HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت علی رضی اللہ عنہ (۱۰)


[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین

کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

 حضرت علی کے کوفہ کو دارالخلافہ قراردینے کے بعد مدینہ کی مرکزی حیثیت کبھی بحال نہ ہوسکی۔اس طرح حضرت عبداللہ بن سلام کی نصیحت درست ثابت ہوئی:امیر المومنین ، آپ مدینہ سے چلے گئے تو مسلمانوں کا کوئی خلیفہ مدینہ میں قیام نہ کر سکے گا۔

معرکۂ سجستان

۳۶ھ: حسکہ بن عتاب اور عمران بن فضیل نے عرب کے نادار جنگجوؤں کی فوج لے کر سجستان کے شہر زالق پر حملہ کیا۔وہاں سے مال لوٹ کر زرنج کے سردار سے صلح کا معاہدہ کیا۔حضرت علی نے عبدالرحمٰن طائی کو لشکر دے کر بھیجا۔ حسکہ نے ان کو قتل کر دیاتو انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کو چار ہزار کی فوج سجستان بھیجنے کا حکم دیا۔حضرت ابن عباس نے ربعی بن کاس اور حصین عنبری کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا۔حسکہ مارا گیااور ربعی نے سجستان زیر کر لیا۔

حضرت قیس بن سعد اورمصر کی امارت

 صفر ۳۶ھ:حضرت علی نے حضرت قیس بن سعدانصاری کو مصر کا گورنر مقرر کیا،انھیں اپنے قابل اعتماد مصاحب اور ایک لشکر ساتھ لے جانے کو کہا اور نصیحت کی کہ نیکوکار کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،شریروں پر سختی کرنا۔حضرت قیس نے کہا: اگر میں نے فوج کے زور ہی سے جاناہے تو میں باز آیا،وہ محض سات ساتھیوں کے ہمراہ مصر پہنچے اور منبر پر بیٹھ کر حضرت علی کا فرمان تقرری سنایا۔ اکثریت نے حضرت علی کے حق میں بیعت کر لی، البتہ خربتا (خرنبا)کے لوگوں نے قصاص عثمان پر اصرار کیا۔اس گاؤں کے امیر یزید بن حارث مدلجی نے کہا:ہم آپ کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے، لیکن ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدیجیے۔اسی طرح حضرت مسلمہ بن مدلج (مخلد) انصاری نے بھی بیعت کیے بغیر صلح کر لی۔

حضرت معاویہ نے حضرت قیس کی امارت کواپنے لیے خطرہ سمجھا۔شام، مصر اور عراق کے درمیان واقع ہے۔دونوں جانب حضرت علی کی حکومت قائم ہو نے پر وہ اپنے آپ کو گھرا ہوا محسوس کرنے لگے۔انھوں نے حضرت قیس کو خط لکھااوران پر اور حضرت علی پر حضرت عثمان کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر وعدہ کیا کہ اگرعثمان کا قصاص لینے میں ہمارا ساتھ دو تو ہم تم کو عراق عرب اور عراق عجم کا حاکم بنا دیں گے۔حضرت قیس ایک دانا آدمی تھے، انھوں نے حضرت معاویہ کوٹالنے کا فیصلہ کیا اور جواب میں لکھا :میرا عثمان کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں،میرے علم میں نہیں کہ علی نے لوگوں کو ان کے قتل پر اکسایا۔آپ نے اپنا ساتھ دینے اور اس پر صلہ دینے کی جو بات کی ہے، قابل غور ہے۔فی الوقت میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میرے کسی عمل سے آپ کوناگواری نہ ہو گی۔حضرت معاویہ اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور لکھا:تم نے جو جواب دیاایسے ہی ہے جیسے اونٹ کی گردن، جدھر چاہی موڑ دی۔میرے پاس بے پناہ لشکر ہے۔تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔حضرت قیس نے اب کھل کر جواب الجواب دیا:آپ یہ گمان نہ کریں کہ میں اس انسان کی اطاعت چھوڑ کر جو سب سے زیادہ ہدایت یافتہ او ر خلافت کا اولیں مستحق ہے، اس شخص کا قلادۂ اطاعت گردن میں پہن لوں گا جو خوب جھوٹ بولنے والا اور اللہ و رسول سے دور ہے۔ آپ گھڑ سوار اور پیادے مصر لے آئیں گے تو میں بھی ایسی جنگ میں الجھاؤں گا کہ آپ کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔حضرت معاویہ کوشش کے باوجود حضرت قیس کو مصر سے نکلوا نہ سکے تو ان کی جانب سے اپنے نام ایک جعلی خط تحریر کیا کہ میں اپنے امام کو شہید کرنے والے لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا،آپ مجھ سے جتنا مال اور افراد طلب کریں گے، لے کر آپ کی خدمت میں پہنچوں گا۔یہ خط اہل شام کو سنایا گیاتو مشہور ہو گیا کہ حضرت قیس نے درپردہ حضرت معاویہ کی بیعت کر لی ہے۔حضرت معاویہ نے یہ بھی مشہور کیا کہ قیس اہل خربتا (خرنبا) سے ملے ہوئے ہیں جنھوں نے علی کی بیعت نہیں کی، لیکن یہ پھر ان کو روزینے اور عطیات دیتے ہیں۔حضرت علی نے خربتا والوں کے خلاف جنگی کارروائی کا حکم دیا تو حضرت قیس نے لکھا :مجھے تعجب ہے کہ آپ ایسی جماعت سے جنگ کرنے کا حکم دے رہے ہیں جنھوں نے دشمنوں کو روک کر آپ کی حفاظت کر رکھی ہے۔ میرے خیال میں جب تک لوگوں کا ایک خلیفہ پر اتفاق نہ ہو جائے، ان سے تعرض نہ کیا جائے۔یہ شرفا اور حفاظ قرآن ہیں،اگر ہم نے ان سے جنگ کی تو یہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔اس پر حضرت عبداللہ بن جعفر اور محمد بن ابوبکر نے حضرت علی کومشورہ دیا کہ قیس کو معزول کر دیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت قیس کی معزولی کا حکم تحریر کیا اورمحمد بن ابوبکر کونیا گورنر بنا کر مصر بھیج دیا۔ حضرت قیس مدینہ واپس پہنچے تو مروان اور اسود بن ابوالبختری نے انھیں ڈرایا دھمکایا تووہ بھاگ کرحضرت علی کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔

