HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

شکرگزاری کا مزاج

محمد تہامی بشر علوی


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو شخص بندوں کا شکر ادانہیں کرتا، وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا[1]۔ شکر کا مزاج اصل میں پیدا ہوتا ہے، احساس کے ساتھ۔ یعنی آدمی میں خود پر ہونے والے انعامات محسوس کرنے کی اہلیت ہونی چاہیے۔

ایک انسان کی کوئی خدمت کر رہا ہو تو اس کی اتنی تربیت ضروری ہے کہ وہ دل میں اس کی اس خدمت کو محسوس کر سکے۔یہی احساس پھر شکریے کے مزاج میں ڈھل جاتا ہے۔ جس آدمی میں یہ خوبی پیدا نہ ہو سکے، وہ شکرگزار انسان نہیں بن سکتا۔اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنے کے لیے انسان کو اپنے غور و فکر کے انداز کو درست کرنے کی ضرورت ہو گی۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نوازشات کو بس اس زاویے سے دیکھے کہ کسی نے اس کے ساتھ بھلائی کی ہے۔آپ بازار میں جاکر چند روپے دے کر درجن کیلے لے آئے۔ دیکھنے میں آپ پر کسی نے کوئی احسان نہیں کیا، آپ نے رقم دی اور کیلے لائے قصہ ختم، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اگر کیلے آپ کی مارکیٹ تک لانے میں انسانوں کی خدمات شامل نہ ہوتیں ، تو آپ کو اتنی آسانی اور سہولت سے یہ سب اپنی مارکیٹ میں کبھی نہ مل پاتا۔ لوگوں نے یہ سہولت پہنچانے کے لیے محنت کی، پھل کہیں اگا اور محنت کے مراحل سے گزر کر آپ کو اپنے بازار میں میسر ہو گیا۔ اس خدمت پر لوگوں نے چند روپے بھی ضرور کمائے، مگر دیکھیے کہ ان چند روپوں کے عوض آپ کے لیے کی گئی خدمت کتنی بڑی ہے۔آپ لباس پہنیے اور یہ نہ سوچیے کہ ٹھیک ہے بس پیسے دے کر لے آیا، بلکہ سوچیے کتنے لوگوں کا تدبر اور محنتیں صرف ہونے کے بعداتنا عمدہ لباس آپ کو پہننے کے لیے بہ آسانی میسر آ گیا۔ سوچنے کا یہ اندازشکرگزاری کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ اس دور میں تو انسانوں نے محنت کر کے ہمارے لیے سہولتوں کے انبار لگا کر رکھ دیے۔ یہ ان لوگوں کا شکریہ کہ ان لوگوں کی محنت سے ہم یہ سب سہولتیں اپنے کام میں لا رہے ہیں۔ لوگ دوبئی چلے جائیں تو ان کا حال احوال معلوم کرنا ہمارے لیے کتنا مشکل ہوتا تھا۔ انسانوں کے ہی دماغ کھپے اور آج ہم موبائل فون کی سہولت سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کوئی کہیں بھی ہو آپ چند روپے صرف کر کے اس سے بہ آسانی بات کر سکتے ہیں۔

موبائل سے بات کرتے وقت ہمیں ان لوگوں کاشکرگزار رہنا چاہیے جن کی محنت سے ہمیں یہ سہولت میسر ہو رہی ہے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کو سہولت فراہم کرنے میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ نہ ہم نے کبھی کسی ایجاد کا سوچا اور نہ سوچنے کا کوئی ارادہ ہے۔لوگ مسلسل دماغ کھپا رہے، محنتیں کر رہے اور ہر روز ہمارے لیے نئی نئی سہولتیں پیدا کر کے زندگی کی دشواریاں دور کر رہے ہیں۔ ہم جتنا ان سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں ،یہ سہولتیں دینے والے لوگوں کے لیے دل سے شکرگزار بھی رہیں۔ جو لوگ کسی بھی قسم کی ہماری کوئی خدمت کر رہے ہیں، ہمیں ان کی خدمت کا احساس کر کے ان کا بہت شکرگزار رہنا چاہیے۔

