ائمۂ احناف کے رجحانات کو باقاعدہ ایک اصولی منہج کے طور پر متعین قواعد کی صورت میں منضبط کرنے کی کوشش کا آغاز امام محمد بن الحسن کے شاگرد عیسیٰ بن ابان سے شروع ہوتا ہے۔ عیسیٰ بن ابان کی اصولی فکر ابوالحسن کرخی سے ہوتی ہوئی چوتھی صدی میں ابوبکر الجصاص تک پہنچی اور جصاص کے قلم سے ہمیں حنفی اصول فقہ پر پہلی مرتب اور مفصل کتاب ملتی ہے۔ البتہ عیسیٰ بن ابان اور جصاص کے درمیان حنفی روایت میں ایک اور شخصیت جو اس حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے، امام ابو جعفر الطحاوی کی ہے جو ابوبکر الجصاص کے استاذ بھی تھے۔ اصولی مباحث پر امام طحاوی نے کوئی مستقل تصنیف تو سپرد قلم نہیں کی، لیکن ان کی تصانیف، یعنی”احکام القرآن“، ”شرح معانی الآثار“، ”شرح مشکل الآثار“ اور ”مختصر اختلاف العلماء“ میں قرآن و سنت کے باہمی تعلق کی بحث سے جڑی ہوئی متعدد مثالوں پر کلام کیا گیا ہے جس سے ان کے اصولی رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امام طحاوی کے نقطۂ نظر کا مطالعہ اس بحث میں اس لحاظ سے اہم ہے کہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں شافعی اور حنفی، دونوں روایتوں سے وابستگی کی وجہ سے ان کا اصولی منہج کئی اہم اعتبارات سے حنفی اصولیین کے منہج سے مختلف ہے اور خاص طور پر احادیث وآثار کی تعبیر وتشریح اور ان سے استنباط احکام میں ان کے طرز فکر کے اپنے خاص امتیازات ہیں۔ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں بھی یہ امتیاز نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہاں امام طحاوی کے ہاں امام شافعی کی فکر اور حنفی اصولیین کے منہج، دونوں کے امتزاج یا جزوی طور پر دونوں کی طرف جھکاؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ امام صاحب نے اپنے تخلیقی انداز فکر کی بدولت کئی اہم پہلوؤں سے اس بحث میں کچھ اضافے بھی کیے ہیں جو بحث کے اہم جوانب کی تنقیح میں بہت مددگار ہیں۔ اس تناظر میں آیندہ سطور میں امام طحاوی کی تصانیف کی روشنی میں اس بحث کے حوالے سے ان کے نقطۂ نظر کا ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا۔
کتاب وسنت کے باہمی تعلق کے ضمن میں امام طحاوی کے ہاں ایک نمایاں رجحان یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر، اس کے عموم یا خصوص کی تعیین اور کتاب اللہ کے حکم پر زیادت کے حوالے سے روایات وآثار کو بنیادی اور فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔
کتاب اللہ کی تفسیر کے ضمن میں امام طحاوی کے ہاں یہ رجحان اتنا قوی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ بعض مثالوں میں شان نزول کی روایات کی روشنی میں بھی آیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے، جو اس کے الفاظ اور داخلی قرائن سے بالکل واضح ہو، صرف کرنے کو درست، بلکہ ضروری تصور کرتے ہیں۔ مثال کے طو رپر ’لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰی‘ (النساء ۴: ۴۳) کے متعلق لکھتے ہیں کہ قرآن کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں’الصلاة‘ سے مراد نماز کے مقامات، یعنی مساجد ہیں، کیونکہ اس کے بعد’وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ‘ اس کا واضح قرینہ ہے۔ ظاہر ہے، اس سے حالت جنابت میں نماز کے اندر سے گزرنا مراد نہیں، بلکہ مسجد کے اندر سے گزرنا ہی مراد ہے۔ تاہم آیت کی شان نزول کی روایات سے واضح ہوتا ہے کہ ’لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ‘ سے نشے کی حالت میں مسجد کے اندر آنے کی نہیں، بلکہ نماز ادا کرنے کی ممانعت مراد ہے۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ اگر یہ آثار نہ ہوتے تو آیت کا ظاہر اور واضح مفہوم یہی تھا کہ نشے کی حالت میں مسجدوں کے قریب نہ آؤ (احکام القرآن ۱/ ۱۱۶) [1]۔
اسی طرح ’ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ‘ (البقرہ ۲: ۱۹۹) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم تو یہی بنتا ہے کہ اس سے مراد مزدلفہ سے کوچ کرنا ہے، کیونکہ اس سے پہلے عرفات سے روانگی کا ذکر’فَاِذَا٘ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ‘ (البقرہ ۲ : ۱۹۸) سے ہو چکا ہے، تاہم اہل علم نے آیت کی شان نزول کی روشنی میں یہ قرار دیا ہے کہ ’ثُمَّ اَفِيْضُوْا‘ میں بھی عرفات ہی سے نکلنا مراد ہے۔ شان نزول کی روایات کے مطابق قریش اور بنو خزاعہ کے لوگ عام حاجیوں کے ساتھ عرفات میں نہیں جاتے تھے، بلکہ مزدلفہ میں ہی ٹھیرے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انھی کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ بھی سب لوگوں کی طرح عرفات میں جائیں اور وہاں سے واپس روانہ ہوں (احکام القرآن ۲/ ۱۷۲)۔
اس تناظر میں کتاب اللہ کے ظاہری عمومات کے حوالے سے بھی امام طحاوی کے ہاں ایک رجحان امام شافعی کے اصولی موقف سے ہم آہنگ ہے، اور وہ ایسی مثالوں میں عموم کے یقینی طور پر مراد ہونے کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کی دلالت کو محتمل اور قابل تفسیر قرار دیتے اور اس حوالے سے سنت میں وارد تبیین کو فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔ چنانچہ آیت سرقہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کا ظاہری عموم بالاجماع مراد نہیں، بلکہ مخصوص شرائط کے ساتھ چوری کرنے والے مراد ہیں جن کی وضاحت احادیث میں کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں:
ان اللہ عزوجل قال فی کتابہ ’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْ٘ا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۣ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ‘‘ فاجمعوا ان اللہ عزوجل لم یعن بذلک کل سارق وانہ انما عنی بہ خاصا من السراق لمقدار من المال معلوم.(شرح معانی الآثار ۳/ ۱۶۷)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے کیے کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے (لوگوں کے لیے) عبرت ہے۔ لیکن اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر ہر چوری کرنے والا نہیں، بلکہ چوری کرنے والے کچھ خاص افراد مراد ہیں جنھوں نے ایک متعین مقدار میں مال چرایا ہو۔‘‘
ایک دوسری بحث میں اس نوعیت کی دو مزید مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولا فی ظاھرھا ما قد دل علی ذلک، ان القدمین قد یجوز ان یکون ما امر بہ فیھما فی سورة المائدة اذا کانتا بادیتین لا اذا کانتا معنیتین فی الخفین، کما قال عزوجل ’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْ٘ا اَيْدِيَهُمَا‘‘ فلم یکن ذلک علی ایدی کل السراق وانما کان ذلک علی خاص منھا علی ما بینتہ السنة فی ذلک، وکما قال عزوجل ’’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ‘‘، فلم یکن ذلک علی کل الزناة وانما کان علی الزناة الذین بینت فیھم السنة ما بینت.(احکام القرآن ۱/ ۱۱۲)
’’ کتاب اللہ کے ظاہر میں ایسی کوئی دلیل نہیں جو وضو میں موزوں پر مسح کرنے سے مانع ہو، کیونکہ سورۃ المائدہ میں جو پاؤں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ صورت ہو جب پاؤں ننگے ہوں، نہ کہ جب وہ موزوں میں ملبوس ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو، لیکن اس سے مراد ہر ہر چوری کرنے والا نہیں، بلکہ چوری کی کچھ خاص صورتیں مراد ہیں جن کی وضاحت سنت نے کی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زناکرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد، دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤ، لیکن اس سے مراد بھی ہر ہر زانی نہیں، بلکہ وہ زانی مراد ہیں جن کی وضاحت سنت نے کی ہے۔‘‘
اسی اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امام طحاوی لکھتے ہیں کہ قرآن میں نماز جمعہ کے لیے حاضر ہونے کا حکم بظاہر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے دیا گیا ہے جس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جمعہ کی نماز تمام مکلفین پر فرض ہے، لیکن سنت نے یہ واضح کیا ہے کہ اس سے مراد تمام نہیں، بلکہ بعض مسلمان ہیں اور خواتین، غلام، مسافر ، اپاہج اور بیمار لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں (احکام القرآن ۱/ ۱۴۷) ۔
