جو پست تھے اور عقل کو استقامت اور سوچ کو صحت فکر سے دور کردینے والے تھے اور ان میں یہ خرابی اصولی اور کلی لحاظ سے تھی۔‘‘
دوسرا سبب یہ ہے کہ:
’’ان مناطقہ اور فلاسفہ کے ہاں منطق کی بے بنیاد اور باطل باتوں کی وجہ سے ایک خاص خیال پیداہوگیا تھا، جو ان کو قرآن کے دلائل كے سمجھنے اور ان میں رسوخ حاصل کرنے سے دور رکھتا رہا ہے۔ ان كا وه خیال یہ تھا کہ اخلاقی قضایاظنی ہیں اور ان كے حق میں کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی۔ یہ راے بناتے وقت وہ یہ بھانپ نہیں سکے کہ یہ بات دین کی بنیاد مکمل طور پرمنہدم کردینے والی ہے!وہ یہ بھی دریافت نہ کرسکے کہ یہ بات خود ان کے فلسفے کا بھی ایک حصہ منہدم کردے رہی ہے اور وہ عملی حکمت(practical wisdom) ہے اور ان کے فلسفہ و منطق میں مذکورہ بالا باطل اور زہر ہلاہل کے سوا اگر کوئی اورخرابی نہ بھی ہوتی تب بھی لازم تھا کہ وہ اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھتے اور اس کے شر سے بچتے۔ جب سے ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ نے منطق وفلسفہ کو علوم اسلامیہ میں داخل کردیا ، تب سے لوگوں نے ان کو قبول کیا اور بلا سوچے سمجھے ان پرفریفتہ ہوگئے اور ان کے دل میں یہ بات سرایت کرگئی کہ یہی حق کو جاننے اور سمجھنے کا راستہ ہے اور اسی بنیاد پر ان کو خیال آیا کہ دلائل قرآنی کی حیثیت محض ابھارنے کے خطبات کی سی ہے اور بس ۔‘‘
قدرت نے امام فراہی رحمہ اللہ پر عقلی علوم میں بے پناہ فیض بخشی كررکھی تھی اوریہ كہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب کے علم کے لیے چن لیا تھا، تو اس موضوع کا حق ادا كرنے پر وہ سب سے زیادہ دسترس رکھتے تھے۔ رہی بات معقولات کی تو فراہی رحمہ اللہ نے زمانۂ طالب علمی ہی میں فلسفہ، منطق اور علم الکلام کی کتب کو پڑھ رکھا تھا، اس لیے كہ ان علوم کے پڑھنے کو برصغیر پاک وہند کے علمی نظام میں جزو لازم سمجھا جاتا تھا۔ پھر علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور جدید فلسفہ کو مشہور مستشرق فلسفی پروفیسرتھامس آرنلڈ سے پڑھا اور اس میں مہارت حاصل کی۔یوں فراہی رحمہ اللہ عالم اسلام کے وہ پہلے عالم تھےجنھوں نےمشرق اور مغرب کے علوم کو جمع کیا اور ان کے اصل مآخذ سے تراجم وغیرہ پر انحصار کے بجاے براہ راست استفادہ کیا۔
چنانچہ امام فراہی رحمہ اللہ کی اس استعداد پر داد دیتے ہوئے علامہ عبد الماجد دریابادی ـــــ جو خود جدید فلسفے کے ماہر تھے ـــــ فرماتے ہیں :
’’ امام فراہی رحمہ اللہ نے فلسفہ کو بہت وسعت اور گہرائی کے ساتھ پڑھا اور وہ مغرب میں فلسفہ و منطق پر آنے والی نئی کتب کی ٹوہ میں مسلسل لگے رہتے اور صرف معلومات پر اکتفا نہیں کیا کرتے ، بلکہ ان کو دقت نظر كے ساتھ بحث و نقد اور تقابل کی نگاہ سے پڑھتے بھی تھے۔‘‘