اس وقت میں یہ گفتگو کر رہا ہوں تو یہ گفتگو ریکارڈ ہو رہی ہے ۔ اب ریکارڈنگ کے بعد یہ اس قابل ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا آدمی بھی اسے سن سکتا ہے، اسے دنیا کے کسی بھی حصے میں بھیجا جا سکتا ہے، وہاں بیٹھے لوگ آپ کی گفتگو سن سکیں گے ۔ آپ کی بات کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچانے کی سہولت ایسے ہی تو نہیں پیدا ہو گئی؟ یہ انسان کے برسوں کے تدبر کا نتیجہ ہے۔ ہمیں اس کا احساس بھی کرنا ہو گا اور انسانوں کا شکرگزار بھی رہنا ہو گا۔

آج میں نے یہ جو لباس پہنا ہوا ہے، ہمیں اندازہ نہیں کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ خود ہمارے بزرگ ، دادا ،پڑدادا اس قسم کے لباس سے محروم تھے۔ انسانوں نے یہ دور بھی دیکھا کہ بس جسم کے ساتھ کوئی کپڑا چپکایا اور کچھ کانٹے لگا دیے تاکہ وہ جسم کے ساتھ جڑے رہیں ۔اب تو ہم ایسے لباس کو پہننا تو چھوڑیے تصور میں لانا بھی مشکل سمجھتے ہیں۔آج پہننے کے لیے یہ جو جوتے ہمیں میسر ہیں، یہ پہلے لوگوں کو میسر نہیں تھے۔ لوگ بعض اوقات گھاس کے جوتے بنا کر اور بعض لکڑی کے جوتے بنا کرگزارا کرتے تھے۔ اور اس میں بھی بہت زیادہ چلنا ممکن نہیں ہوتا تھا ۔ ایسے تکلیف دہ جوتوں سے تولوگوں کے پاؤں زخمی ہو جایا کرتے تھے ۔ اب دیکھیے کہ یہ لوگوں نے ہماری کتنی خدمت کر دی ، انھوں نے محنت کی ، دماغ استعمال کیے اور ہمارے پہننے کے لیے کئی اقسام کے نہایت عمدہ جوتے تیار کر لیے۔

یہ دیکھیے آج ہم اپنی آواز لاؤڈا سپیکر کے ذریعے سے دور دور تک پہنچا سکتے ہیں ۔پہلے یہ ممکن نہیں ہوتا تھا، لوگ خود جا جا کر کسی کو پیغام دیتے تھے ۔ غور کیجیے تو ہمارے اردگرد آج سہولتوں کا دریا بہ رہا ہے اور ہم جی بھر کے ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جن جن لوگوں کی محنتوں سے ہمیں یہ سب میسر ہوا، ہمیں ان کا شکرگزار رہنا چاہیے۔ کچھ بھی نہیں تو کم از کم ہم غائبانہ ان کے لیے دعا تو کر سکتے ہیں کہ اے اللہ، جنھوں نے ہمارے لیے یہ سہولتیں اوریہ راحتیں پیدا کرلی ہیں ، تو ہماری طرف سے ان کے لیے بھلائی فرما دے۔

ہم جب گھر جاتے ہیں تو آپ کو کھانا بالکل تیار ملتا ہے۔ پکانے کے لیے آپ نے گھر میں کوئی مشینیں تو نہیں فکس کی ہوئی ہوتیں، یہ آپ کی خدمت پر مامور خواتین ہوتی ہیں جو گھر میں یہ محنت کر رہی ہوتی ہیں اورعمربھر آپ کی خدمت کر رہی ہوتی ہیں ۔ وہ اٹھتی ہیں صبح سویرے ، خود بعدمیں کھاتی ہیں اور پہلے ہمارے کھانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ ان کی محنت اور خدمت کا احساس کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ غور کیجیے تو گھر کی یہ خواتین آپ کی کتنی خدمت کر رہی ہوتی ہیں، ان کی ان خدمات کا احساس کرنا اور پھر ان کا شکریہ ادا کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔

ہمارے ہاں شکریہ ادا کرنے کی روایت سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ تو میں نے سنا ہے کہ کھانا اگر اچھا نہ ملے یا لیٹ ملے تو گالیاں بک دی جاتی ہیں، غصے میں الٹی سیدھی ہانک لی جاتی ہیں، یہ رواج تو ہمارے ہاں عام ہے، مگر اچھا کھانا وقت پر مل جانے پر شکریے کا کوئی رواج نہیں۔ آج جا کر آپ تلاش کرنا شروع کردیں ،کوئی ایسا خاوند مل سکے تو مجھے ضرور اس سے ملوائیں، جو اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرتا ہو ۔ یا جس نے کبھی کسی وجہ سے اپنی بیوی کا ایک بار ہی شکریہ ادا کیا ہو۔کبھی بیوی سے کہا ہو: بیگم، آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے کھانا وقت پر دے دیا۔ ایسے لوگ ہمارے ہاں ناپید ہو چکے ہیں ۔ کہیں احساس اور شکر گزاری کا مزاج دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔ یہی مزاج ہماری خواتین کا بھی ہے۔ خاوند محنت مزدوری کر کے ان کے رزق کا بندوبست کرتا، ان کے لیے چیزیں خرید کر لاتا ہے، لیکن وہ کبھی زبان سے شکریہ کا لفظ تک ادا کرنے کو تیار نہیں۔ خاوند بیوی کا شکریہ ادا کرنے سے شرماتا ہے اور بیوی خاوند کو شکریہ کہنے سے ہچکچاتی ہے۔ ہمیں اور کچھ بھی نہیں تو کم از کم یہ احساس تو ضرور کرنا چاہیے کہ ہمارے مزاج بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ انسانوں کے احسانات اور خدمات کا احساس ہی اصل میں خدا کے احسانات کو محسوس کرنے کے قابل بناتا ہے۔ جسے آنکھوں سے دیکھتے دیکھتے بندوں کی خدمات پر شکریہ ادا کرنا مشکل ہو، وہ اَن دیکھے خدا کے احسانات کو محسوس کیا کرتا ہو گا؟ وہ اس کا شکریہ ادا کیا کرتا ہو گا؟ 

خدا نے ہمیں وجود بخشا، زندگی عطا کی، دل، دماغ، آنکھ،کان ،ہاتھ اور یہ سب نعمتیں بخشیں، تو ہمیں ان سے فائدہ اٹھاتے وقت خدا کا شکریہ تو ادا کرتے رہنا چاہیے۔ کیاہم دیکھتے نہیں کہ ہمارے سامنے یہ جانور بڑی بڑی زبانیں رکھے ہوئے ہیں، وہ کبھی آپس میں یا آپ کے ساتھ گفتگو نہیں کر سکتے، وہ نہ مطالبہ رکھ سکتے ہیں، نہ کوئی شکایت کر سکتے ہیں۔ اِدھر ہمارے سامنے انسان کا ایک چھوٹا سا بچہ ہے، وہ گفتگو بھی کر رہا ہے، اپنی ضرورت کی چیزوں کا مطالبہ بھی کررہا ہے، کبھی کہہ رہا ہے آج مجھے پنسل چاہیے، آج مجھے یہ چاہیے اور وہ چاہیے۔ہم اپنی ضرورتیں ،اپنی تکالیف اور شکایات زبان کے ذریعے سے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے زبان بھی بخشی اور گفتگو کی صلاحیت بھی عطا کی۔

