HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

کیا حفظ قرآن بدعت ہے؟*

مفتی منیب الرحمٰن

 میں غیر ملکی دورے پر روانہ ہونے کو تھا کہ متحدہ علما کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالرؤف کا دردانگیز مکتوب ملا، انھوں نے جناب جاوید احمد غامدی کی زیر سرپرستی ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں عرفان شہزاد صاحب کے ایک مضمون بعنوان:’’قرآن مجید کے حفظ کی رسم پر نظر ثانی کی ضرورت‘‘ کی نقل ارسال کی اوردین کے مسلمات سے انحراف کی تحریک کی جانب متوجہ کیاکہ اس پر بات کی جائے۔ ملکی حالات کے تناظر میں واپسی پر امریکا کے بعض مشاہدات ومعلومات کو قارئین تک پہنچانے کے سبب اس فریضے کی ادائیگی میں قدرے تاخیر ہوگئی، آج اس ذمہ داری سے عہد ہ برآ ہورہا ہوں۔


 حفظ قرآن کریم کی سعادت وفضیلت پر سَلف سے خَلف تک امت کا اجماع رہا ہے، یہ مسئلہ کبھی بھی مختلف فیہ یا متنازع نہیں رہا، مگر عرفان شہزاد صاحب نے اس سعادت کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے لکھا:’’عام تاثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اور باعث اجر وسعادت ہے، یہ تصور چند در چند غلط فہمیوں کا تسلسل ہے‘‘، انھوں نے مزید لکھا: ’’شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حفظ قرآن کی موجودہ رسم اور اس سے جڑے اجر وثواب اور گناہ کے دینی تصورات اسے ایک بدعت بناتے ہیں ‘‘، نیز لکھا: ’’یہ خیال ایجاد کیا گیا کہ قرآن مجید کا حفظ کرنا معجزہ ہے‘‘۔ گویا انھوں نے حفظ قرآن کریم کی سعادت،اس کے لیے ترغیب اور مدارس ومکاتب کے پورے سلسلے کو بدعت قرار دے ڈالا۔ امت مسلمہ پوری دنیا میں دسیوں لاکھ حفاظ قرآن کے وجود کو قرآن کریم کی ایک شان اعجاز سمجھ رہی ہے، مگر انھوں نے اسے خلاف حقیقت قرار دیتے ہوئے لکھا:’’اتنا وقت اتنی ضخامت کی کسی بھی کتاب کو زبانی یاد رکھنے کے لیے کافی ہے، خصوصاً جب الفاظ میں ایک قسم کی موسیقیت اور موزونیت بھی پائی جاتی ہو تو یہ اور بھی سہل ہوجاتا ہے‘‘۔ گویا موصوف نے قرآن کریم کے یاد ہونے کا سبب عیاذاً باللہ !اس کی موزونیت اور موسیقیت کو قراردیا، ایسی سوچ اور انداز کو کم از کم بے ادبی ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

 موصوف سے سوال ہے: دنیا میں اور بھی مذاہب ہیں، ان کی مذہبی کتب بھی ہیں یا مختلف علوم وفنون کی بے شمار کتابیں موجود ہیں، کیا اتنی ضخامت کی کوئی ایک کتاب بھی ایسی ہے،جس کو دنیا میں موجود قرآن کریم کے حفاظ کرام کی کل تعداد کے عشر عشیر، یعنی ایک فی صد یا ایک فی ہزارنے بھی ازاول تا آخر لفظ بہ لفظ یاد کررکھا ہو، حقیقت کا مقابلہ مفروضوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، میر تقی میر نے کہا تھا:

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

 آپ نے لکھا ہے: ’’مکاتب تعلیم القرآن میں تشدد،بچوں کی گھر سے دوری، جنسی ہراسانی وغیرہ بچے کی نفسیات میں غیر صحت مند رویہ تشکیل دیتے ہیں ‘‘۔ ہمیں تسلیم ہے اورہماری آرزو ہے کہ اللہ کرے کہ ایک واقعہ بھی ایسا رونمانہ ہو، لیکن خال خال، یعنی لاکھوں میں کوئی ایک واقعہ بدقسمتی سے رونما ہوجائے تو اس طرح کے شاذ ونادر واقعات اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی رونما ہوتے ہیں، پاکستان کے تمام شہروں، بالخصوص کراچی، لاہور، اسلام آباد، ایبٹ آباد، مری اورملک کے دیگر علاقوں میں انگلش میڈیم اسکولوں میں طلبہ وطالبات اقامت گاہوں (Hostels) میں قیام پذیر ہوتے ہیں، کیا آپ نے ان شاذ ونادر واقعات کے سبب ان کی بندش کی بھی کوئی زبانی یا قلمی تحریک بپاکی ہے یا آپ کا ہدف صرف حفظ قرآن کریم ہے۔


