قرآن وسنت کے باہمی تعلق اور اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ائمۂ احناف کے نظریے پر خود ان کی زبانی کوئی تفصیلی بحث دست یاب ذخیرے میں امام ابوبکر الجصاص کی ’’الفصول فی الاصول‘‘ اور ’’احکام القرآن‘‘ سے پہلے نہیں ملتی۔ ائمۂ احناف سے اس موضوع پر حنفی مآخذ میں جو کچھ منقول ہے، ان کی نوعیت متفرق اقوال یا مختصر تبصروں کی ہے جن سے ان کا پورا اصولی تصور اور اس کا استدلال واضح نہیں ہوتا۔ تاہم تاریخی اہمیت کے پہلو سے ان کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ابو مقاتل حفص بن سلم السمرقندی نے امام ابو حنیفہ کا یہ قول روایت کیا ہے کہ:
فرد کل رجل یحدث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بخلاف القرآن لیس ردا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا تکذیبا لہ، ولکن رد علی من یحدث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالباطل، والتھمة دخلت علیہ لیس علی نبی اللہ علیہ السلام. (’العالم والمتعلم، ص ۲۵)
’’کسی بھی ایسے راوی کی روایت کو رد کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے خلاف روایت نقل کرتا ہو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرنا نہیں ہے اور نہ اس سے آپ کی تکذیب لازم آتی ہے۔ یہ تو اس شخص کی بات کو رد کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے باطل بات کو نقل کرتا ہے۔ اس میں مورد الزام وہ شخص ہے، نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
امام ابو یوسف لکھتے ہیں:
والروایة تزداد کثرة ویخرج منھا ما لا یعرف ولا یعرفہ اھل الفقہ ولا یوافق الکتاب ولا السنة، فایاک وشاذ الحدیث، وعلیک بما علیہ الجماعة من الحدیث وما یعرفہ الفقھاء وما یوافق الکتاب والسنة، فقس الاشیاء علی ذلک، فما خالف القرآن فلیس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وان جاء ت بہ الروایة ... فاجعل القرآن والسنة المعروفة لک اماما قائدا واتبع ذالک وقس علیہ ما یرد علیک مما لم یوضح لک فی القرآن والسنة.(الرد علی سیر الاوزاعی، ص ۳۱)
’’روایات بڑھتی جا رہی ہیں اور ان میں ایسی غیرمعروف روایات بھی سامنے آ رہی ہے جن سے نہ فقہا واقف ہیں اور نہ وہ کتاب اور سنت کے مطابق ہیں۔ اس لیے شاذ حدیثوں سے گریز کرو اور انھی حدیثوں کو اختیار کرو جو بہت سے راویوں سے منقول ہیں اور جنھیں فقہا جانتے ہیں اور جو کتاب اور سنت کے مطابق ہیں۔ اسی معیار پر روایات کو جانچو۔ جو بات قرآن کے خلاف ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہو سکتی، چاہے کسی روایت میں ایسا بیان ہوا ہو۔ … سو قرآن اور معلوم ومشہور سنت کو اپنا رہنما بناؤ اور انھی کی پیروی کرو اور جو باتیں قرآن اور سنت میں واضح نہیں کی گئیں، انھیں قرآن وسنت پر قیاس کرو۔‘‘
امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:
ما قلت بالمسح علی الخفین حتی وردت فیہ آثار اضوا من الشمس وعنہ: اخاف الکفر علی من لم یر المسح علی الخفین. (ملا علی القاری، فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ ۱/ ۱۲۱)
’’میں اس وقت تک مسح علی الخفین کا قائل نہیں ہوا جب تک اس کے متعلق سورج سے زیادہ روشن روایات میرے علم میں نہیں آ گئیں۔ امام ابوحنیفہ سے ہی منقول ہے کہ جو شخص مسح علی الخفین کو درست نہیں سمجھتا، مجھے اس پر کفر کا خوف ہے۔‘‘
اسی طرح امام ابویوسف کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ:
انما یجوز نسخ القرآن بالسنة اذا وردت کورود المسح علی الخفین فی الاستفاضة.(جصاص، احکام القرآن، ۲/ ۳۴۸ )
’’قرآن کے حکم میں سنت کے ذریعے سے تبدیلی کرنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جب سنت اس طرح شہرت کے ساتھ وارد ہوئی ہو جیسے مسح علی الخفین میں وارد ہوئی ہے۔‘‘
ان بیانات سے اصولی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ ائمۂ احناف شاذ اور غریب احادیث کو قرآن اور سنت پر جانچنے کے قائل تھے اور مشہور ومستفیض احادیث کے علاوہ نادر اور غریب احادیث کی بنا پر قرآن کے ظاہری حکم میں ترمیم وتغییر کو درست نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ امام عیسیٰ بن ابان سے اس ضمن میں ائمۂ احناف کی ترجمانی یوں منقول ہے:
واما اذا روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث خاص، وکان ظاھر معناہ بیان السنن والاحکام، اوکان ینقض سنة مجمعا علیھا او یخالف شیئا من ظاھر القرآن، فکان للحدیث وجہ ومعنی یحمل علیہ لا یخالف ذلک، حمل معناہ علی احسن وجوھہ واشبھہ بالسنن واوفقہ لظاھر القرآن، فان لم یکن معنی یحمل ذلک فھو شاذ.(الفصول فی الاصول ۱/ ۱۵۶)
’’اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خبر واحد روایت کی جائے اور ظاہری مفہوم کے لحاظ سے اس کا موضوع سنن اور احکام کا بیان ہو اور وہ کسی متفق علیہ سنت یا ظاہر قرآن کے خلاف ہو تو اگر تو حدیث کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کیا جا سکے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو اسے اس کے بہترین محمل پر محمول کیا جائے گا جو سنن کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو اور ظاہر قرآن کے بھی موافق ہو۔ لیکن اگر ایسے کسی مفہوم پر محمول کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی حدیث شاذ ہے۔‘‘
تاہم اس مواد سے متعین طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مثال کے طور پر مسح علی الخفین کو وہ کس مفہوم میں نسخ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ آیا وہ اسے قرآن کی مراد میں تغییر سمجھتے اور اس پہلو سے سنت کے مشہور ومستفیض ہونے کی شرط عائد کرتے ہیں یا اسے قرآن کی مراد ہی کی وضاحت تصور کرتے ہوئے صرف احتیاط کے پہلو سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری مفہوم کو غریب اور نادر احادیث کی بنیاد پر ترک نہ کیا جائے۔
امام محمد بن الحسن الشیبانی نے محرمات نکاح کی بحث میں قرآن مجید کی آیات کے ظاہری مفہوم پر سنت اور اجماع سے ثابت زیادات اور تخصیصات کا جس اسلوب میں ذکر کیا ہے، اس سے بھی مذکورہ نکتے پر زیادہ روشنی نہیں پڑتی، اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ ان زیادات وتخصیصات کو قرآن کی مراد کی وضاحت اور تبیین ہی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثا ل کے طور پر لکھتے ہیں:
فھذہ جملة فی تحریم ما نصہ اللہ تعالٰی من الصھر والنسب، لانہ بلغنا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال ’’یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’لا تنکح المراة علی عمتھا ولا علی خالتھا‘‘، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حدیث ابی قعیس لعائشة رضی اللہ عنھا ’’لیلج علیک، فانہ عمک‘‘ .(الاصل ۴/ ۳۵۷)
’’اللہ تعالیٰ نے جن صہری اور نسبی رشتوں کو حرام ٹھیرایا ہے، ان آیات میں ان کی اصولی وضاحت کی گئی ہے (تاہم یہ تمام تفصیلات پر مشتمل نہیں)، کیونکہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پہنچا ہے کہ رضاع سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی عورت کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ آپ نے ابو قعیس کے واقعے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اسے اپنے پاس آنے دو، کیونکہ وہ تمھارا چچا لگتا ہے۔‘‘
امام صاحب نے اس بحث میں محرمات سے متعلق قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت تمام جزئیات کو اس اسلوب میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں رشتے کو حرام قرار دیا ہے، جب کہ سنت نے یا اجماع نے فلاں کو بھی اس کے دائرے میں شمار کیا ہے، یعنی وہ قرآن میں بیان کردہ حکم اور سنت یا اجماع سے ثابت اضافات کا باہمی تعلق متعین نہیں کرتے جس کی وجہ سے ایک اصولی سوال کے حوالے سے ان کے زاویۂ نظر کی حتمی تعیین ممکن نہیں ہو پاتی۔
جہاں تک کسی خبر واحد کو قرآن سے متعارض ہونے کی بنا پر رد کرنے کا تعلق ہے تو ہمارے استقرا کی حد تک ائمۂ احناف سے اس کی صرف ایک مثال منقول ہے۔ یہ قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت تھی جس کا رد یا قبول حجازی اور عراقی فقہا کے مابین ایک اہم متنازع فیہ مسئلہ تھا۔ امام مالک، اہل مدینہ کے تعامل کی روشنی میں اس کے جواز کے قائل تھے، جب کہ فقہاے عراق اس طریقے کو فیصلے کا جائز طریقہ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس پر امام محمد نے بھی”الحجۃ علی اہل المدینۃ“ میں تفصیلی کلام کیا ہے اور امام شافعی نے بھی کتاب الام کے متعدد مقامات پر اس ضمن میں فقہاے عراق کے ساتھ اپنے علمی مجادلوں کی روداد نقل کی ہے۔ امام شافعی نے اس حوالے سے دو مسئلوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے جس میں عراقی فقہا اپنے موقف کے حق میں زور دار اور تفصیلی استدلال پیش کرتے تھے۔ ان میں سے ایک دوران نماز میں سہواً کلام کرنے سے نماز کے باطل ہونے یا نہ ہونے کا اور دوسرا مدعی کے پیش کردہ ایک گواہ کے ساتھ اس سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہے(الام ۲/۲۸۲)۔ اس پورے مواد سے، فقہاے عراق کے موقف کی تین بنیادی دلیلیں سامنے آتی ہیں:
