ماہنامہ”اشراق“ میں ایک تحریر’’ ابراہیم ذریت نوح نہیں :قرآن کاایک انکشاف‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی[1]۔ہم قرآن کے ایک ادنیٰ سے طالب علم ہیں،اس لیے قرآن کے حوالے سے لکھی گئی تحریریں ہمیں خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔چنانچہ اسے پہلی فرصت میں دیکھا اورکم سے کم دومرتبہ نہایت دقت نظرسے پڑھ ڈالا۔ اسے پڑھ لینے کے بعددل میں ایک بے ضررسی خواہش پیداہوئی کہ کیاہی اچھاہوتاجواس کے عنوان میں لفظ’قرآن‘ کے بجاے مصنف کااپنانام لکھ دیاگیاہوتا۔اسی وقت سوچا کہ قلم اٹھایاجائے اوراس انکشاف کی حقیقت خود قرآن کی روشنی میں واضح کردی جائے۔اس کے بعد یہ ہوا کہ مختلف ذرائع ابلاغ پرہونے والی اس کی تشہیر ہماری نظر سے گزری کہ جس میں اسے مکتب فراہی کی نمایندہ تحریرکے طورپرپیش کیاجارہاتھا۔یہ سب دیکھ کر اب ہمیں باقاعدہ پریشانی لاحق ہوگئی،اس لیے کہ اس میں اپنائے گئے طرز استدلال کافراہی اصولوں سے دورکابھی واسطہ نہیں تھا۔بلکہ اپنی زندگی کے چند ماہ وسال جوہم نے فکرفراہی کوسمجھنے میں گزارے ہیں،ان کی بنا پرہم پورے وثوق سے کہہ سکتے تھے کہ اس کے اصول تووجودہی میں اس لیے آئے تھے کہ اس طرح کے طریق استدلال کاقلع قمع کیا جائے۔ سوہم نے فیصلہ کرلیاکہ اس کے جواب میں کچھ نہ کچھ ضرورلکھیں گے تاکہ اس طرح کے نتائج فکر کابار قرآن پراورفہم قرآن کے ان سنہری اصولوں پر ہرگز نہ آنے پائے۔
جواب لکھتے ہوئے ہم نے شعوری کوشش کی کہ صاحب تحریرکو براہ راست مخاطب نہ کیاجائے اوریہی وجہ ہے کہ ہم نے ہرمقام پر اُن کا موقف بیان کرتے ہوئے ’’ بعض اہل علم‘‘ اور’’بعض حضرات‘‘ جیسے عام اور اپنے اندرکوئی تخصیص اورواضح اشارہ نہ رکھنے والے الفاظ استعمال کیے۔بلکہ اس سے بڑھ کریہ کیاکہ اپنی تحریر کو کسی قسم کا جوابی نام دینے کے بجاے اسے ’’واقعۂ نوح‘‘ کاعنوان دیااور اسے بالکل عمومی رنگ میں بیان کیا[2]۔ یعنی واقعۂ نوح کے ذیل میں چندسوالات متعین کیے اوران کاتفصیلی جواب لکھ دیا۔جیساکہ حضرت نوح علیہ السلام کیا سب انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے؟ طوفان نوح کیاپوری زمین پرآیا؟ اُن کی کشتی میں کون سوار ہوئے؟ کیا نوح کے اہل محض اہل ہونے کی بناپرسوار ہوئے؟آج کے سب انسان کس کی اولادہیں ؟اور سیدنا ابراہیم کیاواقعی حضرت نوح کی نسل سے ہیں ؟ مزید ہم نے یہ کیا کہ ان کے بنیادی استدلال پرکوئی نقدکرنے کے بجاے اپنی بات اثباتی طورپربیان کردینے پراکتفاکیااور لکھاکہ قرآن نے ان کے مزعومہ انکشاف کے برعکس،واضح طور پر بتا دیا ہوا ہے کہ ابراہیم واقعتاً حضرت نوح کی اولادہیں۔
ہم نے جومثبت اسلوب اختیارکیاتواس کاایک مقصدیہ بھی تھاکہ اس سے مقابلے کی نفسیات پیدانہ ہو جو اکثر و بیش تر صحیح بات مان لینے میں رکاوٹ ہوجایاکرتی ہے۔چنانچہ بڑی امید تھی کہ اس معاملے میں ہماری پیش کردہ صریح آیت کے بعداگران کی طرف سے اعتراف حقیقت نہ بھی ہواتوکم سے کم یہ ضرورہوگاکہ وہ اس انکشاف کودوبارہ سے مستورکریں گے اوروادی عدم کی طرف ہانک دیں گے۔ مگربدقسمتی سے ہماری یہ امیدبرنہ آئی اوراُن کی طرف سے’’نوح اورابراہیم:نقداحباب کا جائزہ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون شائع کردیا گیا[3]۔اس میں انھوں نے اپنے موقف کوپھرسے دہرایا۔اس قدرصریح آیت پربھی سوالات اٹھا دیے۔ اوراس خوشی کا اظہار بھی کیاکہ اُن کے استدلال کی غلطی کوواضح نہیں کیاگیا۔بہرحال،یہ کوئی ناروابات نہیں تھی،یہ ان کا فطری حق تھاکہ جب تک بات اُن پر ہر لحاظ سے واضح نہ ہوجائے،وہ اسے مسلسل زیربحث لاتے رہیں۔
ان کایہ انکشاف، اگر مان بھی لیا جاتا تویہ صرف ایک علمی اورتاریخی بحث ہوتی اور دین کے احکام پراس کاکوئی خاص اثر نہ پڑتا۔ مگر اس ذیل میں ان کی طرف سے دومزیدبحثوں پراصرارکیاگیاجوہمارے نزدیک بڑے دوررس نتائج کی حامل تھیں۔ ایک حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کے کردارپرسوال اٹھانا۔اور دوسرے نجات کے معاملے میں انبیاکے حسب نسب کوہرلحاظ سے کافی سمجھ لینا۔ ظاہر ہے،یہ دونوں باتیں دین اسلام کے کسی بھی طالب علم کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتیں،خاص کریہ کہناکہ خداکے عدل اوراس کے عذاب سے بعض نسب مستثنیٰ قراردے دیے گئے ہیں۔سواب ہمارے لیے ضروری ہوگیا تھاکہ ان تینوں مباحث پرمستقل طور پر لکھیں اوردرست بات لوگوں کے سامنے بیان کریں۔چنانچہ اگلے شماروں میں ہم نے مستقل عنوانات کے تحت تین مسلسل مضامین لکھ دیے: ’’سیدنا ابراہیم حضرت نوح کی اولادہیں ‘‘،[4]’’ایمان ہی نجات کی دلیل ہے‘‘اور’’امرأة نوح ‘‘۔[5]ہم نے ان میں بڑی تفصیل سے ان حضرات کے استدلالات کی غلطی واضح کرنے کی سعی کی اوراپنے استدلال پراٹھائے گئے تمام سوالات کاتشفی بخش جواب بھی دیا۔ان میں بھی یہ اہتمام کیاکہ بحث کااسلوب ہرگز اختیارنہ کیا جائے اورفقط آیات کی درست تفہیم لوگوں کے سامنے پیش کر دی جائے۔تعدادمیں تین اور اس قدر تفصیلی مضامین لکھ دینے کے بعد خیال یہی تھا کہ اتمام حجت ہوگیاہے، اور یہ بحث بھی اب ختم ہوگئی ہے۔مگر ان کی طرف سے ایک مضمون ’’ابراہیم ذریت نوح:مناظرہ یا استدلال‘‘[6] شائع ہوااوراس کے انداز بیان کودیکھتے ہی واضح ہوگیاکہ ہماری طرف سے اتمام حجت ہوا تھا، مگر ’’عذاب‘‘ اترنے کامرحلہ ابھی باقی تھا جواس اشاعت کے بعداب جاکرپوراہوا۔
اس مضمون کے اسلوب نگارش پرکوئی تبصرہ کرنے کے بجاے ہمیں صرف یہ کہناہے کہ اس میں ہماری کم علمی پرجوبھرپورقسم کے تبصرے اورہماری کم مائیگی کے بارے میں جوبھی فرامین ارشاد ہوئے ہیں،وہ سب کے سب بجا ہیں اوران میں کچھ بھی غلط نہیں۔ بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ ہم ان کی توقعات سے بھی کہیں بڑھ کربے علم اورکم مایہ ہیں اور دوسروں سے زیادہ خوداپنی نالائقیوں سے واقف ہیں۔اور جہاں تک ہم پرالزام لگانے اور ہماری نیت اور ایمان پرمذہبی فتوے صادر کرنے کامعاملہ ہے توہمیں ان کے جواب میں بھی کوئی الزام اور فتویٰ ہرگز نہیں لگانا ہے۔اس لیے کہ اس رویے کا قائل ہونا توبہت دورکی بات،ہم تواس کے مخالفین میں سے ہیں اور اپنی ایک کتاب میں اس پرباقاعدہ لکھ بھی چکے ہیں۔بلکہ ہماری طرف سے یہ بھی نہیں کہا جائے گاکہ اس بنیادپرہم آخرت کی عدالت میں استغاثہ پیش کرتے ہیں۔اس لیے کہ ان حضرات سے جوحسن ظن ہے،اس بناپرہم سمجھتے ہیں کہ اس شدت کے پیچھے ضرورکوئی نہ کوئی خیر کا داعیہ رہا ہوگا۔ آخر بہت سے لوگ دینی غیرت اوراُس کی حمیت میں بھی اس طرح کے فتوے لگادیا کرتے ہیں اوراس کی کئی مثالیں ہمیں بزرگوں کے ہاں بھی ملتی ہیں اوراُن کے ہاں بھی جوعمرمیں بزرگ ہوجاتے ہیں۔
