[یہ تحریر استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی كی آرا پرمشتمل ہے جو ان كی كتابوں[۱] اورتقاریر میں بیان ہوئی ہیں۔]
قرآن ایک منفردكتاب ہے۔ یہ خداے رب العزت كا انسانیت كے لیے آخری صحیفۂ ہدایت ہے۔ اس سے پہلے وقتًا فوقتًا اس نےبہت سے پیغمبروں كو ہدایت سے سرفراز كیا۔ عہد نامۂ قدیم اور عہد نامۂ جدید كے بعد یہ خدا كا آخری عہد نامہ ہے جو اسنے لوگوں كی ہدایت كے لیے نازل فرمایا۔ یہ اُسی دین كو پیش كرتا ہے جو اِس سے پہلےسابقہ انبیا اور رسولوں نے پیش كیا۔ تا ہم پچهلے آسمانی صحیفوں كے برخلاف یہ اپنیاصل زبان اور صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔
اس كی صنف انكتابوں سے یكسر مختلف ہے جن سے ہم واقف اور مانوس ہیں۔ چنانچہ اس كے پڑھنے والے ہرسنجیدہ طالب علم كے لیے یہ نہایت ضروری ہےكہ وہ اس كی صنف كا فہم ركهتا ہو۔ نیز اگر اس فہم كے ساتھ اس كتاب كے موضوع اور اسكی ترتیب سے بهی واقفیت پیدا كر لی جائے توقاری اس كتاب كے فہم سے كما حقہٗ بہرہ یاب ہو سكتا ہے۔ وہ اس كتاب كو پڑھ كر حظ محسوس كرے گا اور اس كے ذہن كے دریچے وا ہوں گے۔وہ خدا كی سنن اور افعال كا شاہدبن جائے گا اور رب كائنات سے اپنے آپ كو ہم كلام محسوس كرے گا۔ وہ خدا كو اگرچہ دیكھ نہیں سكتا ،مگر اس كو محسوس كر پائے گا، كیونکہ وہ الہٰی اسالیب كلام اور آداب گفتگو سے اپنے آپ كو قریبمحسوس كرے گا ۔ اس كے بحر وجود كی موجیںمتلاطم ہوں گی اور اس كے دل و دماغ پكار اٹهیں گے: ایں كتاب از آسمانے دیگر است۔
قرآن ایک بے مثل ادبی شہ پارہ ہے جس كی نظیر انسانیكلام میں كہیں نہیں پائی جاتی۔ بلاشبہ، اس كتاب كی صنف كو اسالیب اور تحریر كےموجودہ پیمانوں پر قیاس كرناایک مشكل امر ہے۔ تاہم اس كی سب سے قریبی مشابہت خطبا كے كلام سے قرار دی جا سكتیہے۔ یہ كتاب مكالمات پر مشتمل ہے جو زندہ كرداروں كے ما بین ہوا جو ساتویں صدی میں عرب كے اسٹیج پر نمودار ہوئے۔یہ كردار ایک مخصوص پس منظر میں آپس میں ہم كلام ہوتے نظر آتے ہیں۔ جیسے كسی تمثیلیا ڈرامے میں احوال اور پیش منظر تبدیلہوتے رہتے ہیں، بالكل ویسے ہی اس كتاب میں یہ پہلو ہمیں جابجا نظر آئے گا۔ اللهتعالیٰ كی ذات والا صفات خود ان مكالمات كی مصنف ہے۔
لفظ ’قال‘ اور اس سے ماخوذ الفاظ كا قرآن میں جابجا استعمال اس مكالماتی انداز كا پتا دیتے ہیں۔ یہی معاملہ خطاب كے مختلف صیغوں اور اسالیب كا ہے۔ بہت سے مواقع پر متكلم اور مخاطب كا تعین موقع كلام اور سیاق و سباق سے كیا جاتا ہے، كیونكہ ان مواقع پر ’قال‘ یا اس كی طرح كے الفاظ كلام میں مذكور نہیں ہوتے۔
محض تفہیم مدعا كے لیے انسانی كلام میں اس كی بہت ہی ادنیٰ مماثلت”مكالمات افلاطون“ ، دانتے کی “Divine Comedy” ، اور علامہ اقبال كا”جاویدنامہ “ قرار دیے جا سكتے ہیں۔ ان كتابوں میں مكالماتیاسلوب اختیار كیا گیا ہے۔
یہ بات یہاں واضح رہے كہ قرآن میں مكا لمات الله تعالىٰ اور دیگر كرداروں كے مابین ہوئے ہیں اور ان کرداروں میں آپس میں بهی۔ ان كرداروں كو اس طرح سے بیان كیا جا سكتا ہے:
جبریل،
انبیا،
شیطان،
اہل ایمان،
منافقین،
مشركین،
اور اہل كتاب۔
