HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت علی رضی اللہ عنہ (۷)

ابراہیم کی وفات

۱۰ ربیع الاول۱۰ھ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کی اٹھارہ ماہ کی عمر میں وفات ہوئی۔ آپ نے حضرت علی کو عالیہ(قبا )میں اپنے ڈیرے، مشربۂ ام ابراہیم بھیجا۔حضرت علی نے ابراہیم کی میت کو ایک ٹوکری میں ڈال کر گھوڑے کے آگے رکھا اور آپ کے پاس لے آئے۔آپ میت کو غسل دلا کر، کفن پہنا کر، جنازہ لے کر نکلے۔صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔محمد بن زید کے گھر سے ملحق کوچہ(دوسری روایت : جنت البقیع) میں ابراہیم کی تدفین ہوئی۔حضرت علی قبر میں اترے،اسے ہموار کیا اوراس پر مٹی ڈالی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر میں ہاتھ رکھا اور فرمایا: آنکھ نم ناک ہے،دل مغموم ہے، لیکن ہم وہی بات کریں گے جوہمارے رب کو ناپسند نہ ہو۔ابراہیم ہم تمھاری وفات پر دل گرفتہ ہیں۔



نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض وفات

ماہ صفر ۱۱ھ اختتام پذیر تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات اپنے آزاد کردہ حضرت ابو مویہہ سے فرمایا : مجھے حکم ہوا ہے کہ اہل بقیع کے لیے دعاے مغفرت کروں۔میرے ساتھ چلو۔ قبرستان پہنچ کرآپ یوں مخاطب ہوئے: السلام علیکم اے اہل قبور!مبارک ہو جس حال میں تم ہو۔یہ اس سے بہتر ہے جس میں اب لوگ مبتلا ہیں۔ایک کے بعد دوسرا فتنہ برپا ہو رہا ہے جیسے سیاہ اندھیری رات کے پہر گزر رہے ہوں۔آنے والا فتنہ گزرے ہوئے سے بدتر ہوتا ہے۔ پھر آپ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا:ابو مویہہ !مجھے دنیاوی خزانوں اور جنت کی کنجیاں دی گئیں پھر اپنے رب اور اس کی جنت میں جانے کا اختیار دیا گیا۔ میں نے رب سے ملاقات کو ترجیح دی۔آپ بقیع الغرقد سے لوٹے تو اس مرض کی ابتدا ہوئی جس سے آپ کی وفات ہوئی۔آپ اس میں تیرہ دن (یاسات دن) مبتلا رہے۔


حضرت عائشہ فرماتی ہیں:  جب آپ واپس آئے، میرے سر میں درد ہو رہا تھا۔میں نے ہائے میرا سر! کہا تو فرمایا: نہیں عائشہ ! میرا سر بھی دکھ رہا ہے (بخاری، رقم ۵۶۶۶۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۶۵۔ مسند احمد، رقم ۲۵۹۰۸)۔ جمعرات ۲۸صفر ۱۰ھ (۶۳۲ء )کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ کے ہاں تھے جب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔ درد کی شدت میں اضافہ ہو گیا تو آپ نے باقی ازواج مطہرات سے اجازت لی کہ حضرت عائشہ کے کمرے میں آپ کی تیمارداری کی جائے (بخاری، رقم ۳۰۹۹)۔ دو آدمیوں کے سہارے چلتے ہوئے آپ اس حال میں تشریف لائے کہ پاؤں گھسٹ رہے تھے۔ ایک طرف سے حضرت عباس بن عبدالمطلب نے تھام رکھا تھا،حضرت عائشہ نے دوسرے شخص کا نام نہیں بتایا۔حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں : وہ حضرت علی تھے (بخاری، رقم ۱۹۸)۔ دوسری روایت(بخاری، رقم ۶۸۶)میں ذکر ہوا، جب آپ کو غشی سے افاقہ ہوا تو دریافت فرمایا: کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی؟ پھرآپ کے ارشاد کے مطابق حضرت ابوبکر کی امامت میں نمازظہر شروع ہو گئی۔اسی اثنا میں آپ کی طبیعت مزید بہتر ہو ئی توآپ دو آدمیوں کے سہارے سے حجرۂ عائشہ سے مسجد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں نماز ادا فرمائی۔اس روایت میں بھی راویہ سیدہ عائشہ نے تھامنے والے ایک صحابی حضرت عباس کا نام لیا اور دوسرے صاحب کا نام نہ لیا جو حضرت علی تھے(بخاری، رقم ۲۷۴۱)۔ کچھ مواقع پرحضرت فضل بن عباس اورحضرت اسامہ آپ کو سہارا دینے میں شامل ہوئے ۔

مرض وفات میں حضرت علی آپ کی تیمار داری کر کے باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں ؟انھوں نے کہا:تن درست ہو رہے ہیں۔حضرت عباس بن عبدالمطلب ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہا: تین دن کے بعد تمھیں ڈنڈے کا یار سمجھ لیا جائے گا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے جانبر نہ ہو سکیں گے،ابھی جا کر آپ سے خلافت کی بات کرلے۔اگر ہمیں ملنے والی ہے تو معلوم ہو جائے اور اگر کسی اور کے بارے میں فیصلہ ہے تو آپ وصیت کر جائیں۔ حضرت علی نے کہا:اگر آج ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت مانگ لی اور آپ نے منع کر دیا تو لوگ آیندہ بھی کبھی نہ دیں گے۔ بخدا! میں آپ سے یہ مطالبہ ہر گز نہ کروں گا۔ اسی دن چاشت کے وقت آپ کی وفات ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے پاس سات دینار رکھوائے ہوئے تھے۔مرض وفات میں آپ کو یاد آیا تو حضرت عائشہ سے فرمایا: یہ علی کو بھجوا دو، اﷲکے نبی کے بارے میں کیا گمان کیا جائے گا اگر وہ یہ دینارلے کر اللہ سے جا ملے۔اس کے بعد آپ پر غشی طاری ہو گئی۔حضرت عائشہ کو بیماری کی مصروفیت میں بھول گیا، لیکن یاد آنے پر انھوں نے یہ درہم حضرت علی کو بھجوا دیے اور انھوں نے صدقہ کر دیے(المنتظم ابن جوزی: ص ۹۱۵۔ مسند احمد، رقم ۲۴۷۳۳)۔

حضرت عائشہ سے پوچھا گیا،لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے حق میں وصیت کی؟انھوں نے کہا: وفات کے وقت آپ کا سر میری گود میں تھا۔آپ نے پیشاب کرنے کے لیے طشت منگوایا اور  میری گود میں جھک کر لٹک گئے۔مجھے آپ کی جان نکلنے کی خبر بھی نہ ہو سکی تو آپ نے کب علی کووصی بنایا؟ (بخاری، رقم ۲۷۴۱۔ مسلم، رقم ۴۲۴۰۔ نسائی، رقم ۳۶۵۴۔ مسند احمد، رقم ۲۴۰۳۹)۔ ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں کہ آپ نے آخری وقت میں حضرت علی کو بلایا۔ انھوں نے آپ کو سینے سے لگایاہی تھا کہ آپ کی وفات ہو گئی۔

حضرت علی فرماتے ہیں:وفات سے کچھ دیر پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ورق لانے کا حکم دیا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اس میں دیر نہ لگ جائے۔میں نے عرض کیا: آپ فرمائیں، میں یاد رکھوں گا۔آپ نے نماز، زکوٰۃ اور غلاموں سے حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ذہبی کہتے ہیں:یہ حدیث موضوع ہے۔

خلیفۂ اول کا انتخاب

صحابۂ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمہ سے ذرا سنبھلے اور آپ کی تدفین کی فکر میں مصروف ہوئے تھے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اطلاع دی کہ انصار حضرت سعد بن عبادہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے بنو خزرج کی چوپال سقیفۂ بنوساعدہ میں جمع ہیں۔چنانچہ حضرت ابوبکر نے حضرت علی،حضرت زبیر بن عوام اورحضرت طلحہ بن عبیداللہ کو آپ کے پاس چھوڑا اور خود حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو لے کر سقیفہ پہنچے اور اعلان کیا کہ امیر قریش سے ہو گا اورانصار وزرا ہوں گے۔اوس کے حضرت حباب بن منذر نے تجویز پیش کی، ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمھارا۔ حضرت عمر نے حضرت حباب کو یاد دلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت فرمائی تھی، یہ حکم انصار کونہ دیا تھا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خلافت مہاجرین کے پاس رہے گی۔دونوں میں تکرار ہونے لگی تو خزرج کے حضرت بشیر بن سعد کھڑے ہوئے اور کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے تھے اورآپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ’الائمة من قريش‘، ’’خلفا قریش سے چنے جائیں گے‘‘ (مسند احمد، رقم ۱۲۸۳۵۔ مستدرک حاکم۔ رقم ۶۹۶۲) اس لیے قریش ہی خلافت کا استحقاق رکھتے ہیں۔ مجمع پریک لخت سکوت طاری ہوا تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ کے نام تجویزکیے۔ان دونوں نے اپنا رد عمل فوری ظاہرکیا، حضرت ابوبکر کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں نماز کا امام مقرر فرمادیا تھا اس لیے کوئی اور امارت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے حضرت عمر نے ان کی بیعت کی اورکہا: ہم ان قدموں کو کیسے پیچھے کر سکتے ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے کیا ہے۔ان کے بعد حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت بشیر بن سعد بیعت کے لیے آگے بڑھے پھر چاروں طرف سے لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔خلافت کے دعویٰ دار حضرت سعد بن عبادہ انصار کے قبیلے خزرج کے سردار تھے۔جب اسی قبیلے کے بشیر بن سعد نے ابو بکر کی بیعت کرنے میں سبقت کی تو اوس کے رئیس اسید بن خضیر نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ وہ بھی پیچھے نہ رہیں۔ حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور بنو ہاشم کے باقی مسلمانوں نے بیعت میں کچھ تاخیر کی۔


حضرت علی اور بیعت


 حضرت علی کی بیعت کے بارے میں متضاد روایتیں ہیں،حبیب بن ابو ثابت کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابوبکر کی بیعت کے لیے اس قدر جلدی میں دوڑے آئے کہ تہ بند باندھا نہ چادر اوڑھی۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حضرت عمر اور اکثر مہاجرین وانصارنے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی تو انھوں نے آواز دی :کہاں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد، زبیر اور آپ کے چچیرے اور داماد، علی ؟کیا آپ مسلمانوں کی جمعیت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں ؟ دونوں اصحاب آئے اورکہا: ہمیں ملامت نہ کریں پھر حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی(مستدرک حاکم، رقم ۴۴۵۷۔  السنن الکبریٰ بیہقی، رقم ۱۶۵۳۸)۔ تیسری روایت کے مطابق حضرت علی نے گلہ کیا کہ سقیفۂ بنوساعدہ کے اجتماع میں ان کو شریک نہیں کیا گیا تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ میں وہاں بیعت لینے کی غرض سے نہیں گیا تھا، بلکہ انصار و مہاجرین کا نزاع ختم کرانا مقصود تھا۔ اگر میں بیعت کو موخر کردیتا تو مرنے مارنے کی نوبت آ سکتی تھی۔آپ تجہیز و تکفین کے انتظامات میں مصروف تھے، آپ کو کیسے بلا لیتا۔تب حضرت علی کی شکایت رفع ہو گئی اور انھوں نے دوسرے ہی روز مسجد نبوی میں مجمع عام کے روبرو خلیفۂ اول کی بیعت کرلی۔ حضرت علی نے صراحت کی کہ وہ ابوبکر کو خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غار کے ساتھی تھے اور آپ نے اپنی زندگی ہی میں انھیں نماز کا امام مقرر فرمادیا تھا۔اس لیے ان کی بیعت میں جبر و اکراہ یاتقیہ کا دخل بتانا ان کے کمال ایمان اور شان اخلاص کے خلاف ہے اگرچہ ایسی روایت تاریخ میں در آئی ہے۔ زیاد بن کلیب کا کہنا ہے کہ حضرت عمر تلوار لے کر حضرت علی کے گھر پہنچے جہاں حضرت علی، حضرت طلحہ،حضرت زبیر اور کچھ مہاجرین تھے۔انھوں نے آواز دی:بیعت کے لیے نکلو یامیں گھر جلا دوں ؟ حضرت زبیر تلوار لے کر نکلے، مگر تلوار ان کے ہاتھوں سے گر گئی۔حضرت زبیر نے حضرت علی کی بیعت لینے پر اصرار کیا، لیکن حضرت عمر نے ان پر قابو پا لیااورپھر سب نے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی۔ زہری کا اصرار ہے کہ اجتماع سقیفہ کے وقت حضرت علی بیت فاطمہ میں بیٹھے رہے، انھوں نے، نہ بنوہاشم میں سے کسی نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی۔ چھ ماہ بعد جب سیدہ فاطمہ کی وفات ہوئی تولوگوں کی بے رخی محسوس کرتے ہوئے حضرت علی بیعت پر مائل ہوئے۔