اور متکلمین کی کتب میں انھوں نےنو عمری ہی میں مہارت حاصل کر لی تھی كہ جس وقت ان کو علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے زمانۂ طالب علمی میں امام غزالی رحمہ اللہ کی ایک کتاب کی تصحیح سپرد کی۔ سرسید اس کتاب کو شائع کرنے کا ارادہ رکھے ہوئے تھے، لیکن وہ نسخہ بہت كٹا پھٹا تھا، دیمک نے اس کو خراب کردیا تھا اور اس کے اکثر الفاظ كھائے جاچکے تھے۔ اس كی تصحیح نے سرسید كو عاجز كرركھا تھا، تو فراہی رحمہ اللہ نے ان مقامات میں فکر وتامل کیا جن مقامات پر سر سید نے نشان لگا رکھے تھے تو ان کے لیے مناسب الفاظ خود سے لكھ دیے۔ بعد میں کہیں سر سیدکو ایک صحیح نسخہ ہاتھ لگاجو کہ مکمل محفوظ تھا۔ جب امام فراہی رحمہ اللہ نے پرانے نسخے کو نئے نسخے سے ملایا تو انھوں نے اپنے الفاظ کو یا تو غزالی کے عین مطابق پایا یا اس کے قریب، تو سر سید نے امام فراہی رحمہ اللہ کی ذہانت اور بالغ نظری پر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا اور ان سے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو یہ اصلاحات سجھائیں؟ تو فراہی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کے انداز نگارش اور کلام کے سیاق نے مجھے مدد دی۔ میں امید کرتا ہوں کہ اکثر مواقع میں اپنے مقصد میں صحیح کامیاب ہوا ہوں۔
یہ امام فراہی رحمہ اللہ کے زمانۂ طالب علمی کا حال ہے، جو بعد میں مسلسل علم کی بلندو بالا چوٹیوں کو سر کرتے ہوئے ترقی کی انتہاتک پہنچے۔
امام فراہی رحمہ اللہ یونانی فلاسفہ، مسلم فلاسفہ اور مغرب کے نو وارد فلاسفہ اور متکلمین کی کتب کے مطالعے میں غلو کی حد تک گئے، لیکن وہ ایسے جوہر شناس اور ژرف بین تھے کہ کھرے کھوٹے میں امتیازكر سكتےتھے اور ان پر کوئی حق بات باطل سے ممتاز ہوئے بنا رہ نہیں پاتی تھی۔بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا، كیونکہ ان کے ہاتھ میں ایسا روشن چراغ تھا جوان کے راستے روشن کردیتا اور اندھیرے کو جڑ سے ختم کردیتا۔وہ چراغ، اللہ کی کتاب ہے، جس میں باطل نہ آگے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔قرآن ہی ان کو سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ دل پسند تھا۔امام فراہی مسلسل كم و بیش تیس برس تک قرآن کو سمجھنے میں كوشاں رہے، حتیٰ کہ اللہ نے ان پر اپنی کتاب کے رموز و اسرار کے سر بستہ خزانے کھول دیے۔
پس وہ یکتا اور فہم قرآن میں یگانہ تھے۔ وہ نہ قرآن کریم پر کسی نئی یا پرانی فکرکو رد کرنے یا ثابت کرنے کے لیے ملتفت ہوئے اور نہ وہ قرآن کوکسی خاص زاویۂ نگاہ سے دیکھتے تھے، بلکہ قرآن ہی ان کے ہاں ہر چیز کے لیے مرجع و مصدر تھا۔ تمام علوم، مذاہب، اور مذہبی افکار کو پرکھنے اور تولنے کے لیے قرآن ہی ان کے لیے واحد کسوٹی اور پیمانہ تھا۔
قرآن پر صحیح زاویۂ نگاہ سے غورو تدبر اور فلسفے كا گہرا مطالعہ ہی انھیں فلسفہ كے انحرافات اور ان كے اسباب كی دریافت تك لے گیا۔ امام رحمہ اللہ نے صرف اس کے رد اور نقد پرہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان نئے عقلی علوم کی بنیاد رکھنے کا بیڑا بھی اٹھایا جن کی اٹھان صحیح اور مضبوط بنیادوں پرہو اوروه بنیادیں جن کی طرف اللہ کی کتاب رہنمائی کرتی ہے۔اسی مقصد سے انھوں نے کئی کتابوں کا خاکہ تیار کیا جیسا کہ:
