HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

ختم شد (۲)

۲۔ایمان ہی نجات کی دلیل ہے

ہمیں عدل پرقائم ایک ہستی کی طرف سے امتحان میں مبتلاکیاگیاہے،اس لیے یہ بات لازم قرارپائی ہے کہ آخرت میں کامیابی کا مکمل انحصارہمارے اپنے کمائے ہوئے اعمال پرہو۔بلکہ رسولوں کے اتمام حجت کے بعد برپا ہونے والی عدالت میں بھی نجات کا یہی معیاربرقرار رکھاگیاہے اوراس سلسلے میں رنگ،نسل یااس طرح کی کسی بھی غیرکسبی شے کوہرگز استثنا نہیں دیا گیا۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ازاول تاآخر،یہی اصول اپنی پوری شان سے کار فرما ہے۔ مثال کے طور پر،حضرت نوح اپنی قوم کو دعوت دیں یا اُنھیں تنبیہ کریں۔ نجات کی دعاکریں یا عذاب کی درخواست کریں۔خدا اپنے عذاب کا فیصلہ سنائے یا نجات پانے والوں کا بیان کرے۔کامیابی کا مژدہ سنائے یاناکام ہونے والوں پرلعنت کابیان کرے؛ اس طرح کے ہر موقع پرایمان وکفر، توحید وشرک، رسول کی معیت اوراس کی تکذیب ہی کاصراحت سے ذکرہوا ہے[19]۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب کشتی میں سوار کرنے کا حکم دیا گیا تو اس وقت بھی حضرت نوح سے فرمایا ہے کہ وہ صرف اورصرف ایمان والوں کو اس میں سوارکریں۔

اب اس طرح کے محکم اورصریح اصول میں بھی اگرکوئی صاحب رخنہ پیداکردیناچاہیں تواس میں شک نہیں کہ وہ یہ سب کچھ کر گزرنے میں آزاد ہیں، مگر لازم ہے کہ اِس کے لیے وہ خداکی کتاب میں سے بہت ہی واضح نص لے کرآئیں۔ اوریہ ان پراسی طرح سے لازم ہے جیساکہ مثال کے طورپر، زمین و آسمان پرصرف ایک خداکی خدائی قائم ہے اورانسانوں میں انسان ہی رسول بناکر بھیجے جاتے ہیں۔ اب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ کسی سیارے پراُس کے سواکوئی دوسراخدابھی حکومت کرتاہے اورفرشتوں کوبھی کبھی کبھار انسانوں کی طرف رسول بناکر بھیج دیا جاتا ہے تو ظاہرہے،اس طرح کا استثنالانے کے لیے اسے بڑی ہی مضبوط دلیل چاہیے ہوگی۔ لیکن ان حضرات کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے حضرت نوح کے اہل وعیال کوجب نجات کے قانون سے مستثنیٰ قراردینے کی کوشش کی تواس کے لیے کوئی صریح اورواضح نص ہرگز پیش نہیں کی،بلکہ حسب معمول یہ بہت دورکی کوڑی لائے ہیں اوراسی سے اپناکام نکال لیناچاہتے ہیں۔


’’استثنا‘‘ کی دلیل

ان کی پیش کردہ دلیل یہ ہے :

قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَﵧ وَمَا٘ اٰمَنَ مَعَهٗ٘ اِلَّا قَلِيْلٌ. (ہود ۱۱:  ۴۰)
’’ہم نے کہا: ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑے اِس میں رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور (اُن کے ساتھ) اپنے گھر والوں کو بھی اِس کشتی میں سوار کرا لو، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں  ــــ  اور تھوڑے ہی لوگ تھے جواس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘

آیت کو باربارپڑھ کردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس میں نجات کے عمومی اصول سے کسی کومستثنیٰ قرارنہیں دیا گیا اورحضرت نوح سے قطعاً یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اہل وعیال کوایمان کے بغیراورمحض اپنے اہل ہونے کی بنیاد پر کشتی میں سوارکرالیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کو ایک اشارہ پیداکرکے اسی پراکتفا کرناپڑا ہے۔ان کے لفظوں میں آیت میں سے ’’یہ اشارہ بھی نکل رہاہے کہ حضرت نوح کے اہل خانہ کو محض اُن کے اہل ہونے کی بنا پربھی سوارہونے کی اجازت تھی۔‘‘اس لیے کہ یہاں ’’’مَنْ اٰمَنَ‘ کا عطف ’اَهْلَكَ‘ سے مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘اور’’ایمان کے بجاے رشتہ داروں کی طرف دلالت کرتاہے۔‘‘ اس بات کی تائیدمیں انھوں نے ایک اورآیت میں سے ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کے الفاظ پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’جب آپ کا بیٹا کشتی میں سوارہونے سے روک دیاگیا[20]تواس وقت یہی کہا گیا کہ وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے،جب کہ اگراہل خانہ کے لیے ایمان کی شرط ہوتی توکہاجاتاکہ وہ ایمان والوں میں سے نہیں ہے۔‘‘



مغالطے


غورکیاجائے توان کی طرف سے بیان کردہ دوعدد’’ اشاروں ‘‘ میں کم سے کم چارعدد مغالطے پائے جاتے ہیں :

۱۔مغایرت کامطلب یہ ہے کہ معطوف اورمعطوف علیہ میں ہرلحاظ سے مغایرت پائی جائے گی۔

۲۔مغایرت کس اعتبارسے ہے،اس کافیصلہ معطوف کے لحاظ سے کیاجائے گا۔

۳۔اس آیت میں ’اَهْلَكَ‘سے مرادنوح کے سب گھروالے ہیں۔

۴۔دوسری آیت کے جملے ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ میں بھی ’اَهْلِكَ‘مطلق طورپرآیاہے اوراس سے مرادنوح کے سب گھروالے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ طوفان نوح میں غرق ہونے والاشخص حضرت نوح کاحقیقی بیٹانہیں تھا۔


ازالہ


ان مغالطوں کاازالہ کرنے کے لیے ذیل کی چندباتیں سامنے رہنی چاہییں:

۱۔اس میں شک نہیں کہ معطوف اورمعطوف علیہ کے درمیان میں مغایرت بھی ہوتی ہے،مگر اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ ان دونوں میں کوئی ایک بات بھی مشترک نہ ہوگی اوروہ ہرلحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوجائیں گے۔مثلاً، اس آیت میں فرمایا ہے :

قَالُوْ٘ا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَمُوْسٰي.(طٰہٰ۲۰: ۷۰)
’’انھوں نے بے اختیارکہا:ہم موسیٰ اورہارون کے رب پرایمان لے آئے ہیں۔‘‘

یہاں ’مُوْسٰی‘  کالفظ ’هٰرُوْنَ ‘ پرعطف کیاگیاہے۔ظاہرہے کہ یہ دونوں آپس میں متغایر ہیں، مگر جان لیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کے غیرہوتے ہوئے بھی بہت سے پہلوؤں سے بالکل ایک جیسے ہیں،جیساکہ انسان ہونے کے ناتے اوراسلام پرقائم ہونے اور خداکا پیغمبر ہونے کے لحاظ سے۔زیربحث آیت کی بھی یہی نوعیت ہے۔ ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ اس آیت میں ’وَاَهْلَكَ‘ پرعطف ہواہے،اس لیے یہ بات توطے ہے کہ جن دو گروہوں کااس میں ذکرہواہے،وہ ایک دوسرے کے غیرہیں، مگراس کا مطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ یہ اپنے اوصاف میں ہرلحاظ سے مختلف ہیں، یہاں تک کہ اسلام اورکفرکے معاملے میں بھی۔


۲۔ان حضرات کے مطابق عطف کی یہ مغایرت معطوف کی وجہ سے پیداہوتی ہے اوراسی لیے انھوں نے ’وَاَهْلَكَ‘ کے معطوف علیہ میں ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کے معطوف کی وجہ سے یہ معنی پیدا کر دیا ہے کہ یہاں نوح کے اہل کاایمان اب زیربحث نہیں رہا۔دراں حالیکہ اصل اصول یہ ہے کہ یہ مغایرت معطوف کے بجاے معطوف علیہ کی وجہ سے پیداہوتی ہے۔یعنی، جوبات پہلے بیان کی جاتی ہے،اس کے بعد آنے والی بات اسی کے لحاظ سے غیر اور مختلف سمجھی جاتی ہے کہ یہی کلام کی ترتیب اوراُس کی فطرت کا تقاضا ہے۔مثال کے لیے ذیل کی آیت دیکھ لی جائے:

وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۣ بَلَغَ.(الانعام۶: ۱۹)
’’اورمیری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کروں اورانھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘

اس آیت میں ’كُمْ‘ معطوف علیہ ہے اور اس کے مطابق مغایرت اس طرح سے بنتی ہے کہ’’ اس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کروں اور تمھارے علاوہ اُنھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘


اسی طرح زیربحث آیت کامعاملہ ہے۔اس میں’وَاَهْلَكَ‘ معطوف علیہ ہے،چنانچہ اس کی روشنی میں ہم اس کے معطوف یعنی،’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کی مغایرت بیان کریں گے جویہ بنے گی کہ’’ اے نوح، اپنے گھروالوں کو اورانھیں جو تیرے گھروالے تو نہیں ہیں،مگر ایمان لائے ہوئے ہیں،اپنی کشتی میں سوارکرالو۔‘‘

 صحیح اصول جان لینے کے بعداب ان حضرات کے خودساختہ اصول کوبھی دیکھ لیاجائے کہ اس کے نتیجے میں مغایرت کے نام سے کیا کچھ مضحکہ خیزیاں وجودمیں آسکتی ہیں۔ مثال کے لیے پہلی آیت کے ترجمہ پردوبارہ سے نظرڈال لی جائے:

وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۣ بَلَغَ.(الانعام۶: ۱۹)
’’اورمیری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کروں اورانھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘

یہ اس کاسیدھااورصاف مطلب ہے،مگران کے اصول کے مطابق ’وَمَنْۣ بَلَغَ ‘یہاں اس بات کاقرینہ ہو گا کہ ’كُمْ‘ میں ابلاغ کامعنی نہیں رہا، اس لیے اب اس کامطلب ہوگاکہ’’ اس قرآن کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کروں کہ جنھیں یہ نہیں پہنچا اور انھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘


بلکہ زیربحث پوری آیت کامطلب بھی دیکھ لیاجائے کہ وہ کیسی عجیب صورت اختیارکرلیتاہے :’’ اے نوح، تم ان سب جانوروں کو جو تیرے گھر میں نہیں رہے اوراپنے اُن گھروالوں کو جو ابھی تک ایمان نہیں لائے اور ایمان والوں کواپنے ساتھ کشتی میں سوارکرالو۔‘‘

۳۔ان کاکہنا ہے کہ زیربحث آیت میں ’اَهْلَكَ‘ سے مرادحضرت نوح کے تمام اہل وعیال ہیں اورجہاں تک ان کے صاحب ایمان ہونے کاتعلق ہے تو’’یہاں لفظوں میں کوئی قرینہ ایمان کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔‘‘ اس پر ہم عرض کریں گے کہ انھیں لاحق ہونے والایہ بھی ایک صریح مغالطہ ہے۔اس لیے کہ ’اَهْلَكَ‘پر تو دیکھ لیا جاسکتاہے کہ واضح طورپر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘ کے الفاظ آئے ہوئے ہیں۔اوریہ الفاظ چونکہ مخصِص کے طورپرآئے ہوئے ہیں،اس لیے یہ کسی صورت ممکن نہیں رہاکہ اسے مطلق رہنے دیاجائے اور نوح کے سب اہل کے معنی میں لے لیا جائے۔ بلکہ اُن کے اہل میں سے اب صرف وہ لوگ مرادہوسکتے ہیں جن پر خدا کے عذاب کافیصلہ صادرنہیں ہوچکا، یعنی وہ شرک سے بچے ہوئے اورایمان لے آئے ہوئے لوگ ہیں[21]۔