قرآن مجید میں نماز کے لیے قبلہ رخ ہونے کا حکم بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ چنانچہ’وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ‘ (البقرہ ۲: ۱۴۴) کے عام الفاظ سے نماز میں قبلہ رخ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ سفر میں سواری پر نفل نماز ادا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہونے کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔ اس سے واضح ہوا کہ سفر میں سواری پر نفل نماز ادا کرنے والا اس حکم کا مخاطب نہیں ہے (احکام القرآن ۱/ ۱۶۳) ۔
ظاہری او رمحتمل عموم سے آگے بڑھ کر اگر احادیث کتاب اللہ کے کسی ایسے حکم میں جس میں تصریحاً عموم کی وضاحت کی گئی ہو، کوئی تخصیص یا استثنا بیان کرتی ہوں تو امام طحاوی اس صورت میں بھی دونوں حکموں کی دلالت کو متعارض تصور کرنے کے بجاے دونوں کو ملا کر دیکھنے اور کتاب اللہ کی مراد کو احادیث کی بیان کردہ تخصیص واستثنا کی روشنی میں متعین کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں کھانے پینے کی اشیا میں صرف چار چیزیں حرام کی گئی ہیں، یعنی مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ (الانعام ۶: ۱۴۵) آیت اپنی ظاہری دلالت کے لحاظ سے بالکل واضح ہے کہ ان چار کے علاوہ کھانے کی ہر چیز مباح ہے۔تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے گھریلوگدھوں، چنگال والے پرندوں اور کچلی والے درندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے (بخاری، رقم ۵۵۲۷۔ مسلم، رقم ۱۹۳۴)۔
امام طحاوی کے نزدیک احادیث میں بیان کی جانے والی حرمتوں کی نوعیت قرآن کی اباحت میں استثنا کی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا قرآن کے بیان کردہ دائرے میں توسیع کرتے ہوئے چند مزید چیزوں کو اس میں شامل فرما دیا (مشکل الآثار ۹/۱۰۸)۔ ان دونوں بیانات کو باہم متعارض تصور کرنے کے بجاے، قرآن کی مراد کو احادیث کی روشنی میں طے کرنا ضروری ہے۔ طحاوی لکھتے ہیں :
وما قالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ذلک فھو مستثنی من الآیة، علی ھذا ینبغی ان یحمل ما جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذہ المجیء المتواتر فی الشیء المقصود الیہ بعینہ مما قد انزل اللہ عزوجل فی کتابہ آیة مطلقة عن ذلک الجنس، فیجعل ما جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ذلک مستثنی من الآیة غیر مخالف لھا، حتی لا یضاد القرآن السنة ولا السنة القرآن .(شرح معانی الآثار ۴/ ۲۱۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کی حرمت بیان کی ہے، وہ آیت کی اباحت سے مستثنیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کسی استثنا کے بغیر ایک عام حکم نازل کیا ہو، جب کہ اسی حکم سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ کوئی استثنا ثابت ہو تو اس کو اسی مفہوم پر (جو ہم نے بیان کیا ہے) محمول کرنا مناسب ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن چیزوں کی ممانعت منقول ہے، انھیں آیت سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا نہ کہ ان کے خلاف، تاکہ نہ قرآن، سنت کے معارض ہو اور نہ سنت، قرآن کے۔‘‘
مذکورہ مثال میں طحاوی کی توجیہ کا، حنفی وشافعی فقہا کے عمومی رجحان سے اختلاف قابل توجہ ہے۔ فقہا قرآن کی بیان کردہ اباحت اور احادیث میں وارد تحریم کو حرمتوں کی موقع بہ موقع یا تدریجی وضاحت پرمحمول کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں کھانے پینے کے معاملے میں اباحت اصلیہ کا اصول جاری تھا جس میں سے کچھ چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر کے حرام قرار دیا اور فرمایا کہ اس مرحلے پر ان کے علاوہ کوئی اور چیز حرام نہیں ہے۔ اس حکم کے نازل ہونے سے باقی اشیا حسب سابق اباحت کے اصول پر قائم رہیں، لیکن مثبت طور پر ان کی حلت کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ ان کی حیثیت گویا مسکوت عنہ امر کی تھی۔ بعد میں احادیث کے ذریعے سے اباحت کے عمومی اصول میں چند مزید مستثنیات کو شامل کر دیا گیا اور چونکہ یہ مسکوت عنہ امر سے متعلق حکم کی وضاحت تھی، اس لیے اسے قرآن کے بیان کردہ حصر کے معارض یا منافی نہیں کہا جا سکتا (جصاص، احکام القرآن ۳/۱۹۔ ابن العربی، احکام القرآن ۲/۲۹۱)۔ گویا جمہور اہل علم سنت کی بیان کردہ حرمتوں کو قرآن کے حکم پر ایک اضافہ قرار دے کر قرآن کے ظاہری حصر کی دلالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام طحاوی کی توجیہ اس سے مختلف ہے اور وہ قرآن کے ظاہری حصر کا کوئی محل واضح کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے بجاے وہ سنت کے بیانات کو ابتدا ہی سے حکم کا حصہ تصور کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ حرمتوں سے متعلق پورا حکم گویا یوں تھا کہ ان چار چیزوں کے علاوہ باقی تمام اشیا مباح ہیں، البتہ اس اباحت سے فلاں اور فلاں چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ بظاہر اس تاویل میں حکم کا دوسرا حصہ پہلے حصے کی عمومی اباحت کو بے معنی بنا دیتا ہے، لیکن امام طحاوی اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ یوں اس مثال کو ان کے ہاں کتاب اللہ کی ظاہری دلالت کو احادیث وآثار کے تابع بنانے کے رجحان کی نمایاں ترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ (البتہ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسی مثال میں ایک دوسرے پہلو سے کتاب اللہ کے ظاہری عموم میں تاویل نہ کرنے کے رجحان کا بھی امام طحاوی کے ہاں اظہار ہوا ہے جس کی وضاحت آیندہ صفحات میں اپنے موقع پر کی جائے گی)۔
کتاب اللہ کے عموم میں تخصیص کے ساتھ کتاب اللہ کے حکم پر زیادت کی بحث میں بھی امام طحاوی اپنے اس رجحان کو برقرار رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں حرمات نکاح کے بیان میں رضاعی رشتوں میں سے ماں اور بہن کا ذکر کیا گیا ہے (النساء ۴: ۲۳)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیم کرتے ہوئے دوسرے رضاعی رشتوں کو بھی نکاح کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ ان روایات کو فقہا کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم سیدہ عائشہ کی نقل کردہ ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پلانے والی عورت کے شوہر کو بھی حرمت کے دائرے میں شمار فرمایا اور سیدہ عائشہ سے کہا کہ ان کی رضاعی والدہ کا شوہر ان کا چچا لگتا ہے، اس لیے وہ اس سے حجاب نہ کریں (بخاری، رقم ۴۷۹۶)۔
جمہور فقہا کی طرح حنفی فقہا بھی اس روایت کی روشنی میں لبن الفحل کو موجب حرمت قرار دیتے ہیں، حالاں کہ اس روایت کو قبول کرنا بظاہر حنفی فقہا کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ ان کے نزدیک اگر حدیث کے راوی کا اپنا عمل حدیث کے خلاف ہو تو وہ اس بات کی دلیل تصور کیا جاتا ہے کہ راوی کے علم کے مطابق وہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔ اس مثال میں بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ مذکورہ روایت کے برعکس تھا اور وہ لبن الفحل کو موجب حرمت قرار نہیں دیتی تھیں۔ چنانچہ قاسم بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ا م المومنین ایسے لڑکوں سے تو حجاب نہیں کرتی تھیں جنھیں ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہو، لیکن جن لڑکوں نے ام المومنین کے بھائیوں کی بیویوں کا دودھ پیا ہوتا، انھیں اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں (موطا، رقم ۱۲۸۰)۔ یعنی وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان لڑکوں کے ان کے بھائی کی بیوی کا دودھ پینے سے وہ ان کے بھائی کے رضاعی بیٹے نہیں بن گئے اور نتیجتاً ام المومنین کے ساتھ بھی ان کا بھتیجے کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ تاہم اس مثال میں حنفی فقہا نے حدیث کو قبول کرتے ہوئے سیدہ عائشہ کے عمل کی تاویل کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام طحاوی اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کے، اپنے بعض رشتہ داروں کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ حرمت رضاعت کو ثابت نہ ماننا نہیں، بلکہ وہ کسی اور وجہ سے بھی کسی کو اپنے پاس آنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا حق رکھتی تھیں۔ اس لیے ان کے اس عمل کو ان کی روایت کردہ حدیث کے خلاف قرار دینا درست نہیں (مختصر اختلاف العلماء ۲/ ۳۱۹)۔
