بعض روایات میں بیان ہوا ہے كہ حضرت ابراہیم كی دونوں ازواج حضرت سارہ اور حضرت ہاجره كے مابین تناؤ كی مستقل فضا رہتی تھی۔ اس بنا پر حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور اپنے شیر خوار فرزند اسمٰعیل علیہ السلام كو حضرت سارہ سے جدا كر كے دونوں كو مكہ كی بے آب و گیاہ وادی میں جا بسایا۔ اسمٰعیل علیہ السلام یہاں پروان چڑهے اور ان كی شادی بنو جرہم میں كر دی گئی۔ ان روایات پر عقل اور نقل، دونوں كی رو سے كچھ سوالات اور اشكالات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون میں ان روایات كا تنقیدی جائزه لیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيْمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ كَثِيْرِ بْنِ كَثِيْرٍ، عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ـ قَالَ: لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيْمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ، خَرَجَ بِإِسْمَاعِيْلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيْلَ، وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيْهَا مَاءٌ، فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيْلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلٰى صَبِيِّهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيْمُ إِلٰى أَهْلِهِ، فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيْلَ، حَتَّى لَمَّا بَلَغُوْا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ: يَا إِبْرَاهِيْمُ، إِلٰى مَنْ تَتْرُكُنَا؟ قَالَ: إِلَى اللہِ، قَالَتْ: رَضِيْتُ بِاللہِ، قَالَ: فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، حَتَّى لَمَّا فَنِيَ الْمَاءُ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا. قَالَ: فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ أَحَدًا فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، فَلَمَّا بَلَغَتِ الْوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتِ الْمَرْوَةَ فَفَعَلَتْ ذٰلِكَ أَشْوَاطًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ ـ تَعْنِي الصَّبِيَّ ـ فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ، فَإِذَا هُوَ عَلٰى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ، فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا، فَقَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ، فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ فَقَالَتْ: أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ. فَإِذَا جِبْرِيْلُ، قَالَ: فَقَالَ: بِعَقِبِهِ هٰكَذَا، وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الْأَرْضِ، قَالَ: فَانْبَثَقَ الْمَاءُ، فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيْلَ فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ. قَالَ: فَقَالَ: أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ الْمَاءُ ظَاهِرًا‘‘. قَالَ: فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الْمَاءِ، وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا ـ قَالَ ـ فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الْوَادِيْ، فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ، كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوْا ذَاكَ، وَقَالُوْا: مَا يَكُوْنُ الطَّيْرُ إِلاَّ عَلَى مَاءٍ. فَبَعَثُوا رَسُوْلَهُمْ، فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ، فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ فَأَتَوْا إِلَيْهَا، فَقَالُوْا: يَا أُمَّ إِسْمَاعِيْلَ، أَتَأْذَنِيْنَ لَنَا أَنْ نَكُوْنَ مَعَكِ أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيْهِمُ امْرَأَةً، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيْمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِيْ، قَالَ: فَجَاءَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيْلُ؟ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: ذَهَبَ يَصِيْدُ. قَالَ: قُوْلِيْ لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ. فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَ: أَنْتِ ذَاكِ فَاذْهَبِيْ إِلٰى أَهْلِكِ. قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيْمَ فَقَالَ لأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِيْ. قَالَ: فَجَاءَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيْلُ؟ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: ذَهَبَ يَصِيْدُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ؟ فَقَالَ: وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ؟ قَالَتْ: طَعَامُنَا اللَّحْمُ، وَشَرَابُنَا الْمَاءُ، قَالَ: اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيْ طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ. قَالَ: فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيْمَ‘‘. قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيْمَ فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّيْ مُطَّلِعٌ تَرِكَتِيْ. فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيْلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ، يُصْلِحُ نَبْلًا لَهُ، فَقَالَ: يَا إِسْمَاعِيْلُ، إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِيْ أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا، قَالَ: أَطِعْ رَبَّكَ. قَالَ: إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِيْ أَنْ تُعِيْنَنِيْ عَلَيْهِ، قَالَ: إِذًا أَفْعَلَ. أَوْ كَمَا قَالَ. قَالَ: فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيْمُ يَبْنِيْ، وَإِسْمَاعِيْلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ، وَيَقُوْلاَنِ: ™رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ— وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَنْ نَقْلِ الْحِجَارَةِ فَقَامَ عَلٰى حَجَرِ الْمَقَامِ فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُوْلَانِ: ™رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ—.
