HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

البیان: خصائص وامتیازات (۳)

[اس مضمون کی ۲ اقساط اکتوبر ۲۰۱۸ء اور دسمبر ۲۰۱۸ء کے شماروں میں

سلسلہ وار شائع ہوئی ہیں ۔ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جارہا ہے۔ ادارہ]


سیاق وسباق


 معنی کی تعیین میں چوتھی اہم ترین چیزسیاق وسباق ہے۔ لفظ کواس سے کاٹ لیاجائے یاکسی وجہ سے یہ نظروں سے اوجھل رہ جائے تو اس کامرادی معنی معلوم کرناانتہائی مشکل ہوجاتا،بلکہ بعض اوقات کچھ سے کچھ اور ہو جاتا ہے۔”البیان“ کے ترجمے کوشایداس لحاظ سے کم یاب کہاجاسکے کہ اس میں سیاق وسباق کی رعایت پر بہت زیادہ زوردیاگیاہے۔ہم ذیل میں چندعنوانات کے تحت کچھ مثالیں عرض کرتے ہیں جن سے ہماری اس بات کی بخوبی وضاحت ہوسکے گی:

۱۔مشترک لفظ کے معنی کی تعیین

وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ.(البقرہ ۲: ۲۲۸)
’’اورجن عورتوں کوطلاق دی گئی ہو،وہ اپنے آپ کوتین حیض تک انتظارکرائیں ۔‘‘

یہاں ’قُرُوْٓءٍ  ‘ کا ایک مشترک لفظ آیاہے،یعنی یہ حیض اورطہر،دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ”البیان“ میں اس سے مرادحیض لیا گیا ہے اوراس کی وجہ جس طرح یہ ہے کہ اس کااصل معنی ہے ہی حیض،اسے طہر کے لیے تو بس استعمال کر لیا جاتاہے،اسی طرح اس کے دومزید وجوہ سیاق وسباق میں بھی پائے جاتے ہیں :ایک یہ کہ اصل مسئلہ یہاں اس بات کومتعین کرنے کاہے کہ عورت حاملہ ہے یانہیں اوراس کا فیصلہ حیض سے ہوتا ہے نہ کہ طہرسے۔دوسرے یہ کہ یہاں توقف کی مدت مقررکی گئی ہے اوریہ بھی حیض سے بالکل متعین ہو جاتی ہے کہ اس کی ابتداکے بارے میں کوئی شک اورشبہ نہیں ہوتا۔

۲۔جامع لفظ کی تخصیص

عربی زبان میں بعض الفاظ ایک جامع مفہوم کے حامل ہوتے ہیں اوروہ اپنی اس جامعیت کوبرقراررکھتے ہوئے کسی ایک پہلوسے تخصیص میں بھی چلے جاتے ہیں۔’تقوٰي ‘ کالفظ اس کی ایک اچھی مثال ہے[15] ۔اس کا جامع مفہوم تو’ ’بچنا‘‘ہے ،مگرمختلف سیاق میں یہ ’’بچنا‘‘اپنے مختلف پہلوؤں کوبیان کررہاہوتاہے:

يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۲۱)
’’تم اپنے اُس پروردگار کی بندگی کرو لوگو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے اور تم سے پہلوں کو بھی، اِس لیے کہ تم (اُس کے عذاب سے) بچے رہو۔ ‘‘

اس آیت میں ’ تَتَّقُوْنَ ‘  کالفظ آیاہے جس کامطلب ہے کہ تم بچے رہو۔لیکن دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ”البیان“  میں اس سے ’’اُس کے عذاب سےبچنا‘‘ مراد لیا گیا ہے۔اورظاہرہے کہ لفظ کے جامع مفہوم میں اس تخصیص کے پیداہوجانے کی دلیل کلام ہی میں موجود آیت ۲۴کے یہ الفاظ ہیں:’فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ‘۔ یہ الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ وہ تخصیص اصل میں جہنم کی آگ کے عذاب سے بچناہے۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰ٘اُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۷۹)
’’اورتمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے، عقل والو،تاکہ تم حدودالہٰی کی پابندی کرتے رہو۔‘‘

یہاں خداکی طرف سے حدود کابیان ہورہاہے کہ اگرکسی شخص کوقتل کردیاجائے توقتل کرنے والے سے اُس کا قصاص ضرور لیا جائے۔آخر میں فرمایاہے کہ اس میں تمھارے لیے زندگی ہے اوراس کاحکم اس لیے دیاگیاہے:’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ‘۔تاکہ تم بچو۔ ظاہر ہے،بیان حدودکے سیاق میں اس سے جان کی حرمت اور اس جیسی خداکی مقرر حدوں کوپھلانگنے سے بچناہی مراد ہے،اور”البیان“ میں اسی لیے ’’حدودالہٰی کی پابندی کرتے رہو‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔[16]

فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ.(البقرہ ۲: ۶۶)
’’ اِس طرح اُن کی اُس بستی کو، (جس میں اُنھوں نے سبت کی بے حرمتی کی تھی)، ہم نے اُس کے گردوپیش کے لیے ایک نمونۂ عبرت اور خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ایک ذریعۂ نصیحت بنا دیا۔‘‘

اس مقام پربنی اسرائیل کی تاریخ  کا ایک واقعہ بیان کیاہے کہ انھوں نے سبت کے معاملے میں خداکے حکم کی بے حرمتی کی تھی۔اس پرخدانے انھیں عذاب میں مبتلاکیااور فرمایا کہ ہم نے گردو پیش کے لوگوں کے لیے اُن کی بستی کو عبرت کا نمونہ بنا دیا ’وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ‘۔اورنصیحت بنا دیا ڈرنے والوں کے لیے۔”البیان“ میں یہاں ’تقوٰي ‘کے جامع مفہوم کی تخصیص بیان کرتے ہوئے اس سے خدا سے ڈرنا مراد لیا گیا ہے اور ظاہر ہے اس کی وجہ سیاق وسباق میں آنے والی یہ بات ہے کہ یہ جرم خداکے مقابلے میں سرکشی کے نتیجے میں سرزد ہوا تھا، اس لیے اِس کی سزا اُنھی لوگوں کے لیے نصیحت بن سکتی ہے جوسرکش ہونے کے بجاے اُس سے حددرجہ ڈرنے والے ہوں ۔

یہاں ضمنی طور پر یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ مذکورہ آیت کی طرح جب ’تقوٰي ‘  کا ترجمہ ’’ڈرنا‘‘ کیا جاتا ہے تواس کامطلب بھی اصل میں ’’ بچنا‘‘ہی ہوتاہے۔یعنی ،’’اللہ سے ڈرو‘‘ کامطلب ہوگاکہ اُس کے عذاب سے اوراُس کے بیان کردوہ حدود کوپھلانگنے سے بچنے کاالتزام کرو۔اسی طرح جب یہ کہاجائے کہ’’ خداسے ڈرو اوریہ کام نہ کرو‘‘تواس کا مطلب بھی یہی ہوگاکہ خداسے ڈرتے ہوئے اس کام کاارتکاب کرنے سے بچو۔

۳۔متعددمعانی میں سے ایک کی تعیین

قرآن میں بہت سے الفاظ مستقل طورپرایک سے زائدمعانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔کس مقام پران میں سے کون سامعنی مراد لیاگیاہے،اس معاملے میں کلام کاسیاق وسباق بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ لفظ ’مَثَل ‘ کاقرآن میں استعمال :

مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا.(الجمعہ۶۲ : ۵)
’’جن لوگوں پرتورات لادی گئی ،پھراُنھوں نے اُس کونہیں اٹھایا،اُن کی مثال تواُس گدھے کی سی ہے جس پرکتابیں لدی ہوئی ہوں ۔‘‘

مَثَل ‘ کالفظ اصل میں کسی شے کودوسری کے ساتھ مشابہ اوراُس جیساقراردینے کے لیے آتاہے۔یہاں ’الْحِمَارِ ‘کی صورت میں یہودکی قوم کا مشبہ بہ چونکہ موجودہے،اس لیے واضح ہے کہ یہاں یہ لفظ اسی معنی میں آیاہے اور”البیان“ میں اسی لیے اس کاترجمہ ’’اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے‘‘کے لفظوں میں کیا گیا ہے۔

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ.(الزمر۳۹ : ۲۷)
’’ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کے لیے ہرقسم کی تمثیلیں بیان کردی ہیں ،اِس لیے کہ وہ یاددہانی حاصل کریں ۔‘‘

تمثیل اپنی حقیقت میں تشبیہ ہی کی ایک صورت ہے،مگراس میں کسی چیز کودوسری چیزسے تشبیہ نہیں دی جاتی ،بلکہ کسی حقیقت کو دوسری حقیقت یا صورت واقعہ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ آیت ۲۸میں شرک و توحید کے درمیان میں پائے جانے والے فرق کو سمجھانے کے لیے دو غلاموں کے بارے میں ایک حقیقت بیان ہوئی ہے کہ ان میں سے پہلے کے کئی آقاہیں جو آپس میں کش مکش رکھتے ہیں اوردوسراوہ ہے جوپورا کاپوراایک ہی شخص کی ملکیت ہے۔ یہ ایک حقیقت کی دوسری حقیقت کے ساتھ تشبیہ ہے ،چنانچہ ”البیان“ میں ’مَثَل ‘ کو اداکرنے کے لیے’’ تمثیل‘‘  کا لفظ لایاگیاہے۔

