غزوۂ بدر میں فتح یاب ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سات دن مدینہ میں قیام کیا۔ پھر آپ خود ایک دستہ لے کر بنوسلیم کی سرکوبی کے لیے نکلے۔ آپ کا پرچم حضرت علی نے تھام رکھا تھا۔ بنوسلیم کے چشمۂ کدر پر پہنچ کر آپ نے تین دن قیام کیا، تاہم کسی جنگ کی نوبت نہ آئی۔
سیدہ فاطمہ سے نکاح
سب سے پہلے حضرت ابوبکر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت فاطمہ کا رشتہ مانگا۔ آپ نے فرمایا: میں اس بارے میں اللہ کے فیصلے کاانتظار کررہا ہوں۔ پھر حضرت عمر نے خواہش ظاہرکی تو بھی آپ نے یہی جواب دیا۔ تب حضرت علی کے اعزہ (یا ان کی باندی)نے انھیں حضرت فاطمہ کا رشتہ مانگنے کا مشورہ دیا۔ حضرت علی اس سلسلے میں آپ سے بات کرنے آئے تو آپ نے فرمایا: ’مرحبًا وأھلًا‘۔ آپ نے حضرت فاطمہ سے اجازت چاہی توانھوں نے سکوت سے اظہار رضامندی کیا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت فاطمہ رونے لگیں تو آپ نے فرمایا: اگر میرے خاندان میں علی سے بہتر کوئی مرد ہوتا تو میں تمھارا بیاہ اسی سے کرتا۔ صفر ۲ھ کے آخری ہفتے (یا رجب ۲ھ)میں وہ حضرت علی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ نکاح کے وقت حضرت علی کی عمر اکیس سال پانچ ماہ (دوسری روایت :پچیس برس) اور حضرت فاطمہ کی اٹھارہ برس(دوسری روایت:پندرہ سال پانچ ماہ) تھی۔ خطبۂ نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اور حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور دیگر صحابہ نکاح کے گواہوں میں شامل ہوئے۔
حضرت علی فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ سے نکاح کرنا چاہتا تھا، لیکن میرے پاس کوئی مال نہ تھا۔ مجھے آپ کی عنایات اور مہربانیاں یادآئیں تو نکاح کی خواہش ظاہر کر دی۔ آپ نے پوچھا: تمھارے پاس (مہر میں دینے کے لیے) کوئی مال ہے؟میں نے کہا: کچھ نہیں۔ فرمایا: (حطمہ بن محارب کی بنی ہوئی) وہ حطمی زرہ کہاں ہے جو میں نے تمھیں فلاں روزدی تھی؟ بتایا: میرے پاس ہے، اس کی قیمت چار درہم بھی نہ ہو گی۔ آپ نے فرمایا: وہی بطور مہر دے دو (مسند احمد، رقم ۶۰۳۔ ابوداؤد، رقم ۲۱۲۶۔ نسائی، رقم ۳۳۷۷)۔ باقر مجلسی کا بیان ہے کہ حضرت علی نے وہ زرہ فروخت کی اور ساری رقم آپ کے دامن میں ڈال دی۔ انھوں نے بتایا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کتنے درہم ہیں۔ آپ نے اس میں سے کچھ درہم حضرت بلال کو دے کر عطر اور خوشبو لانے کو کہا۔ باقی د راہم آپ نے حضرت ابوبکر کودے دیے اوراس سے لباس اور خانہ داری کی ضروری اشیا خریدنے کا حکم دیا۔ آپ نے حضرت عمار بن یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ساتھ بھیجا۔ انھوں نے باہمی مشورے سے یہ اشیا خریدیں، ایک قمیص، ایک اوڑھنی، ایک سیاہ روئیں دارخیبری چادر، کھجور کی بٹی ہوئی رسی سے بنی ہوئی ایک چارپائی، مصری کھدر سے بنے ہوئے دولحاف، چمڑے کے چار تکیے جن میں خوش بوداراذخر گھاس بھری ہوئی تھی، باریک اونی پردہ، ہجر کی بنی ہوئی چٹائی، ایک ہتھ چکی، تانبے کا ایک لگن، چمڑے کی ایک مشک، ایک چھوٹا مشکیزہ ، دودھ پینے والا ایک پیالہ، ایک تارکول ملا ہوامٹی کالوٹا، سبز رنگ کاایک گھڑااور مٹی کے چند کوزے۔
صحابہ نے یہ سب اشیا لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیں تو آپ نے دعا فرمائی: اللہ اسے اہل خانہ کے لیے مبارک کرے۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کا مہر چار سومثقال(ساٹھ چاندی کے درہم)مقرر کیا گیا تھا۔ تیسری روایت میں پانسو (چار سو اسی)درہم بتائے گئے ہیں (بحار الانوار، ج۱۸، باب تزویجہا)۔