’’عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ روایت كرتے ہیں کہ اپنی ازواج كے مابین صورت حال كی وجہ سے حضرت ابراہیم اپنے بیٹے اسمٰعیل اوران كی والده كو لے كر نكل كھڑے ہوئے۔ ان كے پاس پانی كا ایك مشكیزہ تھا۔ اسمٰعیل كی والده اس سے اپنی پیاس بجھاتی رہیں اوراپنی چھاتی سے اپنے بیٹے كو دودھ پلاتی رہیں، یہاں تك كہ ابراہیم مكہ جا پہنچے۔ انھوں نے حضرت ہاجرہ كو درخت كے تلے بٹھا دیا اور خود اپنی پہلی بیوی كی طرف لوٹ گئے۔ حضرت ہاجرہ نے ان كا پیچھا كیا، یہاں تك كہ جب وہ كدا كے علاقے میں پہنچ گئے ، انھوں نے پیچھے سے آواز دی: ابراہیم، آپ ہمیں كس كے سہارے پرچھوڑے جا رہے ہیں؟ ابراہیم نے جواب دیا: خدا كے سہارے پر۔ حضرت ہاجرہ نے جواب دیا: میں خدا سے راضی ہوں۔ اس كے بعد وہ لوٹ گئیں اور مشكیزے سے اپنی پیاس بجھاتی رہیں اور بیٹے كو دودھ پلاتی رہیں، یہاں تك كہ جب پانی ختم ہو گیا تو انھوں نے اپنے آپ سے كہا: شاید كہ مجھے جانا چاہیے، ممكن ہے كہ مجهے كوئی مل جائے۔ چنانچہ وہ نكل پڑیں اور كوہ صفا پر چڑھ گئیں اور نظر دوڑاتی رہیں كہ شاید كوئی نظر آ جائے۔ تاہم ان كو كوئی كامیابی حاصل نہ ہوئی۔ جب وہ وادی میں پہنچیں، وہ دوڑیں اور كوه مروه جا پہنچیں ۔ انھوں نے ان دونوں پہاڑیوں كے درمیان كئی چكر لگائے۔ پھر انھوں نے اپنے آپ سے كہا: شاید كہ اب مجھے جا كر بچے كو دیكھنا چاہیے كہ اس پر كیا بیتی ہے۔ چنانچہ وہ گئیں اور اس كو اسی حال میں پایا، بلكہ لگا كہ وه موت كے قریب ہے۔ چنانچہ وہ بہت دل گرفتہ ہوئیں اور انھوں نے اپنے آپ سے كہا: شاید كہ مجھے جا كر اِدھر اُدھر تلاش كرنا چاہیے، ممكن ہے كہ میں كسی كو ڈهونڈ پاؤں۔ چنانچہ وہ چل پڑیں اور مروہ پر چڑھ گئیں اور دیر تك دیکھتی رہیں، مگر كسی كو نہ دیكھ پائیں، یہاں تك كہ انھوں نے سات پھیرے مكمل كر لیے۔ تب انھوں نے اپنے آپ سے كہا: شاید كہ اب مجھے جا كر بچے كو دیكھنا چاہیے كہ اس پر كیا بیتی ہے۔ اچانك ان كو ایک آواز آئی۔ اس پر انھوں نے كہا: میری مدد كیجیے، اگر آپ كے پاس كوئی خیر ہے۔ كیا دیكھتی ہیں كہ جبریل ہیں۔ انھوں نےاپنی ایڑی سے زمین كو رگڑا۔[1] ] ابن عباس نے اس كا مظاہره كیا[۔چنانچہ پانی باہر بہ پڑا۔ اسمٰعیل كی والدہ دہشت زدہ ہو گئیں اور زمین كھودنے لگیں۔ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے كہا: اگر انھوں نے پانی كو اسی طرح رہنے دیا ہوتا تو وه زمین پر بہ پڑتا۔ اسمٰعیل كی والده اس پانی سے پیاس بجھاتی رہیں اور ان كا دودھ ان كے بیٹے كی ضرورت پوری كرتا رہا۔ بعد ازاں جرہم قبیلے كے كچھ افراد وادی كے درمیان سے گزرے اور یكایك انھوں نے وہاں پرندوں كو اڑتے دیكھا، تو گویا ان كو اپنی آنكھوں پر یقین نہیں آیا۔ انھوں نے كہا: پرندے تو صرف وہیں اڑ سكتے ہیں جہاں پانی موجود ہو۔ چنانچہ انھوں نے اپنا ایلچی دوڑایا اور اس نے اچانك پانی دیكھا۔ تو وہ آیا اور اس نے ان كو اس سے باخبر كیا۔ اس پر وہ سب ادھر آ گئے اور اسمٰعیل كی والده سے عرض كیا: كیا آپ ہمیں ا س بات كی اجازت دیتی ہیں كہ ہم آپ كے ساتھ ہو رہیں یا آپ كے ساتھ رہیں۔ ] اسمٰعیل كی والده نے ان كو اجازت دے دی اور وه وہاں رہنے لگے۔[ چنانچہ] كئی سال بیت گئے اور[ ان كا فرزند بالغ ہو گیا۔ اس نے ان كی ایك خاتون سے شادی كر لی۔ اس كے بعد یوں ہوا كہ ابراہیم كو ایك خیال آیا، تو انھوں نے اپنی اہلیہ] سارہ [سے كہا: میں مكہ جانا چاہتا ہوں تاكہ میں جان سكوں كہ میرے خاندان والے] جن كو میں مكہ میں چھوڑ آیا تھا[كس حال میں ہیں۔ چنانچہ ابراہیم وہاں گئے اور جا كر اسمٰعیل كی بیوی كو سلام كیا ] اور اسمٰعیل كے بارے میں استفسار كیا۔[ اس پر ان كی اہلیہ نے جواب دیا كہ وہ شكار پر گئے ہوئے ہیں۔ ابراہیم نے ان سے كہا: جب وہ آئے تو اپنے گھر كی چوكھٹ تبدیل كر دیں۔ چنانچہ جب اسمٰعیل آئے تو ان كی اہلیہ نے ان كو ابراہیم كے پیغام سے مطلع كیا۔ اسمٰعیل نے اپنی اہلیہ سے كہا: تم وہ چوكھٹ ہو ، سو جاؤ اپنے گھر والوں كے پاس ۔ چنانچہ وہ چلی گئیں ۔ اس كے بعد دوبارہ یوں ہوا كہ ابراہیم كو ایك خیال آیا، تو انھوں نے اپنی اہلیہ] سارہ [سے كہا: میں مكہ جانا چاہتا ہوں تا كہ میں جان سكوں كہ میرے خاندان والے] جن كو میں مكہ میں چھوڑ آیا تھا [كس حال میں ہیں۔ چنانچہ ابراہیم وہاں گئے اور جا كر اسمٰعیل كی بیوی كو سلام كیا ] اور اسمٰعیل كے بارے میں استفسار كیا [۔ اس پر ان كی اہلیہ نے جواب دیا كہ وہ شكار پر گئے ہوئے ہیں اور ابراہیم سے كہا: كیا آپ سواری سے اتریں گے نہیں تا كہ كچھ كھا پی لیں؟ ابراہیم نے پوچها: آپ كیا كھاتے پیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہم گوشت كھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ ابراہیم نے دعا كی: پروردگار، ان كے كھانے پینے میں بركت دے۔ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے كہا: مكہ كی بركات ابراہیم كی دعا كی وجہ سے ہیں۔ اس كے بعد سہ بارہ یوں ہوا كہ ابراہیم كو ایك خیال آیا، تو انھوں نے اپنی اہلیہ] سارہ [سے كہا: میں مكہ جانا چاہتا ہوں تا كہ میں جان سكوں كہ میرے خاندان والے] جن كو میں مكہ میں چھوڑ آیا تھا [كس حال میں ہیں۔ چنانچہ ابراہیم وہاں گئے اور انھوں نے دیكھا كہ ابراہیم زم زم كے پیچھے تیر سیدھے كر رہے تھے۔ تو انھوں نے اسمٰعیل سے كہا: میرے رب نے مجھے ان كے لیے ایك گھر بنانے كا حكم دیا ہے، تو انھوں نے کہا کہ حكم كی تعمیل كریں۔ حضرت ابراہیم نے کہا: رب نے مجھے یہ حكم بھی دیا ہے كہ اس معاملہ میں تمهاری مدد حاصل كروں۔ اسمٰعیل نے جواب دیا: تو پھر میں یہ كر گزروں گا یا جو بھی انھوں نے كہا۔ پھر ابراہیم اور اسمٰعیل، دونوں اٹھے اور ابراہیم گھر بنانے میں لگ گئے اور اسمٰعیل ان كو پتھر پكڑانے لگ گئے اور دونوں نے یہ آیت پڑھی:’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ‘ (اے ہمارے رب، ہماری جانب سے یہ قبول فرما۔ بے شك، تو سننے اور جاننے والا ہے)۔ جب عمارت كی تعمیر ہو گئی اور عمر رسیدہ ابراہیم میں پتھر منتقل كرنے كی صلاحیت نہ رہی تووہ المقام پر ایك پتھر پر كھڑے ہو گئے اور اسمٰعیل بدستور ان كو پتھر پكڑاتے رہے اور دونوں یہ دعا پڑھتے رہے: ’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ‘۔[2]‘‘