· العقل ومافوق العقل
· النظر الفکری حسب الطریق الفطری
· المنطق الجدید
· القسطاس (یہ کتاب جدید علم ، یعنی عملی منطق، ارادے کی میزان، اور عملی حکمت کی بنیادوں سے بحث کرتی ہے)۔
· الاشراق فی الحکمۃ الاولی من حقائق الأمور و مكارم الأخلاق
مزید یہ کہ ان کو جب موقع ملتا تو وہ کئی علوم ـــــ جن میں عقلی علوم بھی شامل ہیں ـــــ سے متعلق اپنے افکار اور خیالات کو اپنے بعض مجموعات میں قید تحریر میں لاتے رہے، جیسے ’’قید الاوابد‘‘، ’’لوامع الافکار‘‘ اور ’’الطارق والبارق‘‘ وغیرہ میں۔
لیکن جب امام رحمہ اللہ نے اپنے آخری نقشے کے مطابق ’’حجج القرآن‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا تو ان مذکورہ کتب كو فراموش كردیا، کیونکہ ان کتب کےبہت سے مباحث ’’حجج القرآن‘‘ کے اس عظیم منصوبے میں شامل ہی تھے۔
اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام رحمہ اللہ نے اس کو کئی بار مرتب کیا ہے۔ شروع میں امام رحمہ اللہ اس کتاب کو اس کے موضوع اور مقصد سے متعلق ایک دیباچے کے بعد دو حصوں پر مرتب کرنا چاہتے تھے: پہلا حصہ عمومی ہونا تھا، جو کہ اصولی مباحث پر مشتمل تھا، جیسےوحی، دلیل، علم، ظن، شک، یقین، عقل، دل، فطرت اور ان جیسی دوسری اشیا جو وحی اور فلاسفہ و متکلمین کے منہج استدلال میں فرق کو واضح کرنے والی ہیں۔ دوسراحصہ خصوصی تھا، جو قرآن کے الوہیت، اور معاد (بعد از موت زندگی) اور رسالت پر منہج استدلال کی تفصیلات بیان کرنے کے بارے میں ہونا تھا۔ یہی دوسرےحصے کے مباحث ہی اس کتاب کے لکھنے اور مرتب کرنے کا بنیادی مقصد بنے ہیں۔پہلے حصے کے مباحث دوسرے حصے کے موضوعات کے لیے سیڑھی اور تمہید فراہم کرتے ہیں۔اسی ترتیب کے پیش نظر مصنف رحمہ اللہ مختلف پہلوؤں سے اسے مرتب کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لہٰذا مصنف نے درج ذیل ترتیب سے پہلے مسودے کی فہرست کو تیار فرمایا:
۱۔حجت کی تعریف، اس کی اقسام، مختلف انداز اور طرز استدلال كے مختلف نام
۲۔وحی سے متعلق بحث و حجت میں فریقین كا كردار
۳۔مبادیات استدلال
۴۔ان مبادیات کا اثبات
۵۔تین مبادیات اور بدیہیت
۶۔ وحی کا مخاطب تذکیر کے اصول پر انسانی عقل و فطرت ہے
۷۔ استدلال كی زبان اور اسلوب
۸۔ ان وجوہات کا بیان جن کی وجہ سے کلام میں اخفا ے مفہوم پیدا ہوتا ہے(پہلی وجہ)
۹۔ ان وجوہات کا بیان جن کی وجہ سے کلام میں اخفا ے مفہوم پیدا ہوتا ہے (دوسری وجہ)
۱۰۔ ان وجوہات کا بیان جن کی وجہ سے کلام میں اخفا ے مفہوم پیدا ہوتا ہے (تیسری وجہ)
اسی مبحث کو مصنف نے ایك اور مسودے میں یوں مرتب فرمایا:
جہاں تک دوسرے حصے کا تعلق ہے تو اس میں کچھ اصولوں کا بیان ہے:
· اول: دین میں عقل و حجت کا مقام اور اس پر اعتماد اور اس کو استدلال میں پیش کرنے کا رتبہ ۔
· دوسرا : علم و یقین کا مرتبہ اور ان پر اعتماد اور شک اور ظن پر عدم اعتماد ۔