نئے گورنر محمد بن ابوبکر نے مصر کے لوگوں کو حضرت علی کا عہد نامہ پڑھ کر سنایاجس میں لوگوں سے نرمی کرنے، مظلوموں کی دادرسی کرنے اور حسب سابق خراج وصول کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ایک ماہ گزر گیا تومحمدنے اہل خربتا کووارننگ دی : ہماری اطاعت کرو یا ہمارے شہروں سے نکل جاؤ۔انھوں نے اس وقت تک مہلت دینے کی درخواست کی، جب تک خلیفہ کا تعین نہیں ہو جاتا۔محمد بن ابوبکر نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا تو انھوں نے بھی اپنی حفاظت کا سامان کیا اور جنگ کی تیاری کرلی۔ انھوں نے محمد کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھا ، اس نے ابن مضاہم کلبی کو ان کی طرف بھیجا تو انھوں نے اسے قتل کر دیا، اس کے بعد دوسرا نمایندہ روانہ کیا تو اس کو بھی مار ڈالا۔

 حضرت علی نے خلید بن قرہ (طریف)کو خراسان کا گورنر مقرر کیا۔

جنگ صفین کی تیاری

کوفہ میں مقیم ہونے کے بعد حضرت علی نے ہمدان اور آذربائیجان کے گورنروں ــــ  حضرت جریر بن عبداللہ اور حضرت اشعث بن قیس  ــــ  کو حکم بھیجا کہ وہ لوگوں سے ان کی بیعت لیں۔یہ دونوں حضرت عثمان کے مقرر کردہ تھے، حضرت علی کے حکم کی تعمیل کر کے ان کے پاس پہنچے تو انھوں نے حضرت معاویہ کے نام خط لکھا کہ انصار و مہاجرین ان کی بیعت پر مجتمع ہو گئے ہیں، اس لیے وہ بھی ان کی اطاعت قبول کر لیں۔ حضرت جریر یہ خط لے کر جانے لگے تواشترنے منع کیااور کہا: یہ دل سے معاویہ کے ساتھ ہے، لیکن حضرت علی نے ان کو بھیج دیا۔ حضرت معاویہ نے جواب دینے کے بجاے حضرت جریر کو ٹالنا شروع کر دیا۔اس اثنا میں حضرت عمرو بن العاص حضرت معاویہ کی بیعت کر چکے تھے۔ ان سے مشورہ لینے کے بعد حضرت معاویہ نے جواب دیا:جب تک وہ قاتلین عثمان کو قتل نہیں کریں گے، وہ ان کی بیعت نہیں کریں گے۔ انھوں نے شام کے رؤسا سے مددمانگی اورحضرت علی سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ انھوں نے حضرت عثمان کا قصاص حضرت علی پر واجب قرار دیا۔اس سے قبل حضرت نعمان بن بشیر حضرت عثمان کا خون آلود قمیص اور ان کی اہلیہ نائلہ کی کٹی ہوئی انگلیاں لے کر شام آئے تھے۔ حضرت معاویہ نے انھیں منبر پررکھوادیا تھا، شام کے لوگ انھیں دیکھ کرزار و قطار روتے رہے اور قسم کھائی کہ بستر پر سوئیں گے، نہ غسل جنابت کریں گے، جب تک عثمان کے قاتلوں اور ان کی مدد کرنے والوں کی جان نہ لے لیں گے۔ حضرت جریر نے لوٹ کر خبر دی کہ شام کے لوگ علی کو عثمان کے قاتلوں کا مددگار قرار دے کر ان سے قتال کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اشتر کے یہ کہنے پر کہ میں جاتا تو معاملات سلجھا لیتا، حضرت جریر نے کہا:وہ تمھیں مار ہی ڈالتے۔انھیں معلوم ہے کہ تم عثمان کو قتل کرنے والوں میں شامل تھے۔

