قرآن مجید کے حفظ کی رسم صدیوں سے مسلم سماج میں رائج ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اورباعث اجر و سعادت ہے ۔ یہ تصور چند در چند غلط فہمیوں کا مرکب ہے۔
قرآن مجید کا مقصد اس کے کلام اور پیام کا ابلاغ ہے ۔ ابلاغ کے لیے کلام کا حفظ ہونا ضروری نہیں۔ قرآن مجید کے حفظ کرنے کی ہدایت، بلکہ ذکر تک قرآن مجید میں موجود نہیں ۔ قرآن مجید کی ایک آیت سے قرآن کے حفظ کامفہوم اخذ کیا جاتا ہے:
’وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ‘ ،”ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟ “ (القمر ۵۴: ۳۲)۔اس آیت سے قرآن مجیدکا ایسا حفظ مراد لینا جس میں الفاظ و معنی کے فہم سے کوئی تعلق نہ ہو سوء فہم ہے۔’ذکر ‘کا لفظ ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے اس مفہوم کو یہاں لینے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ’ذکر ‘کے مفہوم میں تعلیم، تذکیر، آگاہی، تنبیہ، نصیحت، موعظت، حصول عبرت اور اتمام حجت جیسے تمام مفاہیم اس میں شامل ہیں۔
ماہ رمضان میں تراویح کی نماز، جو درحقیقت نماز تہجد ہی ہے، میں پورے قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے سماع کا اہتمام مسلمانوں کا اپنا انتخاب ہے۔ اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ماہ رمضان میں قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے نہ کہ نماز تہجد میں۔ نماز تہجد میں قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر جہاں قرآن مجید میں آیا ہے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں یہ سہولت دی گئی کہ جتنا ہو سکے اتنا پڑھ لیا جائے۔’فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ‘،”چنانچہ اب قرآن میں سے جتنا ممکن ہو،اِس نماز میں پڑھ لیا کرو“ (المزمل ۷۳: ۲۰)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قرآن مجید کےحفظ کرنے کی ترغیب دلانے والی روایات میں سے جو معیار صحت پر پورا اترتی ہیں ان میں بھی اس تصور کا پایا جانا ممکن نہیں کہ آپ نے لوگوں کو بلا سمجھے قرآن مجید کو زبانی یا دکرنے کی تلقین فرمائی ہو ۔ آپ کے مخاطبین قرآن مجید کی زبا ن سے واقف تھے۔ ان کے لیے اسےسمجھے بغیر یادکرلینا متصور ہی نہیں۔ البتہ، عرب کی غالب اکثریت لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی ، لکھنے پڑھنے کا سامان بھی کم یاب تھا، قرآن مجید ان سب کو لکھ کر دے بھی دیا جاتا تو وہ اسے پڑھ نہیں سکتے تھے، قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ اسے حفظ کرلینےکی یہ ہدایات انھیں اس بنا پر دی گئیں کہ ان کے لیے قرآن مجید سے مراجعت کا یہی طریقہ رہ جاتا تھا کہ وہ اسے زبانی یاد بھی کرلیں۔یوں اُس وقت قرآن مجید کے حفظ کے ذریعے سے بھی اس کی حفاظت کا کام لیا گیا ، لیکن اس کی وجہ حالات کی یہ مجبوری تھی۔ چنانچہ عرب کے لوگ اپنی عادت کے مطابق قرآن مجید کو یاد کر لیتے تھے جیسے وہ خطبا اور شعرا کے کلام کو زبانی یاد کر لیتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن مجید کا حافظ یا قاری ہونے کا مطلب قرآن مجید کا عالم ہونا تھا۔ حفظ کا یہ مفہوم حافظ الحدیث کی اصطلاح میں آج بھی زندہ ہے۔ کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ حافظ الحدیث ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے جس کو احادیث کی ایک بڑی تعداد تو یاد ہو، لیکن ان کا مطلب و مفہوم معلوم نہ ہو۔ مزید برآں، جس طرح حافظ الحدیث کے مفہوم میں یہ لازمی نہیں کہ اسے تمام احادیث حفظ ہوں، اسی طرح حافظ القرآن کے مفہوم میں بھی یہ لازم نہ تھا کہ اسے اول تا آخر سارا قرآن بالترتیب یاد ہو ۔ جو قرآن مجید کا اچھاعلم رکھتا تھا وہ حافظ القرآن ہی سمجھا جاتا تھا۔ قرآن مجید کے حفظ سے متعلق وارد ہونے والی احادیث کا مطلب قرآن مجید کے الفاظ کو اس کے معنی اور مفہوم کے ساتھ حفظ کرنا ہے۔ عجمی قومیں جب اسلام میں داخل ہوئیں تو انھوں نے ان روایات کو قرآن مجید کے الفاظ کو بغیر سمجھے یاد کرنے سے متعلق سمجھ لیا ۔ اس قسم کے حفظ کی رسم پھر ایسی چلی کہ پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ علما اور قراء نے ہر مدرسے میں ایک شعبۂ حفظ قائم کر لیا ، بلکہ حفظ کے مستقل مدرسے بن گئے جن کا مقصد وحید قرآن مجید کے ایسےحافظ تیار کرنا تھا جو اس کے معانی اور مفہوم سے ناآشنا تھے ۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حفظ قرآن مجید کی موجودہ رسم اور اس سے جڑے ثواب اور گناہ کے دینی تصورات اسے ایک بدعت بناتے ہیں۔
یہ خیال ایجاد کیا گیا کہ قرآن مجید کا حفظ کرنا معجزہ ہے۔ یہ حقیقتاً درست نہیں۔ قرآن مجید صبح سے لے کر شام تک کا سارا وقت لگا کر اوسطا ً تین سے چار سال میں حفظ کیا جاتا ہے۔ اتنا وقت اتنی ضخامت کی کسی بھی کتاب کو زبانی یاد کرنے کے لیے کافی ہے، خصوصاً جب الفاظ میں ایک خاص قسم کی موسیقیت اور موزونیت بھی پائی جاتی ہو تو یہ اور بھی سہل ہو جاتا ہے۔نثر کے مقابلے میں شاعری اسی وجہ سے جلدی اور زیادہ مقدار میں یادہو جاتی ہے۔کتاب اگر اپنی زبان میں ہو تو اس سے بھی کم وقت میں اس کا زبانی یاد کر لیناممکن ہے۔ قرآن مجید کا حفظ معجزہ تب قرار پا سکتا تھا کہ اگر یہ حفظ کرنے کے بعد یاد رہ پاتا۔ جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ چند د ن دہرائی نہ کی جائے تو یہ بھولنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے یاد رکھنے کے لیے مسلسل دہرائی کی محنت کرنا پڑتی ہے، جیسے کسی بھی دوسرے یاد کیے ہوئے کلام کے لیے کرنا پڑتی ہے۔ تاہم، قرآن مجید کے اکثر حفاظ یہ مستقل مزاجی نہیں دکھا پاتے۔زندگی کی مصروفیات میں قرآن مجید کا حفظ دھندلا جاتا یا بالکل بھول جاتا ہے۔ بچپن اور جوانی میں قرآن مجید کو یاد رکھنے کی یہ مشقت اٹھا بھی لی جائے تو بڑھاپے میں ان حفاظ سے یہ کشٹ نہیں اٹھایا جاتا اور آخری عمر میں وہ حفظ قرآن پورا یا بیش تر بھلا بیٹھتے ہیں۔ خواتین حفاظ کےحفظ قرآن بھولنے کے عوامل اور بھی زیادہ ہیں۔حیض و نفا س کے دوران میں قرآن مجید کی تلاوت نہ کر سکنے اورچھوٹے چھوٹے گھریلو کام جو ان کو ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتے، قران مجید کا حفظ بھولنے کا عمومی سبب بن جاتے ہیں۔