جسدپاک کی تدفین


قضیۂ خلافت طے ہونے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین عمل میں آئی۔ حضرت علی، حضرت عباس، حضرت عباس کے بیٹوں حضرت فضل و حضرت قثم اور آپ کے آزادکردہ حضرت اسامہ اور حضرت شقران (اصل نام:حضرت صالح ) نے مل کربیری اور پانی سے جسد مبارک کو غسل دیا۔ حضرت علی نے آپ کو اپنے سینے سے لگا کر بٹھایا، حضرت عباس،حضرت فضل اورحضرت قثم کروٹ بدلنے میں شریک رہے، حضرت اسامہ اور حضرت شقران نے پانی ڈالا۔آپ کی قمیص جسم پر رہی، حضرت علی پانی جسم پر ملتے او ر کہتے جاتے: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ زندگی میں اوروفات کے بعدبھی کیا پاک و طیب ہیں ! فرماتے ہیں : آپ کے جسم پر کوئی نشان نہ تھا۔جوپانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پپوٹوں پر جمع ہوا حضرت علی نے اسے چوس لیا۔ بنوعوف بن خزرج کے حضرت اوس بن خولی نے حضرت علی سے درخواست کی کہ ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل میں شامل کیا جائے۔ چنانچہ ان کی اجازت سے وہ بھی حجرۂ مبارکہ میں آ کر بیٹھ گئے۔


 حضرت علی، حضرت فضل اور حضرت قثم قبر میں اترے اور جسد پاک کو اس میں اتا را۔حضرت اوس بن خولی بھی حضرت علی کی اجازت سے لحد میں اترے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں: میں نے اپنی انگوٹھی جان بوجھ کر قبر مبارک میں پھینک دی پھر اسے نکالنے کے لیے اس میں اترا تاکہ آپ کے پاس رہنے والا سب سے آخری آدمی بن جاؤں۔ حضرت علی کہتے ہیں، ان کی بات غلط ہے، سب سے آخر میں حضرت قثم بن عباس آپ کے پاس سے آئے۔

حضرت علی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیۂ مبارکہ یوں بیان کیا ہے،آپ زیادہ لمبے تھے نہ چھوٹے قد کے۔آپ کا سربڑا،بال سیدھے اور گھنے تھے،کانوں تک آتے۔ڈاڑھی بھری تھی،سینے کے بال لمبے تھے۔ ہتھیلیاں اور پاؤں موٹے تھے،کندھے چوڑے تھے،آنکھیں بڑی، سیاہ اور لمبی پلکوں والی تھیں،چہرہ سرخی مائل سفیداور کم گوشت والا تھا،گردن صراحی دار تھی۔چہرے پر پسینہ آتا تو موتیوں کی طرح چمکتا۔جب آپ چلتے تو اس طرح قدم اٹھاتے گویا نشیب میں اتر رہے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا خچر دلدل حضرت علی کے پاس آگیا۔اپنے دور خلافت میں وہ اس پر سوارہوتے رہے۔حضرت علی کی شہادت کے بعد وہ حضرت عبد اللہ بن جعفر کو مل گیا۔


عہد صدیقی


حضرت ابوبکر کے خلیفہ بننے کے بعدحضرت خالد بن سعید حضرت علی سے ملے اور کہا: اے ابو الحسن (علی)! اے بنی عبد مناف ! کیا تم خلافت میں مغلوب ہو گئے ہو؟حضرت علی نے کہا: تم اسے مغلوب ہونا کہتے ہو یا انتخاب خلافت سمجھتے ہو؟حضرت خالد نے کہا:جو لوگ تم پر غالب آئے ہیں تم سے زیادہ خلافت کے حق دار نہ تھے۔حضرت عمر پاس تھے،انھوں نے حضرت خالد بن سعید کو ڈانٹا اور حضرت ابوبکر کو اس گفتگو کی خبر دی، لیکن انھوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔جب بنوہاشم کے تمام افراد نے بیعت کر لی توحضرت خالد بن سعید نے بھی دست بیعت بڑھادیا۔


سیدنا ابوبکر کی بیعت ہو چکی تو حضرت ابوسفیان نے کہا:میں ایسا غبار اٹھتے دیکھ رہاہوں جسے ایک خون ریزی ہی رفع کر پائے گی۔عبدمناف کی اولاد! ابوبکر کا تمھارے معاملات سے کیا تعلق؟ کم زور اور پست علی و عباس کہاں ہیں ؟اقتدار قریش کی ایک چھوٹی سی شاخ میں کیوں ؟ پھر علی کو دعوت دی،ہاتھ پھیلاؤ، میں تمھاری بیعت کر لیتا ہوں۔بخدا!میں پیادوں اور گھڑسواروں سے مدینہ بھر دوں گا۔ حضرت علی نے ڈانٹ کر کہا:ایسا کر کے آپ فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں، ابھی تک اسلام کے لیے برا ہی سوچتے ہیں ؟آپ کی خیرخواہی کی ضرورت نہیں۔

حیات نبوی  میں اموال خمس کی تقسیم کی ذمہ داری حضرت علی پر تھی۔حضرت ابوبکر نے ان کا منصب برقرار رکھا۔دینی و انتظامی امور میں بھی وہ خلیفۂ اول کے مشیر (رکن مجلس شوریٰ)رہے۔

فتنۂ ارتداد

خلافت صدیقی کے آغاز میں ارتداد کا طوفان اٹھا۔ بنو اسد،بنو غطفان،بنوطے،بنو لیث اور بنو مدلج کے قبائل نے ایک وفد مدینہ بھیجا جس نے زکوٰۃ نہ دینے کا اعلان کیا۔حضرت ابوبکر نے حضرت عمر،حضرت عثمان، حضرت علی،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت طلحہ،حضرت زبیر اورحضرت سعد بن ابی وقاص سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا: جب تک حالات پرسکون نہیں ہوتے اور مدینہ کے گرد و نواح سے فوجیں چھٹ نہیں جاتیں زکوٰۃ لینے پر اصرار نہ کیا جائے۔حضرت ابوبکر نے اس موقع پر ایک پرجوش خطبہ دیا کہ اگر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دی جانے والی اونٹ کے زانو باندھنے والی ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا تو میں قبول نہ کروں گا۔مرتدین کے وفد نے واپس جا کر پڑوسی قبائل کو خبردی کہ اس وقت مدینہ میں بہت کم آدمی ہیں، حملہ کرنے کا اچھا موقع ہے۔حضرت ابوبکر کو بھی احساس تھا کہ جیش اسامہ روانہ کرنے کے بعد شہر کی حفاظت کے لیے بہت کم نفری موجودرہ گئی ہے۔ انھوں نے مدینہ آنے والے راستوں پر پہرہ دار دستے مقرر کر دیے۔حضرت علی، حضرت طلحہ،حضرت زبیر بن عوام،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اورحضرت عبداللہ بن مسعود ان دستوں کے سردار مقرر ہوئے۔ قابل غور بات ہے کہ اگرحضرت علی نے بیعت نہ کی ہوتی تو وہ ان دستوں میں شامل کیسے ہوتے؟ حضرت ابوبکر نے اہل مدینہ کو مسجد نبوی کے آس پاس رہنے کی تلقین کی۔ تین ہی دن کے بعد عبس،ذبیان،اسد اور کنانہ کے قبائل نے مدینہ پر چڑھائی کر دی تو انھی دستوں نے انھیں شہر میں گھسنے سے روکا۔پھرحضرت ابوبکر خود کمک لے کر آئے اور حملہ آوروں کو مار بھگایا۔


حضرت اسامہ کو روانہ کرنے کے بعد حضرت ابوبکر باغی بدوؤں سے مقابلہ کرنے کے لیے خودلشکر لے کرذوالقصہ پہنچے جومدینہ سے دن بھر کے سفر پر واقع ہے۔حضرت علی نے ان کی اونٹنی کی مہا رتھامی اور کہا: خلیفۂ رسول اللہ!کہاں جا رہے ہیں ؟میں آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمائی تھی:اپنی تلوارسنبھال لیں اورہمیں اپنی جان کا صدمہ نہ دکھائیں۔مدینہ واپس چلے جائیں اور بدوؤں سے لڑنے کے لیے اپنے لڑاکاجاں بازوں کو بھیج دیں۔واللہ!اگر ہمیں آپ کا رنج دیکھنا پڑا تو اسلام کا نظام کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔چنانچہ حضرت ابوبکر مدینہ لوٹ آئے۔

جنگ یمامہ کے اسیروں میں سے بنو حنفیہ کی خولہ بنت جعفر حضرت علی کے حصہ میں آئیں۔انھی سے محمد بن حنفیہ نے جنم لیا۔

جنگ ثنی اور جنگ زمیل:مرتدوں کے ایک سردارربیعہ بن بجیر نے مصیخ اور حصید میں اپنی فوجیں جمع کر رکھی تھیں، حضرت خالد بن ولید نے اس پر حملہ کیا۔ ربیعہ بن بجیر کی بیٹی صہباان کی قید میں آئی تو انھوں نے حضرت ابوبکر کو بھیج دی، حضرت علی نے اسے خرید لیا،اسی سے عمر اور رقیہ پیدا ہوئے۔


حضرت فاطمہ کی وفات


حضرت فاطمہ اور حضرت عباس میراث نبوی میں سے فدک اور خیبر کا حصہ مانگنے حضرت ابوبکر کے پاس گئے(بخاری، رقم ۶۷۲۵۔ مسلم، رقم ۴۶۰۲)۔ تو انھوں نے فرمایا:آل محمد کے لیے اللہ کے مال میں سے کھانے پینے کے خرچ سے زیادہ لینا جائز نہیں (مسلم، رقم ۴۶۰۴۔ نسائی، رقم ۴۱۴۶۔ مسند احمد، رقم ۵۸)۔ واللہ!میں عہد نبوت میں ان کو دیے جانے والے وظائف میں ہر گزتبدیلی نہ کروں گااور وہی طریقہ جاری رکھوں گا جس پر آپ نے عمل فرمایا (بخاری، رقم ۳۷۱۲۔ مسلم، رقم ۴۶۰۳۔ ابوداؤد، رقم ۲۹۶۸۔ مسند احمد، رقم ۵۵)۔ ان کا مطلب تھا کہ خیبر و فدک کی آمدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکاری اخراجات اور امورمملکت کے لیے پیش آنے والے اتفاقی مصارف کے لیے خاص تھی۔ حضرت فاطمہ اس بات پر ناراض ہو گئیں اوران سے بول چال ترک کردی، البتہ جب وہ علیل ہوئیں توحضرت ابوبکران کی عیادت کوگئے اور انھیں راضی کیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جب حضرت علی خود خلیفہ بنے تو انھوں نے بھی فدک میں سے حضرت فاطمہ اور حضرت عباس کی اولادوں اور ازواج النبی میں سے کسی کوکچھ نہ دیا۔

حضرت فاطمہ کے مرض میں حضرت ابوبکر کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس ان کی مسلسل تیمار داری کرتی رہیں۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان ۱۱ھ کوحضرت فاطمہ کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی اسی طرح نعش بنائی جیسے حبشہ میں دیکھی تھی۔ انھوں نے کھجور کی چند تر ٹہنیوں کے پتے کاٹ کر چارپائی پر اس طور سے رکھ دیں کہ درمیان سے ابھری ہوئی تھیں پھر ان پر کپڑا ڈال دیا۔پھر ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت علی اور حضرت ابورافع کی بیوی حضرت ام سلمٰی کے ساتھ مل کر  ان کوغسل دیا (مستدرک حاکم ، رقم ۴۷۶۹)۔ حضرت علی نے البتہ حضرت ابوبکر کو اطلاع دیے بغیر راتوں رات ان کی تدفین کر دی (بخاری، رقم ۴۲۴۰۔ مسلم، رقم ۴۶۰۱۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۷۶۴)۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب نے جنازہ پڑھایا اور حضرت علی،حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس نے میت قبر میں اتاری۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان،حضرت زبیر اور عبدالرحمٰن بن عوف حاضر ہوئے اور حضرت ابوبکر نے جنازہ پڑھایا۔

حضرت فاطمہ کی وفات کے بعدحضرت علی کو حضرت ابوبکر سے صلح اورتجدید بیعت کا خیال آیا۔انھوں نے حضرت ابوبکر کو گھر بلایا اور انتخاب خلافت میں شامل نہ کرنے اورمیراث نبوی سے محروم کرنے کا شکوہ کیا۔حضرت ابوبکر رونے لگ گئے اورکہا: میں نے جو کچھ کیا،اسوۂ رسول پر عمل کرتے ہوئے کیا۔ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد حضرت ابوبکر منبر پر چڑھے اور حضرت علی کی شان و فضیلت بیان کی۔حضرت علی آگے بڑھے اور ان کی بیعت کی۔ ابن کثیر کہتے ہیں : یہ بیعت ثانیہ میراث کے مسئلہ پرحضرت ابو بکر اورحضرت فاطمہ میں ہونے والی شکر رنجی دور کرنے کے لیے کی گئی۔گذشتہ چھ ماہ میں حضرت علی حضرت ابو بکر کی اقتدا میں نماز پڑھتے رہے اور ان کے مشوروں اور ان کی مہمات میں شامل ہوتے رہے تھے۔ مزید برآں حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر کو جائز خلیفہ اور امیر المومنین مانتے ہوئے فدک کا مقدمہ ان کے سامنے پیش کیا تھا۔  