بہرحال،ہماری گزارش ہے کہ اس مضمون کے اسلوب بیان اوراس کی شدت کویک سر نظرانداز کر دیا جائے اورصرف اس کے استدلال کو اپنے سامنے رکھاجائے[7]۔ہمیں امیدہے کہ جوطالب علم پورے سلسلۂ مضامین کو دیکھتے آئے ہیں،اُن پرفریقین میں سے ہرایک کے استدلال کی قوت اورکم زوری بالکل واضح ہوچکی ہوگی۔ تاہم،اس نئے مضمون کے تناظرمیں بھی اگرکوئی شخص ہمارے استدلال کی درستی کو سمجھنا چاہے تو ہم عرض کریں گے کہ وہ ہمارے مضامین کوایک ترتیب کے ساتھ دوبارہ پڑھے۔اوراگراس کے بعدبھی تشنگی محسوس ہو تو کچھ اور دیکھنے کے بجاے انھیں ہی دقت نظرسے سہ بارہ پڑھ ڈالے کہ ان کی نئی باتوں کاجواب بھی کسی نہ کسی صورت میں ان مضامین کے اندر موجودہے اوراسے کچھ غوروفکرکرنے کے بعدخودہی جان لیاجاسکتاہے۔بلکہ ہم تجویزکریں گے کہ اگردونوں طرف سے لکھے گئے تمام مضامین کواسی ترتیب سے ایک جگہ اکٹھاکردیا جائے تو یہ بہت اچھاہو۔اس سے وہ طالب علم جوفکرفراہی سے متعارف ہوناچاہتے ہیں، انھیں جس طرح یہ سیکھنے کوملے گا کہ مکتب فراہی کااصل طریق استدلال کیاہے،اسی طرح وہ یہ بھی جان سکیں گے کہ مکتب فراہی کا طریق استدلال کیا نہیں ہے۔
ان حضرات کی طرف سے اس مضمون میں اعلان کیاگیاہے کہ وہ اس بحث کوختم کررہے ہیں۔ہم بھی چاہتے تھے کہ مزید لکھنے کے بجاے اس سلسلے کویہیں ختم کردیں۔لیکن سبھی لوگ اعلیٰ درجے کے ذہین اور معاملہ فہم نہیں ہوتے،اس لیے اپنے جیسے ان قارئین کے لیے ہم نے اس پر دوبارہ سے،لیکن ایک نئے زاویے سے لکھنے کاارادہ کیاہے۔ ہدف صرف یہ ہے کہ اس بکھرگئی بحث کوسمیٹ دیاجائے اورنئے مضمون میں اٹھائے گئے اعتراضات کو شامل کرتے ہوئے مذکورہ تین عنوانات پر نہایت اختصارسے،مگرجامع اندازمیں گفتگوکردی جائے۔ یعنی،’’سیدنا ابراہیم حضرت نوح کی اولاد ہیں ‘‘، ’’ایمان ہی نجات کی دلیل ہے‘‘اور ’’امرأة نوح ‘‘۔
۱۔سیدناابراہیم حضرت نوح کی اولادہیں
یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ سیدنا ابراہیم حضرت نوح کی اولادہیں۔بنی اسرائیل جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولادہیں،ان سمیت ہم سب مسلمان اس بات کو ایک تاریخی مسلمہ کی حیثیت سے نقل کرتے ہیں اورمزیدیہ کہ ہماری مذہبی کتابیں بھی اس کی پوری پوری تائیدکرتی ہیں۔اس طرح کی محکم تاریخ پرہم جانتے ہیں کہ کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا،بلکہ عام طورپراسے تسلیم کیا جاتا اور اسی پر تمام علمی مقدمات کی بنیادرکھی جاتی ہے۔ اس کاانکار کردینے کی ایک ہی جائزصورت ہوتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس علمی دلیل سامنے آجائے۔ اب ہونا تویہ چاہیے تھاکہ جن حضرات نے اس کے بالکل برخلاف دعویٰ کردیاہے،وہ اس کے ثبوت کے لیے تاریخ میں سے کوئی حسی یاعلمی دلیل لاتے یاکم سے کم مذہبی مصادرمیں سے کوئی صریح نص پیش کرتے۔ مگرہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اس معاملے میں کوئی بھی واضح چیز پیش کرنے کے بجاے ایک آیت سے محض استدلال کیاہے۔اور استدلال بھی اس طرح کاکیاہے کہ اس میں منطق کا غلبہ اور نطق اورکلام کی نزاکتوں سے صاف طور پر اعراض ہوگیاہے۔
’’انکشاف‘‘ کی دلیل
ان کی پیش کردہ آیت یہ ہے:
وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًي لِّبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا. ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍﵧ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا.(بنی اسرائیل۱۷ :۲- ۳)
’’ہم نے موسیٰ کوکتاب دی تھی اوراس کوانھی بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایاتھا،اس تاکیدکے ساتھ کہ میرے سواکسی کواپنا کارسازنہ بناؤ۔اے ان لوگوں کی اولادجنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ (ہمارا) ایک شکر گزاربندہ تھا۔“
ا س آیت کوباربارپڑھ کردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ ’’ابراہیم نوح کی اولاد نہیں ہیں ‘‘۔بلکہ یہ بات کسی اورپیراے اوراسلوب میں بھی ہرگز بیان نہیں ہوئی۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کو اپنادعویٰ ثابت کردکھانے کے لیے اس آیت سے بہت دورکا استدلال لانا پڑاہے۔ ان کاکہناہے کہ اگر بنی اسرائیل نوح کی اولادہیں تواس کے لیے ’ذریة نوح‘ آناچاہیے تھا۔ مگر اس کے بجاے چونکہ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ لایاگیا ہے،چنانچہ اس کا مطلب ہے کہ قرآن یہاں انکشاف کرناچاہتاہے کہ بنی اسرائیل اولادنوح میں سے نہیں ہیں۔اس لیے کہ جب کشتی میں دیگر مومنین بھی سوار ہوں اوران کے ہوتے ہوئے یہ کہاجائے کہ ’’یہ نوح کے ہم سوار کی اولادہے‘‘تو اس سے مذکورہ شخص کے اولادنوح میں سے ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔
بڑی ہی محکم اورمذہبی تائیدرکھنے والی تاریخ کے خلاف یہ ان کی طرف سے پیش کیاگیامحض استدلال ہے اورغورکیاجائے تویہ تین بڑے مغالطوں پر مشتمل ہے:
۱۔یہاں’ذریة نوح‘ آناچاہیے تھا،مگراس کے بجاے ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کااسلوب لایا گیا ہے۔
۲۔جب کہاجائے کہ ’’یہ نوح کے ہم سوارکی اولادہے‘‘تواس سے مذکورہ شخص کے اولادنوح میں سے ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔
۳۔اس آیت میں قرآن نے ایک انکشاف کیاہے۔
ان مغالطوں کے جواب میں اگرذیل کی چندباتیں سامنے رکھی جائیں توان سب کاآپ سے آپ ازالہ ہو جاتا ہے:
۱۔ یہاں ’ذریة نوح‘ آناچاہیے تھا،مگراس کے بجاے ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کااسلوب لایا گیا ہے، ان حضرات کی یہ بات سراسرایک مغالطہ ہے۔ایک تواس لیے کہ متکلم بنی اسرائیل سے جوبات کہنا چاہتا ہے،اس لحاظ سے یہ دونوں اسالیب ایک جیسے ہیں۔ یعنی، جس طرح یہاں ’ذریة نوح‘ لایاجاسکتاہے،اسی طرح ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کہنا بھی بالکل درست ہے اوراصل مدعاکے لحاظ سے اس میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔دوسرے اس لیے کہ اس آیت میں ’ذریة نوح‘ نہیں ، بلکہ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ لانا ہی زیادہ بہتر تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بنی اسرائیل کے حسب نسب کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے کہ اس مناسبت سے ہم کہیں کہ اولادنوح کاذکرصراحت سے ہوناچاہیے تھا۔بلکہ اس مقام پر انھیں توحیدکے معاملے میں تنبیہ کرنامقصودہے اوربآسانی جان لیا جاسکتا ہے کہ دوسرے اسلوب میں اس منشاکی رعایت نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔یعنی بجاے اس کے کہ انھیں ’ذریة نوح‘ کہہ کر خطاب کیا جاتا اور اس میں صرف یہ یاددہانی ہوتی کہ وہ اُس نوح سے نسبی تعلق رکھتے ہیں جو خدا کاتوحید پرست بندہ تھا،انھیں ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘کے الفاظ میں یہ تنبیہ بھی کردی گئی کہ وہ ان لوگوں کی اولادہیں جو توحیدہی پر کاربندرہنے کی وجہ سے اس قابل ٹھیرے تھے کہ نوح کے ساتھ اُن کی کشتی میں سوارہوں اوراس طرح مشرکین پرآنے والے عذاب سے نجات پائیں۔
