جنگ خیبر سے فارغ ہونے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محیّصہ بن مسعود کو خیبر کے پڑوس میں مدینہ سے ستاسی میل دور واقع نخلستان فدک کے سردار یوشع بن نون کو دعوت اسلام دینے کے لیے بھیجا۔اس نے اسلام قبول نہ کیا، لیکن آدھا نخلستان آپ کو دے کر صلح کر لی۔تب سے یہ خالصتاً آپ کا تھا، کیونکہ کسی مسلمان نے اس پر فوج کشی نہ کی تھی کہ اس کے پھلوں پر حق ر کھتا۔آپ اس کی آمدن بنوہاشم اورعام مسلمانوں کی مصلحتوں پرصرف کرتے۔ سیدہ فاطمہ کی خواہش کے باوجود آپ نے یہ ان کے حوالے نہ کیا۔ آپ کی وفات کے بعدحضرت فاطمہ اور کچھ ازواج نے اس کی وراثت کا دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکر نے انھیں آپ کا یہ ارشاد یاد دلایا،’’ہم، انبیا کی وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ کر جاتے ہیں،صدقہ ہوتا ہے‘‘(بخاری، رقم ۳۰۹۳۔ مسلم، رقم۴۶۰۳۔ ابوداؤد، رقم ۲۹۶۸۔ نسائی، رقم ۴۱۴۶۔ مسنداحمد، رقم۵۵)۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق نے جب یہود کو جلا وطن کیا تو فدک کی قیمت کا اندازہ لگوا کر نصف ان کو واپس کر دیا۔ پھر کچھ صحابہ کے اصرار پراس باغ کو حضرت علی اور حضرت عباس کے سپرد کر دیا۔کچھ وقت گزرا تھا کہ چچا اور بھتیجا میں اختلاف ہو گیا، دونوں حضرت عمر کے پاس آئے اور فدک کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔انھوں نے سختی سے انکار کر دیا اور کہا: تم اسے میراث بنا کر بانٹنا چاہتے ہو (بخاری، رقم ۳۰۹۴۔ نسائی، رقم۴۱۵۳۔ سنن نسائی الکبریٰ، رقم ۴۴۳۴۔مسنداحمد، رقم ۱۷۸۱)۔ حضرت عثمان اور اپنے عہد خلافت میں حضرت علی بھی اس کا نفع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق خرچ کرتے رہے۔ حضرت معاویہ نے خلافت سنبھالی تویہ نخلستان مروان کو عطیہ کر دیا، اس نے اپنے بیٹوں عبدالملک اور عبدالعزیز میں بانٹ دیا پھر عبدالملک کے بیٹوں ولید اور سلیمان نے اپنے حصے عمر بن عبدالعزیز کو ہبہ کر دیے۔خلیفہ بنتے ہی عمر کی قلب ماہیت ہوئی،انھوں نے اولادحضرت فاطمہ وحضرت علی کو بلا کر کہا:یہ میرا مال نہیں،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثوں کی حیثیت سے اسے آپ کے سپردکرتا ہوں۔
وادی قریٰ مدینہ اور شام کے درمیان،تیما اور خیبر کے مابین کئی بستیوں پر مشتمل وادی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپسی پرغروب آفتاب سے پہلے یہاں پہنچے تومقامی یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، مگر انھوں نے تیر اندازی شروع کر دی جس سے آپ کا غلام مدعم شہید ہو گیا۔علم آپ نے حضرت حباب بن منذر کو تھما کر اعلان فرمایا:اگر تم ایمان لے آؤ تو تمھارے جان ومال محفوظ ہوجائیں گے۔ انھوں نے مبارزت کوترجیح دی۔حضرت زبیر،حضرت علی اور حضرت ابو دجانہ آگے بڑھے۔غنیم کے گیارہ افراد دو بدو مقابلے میں مارے گئے تو وادی فتح ہو گئی۔ضروریات زندگی کا بہت سا سامان اور سونا چاندی جیش اسلامی کے ہاتھ آئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی قریٰ میں چار دن قیام فرمایا۔آپ نے مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرما دیا اور زمین اور باغات یہود کے پاس رہنے دیے۔قریبی علاقے تیما کے لوگوں نے آپ کی آمد کی خبر سنی تو جزیہ ادا کر کے صلح کر لی۔
ذی قعد ۷ھ(فروری۶۲۹ء) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرۂ قضا کیا،اسی سفر میں سیدہ میمونہ بنت حارث سے آپ کا عقد ہوا۔مکہ میں آپ کا تین روزہ قیام مکمل ہواتو قریش نے حویطب بن عبدالعزیٰ کویہ کہہ کر بھیجا کہ مکہ میں آپ کی مدت قیام پوری ہو چکی ہے اس لیے واپس چلے جائیں۔حضرت علی بھی پاس تھے۔ آپ نے فرمایا:کیا حرج ہے کہ میں آپ کے ہاں اپنا ولیمہ کر لوں ؟ہم کھانا بنائیں گے جسے آپ بھی تناول کر لیں۔ حویطب نے کہا: ہم آپ کو اللہ اور نکاح کا واسطہ دیتے ہیں،مکہ چھوڑ دیں۔تب آپ نے چلنے کا حکم دیا اور مکہ سے چھ (یادس)میل باہر،تنعیم سے آگے واقع وادی سرف میں قیام فرما لیا۔ آپ کے آزاد کردہ حضرت ابورافع حضرت میمونہ کو وہاں لے آئے تو ولیمہ منعقدہوا۔