 جدید تعلیمی اداروں میں ناچ گانے،موسیقی،ڈراموں اور دیگر خرافات کے مقابلے ہوتے ہیں، عرفان شہزاد صاحب، شاید آپ انھیں صحت مند، بچوں میں جوہر قابل، یعنی ٹیلنٹ کو نکھارنے اور ابھارنے کا نفسیاتی عمل قرار دیتے ہوں گے،اس لیے آپ نے ان سلسلوں کو کبھی ہدف ملامت نہیں بنایا، لیکن حفظ قرآن کریم کے مسابقات (Competitions)کو آپ نے ’’شعبدہ بازی‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، اس قدر جسارت، فَیَا اَسَفٰی ویَا لَلْعَجَب!،چنانچہ آپ نے لکھا: ’’قرآن مجید کے حفظ سے شعبدہ بازی کا کام بھی بعض حلقوں میں لیا جاتا ہے، طلبہ سے متن قرآن کے ساتھ صفحہ نمبر، بلکہ آیت نمبر تک یاد کرائے جاتے ہیں، پھربین الاقوامی مقابلوں میں یادداشت کے لیے کارنامے پیش کر کے داد تحسین وصول کرتے ہیں ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل خطابت یا تحریر میں حوالہ دینے کے لیے سورت کا نام،آیت نمبر،حدیث کی کتاب اوررقم الحدیث کا جو رواج ہے،یہ اُن کے نزدیک شعبدہ بازی ہے، کتب احادیث کی ترقیم (Numbering)تو جدید دور کا شعار ہے،اس سے تحقیق کرنے والوں کے لیے آسانی ہوتی ہے۔

 آپ نے لکھا: ’’ماہ رمضان میں تراویح کی نماز،جو درحقیقت نماز تہجد ہی ہے، میں پورے قرآن کی تلاوت اور اس کے سماع کا اہتمام مسلمانوں کا اپنا انتخاب ہے، اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کے ساتھ ماہ رمضان میں قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، نہ کہ نماز تہجد میں ‘‘۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کا اجماع عملی اور امت کا عملی تواتر آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور ’

اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن‘ مہاجرین وانصار، جو آپ کے براہ راست تربیت یافتہ تھے،آپ کے نزدیک ساقط الاعتبار ہیں، اُن کا کوئی متواتر عمل بھی آپ کے نزدیک کسی درجے کی حجت نہیں ہے،بلکہ بدعت ہے۔ آپ کا بڑا احسان ہے کہ آپ نے جبریل امین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورۂ قرآن کو تسلیم کیا جو کہ بخاری ، رقم ۶ سے ثابت ہے،جب کہ حفظ وتلاوت قرآن کے فضائل پر مشتمل احادیث مبارکہ، جو حد شہرت کو پہنچی ہوئی ہیں،آپ کے نزدیک حجت نہیں ہیں۔

 آپ لکھتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قرآن مجید کے حفظ کرنے کی ترغیب دلانے والی روایات میں سے جو معیار صحت پر پورا اترتی ہیں، اُن میں بھی اس تصور کا پایا جانا ممکن نہیں کہ آپ نے لوگوں کو بلاسمجھے قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہو، آپ کے مخاطبین قرآن مجید کی زبان سے واقف تھے،اُن کے لیے اسے سمجھے بغیر یاد کرلینا متصور ہی نہیں ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیاآج بھی عالم عرب کے عام اہل زبان نزول وحی کے چودہ سو تریپن سال بعد بھی باقاعدہ تعلیم کے بغیر قرآن کے معانی ومطالب کو سمجھ سکتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو عالم عرب میں علوم عربیہ واسلامیہ کی درس گاہوں کی کوئی ضرورت نہ رہتی۔ کیا اُن تمام ممالک کے لوگ،جن کی مادری زبان انگریزی ہے،وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کیے بغیر جدیدسائنسی، طبی،فنی،ادبی وسماجی اور معاشی علوم کو جان سکتے ہیں،اگر ایسا ہوتا تو مغرب میں ہر سطح کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا وجود بے معنی ہوکر رہ جاتا۔ بلاشبہ، صحابۂ کرام اہل زبان تھے،لیکن اُن میں ماہرین تفسیر، ماہرین حدیث اور ماہرین فقہ محدود تعداد میں تھے، جنھوں نے باقاعدہ مکتب نبوت سے علم حاصل کیا تھا، صفہ کی درس گاہ آخر کس لیے تھی، انھی متخصصین کی ضرورت کی جانب قرآن کریم نے التوبہ۹: ۱۲۲ میں متوجہ فرمایا اور اسے ’

