اگر کسی کو سوز و گداز سے مملو، نرم دم گفتگو، نرم دم جستجو، رزم ہو یابزم ہونرم دل و نرم خو، آدمی کی کامل ترین مثال دیکھنی ہو تو وہ ہمارے دوست اصغر نیازی صاحب مرحوم تھے۔ ان کونرم و گدازبنانے میں خدا نے شاید مبالغہ سے کام لیا تھا کہ ان کی آواز، شخصیت، چہرہ سب اجلی دھنکی ہوئی روئی سے تشکیل دےڈالا تھا۔ مرض اور تکالیف سے گھری زندگی اور مسکراتا چہرہ اصغر نیاز ی کی پہچان تھی۔ کسمپرسی کی تصویر اور چہرہ نری تنویر، ہر وقت نہائے دھوئے ، اجلے، نپے تلے، بے تکلفی میں بے ضرر، بذلہ سنجی میں بے مضر، سنجیدگی میں خوش گوار، تقوے میں خوش ذوق ، بے ورثہ ادیب، اور سب سے بڑھ کر رضاےرفیق اعلیٰ کی طلب کے قتیل تھے۔آج صبح [1]بعد از نمازِ فجر رفیق اعلیٰ کی جانب کوچ کرگئے۔
استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی ان کا ذکر نیازی صاحب کے الفاظ سے کرتے تھے، اس وجہ سے ہمارے ہاں ان کا یہی نام چلتا تھا۔اس مضمون کو بھی میں نے اسی نام سے عنوان دیا ہے۔استاذ کے ساتھ ان کا تعلق نہایت عقیدت و محبت کا تھا۔میں نے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلوص و محبت میں بہت آگے پایا ہے۔ ہماری طرح نیازی صاحب بھی ان آہوانِ صحرا کی طرح تھے جو استاذ کی دلکشا صدا پر ــــــ سرخود نہادہ برکف ــــــ کھچے چلے آئے تھے۔
میں بچپن سے انھیں جانتا ہوں۔استاذگرامی نے سلطان پورہ کے زمانۂ قیام(غالباً ۱۹۷۹ء- ۱۹۸۴ء کے دوران) میں بھی اپنے تلامذہ کے لیےایک قیام گاہ بنار کھی تھی، جس میں ابو شعیب صفدر مرحوم وغیرہ کے ساتھ نیازی صاحب بھی کچھ عرصہ مقیم رہے۔ہمارا گھر بھی قریب تھا، اس لیے بعض ضروریات کے بہم پہنچانے کے لیے ہم بچوں کی خدمات لی جاتی تھیں۔میری نانی، ممانی اور والدہ بعض اوقات کوئی چیز پکاتیں تو ان مقیموں کے لیےبھیجتیں۔ کبھی ترسیل اشیا کی یہ ذمہ داری میرے سرآتی تھی، اس لیے آنا جانا رہتا تھا۔ استاذگرامی کے بعض لیکچرز کے انتظامات اور شرکاے مجلس کو پانی وغیرہ پلانے کے لیے بھی ہم بچوں میں سے کسی کو بلا لیا جاتا تھا۔ اس آمد و رفت میں نیازی صاحب سے شناسائی ہوئی، جو بعد میں دوستی اور استادی میں تبدیل ہوئی۔طالب محسن صاحب سے ابتدائی نحوسیکھنے کے بعد”قصص النبیین “ کے غالباً تمام اجزا کی قراءت میں نے نیازی صاحب کے سامنے کی۔میں پڑھتا اور ترجمہ کرتا تو وہ میری اصلاح یا تائید کرتے جاتے تھے۔