حضرت علی نے بھی تیاری شروع کر دی، ان کے ساتھیوں کی اکثریت نے جنگ میں ان کے خود حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔کوفہ سے نخیلہ پہنچ کر انھوں نے اپنالشکر ترتیب دیا۔کوفہ کے مرہ ہمدانی اور مسروق اپنے ساتھیوں سمیت ان سے الگ ہو گئے۔مسروق بعد میں اس پر استغفار کرتے رہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس بصرہ سے فوج لے کر آئے۔ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ کو بھی فوج کی قیادت خودکرنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے فرداً فرداً ہر ایک کو یہ کہہ کر اکسایا کہ جنگ جمل میں بڑے جرنیلوں اور سپاہیوں کی ایک کثیر تعدادکے مرنے سے علی کا لشکر کم زور ہو چکا ہے۔ان کی شوکت ختم ہو گئی اور دھاریں کند ہو چکی ہیں۔

فوجوں کی حرکت

 حضرت معاویہ نے کوچ میں تاخیر کی،انھوں نے ہر اس شخص کوخط تحریر کیا جسے حضرت علی سے خوف یا بغض تھا یا وہ حضرت عثمان سے عقیدت رکھتا تھا۔انھوں نے لشکر کا پرچم حضرت عمرو بن العاص کے سپرد کیا۔ حضرت عمرو نے ایک پرچم اپنے غلام وردان،دواپنے بیٹوں عبداللہاور محمدکو دے دیے۔حضرت علی نے اپنا علم اپنے غلام قنبر کے ہاتھ میں دیا،انھوں نے زیاد بن نضرکی قیادت میں آٹھ ہزار اور شریح بن ہانی کی سربراہی میں چارہزار فوجیوں پر مشتمل مقدمۃ الجیش بھی روانہ کیا۔ نخیلہ سے چل کر حضرت علی مدائن پہنچے، وہاں سے لڑاکا سپاہی بھرتی کیے اور حضرت سعد بن مسعود کومدائن کا امیر مقرر کیا۔ انھوں نے موصل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے معقل بن قیس کی کمان میں تین ہزار کا ایک دستہ روانہ کیا۔حضرت علی رقہ پہنچے تو یہ دستہ ان سے آن ملا۔بلنج کے مقام پر ایک عیسائی راہب حضرت علی کے ساتھ شامل ہوا۔اس نے اپنی کتاب میں سے پیشین گوئی پڑھ کر سنائی کہ نبی امی کا ایک صالح پیروکار دریاے فرات کے کنارے نہی عن المنکر کرے گااور حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔یہ راہب جنگ میں قتل ہوا تو حضرت علی نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔

حضرت علی نے دریاے فرات عبور کرنے کے لیے مقامی باشندوں کو پل باندھنے کو کہا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کشتیاں سمیٹ لیں۔وہ منبج کے پل کی طرف بڑھنے لگے تھے کہ اشترنے اہل رقہ کو دھمکی دی : اگر تم نے امیرالمومنین کے لیے پل نہ بنایا تو میں تلوار سونت کر مردوں کو قتل کر دوں گا اور تمھارا مال چھین کر اراضی پر قبضہ کرلوں گا۔تب انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اشتر اپنی قسم پوری کر دکھاتا ہے، اس لیے پل کھڑا کر دینا چاہیے۔ حضرت علی اپنے لشکر کے ساتھ دریاے فرات پار کر کے دوسرے کنارے پہنچے تو اپنے مقدمہ کے سالاروں زیاد اور شریح کوطلب کیا اور انھیں دریا کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے عانات پہنچنے کا حکم دیا۔ کوفہ سے عانات پہنچ کر سالاروں کو پتا چلا کہ دوسری طرف سے جیش معاویہ چلا آرہا ہے۔انھوں نے قلیل تعداد کے ساتھ اس کا سامنا کرنا مناسب نہ سمجھا اور فوری طور پر دریاے فرات عبور کر کے اپنے لشکر سے جا ملنے کا پروگرام بنایا۔ اہل عانات نے ان کو کشتیاں فراہم نہ کیں تو وہ ہیت گئے اور وہاں سے دریا پارکر کے قرقیسیا پہنچے اور اپنی فوج میں شامل ہو گئے۔حضرت علی نے ہنس کر کہا: تعجب کی بات ہے کہ مقدمۃ الجیش پیچھے پیچھے آ رہا ہے؟