۲۔ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کے اسلوب کے بارے میں دعویٰ کرناکہ یہ قطعی طورپربنی اسرائیل کے اولادنوح میں سے ہونے کی نفی کررہاہے،یہ بھی صریح ترین مغالطہ ہے جوان حضرات کولاحق ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کہاجائے کہ ’’یہ نوح کے ہم سوارکی اولادہے‘‘تواس سے مذکورہ شخص کے اولادنوح میں سے ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔دراں حالیکہ اس اسلوب میں اس طرح کی نفی کرنے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں ہے،بلکہ اس کے ذریعے سے ان تمام لوگوں کوخطاب کرنا جائز ہے جن پرنوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے کایہ وصف کسی نہ کسی درجے میں صادق آتاہو۔یعنی،یہ ایک ہی وقت میں جس طرح غیراولادکو خطاب کرنے کے لیے درست ہے،اسی طرح حضرت نوح کی وہ اولادجواُن کی معیت میں کشتی میں سوارہوئی، انھیں خطاب کرنے کے لیے بھی بالکل موزوں ہے اور زبان کے کسی قاعدے کی روسے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس بات کوہم نے ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ، جنھوں نے دوسرے شاگردوں کے ساتھ اپنے باپ سے حدیث کادرس لیا،اُن کی اولادسے بھی اس جملے میں خطاب کرنا ہر طرح سے روا ہے کہ’’ اے اُن لوگوں کی اولادجوابن حنبل سے پڑھتے رہے۔‘‘ظاہرہے،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرے گاکہ محض ان الفاظ سے اس بات کی نفی ہوگئی ہے کہ یہ بچے عبداللہ کے نہیں ہیں ؟ اورنہ وہ اس سے آگے بڑھ کر یہ نتیجہ نکال سکے گاکہ یہ ابن حنبل کے دوسرے شاگردوں کی اولاد ہیں ؟
۳۔ان کایہ کہناکہ اس آیت میں قرآن نے ایک انکشاف کیاہے اورتورات کے بیانات کی اصلاح کردی ہے تو اس مغالطے کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ اول توان آیات کی ساخت پرضرورغورکرلیناچاہیے۔یہ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ یہاں قرآن کی طرف سے نہ تو ابتداء ً کوئی بیان دیاجارہاہے اورنہ کسی قسم کی کوئی حقیقت ہی واضح کی جارہی ہے،حتیٰ کہ اس میں ’ذُرِّيَّة‘کہہ کرکسی گروہ کوبراہ راست مخاطب بھی نہیں کیا جا رہا کہ کوئی شخص غلط فہمی میں مبتلاہوجائے اورقرآن کی طرف سے انکشاف کرنے کادعویٰ کر بیٹھے۔بلکہ یہاں صرف اور صرف ماضی میں ہونے والے ایک واقعے کی حکایت کی جارہی ہے۔یعنی، بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب ہدایت دی تھی اوراس تاکیدکے ساتھ دی تھی کہ اے ان لوگوں کی اولادجنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا،میرے سواکسی اورکواپنا کار سازنہ بناؤ۔
دوسرے یہ کہ قرآن کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ محتمل الوجوہ اسالیب میں نہ توکسی غلط بات کی اصلاح کرتاہے اورنہ اپنے مخاطبین کے مسلمات کے خلاف کوئی انکشاف ہی کرتاہے۔بلکہ اس طرح کے معاملات کے لیے وہ سیدھی اورکھری بات کہتااورصرف اُن اسالیب کو اختیار کرتا ہے جن میں حتمیت اوریقین کی شان پائی جائے کہ یہی اس کی ابانت کاتقاضااورا س کے میزان اورفرقان ہونے کا لازمہ ہے۔ مثال کے طور پر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تورات میں لکھاہے کہ اُنھوں نے معجزہ دکھاتے ہوئے جب اپناہاتھ باہر نکالا تووہ کوڑھ سے برف کے مانند سفیدتھا[8]۔ قرآن نے یہ واقعہ بیان کیا توکسی باریک منطقی استدلال میں نہیں، بلکہ بیماری کی اس نسبت کوبڑے ہی واضح انداز میں غلط قراردیاجب کہ فرمایا: ’تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ‘۔[9] یعنی، یہ ہاتھ بغیرکسی بیماری کے سفیدہوکرنکلے گا۔اسی طرح تورات میں آیاہے کہ خداوندنے چھ دن میں زمین و آسمان کی تخلیق کی اورساتویں دن آرام کیا[10]۔ کام کے بعدتکان ہوجانے اورآرام کرنے کی ضرورت کسی مخلوق کو تو ہو سکتی ہے،اس کے خالق کو ہرگز نہیں۔چنانچہ قرآن نے صرف اشارے کنایے اور محض ضمیروں کی دلالت سے اس کی اصلاح نہیں کی،بلکہ بڑے ہی صریح انداز میں فرمایا:’وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ ‘۔[11] کہ ہمیں کوئی تکان ہرگز لاحق نہیں ہوئی۔بلکہ اگرکوئی غلطی بہت زیادہ سنگین ہواورلوگوں میں اس کا رواج ہو چکا ہو اور قرآن کواس کے جواب میں کوئی بڑاانکشاف کرناہو تووہ انکشاف ہی کے طریقے پراسے بیان کرتا ہے۔ مثال کے طورپر، یہودی سیدنا مسیح علیہ السلام کو قتل کردینے کادعویٰ کرتے تھے۔اناجیل میں بھی یہی کچھ نقل کر دیا گیا ، اور کم و بیش ہرمسیحی فرقے میں اسے مان لیا گیا، حتیٰ کہ نزول قرآن کے وقت اسے ایک مسلمہ کی سی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔اس معاملے میں قرآن نے اصل حقیقت کاانکشاف کرتے ہوئے بتایاہے اور دیکھ لیاجاسکتاہے کہ کتنے زوردارطریقے سے بتایاہے:’وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ‘ ۔اُنھوں نے نہ اُس کوقتل کیااورنہ اُسے صلیب دی،بلکہ معاملہ اُن کے لیے مشتبہ بنادیاگیا۔یعنی پہلے اُن کی بات کی ہردوپہلوسے تردید کی اورپھراُنھیں جہاں سے غلطی لگی تھی،اُس بنیاد کی بھی وضاحت کی۔بلکہ پھر سے دہراکراصل بات کو موکد کیا: ’وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا‘۔[12] کہ اِنھوں نے ہرگز اُس کوقتل نہیں کیا۔
اس روشنی میں ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن اس معاملے میں واقعتاً تورات اوراہل تورات کی اصلاح کرنا چاہتا تو وہ چونکہ اور چنانچہ پرمشتمل ایک الجھاہوااندازکبھی نہ اپناتا۔بلکہ وہ بڑے ہی وضوح سے انھیں بتاتا کہ ’’اے بنی اسرائیل،ابراہیم نوح کی اولادنہیں ہے۔ ‘‘اور اگر یہی بات اصلاح سے بڑھ کر انکشاف کے طریقے پربتاناہوتی تووہ پھراس طرح کے الفاظ لاتا: ’’اے بنی اسرائیل،نہ تم نوح کی اولادہو اور نہ تمھارے باپ،ابراہیم ہی کااس سے نسب کاکوئی تعلق ہے۔‘‘اس کے بعد کہتاکہ ’’تمھیں اس معاملے میں بہت بڑامغالطہ ہوگیاہے ‘‘ اسے موکد کرتے ہوئے یہ بھی کہتاکہ ’’ایک مرتبہ پھرسے سن لو،ابراہیم نوح کی اولاد نہیں ہے اور یقینی طور پرنہیں ہے۔‘‘
ان مغالطوں کے ازالے کے بعداب ہم اس آیت کے اصل مفہوم کو نہایت اختصارکے ساتھ بیان کرتے ہیں :
وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًي لِّبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا. ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍﵧ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا.(بنی اسرائیل۱۷ :۲- ۳)
’’ہم نے موسیٰ کوکتاب دی تھی اوراس کوانھی بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایاتھا،اس تاکیدکے ساتھ کہ میرے سواکسی کواپنا کارسازنہ بناؤ۔اے ان لوگوں کی اولادجنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کیا تھا۔اس میں شک نہیں کہ وہ (ہمارا) ایک شکر گزاربندہ تھا۔“
آیت کے اجزاکے بارے میں چندباتیں ملحوظ رہنی چاہییں:
ایک یہ کہ آیت میں ’’مَن ‘‘ کا حرف آیاہے۔یہ واحدکے لیے بھی استعمال ہوتاہے اورجمع کے لیے بھی۔ بنی اسرائیل، ظاہرہے کشتی میں سوا ر ہونے والے کسی ایک شخص کی اولادہیں،مگراس مقام پراسے جمع میں لانازیادہ بلیغ اورمعنی خیزہے۔
دوسرے یہ کہ آیت میں ’مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ یعنی،’’وہ لوگ جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا‘‘ کاایک فقرہ آیاہے۔اس کے الفاظ اپنے اندرپوری گنجایش رکھتے ہیں کہ ان سے صرف نوح کی اولاد مراد لی جائے یا دیگر مومنین یاپھرایک ہی وقت میں دونوں مرادلے لیے جائیں۔اب اس فقرے سے چونکہ اُس خاص گروہ کوخطاب کیاگیاہے جواس حقیقت کوماننے والاہے کہ وہ حضرت نوح کی اولادہیں،اس لیے اس میں آخری دو احتمالات بالکل ختم ہوکررہ جاتے ہیں اورواضح ہوجاتاہے کہ ان سے صرف اورصرف نوح کی اولاد مرادلی گئی ہے۔