بعض مثالوں میں امام طحاوی صحابہ سے منقول آثار کی بنا پر بھی قرآن مجید کے حکم پر زیادت کو درست قرار دیتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ اگر آدمی سفر یا بیماری کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں ان کی قضا کر لے (البقرہ ۲: ۱۸۴)۔ یہاں روزوں کی قضا کے لیے مدت کی کوئی قید بیان نہیں کی گئی۔ تاہم بعض صحابہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک رمضان میں چھوڑے ہوئے روزے استطاعت کے باوجود اگلے رمضان تک قضا نہ کرے تو اس کے بعد قضا کے ساتھ ساتھ اسے ہر روزے کے بدلے میں کفارے کے طور پر ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا پڑے گا۔ طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ حکم نہ کتاب اللہ میں ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اور نہ قیاس سے اس کی تائید ہوتی ہے، بلکہ کتاب اللہ کے ظاہر کے لحاظ سے قضا کے ساتھ کفارے کا اضافہ کرنے کی بھی گنجایش نہیں، لیکن چونکہ صحابہ کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے اور کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، جب کہ بظاہر معقول نہ ہونے کی وجہ سے یہ امکان بھی غالب ہے کہ انھوں نے یہ بات اجتہاداً نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر کہی ہوگی، اس لیے ہم اس مسئلے میں ائمۂ احناف سے اختلاف کرتے ہوئے قضا کے ساتھ ساتھ کفارے کو بھی واجب قرار دیتے ہیں (احکام القرآن ۱/ ۴۱۶۔ مختصر اختلاف العلماء ۲/ ۲۲)۔
کتاب اللہ کے ظاہری عموم کے قطعی نہ ہونے اور محتمل الدلالۃ ہونے کے اصول کے تناظر میں امام طحاوی نے متعدد مسائل میں، جن میں احادیث میں کتاب اللہ کے حکم میں کوئی تخصیص یا استثنا بیان کیا گیا ہے، کتاب اللہ کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے احادیث کو نظر انداز کرنے کے موقف پر تنقید کی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ طحاوی عبد اللہ ابن عباس کے اس استدلال کا ذکر کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موزوں پر مسح کرنے کا عمل سورۂ مائدہ کے نازل ہونے، یعنی قرآن میں وضو کے احکام بیان ہونے سے پہلے کا تھا جس سے ان کی مراد ظاہراً یہ تھی کہ قرآن نے اس رخصت کو منسوخ کر دیا ہے۔ طحاوی کہتے ہیں کہ اگر اس عمل کو آیت کے نزول سے مقدم فرض کیا جائے تو بھی قرآن کی آیت کو اس کا ناسخ قرار دینا درست نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت نازل ہونے کے بعد لوگوں سے یہ نہیں فرمایا کہ اب تم موزوں پر مسح نہ کیا کرو، کیونکہ اللہ نے پاؤں کو دھونے کا حکم نازل کر کے اس کو منسوخ کر دیا ہے (شرح مشکل الآثار ۶/ ۲۸۹۔ احکام القرآن ۱/ ۱۱۱-۱۱۲)۔ طحاوی کی مراد یہ ہے کہ یہ دونوں حکم چونکہ الگ الگ حالتوں سے متعلق ہیں، اس لیے دونوں کا اپنا اپنا محل ہے اور دونوں اپنی اپنی جگہ برقرار رہ سکتے ہیں، اس لیے ان کے مابین کوئی ایسا تعارض نہیں کہ ایک کو لازماً دوسرے کے لیے ناسخ تسلیم کیا جائے اور اگر واقعی غسل کا حکم مسح کے لیے ناسخ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی باقاعدہ وضاحت فرمانی چاہیے تھی۔ جب آپ نے یہ وضاحت نہیں کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے جو رخصت موجود تھی، وہ اس کے بعد بھی برقرار رہی۔
۲۔ عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ وہ تلبیہ پڑھتے وقت یہ شرط لگا لیں کہ جہاں بیماری کی وجہ سے ان کے لیے حج کا سفر جاری رکھنا ممکن نہ ہوا، وہ اسی جگہ احرام سے آزاد ہو جائیں گی (احمد، رقم ۳۳۰۲)۔ ائمۂ احناف ایسی شرط لگانے کو غیر موثر سمجھتے ہیں، تاہم امام طحاوی نے اس مسئلے میں ائمۂ احناف کے اجماعی موقف سے اختلاف کیا اور حج کا احرام باندھتے ہوئے شرط لگانے کو جائز قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ بات صحیح احادیث اور صحابہ کے آثار سے ثابت ہے، اس لیے اس کو چھوڑ کر کوئی دوسری راے قائم کرنے کی گنجایش نہیں۔ یہاں طحاوی نے مذکورہ روایت کے، قرآن کے خلاف ہونے کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ لکھتے ہیں:
فان قیل: قال اللہ تعالیٰ: وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ... الآیة، فقد بین حکم المحصر، فغیر جائز ترک ھذا الحکم بخبر الواحد، قیل لہ: ھذا فی من لم یشترط فی احرامہ، فاما من اشترط فحکمہ ما وصفنا، فلا یدفع احدھما بصاحبہ.(مختصر اختلاف العلماء ۲ /۹۷- ۹۸)
’’اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کو مکمل کرنے کا حکم دیا ہے اور کسی عذر کی صورت میں حج سے روک دیے جانے والے کا حکم بھی باقاعدہ واضح کیا ہے (جس میں احرام کو فسخ کرنے کا کوئی ذکر نہیں)، اس لیے اس حکم کو خبر واحد کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قرآن کا حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جنھوں نے احرام باندھتے وقت کوئی شرط نہ لگائی ہو۔ جس نے شرط عائد کی ہو تو اس کا حکم (حدیث کے مطابق) وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے، چنانچہ (دونوں حکموں کا اپنا اپنا محل ہے اور) ایک حکم کو دوسرے کی وجہ سے رد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
دل چسپ بات یہ ہے کہ امام شافعی نے مذکورہ حدیث کی صحت کے متعلق تردد ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر یہ حدیث ثابت ہوتی تو میں اسی کے مطابق راے قائم کرتا (الام ۳ /۳۹۷)۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ امام شافعی اس حدیث کے کسی متصل طریق سے واقف نہیں تھے، اس لیے انھیں تردد تھا، لیکن اگر وہ ان طرق سے واقف ہوتے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے تو وہ بھی یہی راے قائم کرتے (مختصر اختلاف العلماء ۲/ ۹۸)۔
۳۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک گھوڑے کا گوشت کھانے کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال سورۂ نحل کی آیات سے ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کا ذکر کرکے ان کے فوائد ومنافع میں ان کے گوشت کے استعمال کا ذکر کیاہے، جب کہ اس کے مقابلے میں گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کے ذکر میں ان کا فائدہ یہ بتایا ہے کہ ’لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً‘ (النحل ۱۶ : ۸) ’’تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور ان سے زینت حاصل کرو‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جانور گوشت کھانے کے لیے نہیں ہیں۔ یہ استدلال عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاطعمۃ، رقم ۲۴۸۰۳، ۲۴۸۰۵) اور امام ابو حنیفہ نے بھی اپنی ایک روایت میں ابن عباس سے اسے نقل کیا ہے (ابو یوسف، الآثار، رقم ۱۰۵۱)۔ امام مالک سے بھی یہی استدلال منقول ہے (ابو الولید الباجی، المنتقی ۳/ ۱۳۲- ۱۳۳)۔ تاہم امام ابویوسف اور امام محمد نے گھوڑے کے گوشت کی حلت سے متعلق مروی روایات کی روشنی میں اس موقف کو قبول نہیں کیا (الشیبانی، الآثار، کتاب الاطعمۃ، رقم ۸۲۸)۔
امام طحاوی نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک اور ان کے مقابلے میں امام ابویوسف اور امام محمد کے موقف کا محاکمہ کرتے ہوئے موخر الذکر کی راے سے اتفاق کیا ہے، چنانچہ آیت سے استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں گھوڑے کے ساتھ سواری اور زینت کے ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مصرف نہیں ہو سکتا۔ طحاوی اس کو بعض دیگر آیات کی مثال سے واضح کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مابین اعتقادی ومذہبی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ’وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ‘ (ہود ۱۱: ۱۱۹)، یعنی اللہ نے ان کو اسی لیے پیدا کیا ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اختلاف کے علاوہ انسانوں کی تخلیق کا کوئی او رمقصد نہیں۔ اسی طرح’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ‘ (الذاریات ۵۱: ۵۶) سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عبادت کے علاوہ انسان کا اور کوئی مقصد نہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں گھوڑے کے ذکر میں ’لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً‘ کے الفاظ سے بھی یہ استدلال درست نہیں کہ اس کا گوشت کھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا (شرح مشکل الآثار ۸/ ۷۵)۔