ساتویں صدی میں عرب كے ان كرداروں كی آپس میںایک باقاعدہ گفتگو كو اس كتاب میں اللهتعالىٰ کی زبان میں جگہ جگہ ملاحظہ كیا جا سكتا ہے۔ یہ ان میں سے ایک سے صادر ہوتی ہے اور ان میں سے ایک یا ایک سے زائد كی طرف اس كا روے سخن ہوتا ہے۔ یہ كردار آپس میں ہم كلامہوتے ہیں اور گفتگو ایک سے دوسرے كی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اگر گفتگو كی اس منتقلی كو گہرائی سے سمجھا جائے تو كلام كی بظا ہر بےربطی بہت بامعانی نظر آنے لگتی ہے، اس لیے كہ اپنی اصل میں یہ ایک مكالمہ ہے جس میں متكلم اور مخاطب میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
بعض دفعہ كلام كے مخاطبین ایک سے زائد ہوتےہیں۔ اسی طرح كچھ مواقع پر مقصود كسی متعین مخاطب كو سامنے ركھ كر ایک باقاعده تقریركیاجانا پیش نظر ہوتا ہے۔ كسی موقع پر تقریرعمومی نوعیت كی ہوتی ہے اور كسی مخصوص گروه كی طرف اشارہ كرنا مقصود نہیں ہوتا۔ اسی طرح خطاب كبهی بالواسطہ ہوتا ہے اور كبهی بظاہر كسی ایک گروہ كی طرف، مگر روے سخن كسی اور كی طرف ہوتا ہے۔ كبهی زبان حال كی رعایت ركهی جاتی ہے اور كبهی زبان قال كی۔اعلىٰ ادب كےادا شناس لوگ ذرا تامل سے ان لطافتوں كو سمجھ سكتے ہیں۔
خطاب كی تبدیلی متكلم كی كیفیت كا بهی پتادیتی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے كہ بات غصے سے كہی گئی ہے یابےزاری سے۔ اس میں محبت كی حلاوت ہے یا التفات كی چاشنی۔ بعض دفعہ خطاب منطقی انجام تک پہنچے بغیر ہی اچانک ختم كر دیا جاتا ہے۔ كبهی كلام كے ان حصوں كو حذف كر دیا جاتا ہے جن كا قرینہ واضح ہو ۔ بعض اوقات متكلم كلام كے تدریجی ارتقا سے واضح ہوتا ہے۔
غرض ان مكالمات كی جاذبیت قلب و نظر كی آبیاری كرتی ہے۔ قاری آیات الہٰی كے مسكت استدلال سے اپنے آپكو سحر زدہ محسوس كرتا ہے۔ اس محكم استدلالكے اثرات اس كی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ اس كو معلوم ہو جاتا ہے كہ ترک و قبول كے اس سفر كے غیر معمولی نتائجبرآمد ہو سكتے ہیں۔ بعض مواقع پر تو یہ استدلال صریح ہوتا ہے اور بعض پر قسمیہاسلوب اسے بہت لطیف بنا دیتا ہے۔ اگر پڑهنے والا ادب كی مختلف صنعتوں سے واقف ہوتو كلام كی حقیقى معنویت تك وہ بڑی آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔ بالخصوص اگر الف لام كے مختلف معانی اور استعمالات كا وہ علم ركھتا ہے تو كلام كی تخصیصات اور مقتضیات كا اسے عمدہ فہم حاصل ہو جاتا ہے۔
غرضیہ بات بلا خوف تردید كہی جا سكتی ہے كہ كتاب الله كی حقیقی تفہیم كے لیے اس كےمكالماتی اسلوب سے واقفیت ایك ناگزیر امرہے۔
قرآنكے اس مخصوص اسلوب كے كچھ نتائج ہیں جو قاری كے پیش نظر رہنے چاہییں:
۱۔ہر سورہ كا بنیادی مخاطب متعین كرنا ضروری ہے۔ اثناے سورہ میں اكثر اوقات ثانویمخاطب بهی زیر بحث آ جاتے ہیں جن كا تعین بهی اسی طرح لازم ہے۔ یہی تبدیلی متكلممیں بهی رونما ہوسكتی ہے۔
۲۔متكلم اور مخاطب كے درمیان تبدیلی كو دقت نظر سے ملحوظ ركھنا ضروری ہے۔ بعض دفعہ یہتبدیلی بڑی لطیف ہوتی ہے اور بعض جگہ بہت نمایاں۔ اسی تبدیلی کی وجہ سے كلام میںجو بظاہر بے ربطگی یا چھلانگ محسوس ہوتی ہے، اس کی معنویت كو سمجھا جا سكتا ہے۔
۳۔ وہ كردار جو ساتویں صدی میں عرب میںموجود نہیں تهے، وه قرآن میں زیر بحث ہو ہی نہیں سكتے، كیونكہ اس كتاب میں وہی كردار زیر بحث ہیں جن كے درمیان دور رسالت میںمكالمہ ہوا یا كسی پہلو سے ان كا حوالہ دیا گیا۔ چنانچہ اسی وجہ سے ، مثال كے طورپر ، ہندومت اور بدھ مت كا كوئی ذكر قرآن میں نہیں ملتا۔