تیسرے یہ کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کوخطاب فرمایاہے،مگر ’ذریة نوح‘ کہنے کے بجاے ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کا اندازا پنایا ہے۔یہ اس لیے ضروری ہواکہ اس میں منشاے متکلم کی رعایت زیادہ پائی جاتی ہے،جیساکہ اوپرتفصیل گزری۔
اجزا سمجھ لیے جائیں تواس آیت کا مفہوم یہ بنتاہے کہ خدا نے جب بنی اسرائیل کو اپنی کتاب عطافرمائی تواُنھیں اس بات کی پرزور تنبیہ کی کہ وہ اُس کے سواکسی اور کو اپنا کار ساز ہرگز نہ بنائیں کہ ایساکرنا صریح شرک ہے۔اس تنبیہ کے لیے اُن سے خطاب بھی ’مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کے اسلوب میں کیا۔تاکہ وہ لوگ اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ وہ حضرت نوح کے اُن اہل کی اولادہیں جواِس شرک سے قطعی طورپرمحفوظ رہے اورانجام کار اُن کے ساتھ کشتی میں سوارکیے گئے۔اوراس کے بعداسی توحید کی ان الفاظ میں تاکیدکی کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوح بھی ہماری بندگی کرنے والا ایک توحیدپرست آدمی تھا۔
اعتراضات
آیت کے اس سیدھے مفہوم پر ان حضرات نے اپنے نئے مضمون میں بھی کچھ اعتراضات اٹھادیے ہیں۔ ذیل میں ہم مختصرطریقے سے ان کا جائزہ لیتے ہیں :
۱۔ہم نے بیان کیاتھاکہ اس آیت میں ’مَن‘ کاحرف آیاہے جوواحدکے لیے بھی آسکتاہے اورجمع کے لیے بھی اوریہاں اسے جمع میں لانازیادہ معنی خیزہے۔اس پران حضرات کی طرف سے اعتراض کیاگیاہے کہ یہاں ’ذُرِّيَّة ‘کی ’مَن‘کی طرف اضافت اگرحقیقی ہے تو لازم ہے کہ اسے واحدہی ماناجائے،اس لیے کہ بنی اسرائیل سب کشتی سواروں کی نہیں،بلکہ ایک ہی فرد کی اولادہیں۔
اس پرہم عرض کریں گے کہ الفاظ اپنے استعمال میں صرف حقیقی اورمجازی کے دائروں میں تقسیم نہیں ہوتے،بلکہ بلاغت کے بعض تقاضوں کے پیش نظر ایک ہی وقت میں حقیقی اورمجازی بھی ہوتے ہیں۔اس کی کئی مثالیں قرآن میں بھی موجودہیں،جیساکہ ارشادہواہے :
قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ. (الفرقان ۲۵ : ۳۷)
’’اسی طرح جب نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا توان کوبھی ہم نے غرق کردیا۔‘‘
قوم نوح نے ایک ہی رسول کوجھٹلایاتھا،مگر فرمایاہے کہ انھوں نے سب رسولوں کو جھٹلایا۔ ظاہر ہے، یہ اسی اصول پرفرمایا ہے کہ حقیقی لحاظ سے ان کی طرف سے تکذیب چاہے ایک رسول کی ہوئی ہو،مگرمجازی لحاظ سے جائزہے کہ اسے سب رسولوں کی تکذیب قرار دے دیا جائے۔اب قاری پرمنحصرہوتاہے کہ وہ آپ سے آپ جان لے کہ جمع کے اس صیغے میں صرف مجازی نسبت نہیں،بلکہ حقیقی نسبت بھی موجود ہے۔اسی طرح کامعاملہ زیربحث آیت کا بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل صرف ایک فردکی حقیقی اولادہیں،مگراس کے ساتھ ساتھ باقی سواروں سے ان کی نسبت مجازی طور پربالکل جائزہے اور ’مَن‘کے اندر جمع ہونے کے باوجود،یہ دونوں نسبتیں موجود ہیں اورذراساسوچ کرخودسے معلوم کرلی جاسکتی ہیں۔ہماری پیش کردہ مثال ’’تم اُن لوگوں کی اولادہو جو اپنا سب کچھ چھوڑکرپاکستان آئے تھے۔‘‘ کوبھی اسی روشنی میں سمجھ لینا چاہیے۔
تاہم،ان حضرات کواگرپھربھی اصرارہے کہ ’مَن‘کوواحدہی کے معنی میں لیاجائے توہم بتاناچاہیں گے کہ ’’اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پرسوارکیاتھا۔‘‘اور’’اے اُس شخص کی اولادجسے ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوارکیاتھا۔‘‘،ان دو جملوں میں بلاغت کاایک فرق تو ضرور پایا جاتا ہے،مگراصل بحث جواس مقام پرہورہی ہے،اس میں ذرابھی فرق واقع نہیں ہوتا۔
۲۔ یہ بتانے کے لیے کہ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کا اسلوب معنوی طورپرایک سے زائداطلاقات کے لیے درست ہے،ہماری طرف سے ایک مثال بیان کی گئی تھی۔ہم نے لکھاتھاکہ ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ جنھوں نے دوسرے شاگردوں کے ساتھ اپنے باپ سے حدیث کادرس لیا،دوسروں کی طرح اُن کی اولادسے بھی اس جملے میں خطاب کرناہرطرح سے روا ہے کہ’’ اے اُن لوگوں کی اولادجوابن حنبل سے پڑھتے رہے۔‘‘ ہماری اس مثال پر ان حضرات کی طرف سے چند اعتراضات اٹھائے گئے ہیں :
ان کاکہناہے کہ اس میں اولادکی نسبت ابن حنبل کے ساتھیوں تک نہیں پہنچائی گئی،جب کہ قرآن میں حضرت نوح تک پہنچائی گئی ہے۔یعنی،مثال اس طرح ہونی چاہیے :’ ’اے ان لوگوں کی اولادجوابن حنبل کے ساتھ پڑھتے رہے۔‘‘کہ اس مثال میں ’’کے ساتھ‘‘ آجانے سے ابن حنبل کابیٹالوگوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ عبداللہ اورابن حنبل کاتعلق تومعلوم ہے،جب کہ حضرت نوح اوربنی اسرائیل کاتعلق زیربحث ہے، اس لیے وہ ہماری دلیل کاحصہ نہیں بن سکتا۔
ہمارامقصوداس مثال سے یہ بتاناتھا کہ جس طرح نوح اوران کے ہم نوا،سب کشتی میں سوارہونے کے عمل میں شریک ہیں،اس فرق کے ساتھ کہ حضرت نوح ان کے امام ہیں اورباقی ان کے متبعین۔اسی طرح ہماری مثال ’’اے ان لوگوں کی اولاد جو ابن حنبل سے پڑھتے رہے۔‘‘ میں تعلیم ایک مشترک عمل ہے جس میں ابن حنبل اور ان کے شاگردشریک ہیں،اس فرق کے ساتھ کہ ابن حنبل استادہیں اور باقی ان کے شاگرد۔چنانچہ ہماری مثال میں ’’سے‘‘ کا لفظ ’’کے ساتھ ‘‘ کے معنی میں ہے اوراس میں اولادکی نسبت ابن حنبل کے ساتھیوں تک پہنچی ہوئی ہے اوراس لحاظ سے یہ قرآن کے اسلوب کوسمجھانے کے لیے بالکل درست مثال ہے۔دوسرے جو ان حضرات کا کہناہے کہ اگرمثال میں ’’کے ساتھ ‘‘کے الفاظ آجائیں توابن حنبل کابیٹالوگوں میں شامل نہیں ہو سکتا تواس پرہم عرض کریں گے کہ اول توان کی مجوزہ مثال میں ’’کے ساتھ ‘‘کواگر’’سے‘‘کے معنی میں نہ لیا جائے توصورت واقعہ ہی بدل جائے گی اورابن حنبل ان لوگوں کے استادہونے کے بجاے خودکسی اورکے شاگرد ہو جائیں گے۔دوم،اگراس مفہوم کو بھی فرض کر لیاجائے توپھربھی ان کایہ دعویٰ بے بنیادہی ٹھیرتاہے کہ اس صورت میں ابن حنبل کابیٹالوگوں میں شامل نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ اگرابن حنبل اپنے بیٹے عبداللہ اور بعض دوسرے لوگوں سمیت،کسی اوراستادسے پڑھ رہے ہیں تواب بھی یہ ہرطرح سے روا ہو گا کہ: ’’اے ان لوگوں کی اولادجوابن حنبل کے ساتھ پڑھتے رہے۔‘‘کے جملے سے دوسروں کی طرح عبداللہ کی اولاد کوبھی خطاب کیاجاسکے۔ باقی جہاں تک انھوں نے یہ اعتراض کیاہے کہ عبداللہ اور ابن حنبل کاتعلق ہمیں معلوم ہے اورنوح کابنی اسرائیل کے ساتھ تعلق زیربحث ہے،اس لیے وہ دلیل نہیں بن سکتاتواس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ یہ بھی حسب معمول انھیں لاحق ہوجانے والاایک صریح مغالطہ ہے۔وہ اس لیے کہ نوح اوربنی اسرائیل کاتعلق اگر زیر بحث ہے تووہ ہمارے اوران حضرات کے درمیان میں ہے۔وگرنہ اس جملے کے مخاطبین کے لیے وہ ہرطرح سے معلوم اورمعروف ہے اور یہ حضرات جب انکشاف کادعویٰ کرتے ہیں تواصل میں اسی بات کومان کر یہ دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں۔
تاہم،اس مثال کو سمجھنے میں دقت ہورہی ہوتوہم اسے ان حضرات کے مجوزہ الفاظ میں تبدیل کیے دیتے ہیں۔ حاکم وقت نے اگر ابن حنبل،ان کے بیٹے،عبداللہ اوران کے دوسرے ساتھیوں پرظلم توڑاہواورہم بعد میں آنے والوں کے لیے یہ جملہ بولیں : ’’اے ان لوگوں کی اولادجنھوں نے ابن حنبل کے ساتھ حکومت کی سختیوں کوبرداشت کیا۔‘‘تودیکھ لیاجاسکتاہے کہ اب بھی ان الفاظ کے ذریعے سے جس طرح ابن حنبل کے دوسرے ساتھیوں کی اولادکوپکاراجاسکتاہے،اسی طرح ان کے بیٹے،عبداللہ کی اولادکوپکارنابھی ہرطرح سے درست ہے اورکسی شخص کومحض اس جملے سے پکارنے پر ابن حنبل کے ساتھ اس کے نسبی تعلق کی ہرگزنفی نہیں ہوتی۔