۴۔ ایک آیت میں ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘  کاجملہ نقل ہواہے۔ان حضرات کومغالطہ ہواہے کہ اس میں آنے والالفظ ’اَهْلِكَ‘مطلق طورپراستعمال ہواہے، اس لیے غرق ہونے والے شخص کے بارے میں جب کہا جائے گاکہ وہ نوح کے اہل میں سے نہیں ہے تواس کامطلب ہوگاکہ وہ حضرت نوح کاحقیقی بیٹانہیں ہے۔اس مغالطے کے ازالے کے لیے آیت میں آنے والے ’اَهْلِكَ‘کوبھی اس کے سیاق میں رکھ کراچھی طرح سے سمجھ لیناچاہیے۔ اس سلسلۂ کلام میں یہ لفظ پہلے آیت ۴۰میں آیاہے اور وہاں اس کا استعمال اپنے عموم کے بجاے تخصیص میں ہواہے،جیساکہ اوپرتفصیل گزری۔سو اس میں پائی جانے والی یہی تخصیص ہے جو اِعادۂ معرفہ کے اصول پر اس واقعہ کے تفصیلی بیان میں آخرتک موجودرہی ہے،حتیٰ  کہ مذکورہ جملے ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ‘  میں بھی یہ مکمل طورپر قائم ہے۔ یہ تخصیص اگرسمجھ لی جائے تو اب دوباتیں بالکل واضح ہو کرسامنے آجاتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں بھی ’اَهْلِكَ‘سے مرادنوح کے سب گھروالے نہیں،بلکہ ان میں سے صرف وہ لوگ مراد ہیں جن پرخداکے عذاب کافیصلہ صادرنہیں ہوچکا،یعنی وہ نجات پانے والے لوگ ہیں۔دوسرے یہ کہ ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کے اس جملے کامطلب اب یہ نہیں ہوسکتاکہ اے نوح،وہ غرق ہونے والاشخص تمھارے خاندان کافردنہیں تھا۔ بلکہ اس کامطلب ہوگاکہ وہ تمھارے خاندان کے اُن لوگوں میں سے نہیں تھاجوخداکے عذاب سے نجات پاجانے والے تھے۔

باقی رہااس شخص کی ابنیت کامعاملہ تواس کے لیے مذکورہ آیت کے بجاے اُس مقام کودیکھ لینازیادہ مناسب ہے جس میں خداے علام نے نہایت واضح الفاظ میں اُسے نوح کابیٹا قراردیا ہے۔ فرمایاہے:

وَهِيَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِﵴ وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ.(ہود۱۱: ۴۲)
’’وہ کشتی پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان اُن کولے کرچلنے لگی اورنوح نے اپنے بیٹے کو آوازدی۔‘‘


’’ استثنا‘‘کا رد


 نجات کے عمومی معیارمیں استثنالانے کی کوششوں کا رد ہم نے دوطریقوں سے کیاہے۔ایک یہ واضح کرکے کہ ان حضرات کے بیان کردہ استثناکے حق میں کوئی بھی صریح نص موجودنہیں،بلکہ اگرکوئی چیز اس کے پیچھے ہے تووہ تہہ درتہہ مغالطوں کی ایک دنیاہے۔ دوسرے یہ بتا کر کہ قرآن میں ایجابی طورپر واضح کردیاگیا ہے کہ حضرت نوح کے اہل کے معاملے میں بھی نجات کاعمومی قانون کارفرما رہا اوراُن کافیصلہ بھی محض اہل ہونے کی بنیادپرنہیں،بلکہ اُن کے ایمان اورکفر کی بنیاد پر کیاگیا۔اس ذیل میں ہم نے دوآیات کوپیش کیا ہے :


پہلی آیت


ارشادہواہے :

فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُﶈ فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْﵐ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْاﵐ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ.(المومنون ۲۳: ۲۷)

’’پھرجب ہماراحکم آجائے اورطوفان ابل پڑے تو اس میں ہرقسم کے جانوروں کے جوڑے رکھ لو، (نر و مادہ)دودواور(اُن کے ساتھ) اپنے لوگوں کو بھی سوار کرا لو،ان میں سے سواے ان کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکاہے اورمجھ سے ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہ کہناجنھوں نے اپنی جانوں پرظلم کیاہے۔وہ لازماًغرق ہوکررہیں گے۔‘‘

آیت کے اجزاکے بارے میں چندباتیں ملحوظ رہنی چاہییں:


ایک یہ کہ آیت میں ’سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘کے الفاظ آئے ہیں۔اس سے مراداصل میں مشرکین کے بارے میں سنادیاگیا فیصلہ ہے کہ جس کے مطابق وہ خداکے عذاب کی لپیٹ میں آکررہیں گے۔

دوسرے یہ کہ آیت میں آنے والے ’اَهْلَكَ‘سے مرادخاندان نوح کے افرادہیں۔اور مومنین کے عمومی لفظ کوچھوڑکراسے لایاگیاہے تواس کی وجہ علی سبیل التغلیب کااسلوب ہے۔اس اسلوب کااستعمال یہاں اس لیے کیاہے کہ حضرت نوح پرزیادہ ترآپ کے خاندان کے لوگ ایمان لائے تھے،اس لیے مومنین کے اس معتدبہ حصے کابیان کردیا توگویاسب مومنین کا بیان کردیاگیا۔

اجزاکی وضاحت کے بعدآیت کامفہوم یہ بنتاہے کہ حضرت نوح نے اپنی قوم کے ایمان سے ناامید ہو کر جب اپنے خداسے دعاکی تو اُنھیں حکم ہواکہ ایک کشتی ہمارے سامنے اورہماری ہدایت کے مطابق تیار کرو۔ پھر جب فیصلے کاوقت آجائے اورطوفان ابل پڑے تو ’فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ‘۔اس میں اپنی ضرورت کے تمام جانوروں کے جوڑے رکھ لینا۔اس کے بعدفرمایاہے: ’وَاَهْلَكَ‘۔اور اپنے گھروالوں کوبھی اس میں سوار کرا لینا۔ کشتی میں سوارہونے کا مطلب اصل میں خداکے عذاب سے نجات پاناتھااوروہ صرف ایمان والوں کانصیب تھی،اس لیے آپ سے خصوصاًفرمایا گیا:’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ‘ کہ اپنے خاندان میں سے اُن افرادکوہرگزاس میں سوارنہ کراناجوایمان والے نہ ہوں اوراس وجہ سے اُن پر خدا کا فیصلہ صادق آچکاہو۔ اس کے بعدیہ ہدایت بھی کردی گئی کہ تمھارے خاندان میں سے جولوگ تم پرایمان نہ لائیں،وہ ظالم ہیں،اس لیے ’وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ‘۔ان ظالموں کی ہم دردی اور سفارش میں ہم سے کوئی بات نہ کہنا۔ ’اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ‘، وہ بہرصورت غرق کر دیے جائیں گے۔


دوسری آیت

قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَﵧ وَمَا٘ اٰمَنَ مَعَهٗ٘ اِلَّا قَلِيْلٌ .(ہود ۱۱: ۴۰)
’’ ہم نے کہا:ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑے اِس میں رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور (اُن کے ساتھ) اپنے گھر والوں کو بھی اِس کشتی میں سوار کرا لو، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں ــــ اور تھوڑے ہی لوگ تھےجو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ‘‘

اس آیت کے اجزاکے بارے میں بھی چندچیزیں جان لینی چاہییں:



ایک یہ کہ اس میں ’وَمَنْ اٰمَنَ’  کو ‘اَهْلَكَ‘پرعطف کیاگیاہے۔یہ عام بعدالخاص کی نوعیت کا عطف ہے اور تعمیم کے لیے آیاہے۔اس کافائدہ یہ ہواہے کہ کشتی میں سوارکرنے کے حکم کادائرہ خاندان سے باہرکے مومنین کوبھی محیط ہو گیاہے۔یعنی، اس کامطلب اب یہ ہے کہ اے نوح،تم نہ صرف اپنے گھروالوں، بلکہ دوسرے مومنین کوبھی اس کشتی میں سوارکرالو۔

دوسرے یہ کہ آیت میں ’اَهْلَكَ‘پر’اِلَّا‘ کے ذریعے سے تخصیص لائی گئی ہے۔یہ جس پرآتی ہے اُس کے بعض افرادکوچونکہ اُس میں سے خارج کردیتی ہے،اس لیے یہ بات طے ہے کہ اس لفظ میں اب نوح کے خاندان کے سب افرادشامل نہیں رہے،بلکہ اُس کے بعض افراد،لامحالہ اِس میں سے خارج ہو گئے ہیں۔اورمزیدیہ کہ خاندان کے افرادہونے کے باوجود، اس لیے خارج ہو گئے ہیں کہ وہ مشرک ہیں اور خداکے فیصلے کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔’اَهْلَكَ‘کے اندریہ تخصیص ایک اورطرح سے بھی پیداہوئی ہے۔وہ اس طرح سے کہ اس پرآنے والا ’مَنْ اٰمَنَ‘  کاعطف ایک ہی وقت میں جس طرح یہ بتارہاہے کہ وہ ’اَهْلَكَ‘کا غیرہے،اسی طرح اپنے اندر موجودایمان کاایک رنگ بھی اس میں پیداکررہاہے۔

اجزاکی وضاحت کے بعداب آیت کامفہوم بڑی آسانی سے سمجھ لیاجاسکتاہے۔یہ بھی اصل میں اُس موقع کا بیان ہے جب عذاب کاوقت قریب آن لگاہے اور نوح علیہ السلام کوحکم دیاگیاہے کہ اپنی ضرورت کے تمام جانوروں کے جوڑے کشتی میں رکھ لیں۔ یہ جانورغیرذوی العقول ہیں اوراس دنیامیں برپاکیے گئے امتحان سے قطعی طورپر لاتعلق ہیں، اس لیے اُن میں سے کون ساجوڑارکھاجائے، اس کاپیمانہ یہی ہوناچاہیے کہ وہ جانورہوں اور اُن کی ضرورت کے جانور ہوں۔ اس کے بعدفرمایاہے: ’وَاَهْلَكَ‘اوراس کے ساتھ اپنے اہل کوبھی سوار کرا لیں۔ اُن کے اہل ہم جانتے ہیں کہ ذی شعورانسان ہیں اور اس وجہ سے دنیامیں برپاہوئے امتحان سے گزررہے ہیں،اس لیے ان میں سے کون سوارکیاجائے،اس کافیصلہ ان کے اہل ہونے کے بجاے ان کی اہلیت کی بنیاد پرہوناچاہیے۔بلکہ یہ سب لوگ آپ کی رسالت کے بھی براہ راست مخاطب ہیں،اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان میں سے صرف ایمان والے کشتی میں سوارکرائے جائیں۔چنانچہ یہی وجہ ہوئی کہ ’اَهْلَكَ‘پر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ لاکراس بات کو بالکل صراحت کے ساتھ بھی بیان کردیاگیا۔یعنی، ’اِلَّا‘کی اس تخصیص سے بتادیا کہ اُن کے اہل میں سے صرف صاحب ایمان کشتی پر سوارہوسکیں گے اور جوشرک پرقائم ہیں اوراس طرح خداکے فیصلے کی زدمیں آچکے ہیں،وہ سوار ہونے سے یک سر محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ’اَهْلَكَ‘پر ’مَنْ اٰمَنَ‘  کا عطف لایاگیاہے۔اس عطف نے جس طرح دیگرمومنین کوبھی اس حکم میں شامل کرلیاہے،اسی طرح ایک زائدقرینہ اس بات کابھی فراہم کردیاہے کہ ’اَهْلَكَ‘سے مرادیہاں صرف مسلمان اہل ہیں۔اس لیے کہ اس سیاق میں عطف کے ان الفاظ کاصحیح مطلب بنتاہے :’’ اوردوسرے ایمان والے بھی‘‘۔اورغورسے دیکھاجائے تویہ’’ دوسرے‘‘  کا مفہوم بھی اصل میں ’اَهْلَكَ‘کے اندر ایمان والوں کا مفہوم پیدا کررہاہے۔