عمرۂ قضا سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے لوٹنے لگے توحضرت حمزہ کی بیٹی عمارہ چچا چچا کرتے ہوئے آپ کے پیچھے لپکی۔ حضرت علی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدہ فاطمہ سے کہا:اپنے چچا کی بیٹی سنبھال لو! مدینہ پہنچنے پر حضرت علی،حضرت زید اورحضرت جعفر میں جھگڑا ہو گیا۔حضرت علی نے کہا: میں اسے لایا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ان کے بھائی حضرت جعفر نے کہا:یہ میرے بھی چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ بچی کی والدہ حضرت سلمیٰ بنت عمیس اور حضرت جعفر کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس بہنیں تھیں۔حضرت زید بن حارثہ نے کہا:یہ میری بھتیجی ہے۔جنگ احد میں حضرت حمزہ نے اپنی وصیت پوری کرنے کی ذمہ داری زید کو سونپی تھی اس لیے ان کا خیال تھا کہ وہ اس کی پرورش کا حق رکھتے ہیں۔ آپ نے یہ فرما کر کہ’’خالہ ماں ہی کی طرح ہوتی ہے‘‘بچی جعفر کے سپردکردی۔یہ فیصلہ کرنے کے بعد آپ نے تینوں اصحاب کے لیے تسلی کے کلمات ارشاد فرمائے۔حضرت علی سے فرمایا:’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں‘‘۔ حضرت جعفر سے کہا:’’ توجسمانی ساخت اور اخلاق میں مجھ سے مشابہت رکھتا ہے‘‘۔ حضرت زید سے ارشاد کیا:’’ تو میرا بھائی اور میرا مولا ہے‘‘ (بخاری، رقم۲۶۹۹۔مسند احمد، رقم۷۷۰)۔حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق بچی گھوم پھر رہی تھی کہ حضرت علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:ہم اپنے چچا کی یتیم بیٹی مشرکوں کے بیچ کیوں چھوڑے جا رہے ہیں۔آپ خاموش رہے تو حضرت علی نے بچی کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمۃ الزہرا کے ہودے میں بٹھا دیا۔آپ سو رہے تھے کہ ان تینوں اصحاب میں نزاع ہوا، شور سے آپ بیدار ہو ئے اور فرمایا: ادھر آؤ !میں تمھارا جھگڑا نمٹاؤں۔
کچھ قصہ گو بیان کرتے ہیں کہ جحفہ کے قریب ذات العلم نامی کنویں پر حضرت علی کا جنوں سے مقابلہ ہوا تھا۔ابن کثیر کہتے ہیں، یہ جہلا کا گھڑاہوا قصہ ہے اوراس کی کوئی اصل نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے غزوات و سرایامیں خود حصہ لیا یا صحابہ کوروانہ فرمایا: سب مشرک و کافر انسانوں کے خلاف تھے۔ان میں سے ایک میں بھی جنوں سے مقابلہ نہیں ہوا۔
(جمادی الاولیٰ۸ھ،ستمبر ۶۲۹ء): حضرت جعفر بن ابوطالب کی شہادت کے بعدان کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس نے ان کا مرثیہ کہاکہ میرا دل برابرآپ کے غم میں مبتلا رہے گا اور میرے زخم ہر دم تازہ رہیں گے۔ عدت پوری ہونے پر ان کی شادی حضرت ابوبکر سے ہو گئی۔عرب میں بیواؤں اور مطلقات کا عقد ثانی جلد ہو جاتا تھا اور اسے برا نہ سمجھا جاتا تھا اس لیے ہمیں یہ روایت عجیب لگی کہ حضرت علی نے ولیمے کے موقع پر حضرت اسماء کو ان کا کہامرثیہ سنا کرمذاق کیا۔ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعدحضرت اسماء کا نکاح حضرت علی سے ہوگیا اورننھے محمد بن ابوبکر اپنی والدہ کے ساتھ حضرت علی کے ہاں چلے آئے۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں، میں نے اپنے والد کے حوالہ سے اپنے چچا علی سے جو بھی مانگا،انھوں نے دے دیا۔
بنوخزاعہ اور بنوبکر زمانۂ جاہلیت سے باہم متحارب تھے۔صلح حدیبیہ کے موقع پربھی یہ مقابل ہی رہے چنانچہ بنوخزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن گئے، جب کہ ان کا حریف قبیلہ بنو بکر قریش سے مل گیا۔ ۷ھ میں بنوخزاعہ کے ایک شخص نے بنوبکر کے ایک فرد کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجویہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا تو اس کا سر پھاڑ ڈالا۔بنوبکر بھڑک اٹھے اور راتوں رات بنوخزاعہ پرچڑھ دوڑے۔قریش نے سواریاں اور اسلحہ دے کر ان کی مدد کی، صفوان بن امیہ،عکرمہ بن ابوجہل اور سہیل بن عمرو اس شب خون میں خود شریک ہوئے۔خزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو وہاں بھی ان کا خون بہایا گیا۔ یہ صلح حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی تھی چنانچہ عمرو بن سالم خزاعی مدینہ پہنچا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور زمانۂ جاہلیت میں عبدالمطلب کے ساتھ کیے جانے والے عہدکا حوالہ دے کر مدد کی فریاد کی۔آپ نے قریش کے پاس ایک قاصد بھیجا اور تین تجاویز پیش فرمائیں:۱۔ مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔ ۲۔ قریش بنوبکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔ ۳۔ صلح حدیبیہ کامعاہدہ توڑنے کااعلان کر دیا جائے۔ قرطہ بن عمرنے قریش کی طرف سے تیسری شرط منظور کرنے کا اعلان کیا۔ آپ کے قاصد کے چلے جانے کے بعد انھیں ندامت ہوئی اس لیے ابوسفیان بن حرب کو تجدید عہد کے لیے فوراً مدینہ روانہ کر دیا۔ اسی اثنا میں بُدیل بن ورقا خزاعی ایک وفد لے کر مدینہ آیا۔آپ نے فرمایا: ہو سکتا ہے واپسی پر تمھاری ملاقات ابوسفیان سے ہو جو معاہدۂ حدیبیہ کی تجدید کرانے مدینہ آرہا ہے۔