حضرت امامہ بنت ابوالعاص سے نکاح

۱۲ھ میں حضرت علی نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی حضرت امامہ سے شادی کی۔ وہ آپ کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب کی صاحب زادی تھیں۔ سیدہ خدیجہ کے بھانجے حضرت ابو العاص ان کے والد تھے جو ۷ھ میں مسلمان ہوئے۔ابن کثیر کہتے ہیں :ہم نہیں جانتے تب وہ زندہ تھے یا وفات پا چکے تھے۔


عمل قوم لوط کی حد


حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر کوخط لکھا کہ انھوں نے ایک عرب کو دوسرے مرد سے اسی طرح نکاح کرتے دیکھا ہے جس طرح عورت سے کیا جاتا ہے۔حضرت ابوبکرنے حضرت علی سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا:  دنیا میں ایک ہی گروہ ،حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے یہ فعل کیا تو اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش برسا  دی۔ میرے خیال میں اس شخص کو قتل کر کے اس کی لاش جلا دینی چاہیے ۔ دیگر صحابہ بھی اس راے سے متفق ہو گئے توحضرت ابوبکر نے یہ حد جاری کر دی۔ 


حضرت ابوبکر کا حضرت عمر کو خلیفہ مقرر کرنا


حضرت عائشہ فرماتی ہیں:حضرت علی اور حضرت طلحہ حضرت ابوبکر کے آخری وقت ان کے پاس آئے اور پوچھا: آپ نے کسے جانشین مقرر کیا ہے؟ انھوں نے بتایا:عمر کو، تو وہ بولے :اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟حضرت ابوبکر نے کہا:تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو؟میں کہوں گا: میں نے مسلمانوں پر ان کے بہترین شخص کو خلیفہ نامزد کیا (طبقات ابن سعد:ذکر استخلاف عمر)۔ دوسری روایات اس کے برعکس ہیں ۔حضرت ابوبکرنے مرض الموت میں گھر کے روشن دان سے لوگوں سے سوال کیا:میں نے اپنے جانشین کے بارے میں وصیت کی ہے ۔ کیا تم اس پر رضامند ہو؟حاضرین نے اعلان کیا: ہم راضی ہیں۔حضرت علی اٹھے اور فرمایا:ہم یہی پسند کرتے ہیں کہ عمر اگلے خلیفہ بنیں(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم  ۳۲۶۸۳)۔ کچھ لوگ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی برائی کر رہے تھے۔حضرت علی کو پتا چلا تو حضرت ابوبکرکی مدح کرنے کے بعدفرمایا:ان کے بعدعمر بن خطاب والیِ خلافت ہوئے۔کچھ لوگ ان سے راضی تھے اور کچھ ناپسند کرتے تھے۔ میں انھیں پسند کرنے والوں میں سے تھا(کنز العمال:  ۳۶۱۴۰)۔


عہد فاروقی


۱۳ھ میں جس روز حضرت عمرفاروق خلیفہ منتخب ہوئے اسی دن حضرت علی کو منصب قضا کی ذمہ داری سونپ دی۔وہ مجلس شوریٰ میں بھی شامل تھے۔ دوسرے ممبر حضرت عثمان،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت زبیر،حضرت طلحہ اور حضرت سعد تھے۔حضرت عمر نے حضرت علی کے کہنے پر ایک زانیہ پرحد جاری نہ کی کیونکہ وہ پاگل تھی۔حضرت عمر کواس بات کا علم نہ تھا۔حضرت علی نے ایک حاملہ پر بھی حد جاری کرنے سے روکا۔تب حضرت عمر نے کہا:  عورتیں علی جیسے کوجنم دینے سے عاجز آ گئی ہیں۔اگر علی نہ ہوتاتو عمر ہلاک ، برباد ہو  جاتا۔ ایک عورت نے مرد کے کپڑوں پر انڈے کی سفیدی پھینک کر دست درازی کا الزام لگا دیا۔حضرت عمر نے حضرت علی سے مشورہ طلب کیا۔انھوں نے مردکے کپڑوں پر ابلتا پانی ڈالا تو انڈے کی سفیدی نمایاں طور پر نظر آنے لگی۔حضرت عمر نے حضرت علی کے مشورے پر شراب خور پراسی درے کی تعزیر جاری کی۔ ان کا کہنا تھا : نشے میں آکر شرابی بک بک کرتا ہے اور جھوٹے الزام لگاتا ہے ۔ اس لیے اسے اسی درے مارے جائیں۔ 


حضرت علی نے ایک بار حضرت عمر سے پوچھا:آپ نے خالد کو معزول کیوں کیا تھا؟ عمر نے جواب دیا،انھوں نے بڑے بڑے لوگوں اور شعرا پر مال صرف کرناشروع کر دیا تھا۔حضرت علی نے کہا: آپ انھیں مالی معاملات سے الگ کر دیتے اور فوج کی سربراہی پر رہنے دیتے۔حضرت عمر نے کہا:وہ اس پر راضی نہ ہوتے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی سے کہا:مجھے خالد کی معزولی پر ندامت ہے۔

حضرت علی نے حضرت عمر کو مدینہ کے نواح میں بھاگتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: امیر المومنین !کہاں جا رہے ہیں ؟بتایا:صدقے کا ایک اونٹ بدک گیا ہے، اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔آپ نے تو اپنے بعد آنے والے خلفا کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔حضرت علی نے کہا۔

ایک بار حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی بیت المال کے اونٹوں کے باڑے میں گئے۔ حضرت عثمان لکھنے کے لیے سائے میں بیٹھ گئے، حضرت علی ان کے سرپر کھڑے ہو کر لکھوانے لگے۔ حضرت عمر سخت گرمی میں دو سیاہ چادریں اوڑھے دھوپ میں کھڑے تھے۔وہ صدقات کے اونٹوں کی تعداد،ان کے رنگ اور دانتوں کی تعداد بولتے اور حضر ت علی لکھواتے جاتے۔اس موقع پر حضرت علی نے حضرت عثمان سے کہا: کتاب اللہ میں حضرت شعیب  کی بیٹی کا بیان ہے: ’يا ابت استاجره ان خير من استاجرت القوي الامين‘، ’’اباجان! اس شخص کو اجرت پر رکھ لیجیے،یقیناًبہترین انسان جسے آپ ملازم رکھ سکتے ہیں قوی اور امین ہی ہو سکتا ہے‘‘۔پھر حضرت عمر کی طرف اشارہ کر کے کہا:یہی قوی و امین ہیں۔ایک اور موقع پر حضرت علی نے فرمایا:میں نے عمر کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، ان کے تہ بند پر اکیس پیوند لگے ہوئے تھے، ایک چمڑے سے لگایا گیا تھا۔


جہاد عراق


۱۴ھ کی ابتدا میں حضرت عمر فوج لے کر مدینہ سے نکلے اور صرار کے قدیم کنویں پر پہنچ کر اسے ترتیب دیا۔حضرت عثمان نے منزل کا پوچھا تو بتایا کہ وہ عراق جانا چاہتے ہیں۔حاضرین نے کہا:آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ حضرت عمر نے کہا: میرا جانا اصحاب راے سے مشورے پر موقوف ہے۔چنانچہ حضرت علی کو جنھیں وہ مدینہ پر نائب امیر مقرر کر آئے تھے،مشورہ کرنے کے لیے طلب کیا،حضرت عمر نے مقدمۂ فوج سے حضرت طلحہ کو اور میمنہ و میسرہ سے حضرت زبیر اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف کو بھی بلایا۔شوریٰ کی اکثریت نے حضرت عمر کوسفر جہادجاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا:اگر فوج نے شکست کھائی تو وہ آپ کی ہزیمت کی مانند نہ ہوگی اور اگر آغاز کار ہی میں آپ نے شہادت پائی تو اہل ایمان تکبیر پڑھ سکیں گے نہ ’لا الٰه‘ کی شہادت دے سکیں گے۔ ان کی راے تھی: کسی دوسرے جرنیل کو کمان سونپ کر مدینہ لوٹ جائیں۔ انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کا نام بھی تجویز کیا۔مدینہ واپسی سے پہلے حضرت عمر نے فوج کا معاینہ کیا،کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے تو منہ پھیر لیا اور کہا: عربوں میں مجھے ان لڑکوں سے زیادہ برا کوئی نہیں لگا۔ حیرت کی بات ہے،اس گروپ میں ایک سودان بن حمران تھا جس نے سیدنا عثمان کی شہادت میں حصہ لیا، دوسرا ابن ملجم تھا جس نے سیدنا علی کو شہید کیا، تیسرا معاویہ بن حدیج تھاجس نے قصاص عثمان کے بہانے مسلمانوں میں تلوار سونتی اور چوتھا حصین بن نمیر تھا جوحضرت علی سے جنگ کرنے میں پیش پیش تھا۔


حضرت عمر کا سفر شام و فلسطین


جنگ اجنادین میں شکست کھانے والے رومی جرنیل ارطبون (اطربون،Tribunus)نے حضرت عمرو بن عاص کوخط لکھا کہ اجنادین کے بعد اب آپ فلسطین کا کوئی شہر فتح نہیں کرسکتے۔ہاں کوئی سہ حرفی نام رکھنے والا ہی اسے زیر کر سکتا ہے۔ حضرت عمرو نے سمجھ لیا کہ یہ حضرت عمر ہی ہوں گے۔انھوں نے حضرت عمر کو بلا بھیجا۔حضرت عمر شام کے سفر پر نکلے تو حضرت علی نے کہا: آپ خود کہاں جارہے ہیں ؟ کسی جھگڑالو دشمن کا سامنا کرنا چاہتے ہیں ؟ حضرت عمر نے کہا:میں عباس کی وفات سے پہلے جہاد کی طرف سبقت کرنا چاہتا ہوں۔عباس نہ رہے تو تمھاری معرکہ آرائیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔یہ امر واقعی ہے کہ حضرت عباس عہد عثمانی کے چھٹے سال فوت ہوئے اور تبھی فتوحات کا سلسلہ رک گیا(طبری۲/ ۴۴۹۔ المنتظم ابن جوزی۱۰۳۷)۔ سفر شام کادوسرا سبب بیت المقدس کا محاصرہ بنا۔شوال ۱۵ھ (نومبر ۶۳۶ء ) میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو شہر والے اس شرط پر شہر چھوڑنے پر آمادہ ہوئے کہ امیرالمومنین خود آ کر معاہدۂ صلح کریں۔ حضرت عمر نے اصحاب شوریٰ سے مشورہ کیا۔حضرت عثمان نے کہا:مت جائیں تاکہ اہل کفر کی تحقیر وذلت ہو۔ حضرت علی نے سفر کرنے کا مشورہ دیا تاکہ مسلمانوں کے لیے بیت المقدس کامحاصرہ جاری رکھنا سہل ہو جائے۔ حضرت عمر نے حضرت علی کا مشورہ قبول کیا اور انھیں مدینہ کا قائم مقام امیر مقرر کر کے مع لشکر(اپریل ۶۳۷ء میں) شام روانہ ہو گئے۔

ایک موقع پر حضرت عمر نے حضرت علی کو سپہ سالار بنا کر شام بھیجنا چاہا، لیکن حضرت علی آمادہ نہ ہوئے۔


دیوان وظائف


اسی سال حضرت عمر بن خطاب نے وظیفوں کا رجسٹر (دیوان) بنانا چاہا توحضرت علی اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے مشورہ دیا،دیوان اپنے نام سے شروع کریں۔حضرت عمر نے کہا:میں اس کی ابتدا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاعباس سے کروں گا پھر آپ سے قرابت کی بنیاد پرآپ کے اعزہ کو ترتیب دوں گا۔اسی موقع پر انھوں نے عامۃ المسلمین سے دریافت کیا،مجھے اللہ نے تجارت کے ذریعے سے مال دار کر رکھا تھا،اب تم نے مجھے امور خلافت میں مصروف کر دیا ہے۔تمھاری کیا راے ہے، میرے لیے بیت المال سے کچھ لینا جائز ہے؟ حضرت علی بھی موجود تھے تاہم خاموش رہے۔ سب لوگوں نے وظیفہ لینے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت عمر نے حضرت علی سے پوچھا:  تم کیا کہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: اس قدر ہی لے سکتے ہیں جتنا آپ کے لیے اور آپ کے کنبے کے لیے عام رہن سہن کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہو۔ سب لوگوں نے حضرت علی کی بات کی پرزور تائید کی۔ چنانچہ وہ حضرت ابوبکر کا مقررہ وظیفہ لیتے رہے۔بعد میں ان کی ضرورتیں بڑھ گئیں توحضرت عثمان،حضرت علی،حضرت طلحہ اورحضرت زبیر نے آپس میں مشورہ کیا کہ امیرالمومنین کا وظیفہ بڑھانا چاہیے۔ انھوں نے ان کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ سے کہا کہ ہمارا نام لیے بغیر یہ بات ان سے کریں۔حضرت عمر غصے میں آ گئے اور کہا:مجھے یہ مشورہ دینے والوں کا نام بتاتی تو میں ان سے بری طرح پیش آتا۔ میں اسی خوراک اور لباس کے ساتھ گزارا کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تھا۔