تَفَقُّهْ فِی الدِّیْن

‘ سے تعبیر فرمایاہے۔

 اب آتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف،سب سے پہلے ہم اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے معانی ومطالب اور احکام الہٰی کوبصورت اوامر ونواہی جاننا،ان کی تفہیم وتفہم اور تعلیم وتعلم مقصود اصلی ہے اور اس سے امت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ معانی ومطالب قرآن کا فہم حاصل ہوگا تو اسی صورت میں اس پر عمل کی سعادت حاصل کر کے فلاح دارین کی منزل کو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن فہم قرآن اور تلاوت و حفظ قرآن کو ایک دوسرے کی ضد قرار دے کر حفظ قرآن کی اہمیت کم کرنا یا اسے بدعت قرار دینا یا اسے شعبدہ بازی قرار دینا ہمارے نزدیک یہ سوچی سمجھی تحریک ہے اور اس تحریرکے پس پردہ یہی مہم کارفرما ہے۔’’حجیت حدیث‘‘ کے عنوان سے ہمارا کالم ۱۵؍جون کو شائع ہوچکا ہے اور اس میں ہم نے واضح کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم قرآن اور تعلیم بیان، (یعنی اس کے معانی ومطالب کی تفہیم )کو باہم مربوط کر کے بیان کیا ہے،اسی طرح یہ بھی بتایا کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا،اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ میں محفوظ کرنا اورآپ کی زبان پرجاری کرنااللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے اور اسی طرح اس کا بیان بھی اُسی کی طرف سے آیا ہے،ملاحظہ ہو: الرحمٰن ۵۵: ۱ - ۴۔ القیامہ۷۵: ۱۶  - ۱۹ ۔نیز ہم نے یہ بھی بتایا کہ قرآن کا بیان، یعنی معانی ومطالب اُسی ہستی پر نازل ہوئے جس پر قرآن نازل ہوا، پس قرآن کو صاحب قرآن سے جدا کر کے سمجھا نہیں جاسکتا، جب کہ ہر دور میں اپنے آپ کو ’’اہل قرآن ‘‘ کہلانے والے فہم قرآن کا اہم ماخذ ادب جاہلیت کو قرار دیتے رہے ہیں۔

 آپ نے لکھا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جبریل امین کے ساتھ قرآن کو دہراتے تھے ‘‘، یہ دہرانا قرآن کریم کے کلمات مبارکہ کو یاد کرنے ہی کے لیے تھا، اس کی اہمیت سے انھیں انکار ہے۔ہمیں تسلیم ہے کہ عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ میں حافظ قرآن کو قاری قرآن ہی کہاجاتا تھا، لیکن اصطلاح کے فرق سے معنویت نہیں بدلتی۔ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کے ساتھ جنگ یمامہ میں ستر قراء کرام شہید ہوگئے تو حضرت عمر فاروق نے حضرت ابوبکر صدیق کو تحریری شکل میں جمع قرآن کی ضرورت کی جانب متوجہ کیا اور بالآخر وہ اس پر راضی ہوگئے اور فرمایا: ’’اللہ نے اس حکمت کو سمجھنے کے لیے میرے سینے کو کھول دیا،جس کے لیے عمر کے سینے کو کھول دیا تھا‘‘۔ شرح صدر کے معنی ہیں : ’’پورے ایمان وایقان کے ساتھ کسی بات کی ضرورت و اہمیت کاادراک کرلینا‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاے راشدین کے نزدیک حفظ قرآن حفاظت قرآن کا معتمد و مستند ذریعہ تھا، حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قوم کی امامت وہ شخص کرے جو سب سے عمدہ قراء ت کرنے والا ہواور اگرحسن قراء ت میں سب برابر درجے کے ہوں تو اُسے ترجیح دی جائے جو سنت کا زیادہ علم رکھنے والا ہواور اگر اس میں بھی سب مساوی درجے کے ہوں تو اُسے ترجیح دی جائے جو ہجرت میں مقدم ہو اور اگر اس میں بھی سب مساوی درجے کے ہوں تو اُسے مقدم کیا جائے جوبڑی عمر والاہو(ترمذی، رقم ۲۳۵)‘‘۔ اگر قاری اور عالم الگ الگ آئیں تو ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ دونوں ہم معنی ہیں،لیکن جب ایک ہی عبارت یا مسئلے میں بالمقابل آئیں تو پھر دونوں کے معنی میں تفاوت ہوگا۔