حضرت علی کے نکاح کو ایک ماہ گزر گیا توازواج مطہرات جمع ہو کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور حضرت فاطمہ کی رخصتی کے لیے حضرت علی کی درخواست پیش کی۔ تب حضرت فاطمہ کی ہم شیر ، حضرت عثمان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ کی وفات کوسولہ دن گزرے تھے۔ آپ نے حضرت سیدہ کو دلہن بنانے اور حجرۂ عروسی کے طور پر حضرت ام سلمہ کا کمرہ سجانے کا حکم دیا۔ حضرت ام سلمہ نے حضرت فاطمہ کوحضرت جبرئیل علیہ السلام کے پروں سے اترنے والے عنبر کی خوشبولگائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دلہا کے لیے ولیمہ کرنا ضروری ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے دو مینڈھے ذبح کیے ، حضرت علی گھی اور خرما خرید لائے اور انصار نے مکئی کا دلیہ تیار کیا تو دعوت ولیمہ کا سامان ہوگیا۔ حضرت علی نے بلند جگہ پر کھڑے ہو کرشرکت کی دعوت عام دی۔ ایک معجزہ تھا کہ کھاناچار ہزار شرکاکو بھی کم نہ ہوا۔ حضرت فاطمہ کی رخصتی اور دعوت ولیمہ اسی سال(یکم یا چھ) ذی الحجہ کو ہوا۔ غروب آفتاب کے بعد حضرت فاطمہ کوحضرت ام سلمہ کے کمرے کے ایک کونے میں بٹھایا گیا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ایک پیالے سے وضو فرما کر پانی حضرت علی پر چھڑکا، پھر حضرت فاطمہ کے سر، سینہ اور کندھوں پر چھڑک کرمیاں بیوی کے لیے دعاے برکت فرمائی۔ حضرت علی بعد میں حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر منتقل ہو گئے۔ آپ کو حضرت حارثہ کا گھر لینے میں تردد تھا، لیکن انھوں نے بہت اصرار کیا توآپ نے حضرت فاطمہ کو ان کی خادمہ حضرت ام ایمن کی معیت میں پیادہ پا رخصت فرمایا۔
حضرت عائشہ کی رخصتی کے وقت حضرت اسماء بنت عمیس حبشہ میں تھیں۔ اس کے باوجودیہ کہنا کہ انھوں نے حضرت عائشہ کو دلہن بنایا اور انھوں نے اس پیالے سے دودھ بھی پیا جس میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ پی چکے تھے، درست نہیں(مسند احمد، رقم ۲۷۴۷۱) ۔ اصل میں یہ روایت حضرت اسماء بنت یزید (مسند احمد، رقم ۲۷۵۹۱)کی تھی جو غلطی سے حضرت اسماء بنت عمیس سے جوڑ دی گئی۔ باقر مجلسی نے اس کی تائید کی ہے (بحار الانوار)۔
حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ (۲ ھ میں)جنگ بدر کے بعد مال غنیمت تقسیم ہواتو میرے حصے میں ایک اونٹنی آئی، پھرایک اونٹنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے مجھے عطا کردی۔ میں ان اونٹنیوں پر خوش بو دار گھاس اذخر ڈھونا چاہتا تھا تاکہ( اسے سناروں کے ہاتھ) بیچ کر سیدہ فاطمہ کے ساتھ اپنے ولیمے کا خرچ نکالوں۔ اس سلسلے میں میں نے بنو قینقاع کے ایک (یہودی) زرگرسے بات کر لی۔ اونٹنیاں ایک انصاری کے دروازے پر باندھ کر میں نے اونٹنیوں کے پالان ، گھاس بھرنے کے لیے تھیلے اور رسیاں جمع کیں اور سنار کو ساتھ لے کر اذخر اکٹھی کرنے نکلا۔ (اس وقت شراب حرام نہ ہوئی تھی) حمزہ بن عبدالمطلب انصاری کے گھر کے اندر شراب نوشی کر رہے تھے، ایک باندی ان کے ساتھ تھی۔ وہ پکاری:
ألا یا حمز، للشرف النواء
فھن معقلات بالفناء
” او حمزہ ،یہ اونچی کوہانوں والی پلی ہوئی اونٹنیاں(تو دیکھو) یہ جوگھر کے باہر والے صحن میں بندھی ہیں۔“
حضرت حمزہ نے تلوار لے کر اونٹنیوں پر حملہ کردیا، ان کی کوہانیں کاٹ ڈالیں، پہلو چیر دیے اور کلیجے نکال دیے۔ حضرت علی واپس آئے اوریہ ہول ناک منظر دیکھا تو شکایت لے کرآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے۔ حضرت زید بن حارثہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنی چادر اوڑھی اور حضرت علی اورحضرت زید کے ساتھ حضرت حمزہ کے پاس پہنچے اورسخت ناراضی کا اظہار کیا۔ حضرت حمزہ کا نشہ ابھی اترا نہ تھا، بولے:تم سب تو میرے آبا کے غلام ہو۔ آپ کو معلوم ہوا کہ وہ نشے میں ہیں تو فوراً پلٹ آئے (بخاری، رقم ۲۳۷۵۔ مسلم، رقم ۵۱۷۱)۔ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر خمس کا حکم آ چکا تھا۔
دوسری روایت کے مطابق ۲ھ میں نواسۂ رسول حسن کی ولادت ہوئی۔
محرم ۳ھ
:جنگ بدر سے فراغت کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں آئے محض سات دن گز رے تھے کہ معلوم ہوا کہ بنوسُلیم اور بنو غطفان نے اپنے چشمے کدر پر فوج جمع کر رکھی ہے۔ آپ نے حضرت سباع بن غرفطہ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا اورایک دستہ لے کر کدر کا رخ کیا، حضرت علی نے آپ کاعلم تھام رکھا تھا۔ آپ نے وہاں تین دن قیام کیا، لیکن جنگ کی نوبت نہ آئی، کیونکہ غنیم اپنے مویشی چھوڑ کر فرار ہو چکا تھا۔ آپ پانسو اونٹ اور بکریاں لے کرمدینہ لوٹے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ یہ غزوہ شوال۲ھ میں پیش آیا۔