۴۔ ذکاۃ الجنین (یعنی مادہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے) سے متعلق روایات کے حوالے سے امام طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ سنداً کم زور ہیں۔ اس بحث میں امام طحاوی نے امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے اختلاف کے حوالے سے اپنا موقف تصریحاً بیان نہیں کیا، تاہم اسلوب کلام سے ان کا رجحان یہی معلوم ہوتا ہے کہ، احادیث کے مطابق، جنین کی حلت کے لیے اس کی ماں کے ذبح کیے جانے کو کافی ہونا چاہیے (مختصر اختلاف العلماء ۳/ ۲۲۶ - ۲۲۹)۔
مذکورہ رجحان کے مقابلے میں امام طحاوی کے ہاں ایک دوسرا اور بہت نمایاں رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ احادیث کی روشنی میں کتاب اللہ کے ظاہری مفہوم کی تاویل نہ کی جائے اور آیات کو احادیث میں وارد توضیح یا تفصیل پر محمول کرنے کے بجاے کتاب اللہ کے ظاہر کی دلالت کو علیٰ حالہ قائم رکھا جائے، جب کہ احادیث کو ایک الگ اور قرآن سے زائد حکم کا بیان قرار دیا جائے۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کے لیے اٹھتے ہوئے وضو کا حکم دیا گیا ہے (المائدہ ۵: ۶)۔ اس حوالے سے فقہا کے ہاں یہ بحث ہے کہ وضو کا حکم کیا ہر نماز کے لیے ہے، چاہے سابقہ وضو برقرار ہو یا نہ ہو، یا اس کا وجوب صرف حدث کی حالت میں ہے؟ طحاوی جمہور کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کا پہلے سے وضو نہ ہو، اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ اسی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ نے حالت سفر میں بعض صورتوں میں تیمم کی رخصت دی ہے اور اس کے متعلق اجماع ہے کہ وہ ناپاکی کی صورت میں ہی فرض ہے، اس لیے مقیم ہونے کی حالت میں وضو کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے (شرح معانی الآثار ۱/ ۴۵)۔ تاہم اس کے ساتھ طحاوی اس امکان کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کتاب اللہ میں تو، ظاہری الفاظ کے مطابق، ہر نماز کے لیے مستقل وضو کا حکم دیا گیا تھا، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف کر کے صرف حالت حدث میں وضو کو واجب قرار دیا اور حکم میں یہ تبدیلی سنت کے ذریعے سے واضح کی گئی (احکام القرآن ۱/ ۶۸- ۶۹)۔
’لَّا يَمَسُّهٗ٘ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ‘ (الواقعہ ۵۶ : ۷۹) کے حوالے سے طحاوی نے صحابہ سے دو تفسیریں نقل کی ہیں۔ ایک کے مطابق یہ نہی ہے اور اس میں وضو نہ ہونے کی حالت میں قرآن کو چھونے سے منع کیا گیا ہے، جب کہ دوسری تفسیر کے مطابق یہ خبر ہے جس میں فرشتوں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کو ان جیسی پاکیزہ مخلوق ہی چھوتی ہے۔ طحاوی لکھتے ہیں کہ آیت میں چونکہ نہی کے بجاے خبر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے دوسری تفسیر ہی درست ہے اور اس آیت سے مس مصحف کے لیے طہارت کی شرط اخذ کرنا درست نہیں۔ اس کے بجاے اس حکم کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جس میں آپ نے عمرو بن حزم کو ہدایت فرمائی کہ وہ قرآن کو ناپاکی کی حالت میں نہ چھوئیں (احکام القرآن ۱/ ۱۱۸)۔
قرآن مجید میں سفر کی حالت میں قصر نماز کی اجازت ’اِنْ خِفْتُمْ‘ (اگر تمھیں خوف ہو) کی قید کے ساتھ بیان ہوئی ہے (النساء ۴ : ۱۰۱)، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت امن میں بھی قصر نماز ادا کی۔ قرآن میں خوف کی قید کی توجیہ جمہور فقہا کی طرف سے عموماً یہ کی گئی ہے کہ یہ اس رخصت کو حالت خوف تک محدود کرنے کے لیے نہیں ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، اسے قبول کرو۔ امام شافعی کی توجیہ کا حاصل بھی یہی معلوم ہوتا ہے (الام ۱۰/ ۵۰- ۵۱)۔ تاہم اس تفسیر کے غیر متبادر ہونے کی وجہ سے امام طحاوی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی راے یہ ہے کہ ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت واقعتاً اسی قید کے ساتھ دی تھی، لیکن بعد میں اپنے بندوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مطلقاً سفر میں نماز قصر کرنے کی اجازت دے دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا عمر سے فرمایا کہ حالت امن میں قصر کرنا اللہ کی طرف سے ایک صدقہ ہے، اسے قبول کرو (تحفۃ الاخیار ۶/ ۳۰۴)۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یا مذکورہ ارشاد قرآن میں ’اِنْ خِفْتُمْ‘ کی تفسیر نہیں ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ یہ قید اتفاقی ہے، بلکہ اس رخصت میں، اصل حکم کے بعد کی جانے والی توسیع کا بیان ہے۔
قرآن میں حج کے فرض ہونے کے لیے استطاعت سبیل کی شرط بیان کی گئی ہے (آل عمران ۳ : ۹۷)۔ بظاہر اس کا مفہوم یہی بنتا ہے کہ جس شخص کو مالی وسائل دست یاب ہوں اور وہ تندرستی کی حالت میں سفر کر سکتا ہو، اس پر حج فرض ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیمار اور بوڑھے شخص پر بھی، جو سواری پر نہ بیٹھ سکتا ہو، حج فرض ہے اور اگر وہ خود ادا نہ کر سکتا ہو تو اس کا نائب بن کر کوئی دوسرا اس کی طرف سے فرض ادا کر سکتا ہے۔ امام شافعی اس حدیث کو قرآن مجید کی تبیین قرار دیتے ہوئے اس کی روشنی میں استطاعت کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ آدمی یا تو خود سفر کر سکے اور یا کسی دوسرے کو اپنی طرف سے نیابتاً حج کے لیے بھیج سکے (الام ۳/۳۰۲)۔ گویا حدیث نے قرآن کی اصل مراد کو واضح کیا جو بظاہر اس کے الفاظ سے مفہوم نہیں ہو رہی تھی۔ امام طحاوی نے امام شافعی کی اس توجیہ سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی راے میں قرآن میں’اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ‘کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ سے واضح ہے، یعنی سفر کر کے بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھنا۔ جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو اس میں جو بات کہی گئی ہے، وہ قرآن کی تبیین نہیں، بلکہ اس پر زائد ایک الگ حکم کا بیان ہے۔ لکھتے ہیں:
لما استدللنا فی کتابنا ھذا ان السبیل الی الحج ھی الوصول الیہ کان من کان غیر واصل الی الحج ممن لم تلحقہ فریضة الحج بالکتاب ولکن لحقتہ بالسنة فکان حکمہ فی حج غیرہ عنہ کحکمہ فی حجہ عن نفسہ لو کان قادرا علی ذلک، وثبت بما فی کتاب اللہ عزوجل الحج علی الواصلین، وثبت بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحج علی العاجزین الواجدین من یحج عنھم.(احکام القرآن ۲/ ۱۵)
’’جب ہم نے اپنی اس کتاب میں دلائل سے واضح کر دیا کہ حج کی راہ کا مطلب بیت اللہ تک پہنچنا ہے تو جو شخص (بیماری یا معذوری کی وجہ سے) حج کے لیے نہ پہنچ سکتا ہو، کتاب اللہ کی رو سے اس پر حج کا فریضہ عائد نہیں ہوتا، البتہ سنت کی رو سے ہوتا ہے، چنانچہ ایسے شخص پر کسی دوسرے کو اپنی طرف سے حج پر مامور کرنا ایسے ہی لازم ہوگا جیسے قدرت کی صورت میں خود حج کرنا لازم ہوتا۔ یوں کتاب اللہ سے حج کی فرضیت ان لوگوں کے لیے ثابت ہوتی ہے جو خود سفر کر کے پہنچ سکتے ہوں، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ایسے معذوروں پر حج کی فرضیت ثابت ہوتی ہے جنھیں کوئی ایسا شخص میسر ہو جسے وہ اپنی طرف سے حج پر مامور کر سکیں۔‘‘
