محمد تہامی بشر علوی
انسان کو اپنی زندگی میں جتنے بھی حالات درپیش ہوتے ہیں، ان کی صورت حال یا تو مثبت حالات کی ہوتی ہے یا منفی حالات کی ۔ ان مثبت یا منفی حالات میں ہر انسان کچھ نہ کچھ اس کے ریسپانس میں کر رہا ہوتا ہے ۔ وہ اس حالت میں جو کر رہا ہوتا ہے، وہ بھی یا مثبت ہوتا ہے یا منفی۔ بعض اوقات ایک انسان مثبت حالات میں بھی منفی کام کر رہا ہوتا ہے اوراکثر اوقات منفی حالات میں انسان منفی کام کر رہا ہوتا ہے ۔ اسلام کی رہنمائی یہ ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ جب آپ کو کسی بھی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے، خواہ وہ صورتِ حال مثبت ہو یا منفی، آپ نے ہر حال میں مثبت ریسپانس ہی دینا ہے۔منفی حالات میں بھی آپ کا جو ردِعمل ہو، وہ بھی ہمیشہ مثبت ہی ہو۔ آپ نے کچھ بھی ایسا ریسپانس نہیں دینا جس میں کسی بھی قسم کی منفیت ہو ۔ مثبت رسپانس کو قرآنِ مجید کی اصطلاح میں ’’صبر‘‘ کہتے ہیں۔یعنی ہرصورتِ حال میں انسان درست رویے پر کھڑا رہے۔ حالات کی تلخی اسے درست رویے سے ہٹا لینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر کسی بدخصلت نے آپ کو گالیاں دے دیں ، منفی ریسپانس یہ ہے کہ آپ نے بدلے میں دو چار گالیاں دے دیں، غصے یا تلخی کا اظہار کر دیا ۔
مثبت ریسپانس کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ نے گالی کے مقابلے میں بالکل خاموشی اختیار کر لی ۔اس موقع پر خاموش رہنا بھی مثبت ریسپانس ہی ہے، لیکن اس کے بدلے میں آپ نے یہ ریسپانس دیا کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا، پھر اس کے پاس جا کر اس کے غصے کی وجہ کو دور کرنے کی کوشش کی ، بھلے اس کے لیے آپ کو قصور کے بغیر بھی معذرت کرنی پڑی، تو یہ مثبت ریسپانس کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔
قرآن مجید ہمیں جو معیار دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی برائی کر دے تو آپ نے اس کے بدلے میں برائی تو کرنی ہی نہیں، البتہ بدلے میں خاموشی کے بجاے، کر سکو تو یہ کرو کہ اس برائی کا بدلہ اچھائی سے دے دو[1]۔
آپ کسی سے دس ہزار روپے قرض مانگتے ہیں، پیسے ہونے کے باوجود وہ شخص آپ کو ٹال جاتا ہے۔اس سے آپ کے دل میں منفی جذبات پیدا ہوں گے۔ فوری طور پر آپ کا ذہن اس طرف جائے گا کہ کل جب اسے کوئی ضرورت ہوئی تب بدلہ چکا دوں گا۔ چنانچہ وہی شخص کل آپ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے قرض کی ضرورت ہے، آپ اس طرح کر لیں کہ مجھے دس ہزار روپے دے دیں۔ آپ بدلے میں وہی بات ذہن میں رکھ کر کہتے ہیں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔اور بعض اوقات اسے یہ بات یاد دلا کر طعنہ بھی دے دیتے ہیں کہ یاد ہے نا تب آپ نے مجھے نہیں دیے تھے۔آپ نے گو جواب میں دیا، پر یہ طے ہے کہ یہ منفی ریسپانس ہی دیا۔ خدا چاہتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا اور جب آپ کے پاس ہوں تو آپ اس کو دے دیں۔ پہلے والی بات آپ دل میں رکھ کے اس کا بدلہ بعد میں نہ لیں ۔ اصل میں مومنانہ زندگی یہی ہے۔ اسی طرح کی زندگی جینے پر رب کے ہاں سے بڑا انعام ملتا ہے، جسے جنت کہتے ہیں۔ ہم میں سے جو شخص منفی زندگی نہیں چھوڑ سکتا، وہ سوچ لے کہ آخر کل پھر اُسے خدا کے ہاں سے انعام کس چیز کا ملے گا ؟ اللہ کے سامنے پیش ہونے والی زندگیوں میں سب سے زیادہ انعام پانے والی زندگی اسی کی زندگی ہو گی جسے مثبت ریسپانس یا صبر والی زندگی کہا جاتا ہے ۔ ہمیشہ آپ کی شخصیت میں مثبت پہلو ہی نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی زندگی جینے کی توفیق ان لوگوں کومل پاتی ہے جو خدا کی راہ پر چلنے کاایک بڑا عزم کر کے اس دنیا میں جینے کا طریقہ اختیار کر لیتے ہیں ۔