ایک یہ کہ یہ طریقہ قرآن مجید کے بیان کردہ طریقے کے خلاف ہے، کیونکہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۲ سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو مردوں یا ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، جب کہ زیر بحث حدیث میں اس کے برخلاف ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے ایک قسم لے کر فیصلہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے (الاصل ۱۱/ ۵۰۵)۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ عراقی فقہا کے نزدیک اگرکوئی قاضی اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کے فیصلے کو فسخ کر دیا جائے گا، کیونکہ یہ طریقہ قرآن مجید کے خلاف ہے (الام ۸/ ۱۵۔ ۱۰/ ۲۹۰)۔ یہی بات ابن عبد البر نے امام محمد کا نام لے کر ذکر کی ہے (ابن عبد البر، الاستذکار ۲۲/ ۵۳)۔
دوسری یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرنے کا ایک عمومی اور معروف اصول یہ بیان کیا ہے کہ مدعی سے گواہ طلب کیا جائے اور مدعا علیہ سے قسم لی جائے۔ چنانچہ امام محمد، امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں مدعا علیہ کے بجاے مدعی سے حلف لینے کے قائل نہیں تھے، حتیٰ کہ اگر مدعا علیہ اس پر راضی ہو کہ مدعی کے قسم کھانے پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے، تب بھی ایسا کرنا درست نہیں ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کا استدلال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی کی ذمہ داری گواہ پیش کرنا اور مدعا علیہ کی ذمہ داری قسم کھانا بیان فرمائی ہے، اس لیے اس طریقے کے خلاف مدعی سے قسم نہیں لی جا سکتی (الاصل ۱۲/ ۱۳۲)۔
تیسری یہ کہ قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت سنداً کم زور اور ناقابل اعتماد ہے۔”الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ“ میں امام محمد کی بحث بنیادی طور پر اسی نکتے پر مرکوز ہے۔
اس ایک مثال کے علاوہ ہمیں ائمۂ احناف کی آرا میں کوئی ایسی انطباقی مثال نہیں ملتی جس میں انھوں نے خبرواحد کو قرآن سے متعارض ہونے کی بنا پر رد کیا ہو۔
حنفی ائمہ سے براہ راست منقول توضیحات کے علاوہ ان کے منہج کی تفہیم میں امام شافعی کے بیانات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں جو کتاب الام کے مختلف مباحث میں ملتے ہیں۔ امام شافعی کا اصل مطمح نظر تو فقہاے احناف کے نظریے کے بنیادی نکات کو بیان کر کے ان پر نقد کرنا ہے، تاہم اس کے ضمن میں انھوں نے حنفی فقہا کا منہج بھی متعین کیا ہے جس کی اپنی علمی قدر وقیمت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے کتاب الام کی ’’کتاب الدعویٰ والبینات‘‘ میں”الخلاف فی الیمین مع الشاھد“ کے زیر عنوان طویل بحث خاص طورپر اہم ہے جس میں امام شافعی نے قرآن کے ظاہری عموم سے استدلال کے حوالے سے حنفی فقہا کے انداز فکر پر اپنا نقد بے شمار مثالوں اور تفصیلی تجزیے کے ساتھ پیش کیا ہے۔
فقہاے احناف پر امام شافعی کی تنقید کے مقدمات حسب ذیل ہیں:
۱۔ احناف اصولی طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ سنت، اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو بیان کرتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی حکم ثابت ہو تو قرآن کی مراد اسی کی روشنی میں متعین کی جائے گی اور دونوں حکموں کو تعارض پر محمول نہیں کیا جائے گا۔
۲۔ احناف بہت سی مثالوں میں اس اصول کا عملی انطباق بھی کرتے ہیں، چنانچہ مسح علی الخفین، نصاب سرقہ، زنا کی سزا ، قاتل اور غیر مسلم کو وراثت سے محروم قرار دینے، قرض کی ادائیگی کو وصیت سے مقدم کرنے، حق وصیت کو ایک تہائی تک محدود کرنے، کچلی والے درندوں کے گوشت کی حرمت اور اس جیسے دیگر کئی مسائل میں وہ سنت سے ثابت احکام کو واجب الاتباع قرار دیتے ہیں، اگرچہ وہ بظاہر قرآن کے عموم کے خلاف ہیں (الام ۸/ ۵۲)۔
۳۔ احناف نے بعض مثالوں میں ایسی احادیث سے بھی قرآن کے ظاہر کی تخصیص کو قبول کیا ہے جنھیں صحت کے ساتھ صرف ایک صحابی نے نقل کیا ہے، جیسے پھوپھی اور بھتیجی سے بیک وقت نکاح کی ممانعت کے راوی صرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکوٰۃ واجب نہ ہونے کی روایت صرف ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے (الام ۳/ ۷۶۔ ۸/ ۴۸) ۔
۴۔ بعض مثالوں میں مختلف فیہ احادیث کو بھی احناف نے جواز تخصیص کی بنیاد مانا ہے، جیسے وارث کے حق میں وصیت کے عدم جواز کی روایت جو علماے حدیث کے نزدیک سنداً ثابت نہیں (الام ۸/۴۹)۔ اسی طرح احناف ایسی صورت میں جب شوہر محدود فی القذف ہو اور اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے، دونوں کے مابین لعان کے قائل نہیں، جب کہ اس ضمن میں عمرو بن شعیب کی نقل کردہ حدیث کمزور اور ناقابل استدلال ہے (الام ۸/ ۶۲)۔
۵۔ بعض مثالوں میں احناف نے حدیث کے بغیر، بعض صحابہ کے قول کی بنا پر ظاہر قرآن میں تخصیص کو قبول کیا ہے۔ مثلاً قرآن میں بیوی سے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دینے کی صورت میں اسے نصف مہر کی ادائیگی لازم قرار دی گئی ہے، لیکن احناف سیدنا عمر کے قول کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ خلوت صحیحہ کی صورت میں ہم بستری کے بغیر بھی پورا مہر ادا کرنا لازم ہوگا (الام ۸/۵۰)۔ اسی طرح حالت احرام میں قرآن نے عمداً جانور کا شکار کرنے پر کفارے کی ادائیگی لازم کی ہے، لیکن احناف عمر اور عبد الرحمٰن کے آثار کی روشنی میں غلطی سے جانور کو قتل کرنے والے پر بھی کفارہ لازم قرار دیتے ہیں (الام ۸/ ۵۳)۔
اس تمام مواد سے، جیسا کہ عرض کیا گیا، اس بحث میں ائمۂ احناف کا بنیادی اور اصولی رجحان اور ان کے منہج کے خط وخال کافی حد تک واضح ہو جاتے ہیں، تاہم ایک مفصل ومنضبط اصولی نظریے کی وضاحت اور بہت سے اہم اصولی سوالات کی تنقیح کی ضرورت باقی رہتی ہے جس کی پہلی باقاعدہ کوشش ہمیں امام ابوبکر الجصاص کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ ذیل میں ہم جصاص کی توضیحات کی روشنی میں حنفی فقہا کے اصولی موقف اور امام شافعی کے ساتھ اس کے اختلافی اور امتیازی نکات کی وضاحت کریں گے۔
امام شافعی نے سنت میں کتاب اللہ کی تبیین کی جو مختلف صورتیں ذکر کی ہیں، ان میں قرآن کے مجمل احکام کی تفصیل، قرآن کے حکم میں موجود مختلف احتمالات میں سے کسی ایک احتمال کی تعیین اور کتاب اللہ کے عام احکام کی تخصیص شامل ہیں۔ حنفی اصولیین، ان میں سے پہلی دونوں صورتوں کے حوالے سے امام شافعی سے اتفاق رکھتے ہیں اور ایسے امور میں حدیث میں وارد توضیحات کو مراد الہٰی کی تعیین میں فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔ البتہ تیسری صورت یعنی عموم کی تخصیص کے ضمن میں ان کا نقطۂ نظر امام شافعی سے مختلف ہے اور وہ اس صورت کو مزید ذیلی صورتوں میں تقسیم کرتے ہوئے مختلف حالتوں میں مختلف علمی اصولوں کی روشنی میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی توجیہ کرتے ہیں۔
امام ابوبکر الجصاص نے سنت میں قرآن کے محتملات کی توضیح کی متعدد مثالیں ذکر کی ہیں۔ مثلاً وضو میں بازوؤں کو دھونے کا حکم بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ’اِلَى الْمَرَافِقِ‘ (المائدہ ۵: ۶) کے الفاظ آئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ کہنیاں دھونے کے حکم میں شامل ہیں یا نہیں۔ چنانچہ یہ تعبیر محتاج وضاحت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کرنے کا طریقہ اس کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے (جصاص، شرح مختصر الطحاوی ۱/ ۳۲۴ - ۳۲۵)۔ اسی طرح تیمم کی آیت میں ’اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ‘ (النساء ۴: ۴۳) کے الفاظ باعتبار لغت یہ لفظ ہاتھ سے چھونے اور جماع کرنے کے دونوں معانی کو محتمل ہیں۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے اپنی ایک اہلیہ کو بوسہ دیا اور اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز ادا فرما لی۔ یوں آپ نے اپنے عمل سے واضح کر دیا کہ آیت میں ’لٰمَسْتُم ‘کا لفظ چھونے کے معنی میں نہیں، بلکہ ہم بستری کے معنی میں آیا ہے (احکام القرآن ۲/ ۳۷۰) ۔
کتاب اللہ میں کسی حکم کے مجملاً وارد ہونے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حکم پر عمل کے لیے مقدار کی تعیین کی ضرورت پیش آئے، لیکن قرآن نے اس کی وضاحت نہ کی ہو۔ مثلاً ’اٰتُوا الزَّكٰوةَ‘ میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ زکوٰۃ کی مقدار کیا ہے۔ اسی طرح وضو کے حکم میں ’بِرُءُوْسِكُمْ ‘(المائدہ ۵ : ۶) کے ساتھ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سر کے کتنے حصے پر مسح کرنا مطلوب ہے۔ یوں یہ دونوں حکم مجمل ہیں اور توضیح کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جو وضاحت کی، وہ مراد الہٰی کی تبیین کی حیثیت رکھتی ہے (احکام القرآن ۲/ ۳۴۳) ۔