ان کی استادی کا شرف ایک اور پہلو سے بھی حاصل ہوا ، وہ یہ کہ میں استاذگرامی کی زمینوں میں نظمیں کہتا تھا۔خاص طور سے انھوں نے ایک نئی زمین متعارف کرائی تھی، جس میں چار چار مصرعوں کے تین بند اور آخر پر دو مصرعوں کا اختتامیہ ہوتا تھا۔استاذ کو میں اپنی جھجک اور ان کی مصروفیات کی وجہ سے چیک نہیں کراتا تھا، توسائیکل پر نیازی صاحب کے پاس چلا جاتا تھا۔یہ ان دنوں(غالباً۱۹۸۷ء - ۱۹۸۹ء)کی بات ہے کہ جب وہ مسلم ٹاؤن میں واقع اقبال اکیڈمی میں کام کرتے تھے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے ایک ہی میز پر ان کے انچارج احمد جاوید صاحب اور وہ خودآمنے سامنے تشریف فرما ہوتے تھے۔ میں نیازی صاحب کے برابر میں رکھی ایک خالی کرسی جو شاید ملاقاتیوں کے لیے ہی ہوتی تھی، پر جا کر بیٹھ جاتا ، اورچپکے سے ماحول کو خراب کیے بغیر نیازی صاحب کو اپنی شاعری دکھاتا، وہ اصلاحات تجویز کرتے، یا محض شاباش دے کر رخصت کردیتے۔ان کی اصلاحات ادیبانہ ہوتی تھیں، اسی لیے میں نے انھیں بے ورثہ ادیب کہا ہے کہ انھوں نے کوئی تخلیقی کام نہیں چھوڑا، مگر تھے وہ ادیب۔
اسی کرسی پر بیٹھ کر میں انھیں تصوف سے برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا۔اسی بحث مباحثے میں بعد میں احمد جاوید صاحب بھی شریک ہوئے تو ان سے میرا علمی وفکری تعارف اسی بحث سے ہواتھا۔ناکام کوشش میں نے اس لیے کہا ہے کہ نیازی صاحب میرے تمام دلائل کو ــــــ خاطر سے یا لحاظ سے ــــــ رد نہ کرپائے، مگر بیعت بھی نہیں توڑی۔مجھے ایک سال کی کوشش کے بعد محسوس ہوا کہ یہ ان کی طبیعت کا ناگزیر اقتضا ہے، وہ مرید ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ غالب طبیعت کے ان اقتضاءات سے واقف تھا۔ کہتا ہے:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ان کے متصوفانہ اشتغالات کا تو مجھے علم نہیں، مگروہ تصوف سے پہلے اور تصوف کے بعد بھی با صفا وبا وفا تھے۔ اس نحیف و نزار وجود میں اگر کوئی طاقت ور چیز تھی تو یہی باصفا ہونا تھی، جسے کو ئی چیز دبا نہ سکی۔ ان کے صفاے باطن کو نہ زمانہ گدلا کرسکا اور نہ تصوف ۔ ان کے تصوف میں مریدی کا رنگ اسی نرم خوئی کے سبب تھا، جس کا بیان اوپر گزرا ہے۔ خدا طلبی سے مملو طبیعت نے انھیں تاحیات راہِ تصوف پر کاربند رکھا۔موت ہی نے شاید اس سالک کو قیدِ سلوک سے آزادی دلائی ہے، ورنہ حالت وہی تھی کہ :
ہیں گرفتارِ وفا، زندان سے گھبراویں گے کیا!