۴۔ چونكہ قرآن كے براہ راست مخاطباپنا مخصوص پس منظر ركهتے ہیں، اس لیے اس كتاب میں بہت سے وہ معاملات و مسائل زیربحث آتے نظر آتے ہیں جن كا تعلق انهی كے عقائد ، مالوفات اور روایات سے ہے۔ اس ضمن میں یہ بات دلچسپی كا باعث ہو گی كہ قرآن میں عرب كے یہود كے بعض عقائد بیان ہوئے ہیں جو، مثالكے طور پر، دوسرے علاقوں كے یہود كے نہیں تهے، جیسے حضرت عزیر كو خدا كا بیٹا قراردینا۔ اسی طرح تقریباً دوتہائی قرآن میں دور رسالت كے مشركین عرب كا مفصل ذكر ہے۔ چنانچہ دور حاضر كے ابراہیمی مذاہب كے قاری، مثا ل كے طور پر، اسطول طویل ذكر کی افادیت سمجھنے میں شایددقت محسوس كریں، اگر وہ اس پس منظر سے واقف نہ ہوں۔
________
قرآن كے طالب علموں كواس كی صنف كے ساتھساتھ اس كے موضوع اور ترتیب سے بهی آگاہ ہونا چاہیے تاكہ وہ خدا كے اس آخری عہد نامےكا صحیح تعارف حاصل كر سكیں۔ ذیل میں ان كی تفصیل بیان كی جاتی ہے:
قرآن كےموضوع كو سمجھنے كے لیے كچھ پس منظرجاننا ضروری ہے۔
دنیا کی مذہبی تاریخ كو دو ادوار میں تقسیم كیا جا سكتا ہے: پہلا دور جو اس تاریخ كے بہت بڑے حصے پر مشتمل ہے، اسےدور نبوت كہا جا سكتا ہے۔ اس دور میں اللهتعالى ٰ نے دنیا میں اپنے نمایندے بھیجے تا كہ وہ انسان کی رہنمائی كریں۔ ان ہستیوں كو انبیا كہا جاتا ہے۔ یہدور آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ختمہوا۔ دوسرے دور کیابتدا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات سے ہوئی اور اس كا اختتام قیامت پر ہو گا۔ اس دور كو دور بعد از نبوت سے تعبیر كیا جا سكتا ہے۔ اس دور میں خدا اپنے نمایندے نہیں بھیجتا۔
دورنبوت دور بعد از نبوت
آدم ____________ محمد _______________ روز قیامت
دور نبوت كا ایك خاص پہلو ہے جو دور بعد از نبوت میں نہیں پایا جاتا ۔ یہ خدا كا اپنے رسولوں كے بارے میں ایکغیر متبدل ضابطہ ہے جو اس كے انبیا سے متعلق ہے جو منصب رسالت پر فائز ہوتے ہیں۔ قرآن اس ضابطے كو’سنۃ الله‘سے تعبیر كرتا ہے:
سُنَّةَ مَنْقَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا. (بنیاسرائیل۱۷ : ۷۷)
”تم سےپہلے اپنے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں، اُن کے بارے میں اِس سنت کو یاد رکھو اورہماری اِس سنت میں تم کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔“
قرآن جو دور نبوتمیں نازل ہوا، اس نے اس غیر متبدل ضابطے کی تفصیلات كو ہمیشہ كے لیے محفوظ كر لیاہے۔ یہ غیر متبدل ضابطہ كچھ نہیں، مگر ایك خدائی منصوبہ جس كا نفاذ وہ خود دنیوی آفتوں یا اپنے رسولوں[۲]كے ذریعےسے كرتا ہے۔ بنا بریں، اس ضابطہ كا كوئی تعلق شریعت سے نہیں۔ یہ جیسا كہ بیانہوا، ایك الہٰی منصوبہ ہے۔ اس ضابطے كو یوں بیانكیا جا سكتا ہے: الله تعالىٰ دنیوی آفات یا اپنے رسولوں كے ذریعے سے ان كے براه راستمخاطبین كو رسول كے پیش كردہ حق[۳]كے جانتے بوجھتے انكار کی پاداش میں اسیدنیا میں سزا دیتا ہے اور اِن براه راست مخاطبین میں سے جو حق كو اختیار كریں، دنیاہی میں اس کی جزا دیتا ہے۔ قرآن اس دنیوی جزا و سزا كو ان الفاظ میں بیان كرتا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّةٍرَّسُوْلٌﵐ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِيَبَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ. (یونس ۱۰: ۴۷ )
” ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کارسول آ جاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُنپر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا ۔“
اس دنیوی جزا وسزا كا ایك خاص مقصد ہوتا ہے: انسان كو اس بات کی یاد دہانی كروائی جائے كہ ایك دنوہ خدا كے آگے اپنے اعمال کی بنیاد پر جواب دہ ہو گا۔ اس مسلمہ حقیقت كو وہ اكثرنظر انداز كر دیتا ہے۔ چنانچہ اسے اس دنیا ہی میں اس كا ایك حسی مشاہدہ كروا دیاجاتا ہے۔ خدا کی وہ عدالت جو تمام افرادكے لیے قیامت میں برپا ہو گی، رسولوں كےبراه راست مخاطبین كے لیے اس دنیا میں برپاكر دی جاتی ہے تا كہ وہ اخروی جزا و سزا كا عینی ثبوت بن جائے۔دوسرے الفاظ میں اس بڑی قیامت سے پہلے بہت سی چھوٹی قیامتیں وجود میں لائی جاتی ہیںتا كہ وه اس بڑی قیامت كو حسی طور پر مشہود كر دیں۔
اس پس منظر میں قرآن كے موضوع كو اب بیان كیا جا سكتا ہے۔ ایک جملے میں اس كو نبی صلى الله علیہ وسلم كیسرگذشت انذار سے تعبیر كیا جا سكتا ہے۔ انذار قرآن كی ایک اصطلاح ہے، جس كا مطلبدنیا اور آخرت میں انكار حق كے نتائج سے خبردار كرنا ہے ۔ نبی صلى الله علیہ وسلمنے اپنے براہ راست مخاطبین پر ان نتائج كو اس درجہ واضح كر دیا كہ سواے ہٹ دهرمیكے ان کے پاس انكار كی كوئی گنجایش باقی نہ رہی- اس موضوع كو قرآن كےمشمولات سے اس طرح مستنبط كیا جا سكتا ہے:
قرآن كے مطابق ، جب كہ ایک نبی اپنی قوم كو بشارت دینے اورخبردار كرنے كے منصب پر معمور ہوتا ہے ، ایك رسول اپنی قوم كو اس درجہ میں بشارت دیتااورخبردار كر دیتا ہے كہ اس كے پاس سواے ہٹ دھرمی كے انكار كرنے کی كوئی بنیاد باقی نہیں رہ جاتی۔ قرآن كی اصطلاح میں اسےاتمام حجت كہا جاتا ہے:
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّةٌۣ بَعْدَ الرُّسُلِﵧ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا. (النساء ۴ : ۱۶۵)
”یہرسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ لوگوں کے لیےاِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔ اللہزبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔“
قوم كے جانتے بوجھتےانكار كو قرآن ان الفاظ میں بیان كرتا ہے:
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْاكَفَرُوْا بِهٖﵟ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ. (البقرہ۲ : ۸۹)
”جب ان كے پاس وہ آیا جسے وہ پہچانتے تھے ، انھوں نے اس كاانكار كر دیا۔ تو خدا کی لعنت ہو اِن منكرین پر۔“
اتمام حجت كے بعد زمین پر خدا كیعدالت لگتی ہے۔ اہل ایمان فائز المرام ہوتے ہیں اور منكرین كو سزا دی جاتی ہے۔ اسطرح یہ دنیا اس بڑی قیامت سے پہلے ایک چھوٹی قیامت كا منظر پیش كرتی ہے۔ قرآن سےمعلوم ہوتا ہے كہ رسول كی دعوت كے متعین مراحل ہوتے ہیں جن سے یہ گزر كراپنے اتمام كو پہنچتی ہے۔ ان كو انذار ، انذار عام ، اتمام حجت اور ہجرت وبراءت سے تعبیر كیا جا سكتا ہے۔ چنانچہ ہر سورهكے بارے میں یہ كہا جا سكتا ہے كہ وہ ان میں سے كسی نہ كسی مرحلے ہی میں نازل ہوئی ہے جس كی طرف رہنمائی خود اس كے اپنے مشتملات كرتے ہیں۔