کسی مثال کوصحیح طرح سے سمجھ لینا،بعض اوقات اس لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کے الفاظ سے ایک طرح کی اجنبیت ہوتی ہے اور سننے والااپنے اندریہ صلاحیت نہیں رکھتاکہ اس اجنبیت کی وجہ سے بھی اصل حقیقت کو مشہود کر سکے۔ اس صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ مثال کو جانے پہچانے الفاظ میں بیان کر دیا جائے اورمزیدیہ کہ اسے اس کے کرداروں پرعملاًمنطبق کرکے بھی دکھادیا جائے۔چنانچہ، فرض کیاجائے کہ ہم نے جاویدصاحب،اُن کے بیٹے،جواد احمد اور اُن کے شاگرد،آصف افتخارکوکسی بڑے دینی مقصد سے ٹرین میں سوار کرایا ہے اور اس کے بعدہم ان کے بچوں کو دین کے معاملے میں کوئی تنبیہ کرناچاہتے ہیں۔سواب جواد اور آصف، دونوں کے بچوں کوالگ الگ اس جملے سے خطاب کرکے دیکھ لیاجائے،’’اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے جاویدصاحب کے ساتھ سوارکرایا تھا۔‘‘ہمیں بڑی امید ہے کہ اس عملی اطلاق سے یہ اسلوب ہر طرح سے واضح ہوجائے گااور زبان کی شدبد رکھنے والاکوئی بھی شخص ان دونوں استعمالات پر ہرگز اعتراض نہیں کرے گا اور نہ یہ استدلال ہی کرے گاکہ جس بچے کواس جملے میں خطاب کیا جائے گا،اس کے جاوید صاحب سے نسبی تعلق کی لازمی طورپرنفی ہوجائے گی۔
بلکہ آخرمیں ہم عرض کریں کہ ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ‘ کا اسلوب کہ جسے سمجھانے کے لیے ہم نے ابن حنبل کی مثال دی تھی،ایک سے زائداطلاقات رکھنے میں اس قدرواضح ہے کہ جوشخص معروضی اندازمیں چیزوں کودیکھنے کاعادی ہو،اُس کے لیے اسے سمجھ لیناذرابھی مشکل نہیں۔ہماری اس بات کی دلیل میں ان حضرات کی وہ تحریر بھی دیکھ لی جاسکتی ہے جہاں یہ اپناانکشاف منوانے پر اصرار نہیں کررہے،بلکہ ایک اوربحث کے تحت اس اسلوب کولائے ہیں اوراقرارکرتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے اولادنوح اور کچھ دوسروں کا ذکرکیا گیا ہے:
’’حضرت نوح کے لیے وہی پیچیدہ اسلوب:’وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘آیاہے۔لہٰذا،یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہاں بھی اولادنوح کے ساتھ کچھ اورکاذکربھی پیش نظرہے۔‘‘[13]
۳۔ہم نے ’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ‘کے اسلوب پرلکھاتھاکہ یہ اس آیت میں اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ متکلم اپنے مخاطبین کو توحیدکے معاملے میں تنبیہ کرناچاہتاہے۔اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ اگریہاں تنبیہ مقصودہوتی توآیت کے آخر میں ’انه‘کے بجاے جمع کاصیغہ لایا جاتا،،اس لیے کہ واحدکے صیغے سے یہ تنبیہ دب جاتی ہے۔
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ واحدکا صیغہ لانے سے یہ تنبیہ ہلکی نہیں ہوئی،بلکہ اورزیادہ تیز اور صحیح ترلفظوں میں دوآتشہ ہو گئی ہے۔مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ تالیف کے نقطۂ نظرسے دوباتیں اچھی طرح سے سمجھ لی جائیں۔
ایک یہ کہ بنی اسرائیل ایک ہی فردکی اولاد ہیں،مگراس کے باوجود ’مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ‘میں ’مَن ‘ جمع کے لیے بھی آسکتاہے اور بلاغت کے بعض تقاضوں کے پیش نظریہ جمع ہی کے لیے یہاں آیاہے،جیساکہ اوپرتفصیل گزری۔
دوسرے یہ کہ ’اِنه‘میں ضمیرمتصل کامرجع لفظ’نوح‘ ہے اوراس بات کوماننے کے چندایک وجوہ ہیں: مثلاً،’مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ‘میں ’مَن ‘ اگرجمع کے لیے ہے تولامحالہ ’انه ‘کامرجع اب نوح ہی ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہاں قرآن کاایک جاناپہچانااسلوب استعمال ہواہے جس میں کسی اسم کاذکرکرنے کے بعداس کاوصف بطور تتمہ بیان کیا جاتا ہے،جیساکہ اس آیت میں فرمایاہے:
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰي. وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰ٘ي .(النجم۵۳: ۳۶- ۳۷)
’’ کیااسے ان باتوں کی خبرنہیں پہنچی جوموسیٰ کے صحیفوں میں ہیں۔اورابراہیم کے صحیفوں میں بھی،جس نے وفاکاحق اداکردیا؟‘‘
اس میں ’الَّذِيْ وَفّٰ٘ي‘ کاوصف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام کے ساتھ بطورتتمہ استعمال ہوا ہے۔ زیربحث آیت کامعاملہ بھی یہی ہے۔’اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا‘ کاوصف اسی خاص طریقے سے حضرت نوح علیہ السلام کے لیے آیا ہے،چنانچہ اس لیے بھی اس کی ضمیرکامرجع لازمی طور پر’نوح‘ہی ہے[14]۔
اس وضاحت کے بعداب دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’اِنَّهٗ‘میں واحدکاصیغہ لانے سے یہ تنبیہ اورزیادہ بڑھ گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ اگراس کے بجاے جمع کاصیغہ’انھم‘لایا جاتا تو اس کے ذریعے سے بنی اسرائیل کومحض یہ یاددہانی ہوتی کہ وہ اُن لوگوں کی اولادہیں جنھوں نے توحیدکی وجہ سے نجات پائی۔مگر ’اِنَّهٗ‘کے ذریعے سے نوح کاوصف بیان ہوااوراس میں مزیدیہ بات بھی شامل ہوگئی کہ تم نوح سے جوتعلق رکھتے ہوتواس حوالے سے بھی سن لو، وہ بھی خداکی توحیدپرکاربندرہنے والاہماراایک خاص بندہ تھا۔
ان حضرات کے انکشاف کا رد ہم نے دوطریقوں سے کیاہے۔ایک یہ بتایاہے کہ ان کااستدلال ہرطرح سے زبان کے اصولوں کے خلاف اورمحض منطق ہے اور پھران کی پیش کردہ آیت کاصحیح مفہوم بھی بتایاہے،جیساکہ اوپر تفصیل گزری۔دوسرے یہ بتایاہے کہ اس معاملے میں ’’ انکشاف‘‘ کے بالکل برعکس، قرآن نے تاریخی اور مذہبی حوالوں کی پوری پوری موافقت کی ہے اوراس کے لیے محض اشارے اور کنایے کانہیں،بلکہ صریح تر لفظوں کااستعمال کیاہے،جیساکہ ارشادہواہے:
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰ٘ي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ. ذُرِّيَّةًۣ بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ .(آل عمران ۳: ۳۳- ۳۴)
’’ اِ س میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح کو، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اُن کی رہنمائی کے لیے) منتخب فرمایا۔ یہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں ۔‘‘
اس آیت میں ’ذُرِّيَّةًۣ بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں،یعنی،’’یہ ایک دوسرے کی اولادہیں۔‘‘ یہ الفاظ اپنے مدعامیں ہرطرح سے واضح ہیں اور مزیدیہ کہ کسی دوسری بحث کے ضمن میں نہیں،بلکہ حضرات آدم و نوح اورآل ابراہیم اورآ ل عمران کے باہمی نسب کو بیان کرنے کے لیے یہاں آئے اور اس طرح زیر بحث مسئلہ میں ایک قول فیصل کی حیثیت اختیارکرگئے ہیں۔مگرنہایت حیران کن امر ہے کہ ان حضرات نے اس سیدھے اوربے تکلف مفہوم سے اختلاف کیاہے اور فراہی اصولوں کے بجاے تفسیر کے ’’روایتی‘‘ اصولوں کی مدد لیتے ہوئے ایک اورہی مطلب بیان کردیاہے۔ان کے بقول اس کاترجمہ یہ ہے،’’یہ سب لوگ انسان ہیں، جو ایک جیسے ہیں۔‘‘