جصاص کے مطابق کتاب اللہ میں مجمل احکام کی معروف ترین صورت وہ اصطلاحات ہیں جنھیں قرآن نے ان کے عام لغوی مفہوم سے نقل کر کے ایک بالکل نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً ’صلاة‘ کا لفظ عربی زبان میں دعا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، تاہم قرآن مجید میں’اقامت صلاة‘ کا حکم دیا گیا تو اس سے اس کا معروف لغوی معنی مراد نہیں تھا۔ اسی طرح ’زكاة‘ کا لفظ عربی میں بڑھوتری کے لیے، جب کہ ’صوم‘ کا لفظ کسی چیز سے رکنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن قرآن میں ’زكاة‘ کی ادائیگی اور ’صوم‘ کے اہتمام سے مراد یہ لغوی معانی نہیں ہیں (الفصول فی الاصول ۱/ ۶۷- ۶۸ )۔ یہی معاملہ حج کے لفظ کا ہے جو لغت میں کسی جگہ کا قصد کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن شرعی اصطلاح میں اسے ایک مفہوم کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے جو اس کے عام لغوی مفہوم سے مختلف ہے (احکام القرآن ۱/ ۹۶)۔ یوں یہ تمام الفاظ مجمل ہیں جو متکلم کی طرف سے اپنی مراد کی وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جو مفہوم واضح کیا، وہ ان کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ دونوں قسم کے شرعی مفاہیم کے لیے اصولیین ’’الاسماء الشرعیۃ‘‘ اور ’’الاسماء اللغویۃ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اگر قرآن کے الفاظ سے وہی مفہوم مراد ہو جو لغت سے واضح ہوتا ہے تو احناف کے ہاں ایسے الفاظ کے لیے المعانی اللغویۃ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ البتہ اگر ایسے قرائن ودلائل موجود ہوں جو یہ بتاتے ہوں کہ شارع نے اس لفظ کے مفہوم ومعنی میں سادہ لغوی یا عرفی مفہوم کے مقابلے میں کوئی تبدیلی کی ہے اور اسے گویا ایک شرعی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے تو ایسے الفاظ کے لیے احناف ’’الاسماء الشرعیۃ‘‘ کی تعبیر استعمال کرتے اور انھیں ’’مجمل مفتقر الی البیان‘‘ کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔
اس بحث میں جصاص کا ایک اہم اضافہ الاسماء الشرعیۃ کی ایک ذیلی قسم کا بیان ہے۔ جصاص کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ شارع، الفاظ کو ان کے لغوی مفہوم سے بالکل منقطع تو نہیں کرتا، تاہم ان کے اصل لغوی مفہوم کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے مفہوم میں کچھ ایسی مزید چیزیں شامل کر دیتا ہے جنھیں محض لغت کے علم کے ذریعے سے نہیں جانا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ’ربا‘ کا لفظ لغت میں کسی چیز پر زیادتی کے مفہوم میں آتا ہے، لیکن شریعت میں اس سے مراد مالی لین دین میں ایک خاص نوعیت کی زیادتی ہے جس پر لفظ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے دلالت نہیں کرتا۔ مثلاً اہل عرب سونے کے ساتھ سونے اور چاندی کے ساتھ چاندی کے ادھار تبادلے کو ’ربا‘ نہیں سمجھتے تھے، جب کہ شریعت میں اسے ’ربا‘ قرار دیا گیا ہے (احکام القرآن ۱/ ۴۶۴- ۴۶۵)۔ اسی طرح ’سرقہ‘ کا لغوی مفہوم اہل زبان کے نزدیک بالکل واضح ہے جو کسی مزید بیان کا محتاج نہیں۔ اب اگر آیت کے ظاہر پر عمل کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں بھی لغوی مفہوم کے لحاظ سے ’سرقہ‘ پایا جائے، وہاں ہاتھ کاٹنا لازم ہو، تاہم دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ قطع کا حکم صرف لغوی مفہوم پر مرتب نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ کچھ مزید قیود مثلاً حرز اور مقدار کا بھی اعتبار کیا گیا ہے۔ اس لیے مال مسروقہ کی مقدار کے پہلو سے یہ حکم مجمل ہے جو وضاحت اور بیان کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا محض لغوی مفہوم مراد نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مال مسروق کی قیمت ڈھال کے برابر ہونے کی قید لگائی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اس سے کم مقدار میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ جصاص لکھتے ہیں کہ اس کی وضاحت گویا آیت کا حصہ ہے اور آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ چو ر جب چوری کرے اور چوری شدہ مال کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دو (احکام القرآن ۲/ ۴۱۵) ۔
اس اضافے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے مذکورہ دونوں مثالوں یعنی ربا اور سرقہ کا تقابل امام شافعی کی توجیہ سے کرنا مناسب ہوگا۔ امام شافعی نے ان دونوں مثالوں کا ذکر اس صورت کے ضمن میں کیا ہے جب قرآن کا حکم عام ہو اور اس میں تخصیص کا بظاہر کوئی قرینہ موجود نہ ہو، لیکن سنت میں اس حکم کے حوالے سے کچھ تخصیصات وارد ہوئی ہوں۔ امام شافعی کے نزدیک ان تخصیصات کا کوئی ظاہری قرینہ قرآن میں موجود نہ ہونے کے باوجود انھیں اللہ تعالیٰ کی مراد کے طور پر قبول کرنا لازم ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد الہٰی کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں (الام ۱/ ۳۰ ،۷۳- ۷۴۔ ۴/ ۵۔ ۷/ ۳۱۹)۔
جصاص بھی ان تخصیصات کو قرآن کی تبیین قرار دیتے ہیں، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ امام شافعی کے نزدیک اصولی طور پر قرآن کا بیان واضح تھا اور مذکورہ تخصیصات سنت میں بیان نہ کی جاتیں تو قرآن کا ظاہری عموم ہی اللہ تعالیٰ کی مراد ہوتا، جب کہ جصاص کی توجیہ کے مطابق قرآن میں ربا اور سرقہ کا ظاہری لغوی مفہوم ابتداءً ہی مراد نہیں تھا، بلکہ انھیں الاسماء الشرعیۃ کے طور پر ایک اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا گیا تھا جو محتاج وضاحت تھیں، اس لیے سنت میں وارد توضیحات کی نوعیت، قرآن کے عموم کے تخصیص کی نہیں، بلکہ مجمل کی تبیین کی ہے۔
سنت کے ذریعے سے کتاب اللہ پر زیادت یا تخصیص سے متعلق امام شافعی کے موقف کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ سنت، کتاب اللہ کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی، اس لیے کہ پیغمبر کا منصب کتاب اللہ کی وضاحت ہے نہ کہ اس کے احکام میں ترمیم وتغییر کرنا۔ اس بنیادی موقف کی روشنی میں امام شافعی نے یہ قرار دیا ہے کہ سنت میں کتاب اللہ پر زیادت یا اس کی تخصیص کی تمام مثالیں، تبیین کی حیثیت رکھتی ہیں، چاہے تخصیص کا کوئی قرینہ قرآن کے حکم میں موجود ہو یا نہ ہو۔ چونکہ تخصیص وزیادت کی نوعیت تبیین کی ہے، اس لیے کتاب اللہ کی تخصیص کے لیے کسی حدیث کے صحیح ہونے کے علاوہ کوئی زائد شرط عائد کرنا درست نہیں۔
حنفی اصولیین نے ان تینوں نتائج فکر کے حوالے سے امام شافعی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے متبادل موقف پیش کیا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
امام شافعی کا موقف یہ ہے کہ سنت، کتاب اللہ کے احکام کو منسوخ نہیں کر سکتی، بلکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے اور اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ کلام الہٰی کی مراد کی تفصیل وتشریح کرے۔ امام صاحب نے سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے خلاف بنیادی استدلال یہ پیش کیا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ اس قرآن کو بدل دو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ تم ان سے یہ کہہ دو کہ ’مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيَّ ‘ (یونس ۱۰ : ۱۵)، یعنی ’’مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل ڈالوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
حنفی اصولیین نے امام شافعی کے اس موقف کو قبول نہیں کیا اور یہ قرار دیا کہ کتاب اور سنت، دونوں ایک دوسرے کے حکم کو منسوخ کر سکتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن اور سنت، دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے واجب الاتباع ہیں۔ چنانچہ جس طرح قرآن کی کسی آیت کو کسی دوسری آیت کے ذریعے سے منسوخ کیا جا سکتا ہے، اسی طرح سنت کے ذریعے سے بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ بھی اسی طرح وحی اور واجب الاتباع ہے جیسے قرآن کی آیت ہے۔ البتہ احناف یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ سنت میں بیان ہونے والا حکم ایسا ہونا چاہیے جو ہم تک خبر واحد کے طریقے سے نہیں، بلکہ خبر مشہور یا متواتر کے طریقے سے پہنچا ہو۔
ابوبکر الجصاص، امام شافعی کے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ استدلال فاسد ہے، کیونکہ سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم کی تنسیخ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا حق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے کسی بھی حکم میں تبدیلی کا فیصلہ وحی ہی کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ وحی قرآن ہی کی صورت میں ہو، بلکہ وہ سنت کی صورت میں بھی نازل کی جا سکتی ہے۔ گویا مذکورہ آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنی خواہش سے قرآن کے کسی حکم کو نہیں بدل سکتے۔ اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ اگر آپ کو قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے کوئی حکم دیا جائے تو وہ بھی قرآن کے کسی حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتا (الفصول فی الاصول ۲/ ۳۴۳ -۳۶۸)۔