جنگ بدر میں شکست کھانے کے بعدمشرکین مکہ نے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ بنو عبد مناف اوربنوکنانہ نے مل کر سامان جنگ تیار کیا، ابوسفیان نے اپنے سامان تجارت کا تمام نفع لگا یا اور شوال ۳ھ میں ان کا تین ہزار کا لشکرمدینہ پر چڑھائی کرنے نکل کھڑا ہوا۔ حضرت عباس نے فوراًایک خط لکھ کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومطلع کر دیا۔ آپ کا خیال مدینہ کے اندررہ کر مقابلہ کرنے کا تھا، لیکن کچھ صحابہ کے اصرار پرشہر سے تین میل باہر نکل کر جبل احد کی گھاٹی میں پڑاؤ ڈال دیا۔ اس غزوہ میں حضرت علی میمنہ پر تھے اور انھوں نے خوب داد شجاعت دی۔
۷؍ شوال ۳ھ(۲۳ ؍ مارچ ۶۲۵ء):رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اوس کاپرچم حضرت اسید بن حضیر کو اورخزرج کا حضرت حباب بن منذر کو عطا کیا۔ مہاجرین کا علم پہلے آپ نے حضرت علی کو عطا کیا، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ مشرکین کا جھنڈاقریش کے روایتی علم بردار قبیلہ بنوعبدالدار کے پاس ہے تو فرمایا: ہمیں داریوں کا حق ادا کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور علم حضرت مصعب بن عمیر داری کو تھما دیا۔ ادھر ابوسفیان نے داریوں کوعار دلائی کہ تم نے بدر کے دن ہمارے پرچم کا پاس نہیں کیا۔ ان کا جھنڈا طلحہ بن ابوطلحہ(اصل نام:عبداﷲبن عبدالعزیٰ) کے ہاتھ میں تھا، وہ آگے بڑھا اور مبارزت کے لیے للکارا۔ حضرت علی اس کاسامنا کرنے نکلے اورسبقت کر کے اس کے سر پر ایسا وار کیا کہ اس کی کھوپڑی پاش پاش ہوگئی۔ قریش کے چار علم بردار لگاتار اہل ایمان کے ہاتھوں جہنم رسیدہوئے تو ارطات بن عبدشرحبیل نے اسے تھاما، وہ بھی حضرت علی کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچا۔ پرچم زمین پر کافی دیر پڑا رہا، پھر سمرہ بنت علقمہ نے اسے اٹھا لیا تو سب اس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ حضرت علی کی مبارزت کا یہ بیان ابن سعد کا ہے۔ طبری اور ابن اثیرکی تفصیل مختلف ہے۔ جنگ شروع ہوئی تو مشرک فوج کاپرچم بردار(شیبہ عبدری کا بھائی) طلحہ بن عثمان باہر نکل کر پکارا : محمد کے ساتھیو،تم گمان کرتے ہو کہ اللہ تمھاری تلواروں کے ذریعے سے ہمیں جلد دوزخ میں پہنچا دیتا ہے اور تم ہماری تلواروں کے ذریعے سے جلد جنت میں چلے جاتے ہو۔ کون ہے جو میری تلوار کے وار سے فوراً جنت میں جائے گا یا مجھے اپنی تلوار سے جھٹ پٹ دوزخ بھیجے گا؟ حضرت علی نے اس کی مبارزت قبول کی اور کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے !میں اس وقت تک تمھیں نہ چھوڑوں گا جب تک اپنی تلوار سے تمھیں جہنم میں نہ پہنچا دوں یا تمھاری تلوار کے وارسے خود جنت میں نہ چلا جاؤں۔ انھوں نے سیدھا اس کے پاؤں پر وار کیا جس سے پاؤں جسم سے الگ ہو گیا اوروہ اس طرح گرا کہ شرم گاہ نظر آنے لگی۔ وہ اللہ اور رشتۂ رحم کی دہائی دینے لگا تو حضرت علی نے چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اللہ أکبر‘ کا نعرہ بلند کیا۔ آپ نے (یا صحابہ نے) حضرت علی سے پوچھا: اس کا کام تمام کرنے میں آپ کو کیا رکاوٹ پیش آئی؟ حضرت علی نے جواب دیا: میرے چچیرے کی شرم گاہ عریاں ہو گئی اوراس نے اللہ اوررحم کا واسطہ دیا تو مجھے حیا آ گئی۔
اس باب میں ابن ہشام کی روایت اس طرح ہے: جنگ کا بازار گرم ہوا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پرچم تلے بیٹھ گئے اورحضرت علی کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت علی ’میں ابو القصم (پیس دینے والا) ہوں!‘، ’میں ابو القصم ہوں!‘ کا نعرہ لگا کرللکارے تو مشرکوں کاعلم بردارابوسعد بن ابوطلحہ بولا : او ابوالقصم، کیا تم دوبدو مقابلے میں آنا چاہتے ہو؟حضرت علی نے کہا:ہاں۔ دونوں کی تلواریں لہرائیں ، حضرت علی نے ایسا وار کیا کہ وہ ڈھے پڑا، لیکن انھوں نے اس کی جان نہ لی، کیونکہ اس نے اپنا ستر کھول دیا تھا۔