غورکیاجائے توان کے بیان کردہ ترجمہ میں دو بڑے مغالطے ہیں :
۱۔اس آیت میں ’ذُرِّيَّة ‘کا لفظ ’’بنی نوع انسان‘‘کے معنی میں آیاہے۔
۲۔’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ کی ترکیب اصل میں برابری اورمماثلت کوبیان کرنے کے لیے آئی ہے۔
ان مغالطوں کے جواب میں چندباتیں سامنے رہنی چاہییں:
۱۔’ذُرِّيَّة ‘کے اصل معنی کسی شخص کی اولادکے ہیں۔لفظ کے اسی معنی کااطلاق ہے کہ یہ عربی زبان میں کم عمر والی اولاد،یعنی بچوں کے لیے اوربعض اوقات بڑی عمرکی اولاد،یعنی نوجوانوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی یہ بچوں کے ساتھ ان کے وجودکاسبب بننے والی عورتوں کوبھی محیط ہو جاتا ہے۔مزیدیہ کہ اسے اولادکے سلسلے، یعنی نسل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا اور پھر اسی مفہوم کی رعایت سے جنس اورنوع کے لیے بھی برت لیا جاتا ہے۔کیا اس آیت میں بھی یہ بنی نوع آدم کے معنی میں آیاہے؟ تو اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ یہاں اس کایہ معنی مرادلیناکسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔[15]اس لیے کہ یہ اپنے مطلق استعمال میں بنی نوع آدم کے لیے کبھی نہیں آتا،بلکہ ضروری ہوتاہے کہ اسے مثال کے طورپر، آدم کے لیے معہود بنایا جائے۔ اُس کے اسم یااُس کی ضمیرکی طرف مضاف کیا جائے۔ یا کم سے کم اُس ضمیرکی طرف مضاف کیاجائے جس کامرجع آدم وغیرہ تونہ ہو،مگر کلام کے ارتقاکی وجہ سے اس میں یہ معنی ضرور پیدا ہوگیاہو۔اس کی بہت اچھی مثال ذیل کی آیت میں ہے:
وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ .(یٰس۳۶: ۴۱)
’’اوران کے لیے ایک بہت بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ ان کی نسل کوہم نے بھری ہوئی کشتیوں میں اٹھارکھاہے۔‘‘
سمجھ لیاجاسکتاہے کہ ’ذُرِّيَّتَهُمْ ‘ کے’ھم‘ کامرجع نہ توانسان کاکوئی لفظ ہے اورنہ یہ محض’لَهُمْ‘ کے’ھم ‘ کا اعادہ ہے،بلکہ متکلم نے اس مخصوص ضمیرکواٹھایاہے اوراس میں ایک عمومی رنگ پیداکردیاہے۔اب اس کامطلب صرف ’’اِن‘‘ نہیں بلکہ’’ اِن انسانوں ‘‘ ہے۔گویا ’ذُرِّيَّتَهُمْ ‘ کالفظی ترجمہ اب یہ بنے گا:’’اِن انسانوں کی اولاد‘‘، اورظاہرہے اسی مفہوم کواوپرترجمہ میں ’’اِن کی نسل‘‘ سے بیان کیاگیاہے۔
اس اسلوب کواپنی گرفت میں لے لیناچونکہ اتناآسان نہیں ہے،اس لیے ہم شرح صدرکے لیے اس کی ایک اورمثال پیش کیے دیتے ہیں :
وَيَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا. اَوَلَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْـًٔا . (مریم۱۹: ۶۶- ۶۷)
’’انسان کہتا ہے، کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم اس سے پہلے اس کوپیدا کر چکے ہیں،جب کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘
اس آیت میں دومرتبہ لفظ ’الْاِنْسَان‘آیاہے،مگرکچھ غوروفکرکے بعدمعلوم کرلیاجاسکتاہے کہ دوسرا بعینہٖ پہلا نہیں ہے۔پہلے سے مراد مشرکین عرب ہیں اوردوسرے سے مرادبھی یہی ہیں،مگراس فرق کے ساتھ کہ ان کے جنس انسان ہونے کاپہلو اس میں اب ذراغالب ہوگیاہے۔
غرض یہ کہ زیربحث آیت میں ’ذُرِّيَّة ‘کالفظ نہ توآدم کے لیے معہودہے اورنہ اُس کے اسم یا ضمیرکی طرف مضاف ہے اورنہ مذکورہ خاص طریقے سے آیا ہے،بلکہ اسے مطلق طورپراستعمال کیاگیاہے،اس لیے اسے بنی نوع آدم کے معنی میں لے لیناکسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔
۲۔ان حضرات کادوسرابڑامغالطہ یہ ہے کہ اس آیت میں ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ کی ترکیب برابری اور مماثلت کوبیان کرنے کے لیے آئی ہے۔اس پرہم عرض کریں گے کہ اسے برابری کے لیے مان لیاجاسکتا ہے اگر یہ مجازی معنی میں یہاں استعمال ہوئی ہو،مگرمسئلہ یہ ہے کہ سیاق کلام میں اس کے مجازی ہونے کی کوئی مثبت دلیل موجودنہیں ہے۔بلکہ سلبی طورپربھی دیکھاجائے تویہ ہرگز مجازی نہیں ہوسکتی کہ اس پر ’ذُرِّيَّة ‘کاایک لفظ آیا ہوا ہے۔ یہ لفظ ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ کا موصوف ہے اور اسے کسی صورت مہمل نہیں چھوڑاجاسکتااور ضروری ہے کہ یہ اپنی صفت،یعنی اس ترکیب سے متعلق ہواوراس کے معنی کی تعیین کرے۔وگرنہ، یہ لفظ ساری بات سے غیرمتعلق ہوکررہ جائے گااور سامع کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا کرے گاکہ اس جملے میں اولاد کا ذکر کیوں ہوا اور اولادسے مرادآخرکس کی اولادہے[16]۔سواس لفظ کے زیر اثر اس ترکیب کی تالیف کچھ یوں بنتی ہے: ’بعضھا من ذریة بعض‘۔ اورظاہرہے کہ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسے یہاں مجازی معنی کے بجاے حقیقی معنی میں برتا گیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگرسیاق وسباق کوبھی ملالیاجائے جو حضرت مسیح کی الوہیت کاانکارکررہااورآپ کومریم کے گھرمیں جنم لینے والاایک انسان بتارہا ہے تواس ترکیب میں مجازکے ہرپہلوکی مطلق نفی اوراس کے حقیقی ہونے کی اورزیادہ تاکیدہوجاتی ہے۔
بلکہ ہم عرض کریں کہ اگر واقعتاً مجازی معنی ادا کرنا ہوتے اور آدم ونوح اورآل ابراہیم وعمران کے بارے میں یہی بتانا ہوتا کہ یہ سب لوگ ایک جیسے ہیں تواس کے لیے صرف’بعضھم من بعض‘ کے الفاظ لائے جاتے اور ’ذُرِّيَّة ‘کا لفظ لانے کی یہاں کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ اورخاص کراُس وقت جب ان حضرات کی خواہش کے مطابق ’ذُرِّيَّة ‘کو بنی نوع انسان کے معنی میں لے لیاجائے کہ اس صورت میں یہ تکرارمحض قرار پاتی اور ’ذُرِّيَّة ‘کالفظ بھی یہی بتارہاہوتا کہ یہ لوگ اپنی جنس میں انسان ہیں اور ’’یہ سب ایک جیسے ہیں ‘‘ کا جملہ بھی یہی کچھ بتا رہاہوتا۔
ان مغالطوں کے ازالے کے بعداب ہم اس آیت کاصحیح مفہوم بیان کرتے ہیں :
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰ٘ي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ. ذُرِّيَّةًۣ بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ . (آل عمران۳: ۳۳- ۳۴)
’’ اِ س میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح کو، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اُن کی رہنمائی کے لیے) منتخب فرمایا۔ یہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں ۔‘‘
آیت کے اجزاکے بارے میں چندباتیں ملحوظ رہنی چاہییں :
ایک یہ کہ آیت میں چونکہ ’ذُرِّيَّة ‘کالفظ بغیرکسی قیدکے اورمطلق طورپراستعمال ہواہے،اس لیے لازم ہے کہ اس سے اس کااصل معنی،یعنی اولادمراد لیاجائے۔
دوسرے یہ کہ ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ کی ترکیب مجازی کے بجاے اپنے حقیقی معنی میں آئی ہے،اس لیے کہ تالیف کلام کے لحاظ سے یہ ’ذُرِّيَّة‘یعنی،لفظ اولادکی صفت ہے اورسیاق کلام بھی اس کے حقیقی ہونے پر دلالت کرتاہے۔
تیسرے یہ کہ اس ترکیب میں دونوں طرف کامفہوم اصلاًتوموجودنہیں ہوتا،مگراس کے متعلق کلام سے نتیجے کے طورپراس میں پیدا ہو جاتا ہے۔لفظ اولادنے بتادیاہے کہ یہاں دونوں طرف کامفہوم صرف اس قدر ہے کہ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باپ اور اولادکارشتہ رکھتے ہیں۔
چوتھے یہ کہ اس ترکیب میں ایک ترتیب بھی پیداہوگئی ہے اوراس کی وجہ اس کے متعلقات اوروہ علم ہے جس کی رعایت سے اس کلام کاصدورہواہے۔