اعتراضات


دیکھ لیاجاسکتاہے کہ مذکورہ بالادونوں آیتیں اس معاملے میں بالکل قطعی ہیں کہ نوح علیہ السلام کے خاندان کا فیصلہ بھی اسلام کے عام قانون نجات کے مطابق ہی ہوااور کسی بھی شخص کومحض اُن کے اہل ہونے کی بنیاد پر رتی بھر کوئی رعایت نہیں دی گئی۔مگران آیتوں کی ہماری طرف سے پیش کردہ وضاحت پران حضرات کی طرف سے کچھ اعتراضات کردیے گئے ہیں :

۱۔کہاگیاہے کہ ہم نے مختلف مقامات پرایک ہی لفظ اورایک ہی آیت کے مختلف تراجم کیے ہیں۔ مثلاً، اگر ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ سے کبھی ’’اولادآدم‘‘ مرادلی ہے اور کبھی ’’ان کی نسل‘‘ تواسی طرح ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کا ترجمہ ایک جگہ یہ کیاہے :’’اوران کوبھی جوایمان لائے ہیں۔‘‘ اور ایک مقام پراس میں لفظ’’ دوسرے‘‘ کااضافہ کرتے ہوئے یوں ترجمہ کیاہے :’’اوردوسرے مومنین کوسوارکرالو۔‘‘

 کسی لفظ اور آیت کوایک سے زیادہ طریقوں سے ترجمہ کرنانہ توغلط ہے اورنہ یہ راے میں ’’ متلون‘‘مزاج ہونے کا غماز ہے۔ لفظوں کے چناؤمیں اصل معیارجس طرح مترجم کافہم اوراُس کاذوق انتخاب ہوتاہے،اسی طرح وہ مقاصدبھی اس میں معیارہوتے ہیں جنھیں سامنے رکھ کریہ ترجمہ کیاجارہاہوتاہے۔مثال کے طور پر، کبھی مترجم آیت کالفظی ترجمہ کرناچاہتاہے اورکبھی سلیس اور بامحاورہ۔کبھی وہ آیت کی نحوی تالیف بتانا چاہتا ہے توکبھی وہ اس میں پائے جانے والے کسی خاص پہلوکی وضاحت اوراسی طرح کے دیگر مقاصد کے پیش نظر ترجمہ کرناچاہتاہے۔ظاہرسی بات ہے،یہ سب ترجمے مختلف الفاظ میں کیے جائیں گے،مگراس کے باوجودیہ سب ایک ہی آیت کے اوربالکل صحیح ترجمے ہوں گے۔ سو اسی طرح کامعاملہ ان مقامات کاہے جن پریہ حضرات معترض ہو بیٹھے ہیں۔ ’’اولاد آدم‘‘ اور ’’ان کی نسل‘‘یہ اصل میں’ذُرِّيَّتَهُمْ‘کے دومختلف ترجمے نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی مدعا کی اردوزبان میں دومختلف تعبیرات ہیں۔گویامترجم کے ہاں یہ دونوں مترادفات ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ’’ان کی نسل‘‘ سے ’’ان انسانوں کی نسل‘‘مرادلے رہاہے۔اسی طرح ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک مقام پر’’دوسرے‘‘ کاجواضافہ کیاگیاہے تواس سے مقصودفقط اس لفظ کی وہاں موجودگی کی صراحت کردینا ہے [22]، وگرنہ یہ اُس جگہ بھی موجود ہے، جہاں عربی اسلوب کی موافقت میں اس کا ذکر نہیں کیاگیا۔

باقی ان کایہ اعتراض کرناکہ اس ’’دوسرے‘‘کے لیے عربی متن میں کوئی لفظ موجودنہیں ہے تواس پرہم بتاناچاہیں گے کہ قرآن کریم کی عربی میں اس طرح کے الفاظ کبھی صراحت سے ذکرکردیے جاتے ہیں اورکبھی ذکرتونہیں کیے جاتے،مگرکلام کی ساخت اوراُس کی دلالت سے آپ سے آپ سمجھ لیے جاتے ہیں۔مثال کے طورپر،ایک مقام پراس کے لیے ’’اُخَرَ ‘‘  کالفظ لاتے ہوئے فرمایاہے :

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ ۲:  ۱۸۴)
’’پھرجوتم میں سے بیمارہویاسفرمیں ہوتووہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔‘‘

مگرذیل کی آیت میں اسے ذکرکرناضروری نہیں سمجھاگیا:

وَمَا٘ اُوْتِيَ مُوْسٰي وَعِيْسٰي وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ.(آل عمران۳: ۸۴)
’’اور جو چیز موسیٰ اورعیسیٰ اور دوسرے سب نبیوں کوان کے پروردگارکی طرف سے دی گئی۔‘‘

یہاں یہ عربی متن میں موجودنہیں ہے،مگردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس کے باوجودیہ ہرطرح سے واضح ہے، اور قرآن کے طالب علموں کو توگویا بول بول کر اپنی طرف متوجہ کررہاہے۔


بلکہ ہم عرض کریں کہ بعض الفاظ توایسے بھی ہیں کہ جن کے لیے عربی زبان کاکوئی لفظ پورے قرآن میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوا، جیساکہ ’’بھی‘‘ کالفظ،مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اہل علم اپنے ترجموں میں اسے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔اوراس کی وجہ شایدیہ بھی ہوتی ہے کہ انھیں اس بات کابالکل ڈرنہیں ہوتاکہ کوئی معترض صاحب اس معاملے میں بھی اعتراض کردیں گے،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر عربی متن میں سے اس کا متبادل دکھادینے کی ضدبھی کریں گے۔

۲۔ہم نے ’اَهْلَكَ‘پر ’مَنْ اٰمَنَ‘ کے عطف کوبیان کرتے ہوئے بتایاتھاکہ یہ ان دونوں کی مغایرت کوبیان کررہاہے۔یہ بھی بتایاتھاکہ یہ عام بعدالخاص کاعطف ہے اورتعمیم کے لیے آیاہے۔مزیدیہ بھی بتایاتھاکہ یہ ’اَهْلَكَ‘میں ایک طرح کی تخصیص بھی پیدا کررہا ہے۔ایک ہی عطف سے اس قدر متنوع استدلال کردکھانے پرہوناتویہ چاہیے تھاکہ خوب خوب داددی جاتی یا کچھ اورنہیں تواس طرح کی چیزوں پرآیندہ سے غور کرنے کاارادہ ظاہرکیاجاتا،اُلٹایہ اعتراض کردیاگیاہے کہ شایدہمارے پاس کوئی ’’جادوئی عطف‘‘ہے جو ایک ہی وقت میں یہ سارے کام کرلیتاہے۔

اس طرح کے ’’جادوئی عطف‘‘،ہم عرض کریں کہ بہت بڑی تعدادمیں پائے جاتے ہیں اوران حضرات کو دکھائے بھی جاسکتے ہیں، شرط بس اتنی ہے کہ یہ ’’اکابر ین‘‘کے مقام بلندسے اتر کرکبھی ہم جیسے طالب علموں کی صف میں بھی آبیٹھیں۔ہم بطورمثال ایک آیت پیش کیے دیتے ہیں جس میں یہ بخوبی دیکھ سکیں گے کہ عطف کا یہ ساراتنوع بدرجۂ اتم موجودہے۔ ارشاد ہواہے:


وَمَا٘ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّا٘ اِذَا تَمَنّٰ٘ي اَلْقَي الشَّيْطٰنُ فِيْ٘ اُمْنِيَّتِهٖ.(الحج۲۲: ۵۲)
’’ہم نے اے پیغمبر،تم سے پہلے جورسول اور جو نبی بھی بھیجاہے،اس کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا کہ اس نے جب بھی کوئی تمناکی، شیطان اس کی تمنا میں خلل اندازہوگیاہے۔‘‘

یہاں ’ رَسُوْل ‘ پر ’نَبِي‘ کے لفظ کوعطف کیاگیاہے۔ نبی اوررسول اپنی ذات میں ایک ہی ہوتے اوریہ دونوں لفظ بارہا ایک دوسرے کے محل میں استعمال کرلیے جاتے ہیں مگراس عطف نے بتایاہے کہ یہاں ان میں مغایرت بیان کرنامطلوب ہے اوریہ دولفظ اصل میں دوالگ مناصب کے لیے آئے ہیں۔دوسرے یہ عام بعد الخاص کاعطف ہے اوریہ بھی بتاتاہے کہ نبی کے مقابلے میں رسول خاص ہوتاہے،یعنی ہررسول نبی ہوتا ہے، مگر اس کے مقابلے میں ہرنبی رسول نہیں ہوتا۔تیسرے یہ کہ اسے تعمیم کی غرض سے لایا گیا ہے تاکہ بتایاجائے کہ آیت میں بیان کردہ معاملہ صرف رسولوں کونہیں،بلکہ خداکے نبیوں کوبھی پیش آتا رہا ہے۔ چوتھے یہ کہ معطوف یہاں معطوف علیہ میں ایک تخصیص بھی پیداکررہاہے۔وہ اس طرح سے کہ ’رسول‘  کالفظ اپنے اطلاق میں رسول،نبی،فرشتے اورسفیر،ان سب کے لیے آجاتاہے،مگر اس پرہونے والے ’نبی‘ کے عطف نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اس میں تخصیص ہوچکی اوراب یہ صرف رسول کے ساتھ خاص ہو گیاہے۔


۳۔ جب یہ ا عتراض کیاگیاکہ ایک ہی لفظ کس طرح ہوسکتاہے کہ مغایرت کے ساتھ ساتھ تخصیص کا باعث بھی ہوجائے تواس پرہم نے ایک مثال پیش کرکے انھیں بتایاتھاکہ ایسابالکل ہوسکتاہے،اوروہ مثال یہ تھی:

’’بیٹا،اپنے ساتھ پاکستانیوں،سواے ان کے جوبالغ ہوچکے ہیں اوردوسرے بچوں کوبھی ساتھ لیتے آنا۔‘‘