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ.(الفرقان۲۵ : ۹)
’’دیکھو، (اے پیغمبر)،یہ تمھاری نسبت کیسی کیسی باتیں بنارہے ہیں ۔‘‘

بعض اوقات کسی دوسرے شخص کے لیے بری بری مثالیں دی جاتی ہیں اورغورکیاجائے تواس وقت ’مَثَل‘  کامطلب اُس شخص کے بارے میں باتیں بناناہوتاہے ۔آیت ۷ اور۸میں دیکھ لیاجاسکتاہے کہ منکرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہاکرتے کہ یہ کیساآدمی ہے کہ اپنے آپ کورسول کہتاہے اورہماری طرح کھانا کھاتا اور اپنی ضرورتوں کے لیے بازاروں میں چلتاپھرتاہے اور کہتے کہ تم لوگ توایک سحرزدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔سواس آیت کایہی سیاق وسباق ہے کہ ”البیان“ میں ’الْاَمْثَالَ ‘ کاترجمہ کرنے کے لیے’’باتیں بنانا‘‘  کا محاورہ لایاگیاہے۔

وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا .(الفرقان۲۵ : ۳۳)
’’یہ لوگ جواعتراض بھی تمھارے پاس لے کر آئیں گے،اُس کاٹھیک جواب اوراس کی بہترین توجیہ ہم تمھیں بتادیں گے۔‘‘

باتیں بنانے ہی کاایک شدیدتر پہلویہ ہوتاہے کہ بعض اوقات یہ لفظ اعتراض کرنے اورنکتہ چینی کرنے کے معنی میں چلا جاتا ہے۔ پچھلی آیات میں منکرین کے اٹھائے ہوئے تمام اعتراضات کاجواب دیاہے اوراس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ:’وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ‘۔ ظاہر ہے، اس سیاق میں اب اس کاترجمہ ’’اعتراض‘‘ہی کیاجاسکتاہے ،جیسا کہ ”البیان“ میں ایسا کیابھی گیاہے۔

فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلْاٰخِرِيْنَ.(الزخرف۴۳ : ۵۶)
’’اور اُن سب کو غرق کر دیا اور اُن کو ایک قصۂ ماضی اوردوسروں کے لیے نمونۂ عبرت بنا دیا۔‘‘

جب ہم کسی تنبیہ کاذکرکرنے کے بعدکہیں کہ اس چیزکوہم نے تمھارے لیے مثال بنادیاہے تواس کامطلب ہوتاہے کہ اسے عبرت کاسامان بنادیاہے۔پچھلی آیات میں سیدناموسیٰ علیہ السلام کی آل فرعون کی طرف بعثت اوراس کے جواب میں اُن کے انکاراورسرکشی کابیان کرتے ہوئے آخرمیں فرمایاہے کہ انھوں نے ہمیں غضب ناک کردیاتوہم نے اُن سے انتقام لیااوراُن سب کوغرق کردیااوراُن کوایک قصۂ ماضی بنا دیا ’وَمَثَلًا لِّلْاٰخِرِيْنَ‘ ۔اوردوسروں کے لیے عبرت بنادیا۔واضح سی بات ہے کہ اس سیاق وسباق میں ’مَثَل‘  کاترجمہ یہی بنتاہے ۔

ہم نے  ’مَثَل‘ کویہاں محض مثال کے طورپربیان کیاہے،وگرنہ قرآن میں بہت سے الفاظ ہیں جو متعدد معانی رکھتے اور سیاق وسباق کی رعایت سے اپنے معنی کی تعیین کرتے ہیں، جیساکہ’سوال‘ کالفظ جو تحقیق، اعتراض اوراستہزا،ان سب معنوں میں آیاہے۔’قل‘  کہہ دینے،پوچھنے،سنادینے اوراعلان کردینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔’زوج‘ بیوی، جوڑے ، جوڑے کے ایک فرد اور انواع و اقسام کے معنوں میں اور ’حُكم‘  کالفظ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ،فیصلہ اورحکومت ،ان سب معنوں میں آیاہے۔

۴۔لفظ کے خاص استعمال سے پیداہونے والے معانی

بعض الفاظ قرآن میں اپنے عام طورپررائج مفہوم سے ہٹ کرکسی خاص مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں، مگر مترجمین کی اُن تک رسائی نہ ہوسکنے اورسیاق وسباق کوبالکلیہ نظر اندازکردینے کے باعث ترجمہ میں کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ”البیان“ میں کیاگیا ذیل کی چند آیتوں کا ترجمہ ہماری اس بات کوسمجھنے میں کافی معاون ہوسکتاہے:

 اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.(العلق۹۶ : ۱)
’’اِنھیں پڑھ کرسناؤ (اے پیغمبر)، اپنے اُس پروردگار کے نام سے جس نے پیداکیاہے۔‘‘