مال غنیمت کی تقسیم اور آمدن کا حساب

قادسیہ و دمشق کی فتوحات اور عراق کے دیہات (سواد)سے صلح کے معاہدے ہوجانے کے بعد حضرت عمر نے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں صحابہ سے مشورہ لیا۔ حضرت عمر اور حضرت علی کااس پر اتفاق تھا کہ چار حصے اہل سپاہ میں تقسیم کیے جائیں اورپانچواں حصہ (خمس )اللہ و رسول کے واسطے سے غربا و یتامیٰ، مہاجرین اور رشتہ داروں میں بانٹ دیا جائے۔اس کے برعکس جزیہ کلی طور پر ان لوگوں پرصرف کیا جاتا ہے جوذمیوں کی حفاظت کریں۔ اس میں سے خمس نہیں نکالا جاتا۔


حضرت عمر نے بنوتغلب کے عیسائیوں سے لیے جانے والے ٹیکس کو جزیہ کے بجاے صدقہ کانام حضرت علی کے مشورہ سے دیا۔

حضرت عمر نے بیت المال میں آنے والے مال ودولت کا حساب رکھنے کے لیے رجسٹر بنانے کا مشورہ لیا تو حضرت علی نے کہا: آپ ہر سال جمع ہونے والے مال کوبانٹ دیا کریں اور کچھ باقی نہ رکھیں۔حضرت عثمان نے فرمایا: میرے خیال میں بہت مال اکٹھا ہو اکرے گا جو سب مسلمانوں کے لیے کافی ہو گا۔ اگر حساب نہ رکھا جائے گاتوپتا نہیں چل سکے گا کہ کس کوملا اور کسے نہیں ملا۔حضرت ولید بن مغیرہ نے مشورہ دیا:امیر المومنین !میں شام گیا تو دیکھا کہ وہاں کے بادشاہ دیوان مرتب کرتے ہیں اور فوجوں کا حساب رکھتے ہیں۔حضرت عمر نے ان کا مشورہ قبول کیا۔

حضرت عمر نے حضرت علی کو ینبع کے مقام پر قطعۂ اراضی عطا کیا۔ یہ زمین زرخیز تھی ، ایک قدرتی چشمے سے سیراب ہونے کی وجہ سے اس سے معقول آمدن حاصل ہوتی تھی(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۷۰۰)۔ 


فتح مدائن


 صفر۱۶ ھ (مارچ ۶۳۷ء ):مدائن(Ctesiphon) فتح کرنے کے بعدجیش اسلامی کے کمانڈر حضرت سعد بن ابی وقاص نے جنگ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت اورخمس مدینہ ارسال کیے۔ کسریٰ (خسرو) کی تلوار، اس کا قیمتی غلاف اور آرایشی سونا امیر المومنین حضرت عمر کو پیش کیے گئے تو فرمایا: جس قوم نے یہ سب بے کم و کاست پہنچا دیا ہے،یقیناً امانت دار ہے۔حضرت علی نے جواب دیا: آپ نے اپنادامن پاک رکھا ہے اس لیے آپ کی رعیت بھی پاک باز ہے۔اگر آپ عیش و عشرت میں پڑ جاتے تو عوام بھی حرص و آز میں پڑ جاتے۔ حضرت سعد نے خمس میں ایک بیش قیمت ریشمی قالین ’بہار خسروی‘بھی بھیجا جس پر سونے، موتیوں اور جواہرات سے ایران کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ ساٹھ مربع گز کے اس قالین کو شاہان خسروی سردیوں میں بادہ خواری کے لیے استعمال کرتے۔ اس پر نشست سجاتے تو لگتا کہ کسی باغ میں بیٹھے ہیں۔ حضرت سعد کو سمجھ نہ آیا کہ قالین کو کیوں کر تقسیم کریں،آخرکار سپاہیوں سے درخواست کی کہ اپنا تین چوتھائی حصہ چھوڑ دیں اور دوسری نادر غنیمتوں کی طرح قالین کو سالم ہی مدینہ بھیج دیا۔حضرت عمر نے غنائم بانٹے، قالین دیکھ کر سوچ میں پڑ گئے۔ صحابہ سے مشورہ کیا۔کسی نے کہا کہ اس کو اپنے پاس رکھ لیں، کسی نے دے ڈالنے کی راے دی۔ حضرت علی کی بے ثبات دنیا سے بے نیازی دیکھیے، مشورہ دیا: اس دنیا میں وہی کچھ آپ کا ہے جو آپ نے کسی کو دے دیا، پہن کر استعمال کرلیا یا کھا کر ختم کر دیا۔اگر آپ نے قالین کو اسی شکل میں برقرار رکھا تو کل کلاں کوئی شخص استحقاق کے بغیر ہی اس کا مالک بن بیٹھے گا۔ حضرت عمر کا تقشف ملاحظہ ہو: اس تجویز کو تسلیم کیا اور فی الفور اس قالین کے پرزے پرزے کر کے لوگوں میں بانٹ دیے۔ قالین کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ حضرت علی کے حصے میں آیا ہوامعمولی ٹکڑا بیس ہزار دینار میں بکا۔


اسلامی کیلنڈر کی ابتدا


 اپنی خلافت کے اڑھائی سال بعد۱۶ھ میں حضرت عمر نے حضرت علی کے مشورے سے تاریخ لکھنا شروع کی۔انھوں نے صحابہ کو جمع کر کے مشورہ لیا،ہم اپنے مہ و سال کا حساب (یعنی کیلنڈر کی ابتدا) کس دن سے کریں؟ حضرت علی نے جواب دیا، اس روز سے جب رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور شرک کی سرزمین کو چھوڑا۔


ام کلثوم بنت علی کانکاح


 ۱۷ھ میں حضرت عمر نے حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کی بیٹی حضرت ام کلثوم سے شادی کی۔ قبل ازیں وہ ام کلثوم بنت ابوبکر کو نکاح کا پیغام بھیج چکے تھے۔ انھوں نے یہ کہہ کرانکار کر دیا تھاکہ عمر کٹھن زندگی گزارتے ہیں اور عورتوں پر سختی کرتے ہیں۔سیدہ عائشہ کے کہنے پرحضرت عمرو بن عاص حضرت عمر سے ملے اور کہا: میں اس سے بہتر رشتہ تجویز کرتا ہوں، ام کلثوم بنت علی۔ ان سے شادی کر کے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزہ میں شامل ہو جائیں گے۔ حضرت علی نے کہا: ام کلثوم تو ابھی بچی ہے۔حضرت عمر نے کہا: ابوالحسن !آپ اسے بیاہ دیں،میں اس کی تکریم کروں گا۔ان کے اصرار کو دیکھتے ہوئے حضرت علی نے چالیس ہزار مہر کے عوض نکاح کر دیا۔حضرت عمر نے مہاجرین کی ایک مجلس میں یہ کہہ کر خوشی کا اظہارکیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزقیامت میرے نسب اور سسرال کے علاوہ تمام نسبی و سسرالی رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی۔ام کلثوم بنت علی سے حضرت عمر کے دو بچے رقیہ اور زید (اکبر) پیدا ہوئے۔


طاعون عمواس


۱۸ھ میں شام (اب فلسطین)کے علاقے عمواس میں طاعون کی وباپھوٹی تو حضرت عمر نے خود وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ کعب احبار نے ان سے کہا:عراق سے دورے کی ابتدا نہ کرناجو لاعلاج بیماریوں کا گڑھ ہے اور وہاں شیطان اپنے سینگ سمائے ہوئے ہے۔ حضرت علی بولے:کوفہ ہجرت کے بعد ہجر ت کرنے کی جگہ ہے۔ایک دن آئے گاکہ ہر مسلمان وہاں جانے کی آرزو کرے گا۔ روانہ ہونے سے پہلے حضرت عمر نے حضرت علی کو مدینہ کاقائم مقام حاکم مقرر کیا۔


جنگ نہاوند


 ۲۱ھ (۶۴۲ء ) میں جنگ نہاوند سے پہلے حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ کیا،میرا ارادہ ہے کہ فوج کے ساتھ آگے جاؤں اورکوفہ و بصرہ کے بیچ ڈیرا ڈال کر فوجیوں کا پشتی بان بنوں۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے کہا: اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنائیں۔ حضرت عثمان نے راے دی، شام،یمن،مکہ اور مدینہ سے فوجیں جمع کر کے خوددشمن کا مقابلہ کریں۔ آپ کے نکلنے سے غنیم کا عدد کثیر بھی کم معلوم ہو گااور آپ ہی غالب رہیں گے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے محاذ جنگ پر نہ جانے کامشورہ دیا۔ حضرت علی کی باری آئی توانھوں نے کہا: امیرالمومنین !آپ کی مثال موتیوں کی لڑی کی ہے جو موتیوں کو پرو کر اکٹھا رکھتی ہے۔جب وہ ٹوٹے تو تمام موتی بکھر کر ضائع ہو جاتے ہیں اور ان کا دوبارہ جمع ہونا محال ہو جاتا ہے۔عرب آج قلیل ہونے کے باوجوداسلام کی وجہ سے طاقت ور ہیں۔ اگرآپ خود مدینہ سے نکل آئے تو چہار اطراف سے یورش ہو جائے گی تب ملک کی سرحد وں اور اہل و عیال کو سنبھالنامشکل ہو جائے گا۔اس لیے لوگوں کو اپنے شہروں میں رہنے دیں اوراہل بصرہ کو تین حصوں میں بٹ جانے کا حکم دیں، ایک حصہ اہل و عیال کی حفاظت کرے،ایک معاہداقوام (ذمیوں ) کی نگرانی کرے اور تیسرا گروہ اہل کوفہ کی فوج میں شامل ہو جائے۔جہاں تک دشمن کی عددی برتری کا سوال ہے، ہم نے ماضی میں بھی تعداد کی بنا پر نہیں، بلکہ اللہ کی نصرت سے قتال کیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: یہی راے صحیح ہے،میں اسی پر عمل کروں گا۔اب مجھے بتاؤ،کس کو سپہ سالار مقرر کروں ؟ حضرت علی اور دوسرے صحابہ نے کہا:   آپ خود بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں تو انھوں نے حضرت نعمان بن مقرن کو یہ ذمہ داری دے دی۔


فتح خراسان


 ۲۲ھ (۶۴۳ء )میں فتح خراسان کے بعد جیش اسلامی کے سالار حضرت احنف بن قیس نے مدینہ بشارت بھیجی تو حضرت عمر نے انھیں دریاے آمو (جیحون) کے ادھر رہنے کا حکم دیا اورکہا: میری خواہش تھی کہ ہمارے اور ایرانیوں کے بیچ آگ کا سمندر حائل ہوتا۔ حضرت علی نے کہا:امیرالمومنین ! آپ کو خراسان کی فتح ناگوار گزری ہے، حالانکہ یہ خوشی کا موقع ہے؟ جواب دیا، مجھے اندیشہ ہے کہ ایرانی عہد شکنی کر کے اس علاقے سے تین بار حملہ آور ہوں گے اور تیسری باران کی تباہی ہو گی۔میں چاہتا ہوں،ان کی بربادی ان کے اپنے ہاتھوں ہو۔


حضرت عمر کی شہادت


 ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ھ کو حضرت عمر فجر کی نماز پڑھانے مسجد نبوی میں آئے۔ابھی صفیں سیدھی نہ ہوئی تھیں کہ ابو لؤلؤہ اچانک ان پر حملہ آور ہوا، اس نے کٹار سے چھ وار کیے، ایک زیر ناف لگا۔ حضرت عمر چلائے، پکڑو ! اس نے مجھے قتل کر دیا ہے۔لوگ لپکے تواس نے خنجر گھمایااور مزید بارہ افراد کو شدید زخمی کر دیا جن میں سے چھ موقع پر شہید ہو گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عوف نے چغہ پھینک کر اسے قابو کیا۔ حضرت عمر کے کہنے پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے نماز پڑھائی۔ جانبری کی امید نہ رہی تو فرمایا:میں ان اصحاب عشرۂ مبشرہ سے زیادہ کسی کو خلافت کا حق دار نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوتے وقت راضی تھے۔ اہل ایمان ان میں سے جس کو چن لیں گے وہی خلیفہ ہو گا،تم سب اس کی سمع و طاعت کرنا۔پھرحضرت عثمان، حضرت علی،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص کے نام لیے۔ انھوں نے ساتویں زندہ صحابی حضرت سعید بن زید کوشامل نہ کیا، کیونکہ وہ ان کے قبیلہ بنو عدی سے تھے۔حضر ت علی کو ترجیح دینے کے باوجود نامزد نہ کیا، کیونکہ وہ ان کے سسر تھے۔صحابہ نے کسی ایک کے حق میں وصیت کر نے کو کہا تو کہا:میں نے بہت غور و فکرکے بعد ایک شخص کو خلافت منتقل کرنے کا سوچا تھا(یہ کہہ کرحضرت علی کی طرف اشارہ کیا) کہ مجھ پر غشی طاری ہو گئی۔افاقہ ہونے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ کا فیصلہ غالب ہو گا۔تم ان چھ اصحاب سے چپکے رہنا، یہ جسے خلیفہ چن لیں، اس سے تعاون کرنا۔


