HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

مومنانہ تدبر کے ثمرات

 محمد تہامی بشر علوی


ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کائنات کو اور اپنے آپ کو اور کائنا ت کے جتنے مظاہر ہیں اور خوداس کے اپنے اندر جتنی بھی مختلف صفات اور خصوصیات ہیں، ان کو محض ایک روز مرہ کی چیز یا معمول کی چیز نہ سمجھے، بلکہ ان سب کو وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے طور پر دیکھے۔اللہ تعالیٰ کی نشانی کے طور پر دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر،اپنی صلاحیتوں کو دیکھ کر اور کائنات کو دیکھ کر اس کے پیچھے جو خدا ہے،اس کی قوت ہے،اس کی کارکردگی ہے، اس کی دانائی اور حکمت ہے اورجو اس کی دانش و بصیرت ہے، اس کو دریافت کر سکے۔ یہ ساری چیزیں سمجھنے کی کوشش کرے تو اس سے کیا ہو گا؟ اس کو اپنے پیدا کرنے والے خدا کی معرفت حاصل ہو گی۔ یہ معرفت ہمارے دل میں اس ہستی کے بارے میں جذبات اٹھائے گی۔ ہمارا دل اس کی عظمت و رحمت کے اعتراف سے بھر جائے گا۔اس ہستی کے لیے ہمارے باطن میں موجزن یہ جذبات ہمارے پورے وجود سے ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

انھی معرفت کے جذبات میں ڈوباہوا یہ کلمہ ہے جسے ہم ’’اللہ اکبر‘‘ کی صورت میں اپنی زبان پر لے آتے ہیں، یعنی اس اللہ کی قدرتوں کے کیا کہنے جس نے یہ کائنات تخلیق کر کے دکھا دی۔ وہ کتنا صاحب بصیرت ہے کہ جس نے بے قیمت پانی کے قطرے سے اتنا شاہ کار انسان تخلیق کر کے دکھا دیا۔ ’’اللہ اکبر‘‘ اصل میں اسی باطن کی معرفت کو ادا کرنے والا ایک کلمۂ معرفت ہے، یہ محض کہیں سے رٹ کر کسی موقع پر بن سمجھے دہرا دیا جانے والا کلمہ نہیں ہے۔

جس احساس معرفت سے یہ کلمہ پھوٹتا ہے، اصل چیز تو وہی ہے۔اور وہ چیز خدا کی تخلیقات میں تدبر کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔خدائی انعامات کو اچھی طرح محسوس کر لینے کے بعداس جملے کو زبان پر لانے کی حلاوت ہی کچھ اور ہے۔جس ہستی کی معرفت کے بعد آپ کے لبوں پر یہ جملہ جاری ہوا، آپ کا من کرتا ہے کہ آپ کا پورا وجود اس ہستی کے سامنے جھک جائے۔ آپ اس ہستی کو دیکھنا چاہتے ہیں، وہی ہستی آپ کا نصب العین بن جاتی ہے۔ دنیا میں ہم اپنے آپ کو اس کی ملاقات کے لیے منتخب کرانے ہی آئے ہیں۔ ہم نے پاکیزگی سے جی کر خود کو منتخب کرا لیا تو کل ہم اس ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ یہاں ہم اسے اس کی نشانیوں سے پہچان سکتے ہیں، مگر اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اسے دیکھ لینے کے بعد کوئی اس کا انکار کیسے کر سکتا ہے؟ یہاں آزمایش یہی ہے کہ غیب میں مستور اس عظیم ہستی کی نشانیوں پر غو ر کر کے اسے پہچان لو۔اس کی پہچان سے دل میں اٹھنے والے اس کی پرستش کے جذبات کاباضابطہ اظہار نماز کہلاتا ہے۔

سورۂ مو منون میں جنت کے وارث بن جانے والوں کی جو خوبیاں بیان ہوئی ہیں، ان میں ایمان کے بعد یہی نمازکا قیام ہے۔ایمان اور نماز ایک دوسرے سے جدا نہیں کیے جا سکتے۔یہ رسمی ایمان کی بات نہیں کی جا رہی جو محض دیکھا دیکھی قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہ اس ایمان کی بات ہو رہی ہے جس کے پیچھے انسان کا پورا شعور شامل ہوتا ہے۔جس نے عمر بھر خدا کو سوچا تک نہ ہو، اس میں رسمی دین داری ہی پیدا ہو سکتی ہے، جسے وہ عادت سمجھ کر ادا کرتا رہتا ہے۔رسمی دین داری انسان کی زندگی میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ شعوری ایمان تو انسانی زندگی میں ایک انقلاب بپا کر کے رکھ دیتا ہے۔ ایسے مومن کا جینا مرنا خدا کے لیے خالص ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں خدا کے لیے جگہ ہر دوسری چیز سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے شب و روز میں اس کی یادیں چھائی رہتی ہیں۔ اسے اپنے خدا کا بنے رہنے میں روحانی سکون محسوس ہونے لگتا ہے۔

آدمی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے رسمی ایمان کو حقیقی ایمان میں بدل دے۔اس کے لیے ہمیں تنگ غاروں میں جا کرچلے کاٹنے کی ضرورت نہیں۔ اس معرفت کا حصول اسی کھلی کائنات میں تدبر کی نگاہ ڈالنے سے ہو گا۔ میری درخواست ہو گی کہ فی الحال مومنانہ معرفت کو صوفیانہ معرفت سے خلط نہ کیا جائے۔میں یہاں مومنانہ معرفت کی بات کررہا ہوں، جس کا طریقہ قرآن مجید نے تدبر فی الآیات بتایا ہے۔ آیات سے مراد ہے: وہ تمام چیزیں جو پروردگار کے سمجھنے کی نشانی بن جائیں۔ آیات، آیت کی جمع ہے جس کے معنی نشانی کے ہوتے ہیں۔ یہاں ایمانی تدبر اور سائنسی تدبر کو بھی خلط نہ کیا جائے۔ایمانی تدبر میں اپنی ذات و کائنات پر غور کر کے خدا کی معرفت تک پہنچنا ہوتا ہے، جب کہ سائنسی تدبر کا ہدف کائنات کی ترکیب اور فنکشننگ سمجھنا ہوتا ہے۔

قرآن میں مومنانہ تدبر کی تلقین کی گئی ہے، نہ کہ سائنسی تدبر کی۔خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، یہاں اس پر تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں۔یہی وہ احساس معرفت ہے جس کے ساتھ ایک بندۂ مومن اللہ اکبر کہہ کرروزانہ خدا کے سامنے اعترافات ومناجات کے لیے حاضر ہوجاتا ہے۔نمازایمانی جذبات کے ظہور کا بہت غیرمعمولی مظہر ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے کفر اورایمان میں نماز کا فرق بیان کیا ہے۔یہاں نماز کے اہم مومنانہ عمل کے حوالے سے قدرے تفصیل سے جان لینا ضروری ہے۔

____________

B