ابوسفیان بن حرب مدینہ آیا،اپنی بیٹی ام المومنین ام حبیبہ کے پاس پہنچا اور ان کے بستر پر بیٹھنے لگا۔انھوں نے بستر لپیٹ دیااور کہا:میں تمھیں اس پربٹھانا نہیں چاہتی، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے اورتم مشرک و نجس ہو۔پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔آپ نے اس کی گفتگو کا کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت ابوبکر سے سفارش کرنے کو کہاتو انھوں نے کہا:میں کچھ نہیں کر سکتا۔حضرت عمرکے پاس آیا تو انھوں نے کہا: قسم اللہ کی! اگر مجھے محض چیونٹیوں کا لشکر ہی میسر آ سکا توبھی تم سے ضرور جہاد کروں گا۔ آخر کارحضرت علی کے پاس آیااور کہا:تمھارا مجھ سے رشتہ قریبی اوربہت گہرا ہے۔میں تمھارے پاس ضرورت سے آیا ہوں،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس میری سفارش کر دو۔حضرت علی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کر لیا ہے، اس بارے میں ہم ان سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔ حضرت فاطمہ ا ور حضرت حسن پاس تھے۔ ا س نے سیدہ فاطمہ سے کہا: اپنے بیٹے کو کہہ سکتی ہو، لوگوں میں صلح کرا کر سید العرب بن جائے؟حضرت فاطمہ نے جواب دیا: یہ ابھی اس عمر کو نہیں پہنچاپھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے علی الرغم کوئی صلح کی تجدید نہیں کرا سکتا۔ ابوسفیان بولا:معاملات میرے لیے بہت دشوار ہوگئے ہیں،مجھے کوئی نصیحت ہی کر دو۔حضرت علی نے کہا:تو کنانہ کا سردار ہے، لوگوں میں کھڑے ہو کرصلح کی میعاد بڑھانے کا اعلان کردے۔کیااس سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا؟ ابوسفیان نے پوچھا۔حضرت علی نے جواب دیا:میرا خیال ہے،نہیں، لیکن اس کے علاوہ تم کچھ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ابوسفیان نے مسجد نبوی میں معاہدہ کی تجدید کا یک طرفہ اعلان کر دیا۔مکہ جا کر اس نے لوگوں کو سارا ماجرا سنایا۔ لوگوں نے پوچھا، کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمھارے اعلان صلح کو قبول کر لیا؟ کہا: نہیں۔ تب تو علی نے تجھ سے مذاق ہی کیا ہے،انھوں نے کہا۔
ادھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلحہ زیب تن کر لیا اور صحابہ کوبھی مکہ کے سفر کی تیاری کرنے کا حکم دیا پھر دعا فرمائی: اے اﷲ!قریش کے جاسوسوں کی نگاہیں اچک لے تاکہ ہم ان کی مملکت پر اچانک حملہ کر سکیں۔ اسی اثنا میں حضرت حاطب بن ابو بلتعہ نے ایک خط لکھ کر،دس دینار اور ایک چادرکے عوض بنو مزینہ کی عورت کنود (یا بنو مطلب کی باندی سارہ )کے ذریعے قریش کے پاس روانہ کر دیا۔آپ نے فوراً حضرت علی،حضرت زبیر اور حضرت مقداد کواس کا پیچھا کر نے کا حکم دیا۔ انھوں نے مکہ و مدینہ کے مابین، حمرا اسد کے قریب واقع مقام روضۃ خاخ (دوسری روایت،حلیفۃ یا خلیقۃبنو ابو احمد ) کے پاس اسے جا لیا۔ اونٹ سے اتار کراس کے کجاوے کی تلاشی لی تو کچھ نہ ملا۔حضرت علی نے فرمایا:میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط نہیں فرمایا اور نہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔خط نکال دو یا ہم تمھیں بے لباس کریں۔ان کی سختی دیکھ کر اس نے بالوں کی مینڈھیاں کھولیں اور خط نکال کر پکڑا دیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خط پہنچا توآپ نے حضرت حاطب کو بلاکر پوچھا،تم جاسوسی پر کیوں مائل ہوئے؟ انھوں نے کہا:میں اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں، ایمان سے نہیں پھرا۔ میراقریش سے تعلق محالفت کا ہے،اگرچہ وہاں میرے بال بچے نہیں، لیکن میری والدہ، اعزہ و اقارب اور حلفا تو ہیں، قریش پریہ احسان اس لیے کیا تاکہ وہ انھیں کچھ نہ کہیں۔ حضرت عمر حضرت حاطب کی گردن اڑانا چاہتے تھے، لیکن آپ نے فرمایا: اللہ نے اہل بدر کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ اس موقع پر حکم ربانی نازل ہوا:’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّﵐ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْﵧ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِيْ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ‘،”اے لوگو جو ایمان لائے ہو!میرے دشمن اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،تم ان کو محبت کے پیغامات بھیجتے ہوحالاں کہ وہ تمھارے پاس آنے والے دین حق کا انکار کر چکے ہیں۔انھوں نے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو اور تمھیں اللہ،تمھارے رب پر ایمان لانے کی پاداش میں شہر مکہ سے نکال دیا ہے۔ (اب) اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر نکلے ہو توچوری چھپے انھیں محبت کے پیغامات بھیجنے لگے ہو“ (الممتحنہ ۶۰: ۱)۔
فتح مکہ