اس کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کا ایک جتھا دیکھا توحضرت علی کو اس پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علی اورحضرت حمزہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اورخوب قتال کیا۔ حضرت علی نے عمرو بن عبداللہ جمحی کو قتل کر کے اس کا دستہ تتر بتر کر دیا۔ آپ نے دشمنان اسلام کی ایک اورٹولی دیکھی توحضرت علی کو پھر حملہ کرنے کو کہا۔ حضرت علی ان پر ٹوٹ پڑے، شیبہ بن مالک کو مار دیا اور باقیوں کو منتشر کر دیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: یا رسول اﷲ،یہ ہے یاری اور مددگاری۔ آپ نے فرمایا:علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جبرئیل نے جواب دیا: میں آپ دونوں سے ہوں۔ اسی موقع پر یہ پکار سنی گئی:
لا سیف إلا ذالفقا
ر ولافتی إلاعلي
”کوئی تلوار نہیں ہے، مگر ذوالفقار (علی کی تلوار)، کوئی دلیرنوجوان نہیں ہے، مگر علی۔ “
ابن قمئہ لیثی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شبہ میں آپ کے علم دار حضرت مصعب بن عمیر کوشہید کر دیا توآپ نے پرچم پھرحضرت علی کو تھما دیا۔ ابتدا ہی میں قریش کے تمام علم بردار قتل ہو گئے تو وہ اس طرح دم دبا کے بھاگے کہ کسی طرف دیکھتے ہی نہ تھے۔ ان کی عورتیں لعن طعن اور تبرا کرتی پہاڑوں پر چڑھ گئیں۔ مسلمان قریش کا سازو سامان لوٹنے لگے توکوہ عنین پر متعین تیر اندازوں کا دھیان بھی مال غنیمت کی طرف مرتکز ہو گیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گئے اور آپ کی موکدہ پوزیشن چھوڑکر غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر اور دس جان نثار صحابہ کی قلیل جماعت ثابت قدم رہی۔ مشرک کمانڈروں خالد بن ولید اورعکرمہ بن ابو جہل نے اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہ تیر انداز وں کے چھوڑے ہوئے پہاڑسے گزر کر جیش اسلامی پر عقب سے حملہ آور ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر اور ان کے ساتھی شہید ہوئے ، اہل ایمان کی صفیں ٹوٹ گئیں اور ان کی جمعیت منتشر ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جیتی ہوئی جنگ ہزیمت میں بدل گئی۔
اس دوران میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیل گئی۔ منتشر صحابہ میں سے کچھ واپس مدینہ چلے گئے ، کچھ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے شہدا میں آپ کوتلاش کیا، جسد اطہر ان میں نہ پا کر یہی سوچا کہ میں بھی لڑتا ہوا مارا جاؤں۔ چنانچہ تلوارکی میان توڑ دی اور کفار پر ٹوٹ پڑا۔ تبھی دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے پکاررہے ہیں : اللہ کے بندو، میری طرف آؤ، اللہ کے بندو، میری طرف آؤ۔
سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک پر افواہ کا جھوٹ کھلا۔ انھوں نے خود کے اندر سے آپ کی آنکھوں کو پہچانا توآوازیں دینے لگے : اہل اسلام، خوش خبری ہو، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود ہیں۔ آپ کی طرف لپکنے والوں میں حضرت ابوبکر ، حضرت طلحہ ، حضرت علی ، حضرت عمر ، حضرت زبیر ، حضرت حارث بن صمہ اورکچھ مزید صحابہ تھے۔ بدبخت مشرک ابو عامر نے میدان بدر میں جابجا گڑھے کھود رکھے تھے تاکہ مسلمان ان میں گر پڑیں۔ ایسے ہی ایک گڑھے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے تھے۔ حضرت علی نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے اٹھایا تو آپ سیدھے کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوسعید خدری کے والدحضرت مالک بن سنان نے آپ کے چہرۂ مبارک سے خون چوس کر نگل لیا۔ قتادہ کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوئے توحضرت ابوحذیفہ کے آزادکردہ حضرت سالم نے آپ کو بٹھایااور آپ کے چہرے سے خون صاف کیا۔ میدان جنگ سے اٹھ کر آپ گھاٹی میں بیٹھ گئے تو حضرت علی نے کوہ احد کے دامن میں موجودپتھر کے بارانی تالاب ، مہراس کا پانی اپنی چرمی ڈھال میں بھرا اور آپ کو پیش کیا۔ آپ کو اس کی بو ناگوار محسوس ہوئی، اس لیے نوش نہ فرمایا، البتہ اس سے چہرہ دھویا اور سر پر بہا لیا۔
