فوکس، احتساب اشراق ہند کے شمارہ(جون ۲۰۱۸ء) میں اداریے کے تحت ”موت کی یاددہانی“ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ اِس مضمون میں موت کی یاد سے غفلت کی تذکیر کے ساتھ اخلاقیات کے معاملے میں لوگوں کی بے حسی پرنکیر بھی کی گئی تھی۔اِس کو پڑھ کر ایک صاحب نے لکھا کہ ـــــــــــ مضمون میں صرف موت اور معرفت جیسی چیزوں پر ’’فوکس‘‘ ہونا چاہیے۔اِس میں غم خواری اور اخلاقیات جیسی چیزوں کو شامل کرنے سے قاری کا اصل فوکس (معرفت اور تذکیر بالموت) بدل گیا ہے۔
کسی ایک پہلو پر ’’فوکس‘‘ (focus) کرنا، بلاشبہ دعوتی اعتبار سے بعض مرتبہ ضروری ہوتا ہے، مگر یہ کوئی مطلق اصول نہیں۔اکثر حالات میں مدعو کے احوال کی نسبت سے ضروری ہوتا ہے کہ ایک داعی تذکیر کے ساتھ تنبیہ و احتساب کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اُن چیزوں کو بھی اپنی دعوت و اصلاح کا موضوع بنائے جن کے معاملے میں لوگ غفلت کا شکار ہیں۔اِس اعتبار سے دیکھیے تو یہ فوکس کا مسئلہ نہیں، بلکہ نکیر کا مسئلہ ہے، یعنی وہی چیز جس کو قرآن اور حدیث میں ’انکار منکر‘ کہا گیا ہے۔ اِس طرح کے معاملے میں ’’فوکس‘‘ کو بنیاد بناکر راے قائم کرنا بلا تشبیہ گویا اُسی طرح کی ایک بات ہوگی، جیسے ایک شخص یہ کہے کہ قرآن میں تبشیر کے ساتھ انذار کے شامل ہوجانے سے اُس کا فوکس بدل گیاہے۔قرآنی دعوت کو صرف تبشیر پر مبنی ہونا چاہیے۔
اگر یہ کہنا درست ہے تو پھر مذکورہ تصور دین کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت جیسے موقع پرشریعت اور اخلاق کی تعلیم دینے کے بجاے صرف موت کی یاددہانی کرانی چاہیے تھی، جب کہ واقعہ اِس کے برعکس ہے۔ اِس معاملے میں احادیث کے ذخیرے سے صرف ’ کتاب الجنائز‘ کا مطالعہ مذکورہ تصور دین کی تردید کے لیے کافی ہو گا۔
اگر دین کا مذکورہ تصور درست ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت جیسے موقع پر تذکیر بالموت کے علاوہ، لوگوں کودرج ذیل قسم کی ہدایات کیوں دیں:
٭ تعزیت کی تعلیم اور اُس کی تلقین کرتے ہو ئے آپ کے ارشادات، جیسے: ’مَن عزّٰی مُصابًا، فلہ مثلُ أجرہ‘( جس نے کسی مصیبت زدہ شخص کو صبر واحتساب کی تلقین کی تواُس کے لیے بھی اُسی جیسا اجر ہوگا)[1]۔
٭ متوفی کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کر نے کا حکم فرمانا[2]۔
٭ متوفی کی طرف سے اُس کے قرض کی ادائیگی کی تاکید کرتے ہوئے آپ کا یہ فرمانا: ’نفس المؤمن معلَّقة بدَینہ، حتّٰی یُقضٰی عنہ‘ (مسلمان کی جان اُس کے قرض کے ساتھ اٹکی رہتی ہے، جب تک کہ وہ میت کی طرف سے ادا نہ کردیا جائے)[3]۔
٭ متوفی پرنوحہ وماتم کرنا[4]، بال ترشوانا[5]، پراگندہ بال ہونا[6]، منہ پیٹنا اور کپڑے پھاڑنا[7]، قبر کو سجدہ گاہ بنانا[8] جیسے افعال کو ممنوع اورسرتا سر جاہلی افعال قرار دینا،وغیرہ ۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اُس میں اِس قسم کے غیر فطری اپروچ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انسان جسم اور روح، دونوں کا مجموعہ ہے،اِس لیے ضروری تھا کہ اُس میں جسم اور روح، دونوں سے متعلق رہنمائی موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قانون وشریعت کی تعلیم بھی ہے اور فلسفہ وحکمت کی تلقین بھی۔اسلام نہ صرف شریعت ہے اور نہ صرف حکمت، بلکہ وہ یکساں طورپر شریعت اورحکمت، دونوں کا جامع ہے۔ انسان کے ظاہر و باطن کے تزکیہ و تطہیر کے لیے جس خدا اور رسول نے حکمت کی تعلیم دی ہے، اُسی خدا اور رسول کی طرف سے اُس کو شریعت اور قانون بھی عطا کیا گیا ہے۔ اِس لیے ہم کو اِس بات سے ہمیشہ خدا کی پناہ مانگنا چاہیے کہ اِس معاملے میں ہم یہود ونصاریٰ کی طرح افراط و تفریط [9] کا شکار ہوکر خدا کے نزدیک ’گم راہ‘ اور ’مغضوب‘ قرار پائیں۔
(لکھنؤ،یکم جولائی ۲۰۱۸ء)
____________
[1]۔ ترمذی، رقم ۱۰۷۳۔
[2]۔ ابو داؤد، رقم ۳۱۳۲۔
[3]۔ ترمذی، رقم ۱۰۷۸۔ ابن ماجہ، رقم ۲۴۱۳۔
[4]۔ مسلم، رقم ۹۳۴۔
[5]۔ بخاری، رقم ۱۲۹۶۔ مسلم، رقم ۱۰۴۔
[6]۔ ابو داؤد، رقم ۳۱۳۱۔
[7]۔ بخاری، رقم ۱۲۹۷۔ مسلم، رقم ۱۰۴۔
[8]۔ بخاری، رقم ۱۳۳۰۔ مسلم، رقم ۵۲۹۔
[9]۔ قرآن کے مطابق، یہود نے ظواہر دین (شریعت )میں غلو کیا تھا، اور نصاریٰ نے روح دین میں غلو کرکے بہ زعم خود اِسی غلو آمیز تصور کو اصل دین قرار دے دیا۔