رمضان۸ھ(جنوری ۶۳۰ء):فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر بن عوام کو حکم دیا کہ وہ اپنا دستہ لے کر کدی کے راستے سے، جب کہ حضرت سعد بن عبادہ کے دستے کو ارشاد فرمایا کہ وہ کدا کے راستے سے بالائی مکہ میں داخل ہوں،حضرت خالد بن ولید کو ہدایت تھی کہ لیط کی طرف سے زیریں مکہ میں داخل ہوں۔ حضرت سعد نے شہر مکہ کا رخ کرتے ہوئے نعرہ لگایا،آج بڑے معرکے کا دن ہے،آج حرمتیں پامال ہوں گی۔حضرت عمر نے سن لیا اور آپ کو بتا دیا۔آپ نے حضرت علی سے فرمایا: جاؤ، سعد سے پرچم لے لو اور تم اس کادستہ لے کر شہر میں داخل ہونا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت سعد کے بیٹے حضرت قیس کو تھمادیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سعد کی بات ابوسفیان نے بھی سنی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت شکوہ کیا۔ آپ نے فرمایا:آج کے دن کعبہ کی بے حرمتی نہیں، بلکہ بے حد عظمت ہو گی۔
اس روز ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب سے آپ کاسامنا ہوا تو آپ نے منہ پھیر لیا۔ابوسفیان اور عبداللہ بن ابوامیہ نے آپ سے ملنے کی التجا کی تو فرمایا:مجھے ان سے ملنے کی حاجت نہیں۔عبداللہ کی بہن ام المومنین ام سلمہ نے سفارش کی کہ یہ د ونوں آپ کے چچا زاد اور پھوپھی زاد ہیں۔ آپ نے فرمایا: چچا زاد (ابوسفیان) نے میری عزت پامال کرنے کی کوشش کی اور پھوپھی زاد(عبداللہ بن ابوامیہ) نے مکہ میں میرے بارے میں غلط سلط باتیں کیں۔ ابوسفیان نے کہا: میں اپنے بیٹے جعفر کو لے کر صحرا میں نکل جاؤں گا اوردونوں باپ بیٹا بھوک پیاس سے جان دے دیں گے تو آپ کا دل نرم پڑا۔ چنانچہ ابوسفیان اور عبد اللہ، دونوں آپ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا۔حضرت ابوسفیان کے قبول اسلام کے ضمن میں ایک دوسری روایت بیان کی جاتی ہے جو مختلف ہے۔حضرت علی نے ان کومشورہ دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدھا سامنے کی طرف سے جانا اورو ہ بات کہنا جو یوسف علیہ السلام سے ان کے بھائیوں نے کی تھی:’تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِـِٕيْنَ ‘،”اللہ کی قسم !اللہ نے تمھیں ہم پر ترجیح دے دی ہے،ہم ہی غلطی پر تھے‘‘ (سورۂ یوسف ۱۲ : ۹۱)۔ آپ نہیں چاہیں گے کہ کوئی قول و فعل میں آپ سے اچھا ہو۔حضرت ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب نے یہی بات عرض کی تو آپ نے بھی جواب میں یوسف علیہ السلام ہی کا قول دہرایا،’لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْﵟ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ‘،”آج تم پرکوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں معاف کرے، وہ بہت رحم کرنے والا ہے“ (سورۂ یوسف۱۲: ۹۲)۔حضرت ابوسفیان نے اسلام قبول کیا اور شرم کے مارے پوری زندگی آپ کے سامنے سر نہ اٹھایا۔
حُویرث بن نقیذ(نفیل )ان آٹھ مردوں اور چار عورتوں میں سے ایک تھا،فتح مکہ کے روز جن کے قتل کا فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا تھا،یہ مکہ میں آپ کوایذائیں پہنچاتا تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد حضرت عباس نے دختران رسول،سیدہ فاطمہ اور سیدہ ام کلثوم کو مدینہ لے جانے کے لیے اونٹ پر بٹھایا تو حویرث نے اونٹ کو آنکس سے ٹہوکا دیا تویہ دونوں زمین پر گر گئیں۔غزوۂ فتح کے دن یہ گھر سے بھاگ نکلا، حضرت علی نے اسے قابو کر کے موت کے گھاٹ اتارا۔ حضرت علی نے سارہ کو بھی قتل کیا، عمرو بن عبدالمطلب کی اس باندی نے حضرت حاطب بن ابو بلتعہ کی نامہ بری کی تھی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو کر اسلام قبول کیا پھر مرتدہ ہو کر مکہ جا پہنچی۔
حضرت ام ہانی فرماتی ہیں،فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالائی مکہ میں ٹھیرے تھے جب میرے سسرال بنو مخزوم کے دو اشخاص حارث بن ہشام اور زہیر بن ابو امیہ بھاگتے ہوئے میرے پاس پہنچے۔میرے بھائی علی بن ابوطالب بھی ان کا پیچھا کرتے ہوئے آئے اور کہا:واﷲ!میں انھیں قتل کر کے چھوڑوں گا۔میں نے ان دونوں کو گھر میں بند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بالائی مکہ پہنچ گئی۔آپ غسل فرمارہے تھے، چاشت کی آٹھ رکعتیں ادا کر کے فارغ ہوئے اور فرمایا: مرحبا،اہلا ً و سہلاًام ہانی !کیسے آئی ہیں؟ میں نے دونوں مخزومیوں اورعلی کا قصہ سنایاتو فرمایا:جسے تم نے پناہ دی،ہم نے بھی پناہ دی اور جس کو تم نے امان دیا ہم نے بھی امان دیا۔علی انھیں قتل نہ کریں گے۔کچھ اہل تاریخ کہتے ہیں، آپ چاشت کی نمازنہیں، بلکہ صلاۃ فتح ادا فرما رہے تھے،وہ بھی آٹھ رکعتیں ہوتی ہیں اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔
فتح کے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور مسجد حرام میں تشریف فرما ہوئے۔ حضرت علی کعبہ کی کنجی لے کر آپ کی طرف بڑھے اور درخواست کی،حاجیوں کو پانی پلانے (السقاية) کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی دربانی(الحجابة)کی ذمہ داری ہم بنو ہاشم ہی کو سونپ دیجیے۔آپ نے فرمایا: عثمان بن طلحہ کو بلاؤ۔وہ آئے تو فرمایا: عثمان !یہ چابیاں لے لو۔آج کا دن پیمان پاسبانی اور ایفاے عہد کا دن ہے۔ زمانۂ جاہلیت سے کعبہ کی دربانی بنو عبدالدار کے پاس تھی اس لیے آپ نے چابی حضرت عثمان داری کے حوالے کی۔ایک روایت کے مطابق آپ نے حضرت علی سے فرمایا:میں تمھیں ایسی ذمہ داری(کھلانا پلانا) دے رہا ہوں کہ لوگ تم سے فائدہ اٹھائیں نہ کہ تم ان کے تعاون کے محتاج ہو۔ دربانی کی ذمہ داری میں غلاف کعبہ کی تبدیلی شامل ہوتی ہے جو دوسرے لوگ مہیا کرتے ہیں۔