قرآن مجید کے حفظ سے شعبدہ بازی کا کام بھی بعض حلقوں میں لیا جاتا ہے۔ طلبا سے متن قرآن کے ساتھ صفحہ نمبر، بلکہ آیت نمبر تک یاد کروائے جاتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی مقابلوں میں یادداشت کے یہ کارنامے پیش کر کے داد تحسین وصول کی جاتی ہے۔ تاہم، مقابلے کے چند دن بعد ہی یادداشت کا یہ ذخیرہ طلبا کے ذہن سے محو ہونے لگتا ہے۔اس تمام جان کاہی کا قرآن مجید کے کلام و پیام کے ابلاغ سے کوئی تعلق تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔
حفاظ جب قرآن مجید بھولنے لگتے یا بھول جاتے ہیں تو وہ احادیث ان کے سامنے آ جاتی ہیں جن میں قرآن مجید کو بھلا دینے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ یہ حفاظ بقیہ عمر اس قصورواری کے احساس میں گزارتے ہیں کہ انھوں نے قرآن مجید بھلا کر سخت گنا ہ کردیا ہے اور ان کا حشر اب برا ہوگا۔ یہ ندامت کے مارےخدا سے معافی مانگتے رہتے ہیں یاخود پر غفلت طاری کر کے دین سے ہی بے زار ہو جاتے ہیں۔ لوگ انھیں حافظ سمجھتے ہیں، لیکن وہ دل میں شرمندہ رہتے ہیں اور یوں ایک منفی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قرآن مجید بھلا دینے پر وارد ہونے والی وعید وں کو ان کے درست تناظر میں دیکھنےکی ضرورت ہے ۔ جن لوگوں سے آپ مخاطب ہو کر یہ فرما رہے تھے وہ قرآن مجید کو رٹا لگا کر یاد نہیں کررہے تھے۔ ان سے یہ کہا جا رہا تھا کہ قرآن مجید سے تعلق پیدا کرلینے کے بعد اگر وہ اسے بھول جائیں گے تو ان سے سخت مواخذہ ہوگا۔ یہ وعیدیں درحقیقت قرآن مجید سے رو گردانی کرنے پر وارد ہوئی ہیں نہ کہ قرآن مجید کے الفاظ کو بھلا دینے پر۔ جب قرآن مجید کا محض حفظ ہی مقصود نہیں تو یہ وعیدیں محض حفظ کو بھلا دینے سے متعلق کیسے ہو سکتی ہیں؟
تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ صحابہ اور ان کی اولادیں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے کوئی مخصوص وقت لگاتے یا اس کے لیے الگ مدارس کھولتے تھے۔ قرآن مجید ان کی زندگی کا حصہ اور اس کی تلاوت ان کے روزانہ کے معمولات کا لازمی جزو تھا۔وہ قرآن مجید کی تلاوت اور مزاولت اتنی کثرت سے کرتے تھے کہ قرآن مجید ان کی زبانوں پر رواں رہتا تھا اور اس کا بہت سا حصہ خود بخود انھیں یاد رہتا تھا۔
ہمارے ہاں یہ تصور پیدا ہوا کہ حفظ قرآن کے لیے بچپن کی عمر بہترہے۔ اسی بنا پر حفظ کے کم عمر طلبا کی کثرت ہے ۔ ستم یہ ہے کہ مدارس میں حفظ قرآن کا دورانیہ غیر معمولی طور پر طویل ہے۔ صبح فجر سے رات عشاء تک یہ جاری رہتا ہے،جس میں نماز اور کھانے کے وقفوں کے علاوہ عصر سے مغرب تک کا ایک وقفہ دیا جاتا ہے۔ کم سن اور نوجوان بچےاتنا طویل وقت مسلسل بیٹھ کر ایک ایسی کتاب کو حفظ کرنے کی مشقت جھیلتے ہیں جس کی زبان کے فہم سے بھی وہ ناواقف ہوتےہیں۔ پھر یہ سب وہ اپنی خوشی سے نہیں، بلکہ اپنے بڑوں کی خوشنودی یا ان کے جبر اور خوف کی وجہ سے کر تے ہیں ۔ حفظ کے دوران کیا جانے والا تشدد، رہایشی مدارس میں بچوں کا اپنے گھر سے دوری کا دکھ اورجنسی ہراسانی کا مسئلہ، یہ سب بچے کی نفسیات میں غیر صحت مند رویے تشکیل دیتے ہیں۔ ان غیر صحت مندانہ رویوں کے اثرات سماج میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔
بچپن کی عمر بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کی ہوتی ہے۔ تمام صلاحیتوں کی پرداخت کی یہی عمر ہوتی ہے۔ مختلف ہنر ابتدائی طور پر اسی عمر میں سکھانا مفید ہوتا ہے۔ مگر عمر کے اس سب سے قیمتی وقت کا ایک متعد بہ حصہ قرآن مجید کے الفاظ کو بلا سمجھے یاد کرانے تک محدود کرنا مختلف ذہنی صلاحیتوں کی نشوو نما میں رکاوٹ اور تعلیمی نقطۂ نظر سے بالکل نامناسب ہے۔
تین سے پانچ سال لگا کر بچہ جب حافظ بنتا ہے تو عصری تعلیم کے میدان میں اس کی عمر کے بچے کئی درجے اس سے آگے نکل چکے ہوتےہیں۔ سکول میں اسے اپنے سے کم عمر بچوں کے ساتھ داخلہ ملتا ہے اور عمروں کا فرق کمرۂ جماعت میں اس کے لیے ایک غیر موافق ماحول پید کرتا ہے جو اس کے لیے بدمزگی کا سبب بنتا ہے ۔ دوسری صورت میں ایسے بچوں کو ان کی عمر کے مطابق درجے میں بٹھا دیا جاتا ہے اور پھر ان سے دہری مشقت کروا کر وقت کے اس نقصان کی تلافی کی کوشش کی جاتی ہے جو حفظ کے دوران میں ہو جاتا ہے۔
مدرسہ کے مختلف قسم کے ماحول میں جہاں مختلف علاقوں اور مختلف عادات اور مختلف عمروں کے بچے ایک ساتھ پڑھتے ہیں،بچہ کی ذہنی ساخت اسکول کے دیگر بچوں سے مختلف بن جاتی ہے۔ طبائع اور ذہن کا یہ اختلاف بھی حافظ بچے کو اپنے ماحول سے اجنبی بناتا ہے۔ اسے نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے بہت محنت اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
ایک متھ یہ بھی ایجاد کی گئی ہے کہ حافظ قرآن کا ذہن زیادہ تیز ہوتا ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کچھ بچے تو قدرتی طور پر زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کے والدین انھیں حفظ میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ بچے دیگر میدانوں میں بھی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔تاہم، عام حافظ کا ذہن رٹا لگانے میں ماہر ہو جاتا ہے۔ فہم کلام کی مشق اس نے بچپن کے اس دور میں نہیں کی ہوتی جب یہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ تعلیمی نظام عمومی طور پر رٹا پر مبنی ہے اس لیے حفاظ یہاں بھی اچھی کارکردگی دکھا پاتےہیں۔ مگر یہ حقیقت میں کوئی خوبی نہیں۔
موجودہ دور میں، جب کہ قرآن مجید کو محفوظ رکھنے، پڑھنے اور آیات اور موضوعات تلاش کرنے کے جدید ترین ذرائع وجود میں آ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں انسان کےقیمتی وقت کو ایک ایسی مشقت میں لگایا جائے جس کا کوئی مطالبہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اورنہ دین کا کوئی مفاد اب اس سے وابستہ ہے۔
____________