نیازی صاحب کی بڑی آنت کاکچھ حصہ نو عمری ہی میں آپریشن سے نکال دیا گیاتھا۔ جس کی وجہ سے وہ عام غذا بالعموم نہیں لے سکتے تھے۔ میں نے انھیں بارہا دیکھا کہ جب لوگ مزے مزے کے کھانے کھا رہے ہوتے تھے ، وہ بسکٹ اور دہی پر گزارا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اتنے نحیف تھے کہ انھوں نے مجھے بتایا کہ میرا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ نیازی کو کمرے میں بند کرنا ناممکن ہے، کیونکہ یہ دروازے کی چیت(درز) میں سے نکل آئے گا۔یہ بات گو مبالغہ آمیز ہے، لیکن صحیح ہے۔ اگر آپ ان کا بازو پکڑیں تو ہڈی کے سوا کچھ معلوم نہیں پڑے گا، اور اگر بغل گیر ہوں تو آپ کو ایتھوپیا کے بچوں جیسا درمیان سے ابھرے سینے کی ہڈیوں کا پنجراپنے سینے پر چھبتا ہوا محسوس ہو گا۔ ایسا لگتا تھا گویاآپ کسی لکٹری کے وجود سے چپک لیے ہوں۔
نیازی صاحب کے لیے صبر عادتِ ثانیہ تھی۔ایک شادی میں ہم کھانا کھا رہے تھے اور وہ دہی کی پیالی سے سعیِ شکم سیری فرما رہے تھے۔لیکن ان کے چہرے پر نہایت گہری اطمنیان سے بھری مسکراہٹ تھی۔یہ واقعہ مجھے صرف ان کی مسکراہٹ کی وجہ سے یاد ہے۔وہ پورے صبر کے ساتھ صبر کرتے تھے۔میں نے انھیں کبھی دکھی نہیں دیکھا،کراہتے نہیں پایا، شکوہ کرتے نہیں سنا۔ البتہ اکیلے میں بیٹھے ہوئے وہ پنجایی کا ایک سہ مصرع گنگنانے کے انداز میں پڑھتے رہتے تھے۔ یہ ان کے دکھوں کا شاید اظہار ہو:
نی نندے ،آکھیں نی اپنے وِیر نُوں
کدی تے بھیڑا ، تکیا کرے
کدی تے بھیڑا ، ہسیا کرے[2]
۱۷۹ ابو بکر بلاک میں جب وہ”المورد“ سے باقاعدہ متعلق تھے، تو میں استاذ کے ساتھ کبھی کبھی ”المورد“ آجاتا تھا۔”المورد“ کے لان میں نماز کے لیے یا کلاس کے وقفوں میں سب اکٹھےہوتے تھے۔ایک دن میں نے وقفے میں دیکھا کہ وہ خاص ہیئت میں لیٹے ہوئے تھے۔ یوں کہیے کہ اگر آپ دوزانوں بیٹھے بیٹھے ، ٹانگیں سیدھی کیے بغیر کمر کے بل لیٹ جائیں ۔یوں کہ آپ کے پاؤں آپ کے نیچے رہیں، تو یوں وہ لیٹے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: لگتا ہے ناں ،میں آدھا رہ گیا ہوں۔میں ہنسنے لگا ، کیونکہ اس محاورے کی حقیقی صورت میرے سامنے تھی ۔پھر وہ تادیر مجھے اس مشق کے فوائد بتاتے رہے۔جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس ٹوٹے جسم کا درد کچھ دیر تھم سا جاتا ہے۔
نیازی صاحب سےتعلقِ خاطر اس قدر گہرا تھا کہ بعض موقعوں پر وہ مجھ سے ذاتی امور میں بھی فیصلہ کرنے کے لیے مشورہ کرتے۔ان میں سے ایک بات قابل بیان ہے، مثلاً بیٹے کو حفظ کرانا چاہتے تھے۔ بعض احباب نے روکا، تو میرے پاس چلے آئے، کہنے لگے: دل چاہ رہا ہے کہ بیٹا حافظ بنے، لیکن بعض احباب کہہ رہے ہیں کہ آپ کو بچے پر جبر کرنے کا حق نہیں ہے، اور یہ کہ وہ اجرو ثواب والی روایات ضعیف ہیں یا فضائل اعمال سے متعلق ہیں، اس لیے ان پر محدثین نے جرح و تعدیل کا کام نہیں کیا۔میں نے عرض کیا: روایتیں جیسی بھی ہوں، قرآن کی حفاظت کا کام اللہ نے ان حفاظ کے کندھوں پر رکھا ہے۔اس نیت سے حفظ کرائیں اللہ آپ کو اجر عطا فرمائے گا۔باقی رہا جبر تو اسکول بھیجنا بھی تو جبر ہے۔وہ خوش تھے۔