شوال ۸ھ:فتح مکہ کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے گردو پیش کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے مختلف جماعتیں روانہ فرمائیں۔ آپ نے حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں ساڑھے تین سواصحاب پر مشتمل ایک دستہ بنو جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا۔بنو جذیمہ کے لوگوں نے حضرت خالد کو آتا دیکھا تو ہتھیار اٹھا لیے، وہ زمانۂ جاہلیت میں حضرت خالد کے چچا فاکہ اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے والد کو قتل کر چکے تھے اس لیے انھیں انتقام کا خوف تھا۔حضرت خالد نے کہا: لوگ مسلمان ہو چکے ہیں، اب اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔بنو جذیمہ کے ایک شخص جحدم نے کہا: میں تو کبھی ہتھیار نہ ڈالوں گا،یہ خالد ہے،پہلے قید کرے گا پھر گردنیں اڑائے گا۔ اس کے ساتھیوں نے اصرار کیاکہ اب لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور امن قائم ہو گیا ہے،تم ہمارا خون بہانا چاہتے ہو؟ جب سب نے ہتھیار ڈال دیے اور جحدم سے بھی اسلحہ چھین لیا گیا تو حضرت خالد نے انھیں قید کرنے کا حکم د ے دیا، کئی لوگوں کو مشکیں کس کرباندھا اور اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا۔سحر کے وقت انھوں نے ندا دی،ہر شخص اپنے اپنے قیدی کو قتل کر دے۔بنو سلیم کے لوگوں نے حکم کی پیروی کی، جب کہ دستے میں شامل حضرت عبد اللہ بن عمر نے سختی سے مخالفت کی،حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ نے ان کا ساتھ دیا۔انھوں نے اپنے قیدی چھوڑ دیے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے یوں اظہار براءت فرمایا: ’’اے اﷲ!میں خالد کی کارروائی سے بری الذمہ ہوں“ (بخاری، رقم ۴۳۳۹۔ مسند احمد، رقم ۶۳۸۲)۔پھرآپ نے حضرت علی کو مال دے کر فرمایا: جاؤ، ان کے معاملات دیکھو،طریق جاہلیت کو پاؤں تلے روند دینا۔ چنانچہ حضرت علی نے مقتولوں اور مال مویشیوں کی دیتیں ادا کیں، حتیٰ کہ کتوں کے برتنوں تک کا نقصان پورا کیا۔ پھر بھی کچھ مال بچ رہا تو انھوں نے اعلان کیا،کوئی انسان یا جانور رہ گیا ہے جس کی دیت ادا نہیں ہو سکی؟نفی میں جواب ملنے پر انھوں نے احتیاطاً باقی مال بھی ان کے حوالے کر دیااور کہا: یہ اس کے بدلے میں ہے جو ہمارے اور تمھارے علم میں نہیں آ سکا۔ واپس آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاتو آپ نے فرمایا: تم نے اچھا اور درست کام کیا۔اس موقع پر آپ نے پھر آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے سہ بارہ فرمایا: اے اللہ!میں خالد کی کارروائی سے بری الذمہ ہوں۔یہ واقعہ اس خواب کی تعبیر تھا جو رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا:میں نے دیکھا کہ میں نے گھی،کھجوراور پنیر سے بنے ہوئے حلوے حیس کا ایک لقمہ لیا۔مجھے اس کا ذائقہ تو بھلا محسوس ہوا، لیکن نگلتے نگلتے اس کا کچھ حصہ میرے گلے میں اٹک گیا تب علی نے ہاتھ ڈال کر اسے نکالا (السیرۃالنبویۃ لابن ہشام،مسیرخالد بن الولید بعد الفتح الی بنی جذیمۃ)۔
اہل بیت
جب اللہ کا فرمان،’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ‘،”اے اہل بیت !اللہ چاہتا ہے کہ تم سے آلودگی کو دور کر دے اور تمھیں اچھی طرح پاک کر دے‘‘ (الاحزاب۳۳ : ۳۳ )۔ نازل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ کے گھر میں تھے۔آپ نے حضرت فاطمہ، حضرت علی،حضرت حسن اورحضرت حسین کو بلاکران پر چادر اوڑھادی اور فرمایا:اے اللہ!یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے آلودگی دور کر کے انھیں خوب پاک کر دے۔حضرت ام سلمہ نے کہا:اللہ کے نبی ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ جواب فرمایا:تو اپنی جگہ ہے اور مجھے بھلی لگتی ہے(ترمذی، رقم ۳۷۸۷۔مسلم، رقم ۶۲۶۱۔ مسند احمد، رقم۲۶۵۰۸)۔مسند احمد کی روایت ۲۶۵۵۰ میں ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ کو بھی چادر میں داخل کر لیا، جب کہ روایت ۲۶۷۴۶ کے مطابق ان کے اوپرسے چادر کھینچ لی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں،یہ آیات خاص طور پرامہات المومنین کے بارے میں نازل ہوئیں: ’يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا. وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰي وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗﵧ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا. ﶔوَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰي فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا‘،” اے نبی کی بیویو!