اگر کلام میں بیان حکم کے لیے اسلوب عموم اختیار کیا گیا ہو اور بظاہر تخصیص کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو تو زاویۂ نگاہ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ امام شافعی اور حنفی اصولیین اس پر متفق ہیں کہ عموم کا یہ اسلوب کلام کی ایک مقصود دلالت ہے اور اس سے حکم کے عام ہونے پر استدلال کرنا درست ہے۔ البتہ اس نکتے کے بیان میں امام شافعی اور حنفی اصولیین کا انداز مختلف ہے۔ امام شافعی کا مدعا چونکہ حدیث سے غیر مشروط طور پر قرآن کے عموم کی تخصیص کا جواز ثابت کرنا ہے، اس لیے ان کا استدلال اس نکتے سے شروع ہوتا ہے کہ چونکہ عربی زبان کے اسالیب کے لحاظ سے عموم کا اسلوب بجاے خود ایک ایسا اسلوب ہے جو متعدد احتمالات رکھتا ہے، اس لیے الفاظ کے عموم سے حتمی طور پر یہ سمجھنا کہ عموم مراد بھی ہے، درست نہیں۔ امام صاحب اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سنت میں وارد تخصیصات کی نوعیت بھی قرآن کی مراد کی توضیح وتبیین ہی کی ہے اور انھیں تبدیلی یا نسخ سمجھنا درست نہیں۔ اس کے بعد وہ یہ نکتہ ثانوی طور پر بیان کرتے ہیں کہ اسلوب عموم کے اپنی دلالت میں قطعی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسلوب عموم کی سرے سے کوئی معنویت اور اہمیت ہی نہیں اور کسی بھی بنیاد پر حکم میں تخصیص پیداکی جا سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے، اور اگر خود قرآن کے اندر یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تخصیص کا کوئی قرینہ نہ ہو تو ایسے عموم کو محض امکانی احتمال کی بنیاد پر ظاہر سے صرف کرنا درست نہیں ہوگا۔
احناف چونکہ قرآن کے عموم کی تخصیص کو بعض شرائط سے مشروط کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ان کے استدلال میں نکات کی ترتیب الٹ جاتی ہے۔ ان کے نزدیک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عموم کا اسلوب ایک مستند اور واضح اسلوب ہے جسے حکم کا عموم بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا زبان کے عام اسالیب کا بھی حصہ ہے، قرآن و سنت میں بھی اس اسلوب کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور فقہاے صحابہ کے استدلالات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ظاہری عموم کے اسلوب کو حکم کے عام ہونے کی دلیل تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ظاہری عموم کو ہی متکلم کی مراد سمجھنا ضروری ہے، الاّ یہ کہ اس کے برخلاف قابل اعتماد نقلی یا عقلی قرائن موجود ہوں جو حکم کو ظاہری عموم سے صرف کرنے کا جواز بن سکتے ہوں۔
سنت میں قرآن کے عموم کی تخصیص کی جو مثالیں ثابت ہیں، امام شافعی ان کی دو صورتیں تسلیم کرتے ہیں۔ ایک وہ جن میں حکم کی تخصیص کے قرائن خود قرآن مجید میں موجود ہوتے ہیں اور سنت انھی اشارات، علل اور قرائن کی روشنی میں مراد الہٰی کی وضاحت کرتی ہے، اور دوسری وہ جن میں حکم کی تخصیص کا کوئی قرینہ بظاہر قرآن میں دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم ان دو صورتوں میں سنت میں وارد توضیحات کی نوعیت سے متعلق ان کا کہنا یہ ہے کہ انھیں غیر مشروط طور پر کتاب اللہ کی تبیین پر محمول کرنا اور اسی حیثیت سے انھیں قبول کرنا لازم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرنا نہیں، بلکہ آپ اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو واضح کرتے ہیں، چنانچہ ان تخصیصات وزیادات کو بھی جن کا کوئی ظاہری قرینہ قرآن میں موجود نہیں، نسخ اور تغییر کے بجاے تبیین وتوضیح ہی کی مثال تسلیم کرنا لازم ہے۔
حنفی اصولیین امام شافعی کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ان دونوں نوعیت کے احکام کا اصولی حکم الگ الگ متعین کرتے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کے جو احکام بظاہر عام ہیں، لیکن عموم پر ان کی دلالت قطعی اور حتمی نہیں، بلکہ وہ توضیح وتفصیل کا احتمال رکھتے ہیں، ان سے متعلق سنت میں کسی دلیل مخصص کا وارد ہونا اس بات کی وضاحت ہوتا ہے کہ صیغہ عام سے تمام افراد نہیں، بلکہ بعض افراد مراد ہیں۔ گویا اس نوع کی تخصیص، نسخ کی نہیں، بلکہ بیان ہی کی قبیل سے ہے (الفصول فی الاصول ۱/ ۱۴۲۔ ۲/ ۲۲، ۲۷) ۔
مثلاً قرآن مجید میں غیر مسلم معاہدین کے ساتھ بر وقسط کا حکم دیا گیا ہے (الممتحنہ ۶۰ :۸)۔ صدقہ وخیرات دینا بھی بر وقسط کی ایک صورت ہے، چنانچہ جصاص لکھتے ہیں کہ ظاہر کے لحاظ سے یہ آیت اہل ذمہ کو صدقات دیے جانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ان صدقات (یعنی زکوٰۃ) کو مستثنیٰ کردیا ہے جن کی وصولی مسلمان حکمران کا اختیار ہے، چنانچہ زکوٰۃ غیر مسلموں کو نہیں دی جا سکتی (احکام القرآن ۱/۴۶۱)۔ اسی طرح قرآن مجید میں مال غنیمت کے متعلق یہ عمومی ہدایت دی گئی ہے کہ اس کا پانچواں حصہ مخصوص مصارف کے لیے الگ کر کے باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دیے جائیں (الانفال ۸ : ۴۱)۔ اگر اس آیت کے ظاہری مفہوم کو دیکھا جائے تو جنگ کے نتیجے میں فتح ہونے والی اراضی کا حکم بھی یہی بنتا ہے کہ ان کا خمس نکال کر باقی زمینیں مجاہدین میں تقسیم کر دی جائیں، لیکن چونکہ متواتر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر مفتوحہ زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجاے سابقہ مالکوں کی ملکیت کو برقرار رکھا، اس لیے اس تخصیص کو آیت کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ حکمران کو مفتوحہ زمینوں کے متعلق مذکورہ دونوں اختیار حاصل ہیں (شرح مختصر الطحاوی ۷/ ۶۹) ۔
مذکورہ مثالوں میں چونکہ قرآن کے بیان کی دلالت قطعی اور صریح نہیں، اس لیے فقہاے احناف نے خبرواحد کے ذریعے سے اس کے ظاہری مفہوم کی تخصیص کو قبول کیا ہے۔
تاہم جو احکام اپنے مفہوم اور دلالت میں بالکل واضح ہیں اور مزید کسی تشریح وتبیین کا احتمال نہیں رکھتے اور بظاہر کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو اس پر دلالت کرتا ہو کہ یہاں عموم مراد نہیں تو ان سے متعلق سنت میں وارد تخصیص کو ’’تبیین‘‘ قرار دینے سے پہلے ایک مزید پہلو کا جائزہ لینا ہوگا اور وہ یہ ہے کہ کیا اس تخصیص کی وضاحت اصل حکم کے ساتھ ہی بیان کر دی گئی ہے یا زمانی وقفے کے بعد ایک مستقل حکم کی حیثیت سے بیان کی گئی ہے؟پہلی صورت میں اس کی حیثیت تبیین کی ہوگی، لیکن دوسری صورت میں اسے تبیین قرار دینا ممکن نہیں، اسے لامحالہ ’’تغییر‘‘ اور ’’نسخ‘‘ قرار دیا جائے گا۔
اپنے اس موقف کی توضیح میں حنفی اصولیین یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ کسی حکم میں شامل ضروری تخصیصات و تقییدات کی وضاحت اصل حکم کے ساتھ ضروری ہے، ورنہ یہ ماننا لازم آئے گا کہ شارع نے بیان اور وضاحت کو اس وقت سے موخر کر دیا جب اس کی ضرورت تھی اور یہ بات درست نہیں ہو سکتی۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں کہ اگر قرآن کا بیان بذات خود واضح ہو اور کسی خارجی توضیح وتشریح کا محتاج نہ ہو، جب کہ روایت قرآن کے حکم کی تحدید یا اس میں کوئی اضافہ کر رہی ہو تو پھر اس امکان پر غور کیا جائے گا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ وضاحت آیت کے نزول کے موقع پر ہی فرما دی تھی؟ یعنی کیا حکم الہٰی کے ابلاغ کے ساتھ ہی آپ نے اس کی وضاحت بھی کر دی تھی جس سے سننے والوں کو معلوم ہو گیا کہ اصل حکم کے دائرۂ اطلاق میں فلاں اور فلاں صورتیں شامل نہیں؟ اگر یہ فرض کرنا ممکن ہو کہ دلیل مخصص، زمانی لحاظ سے حکم عموم کے مقارن ہے، یعنی شارع نے عین اسی وقت میں حکم کے خصوص کی وضاحت کر دی تھی تو یہ صورت ’’بیان‘‘ کے قبیل سے ہوگی، لیکن اگر آیت اپنے ظاہری عموم کے لحاظ سے لوگوں کو سنا دی گئی ہو اور لوگوں نے اس کے ظاہر سے حکم کا عام ہونا سمجھ لیا ہو اور پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا ہو کہ فلاں اور فلاں صورتیں اس سے خارج ہیں تو اسے ’’بیان‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ احناف کا کہنا ہے کہ اگر حکم عموم بیان کرنے کے ساتھ متصلاً وضاحت نہ کی جائے، بلکہ اس کے ابلاغ اور استقرار کے کچھ عرصے کے بعد اس میں تخصیص کی جائے تو یہ بیان نہیں ہے، بلکہ اس طرح کی تمام تخصیصات، تقییدات اور زیادات کو نسخ کا عنوان دیا جائے گا، کیونکہ عقلاً یہ جائز نہیں کہ شارع کی مراد کسی حکم میں عموم کے بجاے خصوص ہو، لیکن وہ برسر موقع اس کی وضاحت کرنے کے بجاے لوگوں کو یہ سمجھنے دے کہ اس حکم سے عموم مراد ہے، حالاں کہ وہ مراد نہ ہو (احکام القرآن ۲/ ۱۳۵)۔
جصاص نے تخصیص کی وضاحت کرنے والی حدیث کو زمانی لحاظ سے مقارن فرض کرنے کے لیے یہ شرط بھی بیان کی ہے کہ وہ شہرت واستفاضہ سے منقول ہو، کیونکہ خبر واحد سے منقول ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ تخصیص آیت کے ساتھ نہیں، بلکہ بعد میں کسی موقع پر بیان کی گئی۔
مثلاً قرآن مجید نے محرمات کی ایک فہرست بیان کی ہے جس میں جمع بین الاختین کا بھی ذکر ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مذکورہ حرمتوں کے علاوہ باقی تمام عورتوں سے نکاح تمھارے لیے حلال ٹھیرایا گیا ہے (النساء ۴: ۲۳ - ۲۴)۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی عورت کو اس کی بھتیجی یا بھانجی کے ساتھ بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع نہیں کیا جا سکتا (بخاری، رقم ۵۱۰۸) ۔
جصاص لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت یا تو آیت کے ساتھ ہی فرما دی ہوگی یا پھر بعد میں کسی موقع پر۔ اگر آپ کا یہ ارشاد اسی موقع کا ہے جس پر آیت نازل ہوئی تھی تو اس کی حیثیت آیت کے بیان کی ہوگی۔ گویا حکم الٰہی کے ابلاغ کے ساتھ ہی آپ نے اس کی وضاحت بھی کر دی جس سے سننے والوں کو معلوم ہو گیا کہ ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ میں پھوپھی اور خالہ شامل نہیں۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ آیت اپنے ظاہری عموم کے لحاظ سے لوگوں کو سنا دی گئی ہو اور لوگوں نے اس کے ظاہر سے جمع بین العمۃ والخالۃ کی حلت سمجھی ہو اور پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا ہو کہ یہ ممنوع ہے۔ ایسی صورت میں یہ نسخ ہوگا۔ بہر دو صورت، یہ حدیث چونکہ متواتر ومستفیض ہے اور علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے، اس لیے اس کے ذریعے سے آیت کا نسخ، یعنی جزوی تخصیص جائز ہے (احکام القرآن ۲/ ۱۳۵) ۔
