پروفیسرڈاکٹرزاہدمنیرعامر[*]
وہ استنبول کا ایک پنج ستارہ ہوٹل تھا ۔ہم ناشتے سے فارغ ہوئے توراقم کے ترک شاگرد احمد کے فون سے اطلاع ملی کہ وہ نیچے لابی میں پہنچ چکے ہیں۔ یہاں یہ اہتمام عجیب لگاکہ ہوٹل میں ٹھیرے مہمانوں سے ملنے کے لیے آنے والوں کو ان کے کمروں میں آکر ملنے کی اجازت نہیں ہے ۔ان سے ملنے کے لیے لابی ہی میں جانا ہوتا ہے۔ خیر یہ دستور تو عام ہے، لیکن اس پر اتناعمل نہیں کیا جاتا، جتنا عمل ہم نے اس ہوٹل میں دیکھا۔ ہم تیارتو تھے ہی جلد لابی میں احمد کے پاس پہنچ گئے۔ احمد ایک خوش گوار شخصیت کا مالک نوجوان ہے ،اس نے بڑی فراخ دلی سے ہمارا پروگرام پوچھا۔ ہم نے کہا: ہم تو حضرت ابوایوب انصاری ،نیلی مسجد، توپ کاپی عجائب گھر، آیا صوفیہ، آبناے باسفورس، مقام حضرت یوشع بن نون اور جانے کیاکیاکچھ دیکھنا چاہتے ہیں:
یہاں سیروسفرکی مناسبت سے’ اس کا‘ کی جگہ ’سب کا‘ بھی لگایاجاسکتاہے، لیکن آپ یہ دیکھ لیں کہ آپ ہمیں کہاں کہاں لے جاسکتے ہیں اور فاصلوں کے اعتبار سے کیا ترتیب مناسب ہوگی اور آج کے دن میں کیاکیا دیکھاجاسکتاہے ؟یہ سب کچھ دیکھ لیں اور پھرآپ جہاں لے جائیں گے، ہم وہاں جائیں گے۔ انھوں نے فیصلہ کیاکہ سب سے پہلے ایوب سلطان جایاجائے ۔میں سمجھا یہ بھی کسی بادشاہ کا مزار یا مسجد ہوگی۔ چونکہ اپنے پروگرام کی زمام احمد کے ہاتھ میں دے چکے تھے، اس لیے ہم نے سر تسلیم خم کیا اور ایوب سلطان جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
منی بس کے ذریعے سے جب ہم ایوب سلطان کی طرف روانہ ہوئے تو بس میں ڈرائیور کے سامنے ایک بورڈ لگاہوادیکھا، جس پر لکھاتھاIndi Bindi میں نے احمد سے اس کا مطلب پوچھاتواس نے بتایاکہ اس کا مطلب ہے: جلدی چڑھیں، جلدی اتریں۔یہ’انڈی بنڈی‘ مجھے پسندآیا۔ یوں لگا، جیسے میں راولپنڈی کی کسی منی بس میں سفر کر رہا ہوں۔ راستے میں آنے والے مقامات کے بارے میں احمد سے میرے سوالات سن کر ایک خاتون نے میری اجنبیت اور جذبۂسیاحت کو بھانپ لیا اور میرے استفسار سے پہلے احمدسے کہنے لگی کہ انھیں SEHiTLIK، یعنی میدان شہداکے بارے میں بتاؤ ۔
احمدنے مجھے راستے میں آنے والے ایک میدان کی تاریخ بتائی کہ یہ میدان ترکی کی سلامتی کے لیے جانیں قربان کرنے والے شہداکی یادمیں بنایاگیاہے ۔میں نے اس خاتون کی خوش خلقی سے متاثرہوکر پوچھاکہ کیا آپ ترک ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، میرا تعلق بلغاریہ سے ہے۔ اس نے مجھے بلغاریہ کے بجاے استنبول کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں، جہاں وہ ایک عرصے سے مقیم تھیں ۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میری اجنبیت اور سیاحت میں دل چسپی کے حوالے سے وہ خاتون اور احمدچندہی لمحوں میں ایک دوسرے سے مانوس ہوگئے اور مجھے استنبول سے متعارف کروانے کے بارے میں خاصی گفتگو کرتے رہے ۔ان کے ہاں دوسروں کی دل چسپیوں میں دل چسپی کاعنصر نظرآرہاتھا۔یہ ایک عمدہ وصف ہے جو انسانی شخصیت کے حسن میں اضافہ کرتاہے ۔یہ میرا کسی بلغارین خاتون سے پہلا تعارف تھا اور کیا اچھا تعارف تھا ۔یادگار شہداسے گزر کر آگے بڑھے تو کچھ ہی دیر میں ہم ایوب سلطان کی خدمت میں تھے۔ لیجیے، ترکوں کے رواج عام نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک درویش منش صحابی کو بھی سلطان بنادیاتھا ۔