تم عام عورتوں کی مانند نہیں اگر تقویٰ پر گام زن رہو۔لہٰذا نرم لہجے میں بات نہ کرنا مباداکہ جس کے دل میں ہوس ہو طمع کرنے لگے، صاف سیدھی گفتگوکیا کرو۔اپنے گھروں سے چپکی رہنا، گزری ہوئی جاہلیت کے بناؤ سنگھار نہ کرنا۔نماز پر قائم رہنا،زکوٰۃ دیتی رہنااور اللہ و رسول کی اطاعت کو اپنا شعار بنائے رکھنا۔ اے اہل بیت !اللہ چاہتا ہے کہ تم سے آلودگی دور کر دے اور تمھیں اچھی طرح پاک کر دے۔تمھارے گھروں میں اللہ کی جو آیات اور حکمت کی باتیں تلاوت کی جاتی ہیں،انھیں ذہن نشین کر لو۔اللہ باریک بین اور خوب خبر رکھنے والا ہے“ (الاحزاب۳۳ : ۳۲- ۳۴ ) ۔ پورے سلسلۂ کلام میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے۔تاہم مسلسل نو مونث ضمیریں آنے کے بعد ’لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘ میں ضمیریں مذکرہو گئیں۔ امام رازی کہتے ہیں،اس طرح ازواج کے ساتھ خانوادۂ نبوت کے مرد حضرات بھی اہل بیت میں شامل ہو گئے چنانچہ ان دومنصوب ضمیروں کی تذکیر علیٰ سبیل التغلیب ہے۔حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین دختر رسول حضرت فاطمہ کے توسط سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شامل ہونے کی وجہ سے اہل بیت کا حصہ ہیں۔دوسرے فریق کا خیال ہے کہ’كم‘ کی مذکر ضمیر ’اهل‘ کی مناسبت سے آئی ہے۔ لفظ ’اهل‘ مذکر ہے، لیکن اس سے مراد ازواج ہی ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے:’اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ‘،”کیاتم اللہ کے حکم پر حیران ہو رہی ہو ؟اللہ کی رحمت و برکت ہو تم پر،ابراہیم کی گھر والیو! “(سورۂ ہود ۱۱: ۷۳ )، (فتح القدیر،شوکانی)۔
۱۰ ؍شوال ۸ھ(فروری ۶۳۰ء):قریش کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تو بنوہوازن کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم ان سے بھی نبرد آزما ہوں گے۔ آپ کی کسی کارروائی سے پہلے ہی انھوں نے بنو ثقیف کوساتھ ملا یا اور جنگ کے لیے طائف کے قریب واقع وادی حنین میں جمع ہو گئے۔آپ کو علم ہوا تو دس ہزار صحابہ اور دو ہزار نو مسلموں کے ساتھ حنین کا رخ کیا۔ ۱۰؍ شوال کو منہ اندھیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزرہیں زیب تن کیں، سر پر خود پہنا اور اپنے سفید خچردلدل پر سوار ہو گئے۔فوج کی صف آرائی کر کے آپ نے مہاجرین و انصار کوالگ الگ علم دیے، ایک پرچم حضرت علی نے اٹھا رکھا تھا۔ اسلامی لشکر حنین کی وادی میں اترا توکفار جو پہلے سے کمین گاہوں میں گھات لگائے بیٹھے تھے، یک بارحملہ آور ہوگئے۔ ان کی غیر متوقع تیراندازی اور تلوار زنی سے اسلامی جمعیت منتشر ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے دائیں طرف ہٹ گئے اور پکارنا شروع کر دیا: اے لوگو! میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ تب چند صحابہ،حضرت ابوبکر، حضرت عمر،حضرت علی، حضرت عباس،حضرت فضل بن عباس، حضرت قثم بن عباس، حضرت ابوسفیان بن حارث، حضرت جعفر بن ابوسفیان،حضرت ربیعہ بن حارث،حضرت ایمن بن ام ایمن اور حضرت اسامہ آپ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ حضرت عباس نے دلدل کی نکیل تھام رکھی تھی۔ بنو ہوازن کا ایک شخص سیاہ پرچم بلند کیے سرخ اونٹ پر سوار آگے آگے تھا،جو سامنے آتا اسے نیزہ مارتاپھر پرچم دکھاتا تو اس کے پیچھے والے گھڑ سوار حملہ آور ہو جاتے۔حضرت علی اور ایک انصاری صحابی اس پر لپکے،حضرت علی نے اس کے اونٹ کی کونچیں کاٹیں اور انصاری نے ایسا وار کیا کہ اس کی آدھی پنڈلی کاٹ ڈالی اور وہ اونٹ سے نیچے جا پڑا۔
اس موقع پر اسلامی فوج میں شامل اہل مکہ نے اپنی سرکشی ظاہر کی۔ ابوسفیان نے کہا:مسلمانوں کی شکست اب سمندرتک جائے گی۔ کلدہ بن حنبل بولا، کیا اب جادو ختم نہیں ہوگیا؟ جنگ احدمیں مارے جانے والے عثمان بن ابوطلحہ کے بیٹے شیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کا ارادہ کیا، لیکن اﷲکی طرف سے اس کے دل میں خوف ڈال دیاگیا۔
آپ کے ارشاد پر حضرت عباس بن عبدالمطلب نے ندا دی،اے گروہ انصار!،اے ( حدیبیہ کے )کیکر کے درخت والو!اے سورۂ بقرہ والو!تب سب مہاجرین و انصار لبیک،لبیک کہتے پلٹ آئے۔رسول اللہ خچر سے اتر کر یہ رجز پڑھنے لگے:
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
”میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔“