اسی نوعیت کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں صفا ومروہ کو اللہ کے شعائر قرار دیا گیا اور یہ کہا گیا ہے کہ حج یا عمرے کے لیے آنے والوں کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں (البقرہ ۲ : ۱۵۸)۔ آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صفا ومروہ کا طواف محض مباح ہے، یعنی اگر کوئی نہ بھی کرے تو کوئی حرج نہیں۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ حج یا عمرے میں طواف کے بعد صفا ومروہ کی سعی بھی باقاعدہ مناسک میں سے ہے۔ یوں ایک مطلوب ومامور بہ عمل کے متعلق قرآن مجید کا یہ اسلوب (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا) باعث اشکال بن جاتا ہے جو بعض تابعین نے بھی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کیا (بخاری، رقم ۴۴۹۵) ۔
امام طحاوی نے اس اشکال کو یوں حل کیا ہے کہ قرآن مجید میں نفی حرج کا پس منظر تو، روایات کے مطابق، صفا ومروہ سے متعلق اہل عرب کے ہاں پایا جانے والا ایک تصور تھا جس کی وجہ سے بعض صحابہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد صفا ومروہ کی سعی کو غیر مشروع سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ اس کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل کی کہ صفا ومروہ خدا نخواستہ کوئی غیر اسلامی مقامات نہیں، بلکہ اللہ کے شعائر میں سے ہی ہیں، اس لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ گویا آیت کا مقصود فقہی پہلو سے ان کے طواف کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ دینی واعتقادی تناظر میں لوگوں کے ایک وہم کا ازالہ کرنا تھا۔ جہاں تک سعی کی فقہی وشرعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور آپ نے اللہ کی طرف سے صفا ومروہ کو شعائر اللہ قرار دیے جانے اور ان کے طواف میں کوئی مضایقہ نہ ہونے کی وضاحت کے بعد ایک مستقل تشریع کے طور پر انھیں مناسک حج کا ایک لازمی حصہ قرار دیا جس کو ترک کرنا کسی کے لیے جائز نہیں (احکام القرآن ۲/۹۷)۔
قرآن مجید میں ہدی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے کعبہ تک پہنچنے کی شرط عائد کی گئی ہے (المائدہ ۵ : ۹۵) اور حالت احصار میں بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر آدمی کے لیے خود حرم تک پہنچنا ناممکن ہو جائے تو بھی ہدی کے اپنے حلال ہونے کی جگہ پر پہنچنے، یعنی اس کی قربانی تک وہ بال نہ منڈوائے (البقرہ ۲: ۱۹۶)۔ تاہم حدیبیہ کے موقع پر روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہی جانوروں کو ذبح کر دیا جو بظاہر قرآن مجید کی مذکورہ ہدایت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ امام شافعی نے روایت کی روشنی میں آیت کی تاویل یہ کی کہ ’يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهٗ‘سے مراد یہ ہے کہ اگر حرم تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو پھر وہی جگہ جانور کی قربانی کی جگہ ہوگی جہاں آدمی کو روک دیا گیا ہو۔ امام طحاوی اس تاویل سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کی راے یہ ہے کہ ’يَبْلُغَ مَحِلَّهٗ‘ سے مراد حرم تک پہنچنا ہی ہے اور اسی کو دوسری جگہ’هَدْيًاۣ بٰلِغَ الْكَعْبَةِ‘ (المائدہ ۵ :۹۵) اور’ثُمَّ مَحِلُّهَا٘ اِلَي الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ‘ (الحج ۲۲: ۳۳) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ طحاوی روایات کی روشنی میں واضح کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں اس طرح ٹھیرے ہوئے تھے کہ آپ کا قیام تو حدود حرم سے باہر تھا، لیکن نماز آپ حدود حرم کے اندر جا کر ادا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے آپ کو بیت اللہ تک جانے سے تو روکا تھا، لیکن حدود حرم میں داخل ہونا ممکن تھا اور ایسی صورت میں یہ نہیں مانا جا سکتا کہ آپ نے حدود حرم میں قربانی ممکن ہونے کے باوجود اس سے باہر جانور ذبح کیے ہوں گے، بلکہ ناجیہ بن جندب اسلمی کی روایت میں تصریح ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہ ہدی کے اونٹ ان کے حوالے کر دیں، وہ ایسے راستوں سے ان کو حرم میں لے جا کر ذبح کر دیں گے کہ مشرکین انھیں پکڑ نہیں سکیں گے۔ چنانچہ آپ نے اونٹ ان کے سپرد کر دیے اور انھوں نے حرم میں لے جا کر انھیں ذبح کیا (احکام القرآن ۲/ ۲۵۲- ۲۵۳۔ شرح معانی الآثار ۲ /۲۴۱- ۲۴۲۔ مختصر اختلاف العلماء ۲/ ۱۹۰)۔
مذکورہ تمام مثالوں میں امام طحاوی کا یہ رجحان بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے الفاظ کی دلالت کو احادیث کے تابع کرتے ہوئے آیات کی مراد کو احادیث پر محمول کرنے (یعنی انھیں co-extensive قرار دینے) سے گریز کرتے ہیں اور اس کے بجاے کتاب اللہ کے مفہوم کو اس حد تک محدود رکھتے ہوئے جس پر خود اس کے الفاظ دلالت کرتے ہیں، احادیث کو ایک مستقل اور زائد حکم کے طور پر کتاب اللہ سے متعلق کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی رجحان امام صاحب کے ہاں ایسی مثالوں میں بھی دکھائی دیتا ہے جن میں احادیث، کتاب اللہ کے ظاہری عموم میں تحدید وتخصیص پیدا کرتی ہیں۔
مثلاً قرآن مجید میں اہل ایمان کو حالت احرام میں خشکی کے جانوروں کا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے: ’وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا‘ (المائدہ ۵: ۹۶) آیت کے الفاظ بظاہر عام ہیں، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ جانوروں کو حدود حرم کے اندر اور باہر، کسی بھی جگہ قتل کرنا مباح ہے۔ امام شافعی نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ آیت اور حدیث میں دو بالکل الگ الگ حکموں کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت میں ان جانوروں کی حرمت بیان کرنا مقصود ہے جو احرام سے پہلے خوراک کے لیے حلال تھے، جب کہ ایسے جانور جو عام حالات میں بھی حرام ہیں، وہ آیت میں زیر بحث ہی نہیں، کیونکہ ان کی حرمت کے لیے سابقہ حکم ہی کافی تھا (الام ۳/ ۴۶۴- ۴۶۵)۔ امام شافعی کا مدعا یہ ہے کہ چونکہ حرام جانوروں، مثلاً درندوں کو ان کے حملے یا ضرر سے بچنے کے لیے قتل کرنے سے روکنا سرے سے آیت کی مراد ہی نہیں، اس لیے مذکورہ حدیث قرآن کے حکم میں کوئی تخصیص بیان نہیں کر رہی، بلکہ ایک مستقل حکم کی وضاحت کر رہی ہے۔
امام شافعی کی یہ توجیہ قرآن کے الفاظ کی حد تک بظاہر قوی معلوم ہوتی ہے، لیکن امام طحاوی کو اس پر اطمینان نہیں جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس توجیہ کے مطابق حالت احرام میں صرف حلال جانوروں کا شکار ممنوع قرار پاتا ہے، جب کہ دیگر موذی جانوروں کو ان کی طرف سے کسی خطرے کے بغیر بھی قتل کرنے کی اباحت ثابت ہوتی ہے، جب کہ احرام کی روح کا تقاضا یہ ہے کہ محرم سے کسی ناگزیر ضرورت اور مجبوری کے بغیر کسی جان دار کو نقصان نہ پہنچے۔ چنانچہ امام طحاوی، امام شافعی کی اس توجیہ کے مقابلے میں ایک دوسری تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں جس کی رو سے آیت کا مدعا ہر طرح کے جانوروں کے شکار کی ممانعت بیان کرنا ہے، چاہے وہ حلال ہوں اور ذبح کیے جاتے ہوں یا ان کا شکار کیا جاتا ہو یا وہ سرے سے حرام ہوں۔ طحاوی کہتے ہیں کہ حالت احرام میں تحریم کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اس سے پہلے مباح تھا، بلکہ جو چیز پہلے سے ممنوع ہو، کسی خاص حالت میں مزید تاکید کے طور پر اس کی حرمت دوبارہ بھی بیان کی جا سکتی ہے (احکام القرآن ۲/ ۵۴، ۵۶)۔ اس تفسیر کی روشنی میں امام طحاوی حدیث میں وارد اباحت کو قرآن کے عموم میں تخصیص قرار دیتے ہیں، البتہ ان کے نزدیک یہ اباحت صرف ان پانچ جانوروں تک محدود نہیں، بلکہ اس طرح کے دیگر جانوروں کو بھی قتل کرنا جائز ہوگا (شرح مشکل الآثار ۹/ ۱۱۰- ۱۱۲)۔ مراد یہ ہے کہ یہ تخصیص ایک علت پر مبنی ہے، یعنی کسی درندے کا حملہ آور ہونا یا اس سے ضرر پہنچنے کا خوف اسے قتل کرنے کو جائز بنا دیتا ہے۔ چنانچہ یہ اباحت صرف ان پانچ جانوروں تک محدود نہیں، بلکہ علت کی روشنی میں دیگر جانوروں کو بھی قتل کرنا جائز ہوگا جن سے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
