بزم میں اہل نظر کے علاوہ کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں :ایک وہ ہوتے ہیں کہ جو اسلوب نگارش یا سخن سازی سے متاثرہوجاتے ہیں۔ بعضے مناظرانہ طلاقت سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔کچھ بسیار گوئی پراور بعض اس بات پر کہ مخالف چپ ہو گئے، ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ایسے تمام قارئین کے لیے یہ نوٹ شائع کررہا ہوں ۔
میں نے وعدہ کیا تھا کہ اعتراف کے لائق کوئی چیز ہوگی تو ضرور لکھوں گا، لیکن افسوس ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آسکی،بلکہ الٹا معاملہ یہ ہوا ہے کہ ’ختم شد‘ میں میری بنیادی تنقید سے یکسرصرف نظر کیا گیا ہے۔
’ختم شد‘ کا جواب نہ دینے کی چند علمی وجوہات ذیل میں ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ پچھلے ماہ ’’اشراق‘‘ میں’ختم شد‘کے عنوان کے تحت طبع شدہ مضمون ناقد کے پہلے مضامین سے مختلف نہیں ہے۔اس لیے جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ اس مضمون میں ایک اورستم کا اضافہ ہو گیا ہے، وہ یہ کہ کچھ ایسی آرا بھی میرے نام منسوب کردی گئی ہیں، جن کی نفی میرے مضامین میں موجود ہے۔ اس کے لیے میرے طبع شدہ مضمون ــــ اشراق ، مئی ۲۰۱۹ء ــــ کو پڑھ لینا ہی کافی ہوگا۔
دوسرے یہ کہ چند نئے ضمنی نکات بھی اس مضمون میں سامنے آئے ہیں، وہ بھی پچھلے مضمون کے جیسے ہی مناظرانہ، اور ان غلط نظریات پر مبنی ہیں جن کو غلط ثابت کردیا گیا ہے،سو، دوبارہ لکھنے کی حاجت نہیں ہے۔لہٰذا، میرے پچھلے مضمون ہی کو میرے جواب کے طور پر دوبارہ پڑھ لیا جائے۔نیا جواب لکھنےکی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس بحث کی تہ سے گھاس پھوس اور خزف ریزوں کے سوا شاید کچھ برآمد ہونے والا نہیں ہے۔میں اپنے اُس مضمون میں ناقد کے فکرکے تضادات ، انتشار استدلال، آیات کے تراجم میں رد وبدل، لسانی اسالیب سے انحراف، مثالوں میں ہوشیاری دکھانے، لاطائل بحثوں، دلائل کی غلطیوں ، استدلال میں ناقد کی بے ثباتیوں، غرض دسیوں چیزوں کی نشان دہی کر چکا ہوں۔یہی کچھ اب ’ختم شد‘ میں بھی سامنے آیا ہے۔ لہٰذا، سب پر پہلے ہی نقد ہو چکا ہے، نئے جواب کی ضرورت نہیں۔
تیسرے یہ کہ بلاشبہ، انسانوں کے بیچ میں لفظ و معنی کے پردے حائل ہوجاتےاوراس وجہ سے اختلافات جنم لیتے ہیں،لیکن یہاں استدلال کے پردے حائل رہے ہیں۔انسان جن مانی ہوئی حقیقتوں پر کھڑا ہو کر باتوں کو سمجھتا ہے، جب وہ فریقین میں مشترک نہ ہوں تو گفتگوبے سود رہتی ہے۔میں جس کو چڑیا سمجھتا ہوں ، دوسرے کے نزدیک وہ کوّا ہو تو نقد و بحث تو درکنارعام بات چیت ہی نا ممکن ہو جاتی ہے۔ مثلاً لفظ کے معنی کلام سے کیسے برآمد ہوتے ہیں یا مغایرت، خاص و عام، تخصیص و تعمیم جیسے تصورات جب ایک فریق کے نزدیک ایک ہوں اور دوسرے کے نزدیک دوسرے ۔ نہ ان میں تطبیق کی کوئی صورت ہو، اور نہ وہ پھسلتی مچھلی کی طرح ہاتھ ہی آئیں تو فریقین کے مابین ایک خلیج حائل ہو جاتی ہے۔ ناقد اور میرے درمیان یہی خلیج حائل ہے۔میں زبان کے جس لسانی تصور کا قائل ہوں ،میرا ناقد زبان کے اس تصور کاحامل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بات فیصلہ کن جگہ پر نہیں پہنچی، اور نہ یہ خلیج پاٹے بغیر پہنچ سکتی ہے۔لہٰذا اگر گفتگو آگے بڑھانی ہو تو پہلے یہ خلیج پاٹنی ہو گی، جس کی، جیسا کہ اگلی باتوں سے واضح ہو گا، یہاں گنجایش نہیں ہے۔