حضرت سہل بن ساعد ساعدی سے پوچھا گیا: جنگ احد کے دن آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کا کس طرح علاج کیاگیا؟انھوں نے بتایا: حضرت علی اپنی ڈھال میں چشمۂ مہراس سے پانی بھر کر لاتے اور حضرت فاطمہ چہرۂ اقدس سے خون دھوتیں۔ (جب انھوں نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے اور خون نکلتا ہے تو ) ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ سے آپ کازخم بھر دیا (بخاری، رقم ۲۴۳) ۔
حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد ان کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب ان کی میت دیکھنے آئیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (یا حضرت علی ) نے ان کے بیٹے حضرت زبیر سے کہا:انھیں روکو۔ آپ ہی اپنی پھوپھی سے بات کریں، انھوں نے حضرت علی کو جواب دیا۔ اس اثنا میں آپ تشریف لے آئے اور فرمایا: مجھے ان کے حواس کھونے کا خطرہ ہے۔ حضرت صفیہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے، میں صبر کروں گی، ان شاء اﷲ۔ آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھااور دعا فرمائی تو وہ ’إنا ﷲو إنا إلیہ رٰجعون‘ کہہ کر رونا شروع ہو گئیں۔
سعید بن مسیب کہتے ہیں: غزوۂ احد کے دن حضرت علی کوسولہ وار لگے جو انھیں زمین پر گراتے رہے، لیکن حضرت جبرئل علیہ السلام انھیں اٹھاتے رہے۔
جنگ کے خاتمہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو کفار کے ارادوں کی خبر لینے کے لیے بھیجا۔ آپ نے انھیں ہدایت دی کہ دیکھ لینا، قریش نے مکہ جانا ہوا تو گھوڑوں کو پرے ہٹا کر اونٹوں پر سوار ہوں گے، لیکن اگر وہ گھوڑوں پر بیٹھے ہوئے اونٹوں کو ہانک رہے ہوئے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ شہر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!اگر انھوں نے ایسا کرنا چاہا تومیں ان سے پہلے ان پر ٹوٹ پڑوں گا۔ تم ان کی پوزیشن دیکھ کر چپکے سے میرے پاس لوٹ آنا۔ حضرت علی فرماتے ہیں: میں نے ان کا پیچھا کیا، انھیں اونٹوں پر سوارمکہ واپس جاتے دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ آپ کی اخفا کی ہدایت بھول گیا اور وہیں سے بلند آواز میں قریش کی واپسی کی اطلاع دینے لگا۔
جنگ احد میں سعد بن ابی وقاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑے ہو کر تیر اندازی کی۔ آپ نے فرمایا: تیر پھینکو ، تم قوی نوجوان ہو۔ آپ اپنے ترکش سے تیرنکال کر انھیں پکڑاتے اور فرماتے : ’’تیر پھینکو ، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں ‘‘(بخاری، رقم ۴۰۵۵۔ ترمذی، رقم ۳۷۵۳)۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ نبی رحمت نے ان الفاظ میں حضرت سعد کے علاوہ کسی کو دعا نہیں دی (مسلم ، رقم ۶۳۱۲۔ مسند بزار، رقم ۵۲۰)۔لیکن ایک متفق علیہ روایت کے مطابق آپ نے خوش ہو کر حضرت زبیر بن عوام کے لیے بھی یہی کلمات ’’ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں‘‘ ارشاد فرمائے (بخاری، رقم ۳۷۲۰۔ مسلم ، رقم ۶۳۲۵)۔ ابن حجرکی وضاحت کے مطابق ہو سکتا ہے کہ حضرت زبیر کاواقعہ حضرت علی کے علم ہی میں نہ ہو جو جنگ خندق میں پیش آیا یا ان کی نفی خاص جنگ احد کے ضمن میں ہو۔
آخر میں شہداے احد کی تدفین ہوئی۔ جب بھی میت آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے حضرت حمزہ کی میت کے ساتھ رکھ لیتے اور دونوں شہیدوں کی اکٹھی نماز جنازہ پڑھاتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک جنازے میں نو شہدا کے ساتھ دسویں میت حضرت حمزہ کی ہوتی۔ دو دو تین تین شہیدوں کو ایک قبر میں ڈالا گیا۔ حضرت علی ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اورحضرت زبیر حضرت حمزہ کی تدفین کے لیے قبر میں اترے اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے۔
مدینہ لوٹ کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار سیدہ فاطمہ کو دے کر کہا : اسے دھو کر اس پر لگا ہواخون صاف کر دو۔ واﷲ،اس نے آج میرا خوب ساتھ دیا ہے۔ حضرت علی نے بھی اپنی تلوار ان کے سپرد کی اور یہی الفاظ کہے۔ آپ نے فرمایا: اگر تو نے خوب قتال کیا تو تیرے ساتھ سہل بن حنیف ، حارث بن صمہ، عاصم بن ثابت اور ابودجانہ نے بھی خوب جنگ کی۔ حضرت علی نے تلوار دیتے ہوئے یہ فخریہ اشعاربھی پڑھے:
أفاطم ھاک السیف غیر ذمیم
فلست برعدید ولا بملیم
” اے فاطمہ ،یہ تلوار لے لو جس میں کوئی قابل مذمت نقص نہیں پایا گیا ، میں نہ بزدل ہوں نہ لائق ملامت۔“
لعمري قد قاتلت في حب أحمد
و طاعة رب بالعباد رحیم
”قسم میرے دین کی میں نے نبی احمد کی محبت میں، اس رب کی اطاعت کرتے ہوئے قتال کیاجو اپنے بندوں کے لیے رحمت کامل ہے۔“
وسیفي بکفي کالشھاب اہزہ
أجدّ بہ من عاتق و صمیم
” تلوار میرے ہاتھ میں روشن ستارے کی طرح تھی ، میں اسے حرکت دے کر دشمنوں کے کندھے اور ان کی ہڈیاں کاٹ رہاتھا ۔“
فما زلت حتی فض ربي جموعھم
و حتی شفینا نفس کل حلیم
”میں برابر شمشیر زنی کرتا رہا، حتیٰ کہ میرے رب نے ان کی جماعت کو پراگندہ کر دیا اور ہم نے ہرپر عزم ، ذی عقل کا جی ٹھنڈا کر دیا۔“
۸ ؍شوال ۳ھ(۲۴؍ مارچ ۶۲۵ء):جنگ احد کے اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کا چہرہ زخمی اور دندان مبارک ٹوٹا ہوا تھا، احد کے غازیوں کو لے کر قریش کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے۔ علم نبوی بندھا ہوا تھا، آپ نے ایسے ہی حضرت علی (یا حضرت ابوبکر )کو پکڑا دیا۔ آپ نے بنواسلم کے تین اصحاب کوقریش کا پتا لگانے آگے بھیجا۔ حمراء الاسدکے مقام پر مشرکوں نے انھیں دیکھ لیااور پکڑ کرشہید کردیا۔ جب آپ پہنچے توان اصحاب کی تدفین کی اور جگہ جگہ آگ روشن کرنے کا حکم دیا۔ کفار پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے، صفوان بن امیہ انھیں روک رہا تھا۔ جب نبوی فوج آتی دیکھی تووہ خوف زدہ ہو کر مکہ روانہ ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ لوٹ آئے۔
۴ھ ، (۶۲۵ء):حضرت عمرو بن امیہ ضمری ان ستر (یا چالیس)قاری صحابیوں میں شامل تھے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبراعامر بن مالک کی درخواست پر بنو عامر کی تعلیم کے لیے روانہ فرمائے۔ یہ حرۂ بنوسلیم پار کر کے بیر معونہ پرپہنچے توابو برا کے بھتیجے عامر بن طفیل نے بنوسلیم کے ذیلی قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ کی مدد سے ان سب کو شہید کرا دیا۔ حضرت عمرو بن امیہ جنھیں ظالم عامر نے اپنی ماں کی نذر پوری کرتے ہوئے چھوڑ دیاتھا، مدینہ واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ملنے والے بنوکلاب کی شاخ بنوعامر کے دو افراد کودشمن سمجھ کر انتقاماً قتل کر دیا۔ انھیں علم نہ تھا کہ ان کا قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد امان میں ہے۔ آپ نے مقتولوں کی دیت ادا کرنے کا ارادہ فرمایا:معاہدے کی رو سے اس کا ایک حصہ بنو نضیر پر واجب الادا تھا، اس لیے آپ یہ معاملہ طے کرنے کے لیے اپنے اس حلیف یہودی قبیلے کے ہاں گئے۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی اورحضرت اسید بن حضیر آپ کے ساتھ تھے۔ حلف نامے کی رو سے امن اور جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دینا ان کے لیے لازم تھا۔ بظاہر انھوں نے اس کا اقرار بھی کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کو بنونضیر کے مکانوں کی دیوارکے سائے میں بٹھا کر وہ آپ کے قتل کی تدبیر کرنے لگے۔ ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش آگے بڑھا کہ وہ بالا خانہ پر چڑھ کر آپ پر پتھر لڑھکائے گا۔ اس کے ساتھی سلام بن مشکم نے اسے منع کیا، لیکن وہ نہ مانا۔ وہ چھت پر چڑھا ہی تھا کہ اللہ کی طرف سے آپ کو خبردار کردیا گیا۔ آپ فوراً مدینہ لوٹ آئے، پھر بنونضیر کی اس بدعہدی کی وجہ سے ان کا محاصرہ کر لیا، نبوی فوج کا علم حضرت علی نے اٹھا رکھا تھا۔ یہ محاصرہ پندرہ دن(واقدی۔ چھ دن:ابن اسحاق) کے بعد ختم ہوا جب وہ اپنی جان بخشی کے لیے شام کو جلاوطن ہوئے۔