 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کاانتظام اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے،فرمایا: ’’بے شک ہم نے ذکر( قرآن) اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (الحجر ۱۵: ۹ )‘‘۔ظاہر ہے عالم اسباب میں حفاظت قرآن کریم کے دو ذرائع ہیں :تحریری صورت میں محفوظ کرنا یا ذہن میں محفوظ کرنا،آج کل آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ بھی اس کا ایک ذریعہ ہے،لیکن یہ ظاہری چیزیں کسی حادثے یا آفت کے نتیجے میں امکانی طور پر تلف ہوسکتی ہیں،لیکن ذہنوں میں جو امانت محفوظ ہے،وہ تلف نہیں ہوتی۔

 حفاظت کا یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے دیگر الہامی کتابوں اور صحف انبیاے کرام کے بارے میں نہیں فرمایا،شاید اس کی حکمت یہ ہو کہ اُن کتابوں کی شریعت ایک محدود زمانے کے لیے تھی اور قرآن کریم کی شریعت تاقیامت جاری وساری رہے گی۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ قرآن میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی،یعنی اسے تحریف لفظی ومعنوی سے بھی محفوظ رکھا،فرمایا: ’’اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے،یہ اُس حکمت والے کی نازل کی ہوئی کتاب ہے جو ہر تعریف کے لائق ہے(حٰم السجدہ ۳۲: ۴۲ )‘‘۔ نیز فرمایا:

۱۔ ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ (قرآن) اللہ کے سواکسی اور کے پاس سے آیا ہوتا تو یہ اس میں بہت اختلاف پاتے (النساء۴: ۸۲ )‘‘۔

۲۔ ’’کیا یہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں (محمد۴۷: ۲۴)‘‘۔

۳۔’’ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غوروفکر کریں (الحشر۵۹: ۲۱)‘‘۔

۴۔’’اور ہم لوگوں کے لیے ان مثالوں کو بیان فرماتے ہیں اور ان مثالوں کو صرف علما سمجھتے ہیں (العنکبوت ۲۹: ۴۳)‘‘۔ قرآن نے واضح طور پربتایا کہ اس میں بیان کردہ مثالوں اور تمثیلات کی حکمت کو اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں،ہر ایک پر یہ منکشف نہیں ہوتیں۔

۵۔’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش اور گردش لیل ونہار میں عقل مندوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں، جو کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کویادکرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدایش میں (مستور حکمتوں پر)غوروفکر کرتے رہتے ہیں اور( کہتے ہیں ): اے ہمارے پروردگار، تو نے (یہ کارخانۂ قدرت)بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو (ہرعیب سے)پاک ہے، سو ہمیں عذاب جہنم سے بچا  (آل عمران۳: ۱۹۱)‘‘۔

پس قرآن کے معانی ومطالب کو سمجھنے میں اپنی عقلی اور فکری صلاحیتوں کو استعمال کرنا مقصد نزول قرآن کا منشا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 رہا یہ سوال کہ آیا معنی سے ناواقفیت کے باوجود تلاوت قرآن کریم دین کو مطلوب ہے اور یہ سعادت ہے؟ قرآن نے تلاوت کا ذکر بھی بطور مدح فرمایا: ’’اے چادر اوڑھنے والے، رات کو قیام کیا کیجیے، مگر تھوڑا،آدھی رات تک یا اُس سے کچھ کم یا (اگر اس سے آپ کی طبیعت سیر نہ ہوتو)اس سے کچھ زیادہ کیجیے اور قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھیے(المزمل۷۳: ۱ - ۴)‘‘۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ترتیل، یعنی ٹھیر ٹھیر کر پڑھنے کا تعلق تلاوت سے ہے، نیز فرمایا: ’’(کامل) مومن وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اُن پر اُس کی آیات پڑھی جائیں تو اُن کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں (الانفال۸: ۲)‘‘۔ عرفان شہزاد صاحب کی فکر کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر کسی کو قرآن کے معانی اور مطالب نہیں آتے تومحض تلاوت بے سود ہے،حالاں کہ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان معانی کو نہیں جانتے، لیکن نماز میں تلاوت کرنے کے وہ بھی یکساں طور پر پابندہیں اور شاید اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ صدر ایوب کے دور حکومت میں ایک دانشور ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے کہا تھا: ’’نماز میں معنی جانے بغیر قرآنی آیات کی تلاوت بے سود ہے،اردو میں ترجمہ پڑھا جائے‘‘۔