اجزاکی وضاحت کے بعداب اس آیت کاصحیح مفہوم یہ بنتاہے کہ اللہ نے تمام دنیاوالوں پرترجیح دیتے ہوئے آدم و نوح کواور ابراہیم اورعمران کے خاندان کومنتخب فرمایا۔یہ سب حضرات ایک دوسرے کی اولادہیں اور ترتیب سے ایک دوسرے کی اولاد ہیں۔ یعنی، نوح آدم کی،آل ابراہیم نوح کی اورآل عمران آل ابراہیم کی۔ اور اس سے یہ بھی آپ سے آپ ثابت ہو جاتا ہے کہ سیدنا ابراہیم واقعتاً حضرت نوح کی اولادہیں۔
ان حضرات کے نئے مضمون میں آیت کے اس مفہوم پرکچھ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں :
۱۔ہم نے بیان کیا تھا کہ ’ذُرِّيَّة ‘کاعربی زبان میں اصل مفہوم اولادہے اوریہی مفہوم ہوتاہے جواس کے تمام اطلاقات میں کسی نہ کسی صورت میں موجودہوتاہے۔اس کے خلاف ان کی طرف سے کہاگیاہے کہ ذیل کی آیت میں یہ اولادکے مفہوم سے بالکل منفک ہو چکاہے:
وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ .(یٰس۳۶: ۴۱)
’’اوران کے لیے ایک بہت بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ ان کی نسل کوہم نے بھری ہوئی کشتیوں میں اٹھارکھاہے۔‘‘
ان کامزیدکہناہے کہ اگراس آیت میں اولادکے مفہوم کومنفک نہ کریں توہمیں مانناپڑے گاکہ ’’ ہرکشتی میں ہم سب کی نسل بمعنی اولادبیٹھی ہوتی ہے۔‘‘
اس اعتراض میں عربی اوراردو،دونوں سے عدم واقفیت کے کچھ مسائل ہیں،مگرہم ان سب سے صرف نظر کرتے ہیں اوراس بحث کوبھی نظراندازکرتے ہیں کہ’ذُرِّيَّة‘کے کسی استعمال میں جب اولادکامفہوم بظاہر منفک نظر آتاہے تواس کے باوجود یہ اس میں کس حیثیت سے موجود ہوتا ہے۔ہم صرف ان کی دی ہوئی مثال پرعرض کرتے ہیں کہ اس میں بھی یہ کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے،چاہے اس میں آنے والے ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ کاترجمہ’’ان کی نسل ‘‘کے لفظوں میں کریں یا’’بنی نوع آدم‘‘ کے لفظوں میں۔اصل میں ان حضرات کواس قدر سادہ بات سمجھنے میں جودقت ہورہی ہے تواس کی وجہ ہمارے نزدیک لفظ نسل کایہاں استعمال ہے۔چنانچہ آسانی کی غرض سے ہم یہ کرتے ہیں کہ یہاں ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ کابالکل لفظی ترجمہ کیے دیتے ہیں۔’ذُرِّيَّة‘ کااصل مطلب،’ھم ‘ کی طرف اس کی اضافت اوراس ضمیرمیں پیداہوجانے والے ایک خاص پہلوکی اگرہم رعایت رکھیں تو ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ کا ٹھیک لفظی ترجمہ یہ بنتاہے:’’ان انسانوں کی اولاد۔‘‘اوراس ترجمہ میں ہرشخص دیکھ لے سکتا ہے کہ ’’اولاد‘‘ ہرگز منفک نہیں ہوئی،بلکہ وہ اس میں لفظی طور پربھی موجودہے اورایک درجے میں معنوی طورپر بھی۔
ہمیں امیدہے کہ اب ان کے اس بے جااندیشے کابھی تدارک ہوجائے گاکہ ہرکشتی میں ہم سب کی اولاد بیٹھی ہوتی ہے۔اس لیے کہ ہم کہیں گے کہ کشتیوں میں ’’ ہم سب انسانوں کی اولاد‘‘بیٹھی ہوتی ہے اور ظاہر ہے،اس جملے پران سمیت کسی شخص کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بلکہ اس روشنی میں ان کی طرف سے پیش کردہ یہ مثال بھی سمجھ لی جاسکتی ہے :’ آیة لکم ان اللہ حمل ذریتکم فی ھذہ الطائرة‘۔اس کا صحیح ترجمہ ہوگا:’’تمھارے لیے ایک بڑی نشانی ہے کہ اللہ نے اس جہاز میں تم انسانوں کی اولاد کو سوار کرایا ہے۔‘‘
یہاں ضمنی طورپرایک بات واضح ہوجانی چاہیے۔ان حضرات نے بعض مفسرین کی طرف سے بیان کیاہے کہ وہ ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ سے ’آباء ھم‘مرادلے رہے ہیں تو اس لیے کہ انھوں نے بھی اس لفظ کویہاں ’’ہم نسلوں‘‘ کے معنی میں لیا ہے۔اس پرہم اپنے جیسے طالب علموں سے عرض کریں گے کہ علمی کام بہت زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں،اس لیے وہ جب بھی کسی اہل علم کی راے نقل کریں تو پہلے خودان کا استدلال بڑی اچھی طرح سے سمجھ لیں۔اس کے لیے وہ یہ التزام کریں کہ اُن کے طرزتحریر سے خوب واقفیت بہم پہنچائیں[17]،اور بالخصوص اس صورت میں جب وہ قدیم زمانے کے علما میں سے ہوں کہ قدیم علما کی یہ عام عادت ہوتی ہے کہ وہ اس اعتماد پر نہایت اختصاراور جامعیت کے ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں کہ اُنھیں پڑھنے والے تمام بنیادی علوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔سوجان لیناچاہیے کہ ان مفسرین نے ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ سے جب ’آباء ھم‘مرادلیا ہے تواس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ’ذُرِّيَّة‘کو ’’ہم نسل‘‘ کے معنی میں لے رہے ہیں،بلکہ ان کے نزدیک یہاں مسبب بول کرسبب مراد لینے کااسلوب برتاگیاہے۔ یعنی، انھوں نے ’ذُرِّيَّتَهُمْ‘ کوپہلے اولاد کے معنی میں لیا ہے اوراس کے بعدیہ سمجھاہے کہ یہاں مسبب یعنی، اولادکالفظ بول کران کاسبب،یعنی آبا مرادلیے گئے ہیں جوکشتی نوح میں واقعتاً سوارہوئے اور بعد میں ان لوگوں کی پیدایش کا سبب بھی ہوئے۔
۲۔ہم نے ’ذُرِّيَّة‘کے اطلاقات دکھاتے ہوئے عربی زبان میں سے ایک نظیرپیش کی تھی کہ جس میں یہ لفظ عورتوں کے لیے بھی استعمال ہواہے اوراولادکے مفہوم کے باوجود، اس لیے استعمال ہواہے کہ یہ عورتیں اولادکے وجودمیں آنے کاسبب ہوتی ہیں۔’انی احکم ان تقتل المقاتلة وان تسبی الذریة‘۔[18] ’’میرا فیصلہ ہے کہ مقاتلین کوقتل کردیاجائے اوران کے بچوں اورعورتوں کو قیدکرلیاجائے۔‘‘اس پران حضرات کی طرف سے اعتراض کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ اصل میں ’’ میدان جنگ میں ہم نسلوں کے معنی میں جذبۂ ترحم کی بیداری کے لیے ’ذُرِّيَّة‘بولا جاتا ہے،جس کااطلاق غیرمقاتلین پر ہوتاہے۔‘‘ ان کاکہناہے کہ اس روایت میں شارحین نے اس سے جو عورتیں اوربچے مرادلیے ہیں تواس میں ’’ ’المقاتلة ‘ کے تقابل میں آنے سے یہ معنی پیداہوئے ہیں۔اسی لیے’نساء‘پر عطف ہوکر صرف بچوں کے معنی میں رہ جاتا ہے۔مثلاً دوسری روایتوں میں دیکھیے یہ فیصلہ یوں نقل ہواہے:’ان تقتل المقاتلة وان تسبی النساء والذریة‘۔‘‘
لفظ کا معنی طے کرنے کے اس نادرطریق پران حضرات کے مریدان خاص ہی انھیں داددے سکتے ہیں۔ افسوس!ہم ان کے حلقۂ ارادت میں شامل نہیں ہیں اورفرصت کے لمحات بھی اس قدرمیسرنہیں ہیں کہ اس کے ایک ایک جزکوزیربحث لائیں اوراس طرح ہم بھی انھیں خوب خوب ’’داد‘‘دے سکیں۔ سردست، یہی عرض کرتے ہیں کہ ایک تو ’ذُرِّيَّة ‘کا مطلب یہاں ہم نسل نہیں ہو سکتا کہ اس کے کچھ شرائط ہیں جو اوپر تفصیل سے بیان ہوچکے۔دوسرے یہ کہ تقابل میں آنے سے ہرلفظ میں ہرطرح کا معنی پیدانہیں ہو جایا کرتا، بلکہ ضروری ہوتاہے کہ لفظ میں وہ معنی قبول کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ یعنی، اس روایت میں تقابل کی وجہ سے یہ تو ممکن ہے کہ ’ذُرِّيَّة‘میں موجودبہت سے معانی میں سے کچھ کی تعیین ہو جائے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس میں وہ معنی بھی پیداہوجائیں جو اس میں اصلا ًموجود نہیں ہیں۔چنانچہ شارحین نے اس سے مراد اگر عورتیں اوربچے لیے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اس لفظ کے پہلے سے ثبت شدہ اطلاقات ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور محض مقاتلین کے تقابل میں آجانے سے معنی پیدا ہونا ہوتے تووہ عورتوں اوربچوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کاشت کاری کرنے والے کسانوں،گھروں میں کام کاج کرنے والے غلاموں اور خانقاہوں میں محصور عبادت گزاروں کو بھی مرادلیتے کہ وہ بھی اس زمانے میں غیرمقاتلین ہی شمار ہواکرتے تھے۔بلکہ اس بات کو ہم ایک اورزاویے سے عرض کریں کہ اگر تقابل ہی سے معانی پیدا ہوناہوتے تو ’ذُرِّيَّة‘کے بجاے یہاں کوئی اورلفظ جیساکہ مثال کے طورپر،’حرّاث ‘ یا ’عسیف‘ رکھ دینے سے بھی یہ معنی پیداہوجاتے، حالاں کہ ایسانہیں ہے۔ہم اس کاترجمہ صرف کسان اورخادم کریں گے اوراس میں بچوں اورعورتوں کامعنی ہرگز پیدا نہیں کردیں گے کہ یہ معانی ان لفظوں میں اصلاً موجودنہیں ہیں۔