ابو سفیان نے جنگ احدسے واپسی پرپکار کر کہا تھا: آیندہ سال تم سے بدر میں پھرجنگ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کوہاں کہنے کا حکم دیا۔ شعبان ۴ ھ میں آپ حسب وعدہ پندرہ سو صحابہ کالشکر لے کر روانہ ہوئے۔ آپ کا علم حضرت علی نے تھام رکھا تھا۔ ابوسفیان دو ہزار کی فوج لے کرمکہ سے نکلا، لیکن بدر سے پہلے مر الظہران کے مقام پر رک گیا۔ اس نے اپنی فوج کومخاطب کر کے کہا: یہ سال خشکی وقحط لایا ہے، جب کہ جنگ کے لیے شادابی کا موسم موزوں ہوتا ہے، اس لیے میں توواپس جا رہا ہوں۔ اس کی قوم بھی آمادۂ جنگ نہ تھی فوراً واپسی پر تیار ہو گئی۔ اہل مکہ نے اپنی فوج کو ستوؤں والی فوج (جیش السویق) قرار دیا، کیونکہ وہ محض ستو پی کر واپس آگئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے آنے کا آٹھ دن انتظار کیا، پھر مدینہ لوٹے۔ اس دوران میں اہل ایمان نے بدر صغریٰ کے بازارمیں تجارت کر کے خوب نفع کما لیا۔
۴ ھ ہی میں حضرت علی کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا۔
شوال ۵ھ(فروری ۶۲۷ء) میں جنگ خندق ہوئی۔ مشرک فوج کے کچھ گھڑ سواروں نے اس جگہ سے خندق پھلانگی جہاں اس کی چوڑائی کچھ کم تھی اور مدینہ میں گھس آئے۔ انھوں نے کوہ سلع کے قریب زمین شور پر گھوڑے دوڑانے شروع کیے تھے کہ حضرت علی چند سپاہیوں کو لے کر آئے اور اس راستے پر قبضہ جمالیا جہاں سے وہ کودے تھے۔ قریش کانوے سالہ سورما عمرو بن عبد ود جو جنگ بدر میں شدید زخمی ہوا تھا اور یوم احد کو نہ آسکا تھا ، سر پر صافہ باندھے، جنگجوؤں کی ہیئت بنائے ان میں شامل تھا۔ حضرت علی نے پکار کرکہا: عمرو، تم اﷲسے عہد کیا کرتے تھے، قریش کا کوئی شخص اگر دو باتیں (options) میرے سامنے رکھے گا تو میں ایک ضرور مان لوں گا۔ اس نے اقرار کیا: ہاں۔ حضرت علی نے کہا : تب میں تمھیں اﷲاور رسول پر ایمان لاکر مسلمان ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے کہا : مجھے اس کی چنداں حاجت نہیں۔ حضرت علی نے کہا:میں تمھیں گھوڑے سے اتر کر دوبدو لڑائی کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے کہا: بھتیجے،کس لیے؟ بخدا،میں تمھاری جان لینا نہیں چاہتا۔ حضرت علی نے کہا: واﷲ، میرا تو تمھیں قتل کرنے کا ارادہ ہے۔ اس پر عمروجوش میں آیا ، گھوڑے سے اتر ا، تلوار سونتی اوراپنے گھوڑے کوہلاک کر کے حضرت علی پر حملہ آور ہو گیا۔ اس کے زور دار وار کو انھوں نے ڈھال سے روکا، پھر بھی ان کی پیشانی پرزخم آ گیا۔ سخت مقابلے کے بعد حضرت علی نے اس کے کندھے پر وار کیا تو وہ تڑپ کر خندق میں جاگرا اورایک غباربلند ہو ا۔ دوسری روایت کے مطابق جب غبارچھٹا تو صحابہ نے دیکھا کہ عمرو زمین پرگرا ہے اور حضرت علی اس کے سینے پر سوار ہو کر اسے ذبح کررہے ہیں۔ ابن عبد ود جہنم واصل ہواتو حضرت علی نے ’اللہ اکبر ‘ کا نعرہ بلند کیا اور یہ اشعار پڑھے:
نصر الحجارة من سفاھة رأیہ
ونصرت رب محمد بصواب
”اس نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے بتوں کی حمایت میں جنگ کی، میں نے درست راے اختیار کرتے ہوئے محمد کے رب کی نصرت کی۔“
فصددت حین ترکتہ متجدلاً
کالجذع بین دکادک و روابي
”جب میں نے اسے کٹے ہوئے تنے کی طرح پتھریلی زمین اور ٹیلوں کے بیچ پٹکا ہوا چھوڑاتوخود پیچھے ہٹ گیا۔“
وعففت عن أثوابہ ولوأنني
کنت المقطر بزّني أثوابي
”میں نے اس کے کپڑے اترنے پر حیا کی ، اگر میں پہلو کے بل گرا ہوتاتووہ میرے کپڑے اتار ہی لیتا۔“
لا تحسبن اللہ خاذل دینہ
ونبیہ یا معشر الأحزاب
”اے مختلف گروہوں کے جتھے ،ہرگزنہ سمجھناکہ اللہ اپنے دین اور اپنے نبی کو بے یار ومددگار چھوڑ دے گا۔“
ابن ہشام کہتے ہیں کہ ان اشعار کی حضرت علی کی طرف نسبت مشکوک ہے۔
زہری کہتے ہیں کہ عمرو بن عبدود کے بیٹے حسل بن عمرو کو بھی حضرت علی نے انجام تک پہنچایا۔ اس کے باقی ساتھی پیٹھ پھیر کر فرار ہو گئے۔ فیروز آبادی کہتے ہیں کہ حضرت علی کا ایک لقب ذوالقرنین تھا۔ اس کی وجۂ تسمیہ ان کی پیشانی کے دو زخم تھے: ایک عمرو بن عبد ود کے اس وار سے لگااور دوسرا ابن ملجم نے لگایا (القاموس المحیط)۔ عمرو بن عبد ود کوٹھکانے لگانے کے بعدحضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹے تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ حضرت عمر نے کہا:آپ نے اس کی زرہ کیوں نہیں اٹھائی، اس لیے کہ پورے عرب میں اس سے بہتر کوئی زرہ نہیں۔ حضرت علی نے کہا: میں اس پر اگلا وار کرنے لگا تھا کہ اس نے اپنی شرم گاہ کو ڈھال بنا لیا، اس پر مجھے حیا آ گئی۔