اتمام حجت كے مرحلےتک پہنچتے پہنچتے اہل ایمان اور منكرین متعین گروہوں كی صورت اختیار كر چكے ہوتے ہیں۔ اسمرحلے كے بعد خدا كی طرف سے آخری فیصلہ صادر كر دیا جاتا ہے۔ رسولوں كی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے كہ فیصلے كے اس مرحلے میں منكرین پر عذاب كیبالعموم دو صورتیں اختیار كی جاتی ہیں۔ ان صورتوں كا تعین حالات كرتے ہیں۔ اگررسول كے ساتهی تعداد میں تھوڑے ہوتے ہیں اور ان كے پاس ہجرت كی كوئی جگہ بهی میسرنہیں ہوتی جہاں وہ اپنا اقتدار قائم كر سكیں تو وہ اور اس كے ساتهی قوم سے الگ كردیے جاتے ہیں۔ اس كے بعد رسول كی قوم كو خدائی عذاب كے ذریعے سے نیست ونابود كر دیاجاتا ہے۔ قرآن كریم كا ارشاد ہے:
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۣبِهٖﵐفَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِحَاصِبًاﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا. (العنکبوت۲۹ : ۴۰)
”سو اِنمیں سے ہر ایک کو ہم نے اُس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا۔ پھر اُن میں سے کوئی تھاکہ اُس پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دی اور کوئی تھا کہ اُس کو کڑک نے آلیا اور اُن میں سے کوئی تھا کہ اُسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کوئی تھا کہاُس کو ہم نے غرق کر دیا۔“
اسی قانون كے تحت قومعاد ، قوم ثمود ، قوم نوح ، قوم لوط اورقوم شعیب وغیرہ قدرتی آفات سے تباہ كر دیے گئے، جب انهوں نے اپنے اپنے رسولوں كاجانتے بوجھتے انكار كیا۔ یہ بات قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے۔ بلكہ قرآن كی ایکمختصر سورہ ، سورۂ قمر ان معذّب قوموں كی تفصیل بہت موثر طریقے سے بیان كرتی ہے۔
دوسری صورت میں ایکرسول كو معتد بہ تعداد میں ساتهی میسر آ جاتے ہیں اور انهیں ہجرت كی كوئی جگہ بهیمیسر آ جاتی ہے جہاں وہ اس الہٰی منصوبے كے تحت اقتدار بهی حاصل كر لیتے ہیں۔ اسصورت میں رسول اور اس كے ساتهی تلوار كے زور سے مخالفین كو زیر كرلیتے ہیں۔ وہ سزاجو سابقہ صورت میں آسمان سے نمودار ہوتی ہے ، وہ اسصورت میں اہل ایمان كےہاتھوں سے صادر ہوتیہے اور ساتھ ہی یہ بات بهی واضح كر دی جاتی ہے كہ دراصل زمین و آسمان كا پروردگار یہاقدام كرتا ہے:
قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ. (التوبہ ۹ :۱۴ )
”اُن سےلڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اِن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اورتمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا۔“
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَقَتَلَهُمْ. (الانفال۸ :۱۷)
”سو(حقیقت یہ ہے کہ اِس جنگ میں) تم نے اِن کو قتل نہیں کیا، بلكہ خدا نے انهیں قتل كیا۔“
رسول الله صلى الله علیہ وسلم كے معاملے میں یہی دوسریصورت پیدا ہوئی۔ یہ بات بهی قرآن سے معلوم ہوتیہے كہ ان معذب قوموں كی سزا كی بهی دو نوعیتیں ہوتی ہیں: مشرک قوموں كو ان كے شرکپر جانتے بوجھتے اصرار كی وجہ سے نیست و نابود كر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ قومیں جو بنیادی طور پرتوحید کی علم بردار ہوتی ہیں، انھیں زندہرہنے كا موقع دیا جاتا ہے بشرطیکہ وهرسول اور اس كے صحابہ كے زیر دست رہنا قبول كر لیں۔ مقدم الذكر انجام كی بنیاد اسقرآنی اصول پر ہے كہ الله تعالىٰ جانتے بوجھتے شرک كو كبهی معاف نہیں كرتے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْيُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُﵐ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰ٘ي اِثْمًا عَظِيْمًا. (النساء ۴ : ۴۸)
”اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔ اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، اور (اِس میں تو کوئیشبہ ہی نہیں کہ) جو اللہ کا شریک ٹھیراتا ہے، وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے۔“
چنانچہ اسی اصول پر بنی اسرائیل كو بطور قوم ہلاک نہیں كیا گیا،كیونكہ وہ اصلاً توحید كے علم بردار تهے۔ ان كی سزا كی نوعیت یہ تهی كہ وہ قیامت تک حضرتمسیح كے ماننے والوں كے زیر دست رہ كر زندگی بسر كریں گے:
اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰ٘ي اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَوَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَاتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ااِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ.(آل عمران ۳ : ۵۵)
”اُسوقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ ، میں نے فیصلہکیا ہے کہ تجھے وفات دوں گااور اپنی طرفاٹھا لوں گا اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِنمنکروں پر غالب رکھوں گا۔ “
قرآن كے اس موضوع كا ایك بہت اہم نتیجہ نكلتا ہے جس كو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اس كا تعلق اسی غیر متبدلضابطہ سے ہے جو ابھی تفصیل سے زیر بحث لایا گیا ہے كہ صرف خدا ہی اس بات كا مجازہے كہ وہ لوگوں كے جانتے بوجھتے انكار پر ان كو سزا دے۔ دور نبوت میں یہ انكارشرك ، كفر اور ارتداد كے جرائم کی صورت میں ظاہر ہوا۔ خدا نے ان جرائم كے مرتكبین كو اپنے رسولوں یادنیوی آفتوں كے ذریعے سے سزا دی۔ تاہم زمانہ بعد از نبوت میں كسی فرد یا ریاست كو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے كہوہ ان جرائم كی سزا دے۔ اس كا اختیار صرف خدا كو ہے۔ وہ اپنے اس اختیار كو ایكمرتبہ پھر قیامت كے دن استعمال كرے گا۔ اس ضمن میں یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے كہدور نبوت كے یہود و نصارىٰ اور دور بعد از نبوت كے یہود و نصارىٰ كے درمیان فرق كیاجائے۔ مقدم الذكر كو ان كے جانتے بوجھتے انكار پر اس دور میں سزا دی گئی، تاہم دور بعد از نبوت كے یہود و نصارىٰ كواس نوعیت کی كوئی سزا نہیں دی جا سكتی۔ جیسا كہ ابھی بیان ہوا اس سزا كا تعلق خدا كے اس غیر متبدل ضابطہ سے ہے جوصرف اور صرف دورنبوت میں نافذ العمل ہوتا ہے۔
دوسرا نتیجہ جو اس موضوع کی روشنیمیں سمجھنا چاہیے، وہ یہ ہے كہ چونكہ دور نبوت میں الله تعالىٰ كے اِس غیر متبدلضابطہ كو رو بہ عمل ہونا تھا جس كے تحت انھوںنے منكرین حق كو سزا دی ، بعض وقائع قرآن(اور دیگر آسمانی صحائف) میں مذكور ہیں جو اب دور بعد از نبوت میں اس طرح رونما نہیںہوتے ، جیسے وہ دور نبوت میں ہوتے تھے۔ اس کی دو نمایاں مثالیں دی جا سكتی ہیں:
۱۔ اتمام حجت کی غرض سے پیغمبروں كے ذریعے سے نمودار ہونے والےمعجزات ۔
۲۔ فرشتوں کی اہل ایمان کی قابلمحسوس مدد اور نصرت۔
یہ كہا جا سكتا ہےكہ اگر قرآن كا اوپر بیان كردہ موضوع اور یہ دو نتائج ملحوظ ركھے جائیںتو قاری اس كتاب كے مشمولات كا گہرا ادراکپیدا كر سكتا ہے۔
كتاب کی حیثیت سے اپنی مجموعی ترتیب كےبارے میں خود قرآن نے ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْوَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ .( الحجر ۱۵ :۸۷)
”ہم نےتم کو سات مثانی، یعنی قرآن عظیم عطا کر دیا ہے۔“