 اگلے روزحضرت عمر نے اصحاب شوریٰ کو بلا کرنصیحت کی،حضرت علی سے کہا: اگر زمام خلافت تمھارے ہاتھ آئی تو اللہ کا واسطہ ہے، بنوہاشم کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کر دینا۔ اصحاب ستہ رخصت ہوئے تو کہا:اگر یہ علی کو خلافت سونپ دیں تو یہ انھیں سیدھی راہ پر ڈال دیں گے۔حضرت عبداﷲ بن عمر نے پوچھا: آپ کے ایسا کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟کہا: میں پسند نہیں کرتاکہ زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی یہ بار مجھ ہی پر رہے۔

حضرت عمر نے تاکید کی کہ چوتھے دن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے لازماً خلیفہ کا انتخاب کر لیا جائے۔ انھوں نے خیال ظاہرکیا کہ علی و عثمان میں ایک کو امر خلافت ملنے کا احتمال ہے۔عثمان میں نرم خوئی ہے، جب کہ علی میں خوش طبعی ہے، وہ امت کو جادۂ حق پر چلانے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔سعد بھی خلیفہ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

حضرت عمر کو گھر منتقل کیا گیا توحضرت علی ان کی عیادت کرنے گئے،وہ ان کے سرہانے بیٹھے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس بھی آ گئے اورحضرت عمر کے بارے میں تعریفی کلمات کہے۔ انھوں نے پوچھا: کیا تو مجھے اس ستایش کے لائق سمجھتا ہے؟ حضرت علی نے اشارہ کیا کہ ہاں کہوتوحضرت عمر بولے:تم اور تمھارے ساتھی مجھے دھوکے میں مبتلا نہ کر دیں۔میرا سر تکیے سے ہٹا کر مٹی سے لتھ پتھ کر دو۔ ہو سکتا ہے،اللہ مجھ پر ترس کھا لے۔

حضرت عمر کی میت پر چادر پڑی ہوئی تھی ۔حضرت علی تشریف لائے تو کہا: میرے نزدیک کوئی شخص اس کفن پوش سے بہترنہیں۔میں چاہتاہوں کہ اللہ کے حضور حاضر ہوں تومیرا اعمال نامہ بھی اس کے نامۂ عمل کے مشابہ ہو۔وہ اپنا خیر لے کر رخصت ہوئے اور اپنے شر سے محفوظ ہو گئے۔

حضرت عمر کا جنازہ لایا گیا تو حضرت عثمان اور حضرت علی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے سرہانے اور پائینتی کی طرف بڑھے۔ حضرت عبدالرحمٰن نے انھیں روکا اور کہا: یہ عمر کے مقررہ نائب کا کام ہے۔ چنانچہ قائم مقام خلیفہ حضرت صہیب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت علی، حضرت عثمان،حضر ت زبیر، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعد اور حضرت عبد اللہ بن عمر تدفین کے لیے قبر میں اترے۔

حضرت عمر کی شہادت کے روز حضرت علی،حضرت عثمان اور حضرت عبیداللہ بن معمر کے ہاں بیٹے پیدا ہوئے۔تینوں کا نام عمر رکھا گیا۔

خلیفۂ سوم کا انتخاب

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب فتح  مکہ سے قبل ایمان لائے تھے۔ آپ کے مرض وفات میں انھوں نے حضرت علی پر بہت دباؤ ڈالا کہ آپ سے اپنے حق میں وصیت لے لیں، لیکن وہ نہ مانے۔آپ کے رخصت ہونے کے بعد وہ بنو ہاشم کو خلافت دلانے کے لیے سرگرم رہے۔ حضرت عمر نے اصحاب ستہ پرمشتمل مجلس انتخاب بنائی تو انھوں نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ اس میں شامل نہ ہوں۔حضرت علی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا، میں اختلاف پسند نہیں کرتا۔حضرت عباس نے کہا:تونے اپنی خلافت پر اصرار نہ کیا تو ناپسندیدہ نتیجہ ہی دیکھے گا۔ تمھیں یہ جوبھی پیش کش کریں،نہ مانو، کیونکہ یہ شوریٰ عثمان ہی کو آگے لائے گی۔ سعد اور عبدالرحمٰن تمھیں ہر گز ووٹ نہ دیں گے۔


پہلے دو دن ارکان شوریٰ فیصلہ نہ کر پائے تو ناظم انتخاب حضرت ابو طلحہ نے اعلان کیا کہ وہ حضرت عمر کی مقررہ مہلت، تین دن سے ہر گز تجاوز نہ کریں گے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف جانتے تھے کہ خلافت کے دو بنیادی حق دارحضرت علی وحضرت عثمان ہیں۔انھوں نے اپنے اس خیال کی تصدیق حضرت علی سے یہ سوال کرکے کی: سبقت الی الاسلام،قرابت رسول اوراپنی دین داری کی وجہ سے آپ خلافت کے اہل ہیں، لیکن اگرخلافت آپ کونہ مل پائی تو آپ کے خیال میں اس منصب پر کسے بیٹھنا چاہیے ؟ انھوں نے جواب دیا، عثمان کو۔یہی بات الگ ہو کرحضرت عثمان سے پوچھی تو انھوں نے حضرت علی کا نام لیا۔اب انھوں نے چاہا،انتخاب ان دونوں پر موقوف ہو جائے۔ چنانچہ اصحاب ستہ کو تجویز کیا کہ ان میں سے تین ان تینوں کے حق میں دست بردار ہو جائیں جنھیں وہ خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے ہیں۔حضرت علی اورحضرت عثمان خاموش رہے تو انھوں نے حضرت علی سے پوچھا: ابوالحسن ! آپ کیا کہتے ہیں ؟ حضرت علی نے کہا: تم عہد کرو، حق کو ترجیح دو گے اور رشتہ داری کی بجاے امت سے خیرخواہی کرو گے۔ جواباًحضرت عبدالرحمٰن نے بھی عہد مانگا کہ میرے انتخاب کو مان لو گے۔حضرت عبدالرحمٰن کے مشورہ کے مطابق حضرت زبیر حضرت علی کے حق میں،حضرت سعد حضرت عبدالرحمٰن کے اورحضرت طلحہ حضرت عثمان کے حق میں دست بردار ہوگئے تو انھوں نے ارکان شوریٰ سے دریافت کیا، کیاآپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کا خلیفہ چنوں اور خود اس منصب سے الگ رہوں ؟حضرت علی نے کہا: (آپ جو انتخاب کریں گے) میں سب سے پہلے مانوں گا، کیونکہ میں نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: ’’عبدالرحمٰن ! تم آسمان والوں میں امانت دار شمار ہوگے اور اہل زمین میں بھی تمھاری امانت مسلم ہے‘‘(مستدرک حاکم، رقم ۵۳۵۴)۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سعد نے حضرت عبدالرحمٰن پر زور دیا کہ وہ خود خلیفہ بنیں، لیکن اگروہ علی و عثمان میں سے ایک کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو وہ علی کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری روایت اس سے متضاد ہے کہ حضرت سعد نے حضرت عثمان کے حق میں راے دی۔حضرت عبدالرحمٰن اپنا فیصلہ فوراً صادر کر سکتے تھے، تاہم انھوں نے مدینے میں موجود اصحاب رسول،عمائدین،عوام الناس حتیٰ  کہ عورتوں، بچوں،مدینہ میں واردہونے والے مسافروں اور بدوؤں سے بھی مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ان سب کی اکثریت نے حضرت عثمان کے حق میں راے دی۔

انتخاب کی رات حضرت ابن عوف نے ایک بارپھرحضرت علی وحضرت عثمان دونوں کو بلاکر عہد لیاکہ وہ جسے بھی خلیفہ مقرر کریں گے، عدل و انصاف سے کام لے گااور جسے یہ ذمہ داری نہ مل پائی، سمع و طاعت کرے گا۔ پھر کبار مہاجرین و انصار اور فوج کے کمانڈروں کو فجر کی نماز پر اکٹھا ہونے کی دعوت دی۔فجر سے پہلے انھوں نے اپنے بھانجے حضرت مسور بن مخرمہ کو حضرت عثمان اور حضرت علی کو بلانے کے لیے بھیجا۔ ان کے پوچھنے پر کہا: جس کو مرضی پہلے بلا لینا۔ تب حضرت علی کویقین ہو چکا تھاکہ وہ خلیفہ بننے والے ہیں۔مسجد نبوی کھچا کھچ بھر گئی۔نماز کے بعدحضرت عبدالرحمٰن بن عوف منبر پر چڑھے۔ حضرت علی و حضرت عثمان کے مویدین میں تکرار ہونے لگی۔حضرت عمار اور حضرت مقداد بولے : اگر اختلاف سے بچنا ہے توعلی کی بیعت کر لو۔ حضرت عبد اﷲ بن ابی ربیعہ اور ابن ابی سرح نے کہا:قریش میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے تو عثمان کا انتخاب کر لو۔  حضرت سعد پکارے: عبدالرحمٰن ! قبل اس کے کہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہوں،اس کام کو نمٹا دو۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے طویل دعا کے بعد حضرت عثمان اور حضرت علی دونوں سے کتاب اﷲ،سنت رسول اور حضرت ابو بکر و حضرت عمر کے نقش ہاے قدم پر چلنے کا عہد لیا پھر حضرت عثمان کا ہاتھ تھام لیا، آسمان کی طرف سربلند کیا اور تین بار کہا: اے اللہ!سن لے اور گواہ رہ۔ میں نے خلافت کی ذمہ داری عثمان کو سونپ دی۔ حضرت عبدالرحمٰن کے بعد ان کے پاس کھڑے حضرت علی نے حضرت عثمان کے ہاتھ پربیعت کی، پھر مسجد میں موجود سب اہل ایمان بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔(ابن سعد) دوسری روایت کے مطابق حضرت علی نے تاخیرکی اور حضرت عبدالرحمٰن کے پکارنے پر بیعت کے لیے لوٹے۔ (طبری) ابو وائل نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے پوچھا:آپ نے کیونکرعثمان کی بیعت کر لی اور علی کو چھوڑ دیا؟ حضرت عبدالرحمٰن نے کہا: اس میں میرا کوئی گناہ نہیں۔ میں نے علی سے ابتدا کی اور کہا: میں کتاب اﷲ، سنت نبوی اور سیرت ابوبکرو عمر پر آپ کی بیعت کرتا ہوں تو انھوں نے کہا:میں ابوبکر و عمر کی ان باتوں میں پیروی کروں گا جو میرے لیے ممکن ہوئیں۔ یہی کلمات عثمان کے آگے دہرائے تو انھوں نے غیر مشروط طور پربلا تامل قبول کیے۔ 


حضرت عثمان سے تعاون


تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کا انتخاب ہو جانے کے بعدحضرت علی نے پہلے دو خلفاے راشدین کی طرح ان سے بھی تعاون اور خیرخواہی کارویہ اختیار کیا، لیکن اس کے برعکس مفہوم پر مشتمل روایات بھی اسی تاریخ میں موجود ہیں۔ مثلاًیہ کہ حضرت علی نے حضرت عبدالرحمٰن سے کہا:یہ پہلا دن نہیں کہ تم نے ہم پر غلبہ پایا ہے، ’فصبر جميل‘، پس صبر خوب کرنا ہو گا۔تم نے عثمان کو اس لیے خلیفہ بنایا ہے کہ اقتدار تمھارے پاس لوٹ آئے۔ حضرت عبدالرحمٰن نے جواب میں کہا: علی ! اپنے خلاف حجت قائم کرنے کا موقع نہ دو۔حضرت علی یہ کہتے ہوئے نکل آ ئے، تقدیر کالکھا پورا ہو کر رہے گا۔ حضرت مقداد بن اسود نے شکوہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعداہل بیت پر کیا کچھ بیت گیا۔ علی کے علم اور ان کے عدل و قضاکو ترک کر دیا گیا ہے۔ حضرت علی نے کہا:اگر بنو ہاشم تمھارے حاکم بن گئے تواقتدار ان سے باہر نہ نکل سکے گااور اگر یہ دوسروں کے پاس چلا گیا تو واپس تمھارے پاس آ سکتا ہے۔ حضرت مسور بن مخرمہ سے مروی ہے،حضرت عمر کی تدفین کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے اہل ایمان سے خطاب کیا اور انھیں تفرقہ سے بچنے کی تلقین کی،پھر حضرت عثمان، حضرت زبیر اورحضرت سعد نے کچھ باتیں کیں۔ آخر میں حضرت علی نے یہ خطاب کیا:ہم خانوادۂ نبوت سے تعلق رکھتے ہیں، خلافت ہمارا حق ہے، دے دو گے تو قبول کر لیں گے، اگر نہ دو گے تو اونٹوں کی پشتوں پر سوار ہو کر چلے جائیں گے خواہ ہماراراتوں کا سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو جائے۔حقیقت میں ایسا نہ ہوا، عہد عثمانی میں حضرت علی مدینہ ہی میں رہے اور کسی طویل سفر پر نہ نکلے۔