۳۔ تنقیدی جائزه
آینده صفحات میں ہم اس روایت كی سند اور متن پر پیدا ہونے والے سوالات كی روشنی میں اس كا تنقیدی جائزه لیں گے۔
قبل اس كے كہ یہ جائزه لیا جائے ، اس روایت كے مختلف طرق كا خلاصہ پیش كیا جاتا ہے:
نبی صلی الله علیہ وآلہٖ وسلم سے پانچ صحابہ یہ طرق اپنی جامع یا مختصر شكل میں روایت كرتے ہیں۔ تعدد روایت كے لحاظ سے ان كے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ عبدالله بن عباس[3] (م ۶۸ ھ)
۲ ۔ابی بن كعب[4] (م ۱۸ ھ)
۳۔ انس بن مالك[5] (م ۹۳ ھ)
۴ ۔علی بن ابی طالب[6] (م ۴۰ ھ)
۵ ۔عمر بن الخطاب[7] (م ۲۳ ھ)
ان میں سے انس بن مالك ، علی بن ابی طالب اور عمر بن الخطاب رضی الله تعالیٰ عنہم كی روایات نہات كم زور اور ناقابل اعتماد ہیں۔ [8]
اہل علم نے عبد الله عباس[9] اور ابی بن كعب كی روایات كو كچھ تحفظات كے ساتھ قبول كر لیا ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے كہ بعض روایات كو عبد الله عباس براه راست نبی سے روایت كرتے ہیں اور بعض ابی بن كعب كی وساطت سے۔ مزید برآں، موخر الذكر نوعیت كی روایات مواد كے لحاظ سے مختصر ہیں، جب كہ مقدم الذكر نوعیت كی روایات اس لحاظ سے مختصر بھی ہیں اور جامع بهی۔
اس ضمن كی بعض مرسل روایات بھی كچھ تابعین سے مروی ہیں:
۱۔سعید بن المسیب[10](م ۹۴ ھ)
۲۔ سعید بن جبیر[11](م ۹۵ ھ)
۳۔ مجاہد بن جبر[12](م ۱۰۵ ھ)
۴۔ وہب بن منبہ[13](م ۱۱۴ ھ)
۵۔ محمد بن اسحٰق[14] (م ۱۵۱ ھ)
اس روایت كی سند پر بنیادی تنقید یہ ہے كہ اس بات كو پوری طرح سے متحقق نہیں كیا جا سكتا كہ سعید بن جبیر نے واقعی اس روایت كو عبدالله بن عباس سے سنا تھا یا كسی اور سے۔ فاضل محقق شبیر احمد اظہر میرٹھی[15] احادیث لٹریچر كا استقصا كرتے ہوئے یہ بیان كرتے ہیں كہ بہت سی روایات وہ ہیں جن كو سعید بن جبیر نے بلاواسطہ عبدالله بن عباس سے سنا ہے اور دوسری وه ہیں جن كو انھوں نے ان سے بالواسطہ سنا ہے۔ جب بھی سعید عبدالله بن عباس سے بلاواسطہ روایت كرتے ہیں تو وہ اس كی تصریح كرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس طرح كے مواقع پر یا كہتے ہیں: ’حدثني ابن عباس‘(ابن عباس نے مجھے روایت كیا) یا ’سمعت ابن عباس‘(میں نے ابن عباس سے سنا) یا ’أخبرني ابن عباس‘(ابن عباس نے مجھے خبر دی)۔تاہم جب سعید عبدالله بن عباس سے بالواسطہ روایت كرتے ہیں تو اس طرح كے مواقع پر كہتے ہیں:’حدثني مجاهد عن ابن عباس‘ (مجاہد نے مجھے ابن عباس سے روایت كی)یا ’حدثني عكرمة عن ابن عباس‘ (عکرمہ نے مجھے ابن عباس سے روایت كی)یا كسی راوی كی تصریح نہیں كرتے اور محض كہتے ہیں:’عن ابن عباس‘ (ابن عباس سے)۔
اب اگر ہم زیر بحث روایت كے تمام طرق كا اس پس منظر میں جائزہ لیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے كہ تمام طرق میں ’عن ابن عباس‘ (ابن عباس سے)كے الفاظ سند میں مذكور ہیں۔ [16]دوسرے الفاظ میں یہ كہا جا سكتا ہے كہ سعید بن جبیر نے یہ روایت عبدالله بن عباس سے بالواسطہ سنی ہے، مگر اس واسطہ كو بیان نہیں كیا۔
اس روایت كی سند پر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ صحاح میں صرف اور صرف امام بخاری نے اس كا انتخاب كیا ہے۔
اس روایت پر بنیادی تنقید یہ ہے كہ یہ تین پہلوؤں سے قرآن كے خلاف ہے:
اول یہ كہ قرآن سے یہ بات ناقابل تردید حد تک معلوم ہوتی ہے كہ جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسمٰعیل كو مكہ میں بسایا تو وہ نوجوانی كی عمر كو پہنچ چكے تھے، نہ كہ ایک طفل شیر خوار تھے۔ یہ استنباط قرآن میں درج مسلم تاریخ كی روشنی میں یوں كیا جا سكتا ہے:
۱ ۔ جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسمٰعیل كو مكہ میں جا بسایا تو ان كےبرادر خورد اسحٰق پیدا ہو چكے تھے۔
۲۔حضرت اسحٰق كی پیدایش حضرت اسمٰعیل كے قربانی كے واقعہ كے بعد اس عظیم كارنامے كے صلہ میں ہوئی۔
۳۔ قربانی كے واقعہ كے وقت حضرت اسمٰعیل ایك نوجوان لڑكے تھے ۔
چنانچہ شق ۱، ۲ اور ۳ سے استنباط كیا جا سكتا ہے كہ دونوں بھائیوں كی عمر میں دس باره سال كا فرق ضرور ہو گا۔ مزید یہ بات واضح ہوتی ہے كہ اسمٰعیل مكہ میں آمد كے موقع پر طفل شیرخوار نہیں، بلكہ نوجوان تھے۔
شق۱، ۲ اور ۳ میں بیان كردہ مسلمہ تاریخی حقائق درج ذیل آیات میں بیان ہوئے ہیں:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ. رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّيْ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. رَبَّنَا٘ اِنِّيْ٘ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِﶈ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْـِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْ٘ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ. رَبَّنَا٘ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِيْ وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يَخْفٰي عَلَي اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَآءِ. اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَآءِ. رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ.(ابراہیم ۱۴: ۳۵- ۴۰)
’’اِنھیں وہ واقعہ سناؤ، جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ میرے پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو اِس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کو پوجنے لگیں۔ پروردگار، اِن بتوں نے بہت لوگوں کو گم راہی میں ڈال دیا ہے۔ (یہ میری اولاد کو بھی گم راہ کر سکتے ہیں)، اِس لیے جو (اُن میں سے) میری پیروی کرے، وہ میرا ہے اور جس نے میری بات نہیں مانی، (اُس کا معاملہ تیرے حوالے ہے)، پھر تو بخشنے والا ہے، تیری شفقت ابدی ہے۔ اے ہمارے پروردگار، میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایک بن کھیتی کی وادی میں لا بسایا ہے۔ پروردگار، اِس لیے کہ وہ (اِس گھر میں) نماز کا اہتمام کریں۔ سو تولوگوں کے دل اُن کی طرف مائل کر دے اور اُنھیں پھلوں کی روزی عطا فرما، اِس لیے کہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں۔ پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمان میں۔ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا فرمائے ہیں۔اِس میں کچھ شک نہیں کہ میرا پروردگار دعا کا سننے والا ہے۔ پروردگار، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (جنھیں میں یہاں بسا رہا ہوں)۔ ہمارے پروردگار، اور میری یہ دعا قبول فرما۔‘‘