اب پیش خیمہ پھر آگے آگے تھا۔ روم کی سر حد کے پاس پہنچے تو حضرت ابواعور سلمی اور حضرت عمرو بن سفیان شامیوں کا ہراول دستہ لے کر پہنچ گئے۔زیاد اور شریح نے ان کو حضرت علی کی اطاعت کی دعوت دی۔ انھوں نے قبول نہ کی تو حضرت علی کو اطلاع کی، انھوں نے فوراًاشترکو وہاں پہنچ کر کمان سنبھالنے کا حکم دیا۔ حضرت علی نے اشتر کو مقدمہ کا نیاامیر مقرر کیا، زیاد کو لشکر کے میمنہ پر اور شریح کو میسرہ پرمتعین کردیا۔انھوں نے ہدایت کی کہ جنگ کی ابتدا نہ کرنا،پہلے اطاعت کی دعوت دینا۔ مقابل فوج کے اتنا قریب نہ جانا کہ جنگ چھڑ ہی جائے اور اتنا دوربھی نہ چلے جانا کہ فرار کا گمان ہو۔میں تمھارے پیچھے پیچھے آرہا ہوں۔حضرت علی نے زیاداور شریح کواشتر کی اطاعت کی تلقین کی۔

پہلی جھڑپ

جس روز اشتر پہنچا،حضرت ابو اعور نے دن ڈھلے حملہ کیا،اشتر نے دفاع کیا،دونوں دستے ڈٹے رہے، شام ہوئی تو اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ گئے۔ اگلے دن ہاشم بن عتبہ نے جیش علی کی جانب سے حضرت ابواعور سے مقابلہ کیا،تمام دن زبردست جنگ ہوتی رہی۔گھوڑے پر گھوڑا اور آدمی پر آدمی سوار تھا۔ دن کے اختتام پر شامی لشکر لوٹا تو اشتر نے اچانک حملہ کر دیا۔اس حملے میں شامی سوار عبداللہ بن منذر مارا گیا۔ اشتر چلانے لگا :کوئی مجھے ابو اعور دکھا دے۔شامی لشکر پھر صف بند ہوا اور حضر ت ابواعور الگ کھڑے ہو گئے۔اشتر نے حضرت سنان بن مالک کو بلا کر کہا:ابواعور کے پاس چلو اوراسے دوبدو مقابلے (duel)کی دعوت دو۔آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کا کہوں یا اپنے ساتھ؟ سنان نے پوچھا۔اشتر نے کہا:میں تمھیں روبرو مقابلے کا کہوں تو کر لو گے؟بہ خدا، آپ کہیں تو میں تلوار لے کرشامی فوج کی پوری صف سے بھڑ جاؤں گا۔اشتر نے کہا:بھتیجے، تو نے میرے دل میں اپنی محبت پیدا کر دی ہے۔ابواعور مجھ سے مقابلہ نہ کرے گا، کیونکہ میں خاندان میں اس کا ہم سر نہیں اور تجھ سے مبارزت پراس وجہ سے راضی نہ ہو گا، کیونکہ تو اس سے عمر میں کم ہے۔ تو اسے مجھ ہی سے مبارزت کی دعوت دے دو۔ حضرت سنان امان لے کرحضرت ابواعور کے پاس پہنچے اور اشتر کی دو بدو مقابلے کی دعوت پہنچائی۔ حضرت ابواعور نے طویل غور کرنے کے بعدکہا: مجھے عثمان کے خلاف خروج کرنے اور ان کو شہید کرنے والے خونی سے مقابلہ کرنا منظور نہیں۔حضرت سنان نے اپنے ساتھ مقابلہ کرنے کو کہاتو بھی حضرت ابواعور نہ مانے۔جنگ پھر شروع ہو گئی اور رات تک جاری رہی۔دونوں فوجیں شب خون کے خوف سے رات بھر پہرہ دیتی رہیں۔