اس آیت كا مفہوم یہ ہے كہ قرآن كو اللهتعالىٰ نے سات ابواب میں تقسیم كیا ہے اور اس كے ہر باب میں سورتیں اپنے مضامین كےلحاظ سے جوڑا جوڑا ہیں۔ یہ جڑواں سورتیں كسی نہ كسی پہلو سے ایک دوسرے كی تكمیلكرتی ہیں۔ چنانچہ ، مثال كے طور پر، بادنیٰتامل سورۂ ضحیٰ (۹۳) اورسورۂ الم نشرح (۹۴) كے درمیان گہری مشابہت نظر آتی ہے۔ یہیمعاملہ سورۂ فلق (۱۱۳) اور سورۂ ناس (۱۱۴) كاہے جسے ہر پڑهنے والا محسوس كر سكتا ہے۔ غوروفكر سے دوسری سورتوں میں بهی یہمشابہت كسی نہ كسی پہلو سے نظر آجاتی ہے۔ چندسورتیں منفرد بهی ہیں اور ان كا معاملہ اس عام اصول سے استثنا كا ہے،جیسے سورۂ فاتحہجو پورے قرآن كا بهی دیباچہ ہے اور پہلے باب كا بهی۔
ان سات ابواب كی مختصر تفصیلات یوں ہیں:
باب اول
الفاتحہ ـــــــــ المائدہ ١ -٥
مكی: ۱
مدنی: ۲-۵
باب دوم
الانعام ـــــــــ التوبہ ۶- ۹
مكی: ۶ - ۷
مدنی: ۸ - ۹
باب سوم
یونس ـــــــــ النور ۱۰- ۲۴
مكی: ۱۰ - ۲۳
مدنی: ۲۴
باب چہارم
الفرقان ـــــــــ الاحزاب ۲۵- ۳۳
مكی: ۲۵ - ۳۲
مدنی:۳۳
باب پنجم
سبا ـــــــــ الحجرات ۳۴- ۴۹
مكی: ۳۴ - ۴۶
مدنی: ۴۷ - ۴۹
باب ششم
ق ـــــــــ التحریم ۵۰- ۶۶
مكی: ۵۰ - ۵۶
مدنی: ۵۷7 - ۶۶
باب ہفتم
الملک ـــــــــ الناس ۶۷- ۱۱۴
مكی: ۶۷ - ۱۱۲
مدنی: ۱۱۳ - ۱۱۴
ان ابواب كے كچھ خصائص بهی ذیل میں بیان كیے جاتے ہیں:
۱۔ ہرباب ایک یا ایک سے زیادہ مكی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور اس كا خاتمہ ایک یا ایکسے زیادہ مدنی سورتوں پر ہوتا ہے۔ ان ابواب میں مكی سورتوں كا مدنی سورتوں سے وہیتعلق ہوتا ہے جو كسی درخت كی جڑ كا اس كے تنے سے ہوتا ہے۔
۲۔ ہرباب میں سورتو ں كی ترتیب نزولی ہوتی ہے۔
۳۔ ہرباب رسالت مآب كی سرگذشت انذار كے مراحل كسی نہ كسی پہلو سے بیان كرتا ہے۔
۴۔ ہرباب كا ایک موضوع ہوتا ہے ۔ یہ اس كا محورہوتا ہے جس كے گرد اس كی سورتیں گهومتی ہیں۔ یہ موضوعات درج ذیل ہیں:[۴]
باب اول
الفاتحہ ـــــــــ المائدہ ١-٥
اِس کا موضوع ،یہودونصاریٰ پر اتمام حجت،اُن کی جگہ ذریت ابراہیم ہی کی ایک دوسری شاخ، بنی اسمٰعیل میں سے امت مسلمہ کیتاسیس، اُس کا تزکیہ وتطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کے آخری عہد و پیمان کا بیان ہے۔[۵]
باب دوم
الانعام ـــــــــ التوبہ ۶-۹
اِس کا موضوع قریش پر اتمام حجت،مسلمانوںکا تزکیہ و تطہیر، اور قریش اور اہل کتاب، دونوں کے لیے خدا کی آخری دینونت کےظہور کا بیان ہے۔[۶]
باب سوم
یونس ـــــــــ النور ۱۰-۲۴
اِس کا موضوع قریش کو انذار، نبی صلی اللہعلیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو سرزمین عرب میں غلبۂ حقکی بشارت اور اُن کا تزکیہ و تطہیر ہے، جس میں غلبۂ حقکی بشارت کا پہلو نمایاں ہے۔[۷]
باب چہارم
الفرقان ـــــــــ الاحزاب ۲۵-۳۳
اِس کا موضوع رسالت کا اثبات، اُس کے حوالےسے قریش کو انذار وبشارت اور مسلمانوں کا تزکیہ وتطہیر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلماور قرآن کا مقام ومرتبہ اُسی کے ضمن میں آپ کے ماننے والوں پر واضح کیا گیا ہے۔[۸]
باب پنجم
سبا ـــــــــ الحجرات ۳۴-۴۹
اِس کا موضوع توحید کا اثبات، اُس کے حوالےسے قریش کو انذار ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے لیے غلبۂ حق کی بشارت اور اُن کا تزکیہ و تطہیرہے۔
باب ششم
ق ـــــــــ التحریم ۵۰-۶۶