 اللہ تعالیٰ نے البقرہ ۲: ۱۲۹میں دعاے ابراہیمی کی صورت میں،آل عمران ۳: ۱۶۴میں بطور احسان اور الجمعہ۶۲: ۲میں حقیقت واقعی یا مظہر شان باری تعالیٰ کی صورت میں فرائض نبوت کو بیان فرمایا اور اس میں تعلیم کتاب وحکمت کو الگ فریضۂ نبوت بتایا اور تلاوت آیات قرآنی کو مستقل بالذات فریضۂ نبوت بتایا۔

 احادیث مبارکہ میں تلاوت کامقصود بالذات اور باعث اجر عظیم ہونا بہت واضح ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) قاری قرآن سے کہا جائے گا:جس طرح تم دنیا میں ٹھیر ٹھیر کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے،اب بھی اُسی ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھو اور جنت کے درجات کو طے کرتے جاؤ،کیونکہ تمھارے درجات کی ترقی کا سلسلہ وہاں جاکر ختم ہوگا،جہاں (دنیا میں کی گئی مقدار )تلاوت کا سلسلہ ختم ہوگا (ترمذی، رقم ۲۹۱۴)‘‘۔ حدیث قدسی میں فرمایا: ’’جسے قرآن میرے ذکر اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھے ، (یعنی کثرت تلاوت کی وجہ سے ذکر ودعا کا موقع بھی نہ ملے)تو میں اُسے (بن مانگے)سوال کرنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا (ترمذی، رقم ۲۹۲۶)‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی سے فرمایش کر کے تلاوت سنی بھی ہے اور صحابی کو سنائی بھی ہے تاکہ تلاوت کرنا اور سننا، دونوں سنت رسول قرار پائیں،حدیث میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا: میں پڑھوں اور آپ سنیں، حالانکہ قرآن آپ پر نازل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میں دوسرے سے تلاوت قرآن کو سنوں،پس میں نے آپ کے سامنے سورۂ نساء کو پڑھنا شروع کیا،حتیٰ کہ میں آیت ۴۱ پر پہنچا۔ (ترجمہ:’’اے حبیب مکرم، وہ کیسا منظر ہوگا جب ہم ہر امت پر (تبلیغ حق) کے لیے (اُس عہد کے نبی کو)گواہ کے طور پر لائیں گے اور پھر آپ کو اُن سب کی گواہیوں کی(توثیق کے لیے)لائیں گے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رک جاؤ، میں نے اچانک( نظریں اٹھاکردیکھا تو)آپ کی آنکھوں سے( بطور تشکر) آنسو بہ رہے تھے(کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان کو بیان فرمایا)، (بخاری، رقم ۴۵۸۳)‘‘۔ انس بن مالک بیان کرتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعب سے فرمایا:اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں قرآن پڑھ کرسناؤں۔ اُبی بن کعب نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرا نام لے کر فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے تمھارا نام لیا ہے۔اُبی بن کعب (فرط مسرت سے) رونے لگے۔ قتادہ کہتے ہیں : مجھے بتایا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے البینہ ۹۸: ۱ پڑھ کر سنائی (بخاری، رقم ۴۹۶۰)‘‘۔

 احادیث مبارکہ میں ہے:

۱۔ حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کو اپنی (شیریں ) آوازوں سے مزین کرو( ابوداؤد، رقم ۱۴۶۸)‘‘۔

۲۔ نیزبیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اپنی آوازوں سے قرآن میں حسن پیدا کرو،کیونکہ اچھی آواز سے قرآن کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے(سنن دارمی، رقم ۳۵۴۴)‘‘۔