حضرت علی کی آمد،گھاٹ کا معرکہ

اگلی صبح حضرت علی آن پہنچے اورپڑاؤ ڈالنے کے لیے موزوں مقام کی تلاش کی۔حضرت معاویہ ان سے پہلے ایک وسیع میدان کو اپنے لشکر کی فرودگاہ بناچکے تھے جس میں اس علاقے میں واقع دریاے فرات کاواحد گھاٹ بھی موجود تھا۔ گھاٹ کی حفاظت کے لیے انھوں نے حضرت ابواعور سلمی کو متعین کر رکھا تھا۔ پڑاؤ ڈالنے کے بعد حضرت علی کے کچھ فوجی پانی لینے کے لیے دریا پر پہنچے تو شامیوں نے انھیں روک دیا۔حضرت علی کو معلوم ہوا کہ اس جگہ کوئی اور گھاٹ نہیں جہاں سے ان کے سپاہی پیاس بجھا سکیں تو صعصعہ بن صوحان کے ہاتھ حضرت معاویہ کو پیغام بھیجا کہ ہم دعوت دینے اور حجت قائم کرنے سے پہلے کوئی جنگ کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔ ان حالات میں کہ آپ نے پانی روک لیا ہے تو کیا ہم پانی کے مسئلے پر قتال شروع کر دیں تا کہ پانی اسی کو ملے جو غلبہ پالے۔انھوں نے اشتر کا یہ مشورہ نہ مانا کہ اس مقام کو چھوڑ کر آگے کی طرف کوچ کریں تاکہ گھاٹ پر کسی کابھی قبضہ نہ رہے۔حضرت معاویہ نے اپنے ساتھیوں کی راے لی۔ حضرت ولید بن عقبہ نے اسی طرح پانی روکنے کا مشورہ دیا، جس طرح حضرت عثمان کو پانی سے محروم کیا گیا تھا۔ابن ابی سرح نے رات تک پانی روکنے کو کہا تاکہ حضرت علی کی فوج واپس چلی جائے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ولید اور ابن ابی سرح جنگ صفین میں شریک ہی نہ تھے۔حضرت عمرو بن العاص بولے: آپ پانی کا راستہ چھوڑ دیجیے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ تو سیراب ہوں اور قوم پیاسی رہے۔ حضرت معاویہ نے صعصعہ سے کہا:تم جاؤ، میرا جواب عنقریب مل جائے گا۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ گھڑ سوار دستے حضرت ابو اعور کی مدد کے لیے پہنچنا شروع ہو گئے۔ اب حضرت علی نے حملہ کرنے کا حکم دیا،حضرت اشعث بن قیس رضا کارانہ نکلے۔پہلے تیر اندازی ہوئی پھرنیزہ زنی،آخرکار فوجیں تلواریں سونت کر گتھم گتھا ہو گئیں۔حضرت معاویہ نے حضرت یزید بن اسد اورحضرت علی نے شبث بن ربعی کو کمک پربھیجا۔سترہ سالہ محمد بن محنف نے سخت پیاس کی حالت میں لڑائی میں حصہ لیا اور ایک عراقی غلام کی مدد سے پانی کی مشک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جنگ کا بازار گرم ہوا تو حضرت عمرو بن عاص اور اشترفریقین کی مدد کے لیے آئے۔ سخت لڑائی کے بعد جیش علی کو غلبہ حاصل ہواتو ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم اب شامیوں کو پانی ہرگز نہ دیں گے۔ حضرت علی نے حکم دیا کہ اپنی ضرورت کا پانی لے کر گھاٹ ان کے لیے چھوڑ دو، اس لیے کہ اللہ نے ان کے اس ظلم و زیادتی ہی کے سبب تمھیں فتح سے نوازا ہے۔

جنگ سے پہلے دعوت

اوائل ذی الحجہ ۳۶ھ :پانی کے معرکہ کے بعد دونوں فوجیں دو دن خاموش پڑی رہیں۔تیسرے روز حضرت علی نے بشیر بن عمرو،حضرت سعد بن قیس اور شبث بن ربعی کو حکم دیا کہ تم معاویہ کے پاس جاکر ان کو حق پر چلنے، امیر کی اطاعت کرنے اور اتحاد کی دعوت دو۔شبث نے کہا: آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ انھیں شام کی امارت کی طمع دلا کر بیعت کی دعوت دیں۔ حضرت علی نے انکار کرتے ہوئے کہا: تم جا کر اپنی حجت پیش کرو۔ سفرا ء حضرت معاویہ کے ہاں پہنچے تو پہلے بشیر بن عمرو انصاری مخاطب ہوئے:اے معاویہ ، آپ عالم آخرت میں پہنچیں گے تو اللہ آپ کے اعمال کا محاسبہ کرکے جزاو سزا دے گا۔میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جماعت میں تفریق پیدا نہ کیجیے اور مسلمانوں کا خون نہ بہائیے۔حضرت معاویہ نے قطع کلامی کرتے ہوئے پوچھا: یہ نصیحت تم نے اپنے امیر کو بھی کی ہے؟بشیر نے جواب دیا: صاحب فضیلت و سبقت ہونے کی وجہ سے وہ نصیحت کرنے کے زیادہ حق دار ہیں۔ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ حضرت معاویہ نے سوال کیا۔آپ ان کی دعوت حق پر لبیک کہیں اور ان کی اطاعت میں آ جائیں،جواب ملا۔حضرت معاویہ نے کہا: تو کیا میں عثمان کاخون رایگاں جانے دوں؟ حضرت عثمان کے بیٹے ابان مطالبۂ قصاص میں حضرت معاویہ کے ساتھ تھے۔ اب شبث بولے: آپ لوگوں کویہ کہہ کر ورغلا رہے ہیں کہ تمھارے امام کو مظلومی کی حالت میں شہید کیا گیا اور ہم ان کا قصاص چاہتے ہیں، حالاں کہ خود آپ نے عثمان کی مدد کرنے میں کوتاہی کی اور امارت پانے کے لیے ان کے قتل پرراضی ہو گئے۔ حضرت معاویہ غصے میں آگئے،انھیں جھٹلایا اور یہ کہہ کر نکال دیا کہ اب تلوار ہی ہمارے مابین فیصلہ کرے گی۔ شبث نے جاتے جاتے کہا:وہ تلواریں آپ کے سر پربھی پہنچیں گی۔