اس پراب یہ اعتراض کردیاگیاہے کہ یہ مثال قرآن مجیدکے الفاظ کے مطابق نہیں ہے اوراس میں کچھ مسائل ہیں۔مثلاً،آیت میں ’’دوسرے‘‘ کالفظ نہیں ہے۔آیت کی ترتیب کے مطابق مثال میں ’بچوں‘  کالفظ پہلے آنا چاہیے اور ’پاکستانیوں  ‘  کا بعدمیں۔آیت میں عام بعد الخاص کااسلوب ہے تومثال میں دونوں جگہ عام لفظ لائے گئے ہیں۔ اوریہ کہ آیت میں ’اهل‘ کی ضمیر مخاطب کی طرف اضافت ہے اور مثال میں یہ رشتہ موجودنہیں ہے۔


ہم وضاحت کردیں کہ ہماری طرف سے یہ مثال آیت کااسلوب سمجھانے کے لیے نہیں،بلکہ اس دعویٰ کو غلط ثابت کردکھانے کے لیے دی گئی تھی کہ عطف ایک ہی وقت میں مغایرت اورتخصیص کاباعث نہیں ہو سکتا۔ اوردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس مثال سے ہماراہدف ہر طرح سے حاصل ہوگیاہے کہ اس میں پاکستانیوں اور بچوں میں آنے والا عطف مغایرت بھی پیداکررہاہے اورایک طرح کی تخصیص بھی۔ تاہم،ان لوگوں نے اپنے دعویٰ سے دست بردارہونے کے بجاے اب یہ نئی بحث اٹھادی ہے کہ یہ مثال آیت کی ساخت کے خلاف ہے تو لگے ہاتھوں ہم یہ بھی واضح کردیں کہ ایساہرگزنہیں ہے اور یہ ہراعتبار سے آیت کے مطابق ہے۔ ہماری دی ہوئی مثال میں اگر ’’دوسرے‘‘ کالفظ موجود ہے تویہ آیت میں بھی موجودہے،جیساکہ اوپرتفصیل گزری۔اس کی ترتیب بھی آیت کے بالکل موافق ہے کہ آیت میں پہلے اہل کا ذکر ہوا اوراس کے بعداُن کاجواہل نہیں ہیں،مثال میں بھی اہل پاکستان کاذکرہوااوربعدمیں اُن کاجوپاکستانی نہیں ہیں۔ آیت میں عام بعدالخاص کااسلوب ہے تومثال میں بھی دونوں جگہ عام الفاظ نہیں لائے گئے،بلکہ پاکستانی خاص بچوں اور بعدمیں عام بچوں کاذکر ہے۔اسی طرح آیت میں اگر ’اهل‘  کاضمیرخطاب سے تعلق پایاجاتاہے تووہ مثال میں بھی ہرطرح سے موجود ہے۔ وہ اس طرح سے کہ یہ ہم پاکستانیوں کی طرف سے دی گئی اردوکی ایک مثال ہے۔سواس میں حکم دینے والا باپ اپنے پاکستانی بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے جب یہ کہتاہے کہ پاکستانیوں کولیتے آنا تواس میں، ظاہرہے کہ اُس کے بیٹے اوران پاکستانیوں کے درمیان میں اہل پاکستان ہونے کاتعلق ہرلحاظ سے موجودہے۔

اپنی پیش کردہ مثال کواس کڑے معیارپرجانچ لینے کے بعداب ہم چاہیں گے کہ ان حضرات کی دی ہوئی مثال کوبھی پرکھ لیاجائے کہ وہ آیت کی ساخت سے کوئی تعلق رکھتی ہے یااس سے کوسوں دورہے۔ہم ذیل میں ان کی دی ہوئی مثال پیش کرتے ہیں اور پوری امید رکھتے ہیں کہ ہماری طرح سب لوگ چاہے آیت اوراس کے درمیان میں کوئی ادنیٰ سی مناسبت نہ ڈھونڈسکیں،مگر اسے پڑھ کروہ پورے دل سے سبحان اللہ ضرورکہہ اٹھیں گے۔وہ مثال بے مثال یہ ہے :

’’بیٹااپنے بچوں کواورپاکستانی بچوں کولیتے آنا۔‘‘

۴۔تخصیص اورمغایرت کے اکٹھاہوجانے پران کی طرف سے یہ بھی کہاگیاہے کہ ہمیں اب مان لیناچاہیے کہ ’’’احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ ‘کے اس جملے میں’وَاَهْلَكَ  ‘کا عطف ’كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ‘ سے مغایرت بھی کررہاہے اورتخصیص بھی کہ العیاذباللہ ’كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ‘ بھی اہل خانہ میں سے تھے۔‘‘


 ان کے اس مطالبہ نما اعتراض کے پیچھے دوبڑی غلط فہمیاں ہیں۔ایک یہ کہ ہرعطف مغایرت کے ساتھ تخصیص بھی کیاکرتاہے۔ اور دوسرے یہ کہ اگرکسی جملے میں ایک عطف تخصیص کرے گاتودوسرابھی لازماًیہ کام کرے گا۔یہ غلط فہمیاں اگردورہوجائیں توآپ سے آپ واضح ہوجاتاہے کہ آیت میں دوسرے عطف کی بنیادپرجانوروں کے لیے بھی تخصیص پراصرارکرنا ایک بے جامطالبہ ہے۔ بلکہ یہ مطالبہ اس لیے بھی نارواہے کہ دوسرے عطف میں تخصیص پیداہوجانے کی جووجوہات ہیں،وہ جانوروں سے متعلق ہرگزنہیں ہوسکتیں۔ مثال کے طور پر،اس میں تخصیص آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عطف اُس موقع پربیان ہواہے جب عذاب سے نجات پانے والوں کا معیار بیان ہو رہاہے۔دوسرے اس کے بعدآنے والے معطوف میں ایمان کے وصف کو نمایاں کرناہے۔تیسری وجہ معطوف پرآنے والا ’’دوسرے‘‘ کا لفظ ہے۔چوتھی وجہ اس کے بعد ’وَمَا٘ اٰمَنَ مَعَهٗ٘ اِلَّا قَلِيْلٌ  ‘کا لایا ہوا جملہ ہے کہ جس میں ایمان ہی زیربحث آیاہے۔اب ظاہرہے، ان تمام چیزوں کاتعلق صرف اورصرف دوسرے عطف کے ساتھ موزوں ہوسکتاہے نہ کہ جانوروں کے حکم پرمشتمل پہلے عطف کے ساتھ۔ سو ان لوگوں کواگرپہلے عطف میں بھی کسی تخصیص کامطالبہ کرناہے توانھیں جان لیناچاہیے کہ اس کے لیے صرف ’’واو‘‘کودیکھ لینایادوسرے عطف کو بنیادبنالیناکافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہوگا کہ آیت کے اندراترکر کچھ غوروفکربھی کرلیاجائے اوریوں اس تخصیص کے لیے الگ سے دلائل فراہم کیے جائیں۔

۵۔ہم نے بیان کیاتھاکہ ’اَهْلَكَ‘پر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ کے الفاظ آئے ہیں اوراس بات کی واضح دلیل ہوگئے ہیں کہ اس میں تخصیص واقع ہوچکی ہے اوراس سے اب حضرت نوح کے تمام گھروالے نہیں،بلکہ ان میں سے وہ لوگ مرادہیں جن کے بارے میں عذاب کافیصلہ صادرنہیں ہوچکا۔اس بات کی وضاحت میں ہم نے بیان کیاتھاکہ عربی زبان میں ’قول‘  کامطلب ’’بات ‘‘ ہوتا ہے،مگراس کے ساتھ ’علٰي‘ کے استعمال نے یہاں دوچیزیں بالکل واضح کردی ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراداب صرف بات نہیں،بلکہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہے۔دوسرے یہ کہ یہ فیصلہ ’عليه‘ کی ضمیرکے مرجع کے خلاف ہے۔ اس ’قول‘ پرآنے والا الف لام اوراس کے ساتھ فعل ’سبق ‘کا استعمال سامنے رہے تویہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ پہلے سے سنا دیا ہوا فیصلہ ہے اورمزیدیہ کہ اس سے نوح علیہ السلام اچھی طرح سے واقف بھی ہیں۔اب سوال پیداہوتاہے کہ یہ فیصلہ ہے کیا؟تومعلوم ہوناچاہیے کہ یہ وہی فیصلہ ہے جسے انھوں نے اپنی قوم کے سامنے یہ کہتے ہوئے بیان کردیاتھا :’يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗﵧ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [23]’’میری قوم کے لوگو،اللہ کی بندگی کرو۔اس کے سوا تمھاراکوئی معبود نہیں ہے۔پھرکیا (اُس کے شریک ٹھیراکرتم اس کے غضب سے) ڈرتے نہیں ہو۔‘‘ان کی اس دعوت کا مطلب،ظاہر ہے،یہی تھا کہ جولوگ صرف خداکی عبادت کرنے کے بجاے اُس کے شریک ٹھیرائیں گے،اُن کے بارے میں خدا کا فیصلہ ہے کہ وہ اُس کے غضب کا شکارہوکررہیں گے۔سو قرآن کے الفاظ اوراس کے سیاق کے لحاظ سے یہی’سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘  کا حقیقی مصداق ہے۔

ہمارے اس طویل استدلال پرایسانہیں ہواکہ ان کی طرف سے کوئی نقدکیاگیاہواورہمیں بتایا گیا ہو کہ ’سبق‘ کے فعل،اُس کے صلے اور لفظ’قول‘ پرآنے والے الف لام سے یہ معنی پیدانہیں ہوسکتے،بلکہ ان تمام چیزوں سے کمال بے اعتنائی کرتے ہوئے صرف یہ فرمان سنا دیا گیا ہے کہ ان الفاظ میں ’’ کافرہونے کا معنی ڈالنے کے لیے کلام میں کوئی اشارہ نہیں۔‘‘طالب علم جان سکتے ہیں کہ دلائل کے مقابلے میں اصرارکرنے کایہ رویہ علمی دنیا میں کیاحیثیت رکھتاہے۔ہم اس پرمزیدکچھ کہنے کے بجاے یہ کرتے ہیں کہ ان الفاظ کا وہ مطلب اب بیان کیے دیتے ہیں جوان لوگوں کی طرف سے نکالاگیاہے۔ان کاکہناہے کہ ’’ جن اہل خانہ کے بارے میں اللہ نے پہلے کوئی بات کررکھی ہے۔وہ کشتی میں سوارنہیں ہوں گے۔روکنے کی وجہ غیرمنصوص ہے،کیونکہ لفظوں میں بیان نہیں ہوئی۔‘‘ان کے اس مطلب میں دیکھ لیا جاسکتاہے کہ جس طرح ’علٰي‘ سے صرف نظرکیاگیااور الف لام کو مکمل طورپرنظراندازکردیا گیا ہے،اسی طرح روکنے کی وجہ کوغیرمنصوص کہہ کرکشتی میں سوارہونے کے حکم کوسرے سے نامعقول قراردے دیاگیاہے۔ اس لیے کہ یہ عقلی طورپربالکل محال ہے کہ حضرت نوح کو ایک حکم اُس کے استثناسمیت دیاجائے اور عمل کرتے وقت وہ اُس استثنا سے مکمل طور پر ناواقف ہوں۔بلکہ اس کے بعدتو انھوں نے قیامت ہی ڈھادی ہے جب کہاہے کہ اس جملے کو ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘  کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ ان سے پوچھاجائے کہ ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ کے الفاظ تواس بات پردال ہیں کہ وہ بات پہلے سے بتادی گئی ہے اورحضرت نوح کے علم میں ہے۔اس کے مقابلے میں ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کے الفاظ اس سارے واقعہ کے بعدصادرہوتے ہیں اور یہ صراحت بھی کی جاتی ہے کہ نوح اس میں بیان ہوئی بات کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے۔اب اس واضح فرق کے ہوتے ہوئے یہ جملہ آخرکس اصول پر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ کی تفسیر قرار دیا جاسکتاہے ؟