· تیسرا: عقل ووہم، حکم و خواہش، کے درمیان فرق میں اور عقل کے عمل کی توضیح ۔
· چوتھا:یقین کا مبدء، محکم فطرت پراس کی بنیاد، اور یقین کے وجود و ظہور کا وطیرہ۔
· پانچواں : ترتیب وجودی كے مطابق فطرت كے باعث یقین امور میں سے چند كا بیان ۔
· چھٹا : ان یقینات سے مستنبط امور، جودینی عقائد ہیں، رب رحیم اور الحق کی معرفت سے ۔
· ساتواں : قرآن کے لفظ اور معنی سے استدلال کے طریق میں۔
اور دوبارہ ذکر کیا ہے کہ عمومی قسم اصولوں پر مبنی ہے اور اس میں بارہ فصلیں ہیں، پھر ان میں سے آٹھ کے عنوانات گنوائے ہیں:
۱۔عقل اور علم
۲۔ظن کا علم حق پر غالب آنے کا سبب
۳۔خواہشات اور گم راہی کا پرہیزگاری پر برتری کا سبب
۴۔عقل اور دل کی آزادی فطرت ہے
۵۔حجت کے بیان میں کہ یقین اس کی بنیاد ہے
۶۔یقین فیصلہ کرنے والا فطرت ہے اور لازمی الہام ہے
۷۔یقین کی ابتدائی باتیں
۸۔دلائل شرعیہ اور دلائل فلاسفہ میں فرق
اور ایک دوسرے موقع پر ذکر کیا کہ قسم اول امور عامہ میں ہے اور اس میں چند فصول ہیں اور پھر درج ذیل فصول کا ذکر کیا:
۱۔دلیل کی حقیقت، اجزا اور اس کی تقسیم اس کتاب کے اعتبار سے
۲۔حجیت فطری اور ضرورت یقین کی بناوٹ میں عمومی بحث
۳۔شک کے مکمل طور پر باطل ہونے میں عقل کے زوایۂ نظر سے
۴۔شک کے تمام راستے انتہائی کم زور( چند مثالوں کے ساتھ جو کہ گم راہ کن اور حیران کن ہیں)
۵۔شک کے باطل ہونے میں کلام قلبی بصیرت کی بنیاد پر
۶۔شک کے باطل ہونے میں بحث فطرت کے تقاضوں سے اور علم، یقین کے ضروری ہونے کی وجہ سے
۷۔یقین کے فطری راہوں کے بیان میں اور تمام علوم اور اعمال کے بنیادی اصولوں کے بیان میں
ناشر کی حیثیت سے ہم نے کوشش کی کہ کتاب کے کچھ حصوں کا ذکر کردیا جائے اور ان مسائل کا جن پر مصنف کلام کرنا چاہتے ہیں اور ان قواعدو اصول کا جن کا احیا اور مضبوط کرنا مصنف کے یہاں اہم اور ضروری امر تھا۔ ’’حجج القرآن ‘‘ کی تدوین کے لیے ایک عجیب طرز کا طریقہ اختیار کیا گیا جو کہ مصنف کے ضروری مقاصد کی تکمیل کرتاہے۔ چنانچہ اہم مسائل کا ذکر مقدمے میں شروع کی چند فصول میں ہی کر دیا گیا ہے اور اس جدید انداز میں مقدمے کے بعد کتاب کو تین مقالوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
پہلا مقالہ: منطق، فلسفہ اور کلام کے نقد میں اور اس میں تین باب ہیں:
باب اول: منطق کے نقد میں
باب دوم: فلسفے کے رد میں
باب سوم: علم کے رد میں
اور باب اول کے لیے دس فصول، دوسرے کے لیے سات، اور تیسرے باب کو پانچ فصول میں مختص کیا۔
دوسرا مقالہ: قرآن کے دلائل کے بارے میں اور یہ بھی تین ابواب پر مشتمل ہے :
باب اول: ربوبیت کے دلائل کے بارے میں
باب دوم : معاد، یعنی آخری زندگی کے دلائل کے بارے میں
باب سوم : رسالت کے دلائل میں