اِس کا موضوع قیامتکا اثبات، اُس کے حوالے سے قریش کو انذار و بشارت اور مسلمانوں کا تزکیہ و تطہیرہے۔ اللہ و رسول کے لیے تسلیم و اطاعت کے تقاضے اِسی تزکیہ و تطہیر کے ذیل میں اوراُس وقت کی صورت حال کے لحاظ سے بیان ہوئے ہیں۔[۱۰]
باب ہفتم
الملک ـــــــــ الناس ۶۷-۱۱۴
اِس کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذارقیامت، اُن پر اتمام حجت ، اِس کے نتیجے میں اُنھیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہعلیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حقکی بشارت ہے۔
۵۔ ابواب میں نظم و ترتیب كی نوعیتدرج ذیل نقشہ سے سمجھی جا سكتی ہے:
باب ۲
باب ۱ باب ۳
باب ۴
باب ۵
باب ۶
باب ۷
اگرسابقہ صفحات میں بیان كردہ قرآن كے موضوع كا اعادہ كیا جائے تو یہ كہا گیا تها كہ یہمحمد صلى الله علیہ وسلم كی سرگذشت انذار ہے جو ان كی قوم كی دنیوی جزا و سزا پرمنتج ہوئی۔ یہ بات بهی واضح رہے كہ آپ كے انذار كے دو بنیادی مخاطبین تهے: مشركینِاور اہل كتاب جو اس وقت جزیرہ نماے عرب میں آبادتهے۔ قرآن كا دوسرا باب ان دونوں مخاطبین پر دنیوی سزا كی تفصیلات بیان كرتا ہے۔اس لحاظ سے وه تمام ابواب كا معنوی طور پر منتہا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے كہ باب ۷ سے باب۳ تكمخاطبین مشركین عرب ہیں اور باب ۱ میں اہل كتاب۔ باب ۲ میں ، جیسا كہ بیان كیا گیا ، یہ دونوں ہی گروہ مخاطب ہیںاوران كے انجام كی تفصیلات بیان كی گئی ہیں۔چنانچہاس باب كی حیثیت ذروۂ سنام كی ہے، كیونكہ اپنے مضمون كے لحاظ سے قرآن اس میں پایۂ تكمیلكو پہنچتا ہے۔
ان تفصیلاتكو اگر مد نظر ركها جائے تو كہا جا سكتاہے كہ قرآن مجید محمد صلى الله علیہ وسلم كی سرگذشت انذار كو اسدل نشین ترتیب سے بیان كرتا ہے۔
گذشتہ صفحات میںقرآن كی صنف ، موضوع اور اس کی ترتیب كا ایک مختصر جائزہ پیش كیا گیا ہے۔ یہ كتاب مكالمات الہٰیہكوایک مخصوص موضوع كے ساتھ ایک معنوی ترتیب میں بیان كرتی ہے۔ اس كے ان پہلوؤں سےواقفیت قاری كے سامنے اس كتاب كا ایسا تعارف پیش كرتی ہے كہ اسے اپنے رب كی طرف سےنازل كردہ اس شہ پارۂ ادب كا ایک منفرد تجربہ حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ اس كتاب كے ذریعے سے آں سوے افلاک موجود ہستی كا كچھادراک كر پاتا ہے۔ اس كا دل خدا كی اس بے مثال تخلیق سے سرشار ہو جاتا ہے اور وہ پكار اٹھتا ہے:
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت اُو لا یزال است و قدیم!
نوع انساں را پیام آخریں
حاصل اُو رحمتہ للعلمین!!
____________
[۱]۔بالخصوص”ميزان“ اور”البيان“۔ ديكھيے: جاوید احمدغامدی ، ميزان ، طبع يازدھم ، لاہور ، ٹوپيكل پرنٹنگ پريس ۲۰۱۸ء ۔ جاوید احمد غامدی ،البيان ، طبع اول ، 5مجلدات ، لاہور ، ٹوپيكل پرنٹنگ پريس ۲۰۱۸ء۔
[۲]۔”رسول“ايك خاص منصب ہے جو بعض ”انبيا“ كو خدا کی جانب سےحاصل ہوتا ہے۔
[۳]۔”حق“ سےيہاں مراد اس بات كا ادراك و اقرار ہے كہ ہر شخص ايك دن اپنے اعمال كی بنياد پرخدا كے آگے جواب دہ ٹھیرے گا اور ان كی بنياد پر جزا يا سزا كا مستحق قرار پائے گا۔
[۴]۔ ابواب كے يہ موضوعاتاستاذ گرامی كی كتاب ”البیان “ سے نقل كیے گئے ہیں۔
[۵]۔ جاوید احمد غامدی، البیان ۱ / ۱۵۔
[۶]۔ ایضاً ، ۲ / ۸۔
[۷]۔ ایضاً، ۲/ ۴۱۰۔
[۸]۔ ایضاً ،۳ / ۴۶۰۔
[۹]۔ ایضاً، ۳ / ۴۶۰۔
[۱۰]۔ ایضاً ،۴ / ۱۷۲۔
[۱۱]۔ ایضاً، ۵ / ۱۰۔