تفنن طبع کے لیے اس ذیل میں ان کی طرف سے بیان کردہ ایک اورنکتہ بھی دیکھ لیناچاہیے۔کہاگیاہے کہ ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ کا مصداق ’’غیراہل ہونابھی ہوسکتاہے۔مرادیہ ہے کہ جواہل ہونے کے معیار پر پورا نہیں اترے گا،اسے سوارنہیں کیاجائے گا۔‘‘ان کے اس تفسیری نکتے کی روشنی میں کہ جوان کے زعم میں خالص فراہی اصولوں کی روشنی میں مستنبط ہواہے، آیت کامفہوم یہ بن جاتا ہے : ’’تم اپنے گھروالوں کو سوار کرا لو۔ البتہ،اپنے ان گھروالوں میں سے انھیں ہرگزسوارنہ کرانا جوتمھارے گھروالے نہ ہوں۔‘‘         

۶۔ہم نے بیان کیاتھاکہ ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کے جملے سے پہلے ہی ’اَهْلَكَ‘میں تخصیص آچکی ہے اور اعادۂ معرفہ کے اصول پریہ کلام کے آخرتک قائم بھی رہی ہے۔اس پراعتراض ہواہے کہ اگراس لفظ میں تخصیص آگئی ہوتی تواسے اسم ضمیرمیں بدلناچاہیے تھا اور یہ’’ جملہ،کلام کی فطرت ہے کہ یوں ہوناچاہیے تھا:’ان ابني منهم‘۔‘‘چنانچہ یہاں اعادۂ معرفہ کے بجاے’’اللہ کے الفاظ کوحوالہ بنایاگیاہے تاکہ بعدکی تفصیلات سے مجردرکھاجائے‘‘۔

اس اعتراض میں انھوں نے کئی فنی چیزوں کوخراب کردیاہے۔انھیں درست طریقے سے سمجھنے کے لیے چند باتیں سامنے رہنی چاہییں۔ایک یہ کہ کلام میں معرفہ کے بعداس کی ضمیرکااستعمال بھی کیا جاتا ہے،مگراسے ایک اٹل قاعدہ بنادینااوریہ کہناکہ کلام کی فطرت بہرصورت اس کا تقاضاکرتی ہے،یہ ایک بے جادعویٰ ہے اور کم سے کم ہمارے جیسے طالب علم اس کی کوئی دلیل ڈھونڈلانے سے قطعی طور پر قاصرہیں۔بلکہ ہم توقرآن میں بہت سی مثالیں اس کے الٹ دیکھتے ہیں کہ اس میں اسم کاذکرکیاجاتاہے جو معرفہ بھی ہوتاہے اور اس میں تخصیصات بھی آچکی ہوتی ہیں،مگر اس کاذکردوبارہ سے کرناہوتوبعض وجوہ کے پیش نظراُسی معرفہ کا اعادہ کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے لیے اس ایک آیت کودیکھ لیاجائے:


وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْﵧ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ.(العنکبوت ۲۹:  ۱۲)
’’اور منکرین ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ پرچلتے رہواورتمھارے گناہ ہم اٹھا لیں، حالانکہ ان کے گناہوں میں سے وہ کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں۔‘‘

یہاں ’خَطٰيٰكُمْ‘ میں ’خطايا‘معرفہ بھی ہے اوراس میں تخصیص بھی واقع ہوچکی ہے کہ اس سے مراد یہاں ایک خاص نوعیت کے گناہ ہیں۔مگردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس کے بعداس کے لیے ضمیرنہیں لائی گئی، بلکہ ’خَطٰيٰهُمْ ‘کے ذریعے سے اسی اسم کو بعینہ دہرادیاگیاہے۔


دوسری بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ یہاں اعادۂ معرفہ ہی ہواہے اورکسی قول کاحوالہ نہیں دیا جا رہا، جیسا کہ ان لوگوں نے گمان کرلیاہے۔اس لیے کہ یہ قول کاحوالہ اُس صورت میں بنتاجب اس میں قول کو دہرایا جاتا۔ یعنی، نوح کہتے کہ اے اللہ،تم نے مجھے اپنے اہل کوسوارکرنے کاحکم دیاتھاتواس قول کے مطابق میرے بیٹے کوکشتی میں سوارہوناچاہیے تھا،مگروہ تواس میں سوارنہیں ہوا۔بلکہ قول دہرانے کے بجاے اس میں آئے ہوئے معرفہ کودہرایاگیاہے کہ اے اللہ،تم نے سوارکرنے کے حکم میں اہل کا ذکر کیا تھا اورانھیں اس عذاب سے بچ جاناتھاتومیرابیٹا انھی اہل میں سے ہونے کے باوجودآخرکیوں ہلاک ہوا؟مگرہم اس بحث میں پڑ نے کے بجاے عرض کرتے ہیں کہ اگرمان بھی لیاجائے کہ یہ قول کاحوالہ ہے تواس سے یہ بات کہاں سے لازم آگئی کہ اس کا اعادہ کیاجائے گاتواب اس میں کوئی تخصیص باقی نہیں رہے گی؟قرآن میں توبارہاایساہوتاہے کہ کسی مخصص شے کا حوالہ دیاجاتاہے،مگراس کا اعادہ کرتے ہوئے یہ لازم نہیں سمجھاجاتاکہ اس میں پائی جانے والی تخصیصات اب ختم ہوگئی ہیں۔ہم صرف ایک مثال پراکتفاکرتے ہیں :


فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا٘ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. … قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ. قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَاﵧ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ. … قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَآئِكُمُ الْاَوَّلِيْنَ. … قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَاﵧ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ.(الشعراء ۲۶: ۱۶ - ۲۸)

موسیٰ و ہارون سے فرمایاہے کہ تم فرعون کے پاس جاؤاوراسے کہوکہ ہم رب العالمین کے فرستادے ہیں۔ان کے اس قول میں ’رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ‘معرفہ بھی ہے اورمخصص بھی۔اس کے بعدفرعون نے اسی رب کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھاہے کہ مجھے بتاؤ، وہ رب کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایاہے کہ وہ زمین وآسمان کارب ہے۔اوراس کے بعد طنزاوراستہزا کو نظراندازکرتے ہوئے بارباراسی رب کے حوالے سے حقائق کوبیان فرمایاہے۔اب ہرطالب علم خودہی دیکھ لے سکتاہے کہ یہاں’رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ‘میں پیدا ہو جانے والی تخصیص شروع سے لے کرآخرتک ہرطرح سے موجود رہی ہے اورکہیں بھی اس سے صرف اس وجہ سے مجردنہیں ہوگئی کہ یہاں کسی ’’قول کا حوالہ‘‘ دیاجارہاہے۔


۷۔ہم نے بیان کیاتھاکہ اللہ کے ہاں طوفان نوح میں غرق ہونے والاشخص حضرت نوح کاحقیقی بیٹا تھا اور اسی لیے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اُس نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں :’ وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ‘۔یعنی، نوح نے اپنے بیٹے کوپکارا۔اس پراعتراض کیاگیاہے کہ یہ تو حکایت ماجراہے،اس لیے یہ اس کے کرداروں کے علم کی رعایت ہے اوراسے حقیقت کابیان کسی صورت نہیں کہاجاسکتا۔

اس اعتراض کے جواب میں چندباتیں سامنے رہیں :ایک یہ کہ یہ حکایت خداکی طرف سے ہورہی ہے،اس لیے لازم ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات ہرگزنہ بیان کی جائے جو واقعہ کے بالکل خلاف ہو۔دوسرے یہ کہ قرآن کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ اس میں کبھی ایسانہیں ہوتاکہ حکایت کرتے ہوئے محض لوگوں کے علم کی رعایت سے حقائق کے خلاف کوئی بات کردی جائے۔ خداکی طرف سے کہی جانے والی بات کبھی مخاطبین کے مزعومات کے مطابق ہوتی ہے اوربعض اوقات ان کے خلاف بھی ہوتی ہے،مگریہ طے ہے کہ وہ حقیقت کے خلاف کبھی نہیں ہوتی۔ پہلی صورت کی مثال وہ آیت ہے جس میں فرمایاہے کہ ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ وہ بات ہے جو حضرت ابراہیم کے ہاں بھی مسلم ہے :

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰ٘اَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا.(مریم ۱۹: ۴۲)
’’جب ابراہیم نے اپنے باپ سے کہاکہ اباجان، آپ ان چیزوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں جونہ سنتی ہیں،نہ دیکھتی ہیں اورنہ آپ کے کسی کام آ  سکتی ہیں؟‘‘

دوسری کی مثال وہ آیت ہے جس میں فرمایاہے کہ منکرین نے اپنے رسولوں سے یہ بات کہی،حالانکہ منکرین کے زعم کے مطابق وہ خداکے رسول ہرگز نہیں ہیں :

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَا٘ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا.(ابراہیم  ۱۴: ۱۳)
’’منکروں نے اپنے رسولوں سے کہہ دیاکہ ہم تم کواپنی اس سرزمین سے لازماًنکال دیں گے یا تمھیں (بالآخر)ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا۔‘‘

غرض یہ کہ’وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ‘کے الفاظ اللہ کی طرف سے بیان کردہ ہیں،اس لیے لازمی طور پر حقیقت واقعہ پرمبنی ہیں۔چنانچہ یہ کسی طور جائزنہیں ہے کہ ان پرحکایت ماجراکے اصول کااطلاق کرکے اس کی نفی کردی جائے کہ ایساکرنا گویاخداکے الفاظ اوراُس کے علم کی مطلق طورپرنفی کردیناہے،اورنتیجے کے اعتبار سے تکذیب کے دروازے کو کھول دیناہے کہ اب اس اصول کی بنیاد پرجوشخص جب چاہے قرآن میں بیان کردہ کسی بھی حقیقت کا انکار کر دیاکرے۔


یہاں ان حضرات سے ایک سوال بھی پوچھ لیناچاہیے۔ان کا کہناکہ یہ بات نوح کے مزعومات کے مطابق کہی گئی ہے جواسے غلطی سے اپنابیٹاخیال کرتے تھے،ان سے پوچھنا چاہیے کہ اس اطلاع کا ماخذان لوگوں کے پاس آخرہے کیا؟اگریہ کہیں کہ ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘  کاجملہ اس کاماخذہے تواول توہم کہیں گے کہ یہاں اسے بطوردلیل پیش کرنا انھی کے مانے ہوئے اصولوں کے مطابق صحیح نہیں ہے کہ اس کامعنی ہمارے اوران کے درمیان میں ابھی زیربحث ہے۔دوسرے یہ کہ اس جملے میں بھی یہ کہاں بیان ہواہے کہ وہ شخص نوح کا بیٹا نہیں ہے ؟اس میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نوح کی التجاہویاخداکی طرف سے دیا گیااس کا جواب ہو،ان دونوں میں اُس شخص کی ابنیت سرے سے زیربحث نہیں آئی کہ اگرایساہوتاتواس کے لیے بالکل دوسرے الفاظ لائے جاتے۔یعنی، حضرت نوح کی دعاکے جواب میں ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کہنے کے بجاے ’انه ليس ابنك‘ یا ’انه ليس من ابناءك‘ کہاجاتاکہ اے نوح،وہ توتمھارابیٹاہی نہیں ہے۔بلکہ ہم یہاں ایک اور استدلال کرناچاہیں گے۔وہ یہ کہ ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘ کے جملے میں تواس کے برعکس،اس بات کا اشارہ موجودہے کہ خداکے ہاں اس شخص کا نسب بالکل حقیقی ہے۔اس لیے کہ ’اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ ‘ کے بعد جب ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘  کہاجائے گاتواس ’اِنَّهٗ‘  کامطلب اصل میں ’ان ابنك ‘ ہوگا۔یعنی، اسے کھول دیں تو اصل عبارت یوں بنے گی: ’ان ابنك ليس من اهلك ‘۔ بے شک تیرابیٹاتیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ اور ہرصاحب علم جان لے سکتاہے کہ یہ جملہ اُسے نوح کا بیٹامان لینے کے بعدہی اُس کے اہل میں سے ہونے کی نفی کررہاہے۔