ہر باب کو دس فصول میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ان ابواب کو متعین فصلوں میں تقسیم کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مصنف رحمہ اللہ کے ہاں یہ سارے موضوعات مقرر اور معلوم تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ مؤلف رحمہ اللہ اپنے تیار کیے ہوئے نقشے کو مکمل نہیں کرپائے۔ چنانچہ مقالہ اول میں منطق کے دس فصول میں سے صرف سات ہی لکھ سکے اور فلسفے کے نقد میں صرف پانچ ہی مکمل ہو پائیں۔ اسی طرح علم الکلام کے رد میں بھی ایک ہی فصل لکھی جا سکی باوجود اس کے کہ اس باب کے لیے پانچ فصول مقرر کیے ہوئے تھے۔ ہاں، دوسرے مقالہ کے باب اول میں دس کے دس فصول لکھ دیے گئے، لیکن اسی مقالہ کے دوسرے باب جو کہ حکمت بازغہ پر مشتمل ہے ، اس کو شروع کرنے سے پہلے متعدد مباحث لکھ دیے گئے ، لیکن پھر دس میں سے پانچ فصول ہی مکمل ہو سکیں اور تیسرا باب (جو کہ قرآن سے استدلال کے طریق میں تھا) اس کے لیے خالی جگہ چھوڑ رکھی تھی، اس پر دوسری، تیسری اور چوتھی فصل ہی لکھی جا سکی۔ چنانچہ اس باب کے دس فصول میں سے تین ہی مکمل ہو سکیں۔
تیسرا مقالہ : اس میں زیادہ دلائل قرآن کے بارے میں ہیں، جس کے لیے مؤلف رحمہ اللہ نے تین ابواب کا ذکر فرمایا تھا اور ہر باب کے لیے دس دس فصول مختص کیے تھے ، لیکن ہم باب اول (دلائل ربوبیت) میں صرف تین فصول ہی حاصل کر پائے اور ہمارا طریقۂ کار اس کتاب کے نشر میں یہ رہا کہ ہم نے آخری مسودے کو جس ترتیب میں رکھا ، وہ قسم اول ہے اور دوسری قسم ان فصول کی ہے جو دونوں مسودوں میں مذکور ہیں اور اس کے علاوہ ان متعدد مباحث جن کو مؤلف نے دوسرے مجموعات میں تحریر کیا ہے۔ ’’حجج القرآن‘‘ کی اس ترتیب اور اس میں مذکور نقول اور فلاسفہ و متکلمین کے اقوال جن کو کتاب کے لیے تیار کیا گیا تھا، ان کے تحقیقاتی نوٹس کی چھان بین کا کام برادرم عزیز ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی صاحب کو سونپا گیا اور پھر اس کے مسودے پر نظر ثانی شیخ امانت اللہ اور ان کے چچا زاد بھائی ڈاکٹر محی الدین غازی نے مل کر انجام دی اور چونکہ مؤلف رحمہ اللہ نے اس کا نام اپنے دونوں مسودوں میں ’’حجج القرآن‘‘ رکھا تھا، جیسا کہ دوسرے مؤلفات میں اسی نام سے ذکر ملتا ہے ، اس لیے کہ یہ عنوان امام فراہی رحمہ اللہ کی کتب میں پہلے ہی سے معروف تھا، لیکن جب اس کو دوسرے مسودے میں مذکورہ ترتیب کے ساتھ مرتب کیا گیا تو اول میں اس کا نام ’’حکمت بازغہ اور حجت بالغہ‘‘ رکھا گیا، مگر بعد میں ہم نے ان دونوں عنوانات کو ملا کر کتاب کے سرورق پر رکھنے میں بہتری سمجھی اور آخر میں ہم امید رکھتے ہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے والے اس کے مطالعے سے( جس کے بارے میں تنبیہ فرمائی گئی کہ یہ ایک الگ اسلوب پر لکھی گئی کتاب ہے جس میں کہیں مناطقہ تو کہیں فلاسفہ اور متکلمین سے، اصطلاحات میں، تقسیمات میں اور کہیں اصول میں اختلاف کیا گیا ہے) نایاب فکری اسلوب سے مالا مال ہوں گے جس کی مثال پرانے اور نئے علما کی کتب میں ملنا بہت کم ہے۔ واللّٰہ الموفق، وصلي اللّٰہ عليه وسلم على نبينا محمد وعلٰى آلهٖ وصحبه أجمعين۔
[باقی]