یہاں حاضری دیناتو ہماری ایک بڑی خواہش تھی۔ یوں اچانک یہاں پہنچ جانے پراور زیادہ خوشی ہوئی اور تصورات کے دیے جھلملانے لگے ۔سب سے پہلے نہایت دیدہ زیب عربی خط میں جوعبارت نظرآئی، وہ ایک حدیث کے الفاظ تھے، جن کا مفہوم ہے کہ دنیامیں یوں رہو، جیسے کوئی غریب الوطن یا راہ چلتامسافر ہو۔یوں تو سب ہی مسافر ہیں، لیکن اس وقت تو ہم بالکل ہی مسافر تھے ۔مجھے اس حالت سفر میں وہ مسافر یادآئے جو مدینہ سے چل کر عقبہ کے مقام پر روشنی کی تلاش میں پہنچے تھے ۔یہ بیعت عقبہ کا منظرتھا جس میں مدینہ سے آنے والے قافلے میں مصعب بن عمیرتہترحضرات کا ایک وفدلے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے توان کے ساتھ خالدبن زیدبن کلیب بھی تھے، یہ جناب ابوایوب کا اصل نام تھا۔خالد بن زید سے ہونے والی اس اولین ملاقات میں جو تعلق قائم ہوا، وہ یہاں تک بڑھاکہ جب اللہ کے نبی مدینہ میں داخل ہوئے توقصویٰ انھی کے گھر کے سامنے رکی اوروہیں رسول اللہ کاسامان اتاراگیااوررسول اللہ مسجدنبوی تعمیرہوجانے تک ان کے گھرمقیم رہے ۔حضرت ابوبکر ،حضرت علی اور حضرت زید بن حارث بھی آپ کے ساتھ ٹھیرے تھے ۔جب مدینہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم کی گئی تو حضرت ابوایوب کو حضرت مصعب بن عمیر کا بھائی بنایاگیا ۔جی ہاں، شہیداحد مصعب بن عمیر، مسلمانوں کی عسرت کے سبب جن کی لاش کو کفن بھی پورا نہ ملا؛ سر ڈھانپتے تھے تو پاؤں ننگے ہوتے تھے اور پاؤں ڈھانپے جانے کی صورت میں سرننگارہ جاتا تھا۔ چنانچہ سرکار رسالت مآب کی ہدایت پر سرڈھانپ دیاگیااور پیروں پر اذخرکے پتے ڈال دیے گئے ۔ظفرعلی خان نے مضمون باندھا :
جب بازنطینیوں کے خلاف غزوات کا زمانہ آیا تو حضرت ابوایوب ان کی جنگی مہمات میں بڑے جوش و خروش سے شریک ہوئے۔ انھوں نے ایشیا،افریقہ اور یور پ کی جنگی مہمات میں شرکت کی، حالاں کہ اس وقت ان کی عمر سترسے متجاوزہوچکی تھی۔ وہ مصرکی بحری لڑائی میں بھی شریک تھے اور پھر روم کے لشکر میں بھی شامل ہوئے۔ اسی سفر کے دوران اسہال کے حملے نے آپ کو بیمارکردیا اور جب آپ کی خواہش پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ’’جب میں مرجاؤں تو میراجنازہ اٹھاکر اسے دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جاسکو لے جاؤ اور جب آگے بڑھنے کا امکان نہ رہے تو اسی جگہ مجھے دفن کردو‘‘۔چنانچہ قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر آپ کو سپردخاک کیاگیا۔