حکایت ماجراکے تناظرمیں ’وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ‘کی اس قدروضاحت کردینے کے بعد ہماراخیال ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے پیش کردہ ذوالقرنین کی مثال پراب کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔البتہ،ہم طالب علموں کے لیے وہ بنیادی فرق ضروربیان کیے دیتے ہیں جو ان دو مثالوں میں باہمی طورپر پایاجاتاہے۔ ذوالقرنین کی مثال میں سورج کوسیاہ چشمے میں ڈوبتے ہوئے دیکھناانسانی آنکھ کامشاہدہ ہے اورجس مقام کوسورج کے غروب ہونے کی جگہ کہاگیاہے،اس کا علم بھی مخاطبین کے ہاں ان کی آنکھوں کے مشاہدے ہی سے پیدا ہوا ہے۔چنانچہ یہ بالکل جائزہے کہ حقیقت جاننے کے باوجوداس طرح کے مشاہدے کااعتبارکرتے ہوئے اس کی روایت کی جاسکے۔مگراس کے مقابلے میں ابن نوح کے نسب کاحقیقی ہونایانہ ہونا،ایسامعاملہ نہیں ہے کہ اس میں ایک بات حقیقت پرمبنی ہو اوردوسری آنکھ کاظاہری مشاہدہ ہو،بلکہ یہ ایک معنوی معاملہ ہے اوراس میں ایک بات حقیقت ہوتی ہے اوردوسری خلاف حقیقت ہوتی ہے اورقرآن میں کبھی ایسا نہیں ہوگاکہ خداکی طرف سے کسی خلاف حقیقت بات کی روایت کردی جائے[24]۔ چنانچہ جوحضرات اس ذیل میں کوئی مثال پیش کرنا چاہتے ہیں،انھیں چاہیے کہ وہ اس طرح کی مثال پیش کریں جس میں خداکی طرف سے آنکھ کے مشاہدے کے بجاے معنوی لحاظ سے کسی غلط بات کی روایت کی گئی ہو۔


حاصل بحث


اس ساری بحث کوچندنکتوں میں سمیٹ لیاجاسکتاہے:

۱۔عذاب دنیوی ہویااخروی،ہرانسان کے لیے نجات کامعیاراس کاایمان ہی ہے اوریہ اصول قرآن میں جس طرح عمومی انداز میں بیان ہوگیاہے،اسی طرح خاص حضرت نوح کے معاملے میں بھی اسے بڑی وضاحت سے بیان کردیاگیاہے۔

۲۔ اس بنیادی اصول میں استثنالانے کے لیے ضروری ہے کہ محکم درجے کی کوئی نص پیش کی جائے کہ اس ذیل میں محض ’’اشارے‘‘ کنایے کسی بھی صورت کفایت نہیں کرتے۔

۳۔امرأة نوح

خداکے پیغمبر، نہ صرف یہ کہ حسن اخلاق کے داعی ہوتے اوراسی مقصدسے انسانوں کی طرف مبعوث کیے جاتے ہیں،بلکہ وہ خودبھی اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پرفائز ہوتے ہیں۔یہ بات ان کے منکرین کوبھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ اخلاقی حیثیت ہی اُن کی دعوت کی اصل قوت ہے، اس لیے وہ اسے داغ دارکرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔اگروہ ان پربراہ راست الزام لگانے کی کوئی راہ نہ پاسکیں تو ظاہر ہے،ان کا اگلاہدف اب ان کے ازواج ہی ہوتے ہیں کہ جن پربہتان تراشی کرکے وہ اپنے مذموم مقاصدکسی نہ کسی درجے میں حاصل کر سکتے ہیں۔خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہم جانتے ہیں کہ آپ کے مخالفین نے اس مقصدسے پورا زور صرف کیا،مگرخداکا فیصلہ یہی ہواکہ انھیں کسی صورت میں کامیاب نہ ہونے دیاجائے کہ اس میدان میں ان کی کامیابی اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی صریح ناکامی ہوتی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پروردگارعالم نے خودآگے بڑھ کرآپ کے ازواج کوان تہمتوں سے بری قراردیا، یہاں تک کہ مخالفین کی طرف سے اچھالی گئی اس گندگی سے بچانے کے لیے اپنی طرف سے کچھ مخصوص احکام بھی نازل فرمائے۔

اس روشنی میں دیکھاجائے تو اہل علم کی وہ راے سوفی صددرست لگتی ہے جس کے مطابق انبیاے کرام کے ازواج کافرتوہوسکتے ہیں، مگر بدچلن اوربداخلاق ہرگزنہیں ہوسکتے[25]، اورامرواقعہ بھی یہی ہے کہ قرآن اور حدیث کے سارے ذخیرے میں اس طرح کی کوئی بات کہیں نقل نہیں ہوئی۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے انھی حضرات نے جب اپنایہ دعویٰ ثابت کردکھاناچاہا کہ نبیوں کے اہل محض ان کےاہل ہونے پرنجات پاسکتے ہیں تو اس کے لیے انھوں نے ایک استدلال یہ کیاکہ نوح کا بیٹااسی لیے نجات نہ پاسکاکہ وہ آپ کاحقیقی بیٹا نہیں تھا۔ اور وہ آپ کاحقیقی بیٹانہیں تھا،اس بات کی وضاحت میں اس کے بعد یہ کہاکہ اُن کی بیوی نے اصل میں بدچلنی کا ارتکاب کیا تھا۔ مگس اورباغ کے جیسے اپنے اس استدلال کے لیے ان لوگوں نے یہاں سے دلیل اٹھائی ہے :

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍﵧ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ.(التحریم ۶۶: ۱۰)
’’اللہ منکروں کے لیے نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال پیش کرتاہے۔دونوں ہمارے بندوں میں سے دوصالح بندوں کے گھر میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے بے وفائی کی تواللہ کے مقابلے میں وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے اور ددنوں کوحکم ہواکہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ۔‘‘


مغالطے

اس آیت میں انبیاے کرام اوران کے متعلقین کے بارے میں جوامرواقعہ ہے،اس کے خلاف ہرگزیہ بیان نہیں ہواکہ حضرات نوح ولوط جیسی مقدس شخصیات کے ازواج نے کسی بدچلنی کاارتکاب کیا۔بلکہ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے ’فَخَانَتٰهُمَا ‘ کہ انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کاارتکاب کیا۔مگر انھوں نے اس خیانت کا مطلب یہاں بدچلنی کردیاہے تواس کی وجہ اصل میں انھیں لاحق ہوجانے والے دوبڑے علمی مغالطے ہیں :

۱۔خیانت کاعمومی مستعمل معنی بدچلنی ہے اوریہ اس قدرواضح ہے کہ اس کے لیے’’ قرائن فراہم کرنے کا مطالبہ غیرعلمی تقاضاہے۔‘‘

۲۔ ’’ جب بھی میاں بیوی کی خیانت کاذکرہواوریہ نہ بتایا جائے کہ وہ کس معاملے میں خیانت ہے تو مراد بدچلنی ہی ہوگی۔‘‘


ازالہ


ان مغالطوں کے ازالے کے لیے چندباتیں سامنے رہنی چاہییں :

۱۔ان کاکہناکہ بدچلنی اس لفظ کاعمومی مستعمل معنی ہے،یہ ایک صریح مغالطہ ہے کہ لفظ اور اُس کے معنی کی ساری بحث مکمل طور پرسماع پرمنحصر ہوتی ہے اوران کی یہ بات سراسرقیاس اوراندازے پرمبنی ہے۔اسے ہم نے قیاس اوراندازہ اس لیے قراردیاہے کہ انھوں نے اس ’’عمومی مستعمل معنی‘‘ کے لیے نہ تواہل زبان کی مراجعت کی ہے اورنہ وہاں سے اس کے شواہدنقل کیے ہیں اورنہ یہ بتایاہے کہ اہل لغات نے بھی اسے اپنی کتابوں میں ثبت کیاہے۔صرف اورصرف ایک راے ہے جوان کی طرف سے پیش کر دی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے،ان کی راے فقط ان کے کہنے پرتونہیں مان لی جاسکتی اورخاص کرہمارے جیسے طالب علم تواسے کسی صورت نہیں مان سکتے جو خوش قسمتی سے ان پراوران کی زبان دانی پررتی بھربھی ایمان لائے ہوئے نہیں ہیں۔

۲۔میاں بیوی کے تعلق سے اس لفظ کااستعمال ہوتواس سے مرادلازمی طورپربدچلنی ہوگی،اس مغالطے کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ اس میں بھی صرف اورصرف تحکم پایاجاتاہے،وگرنہ قدیم عربی زبان میں ہماری معلومات کی حدتک اس کی کوئی دلیل موجودنہیں ہے۔بلکہ یہ لفظ مردوعورت کے تعلق میں بھی بدچلنی کے بجاے اپنے اصل معنی،یعنی امین بنادینے کے بعدجوایک دوسرے پر اعتمادپیدا ہوتا ہے،اسے ٹھیس پہنچانے کے لیے آتاہے۔اس کے بعد کلام میں پائے جانے والے قرائن ہوتے ہیں جواس کے مرادی معنی کی وضاحت کرتے ہیں کہ وہ بے راہ روی اور بدچلنی ہے یاکچھ اور ہے۔پہلی صورت کی مثال میں اُس روایت کودیکھ لیا جا سکتا ہے جس میں کسی غیرسے تعلق بنانے پراسے لایاگیاہے :

وامراة غاب زوجہا وقد کفاہا مونة الدنیا فخانته بعدہ.(ابن حبان، رقم ۴۵۵۹)
’’آخرت میں اُس عورت کی کچھ پروانہ کی جائے گی جس کاشوہرکہیں چلاجائے اوراس کے باوجود کہ اُس نے تمام ضروریات زندگی اسے فراہم کر رکھی تھیں،وہ اُس کی غیرموجودگی میں اُس سے خیانت کرے۔‘‘

دوسری کی مثال اُس روایت میں ہے جس میں یہ آدم وحواکے لیے استعمال ہوا،مگرصرف اورصرف آدم کی بات نہ ماننے کے لیے آیاہے :

ولولا حوالم تخن انثی زوجها الدھر.(بخاری،رقم۳۳۹۹)
’’اگرحواآدم سے خیانت نہ کرتی توکوئی عورت اپنے شوہرسے کبھی خیانت نہ کرتی۔‘‘


آیت کااصل مفہوم

ان مغالطوں کے ازالے کے بعداب ہم اس آیت کااصل مفہوم نہایت اختصارکے ساتھ بیان کرتے ہیں :