قراءة‘ عربی زبان میں پڑھنے ہی کے لیے آتاہے،مگربعض اوقات کسی خاص ماحول میں اس ’’پڑھنے‘‘ کواس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کا مفہوم’’ پڑھ کرسنادینے‘‘ کا ہو جاتا ہے۔جیساکہ ایک استادطالب علموں کے سامنے اپنے معاون سے کہے: ’’پڑھو۔‘‘ظاہرہے اس کامطلب اب پڑھنے کانہیں ،بلکہ طلباکے سامنے پڑھ کرسنادینے کاہوجائے گا۔سیاق وسباق اس بات پر دال ہے کہ زیرنظر آیت میں یہ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انذار کے پہلوسے ہدایت دی جارہی ہے کہ اپنے اُس پروردگارکی طرف سے قرآن کو پڑھ کر سنادیں جو ان لوگوں کاخالق ہی نہیں ،بلکہ ان پراس قدرکریم بھی ہے کہ اُس نے اپنی ہدایت کولکھ کردینے کا اہتمام بھی کیاہے۔اس روشنی میں ’اقراء ‘ کی صحیح تالیف اب یہی بنتی ہے: ’اقراءه عليهم‘، یعنی اے پیغمبرانھیں پڑھ کرسنادو،چنانچہ ”البیان“ میں موقع کلام کی اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ ’’انھیں پڑھ کرسناؤ‘‘ کیاگیاہے۔[17]

یہاں ضمنی طورپریہ بات بھی سامنے رہے کہ اس سلسلے میں جو روایت [18] بیان کی جاتی ہے، وہ اگراپنی تمام تفصیلات میں صحیح ہے تووہ بھی قرآن کے بیان کردہ اسی مفہوم کی روشنی میں کھل سکتی ہے۔وگرنہ اس کے بارے میں بہت سے سوالات سراٹھائے رکھتے ہیں ، جیسا کہ یہ سوال کہ آپ پروحی زبانی صورت میں اتری تھی یالکھی ہوئی صورت میں ؟آپ پڑھ لکھ سکتے تھے یاآپ پڑھنالکھنا بالکل نہ جانتے تھے؟جبریل کے بھینچنے سے اگر آپ میں پڑھنے کی صلاحیت پیداہوگئی تھی توکیااس واقعے کے بعدبھی یہ صلاحیت آپ میں موجودرہی تھی؟ اوراسی طرح کے مزیدسوالات۔مذکورہ تالیف کی روشنی میں اس روایت کا واضح مطلب اب یہ سامنے آتاہے کہ سیدنا جبریل نے جب لوگوں کے سامنے اس پیغام کوپڑھ کرسنادینے کے لیے کہاتوآپ نے’ما انا بقاري‘ کہہ کر اپنے ہمت وحوصلہ کے معاملے میں ایک عذرپیش کیا۔اس پر جبریل نے آپ کواپنے ساتھ لگا کر بھینچا تو اس کے نتیجے میں جس طرح آپ کواُن سے حد درجہ موانست پیداہوئی،اسی طرح اپنے کام کے لیے درکار ہمت اور حوصلہ بھی حاصل ہوگیا۔

قَالَ يٰ٘اٰدَمُ اَنْۣبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْﵐ فَلَمَّا٘ اَنْۣبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْﶈ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْ٘ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.(البقرہ۲ : ۳۳)


’’فرمایا:آدم ،تم اِن ہستیوں کے نام اِنھیں بتاؤ۔ پھر جب اُس نے اُن کا تعارف اُنھیں کرا دیا تو فرمایا: میں نے تم سے کہانہ تھاکہ میں آسمانوں اورزمین کے بھیدجانتاہوں ۔‘‘