میں تلمذ کے علاوہ بھی ایک پہلو سے نیازی صاحب کا ممنون احسان ہوں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد گھر میں نان نفقہ کی فراہمی کسی قدر مشکل ہوگئی تھی، نیازی صاحب مجھے اقبال اکیڈمی کے پروف ریڈنگ کے انچارج کے پاس لے گئے۔ انھوں نے مجھے پروف ریڈنگ کا کام دے دیا، جس سے میں تقریباً چھ سو روپے مہینا تک کما لیتا تھا۔ یہ رقم گھر کی باقی آمدن میں کچھ کشایش پیدا کر دیتی تھی۔خدا کرے،نیازی صاحب کو آگے کھلا رزق ملے۔میں اس زمانے میں ”المورد“ کا پارٹ ٹائم اکاؤنٹنٹ بھی تھا۔کالج سے آنے کے بعد حسابات لکھ دیتاتھا۔
ان کی خدا طلبی کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ، نہایت متقی انسان تھے۔”المورد“ کے احباب ایک زمانے میں باری باری باہم ناشتہ کرتے کراتے تھے۔ ایک دن کسی کے ہاں ناشتے کی باری تھی، ہم چار لوگ ایک گاڑی میں اکٹھےتھے راستے میں اصغر نیازی صاحب کو بھی لینا تھا۔جب ہماری گاڑی ان کے دروازے پر رکی تو کم عمر ہونے کی وجہ سے ان کو بلانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ، لہٰذا میں گاڑی سے اترا، ا ن کی بیل دی، تھوڑی دیر بعد ان کی اہلیہ کی آواز آئی ۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ فجر کے بعد مسجد سے ابھی واپس ہی نہیں آئے۔ہم سب مسجد چل دیے، میں جب اندر گیا تو نیازی صاحب اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے۔ حالتِ قیام میں تھے۔ وہ کھڑے رہے ، میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا کہ فارغ ہوں تو ساتھ لے چلوں، لیکن ان کا قیام ختم نہیں ہوا، پھر میں بیٹھ گیا، وہ قیام میں کھڑے رہے۔ باہر بیٹھے ساتھیوں میں سے کوئی اندر آیا: ہمیں دیکھا اور واپس چلا گیا۔ میں بیٹھے بیٹھے تھک گیا۔ نیازی صاحب نے میرے آنے کے بعد غالباً بیس پچیس منٹ کا قیام کیا، یہ بھی شاید اس لیے مختصر ہو گیا تھا کہ باہر سے کسی ساتھی نے آواز دی کہ نیازی صاحب کو لائے نہیں ؟تو میں نے کہا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ سن کر نیازی صاحب رکوع میں گئے ۔اس کا مشاہدہ میں نے ایک دفعہ اظہار صاحب کو بھی کرایا جب نیازی صاحب ایک دن ”المورد“ آئے ہوئے تھے اور عصر یا ظہر کی نماز انھوں نے ادھر ہی ادا کی تھی۔ اوپر میں نے بتایا ہے کہ کس قدر بیمار اور کتنے کم زور تھے، مگر خدا کے حضور میں اس قیام کے لیے ان کی قوت و ہمت دیدنی تھی۔
خدا طلبی کی یہ سمجھ ان کو اس قدر تھی کہ ان کی ساری زندگی اسی جدوجہد کا مرقع تھی۔آخرت کے لیے جینا وہ سمجھ ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت قرار دیا ہےاور ایسے لوگوں کو قرآن نے علما نہ لقب دیا ہے،اس لیے کہ یہی زندگی کا اصل راز ہے، مگر اس راز کا ایسا واقف کوئی اور ہوگا، شاید یہ کہنا پڑے گا کہ دگر داناے راز آید کہ نہ آید! مگر اس داناے راز کو اصغر کہتے تھے: محمد اصغر نیازی۔
[1]۔ ۷؍ جنوری ۲۰۱۹ءبروز جمعرات ۔
[2]۔ اے میری نند، اپنے بھائی سےذرا کہنا کہ اے ستم گر ،کبھی تو میری طرف دیکھا کرو، کبھی تو ہنسا مسکرایا کرو۔(بھیڑا میانوالی کا تلفظ ہے لاہور میں اسے پَیڑا (بُرا) کہتے ہیں)۔ مجھے کبھی یہ لگتا کہ اسے متصوفانہ معنی میں بولتے تھے، یعنی مرشد کی نظر ِالتفات كے ليے۔
____________