قرآن مجید میں غنیمت اور فے کے اموال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوی القربیٰ کے حق کا بھی ذکر کیا گیا ہے (الانفال ۸: ۴۱۔ الحشر ۵۹: ۷)۔ اس حکم میں مختلف احتمالات موجود ہونے کی وجہ سے اہل علم کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا ذوی القربیٰ میں آپ کے قبیلے، یعنی قریش کے سب خاندان شامل ہیں یا یہ صرف بعض مخصوص خاندانوں مثلاً بنو ہاشم او ربنو عبد المطلب تک محدود ہے۔ پھر یہ کہ آیا غنیمت اور فے میں یہ ان قرابت داروں کا کوئی لازم اور واجب شرعی حق تھا جس سے انھیں محروم رکھنے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواختیار نہیں تھا یا اس کا تعلق آپ کی صواب دید سے تھا۔ اسی طرح یہ کہ ان کے حق دار ہونے کی وجہ آپ کے ساتھ ان کی قرابت تھی یا وہ بھی یتامیٰ ومساکین اور مسافروں کی طرح حاجت اور فقر کی صورت میں ہی غنیمت یا فے میں سے کوئی حصہ وصول کرنے کا حق رکھتے تھے۔
امام شافعی نے اس حوالے سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ذوی القربیٰ کے الفاظ اگرچہ عام ہیں اور بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قرابت دار اس کے تحت داخل ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو خمس میں سے حصہ دیا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ذوی القربیٰ سے تمام اقربا نہیں، بلکہ بعض مراد ہیں (الام ۱/ ۳۱)۔تاہم امام طحاوی اس سے اختلاف کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث، صحابہ کے آثار اور مختلف قیاسی دلائل کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ذوی القربیٰ میں قریش کے سب خاندان شامل تھے اور غنیمت یا فے میں ان کا حق فقر یا حاجت کی وجہ سے نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری کی وجہ سے مقرر کیا گیا تھا، تاہم یہ کوئی لازم وواجب شرعی حق نہیں تھا، بلکہ حسب مصلحت انھیں اس میں سے کچھ دینا یا نہ دینا اور بعض خاندانوں کو دینا اور بعض کو نہ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صواب دید پر منحصر تھا۔ امام طحاوی کا استدلال یہ ہے کہ ذوی القربیٰ کی تعبیر عام ہے اور اسے بعض خاندانوں تک محدود کرنے کی کوئی نقلی یا عقلی دلیل موجود نہیں، اس لیے اصولاً قریش کے تمام خاندان اس مد میں سے حصہ پانے کا حق رکھتے تھے۔ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو حصہ دینے اور باقی خاندانوں مثلاً بنو امیہ اور بنو نوفل کو محروم رکھنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ذوی القربیٰ میں شامل نہیں تھے، بلکہ یہ تھی کہ آپ نے اپنے صواب دیدی اختیار کے تحت زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام میں بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کی طرف سے حاصل نصرت ومعاونت کی روشنی میں انھی کو ترجیح دینا مناسب خیال فرمایا (شرح معانی الآثار ۳/ ۲۸۱ - ۳۱۱)۔
قرآن مجید کی آیت’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘‘ میں حرام اشیا کو صرف چار چیزوں، یعنی مردار، خون، خنزیر کے گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور میں محصور قرار دیا گیا ہے (الانعام ۶: ۱۴۵)۔ تاہم احادیث میں گھریلوگدھوں، چنگال والے پرندوں اور کچلی والے درندوں کی حرمت بھی وارد ہے (بخاری، رقم ۵۵۲۷۔ مسلم، رقم ۱۹۳۴)۔ امام شافعی نے اس تعارض کو اس طرح رفع کیا ہے کہ آیت کے الفاظ اگرچہ بظاہر عام ہیں، لیکن وہ ایک مخصوص تناظر میں وارد ہوئے ہیں، یعنی یہاں صرف وہ جانور زیر بحث ہیں جنھیں اہل عرب حلال سمجھتے تھے۔ امام شافعی اس کا پس منظر یوں واضح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حرام اور حلال کے ضمن میں چیزوں کے پاکیزہ اور ناپاک ہونے کو معیار قرار دیا ہے۔ چونکہ حکم کے مخاطب اہل عرب ہیں، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کو اہل عرب طیب سمجھتے ہیں، وہ حلال اور جن کو وہ خبیث سمجھتے ہیں، وہ حرام ہیں۔ البتہ بعض چیزوں کے معاملے میں وہ غلطی میں مبتلا تھے اور چار ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے جو درحقیقت خبیث تھیں۔ قرآن مجید نے زیر بحث آیت میں دراصل اس کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ یہ چار چیزیں طیبات میں داخل نہیں ہیں (الام ۳/ ۶۲۷- ۶۲۸) ۔
یہ توجیہ بظاہر اشکال کو رفع کر دیتی ہے، تاہم امام طحاوی اس پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے اور اس کے بجاے آیت کو چار اشیا کے علاوہ باقی چیزوں کی اباحت کے عمومی حکم کا بیان قرار دیتے ہوئے احادیث میں وارد محرمات کو اس اباحت میں استثنا کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں (شرح مشکل الآثار ۹/ ۱۰۸۔ شرح معانی الآثار ۴/ ۲۱۰)۔ اس حوالے سے ان کی راے کی وضاحت سابقہ سطو رمیں کی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں امام شافعی کی توجیہ پر انھیں کیا اشکال ہے، اس کی کوئی وضاحت تو امام طحاوی نے نہیں کی، لیکن بہرحال ان کی راے سے یہ رجحان بالکل واضح ہے کہ وہ کتاب اللہ کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھتے ہوئے ہی کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو متعین کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب اللہ کے ظاہر کی دلالت کو اس کی مستقل حیثیت میں برقرار رکھنے اور اسے احادیث کے تابع نہ کرنے کے اسی رجحان کا اظہار امام طحاوی کے ہاں ان مثالوں میں بھی ہوتا ہے جہاں وہ کتاب اللہ کے ظاہر سے متعارض روایات کی ایسی توجیہ پر اصرارکرتے ہیں جس سے کتاب اللہ کی دلالت مجروح نہ ہو، جب کہ بعض صورتوں میں وہ ایسی روایات کو کلیتاً رد بھی کر دیتے ہیں۔ امام طحاوی کی آرا میں اس کی متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں:
۱۔ فاطمہ بنت قیس کی روایت کے متعلق امام شافعی نے یہ راے ظاہر کی تھی کہ اس کا مستند طریق وہ ہے جس میں مطلقہ ثلاثہ کے لیے دوران عدت میں صرف نفقہ کی نفی کی گئی ہے، اور یہ حکم قرآن مجید کے عین مطابق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں دوران عدت میں بیویوں کو گھر سے نہ نکالنے کی ہدایت تو سب عورتوں کے متعلق دی ہے اور یہ حکم عام ہے، لیکن نفقہ ادا کرنے کی پابندی صرف حاملہ عورتوں کے حوالے سے لازم کی ہے۔ جہاں تک آپ کے فاطمہ کو شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ عدت گزارنے کا حکم دینے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور ان کے سسرال والے ان کی زبان درازی سے تنگ تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے اور بدمزگی سے بچنے کے لیے ازروے مصلحت فاطمہ کو وہاں عدت گزارنے سے منع فرمایا، تاہم اصل قانون قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق یہی ہے کہ ایسی مطلقہ کو بھی دوران عدت میں رہایش مہیا کی جائے گی (الام ۶/ ۲۸۰- ۲۸۱)۔
امام طحاوی نے اس استدلال سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی راے میں اس توجیہ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سیدنا عمر، سیدہ عائشہ اور دیگر فقہاے صحابہ وتابعین جنھوں نے فاطمہ کی روایت کو رد کیا، درحقیقت ان کی روایت کو سمجھ نہیں سکے، ورنہ وہ اس کا انکار نہ کرتے۔ ان حضرات کے انکار کا مطلب یہی بنتا ہے کہ فاطمہ کی روایت کا ظاہری مفہوم وہی تھا جو وہ خود سمجھ رہی تھیں، یعنی یہ کہ ایسی حالت میں عورت سرے سے نفقہ اور سکنی کی حق دار ہی نہیں، اور یہ بات بہرحال قرآن اور سنت کے خلاف ہے اور سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کا اسے قبول نہ کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ طحاوی لکھتے ہیں:
خالفت بذلک کتاب اللہ نصا، لان کتاب اللہ تعالیٰ قد جعل السکنی لمن لا رجعة لھا، وخالفت سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان عمر رضی اللہ عنہ قد روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلاف ما روت، فخرج المعنی الذی منہ انکر علیھا عمر رضی اللہ عنہ ما انکر خروجا صحیحا، وبطل حدیث فاطمة فلم یجب العمل بہ اصلا.(شرح معانی الآثار ۳/ ۷۰)
’’فاطمہ نے اس روایت میں کتاب اللہ کے صریح حکم کی مخالفت کی ہے، کیونکہ اللہ کی کتاب نے ان عورتوں کو بھی رہایش کا حق دیا ہے جن سے رجوع کی گنجایش نہ ہو۔ فاطمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی بھی مخالفت کی ہے، کیونکہ سیدنا عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فاطمہ کی روایت کے خلاف حکم نقل کیا ہے۔ چنانچہ جس بنیاد پر سیدنا عمر نے فاطمہ کی روایت پر اعتراض کیا، وہ بالکل درست ہے اور فاطمہ کی روایت باطل ہے جس پر عمل کرنا اصلاً واجب نہیں ہے۔‘‘