اصل میں’اَنْۣبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں اوران کا رائج مطلب ہے کہ انھیں ان کے نام بتاؤ۔ بعض اوقات انھیں ایک خاص طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے اوراب ان کامطلب ’’نام بتادینے‘‘ سے بڑھ کر ’’تعارف کرادینے‘‘ کا ہو جاتا ہے۔ ہماری زبان میں بھی ان لفظوں کایہ خاص استعمال موجودہے،جیساکہ ہم کسی شخصیت سے متعارف ہوناچاہیں اور مجلس میں موجود اُس کے دوست سے کہیں : ’’بھئی، ان کا نام تو بتائیے۔‘‘ اس آیت میں بھی ان کا یہی مفہوم مرادہے اوردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس پر سیاق وسباق کی دلالت بھی بالکل واضح ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے اس استفسارکے جواب میں کہ جب انسان کوزمین کے اختیارات دیے جائیں گے تو وہ اس میں خون ریزی اورفساد کرے گا، حضرت آدم کواُن کی اپنی اولادمیں سے کچھ ہستیوں[19] کے نام بتائے ہیں اوراس کے بعدفرمایا ہے: ’يٰ٘اٰدَمُ اَنْۣبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ‘۔ آدم، انھیں بھی ان کاتعارف کراؤ۔ بلکہ ان الفاظ کا ترجمہ اگر’’ نام بتاؤ‘‘ کیا جائے تواس میں فرشتوں کے مذکورہ سوال کاکوئی جواب ملناتوبہت دورکی بات،مزیدیہ سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اگرنام صرف آدم کوبتائے تھے توفرشتوں سے اس کے بارے میں سوال کیوں پوچھا؟اور پھر آدم سے اُن کے سامنے یہ کیوں کہاکہ یہ نہیں بتا سکتے تو پھرتمھی یہ نام بتادو؟ ’’تعارف کراؤ‘‘ ترجمہ کریں تویہ تمام سوالات ختم ہوجاتے ہیں ۔فرشتوں کے ہاں انسان کواختیاردینے پرایک اندیشہ پیدا ہوا تھا، اس کے جواب میں خدانے آدم کواُن کی اپنی اولادمیں سے کچھ بزرگ اورمعتبرہستیوں کاتعارف کرایا اور اس کے بعد ان سے کہاکہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کرادیں تاکہ یہ بھی جان لیں کہ اگرانسانوں میں فسادی پیدا ہوں گے تواِنھی میں سے خدا پرست اور اُس کی حدود کالحاظ رکھنے والے بھی ضرورپیداہوں گے۔

۵۔فعل کے مختلف استعمالات

قرآن میں فعل سے متعلق بعض مفاہیم کواداکرنے کے لیے واضح طورپرکچھ الفاظ لائے جاتے ہیں ،جیساکہ حق ،ارادہ،زعم اوراستطاعت وغیرہ۔لیکن بعض اوقات فعل کواس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے اصل معنی میں یہ تفصیلات خودسے شامل ہو جاتی ہیں اورانھیں سمجھنے میں بھی فیصلہ کن حیثیت اُن کے سیاق وسباق کو حاصل ہوتی ہے۔ان استعمالات کی ہم ذیل میں کچھ مثالیں عرض کرتے ہیں ،جیساکہ مثال کے طورپر،فعل سے صرف اُس کامعنی نہیں ،بلکہ اُس کاحقیقی اورکامل معنی مرادہونا:

 يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا. (البقرہ ۲: ۱۰۴)
’’ایمان والو، (تم بارگاہِ رسالت میں بیٹھو تو) ’رَاعِنَا ‘ نہ کہا کرو،’انْظُرْنَا ‘ کہا کرو اور (جو کچھ کہا جائے، اُسے) توجہ سے سنو۔‘‘

اس سیاق میں مسلمانوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کے خلاف یہودکی شرارتوں کے بارے میں متنبہ کیا جارہاہے جو دل کی بھڑاس نکالنے اورآں حضرت کی توہین کرنے کے لیے وہ کیاکرتے تھے۔ان میں سے ایک شرارت یہ تھی کہ وہ ’رَاعِنَا‘کے لفظ کوجوکسی بات کودوبارہ سے سننے کے لیے بولا جاتا تھا،اس طرح سے ادا کرتے کہ اس کامعنی بالکل تبدیل ہوکررہ جاتا۔ چنانچہ زیر نظر آیت میں مسلمانوں کوہدایت کی گئی کہ وہ اول تو اسے چھوڑکردوسرالفظ اختیارکرلیں اوردوسرے یہ کہ ’وَاسْمَعُوْا‘۔وہ آپ کی بات کو بہت زیادہ توجہ سے سنیں تا کہ دوبارہ سننے کی سرے سے نوبت ہی نہ آئے۔گویا ’اسمعوا‘فعل کہ جس کاسادہ مطلب ’’سنو‘‘ ہے، یہاں اُس کی حقیقت مرادہے اوریہی وجہ ہے کہ”البیان“ میں ’’ توجہ سے سنو‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں ۔

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ.(البقرہ۲ : ۹۱)

’’اورجب ان سے اصرار کیا جاتا ہے کہ اُس چیز کو مان لوجواللہ نے اتاری ہے توجواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسے ہی مانتے ہیں جوہم پراتراہے اوراس طرح جو کچھ اُس کے علاوہ ہے،اُس کاصاف انکار دیتے ہیں ۔‘‘

 یہود کوقرآن مجیدکی طرف دعوت دی جاتی تووہ اس کے جواب میں کہتے کہ جہاں تک ماننے کی بات ہے توہم تورات کو مانتے ہی ہیں ۔ گویااُن کی مرادیہ ہوتی کہ وہ اس کے بعداب کسی اورکتاب کوماننااپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے ۔ظاہر ہے، ان کایہ کہنا تورات کے سوا ہرچیزکامکمل طورپرانکارکردینا تھا،چنانچہ انکارکے اس کامل مفہوم کالحاظ کرتے ہوئے ’ يَكْفُرُوْنَ ‘کاترجمہ ’’صاف انکارکردیتے ہیں ‘‘کیاگیاہے۔

وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ.(آل عمران ۳:  ۷۷)
’’اوراللہ قیامت کے دن نہ اُن سے بات کرے گا، نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گا اورنہ اُنھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا،بلکہ وہاں اُن کے لیے ایک دردناک سزاہے۔‘‘

جو لوگ خداکے عہداوراپنی قسموں کودنیاکی تھوڑی قیمت پربیچ دیتے ہیں ،یہ اصل میں آخرت کی بے توقیری اور خداکی بے قدری ہے۔چنانچہ ان کے پہلے رویے پرفرمایاہے :اُن کاآخرت میں کوئی حصہ نہیں اور دوسرے پر فرمایاہے کہ وہ اُس دن اُن سے بات نہ کرے گااورنہ اُن کی طرف دیکھے گا۔اب عمل اورجزاکی مشابہت کا اصول سامنے رہے توبالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ’يكلم ‘اور’ینظر‘ سے مراداِن افعال کے حقیقی اور کامل مفاہیم ہیں جنھیں”البیان“ میں یوں اداکیاگیاہے:’’نہ ان سے بات کرے گا،نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گا۔‘‘

کلام میں آنے والے افعال سے اُن کاابتدائی معنی مرادلینے کی مثال:

 وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا٘ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً.(البقرہ ۲: ۸۰ )
’’اور(یہ وہ لوگ ہیں کہ)اِنھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز نہ چھوئے گی، ہاں، گنتی کے چند دنوں کی تکلیف، البتہ ہو سکتی ہے۔‘‘

یہودکے لوگ کہاکرتے تھے کہ وہ خداکے چہیتے اورمحبوب ہیں ،اس لیے دوزخ میں نہیں جائیں گے۔اور بفرض محال ،جانا بھی پڑاتوکچھ دنوں کے بعدوہاں سے نکال لیے جائیں گے۔اُن کی اس بات پرنقد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انھوں نے کیااس بات کاخداسے کوئی عہدلے رکھاہے؟ اوراس کے بعداگلی آیتوں میں وہ قاعدہ بیان فرمایا ہے جس کے مطابق جرائم کامسلسل ارتکاب کرنے والوں کوابدی طورپرضروردوزخ میں رہنا ہے۔ اس سیاق میں دیکھاجائے توواضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ’قَالُوْا ‘سے مراد اُن کے زعم باطل کابیان ہے جواصل میں لفظ ’قول ‘کا بالکل ابتدائی مفہوم ہے اوراسی لیے اس کاترجمہ ان الفاظ میں کیاگیا ہے: ’’اِنھوں نے دعویٰ کیا ہے۔‘‘

 ذیل کی آیت فعل کے ابتدائی اوراُس کے کامل معنی ،دونوں کے لیے ایک اچھی مثال ہے:

 يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ.(النساء۴: ۱۳۶ )
’’ایمان والو،اللہ پرایمان لاؤاوراُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔‘‘

یہاں ’اٰمَنُوْا ‘ کا پہلا فعل اپنے ابتدائی اوردوسرااس کے کامل مفہوم میں استعمال ہواہے۔یعنی، اے لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو،تم بالکل ٹھیک طرح سے ایمان لاؤ۔

اسی طرح سیاق وسباق کی رعایت سے فعل میں بعض اوقات استطاعت کامفہوم شامل ہو جاتا ہے:

 وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا.(النساء۴: ۴۲)
’’اور وہاں وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپانہ سکیں گے۔‘‘

فرمایاہے کہ جو لوگ انکار پر اصرار کرتے رہے اورجنھوں نے رسول اللہ کی نافرمانی کی ہے،اُس دن تمناکریں گے کہ کاش زمین اُن پر اُن سمیت برابرکردی جائے ،مگر اُن کی یہ خواہش ہرگزپوری نہ ہوسکے گی ۔اسی طرح جب چاہیں گے کہ اپنے جرموں کو خداسے چھپا لیں تووہ ایسابھی ہرگز نہ کرسکیں گے۔سوموقع کلام اس بات پر دال ہے کہ’وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ‘ کے بظاہر سادہ الفاظ میں عدم استطاعت کامفہوم بالکل واضح طورپر موجود ہے۔

قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات فعل کواس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ اس میں ارادہ کامفہوم بھی آجاتاہے:

 اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ .(النمل ۲۷ : ۸۱)
’’تم صرف اُنھی کوسناسکتے ہوجوہماری آیتوں پر ایمان لاناچاہیں۔ پھر وہی فرماں برداربھی ہوں گے۔‘‘