اگر شارع نے کوئی حکم عموم کے صیغے سے بیان کیا ہو ، لیکن قابل اعتماد دلائل وقرائن سے یہ واضح ہو جائے کہ اس کا ظاہری عموم متکلم کی مراد نہیں تو ایسے ظاہری عموم کی تخصیص بالاتفاق خبر واحد کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے۔ فقہاے احناف کے نزدیک قابل اعتماد دلائل میں عقلی قرائن اور لفظ کے محتمل ہونے کے علاوہ ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ ظاہری عموم کے مراد نہ ہونے پر علماے سلف کا اتفاق ہو یا ان کے مابین اجتہادی اختلاف واقع ہوا ہو اور انھوں نے اس اختلاف پر کوئی نکیر نہ کر کے یہ واضح کر دیا ہو کہ زیر بحث نص میں عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں (الفصول فی الاصول ۱/ ۷۴)۔
اس کی مثال قرآن کی وہ آیت ہے جس میں خورونوش میں حرمت کو چار چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے۔ اس کا ظاہری مفہوم مراد نہ ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے، کیونکہ تمام فقہا کے نزدیک کچھ ایسے جانور بھی حرام ہیں جن کا آیت میں ذکر نہیں، مثلاً شراب اور بندر کا گوشت وغیرہ۔ مزید یہ کہ اس آیت کے متعلق صحابہ کا باہمی اختلاف ہوا اور بعض نے اس سے ظاہری عموم سمجھا اور بعض نے خصوص، لیکن کسی نے دوسرے پرنکیر نہیں کی۔ چنانچہ ایسی آیت کی تخصیص خبر واحد سے کی جا سکتی ہے (الفصول فی الاصول ۱/ ۱۸۱- ۱۸۲) ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ماں باپ اور اولاد کے مطلقاً ایک دوسرے کے وارث بننے کا ذکر ہے (النساء ۴: ۱۱)، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں تخصیص کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان، کافر کا وارث نہیں بنے گا (بخاری، رقم ۶۷۶۴)۔ نیز فرمایا کہ جو شخص (اپنے مورث کو) قتل کر دے، وہ بھی وراثت میں حصہ نہیں پائے گا (ابن ماجہ، رقم ۲۶۴۵)۔ جصاص لکھتے ہیں کہ وراثت کی آیت کا عموم باتفاق فقہا مراد نہیں، اس لیے اس کی تخصیص خبر واحد سے کرنا درست ہے (احکام القرآن ۲/ ۱۰۲) ۔
قرآن مجید میں چور کی سزا مطلقاً یہ بیان ہوئی ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں (المائدہ ۵: ۳۸ )، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چوتھائی دینار سے کم مالیت کی چیز چرانے پر بھی چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے (مسلم، رقم ۱۶۸۴)۔ اسی طرح غیر محفوظ جگہ سے کی گئی چوری کو بھی قطع ید سے مستثنیٰ قرار دیا (ابی داؤد، رقم ۴۳۹۰) ۔ نیز فرمایا کہ درختوں سے پھل وغیرہ اتارنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (ابن ماجہ، رقم ۲۵۹۳)۔ احناف کا کہنا ہے کہ یہاں قرآن کی آیت کا عموم مراد نہ ہونا سلف کے اتفاق سے ثابت ہے اور ایسی آیت کی تخصیص اخبار آحاد سے کی جا سکتی ہے (الفصول فی الاصول ۱/ ۱۸۵) ۔
اس بحث میں امام شافعی بھی علماے سلف کے فہم کو ایک دلیل کے طور پر قبول کرتے ہیں، تاہم وہ اسے ان کے اجماعی اور متفقہ فہم تک محدود رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کے اقوال سے ظاہری عموم کو خصوص پر محمول کرنا ثابت ہو یا اہل علم کا اجماعی فہم یہ بتاتا ہو کہ قرآن کا ظاہری معنی یا ظاہری عموم مراد نہیں تو اس تفسیر کو قبول کرنا لازم ہے (الام ۶/ ۲۸۰۔ ۷/۱۶۰- ۱۶۱)۔ اہل علم کے مابین اختلاف کی صورت میں امام شافعی کے نزدیک قرآن کا ظاہری عموم ہی واجب الاتباع ہوتا ہے (الام ۸/ ۵۵)۔
حنفی اصولیین کا یہ موقف بھی ہے کہ اگر یہ واضح ہو جائے کہ کسی حکم میں ظاہری عموم مراد نہیں، خاص طور پر جب اس میں ایک دفعہ کسی یقینی دلیل سے تخصیص ثابت ہو چکی ہو، تو پھر نہ صرف خبر واحد، بلکہ قیاس کی بنیاد پر بھی اس کی مزید تخصیص کی جا سکتی ہے۔ امام شافعی کے ہاں بھی بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں وہ نصوص میں مذکور دیگر احکام پر قیاس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کے حکم میں عموم سے خصوص مراد ہے۔ مثلاً قرآن میں طلاق اور عدت کی آیات سے متعلق امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ احکام اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں کہ ان سے مراد عموم ہو اور آزاد مردوں اور عورتوں کے ساتھ غلاموں اور باندیوں کے لیے بھی یہی حکم ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کا اطلاق صرف آزاد مرد وعورت پر مقصود ہو۔ چونکہ شریعت کے بہت سے دیگر احکام میں آزاد اور غلام میں فرق کیا گیا ہے، مثلاً غلاموں کی سزا آزاد مرد وعورت سے نصف مقرر کی گئی ہے، غلاموں کی گواہی قابل قبول نہیں اور وہ ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے وراثت کے حق دار بھی نہیں، نیز شادی شدہ غلام کو بدکاری کرنے پر سنگ سار نہ کرنے پر بھی اجماع ہے، اس لیے ان تمام دلائل پر قیاس کرتے ہوئے اہل علم کا اجماع ہے کہ باندی کی طلاقوں کی تعداد اور عدت کا دورانیہ بھی آزاد عورت سے نصف، یعنی دو طلاقیں اور دو ماہواریاں ہے (الام ۶/۵۵۰- ۵۵۱)۔ تاہم اس مثال میں جس حکم، یعنی طلاقوں کی تعداد اور عدت کا دورانیہ نصف ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ صرف قیاسی دلیل پر مبنی نہیں، بلکہ اس پر اجماع بھی ہے، اس لیے اس سے یہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ امام شافعی محض قیاس کی بنیاد پر بھی عموم متحمل کی تخصیص کو جائز سمجھتے ہوں۔
امام شافعی اور حنفی اصولیین کے مابین اختلاف کا ایک بنیادی اور اہم نکتہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک قطعی ذریعے سے ثابت حکم میں نسخ ثابت کرنے کے لیے ظنی دلیل کافی نہیں، بلکہ یقینی دلیل درکار ہے۔ چنانچہ امام شافعی ہر خبر واحد سے جو صحت کے شرائط پر پورا اترتی ہو، قرآن کے حکم میں تخصیص یا اس پر زیادت کے جواز کے قائل ہیں، جب کہ فقہاے احناف علی الاطلاق اس کے جواز کے قائل نہیں، بلکہ اس ضمن میں مخصوص شرائط عائد کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ایسے کسی بھی حکم کی تخصیص کے لیے ضروری ہے کہ جس حدیث کی بنیاد پر تخصیص کی جا رہی ہے، وہ خبر واحد نہیں، بلکہ مشہور ومستفیض حدیث ہو یا اگر خبر واحد ہو تو اسے فقہا کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو (الفصول فی الاصول ۱/ ۷۴)۔ تخصیص وتقیید کی طرح احناف قرآن کے حکم میں کسی زیادت یعنی اضافے کو بھی ’’تغییر‘‘ اور جزوی نسخ کی ایک صورت قرار دیتے ہیں اور اخبار آحاد سے قرآن پر زیادت کے لیے وہی شرائط عائد کرتے ہیں جو تخصیص وتقیید کی صورت میں عائد کی جاتی ہیں۔
اس اصول کی روشنی میں فقہاے احناف نے بہت سی اخبار آحاد کی بنیاد پر قرآن کے حکم میں تخصیص و زیادت کو قبول کیا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں مرنے والے کے لیے اپنے مال میں وصیت کرنے کا حق بیان کیا گیا ہے اور اس کی مقدار کے حوالے سے کوئی تحدید بیان نہیں کی گئی ( النساء ۴: ۱۱ )، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعے میں اس حق کو ترکے کے ایک تہائی تک محدود کر دیا (بخاری، رقم ۲۷۴۴)۔ جصاص لکھتے ہیں کہ یہ روایت شہرت و استفاضہ کی بنا پر ہمارے نزدیک متواتر کے درجے میں ہے اور فقہا کے ہاں بھی اسے تلقی بالقبول حاصل ہے اور ایسی روایت جو علم وعمل کے وجوب کے لحاظ سے قرآن کی آیات کے ہم پلہ ہو، اس کے ذریعے سے قرآن کے حکم کو منسوخ کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے (احکام القرآن ۱/ ۱۶۵- ۱۶۶) ۔
اس کی ایک اور مثال قرآن مجید کا یہ بظاہر مطلق حکم ہے کہ میت کا ترکہ ورثا میں تقسیم کرنے سے پہلے اس کی وصیت پوری کرنا لازم ہے (النساء ۴: ۱۱)، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی (ابی داؤد، رقم ۲۸۷۰)۔ جصاص لکھتے ہیں کہ فقہا نے اس حدیث پر عمل کیا ہے اور اسے ان کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے اور جو اخبار آحاد فقہا کے ہاں تلقی بالقبول حاصل کر لیں، وہ درجے اور قوت میں متواتر روایت کے برابر ہو جاتی ہیں، ا س لیے مذکورہ روایت کے ذریعے سے قرآن کی آیت کی تخصیص جائز ہے (احکام القرآن ۱/ ۳۷) ۔
قرآن مجید میں شوہر کے لیے بیوی کو طلاق دینے کا اختیار تین مرتبہ تک بیان کیا گیا ہے (البقرہ ۲: ۲۲۹- ۲۳۰)۔ اسی طرح مطلقہ کے لیے تین ماہواریوں کی عدت لازم کی گئی ہے (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔ تاہم احادیث میں بیان ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باندی کی طلاق کو دو تک اور عدت کو دو ماہواریوں تک محدود قرار دیا (ابن ماجہ، رقم ۲۰۷۹)۔ جصاص لکھتے ہیں کہ یہ روایت اگرچہ بطریق آحاد نقل ہوئی ہے، لیکن امت کے اہل علم نے اسے بالاتفاق قبول کیا ہے جس کی بدولت یہ متواتر کے درجے میں آ گئی ہے اور اس سے قرآن کے حکم کی تخصیص جائز ہے (احکام القرآن ۱/ ۳۸۶) ۔