البتہ امام طحاوی اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ فاطمہ کی روایت کی ایک احتمالی توجیہ ایسی کی جا سکتی ہے جس سے قرآن کے ساتھ اس کا تعارض ختم ہو جائے۔ اس ضمن میں وہ امام شافعی ہی کی بیان کردہ توجیہ کو وسعت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جس طرح اس بات کا امکان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو شوہر کے گھر میں رہایش نہ دلوانے کا فیصلہ اس کی تیز مزاجی اور زبان درازی کی وجہ سے فرمایا ہو، اسی طرح اسے نفقہ نہ دلوائے جانے کی وجہ بھی اسی چیز کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی چونکہ وہ ناشزہ تھی اور اپنے رویے کی وجہ سے اسے رہایش کی سہولت سے محروم کیا جا رہا تھا، اس لیے اسی اصول کے تحت اس کے شوہر کو اسے نفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے بھی بری کیا جا سکتا تھا۔ یوں یہ پورا واقعہ ایک خاص استثنائی نوعیت کا حامل بن جاتا ہے جس سے مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ وسکنی کا عمومی شرعی حکم تو اخذ نہیں کیا جا سکتا، البتہ ایک تعزیری نوعیت کے فیصلے کے طور پر اس کی توجیہ کی جا سکتی ہے (شرح معانی الآثار ۳/ ۷۱)۔
۲۔ قرآن مجید میں ’وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْ٘ اَرْضَعْنَكُمْ ‘ (النساء ۴: ۲۳) کے الفاظ میں بظاہر کسی تفصیل کے بغیر بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو اس پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ تاہم احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے کہ ایک یا دو مرتبہ (عورت کا پستان) چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی (مسلم، رقم ۱۴۵۰) ۔
امام طحاوی کے نزدیک اس روایت کی توجیہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق ابتدا میں قرآن مجید میں حرمت رضاعت کے لیے دس دفعہ دودھ پلائے جانے کی قید نازل کی گئی تھی، پھر بعد میں اسے منسوخ کر کے پانچ دفعہ دودھ پلائے جانے کو حرمت کی بنیاد قرار دیا گیا (مسلم، رقم ۳۵۹۷) ۔ امام طحاوی کی راے میں اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ (چونکہ موجودہ قرآن میں ایسی کوئی قید مذکور نہیں، اس لیے) پانچ دفعہ کی قید بھی بعد میں منسوخ کر دی گئی اور مطلقاً کسی بھی مقدار میں بچے کو دودھ پلانے کو حرمت رضاعت ثابت ہونے کا موجب قرار دیا گیا۔ طحاوی اس قیاس کی تائید میں یہ نکتہ بھی پیش کرتے ہیں کہ’لا تحرم المصة ولا المصتان‘ کی روایت کے ایک راوی عروہ بن زبیر بھی ہیں، لیکن ان کا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ بچے کے ایک قطرہ دودھ پینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ عروہ کا اپنی ہی نقل کردہ روایت کے خلاف فتویٰ دینا اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ان کے علم میں اس روایت کا منسوخ ہونا ثابت ہو چکا ہو (شرح مشکل الآثار ۱۱ /۴۸۵- ۴۸۶)۔ ایک دوسری جگہ طحاوی نے سیدہ عائشہ کی روایت کے اس جملے کو کہ ’فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھی فی ما یقرا من القرآن‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں پڑھے جاتے تھے) کو منکر قرار دیا ہے، کیونکہ اگر یہ بات درست ہو کہ کوئی آیت قرآن مجید کا حصہ ہے، لیکن موجودہ مصحف میں شامل نہیں تو کسی بھی حکم کے بارے میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی آیت سے منسوخ ہو چکا ہے جو مصحف میں شامل نہیں (مختصر اختلاف العلماء ۲/ ۳۱۶- ۳۱۷)۔
۳۔ سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کے متعلق ہدایت دی ہے کہ’فَاِمَّا مَنًّاۣ بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً‘ (۴۷: ۴)، یعنی گرفتار کرنے کے بعد یا تو انھیں احسان کے طور پر بلا معاوضہ چھوڑ دیا جائے یا ان سے رہائی کے عوض فدیہ وصول کیا جائے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ آیت اپنے ظاہر کے اعتبار سے قیدیوں کو قتل کرنے سے منع کرتی ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے کہ انھوں نے ایک جنگی قیدی کو اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے قتل کرنے سے انکار کر دیا۔ امام طحاوی اس آیت کی روشنی میں جمہور فقہا کے موقف سے اختلاف کرتے ہیں جو قیدی کو قتل کرنے کے جواز کے قائل ہیں اور اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے، مثال کے طور پر، جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کر دیا تھا۔ طحاوی لکھتے ہیں کہ :
وھذا لا یخلو اما ان تکون منسوخة فلا یعمل بھا او ثابتة فلا یتعداھا.(مختصر اختلاف العلماء ۳/ ۴۷۹)
’’اس کے متعلق یا تو یہ امکان ہے کہ یہ اجازت منسوخ ہو چکی ہے، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا، اور یا یہ کہ منسوخ تو نہیں ہوئی، لیکن اس خاص واقعے تک محدود ہے۔‘‘
طحاوی کی مراد یہ ہے کہ یہ عمل یا تو منسوخ ہو چکا ہے یا ایک خصوصی واقعہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے ان قیدیوں کو قتل کیا، لیکن یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے۔
۴۔ قضاء بالیمین مع الشاہد کی بحث میں امام طحاوی کا موقف، ائمۂ احناف کی راے کے مطابق، یہ ہے کہ اس ضمن میں ابن عباس کی روایت باعتبار سند قابل استدلال نہیں۔ نیز یہ ’البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر‘ کے عمومی اصول کے علاوہ قرآن مجید کی اس ہدایت کے بھی معارض ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے قاضی کو مدعی سے دو مرد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتیں طلب کرنی چاہییں (مختصر اختلاف العلماء ۳/ ۲۴۲- ۲۴۳) ۔
۵۔ بعض احادیث میں بیوی کو اپنے مال میں سے کسی کو تحفہ دینے کے لیے شوہر سے اجازت لینے کا پابند قرار دیا گیا ہے (ابی داؤد، رقم ۳۱۴۶)۔امام طحاوی فرماتے ہیں کہ قرآن مجید اور متعدد احادیث کی روشنی میں عاقل بالغ عورت کو اپنے مال پر مکمل مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور وہ اس میں کسی بھی قسم کے تصرف کے لیے شوہر سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہے۔ اس لیے مذکورہ روایت ایک شاذ روایت ہے جس کی وجہ سے واضح آیات اور سنت ثابتہ کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں :
فکیف یجوز لاحد ترک آیتین من کتاب اللہ عزوجل وسنن ثابتة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متفق علی صحة مجیئھا الی حدیث شاذ لا یثبت مثلہ؟ (شرح معانی الآثار ۴ /۳۵۳)
’’کسی کے لیے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی دو آیتوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متفقہ طور پر صحت کے ساتھ ثابت سنت کو ایک شاذ حدیث کی وجہ سے ترک کر دے جو ثابت ہی نہیں ہے؟‘‘
امام طحاوی نے قرآن مجید کے ساتھ موافقت کے اصول کو متعارض روایات کے مابین ترجیح قائم کرنے کے لیے بھی برتا ہے۔ مثلاً
۶۔ صلاۃ الخوف سے متعلق بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی امامت کرتے ہوئے دو رکعتیں، جب کہ صحابہ کی دونوں جماعتوں نے آپ کے پیچھے صرف ایک ایک رکعت ادا کی (ابی داؤد، رقم ۱۲۴۶- ۱۲۴۷)۔ چونکہ قرآن مجید کی رو سے حالت خوف میں نماز کو قصر کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کے مطابق ہر شخص کے لیے دو دو رکعتیں ادا کرنا لازم ہے، اس لیے امام طحاوی لکھتے ہیں کہ جس حدیث کو کتاب اللہ کی نص رد کرتی ہو، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا (شرح معانی الآثار ۱/ ۳۰۹) ۔
۷۔ صلاۃ الخوف ہی کی بعض روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز کی امامت کروائی کہ صحابہ کی ایک جماعت دشمن کے سامنے اور ایک آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور دونوں جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر تکبیر کہہ کر ابتدا ہی سے آپ کی اقتدا میں نماز میں شامل ہو گئیں، البتہ جو جماعت آپ کے پیچھے کھڑی تھی، وہ پہلی رکعت میں رکوع اور سجدے میں آپ کی اقتدا کرتی رہی، جب کہ دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی (ابی داؤد، رقم ۱۲۴۰)۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ طریقے کے مطابق دوسری جماعت کو شروع سے نہیں، بلکہ ایک رکعت ادا ہو جانے کے بعد امام کے ساتھ شریک ہونا چاہیے (النساء ۴: ۱۰۲)، جب کہ مذکورہ حدیث کے مطابق دونوں گروہ آغاز ہی سے جماعت میں شریک تھے (شرح معانی الآثار ۱/ ۳۱۵)۔