پیچھے فرمایاہے کہ تم اندھے، بہرے او رمردہ صفت لوگوں کواپنی بات نہیں سناسکتے: ’اذا ولوا مدبرین‘۔ جب کہ وہ پیٹھ پھیرکربھاگے جارہے ہوں ۔اس کے بعدفرمایاہے کہ تم اُنھیں ہی سناسکتے ہو:’مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا‘۔سودیکھ لیا جاسکتاہے کہ پیٹھ پھیرنے والوں کے مقابلے میں یہ مان لینے والوں کا بیان ہواہے جس نے اس میں اِرادہ کامفہوم پیداکردیاہے اوراسی وجہ سے”البیان“ میں اس کا ترجمہ ان لفظوں میں کیا گیا ہے: ’’جو ہماری آیتوں پرایمان لاناچاہیں ۔‘‘

اسی طرح کسی بات کاارادہ اوراس کے بارے میں کوئی فیصلہ ظاہرکرناہوتوبعض اوقات اس کے لیے بھی سادہ فعل لایا جاتا ہے اوراس کے بعدیہ موقع کلام ہی ہوتاہے جواس کے اندر یہ زائدمفہوم پیداکردیتاہے:

 اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ. (البقرہ۲: ۶)

’’ اِس کے برخلاف جن لوگوں نے (اِس کتاب کو) نہ ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے، اُن کے لیے برابر ہے، تم اُنھیں خبردار کرو یا نہ کرو ،وہ نہ مانیں گے۔“

سیاق وسباق میں موجود چندچیزیں اگرسامنے رہیں تومعلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں ’الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘سے مراد وہی لوگ ہیں جنھوں نے انکارکرنے کاحتمی فیصلہ کررکھاہے۔اول، زیرنظرآیت میں ان کے بارے میں بتا دیا گیا ہے کہ ان پرختم قلوب کیا جاچکا ہے اورہم جانتے ہیں کہ یہ محض انکارپرنہیں ،بلکہ انکارپرمصرہوجانے والوں پر کیا جاتا ہے۔دوم،اس آیت سے پہلے اُن لوگوں کا ذکرکیاہے جوقرآن کی دعوت کومان لینے والے ہیں اوراس کے بعد اُن کا تذکرہ ہواہے جومصالحت پسندی کے پردے میں اس کا انکارکردینے والے ہیں ۔ظاہر ہے،یہاں کفرکرنے والوں سے مراداب وہی لوگ ہوسکتے ہیں جوکھلی مخالفت اورپورے دل کے ارادے سے انکارکردینے والے ہیں ۔سوم، آگے آنے والی تمثیل میں مذکورہ فریق کے بارے میں جوتبصرہ کیاگیاہے، یعنی یہ اندھے، بہرے اور گونگے ہیں اور ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے،وہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ یہ کفر پر اصرار کرنے والا فریق ہی ہیں ۔سو موقع کلام کی یہی دلالت ہے کہ ”البیان“ میں ’كَفَرُوْا ‘  کا ترجمہ محض ”نہ ماننا“ کرنے کے بجاے ”نہ ماننے کافیصلہ کرنا“  کیاگیاہے۔

وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا٘ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ. حَتّٰ٘ي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ. (الانبیاء ۲۱: ۹۵ - ۹۶)
’’ہم نے جس بستی والوں کے لیے (اپنے قانون کے مطابق) ہلاکت مقدر کر رکھی ہے، اُن کے لیے حرام ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کریں ،اِس لیے کہ وہ کبھی رجوع نہ کریں گے،یہاں تک کہ وہ وقت آجائے، جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑیں ۔‘‘

یہاں بھی ’اَهْلَكْنٰهَا‘   کامطلب ہلاک کردینانہیں ،بلکہ ہلاکت کافیصلہ کردیناہے کہ اس بات کو نہ ماننے کی صورت میں جس طرح کلام کے داخل میں ایک طرح کاتناقض اور تضاد پیدا ہو جاتا ہے ،اسی طرح ’حتی‘ سے بیان ہونے والی غایتیں بھی بے محل ہوکررہ جاتی ہیں ۔عام طورپرمترجمین اس میں پائے جانے والے فیصلہ کے مفہوم اوردیگر محذوفات کاادراک نہیں کرپائے ، اس لیے اُن کے ہاں ترجمے میں بہت زیادہ اضطراب واقع ہو گیا ہے اوروہ مجبور ہوگئے ہیں کہ ’حرام ‘ کا معنی واجب کریں ،یا ’ لَا ‘ کو زائد مانیں اور ’يَرْجِعُوْنَ ‘سے دنیا میں لوٹ آنا مراد لے لیں۔[20]