[17]
یہ دعا حضرت ابراہیم نے اس موقع پر كی جب وہ اسمٰعیل كو مكہ میں بسا رہے تھے۔ اس دعا كا جملہ” خدا کا شکر ہے جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا فرمائے ہیں“واضح طور پر بتا رہا ہے كہ اس وقت حضرت اسمٰعیل كے علاوہ حضرت اسحٰق بھی پیدا ہو چكے تھے۔
اب درج ذیل آیات ملاحظہ كیجیے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّيْ٘ اَرٰي فِي الْمَنَامِ اَنِّيْ٘ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰيﵧ قَالَ يٰ٘اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُﵟ سَتَجِدُنِيْ٘ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ. فَلَمَّا٘ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ. وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰ٘اِبْرٰهِيْمُ. قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَاﵐ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ. اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِيْنُ. وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ. وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ. سَلٰمٌ عَلٰ٘ي اِبْرٰهِيْمَ. كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ. اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ. وَبَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ. (الصافات۳۷: ۱۰۲- ۱۱۲)
’’(وہ لڑکا جوان ہوا)، پھر جب وہ اُس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے (ایک دن) اُس سے کہا: میرے بیٹے، میں (کچھ دنوں سے) خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ تو غور کرو، تمھاری کیا راے ہے؟ اُس نے کہا: ابا جان، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے ، اُس کی تعمیل کیجیے۔ خدا نے چاہا تو آپ مجھے ثابت قدموں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرا دیا۔ اور ہم نے اُس سے پکار کرکہا: ابراہیم، تم نے خواب کو سچا کر دکھایا ہے تو تصور کرو کہ دریاے رحمت نے کیسا جوش مارا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ خوبی سے عمل کرنے والوں کو ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ کھلی آزمایش تھی۔ (ابراہیم اِس میں کامیاب ہو گیا تو) ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اسمٰعیل کو چھڑا لیا۔ اور (ابراہیم کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ) پچھلوں میں ایک گروہ کو ہم نے اُس کی ملت پر چھوڑا۔ سلامتی ہو ابراہیم پر۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو اِسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ (یہی موقع تھا کہ) ہم نے اُس کو اسحٰق کی بشارت دی، صالحین کے زمرے میں سے ایک نبی۔‘‘
خط كشیدہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے كہ قربانی كے واقعہ كے بعد ابراہیم كو اسحٰق كی پیدایش كی خوش خبری سنائی گئی۔ دوسرے الفاظ میں حضرت اسحٰق حضرت اسمٰعیل كی قربانی كے موقع پر پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ نیز یہ كہ ابتدائی آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے كہ اسمٰعیل قربانی كے لیے پیش كیے جانے كے موقع پر ایك دوڑ دھوپ كرنے والے نوجوان تھے۔
دوسرے الفاظ میں حضرت اسمٰعیل ایک نوجوان تھے جو حضرت اسحٰق سے كافی بڑے تھے اور یہ بات مستنبط كی جا سكتی ہے كہ دونوں بھائیوں میں دس سے بارہ سال كا فرق لازماً ہو گا۔ چونكہ ان دونوں بیٹوں كی پیدایش مكہ آمد كے موقع پر ہو چكی تھی، اس كا مطلب یہ ہو گاكہ اسمٰعیل نوجوانی كی سرحد میں داخل ہو چكے تھے نہ كہ ایك طفل شیرخوار جیسا كہ اس روایت میں بیان ہوا ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے كہ دونوں بھائیوں كی عمر میں اس فرق كی طرف قرآن كے اس اشارے كی تائید تورات سے بھی ہوتی ہے۔ تورات كے مطابق حضرت اسمٰعیل حضرت اسحٰق سے چودہ برس بڑے ہیں۔ [18] مزید برآں، تورات كے ایك اور مقام سے بھی معلوم ہوتا ہے كہ مكہ آمد كے موقع پر حضرت اسمٰعیل طفل شیرخوار نہیں تھے۔ چنانچہ كتاب پیدایش (۲۰: ۸- ۱۴) میں بیان ہوا ہے كہ حضرت اسمٰعیل كو مكہ بھیجتے وقت حضرت اسحٰق كی دودھ چھٹائی كی رسم منعقد كی جا چكی تھی۔ نتیجتاً اسمٰعیل کی عمر اس وقت تك سولہ یا سترہ سال ہو چكی ہو گی، كیونكہ دودھ چھٹائی اسحٰق كی پیدیش كے دو یا تین سال بعد ہی ہو ئی ہو گی۔
خلاصۃ ً یہ بات تاریخی طور پر پایۂ ثبوت تك پہنچ جاتی ہے كہ حضرت اسمٰعیل مكہ آمد كے موقع پر نوجوانی كی دہلیز پر قدم ركھ چكے تھے۔ وہ ہرگز ایک طفل شیر خوار نہیں تھے۔
دوم ، اس روایت سے حضرت ابراہیم كی جو شخصیت سامنے آتی ہے، وہ اس سے یكسر مختلف ہے جو قرآن میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت ابراہیم ایک سنگ دل باپ اور پتھردل شوہر تھے جنھوں نے اپنی بیوی اور ننھے بچے كو ایک دور دراز مقام پر بالكل بے یارومددگار اور بے آسرا چھوڑا۔ سفر كے دوران نہ سامان سفر كا بوجھ بانٹا اور جیسا كہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہ كے بار بار دریافت كرنے پر كہ وہ ان كو اور حضرت اسمٰعیل كو كیوں اكیلا چھوڑ كر جا رہے ہیں ، كوئی جواب تك نہ دیا،[20] یہاں تك كہ حضرت ہاجرہ كو خود ہی اس كی ایک توجیہ سوجھ گئی اور وہ الله كی بندی مطمئن ہو گئی۔ تاہم روایات كی رو سے حضرت ابراہیم نے اس معقول سوال كا كوئی جواب از خود نہیں دیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم نے بعد میں ایک لمبی مدت تك اپنی بیگم اور بیٹے كی كوئی خبر ہی نہ لی۔ زیر بحث روایات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت اسمٰعیل كی شادی كے بعد ان كو اپنے اہل و عیال سے ملنے كا خیال آیا۔ كیا كسی عام باپ سے بهی كوئی اس طرح كی سنگ دلی كی توقع كر سكتا ہے ، چہ جائكہ ایك عظیم پیغمبر سے۔
ملاحظہ فرمائیے كہ قرآن اس عظیم ہستی كو كن الفاظ سے یاد كرتا ہے:
وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا. (النساء ۱۲۵:۴)
’’اور (یہی سبب ہے کہ)ابراہیم کو اللہ نے اپنا دوست بنایا تھا۔ ‘‘
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ. (ہود ۷۵:۱۱)
’’حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑا بردبار، بڑا دردمند اور اپنے پروردگار کی طرف بڑا دھیان رکھنے والا تھا۔‘‘
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ اِجْتَبٰىهُ وَهَدٰىهُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ. وَاٰتَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ.(النحل ۱۶: ۱۲۰- ۱۲۲)
’’حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (اپنی جگہ) ایک الگ امت تھا، اللہ کا فرماں بردار اور یک سو اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا۔وہ اُس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اُس کو برگزیدہ کیا اور اُس کی رہنمائی ایک سیدھی راہ کی طرف فرمائی تھی۔ہم نے اُس کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کی اور آخرت میں بھی وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا۔‘‘
اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ.(الصافات ۳۷: ۸۴)
’’یاد کرو، جب وہ قلب سلیم کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور میں آیا۔ ‘‘
وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰ٘ي.(النجم۵۳: ۳۷)
’’اور ابراہیم کے صحیفوں میں بھی، جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟‘‘
كیا ان ارفع صفات سے متصف كسی پیغمبر سے اس روایت میں بیان كردہ غیر انسانی رویہ كی کوئی توقع كر سكتا ہے؟
سوم یہ كہ روایات كے بعض طرق[21] میں یہ بات بیان ہوئی ہے كہ حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ كو حضرت اسمٰعیل كے ساتھ اس لیے روانہ كر دیا تھا كہ حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ كے درمیان تعلقات خوش گوار نہ تھے (لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيْمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ خَرَجَ بِإِسْمَاعِيْلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيْلَ)۔ دوسری طرف قرآن اس ہجرت كی وجہ یہ بتاتا ہے كہ پروردگار عالم نے مكہ كی سرزمین كا انتخاب از خود اس لیے كیا تھا كہ پیش نظر وہاں ایک نئی امت كی تاسیس تھی۔
اس روایت كی معقولیت پر كچھ ضمنی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً:
۱۔ ایك عجیب سى بات یہ سامنے آتی ہے كہ جب حضرت ابراہیم واپسی كے سفر پر روانہ ہوئے توحضرت ہاجرہ نے آپ كا پیچھا كیا۔ اس دوران میں ایك لمبے عرصے تك نہ حضرت ابراہیم نے ان كو یہ بتانا گوارا كیا كہ وہ اس طرح سے ان کو كیوں چھوڑ كر جا رہے ہیں اور نہ ہی حضرت ہاجره نے ان سے اس كے بارے میں كوئی استفسار كیا، یہاں تك كہ وہ كدا كے مقام پر پہنچ گئے۔
۲۔پانی كی تلاش میں حضرت ہاجرہ نے اپنے ننھے منے بچہ كو زمین پر بلكتا اور سسكتا چھوڑ دیا، يہاں تك كہ روايت میں يہ بھی بيان ہو گيا ہے كہ حضرت ہاجرہ نے ايك موقع پر ننھے اسمٰعيل كو مرنے كے قريب پايا۔ تاہم آپ پانی كی تلاش میں دوبارہ نكل كھڑی ہوئیں۔ كیا یہ بات تسلیم كی جا سكتی ہے كہ ایک ماں اس طرح اپنے بچے كو چلچلاتی دھوپ میں چھوڑ كر اس طرح كی تلاش میں نكل كھڑی ہو سكتی ہے؟ آخر اس میں كیا ركاوٹ تھی كہ وہ مشقت اٹھا كر اس بچے كو اپنے ساتھ ركھتیں؟
۳۔ ایک اچنبھے كی بات یہ ہے کہ ابراہیم نے دو مرتبہ مكہ كا سفر كیا اور دونوں مرتبہ اپنے فرزند سے ملنے كا انتظار تك نہیں كیا جو ان دونوں مواقع پر مبینہ طور پر شكار پر گئے ہوئے تهے۔ كیا یہ بات پدرانہ شفقت سے میل كھاتی ہے؟ كیا یہ بات قابل فہم ہے كہ كوئی باپ اتنے لمبے سفر كے بعد مقصد پورا كیے بغیر ہی واپس چلا جائے اور وہ بھی دونوں مواقع پر؟ بلكہ دونوں مواقع پر انھوں نے ایک بعید از فہم پیغام اپنے فرزند ارجمند كے نام چھوڑا۔ اگرچہ دعوىٰ ضرور كیا گیا ہے كہ وہ ہر ماہ ان سے ملنے جاتے ، تاہم اس كا كوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔[22]
اگر ہم غیر جانب داری سے اس واقعہ كی روداد بائیبل اور تالمود میں پڑھیں تو زیر بحث روایت اور ان دونوں مآخذ كا تعلق دریافت كر سكتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے كہ یہ روایت بائیبل اور تالمود كی روایات كا مجموعہ ہے ، بالخصوص تالمود كا۔
ملاحظہ ہو كتابِ پیدایش كا سولہواں باب:
’’سارا ئی اَبرام کی بیوی تھی۔ اُس کی کو ئی اولاد نہ تھی۔ سارائی کی ایک مصری خادمہ تھی۔ اُس کا نام ہاجرہ تھا۔ سارائی نے اَبرام سے کہا : ’’خداوند نے مجھے اولاد ہو نے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس لیے میری لونڈی ہاجرہ کے پاس جا۔ اور اُس سے جو بچہ پیدا ہو گا، میں اسے اپنے ہی بچے کی مانند قبول کر لوں گی۔‘‘ تب اَبرام نے اپنی بیوی سارائی کا شکریہ ادا کیا۔ اَبرام کے کنعان میں دس برس رہنے کے بعد یہ وا قعہ پیش آیا تھا۔ اَبرام کی بیوی سارا ئی نے ہا جرہ کو ، اَبرام کو اس کی بیوی بننے کے لیے دیا۔( ہا جرہ مصر کی لونڈی تھی)۔ اَبرام نے ہاجرہ سے جسمانی تعلقات قائم کیا اور وہ حاملہ ہو ئی۔ اس کے بعد ہا جرہ اپنی مالکہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگی۔ تب سارا ئی نے اَبرا م سے کہا کہ اس کے نتیجہ میں جو بھی ناساز گار حالات پیدا ہو ئے ہیں۔ اُس کی تمام تر ذمہ داری تیرے سر ہے۔ میں نے اُس کو تیرے حوا لے کر دیا ہے۔ اور وہ اب حاملہ ہے۔ اور مجھے حقیر جان کر دُھتکار دیتی ہے۔ اور سوچتی ہے کہ وہ مجھ سے بہتر ہے۔ اب خداوند ہی فیصلہ کر ے گا کہ ہم میں سے کون صحیح ہے۔اِس بات پر اَبرام نے سارائی سے کہا ، تُو تو ہاجرہ کی مالکہ ہے۔ تو جو چاہے اُس کے ساتھ کر سکتی ہے۔ اِس لیے سارائی نے ہاجرہ کو ذلیل کیا۔ اور وہ بھاگ گئی۔ خداوند کے فرشتہ نے ہاجرہ کو ریگستان میں چشمہ کے پاس دیکھا۔ اور وہ چشمہ شور کی طرف جانے وا لے راستے کے کنا رے تھا۔ فرشتے نے اُس سے کہا کہ اے ہاجرہ تو سارائی کی لونڈی ہو نے کے باوجود یہاں کیوں ہے ؟ اور پو چھا کہ تُو کہاں جا رہی ہے ؟ ہاجرہ نے کہا کہ میں مالکہ سارائی کے پاس سے بھاگ رہی ہوں۔خداوند کے فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ سارائی تو تیری مالکہ ہے۔ تُو اُس کے پاس لوٹ کر جا اور اُس کی بات مان۔ اِس کے علاوہ خداوند کے فرشتہ نےہاجرہ سے کہا : میں تیری نسل کے سلسلہ کو بہت بڑھاؤں گا۔ وہ اتنی ہوں گی کہ گنی نہیں جا ئیں گی۔ مزید فرشتے نے اُس سے کہا : اے ہاجرہ، اب تو حاملہ ہو گئی ہے۔ اور تجھے ایک بیٹا پیدا ہو گا۔ تو اس کا نام اسمٰعیل رکھنا۔ اِس لیے کہ خداوندنے تیری تکا لیف کو سُنا ہے۔ اور وہ تیری مدد کرے گا۔ اِسمٰعیل جنگلی گدھے کی طرح مضبوط اور آ زا د ہو گا۔اور وہ ہر ایک کا مخا لف ہو گا اور ہر ایک اُس کا مخالف ہو گا۔ وہ اپنے بھا ئیوں کے قریب خیمہ زن ہو گا۔