اگر سنت میں وارد تخصیص یا زیادت کو کتاب اللہ کی تبیین قرار نہ دیا جا سکتا ہو اور مطلوبہ شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے حدیث سے کتاب اللہ کے حکم کو منسوخ کرنا بھی ممکن ہو تو خبر واحد کو قوی تر دلیل کے معارض ہونے کے اصول پر رد کرنے سے پہلے حنفی اہل علم رفع تعارض اور تطبیق کے دو امکانات کو بروے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
قرآن اور حدیث کے ظاہری تعارض کی صورت میں تطبیق کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ حدیث کو اس کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے قبول کرنے کے بجاے اس کی ایسی تاویل کی جائے جس سے وہ قرآن کے مطابق ہو جائے۔
مثلاً بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرماتے ہوئے سر پر رکھے ہوئے عمامہ کو کھولنے کے بجاے اس کے اوپر ہی مسح کر لیا (بخاری، رقم ۲۰۵۔ ابی داؤد، رقم ۱۵۰)۔ فقہاے احناف اور جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سر پر مسح کرنے کاحکم دیا ہے، جب کہ پگڑی یا کپڑے پر مسح کرنے کو سر کامسح نہیں کہا جا سکتا، اس لیے سر کے بالوں کے جتنے حصے کا مسح فرض ہے، وہ بالوں پر ہی کرنا ضروری ہے اور اس کے خلاف کوئی روایت کتاب اللہ کے معارض ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی جا سکتی، البتہ روایت کو اس پر محمول کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کے بقدر سر پر مسح کرنے کے بعد پورے سر پر مسح کرنے کی سنت پگڑی یا کپڑے پر مسح کرکے اد ا فرما لی ہوگی (ابن نجیم، البحر الرائق ۱/ ۱۹۳)۔
متعدد واقعات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح میں مال کے علاوہ کچھ دوسری چیزوں مثلاً قرآن کی تعلیم دینے، خاتون کو آزاد کر دینے یا اس کی طرف سے بدل کتابت ادا کر دینے وغیرہ کو مہر وغیرہ مقرر کر دینا ثابت ہے (بخاری، رقم ۵۰۸۶ - ۵۰۸۷۔ ابی داؤد، رقم ۳۹۳۱)۔ فقہاے احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں مہر کا ذکر کرتے ہوئے ’اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں (النساء ۴: ۲۴) جن کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کے طور پر کوئی ایسی چیز ہی دی جا سکتی ہے جس کو ’’مال‘‘ کہا جا سکتا ہو۔ احناف اس کی روشنی میں مذکورہ روایت کی مختلف تاویلات کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ تعلیم قرآن کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ چونکہ تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے، اس لیے میں (مہر کی رقم نہ ہونے کے باوجود) اس عورت کا نکاح تمھارے ساتھ کر رہا ہوں۔ رہا مہر کا معاملہ تو احناف کے نقطۂ نظر کے مطابق اس کی ادائیگی استطاعت ہونے پر اس آدمی کے ذمے لازم رہی (القدوری، التجرید ۹/ ۴۶۳۰)۔ اسی طرح ایک واقعے میں عورت نے اپنے آپ کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کیا تھا اور اپنا معاملہ آپ کے سپرد کردیا تھا۔ چونکہ قرآن میں آپ کو مہر کے بغیر نکاح کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے، اس لیے آپ نے اس اختیار کے تحت اس کا نکاح بغیر مہر کے ایک دوسرے خواہش مند کے ساتھ کر دیا (الطحاوی، شرح معانی الآثار ۳ /۱۸- ۱۹)۔ بعض امہات المومنین کے آزاد کرنے کو ان کا مہر قرار دیے جانے کی توجیہ بھی احناف نے اسی تناظر میں کی ہے اور ان کی راے میں امہات المومنین کو آزاد کرنے کو ان کا مہر قرار دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔ چونکہ آپ پر سرے سے مہر ادا کرنا ہی لازم نہیں تھا، اس لیے آپ جیسے بغیر مہر کے نکاح کر سکتے تھے، اسی طرح مہر میں کوئی ایسی چیز بھی دے سکتے تھے جو مال نہ ہو (شرح معانی الآثار ۳/ ۲۰، ۲۲) ۔
بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے سرپرست کی رضامندی کے بغیر ازخود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور اگر کوئی عورت ایسا کرے تو اس کا نکاح باطل ہوگا (ترمذی، رقم ۱۱۰۱- ۱۱۰۲)۔
حنفی فقہا اس روایت کو ظاہر کے اعتبار سے قرآن مجید کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے نکاح کے احکام کا ذکر کرتے ہوئے علی العموم اس کی نسبت خود عورت کی طرف کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نکاح کرنے کو اصلاً عورت کا حق سمجھتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد عورت جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ روایات کو ظاہری مفہوم کے لحاظ سے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ حنفی فقہا زیربحث روایات کی ایک ممکنہ تاویل یہ بیان کرتے ہیں کہ ان میں باندیوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے بارے میں خود قرآن مجید نے تصریح کی ہے کہ وہ اپنا نکاح اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتیں اور اگر کوئی شخص کسی باندی سے نکاح کرنا چاہے تو اس کے مالک کی رضامندی ضروری ہے (النساء ۴: ۲۵)۔ یوں ان روایات کو آزاد خواتین کے بجاے باندیوں سے متعلق قرار دیا جائے تو وہ قرآن کے مطابق ہو جاتی ہیں (احکام القرآن ۱/ ۴۰۰۔ ۲/ ۵۳)۔
اسی نوعیت کی ایک معروف مثال وہ حدیث ہے جس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جانور کے پیٹ میں اگر بچہ ہو تو اس کی ماں کا ذبح کیا جانا بچے کے حلال ہونے کے لیے کافی ہے (ابی داؤد، رقم ۲۸۲۸)۔ یعنی جانور کے پیٹ سے اگر بچہ نکل آئے تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے اور اس کی ماں کا ذبح کر دیا جانا پیٹ میں موجود بچے کے لیے بھی ذبح کا حکم رکھتا ہے۔ تاہم فقہاے احناف کے نزدیک ایسے جانور کا حکم مردار کا ہے جو قرآن مجید کی رو سے حرام ہے۔ چنانچہ وہ زیر بحث حدیث کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ اس میں مادہ جانور کے ذبح کیے جانے کو اس کے پیٹ میں موجود بچے کی حلت کے لیے کافی قرار نہیں دیا گیا، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ بچے کوبھی اس کی ماں ہی کی طرح ذبح کرنا ضروری ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عربی زبان کی رو سے ’ذكاة الجنين ذكاة امة‘ کے جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے کے لیے اس کی ماں کا ذبح کیا جانا ہی کافی ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے کو بھی اسی طرح ذبح کیا جائے جیسے اس کی ماں کو کیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن کی نص کی رو سے ماں کے پیٹ سے مردہ نکلنے والا بچہ ’ميتة‘ ہے، اس لیے حدیث کو اس مفہوم پر محمول کیا جائے گا جو قرآن کے موافق ہو (احکام القرآن ۱/ ۱۱۲)۔
اگر کتاب اللہ کا حکم فی نفسہٖ واضح ہو او رکسی تبیین وتوضیح کا محتاج نہ ہو، جب کہ احادیث میں بیان ہونے والی تفصیلات اس حکم کی تخصیص یا اس پر زیادت کی نوعیت رکھتی ہوں تو ایسی صورت میں حنفی منہج میں قرآن اور سنت کے مابین توفیق وتطبیق کا ایک طریقہ یہ ہے کہ فقہی درجے کے اعتبار سے قرآن کے حکم اور حدیث کے حکم میں فرق کر لیا جائے اور قرآن کے حکم کو بنیادی، جب کہ حدیث میں بیان ہونے والے حکم کو اہمیت کے لحاظ سے ثانوی قرار دیا جائے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسی مثالوں میں اگر کسی حکم کو قرآن مجید نے بنیادی طور پر موضوع بنایا ہو تو اس کا جتنا حصہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے، وہ اصل اور بنیادی حکم ہوگا، جب کہ اس سے زائد کچھ چیزیں اگر احادیث میں بیان کی جائیں تو وہ اہمیت کے اعتبار سے ثانوی درجے کی ہوں گی، کیونکہ اگر انھیں بھی اسی درجے میں فرض اورلازم مانا جائے تو اس سے قرآن کے حکم کا، جسے اس نے باقاعدہ موضوع بنا کر بیان کیا ہے، ناقص اور نامکمل ہونا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں۔
اس حوالے سے بعض مثالوں میں امام شافعی اور حنفی فقہا کے زاویۂ نظر میں ایک دل چسپ مماثلت بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے چہرے، بازوؤں اور پاؤں کو دھونے اور سر پر مسح کرنے کا ذکر کیا گیا ہے (المائدہ ۵ : ۶)۔ تاہم احادیث میں منہ دھوتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بھی ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں نماز کے اعمال میں رکوع اور سجود کا ذکر کیا گیا ہے (الحج ۲۲: ۷۷)، لیکن اس حالت میں پڑھے جانے والے مخصوص اذکار کا ذکر قرآن میں نہیں، بلکہ ان کی تفصیل ہمیں سنت میں ملتی ہے۔ امام شافعی اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو کے طریقے میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا اور اسی طرح رکوع وسجود کے علاوہ کسی اور عمل کا ذکر نہیں کیا، اس لیے جو شخص بس منہ دھو لے اور رکوع وسجود کر لے، وہ وضو اور نماز کے فرض سے بری الذمہ ہو جائے گا، جب کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا نیز رکوع وسجود میں اذکار پڑھنا ایک مستحب عمل ہوگا (الام ۲/ ۲۵۳)۔