فعل اپنے نتیجے کے لحاظ سے بھی آتاہے اوراُس وقت بھی سیاق وسباق ہی اصل اورفیصلہ کن ٹھیرتاہے:

 وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِﶈ قَالُوْ٘ا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ .(البقرہ ۲ : ۱۱)
’’اورجب اِن سے کہا جاتا ہے کہ(اپنے اِس رویے سے) تم اِس سرزمین میں فساد نہ پیدا کرو تو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔‘‘

اس موقع پربیان ہواہے کہ بعض منافقین دورازکارتاویلات کاسہارالیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا انکارکرتے اوراپنے اس طرز کواصلا ح کی ایک کوشش قراردیتے تھے۔دراں حالیکہ،اُس وقت جب اُس سرزمین میں دینونت برپا کردی گئی تھی، آپ کی دعوت کاانکارکرنے کامطلب لوگوں کوجنگ وجدال پر آمادہ کرنااوراس طرح حرث ونسل کوبرباد کردینا تھا۔ چنانچہ انھیں جب یہ کہاجاتاکہ:’لَا تُفْسِدُوْا ‘۔ تویہاں ’فساد ‘ سے مراد اصل میں اس فعل کانتیجہ ہوتا،یعنی اس کامطلب ہوتاکہ تم جس رویے پرعامل ہو،اس کا لازمی نتیجہ فساد کی صورت میں نکل کررہے گا،اس لیے اس سے بچ کررہو۔

 یہ آیت بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے :

 يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.(الرحمٰن ۵۵ : ۲۹)
’’زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں ، سب (اپنی حاجتیں ) اُسی سے مانگتے ہیں ۔‘‘

اس میں بھی دیکھ لیاجاسکتاہے کہ’يَسْـَٔلُهٗ‘ سے مرادیہ نہیں ہے کہ سب لوگ خداہی سے مانگتے ہیں کہ یہ بات خلاف واقعہ بھی ہے اور اپنے سیاق وسباق سے بالکل بے جوڑبھی ۔ اسے اس کے نتیجے کے لحاظ سے استعمال کیاگیاہے کہ وہ جس سے بھی مانگیں ، آخر کار پاتے اُسی سے ہیں ۔اوریہ ایساہی اندازکلام ہے جیساکہ ہم دوسروں کے مقابلے میں باپ کی عنایتوں کوبیان کرناچاہیں اور کہیں کہ بچہ اپنے باپ ہی سے مانگتاہے۔مطلب ہوگاکہ اس کے تمام اخراجات کوئی اورنہیں ،بلکہ اس کاباپ ہی پورے کرتاہے۔

[باقی]


​____________

[15]۔ اس کی ایک مثال لفظ’النساء‘ بھی ہے جس کاجامع مفہوم عورت ہے۔اب اس سے مرادایک اجنبی عورت بھی ہو سکتی ہے اورکسی کی بیوی ،بیٹی اوراس کی ماں بھی۔ البقرہ۲: ۲۳۱، ۲۳۵۔ النساء ۴: ۳۔ الاعراف ۷: ۱۴۱۔ اور ایسا ہی معاملہ لفظ ’اٰية ‘   کابھی ہے۔

[16]۔ یاد رہے کہ ’’حدودکی پابندی کرنا‘‘اور’’انھیں پھلانگنے سے بچنا‘‘یہ اصل میں ایک ہی بات کو اداکرنے کے دو مختلف اسالیب ہیں۔

[17]۔ یادرہے’قراءة‘   کایہ خاص مفہوم اوربھی کئی مقامات پر آیاہے،جیساکہ الاعراف۷: ۲۰۴  اوربنی اسرائیل ۱۷: ۴۵ میں۔

[18]۔ صحیح بخاری،رقم ۳۔

[19]۔ ’اسما ‘پرالف لام عہدکاہے،اس لیے یہ کچھ خاص نام ہیں۔ان کے لیے بعدمیں جوضمیریں اوراشارے آئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاص نام ذوی العقول ہستیوں کے ہیں۔فرشتوں کے سوال اورآدم کے جواب میں مناسبت کا لحاظ رہے تومانناپڑتاہے کہ وہ خاص ہستیاں بہرحال،اولاد آدم میں سے ہیں۔

[20]۔ اگرارادے اورفیصلے کایہ مفہوم احاطۂ ادراک میں آجائے توبہت سی آیات آپ سے آپ واضح ہوجاتی ہیں،جیساکہ بچپن میں سیدنامسیح کایہ فرمانا کہ اللہ نے مجھے کتاب عطافرمائی اورمجھے نبی بنایاہے،اس کااصل مطلب ہوگاکہ اللہ نے مجھے کتاب دینے اورنبی بنانے کافیصلہ فرمایاہے (مریم۱۹ : ۳۰ ) ۔


____________

B