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍﵧ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ.(التحریم ۶۶: ۱۰)
’’اللہ منکروں کے لیے نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال پیش کرتاہے۔دونوں ہمارے بندوں میں سے دوصالح بندوں کے گھر میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے بے وفائی کی تواللہ کے مقابلے میں وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے اور ددنوں کوحکم ہواکہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ۔‘‘

 آیت میں خیانت کالفظ آیاہے اوراپنے اصل معنی،یعنی حضرات نوح اورلوط علیہماالسلام کی بیویوں کی طرف سے اُن کے باہمی اعتمادکو مجروح کرنے پراستعمال ہواہے اوراس کی تعبیرکے لیے اردومیں صحیح لفظ’’ بے وفائی‘‘ ہے۔اب اس بے وفائی کی وضاحت میں جب ہم آیت اوراس کے سارے سیاق کودیکھتے ہیں توان عورتوں کی بدچلنی کے لیے ہمیں کوئی ادنیٰ درجے کاقرینہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ البتہ، اس میں متعدد قرائن ایسے ضرور پائے جاتے ہیں جومتعین طورپربتادیتے ہیں کہ اس خیانت سے مرادان عورتوں کی طرف سے سرزدہونے والا کفر ہے، جیساکہ مثال کے طورپر:


۱۔ پچھلی آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاگیاہے کہ آپ کفاراور منافقین پرسختی کریں اور انھیں بتادیں کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔یہ منکرین کے دوگروہ تھے جن میں سے پہلے اپنی بدعہدیوں اور دوسرے اطاعت وفرماں برداری کاحق ادانہ کرنے کی وجہ سے پکے خائن تھے۔ چنانچہ انھیں سمجھانے کے لیے بھی ایک کے بجاے دوعورتوں کی خیانت کی مثال دی ہے، اوراس طرح بتادیاہے کہ ان میں سے پہلی نے صریح کفر اور دوسری نے منافقت کرتے ہوئے اپنے شوہر سے یہ خیانت کی ہے۔

۲۔ اس آیت میں کفرکرنے والوں کو اس بات پرتنبیہ کی گئی ہے کہ انھیں خداکے عذاب سے لازماً دو چار ہونا ہے اوراس ذیل میں بڑی سے بڑی نسبت بھی انھیں کوئی فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے۔ اس رعایت سے مناسب یہی معلوم ہوتاہے کہ انھیں سمجھانے کے لیے جو مثال دی جائے،اس میں کفر ہی کے جرم پربتایاجائے کہ اُن سے پہلے نوح ولوط کی بیویوں نے جب اس کا ارتکاب کیاتووہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آکررہیں اورپیغمبروں کے ساتھ اُن کی نسبتیں بھی انھیں کچھ فائدہ نہ دے سکیں۔

۳۔ یہاں فرمایاہے :’وَقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ ‘۔ ’’اورددنوں کوحکم ہواکہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ۔‘‘۔اس سیاق میں ’الدّٰخِلِيْنَ ‘سے مرادحضرات نوح اورلوط کا کفر کرنے والے ہیں اور اس کی مزیددلیل اس لفظ پر آنے والاالف لام بھی ہے۔اب ظاہرہے، ان کفرکرنے والوں کی معیت میں ان کی سزامیں داخل ہونا،اُسی وقت معقول اورعدل کے مطابق ہوسکتاہے جب مان لیاجائے کہ یہ عورتیں بھی کفرکرنے والی ہیں اوراسی لیے کافروں کی معیت میں ان کی سزامیں داخل ہوجانے والی ہیں۔

۴۔ ان عورتوں کی خیانت پر جوسزاجس طریقے سے اورجس طرح قیامت سے پہلے سنادی گئی ہے،قرآن کے رمزشناس جان سکتے ہیں کہ یہ محض غیراخلاقی حرکت کے ارتکاب پرسنائی ہوئی سزاہرگزنہیں ہو سکتی۔ لامحالہ،  اس کی وجہ ان عورتوں کا کفر ہے کہ اس انداز میں کفر کرنے والوں کاانجام بیان ہواکرتاہے اوروہ بھی اُن کفرکرنے والوں کاکہ جن پرہرطرح سے اتمام حجت کیاجاچکاہو۔

غرض یہ کہ ان قرائن سے واضح طورپرمعلوم ہوجاتاہے کہ یہاں خیانت سے مراداصل میں ان عورتوں کا کفر ہے۔سواب سادہ لفظوں میں آیت کی تفہیم کچھ یوں بنتی ہے :

کفرکرنے والوں کودوعورتوں کی مثال دی گئی ہے جوحضرات نوح اورلوط علیہماالسلام کے عقدمیں تھیں۔یہ عقد چونکہ میاں اوربیوی کو ایک دوسرے کے لیے امین بناتا اور اس طرح اُن کے درمیان میں ایک طرح کا اعتماد پیدا کردیتاہے،اس لیے اُن حضرات کواپنی بیویوں سے بڑی امیدتھی کہ وہ دعوت حق کوسبقت کرتے ہوئے قبول کریں گی اوراس کام میں اُن کی مویداور معاون بن کر رہیں گی۔یہ امید اس لیے بھی بہت زیادہ تھی کہ وہ صرف خداکے ان نیک بندوں کے عقدمیں نہ تھیں،بلکہ ان کی تولیت میں اوران کے زیر تربیت بھی تھیں۔ ’فَخَانَتٰهُمَا ‘ ، مگرانھوں نے اس سب کے باوجودان کے اعتمادکو ٹھیس پہنچائی جب سچے دل سے ایمان لانے کے بجاے کفر کا ارتکاب کیا۔ چنانچہ اپنے اس کفرکی وجہ سے وہ خداکے عذاب کی گرفت میں آکررہیں اور پیغمبروں کے ساتھ اُن کی نسبت بھی اُن کے کچھ کام نہ آسکی۔


اعتراضات


آیت کے اس مفہوم پران لوگوں کی طرف سے چنداعتراضات کیے گئے ہیں :

۱۔ہم نے لکھاتھاکہ خیانت کے لفظ کاعمومی مستعمل معنی قدیم عربی زبان میں بہرحال بدچلنی نہیں ہے۔ اس پراعتراض ہواہے کہ ان کی بات غلط سمجھی گئی ہے،اس لیے کہ ان کامطلب توعمومی مستعمل معنی سے ’’صرف یہ تھاکہ یہ جس معنی میں عموماًمستعمل ہے۔‘‘

 قارئین جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے خیانت کے لیے نہ صرف یہ کہ’’عمومی مستعمل معنی‘‘ کی اصطلاح برتی تھی،بلکہ اسے موکد کرنے کے لیے’’پینا‘‘کے لفظ کوبھی پیش کیاتھاجوہماری زبان میں اسی کی ایک مثال ہے۔ اس پرہم نے اپنی گزارشات پیش کرکے بتایا تھا کہ عربی زبان میں خیانت کااس طرح کاکوئی مستعمل معنی موجودنہیں ہے۔بہت اچھاہوتاکہ یہ لوگ ہماری بات کوتسلیم کرتے یاپھر اس پرکوئی تنقیدہی لکھ ڈالتے۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ایساتوکچھ نہیں کیا،البتہ، اپنے اس لافانی جملے سے ہمیں مبہوت ضرورکردیاہے کہ عمومی مستعمل معنی سے ان کا’’مطلب توصرف یہ تھاکہ یہ جس معنی میں عموماًمستعمل ہے [26]۔ اس عجیب وغریب توجیہ پر ہم کسی بحث میں پڑنے کے بجاے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ اگران کی مراد مستعمل معنی نہیں ہے توپھراس جملے کا مطلب کیاہے کہ ’’جب بھی میاں بیوی کی خیانت کاذکرہواوریہ نہ بتایا جائے کہ وہ کس معاملے میں خیانت ہے تو مراد بدچلنی ہی ہو گی۔‘‘ ہمارے خیال میں یہی تووہ چیزہے جسے مذکورہ اصطلاح سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ ان سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اگریہ جملہ عمومی مستعمل معنی کوبیان نہیں کررہاتوکم سے کم وہ اس جملے کے بارے میں یہ تو بتادیں کہ اس کی قدیم عربی مصادر میں دلیل کیا ہے ؟

۲۔ہم نے بیان کیاتھاکہ خیانت کوجب مردوعورت کے حوالے سے لایاجائے تواس کے لیے اردو میں قریب ترلفظ ’بے وفائی‘ ہے۔یہ خیانت کا ہرطرح سے متبادل ہے اوراسی کی طرح کسی خاص معنی میں مستعمل نہیں ہے۔ بلکہ یہ شوہر کی بات نہ ماننے،اُس کاساتھ نہ نبھانے،اُسے اکیلا چھوڑجانے اورکسی غیر سے راہ ورسم بڑھانے،ان سب معانی میں آتاہے اوراس کے بعدمذکورقرائن ہوتے ہیں جواس کے مرادی معنی کی تعیین کرتے ہیں۔اس پر یہ اعتراض نمادعویٰ کیاگیاہے کہ اردومیں بے وفائی کے لفظ کوجب ’’میاں بیوی کے لیے بولا جائے توبدچلنی ہی کے معنی دے گا،شرط یہ ہے کہ بے وفائی کی وضاحت نہ آگئی ہو۔‘‘

اردوزبان میں ’’بے وفائی‘‘اپنے اصل معنی اوراپنے اطلاقات میں اس قدرواضح ہے کہ ان کے دعویٰ پر کوئی تنقیدکرنے کے بجاے ہم عرض کریں گے کہ اس معاملے میں اردوکے کسی اچھے لغت کی مراجعت کرلی جائے یا کچھ اورنہیں تواردوشاعری میں اورعام بول چال میں اس لفظ کامتنوع استعمال دیکھ لیاجائے۔یاکم سے کم اُن مظلوم شوہروں ہی سے پوچھ لیاجائے جنھوں نے کسی اوربات پرنہیں،بلکہ صرف روٹھ کرچلے جانے پراپنی بیویوں کو بے وفاقراردیااوراس پروہ کمال درجے کی شاعری کی ہے کہ بخت ونصیب کی طرح اپنے تمام بیاض بھی سیاہ کر لیے ہیں۔

۳۔ہم نے مذکورہ آیت میں خیانت کے مرادی معنی کی تعیین کے لیے اس کے سیاق وسباق میں سے پورے چار عدد قرائن پیش کیے تھے۔کوئی نقدکرنے کے بجاے انھوں نے ایک ہی وارمیں یہ کہتے ہوئے ان سب کو اڑا دیا ہے کہ یہ محض’’لاطائل تقریریں ہیں ‘‘۔ اور اس کے بعداپنے مخصوص علمی اندازمیں کہاہے کہ اس طرح کی بحثیں ’’معنی کے نہیں،بلکہ مدعاکے تعین کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ مثلاً،قرآن میں ’’فرشتوں کے سجدے کا ذکر کہیں اسوۂ حسنہ کے بیان کے لیے ہوااورکہیں فرماں برداری کے لیے۔لیکن کہیں بھی ’

فسجدوا‘  کامطلب یہ نہیں ہوگاکہ فرشتوں نے اچھااسوہ دکھایایاانھوں نے فرماں برداری کی۔ لیکن یہ مدعاے کلام ضرور ہو سکتا ہے۔‘‘