یہی طرز استدلال حنفی اصولیین کے ہاں بھی ملتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے، منہ دھوتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے، اعضا کو تین مرتبہ دھونے، ڈاڑھی کا خلال اور کانوں کا مسح کرنے کے اعمال میں سے کسی کو وضو کی صحت کے لیے شرط اور لازم نہیں سمجھتے، بلکہ انھیں مستحب کے درجے میں قبول کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر یہ بھی وضو کے لازمی اعمال ہوتے تو قرآن میں اعضا کے دھونے او رمسح کرنے کے ساتھ ان کا بھی اہتمام کے ساتھ ذکر کیا جاتا (اصول البزدوی، ص ۱۴۔ اصول السرخسی ۱/۱۴۳)۔ امام محمد، امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے ہیں کہ وضو میں سر کا مسح فرض ہے، کیونکہ یہ قرآن میں مذکور ہے، جب کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں، کیونکہ ان کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا (الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ ۱/ ۱۸) ۔
تاہم اس اصول کے انطباق کے حوالے سے بعض مثالوں میں امام شافعی اور حنفی فقہا کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ مثلاً احناف اسی اصول کی روشنی میں علاقہ بدر کرنے کو، جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں بیان ہوئی ہے، کنوارے زانی کی سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی راے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ جلاوطنی کی سزا ایک تعزیری اور اختیاری سزا ہو سکتی ہے جس کے نفاذ یا عدم نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے (احکام القرآن ۳/ ۲۵۵- ۲۵۶)۔ امام شافعی کا موقف اس مثال میں مختلف ہے اور وہ کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کو بھی زنا کی شرعی حد کا حصہ شمار کرتے ہیں (الام ۷/ ۳۳۷- ۳۳۸)۔
بعض مثالوں میں احناف، حدیث سے ثابت بعض زائد احکام کو، دلائل وقرائن کی روشنی میں مستحب سے بڑھ کر واجب کے درجے میں قبول کرتے ہیں جو احناف کے نزدیک فرض سے کم تر ایک درجہ ہے۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ’فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ‘ (المزمل ۷۳ : ۲۰ )، لیکن احادیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ فاتحہ کی قراء ت کے بغیر نماز کو نامکمل قرار دیا (بخاری، رقم ۷۵۶)۔ فقہاے احناف نے ان روایات کی بنیاد پر فاتحہ کو نماز کے فرائض میں شمار نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں نماز کے دوران میں کسی تعیین کے بغیر مطلقاً قرآن کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ قرآن مجید میں نماز کے دوران میں کسی تعیین کے بغیر مطلقاً قرآن کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ فاتحہ کی قراء ت کو فرض قرار دینا قرآن کی ہدایت کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں ہو سکتا، اس لیے جمہور فقہاے احناف نے دونوں نصوص میں یوں تطبیق دی ہے کہ نماز میں قرآن مجید کے کسی بھی حصے کی قراء ت فرض ہے جس کے بغیر نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوگی، جب کہ فاتحہ کی قراء ت واجب ہے جو اگر سہواً چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو سے اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ یہاں بھی احناف کا طرز استدلال یہی ہے کہ حکم یا حکم کا جتنا حصہ قطعی الثبوت نص سے ثابت ہے، اسے فرض کا، جب کہ ظنی الثبوت نصوص سے ثابت حکم کو واجب کا درجہ دیا جائے گا (السرخسی، المبسوط ۱/ ۱۹۔ الکاسانی، بدائع الصنائع ۱/ ۱۶۰) ۔
اسی کی ایک مثال رکوع وسجود کی حالت میں سکون واطمینان کا حکم ہے۔ احناف، سورۂ بقرہ کی آیت ۴۳ : ’وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ‘ کی روشنی میں نفس رکوع کو فرض مانتے ہیں جس کا ترک نماز کو باطل کر دیتا ہے، لیکن رکوع وسجود کی حالت میں اطمینان اور سکون کی ہدایت چونکہ حدیث سے ثابت ہے، اس لیے احناف اسے واجب کا درجہ دیتے ہیں جس کے ترک کرنے سے نماز کلیتاً باطل نہیں، بلکہ ناقص شمار ہوتی ہے (احکام القرآن ۱/ ۳۲) ۔
یہی معاملہ طواف کی حالت میں باوضو ہونے کاہے۔ قرآن مجید میں بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس حالت میں باوضو ہونے کی شرط قرآن میں مذکور نہیں، بلکہ احادیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ احناف نے اسے طواف کے فرائض وارکان کے بجاے واجبات میں شمار کیا ہے (بدائع الصنائع ۲/ ۱۲۹) ۔
حنفی اصولیین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کے جس حکم کا مفہوم واضح اور مراد بالکل روشن ہو اور وہ کسی وضاحت کا محتاج نہ ہو، نیز اہل علم کے اتفاق سے اس حکم میں (کسی پہلو سے) تخصیص بھی ثابت نہ ہو (نیز یہ کہ قرآن اور حدیث کے بیان میں بظاہر کوئی توفیق وتطبیق بھی ممکن نہ ہو) تو ایسے حکم کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ ایسی صورت میں احناف قرآن سے متعارض اخبار آحاد کو ترک کر دیتے ہیں۔
فقہاے احناف نے اس اصول پر متعدد اخبار آحاد کو قبول نہیں کیا۔ اس کی معروف ترین مثالوں میں ایک تو قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت ہے جس کا ذکر بحث کی ابتدا میں امام محمد کے حوالے سے ہو چکا ہے۔ ایک اور مثال فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ جس عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دی ہوں، اس کا نفقہ دوران عدت میں خاوند کے ذمے واجب نہیں (ابی داؤد، رقم ۲۲۸۴)۔ احناف کا موقف یہ ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے جس میں شوہروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ طلاق کے بعد عدت کے دوران میں اپنی طاقت کے مطابق بیویوں پر خرچ کریں (الطلاق ۶۵: ۶)۔ نفقہ بھی چونکہ رہایش کے ساتھ لازم وملزوم ہے، اس لیے آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ دوران عدت میں بیوی کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے، لہٰذا مذکورہ حدیث کو قبول نہیں کیا جا سکتا (اصول السرخسی ۱/ ۳۷۵) ۔
جن احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے کہ ایک یا دو مرتبہ (عورت کا پستان) چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی (مسلم، رقم ۱۴۵۰)، احناف کے نقطۂ نظر سے وہ بھی قرآن کے مطلق حکم کے خلاف ہیں، کیونکہ قرآن میں کسی تفصیل کے بغیر بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو اس پر حرام قرار دیا گیا ہے (النساء ۴: ۲۳)۔ چنانچہ جصاص لکھتے ہیں کہ آیت کے حکم میں، جو معمولی مقدار میں دودھ پینے پر بھی حرمت ثابت ہونے کا مقتضی ہے، اخبار آحاد کی بنیاد پر تخصیص کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ ایک محکم آیت ہے جس کا معنی اور مراد بالکل واضح ہے اور اہل علم کے اتفاق سے اس میں کوئی تخصیص بھی ثابت نہیں۔ سو قرآن کا جو حکم اس نوعیت کا ہو، اس کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کے ذریعے سے نہیں کی جا سکتی (احکام القرآن ۲/ ۱۲۴) ۔
مذکورہ اصول ہی کی روشنی میں فقہاے احناف متعارض روایات میں ترجیح کی بحث میں قرآن مجید کے ساتھ موافقت کے نکتے کو ایک بنیادی اصول کے طور پر ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ضمن کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ صلاۃ الخوف سے متعلق مروی بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ اس کی صرف ایک رکعت مشروع کی گئی ہے اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ ذی قرد میں اس طرح صلاۃ الخوف ادا کی کہ ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی جس کے بعد وہ دشمن کے سامنے چلی گئی اور دوسری جماعت نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک رکعت ادا کی۔ یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں، جب کہ صحابہ کی دونوں جماعتوں نے ایک ایک رکعت ادا کی (ابی داؤد، رقم ۱۲۴۶- ۱۲۴۷)۔ فقہاے احناف نے ان روایات کو قرآن مجید کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا، کیونکہ قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جماعت کے ساتھ ایک ایک رکعت ادا کرنے کی ہدایت کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صلاۃ الخوف کی دو رکعتیں ہیں۔ چنانچہ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ جس حدیث کو کتاب اللہ کی نص رد کرتی ہو، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا (شرح معانی الآثار ۱/ ۳۰۹) ۔
۲۔ صلاۃ الخوف ہی کی بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دو جماعتوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک جماعت دشمن کے سامنے اور ایک آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ پھر آپ نے نماز شروع کی اور دونوں جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو گئیں، البتہ جو جماعت آپ کے پیچھے کھڑی تھی، اس نے رکوع اور سجدے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی، جب کہ دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ پھر جب آپ نے ایک رکعت مکمل کر لی تو آپ کے پیچھے کھڑی جماعت دشمن کے سامنے چلی گئی اور دوسری جماعت آپ کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی اور اس نے اپنے طور پر ایک رکعت ادا کی، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے۔ جب انھوں نے ایک رکعت مکمل کر لی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دوسری رکعت پڑھائی۔ جب آپ قعدے میں بیٹھے تو دشمن کے سامنے کھڑی جماعت بھی آپ کے پیچھے آ گئی اور باقی ماندہ ایک رکعت ادا کر کے آپ کے ساتھ قعدے میں شریک ہو گئی۔ پھر دونوں جماعتوں نے آپ کی اقتدا میں اجتماعی طور پر سلام پھیرا (ابی داؤد، رقم ۱۲۴۰)۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:’وَلْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰي لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ ‘ (النساء، ۴: ۱۰۲)، جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری جماعت شروع سے آپ کے ساتھ نماز میں شریک نہیں، بلکہ ایک رکعت ادا ہو جانے کے بعد شریک ہوگی، جب کہ مذکورہ حدیث کے مطابق دونوں گروہ آغاز ہی سے جماعت میں شریک تھے (شرح معانی الآثار ۱/ ۳۱۵)۔