صفین(Theophanes)، رقہ اور بالس کے درمیان شام میں واقع ہے۔صفین اوردریاے فرات کے درمیان دلدلی زمین کی ایک پٹی حائل ہے۔ یہاں ۳۶ھ (۶۵۶ء ) اور۳۷ھ (۶۵۷ء ) میں جنگ صفین ہوئی۔ ذی الحجہ ۳۶ھ کے آغازسے ۱۳ ؍صفر ۳۷ ھ (مئی تا جولائی۷ ۶۵ء ) تک ستتر دن ( ایک سو دس دن : ابن جوزی) فوجیں آمنے سامنے رہیں۔ ۳۶ھ میں حضرت علی کے حکم پر حضرت عبیداللہ بن عباس نے لوگوں کو حج کرایا۔

جنگ صفین کا پہلا مرحلہ

پہلا مرحلہ ذی الحجہ ۳۶ھ کے ایک ماہ پر محیط رہا،اس دوران میں دونوں فوجوں میں اکا دکا(قریباًپچاسی ) مقابلے ہوتے رہے۔طرفین نے بھرپور جنگ سے اجتناب کیا۔حضرت علی اکثر و بیش تر اشترکی سربراہی میں ایک دستہ بھیجتے، حضرت معاویہ کی جانب سے بھی سپاہیوں کی ایک ٹکڑی نکلتی۔کچھ دیر جنگ کرنے کے بعد دونوں دستے واپس لوٹ جاتے۔حضرت علی کے دستوں کی قیادت حضرت حُجر بن عدی،شبث بن ربعی،خالد بن معمر، زیاد بن نضر،زیاد بن خصفہ اور حضرت سعید بن قیس نے بھی کی۔حضرت معاویہ کے دستوں کی کمان حضرت عبدالرحمٰن بن خالد مخزومی،حضرت ابواعور سلمی،حضرت حبیب بن مسلمہ، حضرت ذو الکلاع حمیری (اسمیفع )،حضرت عبیداللہ بن عمر،حضرت شرحبیل بن سمط اورحضرت حمزہ بن مالک کرتے رہے۔ بعض اوقات دن میں دوبار مقابلہ ہوتا۔ ایک بار حضرت معاویہ کی طرف سے ایک لمبا اور موٹا شخص نکلا۔اشتر نے دوبدو مقابلے میں اسے قتل کردیا۔

حضرت علی کا وفد

محرم ۳۷ھ کاحرام مہینا ایلچیوں کی آمدورفت اورصلح کی طمع میں مذاکرات کرتے گزر گیا۔حضرت علی نے حضرت عدی بن حاتم طائی کی قیادت میں ایک وفد بھیجا، جس میں حضرت یزید بن قیس،شبث بن اربعی اور زیادبن خصفہ شامل تھے۔حضرت عدی نے گفتگو شروع کی: معاویہ ، روے زمین پر آپ اور آپ کے ساتھیوں کے علاوہ علی کا کوئی مخالف نہیں۔اپنے اختلافات سے باز آ جائیں،کہیں آپ کا حشر اصحاب جمل جیسا نہ ہو۔حضرت معاویہ بولے: عدی، تومجھے للکار رہا ہے، حالاں کہ تو لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے والوں میں شامل ہے، اللہ تجھے بھی قتل کرے گا۔اب شبث اور زیاد بولے:ہم تو صلح کی غرض سے آئے ہیں۔ پھرحضرت یزید بن قیس گویا ہوئے: ہماراکام محض اس پیغام کوپہنچاناہے جو علی نے بھیجاہے، لیکن نصیحت کرنا اوران باتوں کو بیان کرنا بھی ضروری ہے جو آپ کے خلاف حجت ہو سکتی ہیں۔ حضرت معاویہ نے جواب دیا:آپ لوگ مجھے اتحاد کی دعوت دینے آئے ہیں۔میں تمھارے امیر کو کیسے تسلیم کر سکتا ہوں جس نے ہماری جماعت میں انتشار پھیلایا اور ہمارے خلیفہ کے قاتلوں کو پناہ دی۔علی اگرعثمان کے قتل میں شریک نہ تھے تو ان کے قاتلوں ہی کو ہمارے حوالے کر دیں جن سے تم بخوبی واقف ہو،ہم ان کی اطاعت قبول کر لیں گے۔شبث نے کہا: اس کامطلب ہے کہ اگر آپ کا بس چلے تو عمار بن یاسر کوبھی قتل کردیں؟انھوں نے کہا:بالکل،مجھے قدرت ہوئی تو عثمان کے قصاص میں ابن سمیہ کی جان بھی لے لوں گا۔شبث نے کہا: آپ عمار پر اس وقت تک قابو نہیں پا سکتے جب تک بہت سی کھوپڑیاں کاندھوں سے جدا نہ ہو جائیں۔

حضرت علی کے نمایندے واپس آئے تو حضرت معاویہ نے زیاد بن خصفہ تیمی کو خلوت میں بلاکر کہا: تم اور تمھارا قبیلہ میری مدد کرے تو میں غالب آ کر جس شہر کاتم کہو گے، والی بنا دوں گا۔زیاد نے جواب دیا: پروردگار نے جو انعامات مجھ پر کیے ہیں، میں ان پر مطمئن ہوں۔میں مجرموں کی پشت پناہی نہیں کر سکتا۔یہ سن کر حضرت معاویہ نے اپنے قریب بیٹھے حضرت عمرو بن العاص سے کہا: ان لوگوں کے دل افتراق سے محفوظ ہیں۔