یہ بھی کہاگیاہے کہ انھوں نے یہ بھی فرمایاکہ تدفین کے بعد ان کی قبر پر گھوڑے دوڑادیے جائیں تاکہ اس کا نشان باقی نہ رہے اور اصحاب لشکر نے ایساہی کیا۔ ابن الاثیر نے لکھاہے کہ اگلے دن اہل روم نے مسلمانوں سے پوچھاکہ رات تمھارے ساتھ کوئی خاص واقعہ پیش آیا تھا…؟مسلمانوں نے بتایاکہ ان کے ایک ساتھی جو رسول اللہ کے اکابراصحاب میں سے تھے، رخصت ہوگئے ہیں اور انھیں سپردخاک کیاگیاہے۔ اگر تم نے ان کی قبر کھودنے کی کوشش کی تو سلطنت عرب میں تمھارا ناقوس نہیں بج سکے گا۔ یہ ۵۲ھ کا واقعہ ہے۔ اہل روم نے ان کی قبرکو نقصان تو کیا پہنچاناتھا، ان کے دلوں میں جناب ابوایوب کی ایسی عظمت بیٹھی کہ بہ قول مجاہد جب وہاں قحط پڑتا تو وہ آپ کی قبر کو تلاش کرکے دعاگوہوتے، یہاں تک کہ بارش ہوجایاکرتی ۔ہم قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر کھڑے تھے، لیکن کیاباہر کیااندر صدیوں نے یہ سب امتیازختم کردیے تھے۔ اب ہر طرف ترکی ہی ترکی تھا اور حضرت ابوایوب کا وہ مزار جس کاذکر ابن قتیبہ (م:۲۰۳ھ)سے لے کر صاحب ”اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ“ ابن اثیرالجزری (م:۶۳۰ھ)اور دوسرے متعدد مورخین اور تذکرہ نگاروں نے کیاہے ہمارے سامنے تھا۔ کہتے ہیں کہ بازنطینیوں ہی نے سب سے پہلے یہاں سے مسلم افواج کے چلے جانے پر ۵۵ھ میں ایک عمارت تعمیرکی تھی۔موجودہ تعمیر غالباًسلطان محمد فاتح کے زمانے کی ہے۔سلطنت عثمانیہ کے حکمران جب اقتدار سنبھالتے تھے تو پہلے یہاں آکرحاضری دیتے اور یہاں شیخ الاسلام ان کی کمرمیں سلطنت عثمانیہ کے بانی سلطان عثمان خان کی تلوار حمایل کرتاتھا۔ سلطان محمدثانی نے یہاں رسول اللہ کے کچھ آثاربھی رکھوائے تھے، وہ علم بھی تھا جس کے جناب ایوب سلطان علم بردارتھے، لیکن اب معلوم نہیں یہ چیزیں کہاں ہیں۔ رسول اللہ سے منسوب چیزیں تو غالباً وہی ہوں گی جو اب توپ کاپی عجائب گھرمیں محفوظ ہیں۔ علم کا ہمیں کچھ علم نہ ہو سکا۔ وہ سلطان نہیں تھے، لیکن ترکوں نے انھیں غلط طور پر سلطان کا لقب نہیں دیا، وہ بھی سلطان ہیں، لیکن ان کی سلطانی کا عالم کچھ اورہے :
مجھے یادآیاکہ ان کے نام کے ساتھ یہ لقب تو ہمارے ہاں بھی استعمال کیاگیاہے۔ صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈپنڈی بہاء الدین سے ان کی سیرت پرمحمدصدیق انصاری رئیس فتح پور ہسوہ کا ایک رسالہ ’’سلطان ایوب‘‘ ہی کے نام سے شائع ہوا تھا، لیکن ۱۹۱۲ء میں شائع ہونے والے اس رسالے کی بنیاد ایک ترکی کتاب ہی تھی جس کانام ’’جلاء القلوب وکشف الکروب بمناقب ابی ایوب ‘‘ہے۔ یہ کتاب عبدالحفیظ بن عثمان طائفی نے ۱۲۹۸ھ میں بمقام قسطنطنیہ لکھی ۔مولف نے اس کتاب کو اپنا ماخذ بتاتے ہوئے اس بات پر اظہار حیرت کیاہے کہ ’’حضرت ابوایوب کو قسطنطنیہ میں سلطان ایوب کے نام سے شہرت حاصل ہے ،اس لیے میں نے کتاب کا یہی نام تجویزکیاہے ،حکومت و سلطنت کا اثردیکھو سلاطین کرام وخوانین عظام کے ساتھ ساتھ قدسیان ابرار بھی اس کے القاب سے مخاطب کیے جاتے ہیں‘‘(ص۴)، ہمارے بھی یہی احساسات تھے ۔ واقعۂ افک کے زمانے میں جب چہ میگوئیاں ہورہی تھیں تو حضرت ابوایوب نے اپنی اہلیہ سے کہا: یہ سب جھوٹ ہے ام ایوب! کیا تم ایساکرسکتی ہو؟ انھوں نے کہا: ہر گزنہیں۔اس پر حضرت ابوایوب نے کہا: پھر عائشہ کا مرتبہ تو تم سے بہت بلند ہے۔ ایسے ہی اہل ایمان کا ذکر قرآن نے یہ کہہ کر کیاکہ’لَوْلَا٘ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًاﶈ وَّقَالُوْا هٰذَا٘ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ‘،”جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا، اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیاکہ یہ صریح بہتان ہے“ (النور ۲۴: ۱۲)۔ اس طرح گویا ایک اندازسے ان کا ذکر قرآن حکیم میں بھی آگیا ۔ ان کی بارگاہ میں پہنچ کرمیں تو بس بیٹھ ہی گیا۔ حذیفہ اور احمد تو حاضری دے کر باہر نکل گئے، مگر میں پاس ِانفاس ،نفی اثبات اور اسم ذات میں مگن ہوگیا۔ لوگوں کاازدحام تھا، اس لیے بہت دیر تو بیٹھا نہ جاسکا، لیکن جتنے جام ممکن تھے، چڑھانے سے دریغ نہیں کیا۔ ادھرادھر ہر جانب جہاں دیکھو، نظریں پلٹنانہیں چاہتی تھیں۔ درودیوارکے نقش و نگار میں کتنے صناعوں کی صدعمرعزیز آویزاں دکھائی دے رہی تھی ۔یوں لگ رہاتھاکہ بنانے والوں کے حسن عقیدت نے اپنے فن کا سارازورصرف کردیاہے۔کیاحسیں گنبدومحراب ہیں ،دوّار گنبدکے اندر کیاکیا حسین نقوش بنائے گئے ہیں، جنھیں دیکھیں تو دیکھتے ہی رہ جائیں، لیکن زیارت کے لیے زورکرتے ہجوم کا خیال تھا، اس لیے میں نے بیٹھ کرذکر کے لیے جو گوشہ منتخب کیاتھا، اسے بھی چھوڑنا پڑا ـــــ روی گل سیرندیدیم و بہارآخرشد ـــــ باہر نکلاتو ایک ٹونٹی کے پانی سے تبرک لیاجارہاتھا۔ اگرچہ اسلام میں اس طرح کی باتیں نہیں ہیں، لیکن ہر عقیدے کے حاملین اپنی محبت و عقیدت کا اظہار ایسی معمولی چیزوں سے کیاکرتے ہیں۔ جاپان میں نارا کے مندر میں بھی وہاں بہنے والے پانی سے برکت لینے کے مناظر دیکھے تھے اور بھی کئی جگہوں اور کئی عبادت گاہوں میں ایسے منظردیکھ چکا ہوں۔ انسانی عقیدتیں تواپنا اظہار ملتے جلتے طریقوں ہی سے کیاکرتی ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود کہ اس پانی کا کوئی تقدس نہیں ،اس ٹونٹی کے اوپر لکھی سورۂ مطففین کی آیت ’عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَ ‘، ”یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے“ (۸۳ : ۲۸) پڑھ کر میں نے بھی اس سے اپنا چہرہ دھولیا۔آرام گاہ مبارک کے باہر صحابہ کے احوال پر مشہور کتاب”اسدالغابہ“ کا ایک اقتباس درج تھا ۔عبارت عربی اور رسم الخط بھی عربی،لیکن افسوس کہ آج کے ترکوں کے لیے یہ خط اجنبی ہے۔ وہ اس عبارت کو دیکھ تو سکتے ہیں، لیکن پڑھ نہیں سکتے،ایک اس اقتباس پر ہی کیاموقوف مزارکے سارے ہی احاطے میں ہر جانب عربی عبارات ہی درج تھیں؛ صدر دروازہ، دیواریں، اطراف و جوانب ملحقہ قبروں کے کتبے سب کچھ تو عربی رسم الخط میں تھا، لیکن افسوس:
’’سلطان ایوب‘‘ کی عمارات تین حصوں پر مشتمل بنائی گئی تھیں: مسجد، مدرسہ اور قبرستان ۔ مزار سے نکل کر ہم اس سے ملحق مسجدمیں داخل ہوگئے ۔مسجدکا تحیہ اداکرکے جناب حضرت ابوایوب کی خدمت میں نذرکے لیے نوافل پڑھے۔ مسجدمیں درس ہورہاتھا، وہی قرآن، وہی حدیث، وہی عربی الفاظ وکلمات ـــــ باتیں سمجھ آرہی تھیں، لیکن کوئی ان باتوں کو ترکی رسم الخط میں لکھ دے تو ہمارے لیے سب کچھ گورمکھی بن جائے ۔ مسجد کاماحول بہت نفیس اور پرسکون تھا ۔ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ اب مسجدمیں تصویر لینا معیوب نہیں سمجھا جاتا، یہاں بھی دھڑادھڑتصویریں بنتی رہیں۔باہر نکلتے ہوئے، مخرج کی دیوار کے بائیں جانب بڑے پتھر پر درج ”اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ“ کے اقتباس کی تصویربنائی جو حضرت ابوایوب انصاری کے احوال بیان کر رہا ہے، جن کاذکر ہم پہلے کرچکے ہیں ۔باہر ترکی کا بہت بڑا جھنڈا لٹکایا گیا تھا اور بائیں جانب بہت سی قبریں تھیں جن کے اوپر طرح طرح کی الواح مزار تھیں ،ماحول خاصا مرعوب کن تھا۔ اس کے جلال میں اس وقت فور اً اضافہ ہوگیا جب مسجدسے اذان کی آوازبلند ہونا شروع ہوئی۔ یہ ظہر کی اذان تھی، اللہ اللہ ایک تو اذان کے کلمات کا حسن، دوسرے مؤذن کا حسن صوت، تیسرے یہ احساس کہ یہ وہی اذان تو ہے جو مشرق سے مغرب تک تمام دنیاکے مسلمان دیاکرتے ہیں۔ ایک ہی ترانہ، ایک ہی خیال، ایک ہی عقیدہ، لیکن جگرپھر بھی لخت لخت ۔فانی بدایونی کی یاد کہاں آئی :
آنکھ اٹھائی تو سامنے ایک میت تھی ۔کسی قوم کی نہیں ایک فردقوم کی، تابوت بہت پتلا، بلکہ خاصااسمارٹ تھا، بس اتنا صندوق جس میں پورا انسانی وجود سماجائے، اس سے ذرا بھی تو زیادہ نہیں اور ساخت بھی مکمل مستطیل نہیں جسم انسانی کے قلب و فروع کی طرح بیچ میں سے چوڑی اور اوپرنیچے سے پتلی ۔میں ایک دم رک گیا، معلوم ہواکہ جنازہ آیاہواہے۔میں جب اذان سن رہاتھا تو اس کے پس و پیش کچھ زائد کلمات سن کر متعجب ہواتھا۔ اب معلوم ہواکہ اذان کے علاوہ جو کلمات اداکیے جارہے تھے، وہ دراصل جنازے کی آمدپر کہے جانے والے کلمات تھے ،اذان میں کوئی نئی اختراع نہیں تھی۔جنازے کی یہ وضع پاکستان کے رواج سے بھی مختلف تھی اور کسی قدر مصرکے تابوتوں سے بھی ۔ اپنی اگلی منازل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اب ہمیں یہاں سے روانہ ہوناتھا۔ احمدنے جب ہمارے عزم سفرکو دیکھاتو اپنا کیمرہ تان لیا اور کہنے لگاکہ استاد محترم یہاں کے بارے میں اپنے تاثرات بتائیے ـــــ یہ بھی ہمارے دورکا ایک عجیب مظہرہے ہر وقت کیمرہ ،ہر وقت ریکارڈنگ، ہر بات محفوظ ـــــ بہر حال میں نے کہا کہ ایوب سلطان آنے کے بعد اب اگر میں استنبول میں کہیں اور نہ جاؤں تو بھی مجھے میرے سفر استنبول کا حاصل مل گیاہے۔
________
*۔ صدر شعبۂ اردو،پنجاب یونی ورسٹی، لاہور۔