۸۔ اگر کوئی شخص حالت احرام میں ہو اور وہ کسی ایسے شخص کے شکار کیے ہوئے جانور کا گوشت کھانا چاہے جو محرم نہ ہو تو بعض احادیث میں اس کی ممانعت کی گئی ہے (مسلم، رقم ۱۱۹۳)، جب کہ بعض میں اسے مباح قرار دیا گیا ہے (ابی داؤد، رقم ۱۸۵۱)۔ امام طحاوی ان میں سے دوسری روایت کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قرآن مجید سے حالت احرام میں آدمی کے لیے جس چیز کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، وہ جانور کو شکار کرنا ہی ہے نہ کہ شکار کا گوشت کھانا (المائدہ ۵: ۹۵ - ۹۶)، اس لیے اگر کسی دوسرے شخص نے شکار کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا گوشت کھانے کی ممانعت نہیں ہے (شرح معانی الآثار ۲ /۱۷۵)۔
سابقہ صفحات میں کتاب وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں فقہ وحدیث کے جلیل القدر امام، ابوجعفر الطحاوی کے اصولی رجحانات کا جائزہ اور متعدد مثالوں کی روشنی میں ان کی توضیح پیش کی گئی ہے۔ اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب وسنت کے باہمی تعلق کے سوال کے حوالے سے امام شافعی اور حنفی اصولیین نے اپنے اپنے نقطہ ہاے نظر کے حق میں جو استدلال پیش کیا، امام طحاوی ان دونوں کے وزن کو محسوس کرتے تھے جس کا اظہار ان کے ہاں بہت سی مثالوں میں امام شافعی کے اصولی موقف کی طرف، جب کہ بہت سی دوسری مثالوں میں حنفی اصولیین کے موقف کی طرف جھکاؤ کی صورت میں ہوتا ہے۔
امام طحاوی کے ہاں ان دو متخالف رجحانات کی توجیہ دونوں زاویوں سے ممکن ہے۔ اس کی یہ تعبیر بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ سنت کی تشریعی حجیت کے تناظر میں اصولی طور پر قرآن کی مراد کی تبیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دینا چاہتے ہیں، چاہے اس کے ظاہری قرائن قرآن میں موجود ہوں یا نہ ہوں، لیکن بہت سی مثالوں میں جب آیات کی ظاہری دلالت اور متعلقہ احادیث کی دلالت کو دیکھتے ہیں تو دونوں کے ظاہری تفاوت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں پاتے۔ اس مشکل کے حل کے لیے وہ ترجیحاً یہ کوشش کرتے ہیں کہ آیات اور احادیث کے باہمی تعلق کی توجیہ اس طرح کی جائے کہ آیات کی ظاہری دلالت بھی برقرار رہے اور احادیث میں وارد زیادت و تخصیص کو بھی قرآن کے حکم میں تبدیلی یا نسخ کا مظہر قرار دیے بغیر اسے حکم کا حصہ بنایا جا سکے۔ یہاں تک ان کے زاویۂ نظر پر امام شافعی کا رجحان غالب رہتا ہے۔ تاہم بعض مثالوں میں وہ تطبیق وتوجیہ کے مذکورہ طریقے کو موثر نہ پاتے ہوئے کتاب وسنت کے احکام کے باہمی تعلق کی توجیہ نسخ کے اصول پر کرنے کی گنجایش بھی باقی رکھتے ہیں اور بعض مثالوں میں کتاب اللہ کے معارض ہونے کی بنا پر اخبار آحاد کو بالکل رد کر دینے کا موقف بھی اختیار کر لیتے ہیں اور یوں اپنے اصولی منہج کے اختتام پر ان کا زاویۂ نظر حنفی اصولیین کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
اس کے بالکل برعکس ان کے زاویۂ نظر کی یہ توجیہ بھی بالکل ممکن ہے کہ وہ بنیادی اصول کے طور پر حنفی فقہا کے اس موقف کو مبنی بر صواب سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید اپنی مراد کی وضاحت میں خود مستقل حیثیت رکھتا ہے اور سنت میں وارد کسی وضاحت کو قرآن کی تبیین قرار دینا اسی صورت میں درست ہے جب خود قرآن کا بیان فی نفسہٖ ذو الوجوہ اور محتمل ہو۔ اگر قرآن کا بیان بذات خود واضح ہو اور کسی پہلو سے محتاج وضاحت نہ ہو تو سنت میں وارد کسی بھی زیادت یا تخصیص کو، اگر وہ قابل اطمینان درجے میں ثابت ہو، قرآن کا بیان نہیں کہا جائے گا،بلکہ اسے نسخ اور تغییر کے اصول پر قبول کیا جائے گا۔ حنفی فقہا کے موقف سے اس اصولی اتفاق کے بعد وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حنفی فقہا بہت سی مثالوں میں قرآن مجید کے ظاہری عموم کو بالکل قطعی سمجھ رہے ہیں، حالاں کہ وہ اتنا قطعی نہیں اور دوسری طرف کئی مثالوں میں امام شافعی قرآن کے داخلی قرائن واشارات پر زیادہ توجہ دیے بغیر سادہ طور پر احادیث کو قرآن کا بیان قرار دینے کے اصول کا اطلاق کر رہے ہیں جس سے قرآن کی اپنی دلالت کی حیثیت ثانوی دکھائی دینے لگتی ہے، جب کہ ان مثالوں میں قرآن کی ظاہری دلالت میں اس گنجایش کو واضح کیا جا سکتا ہے جس سے احادیث میں وارد اضافے ظاہر قرآن کے منافی نہ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کا جھکاؤ اصولی طور پر امام شافعی کے موقف کی طرف ہو جاتا ہے، تاہم ان کی اختیار کردہ پوزیشن میں حنفی اصولیین کے نقطۂ نظر سے بھی کوئی اصولی اختلاف رونما نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے اگلے مرحلے پر وہ بعض مثالوں میں قرآن کے بیان میں تخصیص کے داخلی قرائن کی وضاحت یا، متبادل امکان کے طور پر، سنت کے احکام کو قرآن کے ساتھ نسخ کے اصول پر متعلق کیے بغیر بالکل سادہ طور پر یہ قرار دیتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری عموم سے اصل مراد وہی ہے جو سنت سے واضح ہوتی ہے۔ یوں ان کا اصولی موقف آخری نتیجے کے لحاظ سے امام شافعی کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
دونوں میں سے جو بھی تعبیر زیادہ درست ہو، یہ حقیقت بہرحال واضح ہوتی ہے کہ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث اپنی نوعیت کے لحاظ سے اتنی سادہ نہیں ہے کہ کسی ایک رجحان کے مقابلے میں دوسرے رجحان کو فیصلہ کن اور قطعی انداز میں ترجیح دی جا سکے۔ دونوں زاویوں میں ایک منطقی وزن موجود ہے جو علمی وعقلی طور پر متاثر کرتا ہے اور بحث کو سنجیدگی اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرنے والے اکابر اہل علم دونوں کے وزن کو محسوس کرتے ہیں۔ اس بحث سے حنفی اصولیین کے زاویۂ نظر کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے جنھوں نے امام شافعی کے، کتاب اللہ کے بیانات کو مطلقاً محتمل الدلالۃ قرار دے کر ان کی مراد کی تعیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دینے کے موقف کے مقابلے میں قرآن کے بیانات کو، ان کی داخلی دلالت کے لحاظ سے محتمل الدلالۃ اور غیر محتمل الدلالۃ میں تقسیم کرنے اور کتاب اللہ کے ساتھ سنت کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے تبیین کے ساتھ ساتھ نسخ کے اصول کو بھی بروے کار لانے کا موقف پیش کیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کتاب اللہ کی دلالت کو اس کی مستقل حیثیت میں برقرار رکھا جائے اور کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو متعین کرتے ہوئے ایسا اصولی موقف اختیار نہ کیا جائے جس میں کتاب اللہ کی ظاہری دلالت کی قدر وقیمت کو کم یا غیر اہم تصور کرنے کا پہلو مضمر ہو اور جس کا نتیجہ کتاب اللہ کی مراد متعین کرنے کے سوال کو سادگی کے ساتھ احادیث کے سپرد کر دینے کی صورت میں نکلتا ہو۔ حنفی اصولیین کے اس مضبوط علمی وعقلی موقف کے وزن کو محسوس کرتے ہوئے امام طحاو ی نے اصولی طو رپر امام شافعی کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے بھی، اپنے دوسرے رجحان کے تحت بہت سی مثالوں میں کتاب وسنت کے تعلق کو زیادہ گہرے غور وخوض کے ساتھ اور اس نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے متعین کرنے کی کوشش کی کہ کتاب اللہ کی ظاہری دلالت مجروح نہ ہو اور اس میں غیر متبادر تاویلات سے کام نہ لیا جائے۔ یہ اس بحث میں امام طحاوی کا بہت اہم حصہ (contribution) ہے جو بجا طورپر انھیں بڑے اصولی نظریہ سازوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
]باقی[
________
[1]۔ غالباً طحاوی اس طرف متوجہ نہیں ہو سکے کہ آیت کو ظاہری مفہوم پر رکھتے ہوئے بھی شان نزول کی روایات کو درست مانا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر نشے کی حالت میں سرے سے مسجد میں آنے ہی کی ممانعت کی گئی ہو تو اس سے نماز کی ممانعت بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔
____________