حضرت معاویہ کا جوابی وفد

حضرت علی کا وفد لوٹنے کے بعد حضرت معاویہ نے ایک جوابی وفد بھیجا جس میں حضرت حبیب بن مسلمہ، حضرت شرحبیل بن سمط اور حضرت معن بن یزید شریک تھے۔ حضرت حبیب بن مسلمہ نے بات شروع کی: علی اگر عثمان کی شہادت میں شریک نہ تھے تو اب قاتلین عثمان کو ہمارے حوالے کر دیں۔اس کے بعدعوام اپنی مرضی سے جسے چاہیں، خلافت سونپ دیں۔حضرت علی نے حضرت حبیب کو جھڑک دیا تو حضرت شرحبیل بولے:میں بھی وہی بات کہتا ہوں جو میرے ساتھی نے کی ہے۔کیا جھڑکنے کے علاوہ بھی کوئی جواب آپ کے پاس ہے؟حضرت علی اٹھے اور یہ خطبہ دیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرائض نبوت ادا کر لیے تو اللہ نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔پھر لوگوں نے ابوبکر کوخلیفہ بنایااور انھوں نے منصب خلافت پر عمر کا تقرر کیا، حالاں کہ ہم آل رسول ہونے کی وجہ سے اس کے حق دار تھے۔دونوں حضرات نیک سیرت تھے،انھوں نے لوگوں میں عدل و انصاف کیا۔پھر یہ ذمہ داری عثمان کو ملی،انھوں نے کچھ کام ایسے کیے جن کولوگوں نے ناپسند کیا،ان پر نکتہ چینی کی اوربغاوت کر کے انھیں شہید کردیا۔ان کی شہادت کے بعد لوگ جمع ہو کر میرے پاس آئے حالاں کہ میں ان کاموں سے علیحدگی اختیار کرچکا تھا۔انھوں نے بیعت لینے پر اصرار کیا اور کہا: اہل ایمان آپ کے علاوہ کسی کی خلافت پر راضی نہ ہوں گے۔آپ نے یہ ذمہ داری قبول نہ کی تو امت بکھرجائے گی۔ بیعت لینے کے بعد طلحہ وزبیر کی مخالفت اور معاویہ کا اختلاف میرے لیے پریشانی کا باعث بنا۔معاویہ کو دین میں کوئی سبقت حاصل نہیں اور ان کے والد اللہ ورسول سے پے درپے برسرپیکار رہے اور مجبوراً داخل اسلام ہوئے۔حیرت ہے کہ آپ لوگ نبی کی آل کو چھوڑ کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں، حالاں کہ اہل بیت سے اختلاف کسی صورت مناسب نہیں۔میں آپ کوکتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ہوں۔ حضرت معاویہ کے فرستادہ حضرت حبیب بن مسلمہ اور حضرت شرحبیل بن سمط نے پوچھا: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ عثمان کو مظلومی کے ساتھ شہید کیا گیا۔حضرت علی نے جواب دیا: میں نہ تو یہ کہتا ہوں کہ وہ مظلوم قتل کیے گئے اور نہ یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ وہ ظالم قتل کیے گئے۔ اس پر حضرت حبیب اورحضرت شرحبیل یہ کہہ کر لوٹ آئے،جو عثمان کی مظلومانہ شہادت کو نہیں مانتا،ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں :حضرت علی سے منسوب اس گفتگو کی صحت محل نظر ہے۔ان کے جانے کے بعد حضرت علی نے یہ آیات تلاوت کیں:’

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰي وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ. وَمَا٘ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْﵧ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ

‘، ’’بلا شبہ تم مردوں کو سنا سکتے ہو نہ بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو جب وہ پشت پھیر کر چل دیں نہ تم اندھوں کو ان کی گم راہی سے ہٹا کر راہ یاب کر سکتے ہو۔تم انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات کو مانتے ہوں،وہی مسلمان ہوں گے‘‘ (النمل ۲۷: ۸۰ - ۸۱)۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہا:یہ لوگ اپنی گم راہ کن سرگرمیوں میں تمھاری کوششوں سے آگے نہ نکل جائیں جو تم حق کو پانے اور اپنے رب کی بندگی کرنے کے لیے کررہے ہو۔

