۸ ؍مئی ۲۰۱۸ء کو لکھنؤ میں، میں اپنے ایک خاندانی بزرگ کے جنازے میں شریک تھا۔غسل سے لے کر تدفین تک ہمارے کئی گھنٹے یہاں گزرے۔اِس دوران جو عمومی تجربہ ہوا،وہ یہ کہ دورِ جدید میں موت جیسا سنگین واقعہ بھی عملاًصرف ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔تعزیت اور جنازہ وتدفین میں شرکت اب لوگوں کے لیے صرف فیملی گیدرنگ (family gathering) کا ایک موضوع بن گیاہے، نہ کہ عبرت اور اظہارِ خیر خواہی کا موضوع۔
موجودہ زمانے کے بہت سے ’’بزی‘‘ اور ’’ماڈرن‘‘ لوگوں کے یہاں عیادت و تعزیت جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ اِس کے لیے ’’ٹائم‘‘ ، مگر جو لوگ تعزیت کرتے بھی ہیں ، وہ درد مند و غم گسار بن کر نہیں، بلکہ ’’مہمان‘‘ بن کراور صرف ایک بے روح سماجی رسم کے طورپر۔ایک ہی مقام پر رہتے ہوئے بھی لوگ خیر خواہی اور مزاج پُرسی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔بہت سے مرد اور عورت مرنے والوں کی موت پر صف ماتم بچھاتے اور اشک کا دریا بہاتے ہیں، مگر یہی لوگ اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اُن کے یہ آنسوسچے آنسو نہ تھے۔عملی و اقعات بتاتے ہیں کہ یہی لوگ جذبات کے درجے میں بھی اپنے زندہ اور مرحوم اعزہ کے لیے کبھی حقیقی خیرخواہ ثابت نہیں ہوتے۔ موت کے اندوہ ناک موقعے پر بھی لو گ مرحوم کے گھروالوں سے ’’خاطر داری‘‘ کی توقع لے کر جاتے اور اِس کا تجربہ نہ ہونے پر موت کی یاد کے بجاے شکایت لے کرواپس ہوتے ہیں۔ اب اکثر قریبی اعزہ تک قبرستان ہی سے لوٹ جاتے ہیں۔ نہ دوبارہ وہ اپنے مرحوم عزیز کے گھر جاکر اُن کی غم گساری کرتے ہیں اور نہ اُن کے لیے کوئی عملی کنٹری بیوشن۔ اِسی قساوت اور بے دردذہنیت کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کو اکثر لوگ مرحوم کے اہل خانہ کی کوئی خبر نہیں لیتے۔گویا اِس طرح کے موقعے پرصرف چہرہ دکھا کر اپنا نام درج کرانا اب بیش تر عورتوں اور مردوں کا فیشن بن چکاہے۔
موت کے دردناک موقعے پر بھی لوگوں کا رویہ اکثر رسمی اور دنیا پرستانہ دکھائی دیتا ہے۔ موت کا واقعہ اُن کی انا اور احساسِ برتری کے جھوٹے مینارکو ڈھادینے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔موت کی مجلس میں بھی لوگ کینہ و نفرت لے کر داخل ہوتے ہیں۔وہ بعض لوگوں کی طرف لپکنے اور بعض کو نظرانداز کرنے کی پست روش سے اوپر نہیں اٹھ پاتے۔ موت کا طوفانی سیلاب بھی اُن کے دلوں کے زنگ اور کدورت کو صاف نہیں کرتا۔موت کا سنگین واقعہ اُن کے حق میں ایک نئی خدا پرستانہ زندگی کی شروعات کے لیے نقطۂ آغاز نہیں بنتا۔دلوں کو نرم اور روح کو پگھلادینے والے اِس خدائی موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اپنی زندگی کو بدلنے ، خاص طورپر اعزہ و اقارب اپنی انا اور کدورت کوختم کرکے باہم بھائی بھائی بن کر ر ہنے کے بجاے بہ دستور وہ اپنے خود تراشیدہ اَہرام میں نخوت ورعونت کی زندہ لاش بنے رہتے ہیں۔
دوسرے کی موت اپنی موت کی یاددہانی کا ذریعہ اور اپنے جیسے ایک انسان کا اچانک اپنے درمیان سے اٹھ جانا اب لوگوں کے لیے موجودہ زندگی کی بے ثباتی کا ریمائنڈر نہیں بنتا۔ دوسرے کی تدفین کو وہ اپنی تدفین سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔وہ اب بھی اپنے آپ کو موت سے زیادہ ،زندگی سے قریب محسوس کرتے ہیں۔ قبرستان پہنچ کر بھی وہ اپنی دنیوی سرگرمیوں میں گم دکھائی دیتے ہیں۔یہاں بھی لوگوں کو موت کے بجاے موبائل یاد آتا ہے۔وہ خدا اور اُس کے فرشتوں سے بات کرنے کے بجاے انسانوں سے بات کرنے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔قبرستان پہنچ کر بھی اُن کے دل نہیں پگھلتے ،وہ رونے سے زیادہ ہنسنے میں حظ محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی بے روح ’مذہبیت‘ کی دھوم اُس وقت بھی کم نہیں ہوتی ،جب کہ یہاں اِس قسم کی تمام ظاہر داریوں کو ڈھا کرخدا اُن کے لیے خوف وعبرت کا آخری موقع فراہم کردیتاہے۔ یہاں لوگ ’’الحمدللہ‘‘ اور ’’ماشا ء اللہ‘‘ کی زبان میں پُر فخر طورپر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ــــــــ میں نے غسل دیا، میں نے قبر میں اتارا، وغیرہ؛ مگر کوئی شخص موت اور آخرت کی یاد سے لرزتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ غسل وجنازہ اورقبر ولحد بھی بہت سے ’غیر عالم‘ مفتیوں کے لیے مقامِ عبرت کے بجاے ’مذہبی‘ موشگافیوں کا اکھاڑہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر بھی اُن کو موت کے بجاے ’مسلک‘ دکھائی دیتا ہے۔ ــــــــ وہ دعاے مغفرت کے بجاے ’ایصالِ ثواب ‘اور ’ختم قرآن‘ کا کرتب دکھاتے اور اللہ ، اہلِ ایمان اور خود اپنے آپ کو فریب دینے کی کامیاب تجارت میں مشغول نظر آتے ہیں۔
کاش، ہم موت کی یاد اور خدا کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت وتدبرکے ذریعے سے اپنے دل کے اِس زنگ کو دور کرتے تو ہماری یہ تمام غفلتیں ختم ہوجاتیں، ’’لذات‘‘اور دنیا پرستی کاگنبد ڈھے جاتا اور موت کا تجربہ ہمارے لیے بامقصد اور خداپرستانہ زندگی اختیار کرنے کا ایک عظیم ربانی موقع ثابت ہوتا۔
(لکھنؤ، ۹ ؍مئی ۲۰۱۸ء)
____________