معلوم نہیں کس جذبے سے ان لوگوں نے اسے مدعاکی بحث قراردے دیاہے۔وگرنہ مدعا اورمعنی کی تعیین میں کیافرق ہوتاہے، الحمدللہ،اس کی تھوڑی بہت واقفیت ہم بھی رکھتے ہیں اوراسی بناپرنہایت اعتمادسے طالب علموں کو بتاناچاہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بحث میں لفظ خیانت کے مرادی معنی کی تعیین کی ہے جب یہ بتایاہے کہ اس سے مراد دین کے معاملے میں خیانت ہے کہ جو کفرکے درجہ تک پہنچ گئی ہے،اورہمیں سو فی صدیقین ہے کہ تمام اہل علم جواس فرق سے بخوبی واقف ہیں،وہ بھی اسے معنی کی تعیین ہی قراردیں گے۔ ہماری بحث تواُس وقت مدعاے کلام کی بحث قراردی جاسکتی تھی جب ہم نے خیانت کامعنی ’’منکرین کوسزامل کررہنا‘‘یا ’’نسب کاکام نہ آنا‘‘ بیان کیا ہوتاکہ اس مقام پر یہی وہ مدعاہے جس کااِبلاغ متکلم کے پیش نظرہے۔

۴۔اس کے بعدان حضرات نے اپنی طرف سے چندقرائن پیش کیے ہیں [27]۔ ان کاکہناہے کہ اولاً، ’امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ‘ اور ’كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ ‘کے الفاظ کے زیراثر ’فَخَانَتٰهُمَا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ثانیاً، یہاں خیانت کی وضاحت نہیں کی گئی۔ثالثاً، بعدکی آیت میں سیدہ مریم کے بارے میں ’اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا‘ کے الفاظ ہیں جوموازنے کے اصول پرازواج نوح ولوط کے لیے بدچلنی ثابت کردیتے ہیں۔

ان میں سے پہلی دوباتیں اپنی ذات میں ہرگزقرائن نہیں ہیں،بلکہ اصل صورت حال کابیان ہے کہ ان سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں عورت ومردکاذکر ہوا ہے اورخیانت کی وضاحت نہیں کی گئی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف تیسری بات اپنی ذات میں قرینہ قراردی جاسکتی ہے،چنانچہ ہم اسی کے تناظرمیں بتائیں گے کہ ان کا یہ’’ قرینہ‘‘ خیانت کے لفظ میں بدچلنی کامعنی کسی صورت بھی پیدا نہیں کرتا۔بس چندباتیں سامنے رہیں:

اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا‘ کے الفاظ اس لیے بدچلنی کے لیے قرینہ نہیں ہیں کہ یہ خیانت کی طرح سیدہ مریم کے کسی فعل کوبیان کرنے کے لیے نہیں آئے۔یہ ضرورہے کہ ان میں عفت وعصمت کابیان پایاجاتاہے،مگراہل علم جانتے ہیں کہ قرآن کے محاورے میں یہ ان کے لیے ایک نام کی سی حیثیت اختیارکرگئے ہیں،اوریہاں اس کی دلیل ان پرآنے والا ’فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا ‘ کاجملہ ہے جونتیجے کے طورپرآیاہے اوراس نے ان کے اندر مریم بنت عمران کے تعارف کاپہلوغالب کردیاہے۔اوراس کی دوسری واضح ترین دلیل یہ ہے کہ قرآن میں بعض مقامات پراُن کانام نہیں لیاگیا،بلکہ تعارف کے لیے محض ’وَالَّتِيْ٘ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ‘کے اِن الفاظ کو کافی سمجھا گیا ہے [28]۔

دوسرے یہ اس لیے بھی قرینہ نہیں ہوسکتے کہ آیت میں تنہااسی وصف کوبیان نہیں کیاگیاکہ ہم اس کی روشنی میں خیانت کا معنی بدچلنی قراردے لیں۔یہاں ان کے دیگراوصاف کابھی ذکر کیاگیاہے کہ وہ خداکی کتابوں اوراس کے کلمات کی تصدیق کرنے والی اور نہایت فرماں بردار بندی تھیں۔اب سیدہ مریم کے افعال ہی کی روشنی میں اگر خیانت کے معنی کی تعیین ہونی ہے توپوچھناچاہیے کہ کیاوجہ ہے کہ ’اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ‘ کا وصف توخیانت میں بدچلنی کامعنی پیداکررہاہے،مگراُن کاوصف تصدیق اورفرماں برداری اس میں تکذیب اور نافرمانی کا معنی پیدانہیں کررہا؟بلکہ یہ بھی پوچھناچاہیے کہ ایساکیوں نہیں ہوا کہ ہم ان مرکب افعال کی روشنی میں خیانت کے معنی کی تعیین کریں اور اس سے مرادغیرصالح اعمال پرمشتمل ان عورتوں کا کفر اور انکار سمجھیں؟

تیسرے یہ کہ یہاں صرف سیدہ مریم کے اوصاف حمیدہ بیان نہیں ہوئے،بلکہ فرعون کی بیوی اوراُس کے اعلیٰ کردارکابیان بھی ہواہے۔موازنے کے اصول پریہاں خیانت کامعنی طے کرنے والوں کواس بات کا بھی جواب دیناچاہیے کہ زوجۂ فرعون کا کرداراس تعیین میں مکمل طورپرکیوں پس پشت ڈال دیاگیاہے ؟اورایساکیوں نہیں ہواکہ اس کی روشنی میں خیانت کامعنی کفرکرنااوراس پرمطمئن ہو جاناقرار دیا جاتا؟بلکہ اس خاتون کا کردار تو یہاں اس لیے بھی زیادہ قابل لحاظ ہے کہ یہ ’اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ‘سے پہلے اور خیانت کے استعمال کے متصل بعد مذکور ہوا ہے۔

’’قرینہ‘‘کی حقیقت جان لینے کے بعداب طالب علموں کواس مقام پربیان کیے گئے موازنے کوبھی سمجھ لینا چاہیے۔یہاں دو عورتوں کے مقابلے میں دوعورتوں کے کردارکابیان ہواہے۔ حضرات نوح اورلوط کی بیویوں کے بارے میں فرمایاہے کہ وہ اچھے ماحول کے باوجودکفرکاارتکاب کربیٹھیں اورانھیں خداکے نیک بندوں کی تولیت میں رہنے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔[29] مگراس کے مقابلے میں فرعون کی بیوی ظلم پرمبنی نظام میں رہتے ہوئے بھی صرف اورصرف آخرت کی متلاشی رہی اورمریم اپنے زمانے کے حالات اوربنی اسرائیل کی اخلاقی گراوٹ کے باوجود اپنی عفت وعصمت کوبچائے رہیں اورایمان واسلام پرہمیشہ قائم رہیں۔گویا اصل موازنہ یہاں ان عورتوں کے کسی خاص فعل میں نہیں،بلکہ اس امرمیں ہے کہ اچھے اوربرے ماحول میں دومختلف طبیعت عورتوں کے کردارمیں کیا فرق واقع ہوا۔


حاصل بحث


اس ساری بحث کوچندنکات میں بیان کیاجاسکتاہے :

۱۔قرآن میں کسی نبی کے ازواج کے بارے میں بدچلنی کی کوئی شہادت موجودنہیں ہے۔

۲۔جن حضرات نے اس کے خلاف دعویٰ کردیاہے،انھوں نے بناکسی قرینے کے محض خیانت کے لفظ سے اس کامعنی پیداکرنا چاہاہے۔

۳۔ان پرلازم ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ کے اِثبات میں قرآن کے کسی صریح مقام کی نشان دہی کریں۔

__________


[19]۔  ان تمام تصریحات کے لیے ترتیب سے یہ آیات دیکھ لی جاسکتی ہیں: ’اَنْ لَّا تَعْبُدُوْ٘ا اِلَّا اللّٰهَﵧ اِنِّيْ٘ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ اَلِيْمٍ ‘(ہوداا:۲۶)۔ ’وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ ‘ (ہود اا: ۴۲)۔’وَنَجِّنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘ (الشعراء۲۶: ۱۱۸)۔ اور ’وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا ‘ (نوح۷۱:  ۲۸)۔ ’رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ‘(نوح۷۱: ۲۶)۔’وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْاﵐ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ‘ (ہود ۱۱:   ۳۷)۔ ’فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِي الْفُلْكِ‘ (الاعراف۷:  ۶۴)۔’اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ‘ (ہود۱۱: ۴۹)۔ ’وَقِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ‘  (ہود۱۱:  ۴۴)۔


[20]۔ معلوم نہیں یہ قرآن کی کس آیت میں بیان ہواہے کہ نوح کے بیٹے کوکشتی میں سوارہونے سے روک دیاگیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان حضرات کے ہاں موجوداکتیسویں پارے کی کوئی آیت ہو۔

[21]۔  بلکہ ایک دوسرے مقام پرآنے والے ’وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ‘ کے الفاظ بھی اس کے ساتھ ملالیے جائیں تویہ تخصیص اوربھی زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے۔المومنون ۲۳ :  ۲۷۔

[22]۔  یہی وجہ ہے کہ اہل نظرمفسرین بھی بعض اوقات اسے لفظوں میں بیان کردیتے ہیں،جیساکہ صاحب الکشاف نے اس موقع پرلکھاہے :یعنی: ’واحمل اهلك والمومنين من غيرهم‘۔

[23]۔  المومنون ۲۳:۲۳۔

[24]۔  اس فرق کوایک اورطرح سے بھی سمجھ لیاجاسکتاہے۔وہ اس طرح کہ قرآن میں مثال کے طورپر،یہ توعام بیان ہوتاہے کہ اللہ بارش برساتاہے اوراس کے ذریعے سے مردہ زمین کوزندگی عطاکردیتاہے،مگراس میں کبھی ایسانہیں ہوگاکہ وہ اپنے مخاطبین کی رعایت سے مثال کے طورپریہ بیان کردے:’وما قتلوا عيسي ابن اللّٰه‘۔کہ انھوں نے اللہ کے بیٹے عیسیٰ  کوقتل نہیں کیا۔

[25]۔  اصحاب رسول میں سے حضر ت عباس جیسے اہل علم کی راے بھی حضرات نوح ولوط کی بیویوں کے متعلق یہی نقل کی گئی ہے کہ انھوں نے بدکاری کاارتکاب ہرگزنہیں کیا،ابن کثیر۔

[26]۔  ہمیں وہ صاحب یادآگئے جن کے بزرگوں کے بارے میں کسی مخالف نے لکھ دیاکہ وہ سیاہ رنگ کے تھے۔اس پر انھوں نے اسی طرح کافرق بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہرگزنہیں،حضرت توبس گہرے گندمی رنگ کے تھے۔

[27]۔  یہ ان کی عنایت ہے کہ انھوں نے یہ قرائن اپنی اس راے کے باوجودپیش کردیے ہیں کہ خیانت کا لفظ جب ان کے بغیرآئے تو اس کا معنی بدچلنی ہوتاہے۔

[28]۔  الانبیاء  ۲۱ : ۹۱۔

[29]۔  یہاں ’تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ ‘ کے الفاظ اس مقصدسے نہیں آئے کہ یہ عورتیں ان حضرات کی بیویاں ہیں جیساکہ ان حضرات کواس کامغالطہ ہوگیا ہے۔اس لیے کہ’’ نوح کی بیوی‘‘ اور’’لوط کی بیوی‘‘جیسے صریح الفاظ بول دینے کے بعداب اس طرح کے کسی قرینے کی بھلاکیاحاجت ہوسکتی ہے۔

_______________

B