 ظاہر ہے کہ صوت حَسن کا تعلق تلاوت سے ہے،قرآن کریم کے معانی و مطالب کو سمجھنے کا مدار علم، فہم اور عقل پر ہے،اس کا حسن صوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کو اہل عرب کے لہجے اور آوازوں میں پڑھو اور یہود ونصاریٰ اور فاسقوں کے لہجے میں نہ پڑھو، کیونکہ میرے بعد عنقریب ایسی قوم آئے گی جو گویوں،راہبوں اورنوحہ خوانوں کے طرز پر کلمات کو بار بار لوٹا کرپڑھیں گے،قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اُن کے دلوں کو آزمایش میں ڈال دیاہے اور جو لوگ انھیں سن کر اُن کی تحسین کرتے ہیں،اُن کے دلوں کو بھی آزمایش میں ڈال دیا گیا ہے(المعجم الاوسط، رقم ۷۲۲۳)‘‘۔ یعنی قرآن کریم کی تلاوت خشوع و خضوع سے کرنی چاہیے،اس سے روح کو قرار وسکون ملنا چاہیے، اسے تقدیس وحرمت سے عاری لذت سماع کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔

 الغرض، شیریں کلامی اور حسن صوت ہی قرآن کا مقصود ومدعا نہیں ہے،حدیث میں فرمایا: ’’حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قراء ت وحفظ قرآن میں ماہر ہے،اُس کا حشر نیکوکار معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتا ہے اور (زبان میں لکنت کے باعث )اٹک اٹک کردشواری سے پڑھتا ہے،تو اس کے لیے دہرااجر ہے، (احمد، رقم ۲۶۲۹۶)‘‘۔ یعنی تلاوت قرآن کریم بالذات مقصود بھی ہے اور اللہ کے ہاں اجر کا باعث بھی۔نیز اگر مقصد نزول قرآن کوصرف معانی ومطالب اور احکام کو جاننے تک محدود رکھا جائے،تو یہ ایک قانون کی کتاب بن کر رہ جائے گی اور اہل ایمان کے دلوں میں جو اس کی تقدیس وحرمت اور تعظیم ہے،اُس کے نقش ماند پڑ جائیں گے۔حالاں کہ کوئی شخص معانی نہ سمجھنے کے باوجود اسے اللہ کا کلام سمجھ کر پڑھتا یا سنتا ہے تو اس کا دل روحانی کیف وسرور سے معمور ہوجاتا ہے اوراس کے دل پر اللہ کی جلالت طاری ہوتی ہے، خود قرآن کے کلمات اس پر شاہد ہیں کہ دل پر اللہ کی ہیبت طاری ہوتی ہے۔ لہٰذا تلاوت کی اہمیت کو کم کرنا تعظیم وحرمت قرآن کے کم کرنے کا سبب بنے گی اورسعادت تلاوت کے اجرسے محرومی کا باعث بنے گی، پھر تو لوگ قرآن کریم کے کلمات مبارکہ کو چھوڑ کر اردو تراجم میں محو ہوجائیں گے،جب کہ اس پر امت کا اتفاق ہے کہ اردو ترجمہ قرآن کا معنی ضرور ہے،لیکن یہ اللہ کا کلام نہیں ہے اور نہ اُن برکات کا حامل ہے جو کلام الہٰی کے لیے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں۔ جو حضرات قرآن کا مقصود صرف اس کے معنی یا ترجمہ جاننے تک محدود رکھتے ہیں، اُن کے نزدیک قرآن کو چھونے کے لیے باوضو اور پاک ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور وہ سورۂ واقعہ کی ان آیات کا وہ معنی مراد نہیں لیتے جو جمہور علماے امت نے مراد لیا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک یہ بہت عزت والا قرآن ہے،محفوظ کتاب میں،اسے نہ چھوئیں، مگر باوضو (۵۶: ۷۷-۷۹)‘‘۔ یعنی قرآن مجید کو چھونے کے لیے حدث اصغر(بے وضوہونے) اور حدث اکبر(جنابت)، دونوں سے پاک ہونا چاہیے،جب کہ مَس قرآن کے لیے طہارت کو شرط نہ ماننے والے،اس آیت کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ لوح محفوظ میں پاک فرشتے اسے چھوتے ہیں، مگر حدیث پاک میں اس کے معنی یہی بیان کیے گئے ہیں : ’’قرآن کو نہ چھوئیں، مگر باطہارت لوگ(موطا امام مالک، رقم ۲۳۴)‘‘۔

____________


*

 

https://www.facebook.com/pg/MuftiMuniburRehmanOfficial/photos/?tab=album&album_id=103824167653681&ref=page_internal

B