۳۔ اگر کوئی شخص حالت احرام میں ہو تو کیا وہ کسی ایسے شخص کے شکار کیے ہوئے جانور کا گوشت کھا سکتا ہے جو احرام میں نہ ہو؟ اس ضمن میں ذخیرۂ حدیث میں متعارض روایات منقول ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ صعب بن جثامہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شکار کا گوشت پیش کیا تو آپ نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا کہ ہم حالت احرام میں ہیں (مسلم، رقم ۱۱۹۳)۔ اس کے برعکس جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم حالت احرام میں ہو تو (کسی دوسرے کا) شکار کیا ہوا جانور تمھارے لیے حلال ہے، بشرطیکہ تم نے خود اسے شکار نہ کیا ہو یا تمھارے کہنے پر اسے شکار نہ کیا گیا ہو (ابی داؤد، رقم ۱۸۵۱) ۔
ائمۂ احناف نے ان میں سے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے اور من جملہ دیگر دلائل کے ایک وجہ ترجیح یہ بیان کی ہے کہ قرآن مجید سے حالت احرام میں آدمی کے لیے جس چیز کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، وہ جانور کو شکار کرنا ہی ہے نہ کہ شکار کا گوشت کھانا، جیسا کہ ’لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ‘ (المائدہ ۵: ۹۵) اور ’حُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ‘ (المائدہ ۵: ۹۶) کے الفاظ سے واضح ہے، اس لیے اگر کسی دوسرے شخص نے شکار کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا گوشت کھانے کی ممانعت نہیں ہے (شرح معانی الآثار ۲/ ۱۷۵) ۔
۴۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھوڑے کو ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا (بخاری، رقم ۵۵۱۹)۔ اسی طرح جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی، لیکن گدھوں کے گوشت سے منع کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ ہم نے فتح خیبر کے موقع پر گھوڑوں کاگوشت کھایا (بخاری، رقم ۵۵۲۰) ۔
امام ابو حنیفہ اور امام مالک وغیرہ نے اپنے اصول کے مطابق مذکورہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے اور اس کے تحت اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے کھانے کے لیے اصلاً ’انعام‘، یعنی چوپائے اور ’بَهِيْمَةُ الْاَنْعَامِ ‘، یعنی چوپایوں سے ملتے جلتے بہائم پیدا کیے ہیں (المائدہ ۵: ۱ )۔ سورۂ نحل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے استعمال میں آنے والے مختلف جانوروں کا ذکر ایسے اسلوب میں کیا ہے کہ ان کے اصلی اور امتیازی منافع اجاگر ہو گئے ہیں۔چنانچہ چوپایوں کا ذکر کرکے ان کے فوائد و منافع میں ان کے گوشت کے استعمال کا ذکر کیاہے، جب کہ اس کے مقابلے میں گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کے ذکر میں ان کا فائدہ یہ بتایا ہے کہ’لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً‘ (۱۶: ۸)، یعنی ’’تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور زینت اختیار کرو‘‘۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی تخلیق اصلاً ان کا گوشت کھانے کے لیے نہیں، بلکہ سواری اور جفا کشی کے لیے کی گئی ہے۔ چنانچہ مذکورہ آیت کی روشنی میں حنفی فقہا نے حرمت کی روایت کو اباحت کی روایت پر ترجیح دی ہے (شرح مختصر الطحاوی ۷/ ۲۸۹) ۔
۵۔ غیر مسلموں کی دیت کے متعلق روایات وآثار متعارض ہیں۔ بعض میں ان کی دیت مسلمانوں کے برابر بتائی گئی ہے، چنانچہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ذمی کے قتل پر مسلمان کی دیت کے برابر دیت ادا کی (جصاص، احکام القرآن۳/۲۱۳۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۳۵۲)۔ روایت کے ایک طریق میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’دية الذمي دية المسلم‘ (المعجم الاوسط، رقم ۷۹۱) ، یعنی ذمی کی دیت مسلمان کے مساوی ہے۔ اسی طرح اسامہ بن زید کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہد کی دیت مسلمان کے برابر، یعنی ایک ہزار دینار مقرر کی (سنن الدارقطنی، کتاب الحدود والدیات وغیرہ، رقم ۳۲۸۸) ۔
اس کے مقابلے میں بعض دیگر روایات میں قصاص اور دیت کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین فرق کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
عقل الکافر نصف عقل المومن. (نسائی، رقم ۴۸۱۶)
’’ کافر کی دیت مسلمان کی دیت کے نصف ہے۔‘‘
احناف نے ان احادیث کو ماخذ حکم نہیں بنایا جن میں قصاص ودیت میں مسلمان اور غیر مسلم کے مابین امتیاز کیا گیا ہے، بلکہ ان میں سے ان روایات کو ترجیح دی ہے جن میں قصاص ودیت کے اعتبار سے مسلمانوں اور غیرمسلموں کو مساوی قرار دیا گیا ہے اور اس ضمن میں قرآن کے الفاظ کے عموم سے استدلال کیا ہے۔ احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کے نصوص کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانی جان کی دنیوی حرمت کے دائرے میں اصولی طور پر مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ چنانچہ سورۂ مائدہ کی آیت ۳۲: ’مَنْ قَتَلَ نَفْسًاۣ بِغَيْرِ نَفْسٍ‘ اور سورۂ فرقان کی آیت ۶۸: ’لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ‘ اور ان کے ہم معنی نصوص میں قتل ناحق کو مطلقاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ نکتہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی بھی شخص کے قتل کیے جانے پر، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، قاتل کو سزا بھی ایک جیسی دی جائے اور سزا میں، چاہے وہ قصاص کی صورت میں ہو یا دیت کی شکل میں، مذہب کی بنیاد پر کوئی فرق نہ کیا جائے۔ جصاص لکھتے ہیں کہ اخبار کے تعارض کی صورت میں وہ روایت زیادہ قابل ترجیح ہے جو کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق ہے (احکام القرآن ۲/ ۲۴۰) ۔
قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں فقہاے احناف کے نقطۂ نظر کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ قرآن کے مجمل احکام کی توضیح وتفصیل اور قرآن کے ظاہری عمومات کی تحدید وتقیید کے حوالے سے سنت کی اہمیت اور اس کا عملی کردار فقہاے اسلام کے ہاں مسلم ہے۔
۲۔ حنفی اصولیین کے نزدیک قرآن میں ایسے مجمل احکام پائے جاتے ہیں جو مختلف پہلوؤں سے توضیح و تفصیل کا تقاضا کرتے ہیں اور اس ضرورت کی تکمیل سنت کے ذریعے سے ہوتی ہے۔
۳۔ قرآن کے محتمل عمومات سے متعلق احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر قرآن یا سنت ثابتہ کے حکم کا ظاہری عموم مراد نہ ہونے پر امت کے اہل علم متفق ہوں، یا لفظ میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال ہو یا سلف کے ہاں اس کے مفہوم سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہو، یا لفظ فی نفسہٖ مجمل اور محتاج بیان ہو تو مذکورہ صورتوں میں قرآن یا سنت کے احکام عموم کی خبر واحد یا قیاس کے ذریعے سے تخصیص کی جا سکتی ہے۔
۴۔ اگر قرآن کا بیان بذات خود واضح ہو اور کسی خارجی توضیح وتشریح کا محتاج نہ ہو، جب کہ روایت قرآن کے حکم کی تحدید یا اس میں کوئی اضافہ کر رہی ہو تو حنفی فقہا کے نزدیک اس طرح کی تمام تخصیصات، تقییدات اور زیادات کو نسخ کا عنوان دیا جاتا ہے اور ایسی تخصیص کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط عائد کرتے ہیں جس حدیث کی بنیاد پر تخصیص کی جا رہی ہے، وہ خبر واحد نہیں، بلکہ مشہور ومستفیض حدیث ہو یا اگر خبر واحد ہو تو اسے فقہا کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو۔
۵۔ اگر قرآن کے حکم میں تخصیص یا زیادت بیان کرنے والی احادیث کو تلقی بالقبول حاصل نہ ہو تو فقہاے احناف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قرآن کے ظاہری حکم کو برقرار رکھتے ہوئے احادیث کی تاویل وتشریح اس طرح سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے تعارض ختم ہو جائے۔
۶۔ قرآن اور حدیث میں توفیق وتطبیق کے لیے حنفی فقہا ایک طریقہ یہ بھی اختیار کرتے ہیں کہ فقہی درجے کے اعتبار سے قرآن کے حکم اور حدیث کے حکم میں فرق کر لیا جائے اور قرآن کے حکم کو بنیادی، جب کہ حدیث میں بیان ہونے والے حکم کو اہمیت کے لحاظ سے ثانوی قرار دیا جائے۔
۷۔ اگر قرآن کا حکم کسی وضاحت کا محتاج نہ ہو، اور اہل علم کے اتفاق سے اس حکم میں (کسی پہلو سے) تخصیص بھی ثابت نہ ہو، نیز قرآن اور حدیث کے بیان میں بظاہر کوئی توفیق وتطبیق بھی ممکن نہ ہو تو احناف کے نزدیک ایسے حکم کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ ایسی صورت میں احناف قرآن سے متعارض اخبار آحاد کو ترک کر دیتے ہیں۔
۸۔ باہم متعارض روایات میں ترجیح قائم کرتے ہوئے بھی حنفی فقہا قرآن کی موافقت کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہیں اور ان روایات کو ترجیح دیتے ہیں جو قرآن مجید کے ظاہر کے زیادہ قریب ہوں۔
[باقی]
____________