اسلامی فوج دوبارہ جمع ہو کر منظم ہو ئی تو جنگ کا بازار پھر گرم ہوا۔آپ نے اپنے خچر کو زمین سے چپکا کر (یا حضرت عباس سے) مٹھی بھر خاک لی اور مشرکوں کے مونہوں پر ڈال دی۔آپ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا تو اہل ایمان بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمنوں پر پل پڑے اورانھیں شکست فاش سے دوچار کیا۔
شوال ۸ھ(فروری ۶۳۰ء):غزوۂ حنین اور طائف کے محاصرے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم کیا تو پہلی بار مؤلفۂ قلوب کا حصہ نکالا۔آپ نے قریش کے نومسلم سرداروں حضرت ابوسفیان بن حرب، حضرت معاویہ،حضرت حکیم بن حزام،حضرت علاء بن جاریہ،حضرت حارث بن ہشام، حضرت صفوان بن امیہ، حضرت سہیل بن عمرو،حضرت حویطب بن عبدالعزیٰ،حضرت عیینہ بن حصن، حضرت اقرع بن حابس اورحضرت مالک بن عوف کو تالیف قلب کے لیے سو سو اونٹ عطا کیے تو ذو الخویصر ہ تمیمی نے آپ کی تقسیم پر اعتراض کیااور کہا: آج آپ نے انصاف نہیں کیا۔فرمایا: میں نہیں انصاف کروں گا تو کون کرے گا۔ حضرت عمر اس کی گردن اڑانا چاہتے تھے، لیکن آپ نے منع فرما دیا۔طبری کہتے ہیں،یہ واقعہ اس خام سونے کی تقسیم کے وقت پیش آیا جوحضرت علی نے آپ کی خدمت میں یمن سے بھیجا تھا۔تب آپ نے حضرت عیینہ،حضرت اقرع اورحضرت زید الخیل کی تالیف قلب کی تھی۔طائف سے واپسی پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو ریطہ بنت ہلال نامی باندی عطا کی، حضرت عثمان کو زینب بنت حیان ہبہ کی۔حضرت عمر کو بھی آپ نے جنگ میں قید کی ہوئی ایک کنیز دی، لیکن انھوں نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کو ہبہ کردی۔
ربیع الثانی۹ھ:آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد ی قبیلے بنوطے کے فلس نامی بت کو منہدم کرنے کے لیے حضرت علی کی قیادت میں ڈیڑھ سوانصاری مجاہدین کا دستہ روانہ فرمایا۔حضرت علی کے پاس ایک بڑاسیاہ پرچم اور ایک چھوٹا سفید جھنڈاتھا۔سو اونٹوں اور پچاس گھوڑوں پر مشتمل اس دستے نے فجر کے وقت آل حاتم طائی کے محلے پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔فلس کونیست ونابود کرنے کے بعد اسیروں، مال مویشیوں اور چاندی کی بڑی مقدار ان کے ہاتھ آئی۔فلس کے خزانہ میں سے حارث بن ابوشمر کی نذر کی ہوئی ( اس کے گلے میں لٹکائی ہوئی)دو تلواریں رسوب،مخذم(مخدم)، یمانی نام کی ایک تلواراور تین زرہیں حضرت علی کو ملیں۔ رکک کے مقام پر مجاہدین نے اموال غنیمت باہم تقسیم کر لیے۔خمس کے علاوہ رسوب اور مخذم تلواریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے الگ کر لی گئیں۔ قیدیوں میں حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بھی تھی۔مدینہ پہنچنے پر اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ مسجد نبوی سے متصل باڑے میں بند کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہا ں سے گزرتے تو وہ اٹھ کرآپ کے پاس آتی اور کہتی: یا رسول اللہ!والد فوت ہوچکے، آگے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالنے والا بھائی عدی بن حاتم طائی بھی غائب ہے۔ مجھ پراحسان کیجیے،اللہ آپ پر احسان کرے گا۔دو روز ایسا ہوا،تیسرے دن وہ مایوس بیٹھی تھی، تاہم حضرت علی کے کہنے پر پھر درخواست گزار ہوئی توآپ نے اسے آزاد کر دیا۔حضرت علی ہی کے مشورہ پر اس نے واپسی کے لیے سواری مانگی تو آپ نے سواری کے ساتھ کپڑے اور زاد راہ بھی عطا کیا۔
۹ھ میں غزوۂ تبوک ہوا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ انصاری(دراوردی کی روایت : حضرت سباع بن عرفطہ) کو مدینہ کا قائم مقام حاکم مقرر فرمایا۔آپ نے حضرت علی کی ذمہ داری لگائی کہ مدینہ میں رہ کر آپ کے اہل و عیال کی خبر گیری کریں۔منافقین نے چہ میگوئیاں شروع کر دیں،علی کو بوجھ سمجھ کر اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے مدینہ چھوڑدیا ہے۔ان کی لغو باتیں سن کرحضرت علی نے اسلحہ پکڑا اورجرف کے مقام پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور کہا:یا رسول اللہ!آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑ آئے ہیں۔آپ نے فرمایا:منافقین جھوٹ بکتے ہیں،میں تو تمھیں اپنی جگہ چھوڑکر آیا تھا۔ جاؤ، جا کر میرے اور اپنے کنبے کی دیکھ بھال کرو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اس مرتبے پر فائز ہو جاؤ جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کو ملا تھا، حالاں کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گاچنانچہ حضرت علی مدینہ واپس چلے گئے (مسلم، رقم ۲۴۰۴۔ ترمذی، رقم۳۷۲۴)۔ابن کثیر کہتے ہیں،غزوۂ تبوک کے متخلفین چار طرح کے تھے۔ جنھیں کوئی ذمہ داری دے کر مدینہ میں رہنے کا حکم دیا گیا جیسے حضرت علی اور حضرت محمد بن مسلمہ،یہ پورے اجر کے مستحق ہوئے۔بیمار اور معذور افراد،فاقہ کش جو غزوہ میں شریک نہ ہوسکنے کی وجہ سے روتے تھے۔ گناہ گار جن کی توبہ مقبول ہوئی جیسے حضرت کعب بن مالک،حضرت مرارہ بن ربیع،حضرت ہلال بن امیہ۔منافقین جو دائمی پھٹکار کا ہدف بنے۔