چوتھے یہ کہ غرق ہونے والا شخص نوح کا بیٹا تھا یا نہیں؟ ابراہیم اولاد نوح علیہما السلام سے تھے یا نہیں؟ یہ فروعات ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں سبب اختلاف اصلاً علم و معلومات کا تفاوت نہیں، بلکہ خاص طبع زاد لسانی تصورات ہیں۔مثلاً جب دو چیزیں عطف ہوتی ہیں تو مغایر ہونے کے ساتھ ان میں کوئی مناسبت بھی ہوتی ہے، لیکن یہ نہیں ہوتا کہ وہ جس چیز میں باہم متغایر ہوں، وہی ان کا وصف مناسبت بن جائے۔ قلم و قرطاس کے عطف میں مناسبت، مثلاً یہ ہے کہ دونوں لکھنے کی چیزیں ہیں اور مغایر ت یہ ہے کہ لکھنے کے میدان میں دونوں کا کام ایک نہیں :قلم لکھتا اور قرطاس پر لکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ’تو من شدی من تو شدم‘ کی طرح قرطاس بھی اپنے معطوف علیہ کی وجہ سے لکھنے والا بن جائے تو پھر زبان سوچتی ہے کہ دونوں کا ذکر ہی کیوں ہو؟میں یہاں غلط و صحیح کی بات نہیں کررہا ہوں، غلطیاں میں پچھلے مضامین میں بتا چکا ہوں۔یہاں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تصورات میں اس قدر بُعد ہو تو ایسی صورت میں فروعی امور کا جواب دیتے رہنا بے سود ہے۔
پانچویں یہ کہ طرز فکر میں فرق ہوتا ہے۔مثلاً ایک ذہن ریاضیاتی طرز پر سوچتا ہے ، دوسرا فلسفیانہ، تیسرا ادبیاتی اور چوتھابے ہنگم وغیرہ۔ریاضیاتی ذہن کی خامی یہ ہے کہ وہ، مثلاً لسانی تخلیقات میں بھی ریاضیاتی حتمیت دیکھتے ہیں، لسانی نہیں۔ فلسفیانہ طرز کا عیب یہ ہے کہ وہ ، مثلاً تعقل کو کارفرما دیکھتے ہوئے فہم کلام میں منطقیت لے آتے ہیں ، جب کہ لسانی و ادبی پیرایۂ بیان منطقی نہیں ہوتا۔ ادبیاتی ذہن کی خرابی یہ ہے کہ وہ فطرت کلام سے ہٹ جاتے اورمثلاً، ادبی تحریکات کی روشنی میں متون کو دیکھنے لگتے ہیں۔لیکن ان سب سے بات ہوسکتی ہے، اس لیے کہ ان کے بات کرنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں۔لیکن ایک طرز فکر یہ ہے کہ کوئی اصول ہی نہ ہو، اور نہ فطرت کلام ہی پیش نظر ہواور پھر اپنی باتوں پر دوام بھی نہ ہو ۔اس طرز فکر پر ہماری قوم کی اکثریت قائم ہے۔ عہدجمہوریت میں اسے غلط نہیں کہا جاسکتا! لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ایسی صورت میں مکالمہ ناممکن ہے۔ خطا و صواب کی بحث میں پڑے بغیر ،مذکورہ بالا تمام طرزہاے فکر سے فروعات میں بحث بے محل ہے، جب تک کہ اصول موضوعہ یکساں نہ ہو جائیں۔
لہٰذا، ’ختم شد‘ پر سکوت اختیار کرنے کے فیصلے پر قائم ہوں،کیوں کہ ’ختم شد‘ کے تمام تر استدلال کی غلطی واضح کر چکاہوں۔مزید بات کرنے کی سبیل نہیں اس لیے کہ لسانی تصورات کی فریقین کے ہاں ہم آہنگی نہیں، طرز فکر میں بُعد ہے، اور بناے استدلال کے لیے بھی کوئی چیز فریقین کے مابین مشترک نہیں پائی گئی کہ استدلال کو استوار کیا جاسکے۔ناقد کی اپنے استدلال پر مداومت بھی نہیں کہ بات آگے بڑھ سکے ۔دعا ہے کہ اللہ اس کی سبیل پیدا فرمائے۔
اللّٰهم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلًا وارزقنا اجتنابه۔
___________