___________
٭ ڈاکٹر سید عدنان حیدر ۱۹۸۱ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ آج کل کراچی کے ایک تعلیمی ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ، کراچی‘‘ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر (اقتصادیات اور فلسفہ)کی حیثیت سے تحقیقی و تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بحیثیت ریسرچ اکانومسٹ مانیٹری پالیسی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ منسلک تھے۔ انھوں نےPIDE، اسلام آباد سے معاشیات کے مضمون میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ ، برطانیہ سے عصری فلسفہ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس سے قبل دو مختلف مضامین میں ماسٹر ڈگریاں بھی حاصل کیں، جن میں پہلی ایم ایس سی۔ کمپیوٹر سائنس (پنجاب یونیورسٹی ، لاہور) اور دوسری معاشیات میں ایم ایس (کراچی یونیورسٹی، کراچی) شامل ہیں۔ اس سے قبل ریاضی اور شماریات میں بیچلر ڈگری پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے مکمل کی۔ اپنے تعلیمی دور کے دوران انھوں نے فرانسیسی اور عربی زبان کے مختلف کورس بھی کیے۔ اس وقت وہ اسلامی تاریخ ، علم الکلام اور مسلم فلسفے کے نصاب کے ساتھ آئی بی اے ، کراچی میں مرکزی دھارے کی معاشیات بھی پڑھا رہے ہیں۔
[1]۔امام حمید الدین فراہی نے حکمت کی بعض خصوصیات بیان کر کے اس کے تصور کو قریب الفہم بنایا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’حکمت قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حکمت کی بات عقل و دل کے نزدیک نہایت بدیہی اور واضح ہوتی ہے۔ یہ اس قدر دل میں اتر جانے والی ہوتی ہے کہ اس کو ثابت کرنے کے لیے مزید دلائل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ حکمت ایک نور ہے۔ جس طرح روشنی سے اردگرد کی تمام چیزیں جگمگا اٹھتی ہیں، اسی طرح حکمت کے نور سے آدمی کا علم منور ہو جاتا ہے۔ پھر جس طرح آگ کا اثر حرارت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ہر شخص اس کو محسوس کر لیتا ہے، اسی طرح حکمت بھی اپنے اثرات سے پہچانی جاتی ہے۔ جب یہ کسی شخص کے اندر پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے اندر حق شناسی کا ایک ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی زبان سے جو بات نکلتی ہے، حق نکلتی ہے اور اس سے جو فعل صادر ہوتا ہے، ٹھیک صادر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک حکیم آدمی کا دل اپنے اندر رفعت محسوس کرتا ہے، اس کا کلام نہایت دل نشین ہوتا ہے، اس کا عمل نیکی پر مبنی ہوتا ہے اور وہ اعلیٰ اخلاق کا مجسمہ ہوتا ہے۔
[2]۔ یہ عربی کتاب کے ناشر (دائرۂ حمیدیہ( الدائرۃ الحمیدیۃ)، سرائے میر، اعظم گڑھ، انڈیا ) کے تعارفی کلمات ہیں۔ اصولی طور پر کتاب کے ترجمہ کی ابتدا مقدمہ سے ہونی چاہیے تھی، مگر عرض ناشر کے ابتدائی کلمات کی اہمیت كے پيش نظر ترجمہ کا آغازاسی حصہ سے کیا جارہا ہے (مترجم)۔
______________________