HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

رمضان: تجدید قرآن کا مہینا

     زیر نظر شمارہ جب آپ تک پہنچے گا، خدا نے چاہا تواُس وقت ماہ رمضان کے مبارک دور کا آغاز ہونے والا ہوگا۔لہٰذا،مناسب معلوم ہوتاہے کہ اِس تعلق سے ایک ضروری بات آپ تک پہنچا دی جائے۔

ماہ رمضان کی آمد پر عموماً لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ رمضان میں ہمارا معمول کیا ہونا چاہیے، یا ہم رمضان کا مہینا کس طرح گزاریں؟اِس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ ذکر وعبادت کے علاوہ، رمضان کا’’معمول‘‘ اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ ہے   ـــــــ  خالی الذہن ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور اُس کا مسلسل مطالعہ ۔جو لوگ براہ راست قرآن کے مطالب کا ادراک نہ کر سکتے ہوں، اِس مقصد کے لیے وہ تلاوت کے سا تھ اپنی معلوم اور مادری زبان میں باربار ترجمۂ قرآن کا گہرا مطالعہ کریں، وہ ایک مرتبہ بغورپورے قرآن کا ترجمہ ضرور پڑھیں۔

 اِ س مطالعے کا مقصد قرآن کا علمی مطالعہ نہیں، بلکہ اِس کا مقصد عمومی طورپررمضان میں صرف ایک ہونا چاہیے، اور وہ ہے    ـــــــ  تذکیر و احتساب، یعنی اپنے متعلق اِس حقیقت کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا کہ میرے خالق کو خود ’’مجھ ‘‘سے کیا چیزمطلوب ہے اورعملاً ’’میں‘‘ کس حد تک اُس پر قائم ہوں !

واقعات بتاتے ہیں کہ قرآن کا یہ مطالعہ ان شاء اللہ، ہمارے لیے ایک اووَرہالنگ کورس (Overhauling course)  ثابت ہو گا۔ اِس طرح کا ایک ربانی تجربہ گویا اپنے آپ کو خدا کے رنگ (صِبغةُ اللّٰہ)میں رنگنے کی سعی مشکور کے ہم معنی ہے ۔

   علمی ذوق رکھنے والے افراد ماہ رمضان میں اِس مطالعے کے دوران یہ کرسکتے ہیں کہ وہ نئے پیداشدہ سوالات ، یا جو چیز اُن کے ذہن کو اسٹرائک (strike) کرے، اُسے نوٹ کرلیں اور بعد میں وہ اِن سوالات پر غوروفکراور تحقیق کا سلسلہ جاری رکھیں ۔اِس طریق مطالعہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ پورے قرآن کا اصل پیغا م خود خالق کی زبان میں آپ کے دل ودماغ پر نقش ہو جائے گا ۔اِس طرح آسانی کے ساتھ ایک کتاب ہدایت کی حیثیت سے قرآن کے ساتھ ہمارازندہ تعلق قائم ہو گا، ہمارے فکر وعمل کی اصلاح ہوگی اور ہمارے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ ہم قرآن کے زیر سایہ اپنی زندگی کا سفر طے کرسکیں ۔

رمضان کا یہ خصوصی عمل خود قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورۂ بقرہ میں روزہ اور رمضان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: ’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًي لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰي وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ‘ (۲: ۱۸۵)، یعنی رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے رہنما بنا کر اور نہایت واضح دلائل کی صورت میں، جو سرتا سر ہدایت بھی ہے اور حق وباطل کے درمیان میں فیصلہ کرنے والا بھی۔سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو، اُسے چاہیے کہ وہ اِس ماہ کے روزے رکھے۔

اِس آیت میں رمضان اور کلام الہٰی کی اہمیت سے متعلق واضح اشارہ موجود ہے۔روزہ اور قرآن کے اِس تعلق پر غور کیجیے تو ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے۔ وہ یہ کہ ذکر وعبادت کے دوسرے مراسم کے علاوہ، رمضان کی اصل عبادت قرآن مجید سے اپنے تعلق کی تجدید ہے، یعنی تلاوت اور تدبر کے ذریعے سے خدا کی ابدی رہنمائی کو سمجھنا اور اُس کو اپنی زندگی میں پوری طرح اختیار کرلینا۔

ایسی حالت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ رمضان کی اصل عبادت اور اُس کا سب سے بڑا ’’معمول‘‘ قرآن کی تلاوت اور اُس پر تدبر ہے، یعنی روزہ دارانہ ماحول میں ہر طرح کے انتشار (distraction) سے بچ کر قرآن مجید کو پڑھنا، اُس پر غور وفکرکرنا اور اُس سے اپنے تعلق کی تجدید کا عہد کرنا۔یہی رمضان کا اصل ’وظیفہ‘ ہے اور یہی رمضان کا اصل ’معمول‘   ـــــــ  خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان کو اِس طرح پائیں کہ وہ اُن کے لیے قرآن سے فکری اور عملی تجدید کا مبارک مہینا بن جائے۔

(کوالالمپور، ملیشیا ۳۰ ؍ مارچ ۲۰۱۸ء)

____________

B