ابولؤلؤہ اور ہرمزان کا قتل


حضرت عمر کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے حضرت عبیداللہ کو معلوم ہوا کہ مدینہ میں مقیم ہرمزان نے ابولؤلؤہ فیروز کو وہ خنجر دیا تھا جس سے اس نے عمر کو شہید کیا۔انھوں نے فرط غضب میں ابولؤلؤہ،اس کی نو عمربیٹی لؤلؤہ، ہرمزان اور ایک عیسائی جفینہ کو قتل کر ڈالا۔نو منتخب خلیفۂ سوم حضرت عثمان ان مقتولین کا قصاص لینا چاہتے تھے،حضرت علی نے ان کی تائید کی۔ایک مہاجر نے کہا:کل عمر شہید ہوئے،آج ان کے بیٹے کو قتل کر دیا جائے؟حضرت عمرو بن عاص نے کہا:یہ قتل عثمان کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہو چکے تھے اس لیے ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔حضرت عثمان نہ مانے اور ہرمزان کے بیٹے سے قصاص لینے کو کہا۔ اس نے معاف کر دیا تو انھوں نے جفینہ اورابو لؤلؤہ کی بیٹی کی دیت اپنی جیب سے ادا کر دی۔ابن اثیر کہتے ہیں،ہرمزان کے بیٹے غمادیان نے خون معاف نہ کیا تھا۔ اسی لیے حضرت علی نے خلافت سنبھالنے کے بعدحضرت عبید اللہ بن عمر کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم جاری کیا، لیکن وہ بھاگ کر شام چلے گئے جہاں حضرت معاویہ کی حکمرانی تھی۔


قضا و عدل


حضرت علی عہد عثمانی میں بھی عدالتی فیصلوں کا حصہ رہے۔لوگ اپنے تنازعات لے کر حضرت عثمان کے پاس آتے تو وہ ایک فریق سے کہتے کہ علی کو بلا لاؤ اور دوسرے کو حضرت طلحہ و حضرت زبیر کو بلانے بھیج دیتے۔ فریقین کے بیانات سننے کے بعد ان حضرات سے راے لیتے۔ اگر ان کی راے ان کے خیال کے موافق ہوتی تو فوری فیصلہ نافذ کر دیتے۔ دوسری صورت میں مزید غور وفکر کرنے کے بعد حکم جاری کرتے۔حضرت علی نے حدود  و  میراث کے متعدد فیصلوں میں اپنا ماہرانہ مشورہ دیا۔


عطیات و ہدایا


خلیفۂ سوم کے زمانے میں جو عطیا ت اور ہدایا مفتوحہ ممالک سے آتے حضرت علی انھیں قبول کرتے رہے۔  



تراویح


حضرت عثمان کے دور خلافت میں حضرت علی نماز تراویح کی امامت کرتے رہے۔تاہم انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے چند راتوں کے بعد یہ سلسلہ منقطع کر دیا۔


حج کے موقع پر قصر کا ترک کرنا

۲۹ھ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان امیر حج تھے۔ انھوں نے پہلی بار منیٰ میں خیمہ لگایا اورمنیٰ وعرفات میں قصر کیے بغیر پوری چار رکعتیں پڑھائیں۔یہ پہلا موقع تھا کہ ان پر تنقید کی گئی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے نکیر کی، حضرت علی نے کہا:کوئی نیا حکم آیا ہے نہ عہد نبوی اتنا قدیم ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر و عمر نے دو رکعتیں پڑھائیں اورآپ بھی ابتداے خلافت سے قصر کرتے رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا،( خلافت کے چھٹے سال)کیا طریقہ اپنا لیا ہے؟ حضرت عثمان نے کہا: یہ ایک اجتہاد ہے جو میں نے کیا ہے، کیونکہ یمن کے کچھ حجاج نے میرے قصر کرنے سے سمجھ لیا کہ نماز اصل میں دور کعت ہی ہے۔ پھر مکہ میں میرا سسرال ہے اور طائف میں میرے مویشی ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے بہت بحث کی اور ان کے تمام دلائل کو رد کیا، لیکن وہ اپنی راے پر قائم رہے۔حضرت علی کا اختلاف برقرار رہا، لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اورحضرت عبداللہ بن مسعود نے معاملے کو طول دینا مناسب نہ سمجھا اور خود بھی چار رکعتیں پڑھانا شروع کر دیں۔


حج قران سے روکنا


حضرت مقداد بن اسود مدینہ کے کنویں سقیا(سقیۃ: القاموس المحيط) پر پہنچے جہاں حضرت علی اپنی اونٹنیوں کو درختوں سے جھاڑے ہوئے پتے کھلا رہے تھے اور آٹا ملا ہوا پانی پلا رہے تھے اور کہا: دیکھیں عثمان بن عفان حج و عمرہ ایک ساتھ کرنے سے منع کرتے ہیں۔حضرت علی اسی حالت میں نکل آئے کہ آٹا اور پتے ان کے ہاتھوں پر لگے تھے،سیدھا حضرت عثمان کے پاس پہنچے اور پوچھا:آپ حج قران کرنے سے روک رہے ہیں۔ حضرت عثمان نے کہا: یہ میری راے ہے۔حضرت علی غصے سے یہ کہتے پلٹ آئے،لبیک،اے اللہ ! میں حج و عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہتا ہوں (موطاامام مالک، رقم ۱۰۰۳۔ مسند احمد، رقم ۱۱۳۹)۔ اس سے ملتی جلتی دوسری روایت حج تمتع کے بارے میں ہے۔مدینہ سے مکہ جانے والے راستے پر جحفہ اور مکہ کے درمیان واقع مقام عسفان پرحضرت عثمان کی حضرت علی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھا:کیا بات ہے آپ لوگوں کو حج تمتع سے روکتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے؟ حضرت عثمان نے لا جواب ہو کر کہا:ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجیے (بخاری، رقم ۱۵۶۹۔ مسلم، رقم ۲۹۵۴۔ مسند احمد، رقم ۱۱۴۶)۔ حضرت علی نے حج قران کیا، انھوں نے یمن سے چلتے وقت نیت کی، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم والے احرام کی نیت کرتا ہوں۔آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے بتایا کہ میں نے عمرہ و حج، دونوں کی نیت کی ہے۔اگر تمھارے پاس ہدی ہے تو یہی نیت کر لو۔آپ کی وفات کے بعد بھی حضرت علی عمرہ و حج، دونوں کی نیت سے احرام باندھتے اور کہتے، میں کسی فرد واحد کے کہنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں چھوڑ سکتا (بخاری، رقم ۱۵۶۳)۔ حضرت عثمان تمتع و قران دونوں کو جائز نہ سمجھتے تھے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حج تمتع روا رکھنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ تب ہم خوف زدہ تھے (مسلم، رقم ۲۹۳۴)۔ سیوطی نے اس کے معنی بتائے، ہمیں خدشہ تھا کہ دوبارہ سفر کے لیے نکلنا مشکل ہو گا۔ابن کثیر کہتے ہیں: یہ حضرت عثمان کا گمان تھا۔صحابہ کی روایات تو صحیح و مقبول ہوتی ہیں، لیکن ان کا گمان حجت نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابوذر غفار ی فرماتے ہیں کہ حج تمتع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا، تمھیں اس کی اجازت نہیں (مسلم، رقم ۲۹۴۰)۔ شوکانی نے اس پریہ تبصرہ کیا: حضرت ابوذر کا یہ قول لائق احتجاج نہیں، کیونکہ یہ سنت صریحہ کے خلاف ہے اور چودہ صحابہ کی صحیح روایات اسے غلط ثابت کرتی ہیں (نيل الاوطار: باب فسخ الحج الی العمرہ)۔ حضرت ابوذر کی دوسری روایت میں لفظ ’متعتان‘ تثنیہ ہے، یعنی حج تمتع اور عورتوں سے متعہ کرنا ہمارے ساتھ خاص تھے (مسلم، رقم ۲۹۳۹)۔


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی وفات


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے وفات سے پہلے جنگ بدر میں حصہ لینے والے ہر صحابی کو چارسو دینار دینے کی و صیت کی۔سو زندہ بدریوں میں حضرت عثمان اور حضرت علی بھی تھے۔حضرت علی نے کہا:اے ابن عوف!  رخصت ہوں، آپ نے دنیا کا عمدہ حصہ پا لیا اور اس کے کھوٹ سے محفوظ رہے۔


حضرت ولید بن عقبہ پر حد


دو اشخاص ابوزینب اور ابومورع نے گورنر کوفہ حضرت ولید بن عقبہ کے خلاف گواہی دی کہ انھوں نے شراب نوشی کی ہے۔ سیدنا عثمان نے انھیں مدینہ طلب کیا، الزام ثابت ہونے پرحضرت علی سے کہا:اس کی بنیان اتار کر اسے کوڑے لگاؤ،انھوں نے حضرت حسن سے کہہ دیا۔حضرت حسن کا جواب تھا: امورخلافت میں سے مشکل (اور گرم) کام اسی کو دیں جس نے آسان (اور ٹھنڈے) کام اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ تب انھوں نے حضرت عبد اللہ بن جعفر کو کہا۔ انھوں نے کوڑے لگائے اورحضرت علی نے چالیس تک گنتی پوری کی (مسلم،  رقم ۴۴۵۷) پھر کہا:رک جاؤ!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے چالیس کوڑوں کی سزا دی، جب کہ عثمان نے اسی کوڑے لگوائے ہیں۔  دونوں سنت ہیں، لیکن مجھے چالیس کا عدد پسند ہے۔ یہ حضر ت علی کے اپنے مشورے کے خلاف تھا جو انھوں نے حضرت ابوبکر کو دیا تھا۔


سبائی فتنہ


۳۵ھ :ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اورحجاز، بصرہ، کوفہ اور شام جگہ جگہ یہ پراپیگنڈا کرتا پھرا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی لوٹ کر آئیں گے۔ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور محمد کے وصی علی ہیں۔عثمان نے ان کا حق سلب کر رکھا ہے،ان کے عمال پر طعن زنی کر کے عوام کو اپنی جانب مائل کر لو۔ان حالات میں اگلے خلیفہ کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔کچھ لوگ حضرت علی کے حق میں تھے،کچھ حضرت زبیر وحضرت طلحہ کی حمایت کرتے تھے، باقی حضرت معاویہ کی خلافت کوشدنی سمجھنے لگے۔


حضرت عثمان کے خلاف بغاوت


ایک بارحضرت علی نے کوفہ میں خطاب کیا،اسی دوران میں ایک شخص کھڑا ہو کر حضرت عثمان کو برا بھلا کہنے لگا کہ انھوں نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا ہے۔ حضرت علی چلائے: خاموش ہو جا!انھوں نے ہم سب کے مشورے سے ایسا کیا ہے۔اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو انھوں نے کیا ہے۔


 ۳۴ھ میں لوگوں نے حضرت عثمان پرکھلے عام تنقید کرنا شروع کی۔صحابہ میں سے حضرت زید بن ثابت، حضرت ابواسید ساعدی،حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت انھیں منع کرتے۔معترضین نے اپنے اعتراضات حضرت علی کو پیش کیے تووہ حضرت عثمان کے پاس گئے اور کہا: سمجھ میں نہیں آتا، کیا کہوں ؟ ابوبکر و عمر حق اور خیر بجا لانے میں آپ سے برترنہ تھے۔آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے ساتھ دامادہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔آپ ہر بات بخوبی سمجھتے ہیں، اپنے معاملات میں اللہ کا خوف کریں۔ اللہ کا بہترین بندہ امام عادل ہے، خود ہدایت پر ہوتا ہے اور ہدایت کا سبب بنتا ہے۔ معروف سنتوں کا احیا کرتا ہے اور متروک بدعتوں کو ختم کر دیتا ہے۔اس کے برعکس ظالم حکمران بدترین خلائق سمجھا جاتا ہے،گم راہ ہوتا ہے اور دوسروں کو گم راہ کرتا ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: روز قیامت ظالم حاکم اس حال میں لایا جائے گا کہ کوئی اس کی طرف سے معذرت کرے گا نہ اس کی مدد کو آئے گا اور اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حضرت عثمان نے جواب دیا: میں آپ کی جگہ ہوتا تو ہر گز عیب جوئی نہ کرتا۔ میں نے صلۂ رحمی کی ہے،اہل حاجت کی حاجات پوری کی ہیں،بے کس کو ٹھکانا دیا ہے۔کیا عمر نے اپنے اقربامیں سے مغیرہ بن شعبہ کو ذمہ داری نہیں سونپی؟میں نے ابن عامر کو قرابت داری کی بنا پرعہدہ دیا تو مجھے ملامت کرتے ہیں ؟ حضرت علی نے کہا:عمر اپنے والیوں کے کان مروڑتے اوران کی غلطیوں پر کڑی سزا دیتے تھے، جب کہ آپ اپنے اعزہ سے نرم خوئی کرتے ہیں۔ حضرت عثمان نے کہا: مطعونین آپ کے بھی اعزہ ہیں۔حضرت علی نے کہا: درست، لیکن حکمرانی کی قابلیت دوسرے لوگوں میں ہے۔حضرت عثمان بولے: کیا عمر نے پوری مدت خلافت کے دوران میں معاویہ کو گورنر مقرر نہیں کیا؟میں نے ان کی گورنری برقرار رکھی ہے۔حضرت علی نے کہا: صحیح، آپ خود بتائیں، معاویہ عمر کے غلام یرفا سے کہیں زیادہ ان سے نہ ڈرتے تھے ؟حضرت عثمان نے تائید کی تو حضرت علی نے کہا: معاویہ اب آپ سے پوچھے بغیر فیصلے کررہے ہیں،آپ سے منسوب کرتے ہیں اور آپ کچھ نہیں کہتے۔حضرت علی کے جانے کے بعد حضرت عثمان نے ایک خطبہ دیاجو بلاغت کا شاہ کار ہے۔انھوں نے کہا: عیب جو اور طعنہ زن اس امت کے لیے ایک آفت ہیں۔ عمر تمھیں پاؤں سے روندتے، ہاتھ سے تھپڑ جڑتے اور سخت گفتگو کر کے دبا لیتے تو تم ان کی ہر صحیح و غلط بات مان لیتے۔ میں نے تمھارے لیے کندھے پست کر دیے،تم پر دست درازی کی نہ زبان طعن کھولی،اس لیے مجھے بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے ہو۔میں مال زائد میں تصرف نہیں کر سکتا توامام کس بات کا ہوا؟