جن کے سامنے یہ چیز نہ ہو، اللہ ان کے لیے ایک رسمی عقیدہ ہو، عملی زندگی میں وہ اسے کوئی اہمیت نہ دے رہے ہوں، ان کے لیے ایسی زندگی اختیار کر لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ گالی کے جواب میں خاموش ہو جائیں، وہ کسی برائی کے بدلے میں اچھائی کر لیں، خدا کے انعام کے یقین کے بغیر وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ایسی سطح کی زندگی جینے کی توفیق صرف انھی کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق رکھتے ہیں ۔اپنی عملی زندگی میں اس کو اہمیت دیتے ہیں ۔اس کے انعام کو،اس کی رضا کو وہ اہمیت دیتے ہیں ۔ مرنے کے بعد والی زندگی پہ حقیقی یقین رکھتے ہیں۔
روزوں کے عمل سے ہم یہی تربیت پا رہے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ اپنی زندگی کو صبر پر ہی رکھنا ہے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ صبر کی بھرپور مشق کے لیے ہمیں کھانے پینے اور جائز ضرورتوں سے بھی روک لیا جاتا ہے۔کھانا کوئی بری چیز نہیں ہے، پینا کوئی بری چیز نہیں ہے، جائز جنسی خواہشات پوری کرنا حرام نہیں ہے، پھر بھی ہمیں اس سب سے روک کر دراصل صبر کی زندگی تعلیم کی جا رہی ہے ۔ بری چیزوں سے تو رکنا ہی ہے، لیکن یہاں پر اچھی چیزوں کو بھی مشق کے لیے روکا گیا کہ آپ کے اندر رکنے کی پاور پیدا ہو ۔ آپ کوضرورت کے کام سے بھی روک دیا گیا ہے تاکہ جو غیر ضروری کام ہیں، ان سے بہ آسانی رکنا بھی آپ سیکھ جائیں ۔ آپ جب وزنی چیزیں ورزش اور مشق کے لیے اٹھاتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہلکی چیزیں بہت آسانی سے اٹھا پاتے ہیں ۔وزنی چیزوں کو اٹھانے کی مشق سے آپ میں اضافی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔بدی انسان کی بنیادی ضرورت نہیں ہے۔وہ بدی کے بغیر آسانی سے رہ سکتا ہے۔ کھاناپینا اور جنسی خواہشات پوری کیے بغیر جینا سخت مشکل، بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
اگر کسی کو بہت سخت پیاس لگی ہے توبعض اوقات آدمی اس پیاس کی وجہ سے بے ہوش تک ہو جاتا ہے۔ ان بنیادی ضرورتوں سے رکنے کی مشق انسان کے لیے غیر ضروری امور سے رکنا آسان بنا دیتی ہے۔ ایک آدمی اگرجھوٹ نہ بولے تو کیا وہ بے ہو ش ہو جاتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ جھوٹ بولنا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ جھوٹی اغراض کی خاطر وہ جھوٹ کی برائی کو اپنا لیتا ہے۔نہ بولے تو اس کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا ۔کوشش کرے تو وہ آسانی سے جھوٹ کو اپنی زندگی سے نکال سکتا ہے ۔پروردگار ہمیں صبر کی زندگی نصیب فرمائے۔اور سچ یہ ہے کہ یہی واحد کامیابی کی زندگی ہے۔
[1]۔ حٰم السجدہ۴۱: ۳۴۔ ’وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ‘۔
____________