خداوند نے خود ہاجرہ کے ساتھ باتیں کیں۔ اس وجہ سے ہاجرہ نے کہا : اِس جگہ بھی خدا مجھے دیکھ کر میرے بارے میں فکرمند ہو تا ہے۔ اس لیے اس نے اس کا ایک نیا نام دیا ، ’’خدا مجھے دیکھتا ہے ‘‘ ہاجرہ نے کہا : میں نے خدا کو یہاں دیکھا ہے، لیکن میں اب تک زندہ ہوں! اس لیے انھوں نے خدا کا نیا نام دیا،”خدا جو مجھے دیکھتا ہے۔“ اِس وجہ سے اُس کنواں کا نام بیر لحی روئی ہوگیا۔ وہ کنواں قادس اور برد کے درمیان ہے۔ ہا جرہ نے اَبرام کے بیٹے کو جنم دیا۔ اور اَبرام نے اُس بیٹے کا نام اِسمٰعیل رکھا۔ اَبرام جب چھیا سی برس کے ہو ئے تو ہاجرہ سے اِسمٰعیل پیدا ہو ئے۔‘‘
باب ۲۰ میں ہے:
’’ خداوند نے سارہ سے جو وعدہ کیا تھا اُس کو با قاعدہ پورا کیا۔سارہ عمررسیدہ ابراہیم سے حاملہ ہو ئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ یہ سب کچھ ٹھیک اسی وقت ہوا جس کے بارے میں خدا نے کہا تھا کہ ہو گا۔سارہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ابراہیم نے اس کا نام اسحٰق رکھا۔ جب اسحٰق کو پیدا ہو ئے آٹھ دن ہو ئے تھے، خدا کے حکم کے مطابق ابراہیم نے اس کا ختنہ کر وایا۔ جب ان کا بیٹا اسحٰق پیدا ہوا تو ابرا ہیم کی عمر سو سال تھی۔ سارہ نے کہا : خدا نے مجھے خوشی بخشی ہے اور ہر کو ئی جو اس کے با رے میں سنیں گے، وہ مجھ سے خوش ہوں گے۔ کو ئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ابراہیم کا سارہ سے کو ئی بیٹا ہو گا۔ اور اُس نے کہا کہ ابرا ہیم کے ضعیف ہو نے کے با وجود اب میں اُس کو ایک بیٹا دیتی ہوں۔ جب اسحٰق بڑا ہو کر کھا نا کھانے کی عمر کو پہنچا۔ تب ابراہیم نے ایک بڑی ضیافت کروائی۔ پہلے پہل مصر کی لونڈی ہا جرہ کے یہاں ایک لڑ کاپیدا ہوا تھا۔ اور ابرا ہیم اُس کا باپ تھا۔ سارہ دیکھتی کہ ہاجرہ کا بیٹا کھیل رہا ہے۔ سارہ نے ابراہیم سے کہا کہ اُس لونڈی کو اور اُس کے بچے کو کہیں دُور بھیج دے۔ تا کہ جب ہم دونوں مر جا ئیں تو ہما ری تمام تر جائیداد کا وارث صرف اسحٰق ہی ہو گا۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتی ہوں کہ لونڈی کا بیٹا اسحٰق کے ساتھ وراثت میں حصے دار ہو۔ابرا ہیم کو بہت دُکھ ہو ا۔ اور اپنے بیٹے کے بارے میں فکرمند ہوئے۔ لیکن خدا نے ابرا ہیم سے کہا : تو اس بچے یا اُس لونڈی کے بارے میں پریشان نہ ہو اور سارہ کی مرضی کے مطابق ہی کر۔ اسحٰق ہی تیرے خاندانی سلسلہ کو جا ری رکھے گا۔ لیکن میں تیری لونڈی کے بیٹے کے خاندان سے ایک بڑی قوم بنا ؤں گا۔ کیونکہ وہ تمھا را بیٹا ہے۔دوسرے دن صبح ابراہیم نے تھو ڑا سا اناج اور تھوڑا سا پانی لیا اور ہاجرہ کو دے دیا۔ اور اُسے دور بھیج دیا۔ ہاجرہ نے اُس جگہ کو چھو ڑدیا اور بیرسبع کے ریگستان میں بھٹکنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد پانی بھی ختم ہو گیا اور پینے کے لیے کچھ با قی نہ رہا۔اِس وجہ سے ہاجرہ نے اپنے بیٹے کو جھا ڑی میں سُلا دیا۔ ہاجرہ تھوڑی سی دُور، لگ بھگ ایک تیر کی دُور ی، یعنی جتنی دُور جا کر وہ گرتی ہے گئی اور بیٹھ گئی اور رونا شروع کر دیا۔ اُس نے کہا : میں اپنے بیٹے کو مرا ہوا دیکھنا نہیں چاہتی ہوں۔ لڑکے کی آواز خدا کو سُنا ئی دی۔ تب جنت کے فرشتہ نے اُسے بُلا یا۔ اور کہا کہ اے ہاجرہ، تجھے کیا ہوا ہے ؟ تو گھبرا مت اس لیے کہ لڑکے کی آوا ز کو خداوند نے سُن لیا ہے۔ اٹھو، لڑکے کو لو اور اُس کے ہا تھ کو کس کر پکڑو۔ میں اُس کو وہ کروں گا جس سے ایک بڑی قوم کا سلسلہ جا ری ہو گا۔ اُس کے بعدخدا نے ہاجرہ کو پانی کے ایک کنواں کی طرف رہنما ئی کی۔ تو ہاجرہ پانی کے اُس کنواں پر گئی اور مشکیزہ کو پانی سے بھر دیا اور اُس نے اُس لڑکے کو پانی دیا۔ خدا اُس بچے کے ساتھ تھا اور وہ بچہ بڑا ہوا۔ بیابان میں زندگی گزارنے کی وجہ سے وہ بہترین تیر انداز ہو گیا تھا۔ اُس کی ماں اُس کے لیے مصر سے ایک لڑکی لا ئی اور اُس سے شادی کر وا ئی۔ اور اُس نے فاران کے ریگستان میں اپنی سکونت کو جا ری رکھا۔‘‘
تالمود كا بیان ہے: [23]
’’اور خداوند نے سارہ كو یاد كیا اور اُس سے ابراہیم كے لیے اُس كے بڑهاپے میں ایك بیٹا پیدا ہوا۔ جب اسحٰق پیدا ہوا تو ابراہیم نےایك بڑی دعوت كااہتمام كیا اور سب سرداروں اور اپنے ہمسایوں كو دعوت دی جس میں ابی ملك اور اس كی فوجوں كے كپتان بهی شامل تهے۔ ابراہیم كا باپ تارح اور اس كا بهائی ناحُور حاران سے سفر كركے اس دعوت میں شامل ہونے كے لیے آئے اور سام بهی اپنے بیٹے ایبر كے ساتھ اس دعوت میں شریك ہوا۔ انھوں نے پورے دل سے انھیں مبارك باد دی اور ابراہیم كا دل خوشی سے بهرا ہوا تها۔ ابراہیم اور ہاجرہ كا بیٹا اسمٰعیل جنگلوں میں شكار كرنے كا بہت شوقین تها۔ وہ ہر وقت اپنے ساتھ اپنی كمان اٹهائے ركهتا اور ایك موقع پر جب اسحٰق پانچ سال كا تها، اسمٰعیل نے بچے كی طرف اپنے تیر كا نشانہ بنایا اور چلایا اب میں تجھ پر تیر چلا رہا ہوں سارہ نے اس واقعہ كی گواہی دی اور اپنے بیٹے كی زندگی كے لیے خوف زدہ ہو گئی اور اپنی لونڈی كے بچے كو ناپسند كیا۔ اُس نے اُس لڑكےكے كاموں كی ابراہیم سے كئی بار شكایت كی اور اُسے مجبور كیا كہ اُن دونوں ہاجرہ اور اسمٰعیل كو اپنے خیمے سے نكال دے اور انھیں كسی دوسری جگہ رہنے كے لیے بھیجے ۔ كچھ عرصہ تك اسمٰعیل اپنی ماں كے ساتھ فاران كے بیابان میں رہا، لیكن ہمیشہ اپنے بڑے شوق میں، یعنی شكار كرنے كے لیے ، اُس نے مصر كا سفر كیا، وہاں اسمٰعیل نے شادی كی اور وہاں اُس كے چار بیٹے اور ایك بیٹی پیدا ہوئی، لیكن جلد ہی وہ بیابان میں اپنے پسندیدہ گهر كو واپس گیا اور وہاں اُس نے خود ہی خیمے لگائے۔ اپنے لوگوں اور اپنے خاندان كے لیے، كیونكہ خدا نے اسے بركت دی اور وہ بهیڑ بكریوں كے ریوڑوں كا مالك تها۔ اور وقت گزرتا گیا، كئی سالوں كے بعد ابراہیم نے اپنے بیٹے كو ملنے كا فیصلہ كیا، كیونكہ وہ ہمیشہ اُس سے ملنے كی خواہش ركهتا تها اور اُس نے اپنا ارادہ سارہ كو بتایا اور ایك اُونٹ پر اكیلے ہی سفر شروع كیا۔ ابراہیم دوپہر كواسمٰعیل كے رہنے كی جگہ پر پہنچا اور اُسے معلوم ہوا كہ اُس كا بیٹا شكار كرنے گهر سے دور گیا ہوا ہے۔ اسمٰعیل كی بیوی ابراہیم سے غیر مہذب طریقے سے پیش آئی، وہ اُسے نہیں جانتی تهی اور اُس نے اُسے كهانا اور پانی دینے سے انكار كیا جو كہ ابراہیم نے اُس سے مانگا تها۔اِس لیے اُس نے اس سے كہا: جب تیرا شوہر واپس آئے تو اُسے میرے متعلق بیان كرتے ہوئے یہ كہنا كہ ایك بوڑها آدمی فلسطین كی زمین سے تیری غیر حاضری میں ہمارے دروازے پر آیا اور اُس نے مجهے كہا كہ جب تیرا شوہر واپس آئے تو اسے بتانا كہ وہ میخ كودور كرے جو اس نے اپنے خیمے میں ركهی ہے اور اُس كی جگہ كوئی اور لے جو قابل احترام ہو۔ یہ الفاظ كہتے ہوئے ابراہیم واپس چلا گیا۔ جب اسمٰعیل گهر واپس آیا تو اُس كی بیوی نے اِس واقعہ كے متعلق اُسے بتایا۔ آدمی كے بارے میں بیان كیا اور اُس كے الفاظ كو دہرایا اور اسمٰعیل جان گیا كہ اس كا باپ اُسے ملنے كو آیا تها اور اُس كی بیوی اُس کے ساتھ بے عزتی سے پیش آئی۔ اِس وجہ سے اسمٰعیل نے اپنی بیوی كوطلاق دے دی اور كنعان كی زمین سے ایك كنواری سے شادی كی۔ تین سالوں كے بعد ابراہیم دوبارہ اپنے بیٹے كو ملنے اُس كے خیمے میں گیا اور اُس كا بیٹا پهر گهر سے دور گیا ہوا تها، لیكن اس كی بیوی خوش طبع اور مہمان نواز تهی اور اُس نے مسافر سے درخواست كی جسے وہ نہیں جانتی تهی كہ وہ اپنے اونٹ سے نیچے اترے اور اُس نے اُس كے سامنے روٹی اور گوشت ركها۔ اِس لیے اُس نے اُس سے كہا كہ ’’جب تیرا شوہر واپس آئے تو میرے متعلق اُس سے بیان كرنا اور كہنا كہ یہ بوڑها آدمی فلسطین كی زمین سے تیرے پاس آیا اور یہ پیغام اُس نے تیرے لیے چهوڑا ہے كہ: میخ جو تو نے اپنے خیمے میں ركهی ہے اچهی اور بلند اخلاق ہے اور عزت كے لائق ہے اور ابراہیم نے اسمٰعیل اور اُس كے خاندان كو بركت دی اوراپنے گهر واپس چلا گیا۔ جب اسمٰعیل واپس آیاتو وہ اپنے باپ كا پیغام سن كر بہت خوش ہوا اور اُس نے ایك اچهی اور بلند اخلاق بیوی كے لیے خدا كا شكر ادا كیا اور كچھ عرصہ بعد وہ اور اُس كا خاندان ابراہیم كو ملنے گیا اور كئی دنوں تك فلسطین كی زمین میں اُس كے ساتھ رہا۔‘‘
اگرچہ ان روایات میں اور زیرنظر روایت كے مابین كچھ تضادات بھی پائے جاتے ہیں، مگر ایک فہیم شخص اندازہ كر سكتا ہے كہ بائیبل اور تالمود كے بیانات اس روایت كا ایک ممكنہ ماخذ قرار دیے جا سكتے ہیں۔
اس تجزیاتی مطالعہ سے یہ بات بطور نتیجہ اخذ كی جا سكتی ہے كہ زیربحث روایت نہ صرف قرآن اور عقل عام كے خلاف ہے ، بلكہ اس كی نسبت بھی اس كے اصل راوی، یعنی عبدالله بن عباس سے مشكوك ہے ۔
مزید برآں، یہ بھی معلوم ہوتا ہے كہ اس روایت كا ماخذ تالمود اور بائیبل میں واقعہ كی روداديں ہیں اور بنابریں، جیسا كہ حافظ ابن كثیر نے بیان كیا ہے، اس كو اسرائیلیات میں شمار كیا جا سكتا ہے ۔[24]
________
[1]۔ ایک روایت میں اس كے برعكس یہ بیان ہوا ہے كہ اسمٰعیل كے ایڑی رگڑنے كی وجہ سے زمین سے پانی جاری ہوا۔ تاہم یہ روایت زیر بحث روایت كے كثرت طرق كے مقابلے میں بہت قلیل الطرق ہے۔ دیكھیے: أبو جعفر محمد بن جریر الطبري، جامع البیان عن تأویل آي القرآن ، طبع اول ، ج 13 (بیروت: دار إحياء التراث العربي ، 2001ء) ، 230 ۔
[2]۔ابو عبدالله محمد بن اسمٰعیل البخاری ، الجامع الصحیح ، طبع ثالث ، ج 3 (بیروت: دار ابن كثیر ، 1987ء) ، 1230 ، (رقم، 3185)۔
[3]۔البخاری ، الجامع الصحیح ، ج 3 (بیروت: دار ابن كثیر ، 1987ء) ، 1230 ، (رقم: 3185) ۔ ایضا ً، ج 3 ، 1227-1229 ، (رقم: 3184) ۔ ایضاً ، ج 3 ، 834 ، (رقم: 2239) ۔ایضاً ، ج 3 ، 1226 ، (رقم: 3183) ۔ابو عبدالله احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند ، ج 1 ( قاہرة: مؤسسة القرطبة ، تاریخ غیر مذكور) ، 347 ، (رقم: 3250) ۔ایضاً ، ج 1 ، 360 ، (رقم: 3390) ۔ ابو عبد الله محمد بن اسحٰق بن العباس الفاكہی ، أخبار مكة في قدیم الدهرو حدیثه ، طبع ثانی ، ج 2 (بیروت: دار الخضر ، 1414 ھ ) ، 5 ، (رقم: 1049)۔ایضاً ، ج 2 ، 6 ، (رقم: 1051) ۔ ابو الولید محمد بن عبدالله بن احمد الازرقی ، أخبار مكة و ما جاء فیها من الآثار ، ج 2 (بیروت: دار الاندلس للنشر ، 1996ء) ، 39-41۔ایضاً ، ج 1 ، 57-60۔ ابو القاسم علی بن الحسین بن عساكر ، تاریخ مدینة دمشق، ج 7 (بيروت: دار الفكر،1995ء)، 145۔ ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب النسائی، السنن الكبرٰى،طبع اول،ج 5(بیروت: دار الكتب العلمية، 1991ء)،99،(رقم 8378)۔ ایضاً ، ج 5 ، 100 ، (رقم: 8379) ۔ ایضاً ، ج 5 ، 101 ، (رقم: 8380)۔ ابو بكر احمد بن الحسین البیہقی ، السنن الكبرٰى ، ج 5 (مكة: مكتبة دار الباز ، 1994ء) ، 98 ، (رقم: 9153)۔عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی ، مصنف ، ج 5 (بیروت: المكتب الإسلامی ، 1403 ھ ) ، 105 - 111 ، (رقم: 9107) ۔ ابو بكر احمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان ، طبع اول ، ج 3 (بيروت: دار الكتب العلمية،1410ھ)،458-459،(رقم:4064)۔ ابو بكر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوة ، طبع دوم ، ج 2 (بیروت: دار الكتب العلمیة ، 2002ء ) ، 46 ۔ 49 ۔ ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب النسائي، فضائل الصحابة، طبع اول (بيروت:دارالكتب العلمية، 1405ھ) ،82-83، (رقم: 273)۔ ایضاً ، 83 - 84، (رقم: 274) ۔ الطبري ، جامع البيان ، طبع اول ، ج 1 ، 154-156)۔ایضاً ، ج 13 ، 229 – 232 ۔ ابو الفرج عبدالرحمن علی بن محمد بن الجوزی ، المنتظم في تاریخ الملوك و الأمم ، طبع اول ، ج 1 (بیروت: دار صادر ، 1358 ھ ) ، 266 - 268۔ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير ، البداية و النهاية، ج1(بيروت: مكتبة المعارف، تاريخ غير مذكور) ،154-156۔ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، تغليق التعليق، طبع اول ، ج4(بيروت: دار عمار،1405ھ)،16،(رقم: 3362)۔ ایضاً ، ج 4 ، 16 ، (رقم: 3363)۔ ایضاً ، ج 4 ، 16 ، (رقم: 3364) ۔