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے حضرت علی کی خلافت بلا فصل پراستدلال کیا گیا ہے اس لیے اس کا صحیح مفہوم واضح کرنا ضروری ہے۔غزوۂ تبوک میں حضرت علی کی نیابت حضرت ہارون کی طرح وقتی اور عارضی تھی۔جب حضرت موسیٰ کوہ طورسے و اپس آئے تو حضرت ہارون کی نیابت ازخودختم ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مدینہ سے باہر جاتے، اپنا نائب ضرورمقررفرماتے۔مثلاً غزوۂ بنوقینقاع میں آپ نے حضرت بشر بن منذر،غزوۂ مریسیع میں حضرت ز ید بن حارثہ،غزوۂ انماراور غزوۂ ذات الرقاع میں حضرت عثمان غنی کوقائم مقام حاکم مقرر فرما یا۔ایسا کرنا نظام کے تسلسل کے لیے ضروری ہوتا ہے،قائم مقام یا نائب کی معزولی کا فرمان جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔مزید برآں حضرت علی کی حضرت ہارون سے تشبیہ کلی نہیں تھی، کیونکہ حضرت ہارون نبی تھے اور وہ حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں وفات پا گئے تھے،ان کے خلیفۂ بلا فصل بننے کا موقع ہی نہیں آیا۔یہ شرف حضرت یوشع کے حصے میں آیا۔ان تینوں باتوں میں حضرت علی ان کے مشابہ کیسے ہوئے؟
۹ھ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو امیر حج بنا کر بھیجا،تین سو اہل ایمان ان کے ساتھ روانہ ہوئے۔قافلہ مدینہ سے چھ میل دور اہل مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ پہنچاتھا کہ سورۂ توبہ کے پہلے پانچ رکوع نازل ہوئے۔آپ نے حضرت علی کوپیچھے پیچھے بھیج دیا تاکہ ان آیات کے احکام مشرکین کو سنا دیے جائیں۔ حضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصوا( عضبا) پر سوار ہو کرروانہ ہوئے اورعرج کے مقام پر حضرت ابوبکر سے جا ملے۔انھوں نے سوال کیا: آپ امیر بن کر آئے ہیں یا مامور، یعنی امیر کے ماتحت؟ حضرت علی نے جواب دیا: مامور۔دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوبکر خودپلٹ کر آئے اور استفسار کیا: یارسول اﷲ! کیا میری امارت کے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا:نہیں،لیکن میری طرف سے اعلان میرے عصبہ (ددھیالی یا صلبی رشتہ دار،دوسری روایت:اہل بیت )ہی میں سے کوئی شخص کر سکتا ہے۔ ابوبکر ! کیا تو اس پر راضی نہیں کہ غار میں میرے ساتھ تھا اور حوض کوثر پر بھی میرا ساتھی ہو گا۔
مشرکین نے اپنی پرانی جاہلی رسوم کے ساتھ حج ادا کیا۔عرفہ کا دن آیا تو حضرت ابوبکر نے حج کا خطبہ دیا، فارغ ہونے کے بعدوہ حضرت علی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:علی !کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنائیے۔ حضرت علی نے سورۂ توبہ کی پہلی چالیس آیات تلاوت کیں،’وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ اِلَي النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَرَسُوْلُهٗ‘،”اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس حج اکبر کے دن اعلان ہے کہ اللہ و رسول مشرکین سے بیزار ہیں“ (التوبہ۹: ۳)۔ اعلان براء ت کے مضمون کا حامل ہونے کی وجہ سے سورۂ توبہ کو سورۂ براء ۃبھی کہا جاتا ہے۔اگلے روز، دس ذی الحجہ کو جب حاجی رمی، نحر،حلق اور طواف افاضہ سے فارغ ہونے کے بعد منیٰ میں اپنے خیموں میں آئے، حضرت علی نے ان لوگوں کے افادہ کے لیے جو عرفات کا خطبہ نہ سن سکے تھے،دوبارہ اعلان کیا، جنت میں کافر داخل نہ ہونے پائے گا،اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کر سکے گا نہ کوئی عریاں بیت اللہ کا طواف کر سکے گا،چار ماہ کی مہلت کے دوران میں تمام اہل شرک اپنے علاقوں اورٹھکانوں کو لوٹ جائیں گے، البتہ جس مشرک کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہد و پیمان ہے،اپنی مدت پوری کرسکے گا۔ حضرت ابوبکر نے حضرت علی کے علاوہ بھی کچھ صحابہ کی ذمہ داری لگائی کہ منیٰ میں حاجیوں کے درمیان پھر کر یہ اعلان کریں۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں، ان اعلان کرنے والوں میں ایک میں بھی تھا (بخاری، رقم ۱۶۲۲۔مسلم، رقم ۳۲۶۶۔ ابوداؤد، رقم۱۹۴۶)۔ مسند احمد کی روایت میں اضافہ ہے، میں بلند آواز سے پکارتا رہا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی (رقم ۷۹۷۷) ۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)،معجم البلدان(یاقوت الحموی)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، البدایۃ النہایۃ(ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،سیرت النبی (شبلی نعمانی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:مرتضیٰ حسین فاضل)،سیرت علی المرتضیٰ (محمد نافع)،اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب(علی محمد صلابی)۔
[باقی]
____________