’’غامدی فکر کی بنیادی گمراہی‘‘ کے زیر عنوان مولانا یحییٰ نعمانی کا مضمون پیش نظر ہے ۔یہ ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ لکھنؤ کے جولائی 2019 ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ ’’المورد‘‘ ہند سے ہمارے ایک رفیق نے اِس پر ’’اشراق‘‘ کا تبصرہ دریافت کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس کی ثقاہت اور علمی وقعت سے قطع نظر ، چونکہ اِس کے مصنف کی نسبت مولانا منظور نعمانی جیسے جلیل القدر عالم دین سے ہے اور اِس کی اشاعت ایک موقر جریدے میں ہوئی ہے، اِس لیے اِس پر ہمارا تبصرہ ضروری ہے۔اُن کی خواہش کے احترام میں ہمارا تبصرہ پیش خدمت ہے۔
ہمارے نزدیک یہ ایک تاثراتی تحریر ہے جس کے بیش تر اجزاصریحاً غلط ، بعض سوء فہم کا مظہراور بعض خلط مبحث پر مبنی ہیں۔ اِس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
فاضل مصنف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے صرف قرآن مجید کو بطور دین قبول کرتے ہیں۔ قرآن کے علاوہ وہ آپ کی ذات اقدس کو دین دینے کا حق دار اور مجاز تسلیم نہیں کرتے۔ ــــــ معاذ اللہ ــــــ اُنھوں نے لکھا ہے:
’’...افسوس وہ مقام رسالت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے نزدیک بنیادی طور پر رسول اللہ ﷺ اس کے اہل و حق دار ہی نہیں کہ ان کے ذریعے (قرآن کے علاوہ) دین کا کوئی عقیدہ یا عمل انسانوں کو دیا جائے۔ وہ منصب رسالت کا یہ مقام تسلیم نہیں کرتے کہ وہ دین کا کوئی حکم قرآن کے علاوہ جاری کرے۔ ‘‘ (۳۱)
یہ بات صریح طور پر غلط اور دروغ ، دشنام ، بہتان اورالزام تراشی پر مبنی ہے۔ اِس کی تردید کے لیے کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے ، استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی یہ برہان قاطع ہی کافی ہے:
’’...دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی ہے اوریہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔‘‘(میزان 13)
اِس جملے کے معنی یہ ہیں کہ جناب جاوید احمد غامدی کے نزدیک:
1۔ اِس کرۂ ارض پر دین دینے کا حق صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آپ کے علاوہ کوئی اور اِس کا مجاز اور حق دار نہیں ہے۔
2۔ آپ کا یہ حق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلم ہے۔ جب تک یہ دنیا قائم ہے ، اُس وقت تک انسانیت کو اللہ کی ہدایت حاصل کرنے کے لیے آپ ہی سے رجوع کرنا ہے۔
3۔ دین سے متعلق ہر عقیدہ و ایمان، علم و حکمت، طریقہ و عمل اور قانون و شریعت کا منبع، مصدر اور ماخذ آپ ہی کی ذات والا صفات ہے۔
4۔ آپ اپنے قول سے دین کے بارے میں جو بات کہیں، وہ دین ہے۔
5۔ آپ اپنے فعل سے جو دینی عمل صادر کریں، وہ دین ہے۔
6۔ لوگوں کے علم و عمل پر آپ کاسکوت بھی دین ہے، آپ کی تقریر بھی دین ہے، آپ کی تائید بھی دین ہے،آپ کی تردید بھی دین ہے اور آپ کی تصویب بھی دین ہے۔
7۔ قرآن اِس لیے دین ہے کہ وہ ہمیں آپ کے قول سے ملا ہے۔
8۔ سنت اِس لیے دین ہے کہ وہ ہمیں آپ کے عمل سے ملی ہے۔
9۔ حدیث اِس لیے دین ہے کہ وہ آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایت ہے۔
10۔ سابق الہامی صحائف اور دین ابراہیمی کی روایت میں سے اُسی چیز کو دین کی حیثیت حاصل ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت ہے ۔
اِسی بات کو خاص قانون کے زاویے سے استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’...محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات قیامت تک کے لیے اُسی طرح واجب الاطاعت ہیں ، جس طرح خود قرآن واجب الاطاعت ہے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اُس کی کتاب پہنچا دینے کے بعد آپ کا کام ختم ہو گیا۔رسول کی حیثیت سے آپ کا ہر قول و فعل بجاے خود قانونی سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ ( 38)
اِس سے واضح ہے کہ فاضل مصنف کا یہ الزام سراسرلغو اور بے بنیاد ہے کہ غامدی صاحب قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنےوالے احکام و ہدایات کو دین کے طور پر قبول نہیں کرتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ آپ قرآن کے علاوہ بھی دین دینے کے مجاز ہیں۔ غامدی صاحب کے فکر و عمل اورتحریر و تقریر کا ایک ایک جز اِس الزام کو ردکرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر جب بعض اہل علم نے حدیث و سنت کی حجیت کے حوالے سے اُن کے موقف کی وضاحت چاہی تو اُنھوں نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کیا کہ وہ دین کو صرف قرآن ہی میں منحصر نہیں سمجھتے، بلکہ حدیث و سنت کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے ملنے والے احکام و ہدایات کو بھی من جملہ دین قرار دیتے ہیں اور اُنھیں قرآن ہی کی طرح واجب الاطاعت مانتے ہیں۔ ’’حدیث و سنت ‘‘ کے زیر عنوان اُن کی یہ تحریر ’’مقامات‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، جس میں اُنھوں لکھا ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
۱۔ مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔
۲۔ مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔
۳۔ اِن احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔
یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان اِنھیں ماننے اور اِن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہوجانے کے بعد کوئی صاحب ایمان اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کرسکتا۔ اُس کے لیے زیبا یہی ہے کہ وہ اگر مسلمان کی حیثیت سے جینا اور مرنا چاہتا ہے تو بغیر کسی تردد کے اِن کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔ ‘‘(مقامات۱۶۱ - ۱۶۲)
اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں:
’’...سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید و اصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اِس کی مثالیں کوئی شخص اگر چاہے تو ’’میزان‘‘ میں دیکھ لے سکتا ہے۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ دین کے جن احکام کی ابتدااُس سے ہوئی ہے، اُن کی تفصیلات ’’میزان‘‘ کے کم و بیش تین سو صفحات میں بیان ہوئی ہیں۔ میں اِن میں سے ایک ایک چیز کو ماننے اور اُس پر عمل کرنے کو ایمان کا تقاضا سمجھتا ہوں، اِ س لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔‘‘ (مقامات۱۶۲ - ۱۶۳)
[باقی]
___________