۳۵ھ کا حج

اپنی زندگی کے آخری سال حضرت عثمان حج پر نہ جا سکے۔ حاجیوں کو رخصت کر کے مدینہ آئے توحضرت علی،حضرت طلحہ اورحضرت زبیر کو بلایا۔ حضرت معاویہ نے جوان کے پاس پہلے سے بیٹھے تھے،یوں گفتگو شروع کی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں،اس امت کے امور کی ذمہ داری آپ پرہے۔ کسی دباؤ اور لالچ کے بغیر آپ نے عثمان کو خلیفہ چنا ہے،اب لوگوں کو اپنی خلافت کی طمع نہ دلائیں۔حضرت علی نے کہا: کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ اب حضرت عثمان بولے:میری راے میں ابوبکر و عمر نے احتساب کے نام پر اپنے اوپرسختی کی اوراپنے رشتہ داروں پر ظلم کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے قرابت داروں کو دیتے دلاتے تھے۔  میرا خاندان تنگ دست اور محتاج ہے،پھر بھی اگر آپ لوگ ان پر کی ہوئی عطاؤں کو غلط سمجھتے ہیں تو میں لوٹا لیتا ہوں۔پھر ان صحابہ کے کہنے پر عبداللہ بن خالد کو دیے ہوئے پچاس ہزار اور مروان کو عطا کردہ پندرہ ہزار درہم واپس لیے۔ حضرت معاویہ رخصت ہونے لگے توحضرت علی،حضرت طلحہ اورحضرت زبیر کے پاس سے پھر  گزرے اور کہا: میں تم میں ایک بزرگ (عثمان ) کو چھوڑے جا رہا ہوں۔ان سے اچھا سلو ک کرنا اور ان کا ساتھ دینا،سعادت مزید پاؤ گے۔ حضرت علی نے کہا: مجھے معاویہ کی اس تنبیہ میں خیر نظر نہیں آیا۔


باغی گروہ


 ۳۵ھ ہی میں حضرت عثمان کے خلاف خروج ہوا،خارجی تین گروپوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ بصرہ سے آیا اور مدینہ سے باہر ذوخشب کے مقام پر ڈیرا ڈال دیا، کوفہ سے آنے والے طاغیوں کے دوسرے ٹولے نے اعوص پر پڑاؤ ڈالا، جب کہ تیسراگروپ مصر کے خارجیوں پر مشتمل تھاجس نے ذو المروہ پر مقام کیا۔مصر والے حضرت علی کو،بصرہ والے حضرت طلحہ اور کوفی حضرت زبیر کو اگلا خلیفہ دیکھنا چاہتے تھے۔پہلے دو باغی زیاد بن نصر اورعبداللہ بن اصم مدینہ آئے، امہات المومنین،حضرت علی،حضرت طلحہ اورحضرت زبیر سے ملاقات کی اورکچھ گورنروں کے استعفا کا مطالبہ کیا۔پھرمصری حضرت علی کے پاس آئے،اہل بصرہ حضرت طلحہ سے ملے اور کوفیوں نے حضرت زبیر کا رخ کیا۔حضرت علی مدینے کے مقام احجار زیت میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقا پڑھائی تھی، تلوار حمائل کیے ایک لشکر میں موجود تھے۔ باغیوں کو دیکھتے ہی چلائے:  نیک اہل ایمان جانتے ہیں،ذو المروہ،ذو خشب اور اعوص کی فوجوں پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی ہے۔حضرت طلحہ وحضرت زبیر نے بھی اپنے پاس آنے والوں پر ڈانٹ پھٹکار کی تو باغی ان سے مایوس ہوکر واپس آ گئے۔ حضرت عثمان نے حضرت عمرو بن عاص کومصر کی گورنری سے ہٹایا تو وہ بھی حضرت عثمان کے خلاف سرگرم ہو گئے۔انھوں نے حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کوبھی ان کے خلاف اکسایا۔


حضرت علی کی طرف سے دفاع


خارجیوں نے مدینہ سے باہر ذو خشب پر ڈیرے ڈالے توحضرت عثمان حضرت علی کے گھر آئے اور کہا: اے چچا زاد!میری آپ سے قریب کی رشتہ داری ہے اورمیں آپ پر بڑا حق رکھتا ہوں۔باغی بھی آپ کی قدر کرتے ہیں اور آپ کی بات سنتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ انھیں شہر میں داخل ہونے سے روکیں۔ حضرت علی نے پوچھا: کس وعدے پر ان کو منع کروں ؟ حضرت عثمان نے جواب دیا: میں آپ کے سجھاؤ اور مشورے پرعمل کروں گا۔علی نے کہا: میں نے بارہا گفتگو کر کے دیکھا ہے،ہم ایک بات طے کرتے ہیں اور آپ اس سے پھر جاتے ہیں۔سب مروان، عبداللہ بن عامر، معاویہ اور ابن سعد (یا ابن ابی سرح)کا کیا دھرا ہے۔ آپ ان کے پیچھے چلتے ہیں اورمیری ایک نہیں سنتے۔حضرت عثمان نے کہا:میں آپ کی مانوں گا اور ان کی نہ سنوں گا۔


آخر کارحضرت علی تیس سرکردہ مہاجرین و انصار کو لے کر نکلے، حضرت سعید بن زید،حضرت حکیم بن حزام،حضرت جبیر بن مطعم،حضرت ابو اسید ساعدی، حضرت زید بن ثابت،حضرت حسان بن ثابت اورحضرت کعب بن مالک ان میں شامل تھے۔حضرت عمار ان کے ساتھ چلنے پر راضی نہ ہوئے۔حضرت علی اورحضرت محمد بن مسلمہ نے مصر کے باغیوں سے گفتگو کی۔ باغیوں نے ابن ابی سرح کے مظالم کی شکایت کی اورکہاکہ وہ مال غنیمت اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے حضرت عثمان پر بھی الزامات لگائے جن کاحضرت علی نے بھر پور دفاع کیا۔ انھوں نے کہا:امیر المومنین نے چراگاہ اپنے ڈھور ڈنگروں کے لیے نہیں، بلکہ بیت المال کے اونٹوں کے لیے بنائی جیسا ان سے پہلے عمر بنا چکے تھے۔ انھوں نے مصحف کے وہ نسخے جلائے جو مختلف فیہ تھے اور متفق علیہ باقی رہنے دیے۔ انھوں نے مکہ میں کامل نماز اس لیے ادا کی، کیونکہ وہاں ان کا سسرال تھا اور وہ قیام کی نیت رکھتے تھے۔ حضرت عثمان نے نو عمر گورنراس لیے مقرر کیے، کیونکہ وہ ذی صلاحیت اور عادل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیس سالہ عتاب بن اسید کو مکہ کا گورنر اور ایک نوجوان اسامہ بن زید کوسپہ سالار مقرر فرمایا تھا۔سیدنا عثمان نے اگر اپنی قوم بنو امیہ کو ترجیح دی توکیا ہوا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی قوم قریش کو باقیوں پر ترجیح دیتے تھے۔یہ الزام بھی غلط ہے کہ عثمان نے حکم بن عاص کی جلا وطنی ختم کی، اسے خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف بھیجا اور پھر واپس بلا لیا تھا۔

باغی بظاہر مطمئن ہو کر واپس چلے گئے توحضرت علی نے واپس آ کرحضرت عثمان سے کہا:لوگوں سے خطاب کرکے انھیں اپنے اخلاص و امانت پر گواہ بنائیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کوفہ و بصرہ کے باغی آ ٹپکے تو بھی آپ مجھے ہی ان کے پاس بھیجیں گے۔حضرت عثمان نے لوگوں کے سامنے اس انداز سے توبہ و رجوع کیا کہ سب رونے لگے۔ انھوں نے مروان اور اس کے ساتھیوں کو کنٹرول کرنے کا وعدہ بھی کیا، تاہم کچھ ہی دیر بعد انھی سے اجازت لے کر مروان گھر سے نکلا اور باہر موجود مجمع کوبرا بھلا کہہ کر منتشر کر دیا۔حضرت علی کو خبر ملی تویوں شکوہ کیا: اے اللہ کے بندو،اے مسلمانو! اگر میں گھر میں بیٹھا رہوں تو عثمان کہتے ہیں: تونے مجھے چھوڑ دیا اور حق قرابت ترک کر دیا۔ اور اگرکوئی مشورہ دیتا ہوں اور عثمان اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو مروان اسے بازیچہ بنا لیتا ہے۔ عثمان کبر سنی اور صحبت رسول کا شرف رکھنے کے باوجوداس کے ہاتھوں مال مویشی بن گئے ہیں۔وہ جدھر چاہتا ہے، انھیں ہانک لے جاتا ہے۔پھر وہ حضرت عثمان کے گھر پہنچے اور غصے سے کہا: مروان آپ کوعقل و دین سے منحرف کر کے ہی راضی ہو گا۔میں آپ سے جھگڑنے دوبارہ نہ آؤں گا۔ ان کے جانے کے بعد حضرت عثمان کی اہلیہ نائلہ نے کہا:مروان نے ہمیشہ آپ کو برباد ہی کیا ہے۔عوام میں بھی اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں،اس لیے آپ علی کو راضی کریں۔ حضرت عثمان کا پیغام ملنے کے باوجودحضرت علی نہ آ ئے تو وہ رات کے وقت خود ان کے گھر گئے۔ انھوں نے ان کو منانے کی بہت کوشش کی اور شکوہ کیا کہ آپ نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور لوگوں کو میرے خلاف جرات دے دی ہے۔حضرت علی نے کہا: میں نے آپ کا بہت دفاع کیا، لیکن جب بھی آپ کی بھلائی کی بات کرتا ہوں، مروان کچھ اور سجھا دیتا ہے اور آپ اس پر عمل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عثمان کے معاملات میں دخل دینا چھوڑ دیا اوران کے گھر اسی وقت آئے جب بلوائیوں نے ان کا پانی بند کیا۔


بلوائیوں کا پلٹ آنا


حضرت علی کے اطمینان دلانے کے بعد باغی اپنے شہروں کو واپس چلے گئے تو اہل مدینہ نے سکھ کا سانس لیا لیکن کچھ ہی روز کے بعد وہ پھرمدینہ آ دھمکے۔ حضرت علی اورحضرت محمد بن مسلمہ نے پوچھا:تم ایک بار جانے کے بعد دوبارہ کیوں آ گئے ہو ؟انھوں نے کہا:جب سیدہ عائشہ اور حضرت علی کے اصرار پر حضرت عثمان نے گورنر مصر ابن ابی سرح کو معزول کر کے محمد بن ابوبکر کو گورنر بنانے کا فرمان جاری کر دیا تو ہم مطمئن ہو کر اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ مدینہ سے تین روز کی مسافت طے کر نے کے بعد بویب کے مقام پر پہنچے تو حضرت عثمان کا غلام ابو اعور سلمی بیت المال کے اونٹ پر جاتا ہوا ملا۔ ہم نے اس کی تلاشی لی تو یہ خط ملاجس پر مہر خلافت ثبت ہے اور اس میں خلیفہ کی طرف سے گورنر مصر کو حکم دیا گیا ہے کہ عبدالرحمٰن بن عدیس، عمرو بن حمق، عروہ بن حمق، سودان بن حمران اور عروہ بن نباع(یا بیاع) کو قتل کر دیا جائے،سولی پر لٹکایا جائے یا انھیں قید کرکے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائے اور سر اور ڈاڑھی کے بال منڈوا دیے جائیں۔ بصرہ اور کوفہ کورجوع کرنے والے بلوائی بھی عین اسی موقع پر لوٹ آئے۔ ان کی حضرت طلحہ اورحضرت زبیر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے وہی الزامات دہرائے جو مصری عائد کر چکے تھے۔حضرت علی نے سوال کیا: تمھیں اہل مصرسے ہونے والے معاملے کا کیسے پتا چلا، جب کہ تم الگ الگ کئی مراحل دور سفر کر رہے تھے؟ لگتا ہے تم نے یہ منصوبہ جانے سے پہلے مدینہ ہی میں بنالیا تھا۔وہ بولے:آپ جو مرضی کہہ لیں،ہم عثمان کو ہٹاکر رہیں گے۔ حضرت علی نے چلا کرکہا: اللہ کے نیک بندے جانتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ذی مروہ اور ذی خشب کے لشکروں پر لعنت کی گئی ہے۔لوٹ جاؤ! اللہ تمھاری صبح برباد کرے۔حضرت زبیر نے کوفیوں کوایسا ہی جواب دیا،حضرت طلحہ نے اپنے پاس آنے والے بصریوں کو دھتکار دیا۔