غرض یہ کہ معنی کی تعیین الل ٹپ طریقے سے نہیں ہوتی کہ تقابل جیسی اصطلاحات کوکسی بھی طریقے سے استعمال کرلیاجائے۔زبان کے کچھ قواعدہوتے ہیں کہ جن کی روشنی میں نہایت قرینے سے ان کااستعمال کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ قرینہ اورسلیقہ ہی اصل میں مکتب فراہی کاطرۂ امتیازہے،وگرنہ لوگ ان قاعدوں اوراصطلاحات سے تو ہمیشہ سے واقف رہے،بلکہ بہت اچھی طرح سے واقف رہے ہیں۔باقی شارحین کے ہاں اس روایت کا مفہوم کس طرح سے طے ہواہے،ہم اپنے جیسے طالب علموں کے لیے وہ اصل طریقہ ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’انی احکم ان تقتل المقاتلة وان تسبی الذریة‘۔
یہ اصل میں بنوقریظہ کے بارے میں سنایاگیاحضرت سعدبن معاذکافیصلہ ہے اوراس میں ’المقاتلة ‘ کے الف لام کامعہود اسی قبیلے کے مردان جنگ ہیں۔اس کے بعد ’ذُرِّيَّة‘پربھی ایک الف لام آیاہے اورزبان کے قواعد کی روسے لازم ہے کہ اس سے مرادبھی ’’اس قبیلے کی ذریت‘‘ ہو۔ قبیلے کی طرف اس نسبت کے ہوتے ہوئے،ظاہرہے یہ توکسی طرح ممکن نہیں رہا کہ ’ذُرِّيَّة‘سے مراد بنی نوع انسان لے لیا جائے۔ اس سے مراد نسل بھی نہیں لیا جا سکتا کہ یہ بنوقریظہ کے سارے سلسلۂ اولادکے لیے نہیں ،بلکہ اس وقت میں موجوداورقتل کے حکم سے بچ جانے والے افرادکے بارے میں سنایاگیاایک فیصلہ ہے۔اب یہ ذریت چونکہ ’المقاتلة ‘ کے تقابل میں آیا ہے،اس لیے اس سے مراد نوجوان اولادبھی نہیں لی جاسکتی جوخود مقاتلین میں سے ہے۔گویا لفظ ذریت میں پائے جانے والے یہ سب احتمالات ایک ایک کر کے ختم ہو گئے اور ان کے بچے اور عورتیں ہی باقی رہ گئے ہیں۔یہ بچے اورعورتیں لفظ ذریت کے ثابت شدہ معانی ہیں اوریہاں انھیں جس طرح یہ بات متعین کر دیتی ہے کہ یہ مقاتلین کے تقابل میں آئے ہیں،اسی طرح یہ بات بھی انھیں موکدکرتی ہے کہ اس روایت میں ذریت کو غلام بنانے کافیصلہ سنایاگیاہے اورہم جانتے ہیں کہ نوجوانوں کے علاوہ یہ عورتیں اور بچے ہی ہوتے تھے کہ جنھیں اس زمانے میں عام طورپرغلام بنایا جاتا تھا۔
اس ذیل میں ان کی طرف سے حضرت خالد بن ولیدکی ایک روایت بھی نقل کی گئی ہے۔ہم امیدرکھتے ہیں کہ مذکورہ بالاروشنی میں طالب علم خودہی اس کاصحیح مفہوم طے کرلیں گے اوراس تناظرمیں ان لوگوں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کوبھی اچھی طرح سے سمجھ لیں گے۔
۳۔ہم نے بیان کیاتھاکہ ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ کی ترکیب میں دونوں طرف کامفہوم اصلاًموجودنہیں ہوتا، بلکہ اس کے متعلق کلام سے نتیجے کے طورپراس میں پیدا ہو جاتا ہے۔اس پراعتراض ہواہے کہ ’’اس جملے میں ’بَعْضُهَا مِنْۣ بَعْضٍ‘ میں ’بَعْض‘ دودفعہ آیاہے۔اگریہاں طرفین موجودنہیں ہیں تواس کامطلب یہ ہے کہ دوسرا ’بَعْض‘ جملے میں براے بیت آگیاہے،یعنی تلاوت میں ہے،لیکن معناً منسوخ ہوچکاہے۔‘‘
مرادی معنی طے کرنے کے اس کام میں بہت سے اصول وضوابط ہوتے ہیں،مگر یہ بات طے ہے کہ’’ لفظ شماری اور مطلب برآری‘‘، اس کاکوئی اصول نہیں ہے کہ محض لفظ گن لیے جائیں اوراسی نسبت سے کلام میں مفاہیم پیداکردیے جائیں ۔اس میں شک نہیں کہ یہاں ’بَعْض‘ دومرتبہ آیاہے،مگراس میں بھی شک نہیں ہے کہ اس کے باوجودیہاں ابتداکا مفہوم یک طرفہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک ’بَعْض‘ مبداہے اوردوسرامبدامنہ ہے اوراس صورت میں یہ بالکل محال ہے کہ اس ترکیب میں دونوں طرف کامفہوم فرض کرلیاجائے۔ ہماری یہ بات کچھ فنی محسوس ہوتو اسے ہم آسان بھی کرسکتے ہیں۔وہ اس طرح کہ اس ترکیب میں پہلے ’بَعْض‘ کو’الف‘اور دوسرے کو’ب‘قرار دے دیا جائے اور اب کسی بچے سے اس کا لفظی مطلب پوچھ لیا جائے۔ ہمیں پورایقین ہے کہ وہ اس کاترجمہ یہی کرے گاکہ اُن کا’الف‘اُن کے’ب‘میں سے ہے۔وہ اس کا ترجمہ کبھی یہ نہیں کرے گا کہ ’ الف‘ ’ب‘ میں سے اور ’ب‘ ’الف‘ میں سے ہے۔
اس تفصیل کے بعداب ہم اس ساری بحث کو چندنکات میں بیان کرسکتے ہیں :
۱۔سیدناابراہیم حضرت نوح کی اولادہیں۔یہ ایک محکم تاریخ ہے اورابراہیمی مذاہب کی تاریخ بھی اس کی پوری پوری تائیدکرتی ہے۔
۲۔قرآن کریم نے واضح ترالفاظ میں یہ کہتے ہوئے اس کی موافقت کی ہے کہ یہ ایک دوسرے کی اولادہیں۔
۳۔جولوگ اس کے خلاف ’’انکشاف‘‘ کربیٹھے ہیں،انھیں چاہیے کہ وہ اپنے منطقی استدلال کے ذریعے سے اس کا اثبات نہ کریں، بلکہ قرآن کی کوئی صریح نص پیش کریں جس میں بیان کیا گیا ہو کہ ابراہیم نوح کی اولاد نہیں ہیں۔
]باقی[
________
[1]۔ ماہنامہ”اشراق“ ،ستمبر۲۰۱۸ء۔
[2]۔ ماہنامہ”اشراق“ ،نومبر۲۰۱۸ء۔
[3]۔ ماہنامہ”اشراق“ ،دسمبر۲۰۱۸ء۔
[4]۔ ماہنامہ”اشراق“ ،فروری ۲۰۱۹ء۔
[5]۔ ماہنامہ”اشراق“ ،مارچ ۲۰۱۹ء۔
[6]۔ ماہنامہ”اشراق“ ،اپریل ۲۰۱۹ء۔
[7]۔ یہ سطورلکھی جاچکی تھیں کہ”اشراق“ ،مئی ۲۰۱۹ء میں ان حضرات کی طرف سے ایک اعتذار شائع ہوااورکہاگیاکہ ان کے لکھے ہوئے سخت جملوں سے صرف نظرکیا جائے۔ ہم بتاناچاہتے ہیں کہ الحمدللہ،اس معاملے میں ہم پہلے سے دوفیصلے کرچکے تھے۔ایک یہ کہ اپنی ذات پرکی جانے والی تنقیدکے جواب میں ان پرتنقیدکاایک حرف نہ لکھیں گے۔ دوسرے یہ کہ ان کے استدلال کی حقیقت واضح کرنے میں کوئی کسربھی نہ اٹھارکھیں گے کہ ایساکرنا ہم پرلازم بھی ہے اورمستقبل میں اس طرح کے انکشافات کاراستہ روکنے کے لیے حددرجہ معاون بھی ۔
[8]۔ کتاب خروج۴: ۶۔
[9]۔ طٰہ۲۰: ۲۲ ۔
[10]۔ خروج۲۰ : ۱۱۔
[11]۔ ق ۵۰: ۳۸۔
[12]۔ النساء۴: ۱۵۷۔
[13]۔ ماہنامہ”اشراق“،دسمبر۲۰۱۸ء، ص ۷۱۔
[14]۔ ان حضرات کوواحد کاصیغہ آنے میں جوغرابت محسوس ہوئی ہے ،اس کی وجہ بھی اصل میں قرآن کے اس اسلوب سے ان کی ناواقفیت ہی ہے۔
[15]۔ بلکہ قرآن نے اگراس مفہوم کواداکرناہوتاتواس کے لیے بنی آدم کی ترکیب زیادہ مناسب ہوتی،جیساکہ فرمایا ہے: ’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ٘ اٰدَمَ‘ ۔بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰۔
[16]۔ اوروہ مہمل جملہ یہ بنتاہے: ’’ خدا نے آدم ونوح اورآل ابراہیم وآل عمران ،یعنی اولادکوچناجوسب ایک جیسے ہیں۔‘‘
[17]۔ اسے اہل علم کے اندازبیان سے ناواقفیت ہی کانتیجہ کہیں گے کہ ان حضرات نے مفسرین کی اس تاویل کی توجیہ یہاں’ ’ہم نسل ‘‘سے کی ہے اورپچھلے مضمون میں کچھ اورہی کی تھی اوربیان کیاتھاکہ جنھوں نے ’ذُرِّيَّة‘کوآبا کے معنی میں لیاہے توانھوں نے اسے غیرمعروف معنی میں لیاہے۔ ماہنامہ”اشراق“،دسمبر۲۰۱۸ء، ص۷۵۔
[18]۔ بخاری،رقم۳۰۴۳۔
___________