آج اگر ہم میں احساس و شکرگزاری کایہ مزاج نہیں ہے تو ہمیں محنت سے اپنے مزاج ایسے بنانے پڑیں گے۔ صبح و شام گھر میں ہماری جوخدمت ہو رہی ہے، ہمارے دوست احباب ہماری کوئی خدمت کر رہے ہیں، ہمارے دکان دار ہماری خدمت کر رہے ہیں، کسی کی مہارت سے ہمیں بھی فائدہ پہنچ رہا ہے، ہم کسی سے علم سیکھ رہے ہیں، کوئی سیاسی خدمت کر رہا ہے یا کوئی مذہبی خدمت کر رہا ہے تو ہمیں ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں گھر سے یہ عمل شروع کرنا ہو گا۔ بھائی بہنوں کے اور بہنیں بھائیوں کی شکر گزار بنیں۔ والدین اور اولاد ایک دوسرے کا شکریہ ادا کریں۔ میاں بیوی شکریے کا ماحول پیدا کریں۔ احساس اور شکرگزاری جس گھر کا نصیب بن جائے، یقین کیجیے وہ گھر بس جنت بن جاتا ہے۔ ہماری الجھنوں اور زندگی میں گھٹن کا ایک بڑاسبب یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا کوئی احساس ہی نہیں کرتے اور جب احساس نہیں کرتے تو شکریہ بھی ادا نہیں کرتے۔ ہمیں یہ عادت اپنانی چاہیے۔ اپنی نئی نسل کو اس کی تلقین کرنی چاہیے۔ ان کی تربیت میں ہم اس چیز کو شامل کریں تاکہ ہماری اس محنت سے ہماری آیندہ نسل شکرگزاروں کی نسل بن سکے۔ انسانوں کی اچھی تربیت میں ہم حصہ ڈال کر اپنے لیے صدقۂ جاریہ بنا سکتے ہیں۔ اور یہ کام بہت زیادہ مشکل بھی نہیں۔


برسوں سوکھی پھیکی زندگی جی جی کر ہم شکریہ کہنے سے شرما رہے ہیں۔ بس اس شرم سے ہمت کر کے لڑنا ہو گا اور اس معاملے میں تھوڑا بے شرم سا بننا پڑے گا۔ جب ایک بار یہ جھوٹی شرم راستے سے ہٹ گئی تو پھر ہمیں شکریہ ادا کرنے میں شرم محسوس نہیں ہو گی، بلکہ شکریہ ادا نہ کر کے ہمیں شرمندگی کا احساس ہو گا۔ پروردگار ہمیں معاف فرمائے کہ ہم عمدہ اخلاق سے اور اچھائیوں سے نامانوس ہوتے ہوتے اب ان سے شرمندہ بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے ایک کالج میں طلبا سے پوچھا: آپ میں سے کوئی بندہ بتائے جس نے کبھی اپنی ماں یا بہن کو شکریہ کا لفظ بولا ہو؟ یقین کیجیے کوئی ایک لڑکا بھی ایسا موجود نہیں تھا۔ پھر میں نے پوچھا: آپ میں کوئی ایسا ہے جس نے کبھی ماں یا بہن سے غصے میں بات نہ کی ہو؟ اس سوال کے جواب میں بھی کوئی لڑکا سامنے نہ آ سکا۔ احباب! یہ محض اس کلاس کے طلبا کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اللہ ہمیں معاف فرمائے، مجموعی طور پر ہمارا مزاج ہی اس قسم کا بن گیا ہے۔

ہم ناشکری کی طبیعت لے کر اس دنیا میں رہیں گے تو بس ایک مصیبت بن کر ہی رہیں گے، اور اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو یہ بھی ہمارے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی۔ ہمیں خدا اور اس کے بندوں کا شکر گزار بن کر جینا چاہیے۔ ایک مہذب انسان کی زندگی اس کے سوا نہیں ہو سکتی۔

________

[1]۔ مسند احمد۱۲، رقم۷۵۰۴۔’مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ‘۔

____________

B