کل تیس ہزار قرا جنگ صفین میں موجود تھے۔عراق کے قاریوں میں سے عبیدہ بن سلمانی،علقمہ بن قیس، عامر بن عبدقیس اور عبداللہ بن عتبہ حضرت معاویہ کے پاس آئے اور پوچھا: آپ کیا چاہتے ہیں؟ کہا: عثمان کے خون کا بدلہ چاہتا ہوں۔پوچھا: کس سے؟جواب دیا:علی سے۔قرا نے سوال کیا:کیا انھیں علی نے قتل کیا ہے؟حضرت معاویہ نے کہا: ہاں،اور ان کے قاتلوں کو پناہ بھی دی ہے۔قرا حضرت علی کے پاس آئے اور ان کو بتایا تو انھوں نے کہا: یہ بہتان ہے،میں نے ان کو قتل نہیں کیا۔حضرت معاویہ کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: علی نے ا گرخود قتل نہیں کیا تو ان کے قتل کا حکم دیا ہے۔حضرت علی نے جواب دیا:نہ میں نے قتل کا حکم دیا ہے، نہ اس باب میں کسی کی مدد کی ہے۔اب حضرت معاویہ نے کہا:اگر وہ سچے ہیں تواپنی فوج میں شامل قاتلین عثمان سے قصاص لے دیں۔اس پر بہت سے لوگ باہرنکل آئے اور کہنے لگے : ہم قاتلین عثمان ہیں۔ حضرت علی نے کہا:وہ ایک فتنہ تھا،مجھ سے اس کی بازپرس کیسے ہوسکتی ہے؟مہاجرین و انصار نے میری بیعت کی ہے اورمیں ان کا امیر ہوں۔حضرت معاویہ نے کہا: مہاجرین و انصار تو میرے ساتھ بھی ہیں۔حضرت علی نے جواب دیا: تمام بدری اصحاب میرے ساتھ ہیں۔تب حضرت معاویہ کو خدشہ ہوا کہ تمام قرا حضرت علی کی بیعت کرلیں گے۔

جنگ صفین کادوسرا مرحلہ

محرم کی حرمت میں ایک مہینے کی تعطیل ہوئی۔یکم صفر ۳۷ھ (جولائی۶۵۷ء،دوسری روایت :ربیع الثانی ۳۷ھ )کو جنگ کا دوبارہ آغاز ہوا،یہ مرحلہ نو دن جاری رہا۔

وفودکا تبادلہ بے نتیجہ ثابت ہوا تو حضرت علی نے منادی کرائی:اے اہل شام، میں برابر کوشش کرتا رہا کہ تم حق کو قبول کر لو، لیکن تم سرکشی سے باز نہیں آئے، اس لیے جنگ کے لیے تیارہو جاؤ۔حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص اپنے دستوں کو ترتیب دینے اور سپاہیوں کو آلات جنگ سے لیس کرنے لگے، ادھر حضرت علی نے بھی تیاریاں شروع کیں۔ انھوں نے لشکر کو ہدایت کی کہ اس وقت تک جنگ کی ابتدانہ کرنا جب تک وہ پہل نہ کردیں۔جب ان کو پچھاڑ دو تو بھاگتے ہوئے کو قتل کرنا نہ زخمی پر وار کرنا،کسی کا ستر کھولنا نہ مثلہ کرنا۔ لوگوں کے گھروں تک آجاؤ تو پردہ دری کرنا؛ نہ گھر کے اندر گھس جانانہ کسی کا مال ہتھیانا؛ عورتوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا خواہ وہ تمھاری بے عزتی کریں اور تمھارے بڑوں کوبرا بھلا کہیں۔ سپاہیوں کو نصیحت کی: ’

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ. وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْاﵧ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ

‘، ’’اے اہل ایمان! جب تمھارا کسی سپاہ سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہواور اللہ کو کثرت سے یاد کرو،توقع ہے کہ تم کامیاب ہو جاؤ گے،اور اللہ ورسول کی اطاعت کرواور آپس میں نزاع نہ کرو، مبادا کہ تم بزدل پڑ جاؤ اور تمھاری ہوا جاتی رہے،صبر سے کام لو،بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘(الانفال ۸: ۴۵ - ۴۶)۔

علم برداری کے نزاعات

اپنی قوم کی علم برداری کے معاملے پر عائذ بن قیس حزمری اور حضرت عدی بن حاتم طائی کے مابین صفین میں نزاع ہوا۔بنوحزمرکی کثیر تعداد عائذ کے ساتھ تھی، اس لیے وہ بنو عدی کے بجاے اپنے آپ کو علم برداری کا مستحق سمجھتا تھا۔حضرت علی کے سامنے یہ جھگڑا پیش ہوا تو انھوں نے نجابت،سخاوت اور نیکی کی بنا پرعلم حضرت عدی کو سونپ دیا۔ قبیلہ ربیعہ میں بھی علم برداری کے مسئلے پر اختلاف ہوا۔علم پہلے خالد بن معمر کے پاس تھا۔ بعد میں ایک قضیے کے نتیجے میں عارضی طور پر بکر بن وائل کے حصین بن منذر کو تھما دیا گیا۔معاملہ حضرت علی کے پاس پہنچا تو انھوں نے خالد بن معمر کو دوبارہ پورے ربیعہ کا علم بردار بنا دیا۔ 

مطالعۂ مزید: تاریخ الامم والملوک(طبری)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، البدایہ و النہایہ(ابن کثیر)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:Fr. Buhl)،سیرت علی المرتضیٰ(محمد نافع)،Wikipedia۔

]باقی[

____________

B