باغیوں نے حضرت محمد بن مسلمہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اورحضرت علی اس مسئلہ پرحضرت عثمان سے بات کریں۔ سیدنا عثمان نے تسلیم کیا کہ ابو اعور انھی کا غلام ہے، اونٹ بھی ان کا ہے،مہر بھی ان کی ہے، لیکن نہ خط انھوں نے لکھوایا نہ غلام کو بھیجا نہ اسے سواری دی۔حضرت علی اورحضرت ابن مسلمہ نے کہا:عثمان سچ کہتے ہیں، یہ مروان کی کارستانی ہے۔ اس نے یہ خط حضرت عثمان سے اجازت لیے بغیران کے قلم سے، مہر خلافت لگا کر ازخود لکھا تھا۔وہ سورۂ مائدہ کی اس آیت پر عمل کرنا چاہتا تھا:’اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْ٘ا اَوْ يُصَلَّبُوْ٘ا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ‘، ”بے شک ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کریں اور زمین میں فساد مچاتے پھریں، یہی ہے کہ بری طرح قتل کر دیے جائیں،سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کر دیا جائے‘‘ (۵: ۳۳)۔ یہ درست ہے کہ بلوائی خلافت اسلامیہ کے باغی اور فساد فی الارض کے مرتکب تھے اور ایسے ہی لوگوں پر آیت محاربہ کے احکامات لاگو ہوتے ہیں، تاہم مروان حاکم مجاز تھا نہ اسے حق تھا کہ قرآن کے احکام کو پورا کرنے کے لیے جعل سازی سے کام لیتا۔حضرت علی اور دوسرے صحابہ گھروں کولوٹے تو باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا۔

محاصرے کے بعد جمعہ کا دن آیاتو سیدنا عثمان گھر سے نکلے، نماز پڑھائی پھر منبر پر کھڑے ہو کر کہا:اہل مدینہ کو علم ہے کہ تم بلوائیوں پرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعے سے لعنت کی گئی ہے لہٰذا اپنی غلطی کی اصلاح کر لو۔حضرت محمد بن مسلمہ نے ان کی بات کی تائیدکی تو باغی لیڈر حکیم بن حبلہ نے انھیں بٹھا دیا۔حضرت زید بن ثابت کھڑے ہوئے تو دوسرے طاغی محمد بن ابو قتیرہ نے انھیں بیٹھنے کو کہا۔سب نمازی اٹھ کھڑے ہوئے تو سرکشوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ نمازی سنگ باری سے مسجد سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔ظالموں نے حضرت عثمان پر بھی پتھر برسائے تو وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔انھیں گھر منتقل کر دیا گیا۔ حضرت علی،حضرت طلحہ اورحضرت زبیر حضرت عثمان کی عیادت کرنے آئے تو ان کے پاس بیٹھے ہوئے بنو امیہ کے افراد نے جن میں مروان نمایاں تھا،باغیوں کی اس کارروائی کا الزام ان پر دھر دیا۔وہ غصہ سے لوٹ آئے۔ محاصرہ کو ایک ماہ گزر گیا تو بلوائیوں نے حضرت عثمان کو مسجد نبوی میں نماز پڑھانے سے روک دیا۔مسجد کے مؤذن حضرت سعد قرظ حضرت علی کے پاس آئے اور پوچھا: نماز کون پڑھائے گا؟انھوں نے کہا: خالد بن زید (ابو ایوب انصاری ) کو بلاؤ۔ چنانچہ کچھ دن انھوں نے امامت کی۔دوسری روایت کے مطابق یہ ذمہ داری انھوں نے حضرت سہل بن حنیف کو سونپی جو یکم ذی الحجہ سے دس ذی ۱لحجہ تک نمازپڑھاتے رہے۔ عید الاضحیٰ کی نمازحضرت علی نے پڑھائی، حضرت عثمان کی شہادت تک وہی امامت کرتے رہے۔

صورت حال گھمبیر ہو گئی تو حضرت عثمان اور ان کے مشیروں نے فیصلہ کیا،باغیوں کے کچھ مطالبات مان لیے جائیں۔ حضرت علی سے پھر مدد چاہی گئی۔ انھوں نے کہا: باغی زبانی تسلیوں پر مطمئن نہ ہوں گے۔وہ آپ کو قتل کرنے کے بجاے آپ سے انصاف پانا چاہتے ہیں۔پہلے آپ نے ان سے وعدے کر کے پورے نہیں کیے، اس مرتبہ ایسا نہ کرنا۔ چنانچہ دونوں نے مل کر ایک تحریر کی کہ ہر زیادتی کا مداوا کیا جائے گا اور ان تمام عمال کو معزول کردیا جائے گا جنھیں لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے مدینہ میں تین دن اور دوسرے شہروں میں اطلاع پہنچنے تک کی مدت مقرر ہوئی۔ تین دن کے بعد بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو بلوائیوں نے حصار سخت کر دیا اور اپنے مطالبات پورا کرنے پر زور دیا۔تب حضرت عثمان نے کہا: اگر میں تمھاری مرضی سے عامل مقرر کروں اور تمھارے مطالبے ہی پر انھیں معزول کر دوں توامارت میری تونہ ہوئی، تمھاری ہو گئی۔بلوائیوں نے کہا: مانگیں پوری کرو یا خلافت چھوڑ دو یا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ حضرت عثمان نے حضرت علی،حضرت طلحہ اورحضرت زبیر کو بلا لیا اور بلوائیوں اور اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو تلوار تمھاری اپنی گردنوں کے درپے ہو جائے گی اور اللہ تمھاراباہمی اختلاف کبھی ختم نہ کرے گا۔خطاب کے بعد حضرت عثمان نے اہل مدینہ کو قسم دی کہ وہ لوٹ جائیں،خود وہ گھر میں بند ہو گئے۔

 محاصرے کے اٹھارویں دن دوسرے شہروں سے فوجیں آنے کی اطلاع آئی تو بلوائیوں نے حضرت عثمان کے گھر کی مکمل ناکہ بندی کردی۔ کسی کو ان سے ملاقات کرنے د یتے نہ خوراک اور پانی پہنچانے دیتے۔ حضرت عثمان نے حضرت علی،حضرت طلحہ،حضرت زبیر اور امہات المومنین کو خبر کی توسب سے پہلے حضرت علی اور ام المومنین حضرت حبیبہ حرکت میں آئے۔حضرت علی منہ اندھیرے پہنچے اور غذااور پانی بند کرنے پر سخت ناراض ہوئے۔انھوں نے کہا: ایران وروم کے لوگ بھی قید کرتے ہیں، لیکن وہ کھلاتے پلاتے ہیں۔ان کے انکار پر انھوں نے اپنا عمامہ حضرت عثمان کے گھر پھینکا، حضرت طلحہ کو ہدایت کی کہ حضرت عثمان کے گھر پانی کے مشکیزے پہنچائے جائیں اورخود چلے گئے۔

باغیوں نے حضرت علی کی نگرانی کے لیے خالدبن ملجم، حضرت طلحہ پر سودان بن حمران اور حضرت زبیر پر قتیرہ کو نگران مقرر کر دیا اور دھمکی دی کہ اگرگھر سے نکلے تو قتل کر دیے جاؤ گے۔ان اصحاب کے لیے حضرت عثمان کے پاس آنا مشکل ہو گیا تو انھوں نے اپنے بیٹے ان کے گھر بھیج دیے۔ چنانچہ حضرت حسن، حضرت ابن عباس،حضرت محمد بن طلحہ،حضرت عبداللہ بن زبیر اور چند نوجوان پہر ا دینے کے لیے موجود رہے۔

ایک شاذ روایت میں بیان کیا گیا ہے،خلیفۂ سوم کے گھر کے محاصرے کے وقت حضرت علی خیبر میں تھے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ حضرت طلحہ کے پاس مجتمع ہیں (بصرہ کے بلوائی انھیں خلیفہ بنانا چاہتے تھے)۔ اسی اثنا میں حضرت عثمان حضرت علی کے پاس آئے اور کہا: دینی حق کے علاوہ میں آپ پربھائی چارہ، خونی رشتہ داری اور ازدواجی قرابت داری کے حقوق رکھتا ہوں۔ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اگرہم زمانۂ جاہلیت میں بھی ہوتے تو بھی بنو عبدمناف کے لیے عار ہوتا کہ بنو تیم کا ایک فرد(یعنی حضرت طلحہ ) ان کا حق چھین لے۔حضرت علی نے کہا: ابھی آپ کوخبر مل جاتی ہے۔ چنانچہ وہ حضرت طلحہ کے گھر گئے اور امور خلافت میں دخل دینے کا سبب پوچھا۔ انھوں نے کہا:مجبوری سے ایسا کیاہے۔پھرحضرت علی بیت المال گئے،اس کی کنجیاں نہ ملیں تو دروازہ توڑ کر لوگوں میں رقوم بانٹ دیں۔اب لوگ حضرت طلحہ کے پاس سے چھٹ گئے، حضرت عثمان یہ خبر سن کر خوش ہوئے۔پھرحضرت طلحہ حضرت عثمان کے پاس آئے اور کہا : امیر المومنین !میں نے ایک کام کرنا چاہا، لیکن اللہ کی طرف سے رکاوٹ آگئی۔ حضرت علی نے حضرت طلحہ سے کہا: آپ فسادیوں کو عثمان سے ہٹنے کو نہیں کہہ سکتے؟انھوں نے جواب دیا : جب تک بنو امیہ خود یہ حق نہیں دیتے۔

شہادت کے بعد خلیفۂ مظلو م حضر ت عثمان کی میت تین دن تک بے گور و کفن پڑی رہی۔ حضرت حکیم بن حزام اور حضرت جبیر بن مطعم نے حضرت علی سے بات چیت کرکے تدفین کے انتظامات کیے۔ حضرت علی، حضرت طلحہ،حضرت زید،حضرت کعب،حضرت حویطب بن عبدالعزیٰ،حضرت ابوجہم بن حذیفہ، حضرت زید بن ثابت،حضرت نیار بن مکرم اور دوسرے کئی صحابہ جنازے میں شریک ہوئے۔حضرت علی نے بلوائیوں کوان کے مکروہ ارادے سے باز کیا جو میت پر سنگ باری کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی سے سوال کیا گیا کہ حضرت عثمان کو قتل کرنے کا محرک کیا تھا؟انھوں نے مختصر جواب دیا:  حسد اس کا باعث تھا۔فرماتے ہیں: بخدا !میں عثمان کی شہادت میں شامل ہوا نہ اس کا حکم دیا، لیکن میں مغلوب ہو گیا تھا ۔ (مستدرک حاکم، رقم ۴۵۶۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۸۸۲۶)۔اس بات کو انھوں نے ایک مثال سے واضح کیا۔ ایک جنگل میں ایک شیر اور سفید، سرخ اور سیاہ تین بیل رہتے تھے۔بیلوں کے اتفاق کی وجہ سے شیر انھیں کھا نہ سکتا تھا۔شیر نے سرخ اورسیاہ بیلوں سے کہا: اس سفید بیل کی وجہ سے ہمیں خطرہ ہے، کیونکہ اس کا رنگ ہر کسی کو نظر آ جاتا ہے۔مجھے اس کا شکارکر لینے دو تو ہم مل جل کر رہیں گے۔کچھ دن گزرے تھے کہ اس نے سرخ بیل سے کہا: سیاہ بیل کی وجہ سے ہمارا جنگل خطرے میں ہے، کیونکہ یہ مشہور رنگ ہے۔میرا اور تمھارا رنگ اتنے عام نہیں۔مجھے اس کو کھا لینے دو توجنگل ہمارا ہوجائے گا۔ اس کا کام تمام ہوا تو شیر نے سرخ بیل سے کہا: میں تمھیں کھانے لگا ہوں، لیکن اس سے پہلے میں تین آوازیں لگاؤں گا۔بیل ناچار بولا: لگا لو۔شیر پکارا: سرخ بیل کومیں نے اسی روز کھا لیا تھا جب سفید بیل کا شکار کیا تھا،سرخ بیل کومیں نے اسی روز کھا لیا تھا جب سفید بیل کا شکار کیا تھا، سرخ بیل کومیں نے اسی روز کھا لیا تھا جب سفید بیل کا شکار کیا تھا۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جوزی)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،سیرت النبی (شبلی نعمانی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:مرتضیٰ حسین فاضل)، سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)،اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب(علی محمد صلابی)، wikipedia۔

[باقی]

____________

B