[4]۔ ابو حاتم محمد بن حبان البستی ، صحیح ، طبع ثانی ، ج 9 (بیروت: مؤسسة الرسالة ، 1993ء) ، 216 ، (رقم: 33)۔ علی بن ابی بكر الہیثمی ، موارد الظمأن الى زوائد ابن حبان (بیروت: دار الكتب العلمیة ، تاریخ غیر مذكور) ، 254 ، (رقم: 1028) ۔ اسلم بن سہل واسطی ، تاریخ واسط ، طبع اول (بیروت: عالم الكتاب ، 1406 ھ) ، 149 ۔ احمد بن ابراہیم بن اسمٰعیل الاسماعیلی، المعجم في أسامي شيوخ ، طبع اول ، ج3(مدینة: مكتبة علوم و الحكم ،1410 ھ)، 773، (رقم: 385)۔ عبدالقادر بن عمر البغدادي ، تاریخ بغداد ، ج 13 (بيروت: دار الكتب العلمية، تاريخ غير مذكور)،55،(رقم: 7027)۔ ابن عساكر ، تاريخ مدینة دمشق ، ج 70 ، 145۔ الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 6 ، (رقم: 1050)۔ ابو احمد بن عمر بن ضحاك الشيباني، الآحاد و المثاني ، طبع اول، ج3(رياض: دار الرايہ،1991ء)، 266 - 267۔النسائي، السنن الكبرٰى، ج5، 99، (رقم: 8376)۔ ایضاً ، ج 5، 99 ، (رقم: 8377) ۔ ابو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسى، الأحاديث المختارة ، طبع اول ، ج 3 ( مكة: النهده الحديثة ،1410 ھ)،413،(رقم:1210)۔ ایضاً ، ج 3، 413 - 415 ، (رقم: 1211)۔ ابوالقاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن مرزبان بن سابور بن شاہشاہ البغوي ، معجم الصحابة، طبع اول، ج 1(كويت: دار البيان، 2000ء) ،10 ۔ 11، (رقم:7) ۔
[5]۔ الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 8، (رقم: 1053) ۔ ابن عساكر ، تاریخ مدینة دمشق ، ج 70 ،145۔
[6]۔الأزرقی ، أخبار مكة ، ج 1 ، 60 - 61 ۔ الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 7، (رقم: 1052)۔
[7]۔ الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 8 - 9، (رقم: 1054) ۔
[8]۔انس بن مالك كی روایت كے تمام طرق ان سے سعید بن میسرہ سے مروی ہیں ، جو انتہائی ضعیف راوی ہیں۔ امام حاكم كی راے میں وہ انس بن مالك كی نسبت سے روایات وضع كرتے ہیں۔ تفصیلات كے لیے دیكھیے: عبد الرحمٰن بن محمد بن ادریس بن ابی حاتم ، الجرح و التعدیل ، طبع اول ، ج 4 (بیروت:دار احياء التراث العربي، 1952ء)، 63۔ ابوعبدالله شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز بن عبدالله الذهبی ، میزان الإعتدال في نقد الرجال ، طبع اول ، ج 3 ، (بیروت: دارالكتب العلمیة ، 1995ء) ، 233۔
علی بن ابی طالب كی روایت كے تمام طرق میں عثمان بن عمرو بن ساج اور محمد بن ابان بن صالح موجود ہیں۔ دونوں ہی راوی بہت ہی ضعیف ہیں۔ مقدم الذكر كے لیے ملاحظہ كریں : ابو الحجاج یوسف بن الزكی المزی ، تهذیب الكمال في اسماء الرجال ، طبع اول ، ج 19 (بیروت: مؤسسة الرسالة ، 1980ء) ، 468۔ مؤخر الذكر كے لیے ملاحظہ كریں : الذهبی ، میزان الإعتدال ، ج 6 ، 41۔
عمر بن الخطاب كی روایت نہ صرف یہ كہ منقطع ہے ، بلكہ اس كی سند میں عثمان بن عمرو بن ساج موجود ہے۔
[9]۔ یہ بات قابل لحاظ ہے كہ بخاری میں موجود اس ضمن كی تمام روایات ابن عباس سے مروی ہیں۔ تاہم ان روایات میں ایک تناقض پایا جاتا ہے۔ تفصیلات كے لیے دیكھیے: ابو علی الغسانی الجیانی ، كتاب التنبیہ على الأوھام الواقعة فی مسند الصحیح للبخاری، طبع اول (الدار البیداء: مكتبة النجاح الجدیدة ، 1998ء) ، 125 - 144۔ نیز یہ كہ بحث و نظر كے بعد غسانی ( م 498 ھ ) نے اس تناقض كو ناقابل لحاظ قرار دے دیا ہے۔ بخاری كے شارحین، جیسے ابن حجر (م 852 ھ ) اور عینی نے بھی اس معاملہ میں ان كی پیروی كی ہے۔ دیكھیے : ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی ، فتح الباری ، ج 6 (بیروت: دار المعرفة ، 1379 ھ)، 400 ۔ بدر الدین محمود بن احمد بن موسى بن احمد العینی ، عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج 15 (بیروت: دار إحیاء التراث العربی ، تاریخ غیر مذكور) ، 252۔
[10]۔الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 5 ، (رقم: 1048)۔
[11]۔البیہقی ، دلائل النبوة ، ج 2 ، 46 ۔ 52۔
[12]۔الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 10 - 11 ، (رقم: 1058) ۔الازرقی ، أخبار مكة ، ج 1 ، 54 ۔ایضاً ، ج 1 ، 60۔
[13]۔الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 2 ، 9 ، (رقم: 1055)۔
[14]۔الأزرقی ، أخبار مكة ، ج 1 ، 56۔
[15]۔شبیر احمد اظہر میرٹھی ، صحیح بخاری كا مطالعہ ، طبع اول ، ج۱(لاہور: دار التذكیر،2005ء) ، 20 - 21۔
[16]۔اس میں استثنا صرف ایک روایت كا ہے جسے الازرقی نے اپنی تاریخ میں دو مرتبہ درج كیا ہے (ج 1 ، 58 - 59 ۔ ج 2 ، 39)۔ تا ہم اس غیر معنعن روایت كو ایک اور روایت كی موجودگی مشكوک بنا دیتی ہے جس كی بعینہ یہی سند ہے اور جو معنعن ہے (ج 1 ، 57)۔
[17]۔یہ اور دیگر قرآنی آیات كے تراجم استاذ گرامی كی ’’البیان‘‘ سے لیے گئے ہیں۔
[18]۔یہ بات بائیبل كے درج ذیل بیانات سے واضح ہوتی ہے:
’’ اَبرام جب چھیا سی برس کے ہو ئے تو ہاجرہ سے اِسمٰعیل پیدا ہو ئے۔‘‘(كتاب پیدایش16: 16)
’’جب ان کا بیٹا اسحٰق پیدا ہو ا تو ابرا ہیم کی عمر سو سال تھی۔‘‘ (كتاب پیدایش21: 5)
[19]۔ابن كثیر كہتے ہیں كہ بائیبل كے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل كا ختنہ ایک ہی دن ہوا تھا۔ اس موقع پر حضرت اسمٰعیل 13 سال كے تھے، كیونكہ بائیبل كے مطابق حضرت ابراہیم كی عمر ختنہ كے وقت 99 سال تھی ( كتاب پیدایش 17: 24) اور حضرت اسمٰعیل كی پیدایش كے وقت وہ 86 برس كے تھے (كتاب پیدایش 16: 16)۔ ختنہ كے بعد ہی وہ اپنی والدہ كے ہمراہ مکہ بھیج دیے گئے تھے۔ اس صورت میں وہ كیونكر ایک طفل شیر خوار ہو سكتے ہیں۔ دیكھیے: ابوالفداء اسمٰعیل بن عمر بن كثیر ، البدایة و النہایة ، ج 1 ( بیروت: مكتبة المعارف ، تاریخ غیر مذكور) ، 156۔
[20]۔دیكھیے مثال كے طور پر: البخاری ، الجامع الصحیح ، ج 3 ، 1227 ، (رقم: 3184) ۔ النسائی ، السنن الكبرىٰ ، ج 5 ، 100 ، (رقم: 8379) ۔
[21]۔دیكھیے مثال كے طور پر:البخاری ، الجامع الصحیح ، ج 3 ، 1230 ، (رقم: 3185)۔
[22]۔دیكھیے مثال كے طور پر:الفاكہی ، أخبار مكة ، ج 5 ، 121 ، (رقم: 4)۔
[23]۔تالمود ، ایچ پولانو ، اردو ترجمہ: اسٹیفن بشیر ، طبع ثالث(گوجرانوالہ: مكتبہ عناویم،2010)،44 - 45۔
[24]۔ابن كثیر ، البداية و النهاية ، ج 1، 156۔
ـــــــــــــــــــــــــ