بیہقی کا کہنا ہے کہ ابن عبد ود نے دعوت مبارزت دی تو حضرت علی آگے بڑھنے کے لیے اٹھے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بٹھا دیا۔ دوسری باربھی ایسا ہوا، تیسری باراصرار کرنے پر آپ نے ان کودو بدو مقابلہ کرنے کی اجازت دی۔ ابن سعد کی روایت اس کے برعکس ہے کہ آپ نے حضرت علی کو اپنی تلواردی ، عمامہ باندھا اور دعا کی کہ اے اﷲ، اسے کامیاب کر۔
اس جنگ میں بنومخزوم کا فوفل بن عبداللہ دوبدو مقابلے کے لیے پکارا تو حضرت زبیر بن عوام نے ایک ہی وار میں اس کی تلوار کے دوٹکڑے کردیے۔ وہ شدید زخمی ہو کرخندق میں گر گیا۔ کچھ مسلمانوں نے اس پر پتھر برسانے شروع کیے تواس نے فریاد کی کہ مجھے اس سے اچھی موت نہیں دے سکتے ؟تب حضرت علی خندق میں اترے اور اسے جہنم رسید کیا۔ اہل مکہ نے ابن عبد ود (یا نوفل ) کی لاش حاصل کرنے کے لیے دس ہزاردر ہم کی پیش کش، لیکن آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لاش لے لو، ہمیں قیمت درکار نہیں (ترمذی، رقم ۱۷۱۵)۔ ایک مشرک منبہ بن عثمان تیر لگنے سے گھائل ہوا اور مکہ جا کر جان دی۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے کنارے پر بیٹھے ہوئے فرمایا:ان مشرکوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ(عصر کی نماز) پڑھنے کا موقع نہیں دیا، حتی ٰ کہ سورج غر وب ہو گیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں میں آگ بھر دے (بخاری، رقم ۲۹۳۱۔ مسلم، رقم ۱۳۶۵۔ مسند بزار، رقم ۵۵۵)۔
جنگ خندق قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی آخری جنگ تھی۔ ان کے شکست کھانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس غزوہ کے بعد قریش تم سے کبھی لڑائی نہ چھیڑیں گے، بلکہ تم ان پر حملہ کرو گے (بخاری، رقم ۴۱۱۰۔ مسند بزار:حدیث جابر )۔
ذی قعد ۵ ھ(۶۲۷ ء)میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہوئے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے ، ہتھیار نہ اتاریے، اللہ آپ کو بنوقریظہ کی طرف جانے کا حکم دیتا ہے۔ یہ یہودی قبیلہ آپ کے ساتھ تحریری معاہدۂ اتحاد کر چکا تھا ، اس کے باوجود بنوغطفان، بنونضیر اور قریش کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کرنے کی سازش کی۔ حضرت علی کواپنا علم دے کرآپ نے مقدمہ کے طور پرآگے روانہ کر دیا۔ حضرت علی بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے، یہودیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج کی شان میں نازیبا کلمات کہتے سناتو فوراً پلٹ آئے۔ دیکھا کہ آپ تشریف لارہے ہیں تو عرض کیا: یا رسول اللہ ، کوئی مضائقہ نہیں اگر آپ ان خبیثوں کے پاس جانے کے بجاے لوٹ جائیں، اللہ تعالیٰ یہودیوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہے۔ فرمایا:تم مجھے واپس ہونے کا مشورہ کیوں دے رہے ہو؟ لگتا ہے ، تم نے انھیں میری برائی کرتے سن لیا ہے۔ حضرت علی نے کہا:ہاں، آپ نے فرمایا: اللہ کے ان دشمنوں نے اگر مجھے دیکھ لیا ہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔ آپ نے بنوقریظہ کے کنویں ، بیر اُنا پر پڑاؤ ڈالا اور یہودی سرداروں کومخاطب کر کے بلند آواز میں فرمایا:تم پر اللہ کی طرف سے رسوائی نازل ہو چکی ہے۔ حیی بن اخطب اپنی قوم کے ساتھ قلعہ بند ہو گیا تو آپ نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ پچیس دن(پندرہ دن :ابن کثیر) جاری رہا، محاصرے کے دوران میں حضرت علی للکارے : اے جیش ایمان، واﷲ!میں حمزہ جیسی شہادت حاصل کروں گا یایہودیوں کے قلعے میں گھس جاؤں گا۔ محصورین عاجز آ گئے تو اپنے حلیف قبیلے اوس کے حضرت ابولبابہ انصاری سے مشورہ کرنے کی اجازت مانگی۔ حضرت ابولبابہ آئے تومرد ، عورتیں سب ان کے آگے گڑگڑائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرائط پر صلح کرنے کو کہا۔ ابولبابہ نے اپنی گردن پر انگلیاں پھیر کراشارہ کیا کہ اس صورت میں انھیں قتل کر دیا جائے گا، پھر انھیں پشیمانی ہوئی کہ یہ بتا کرانھوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت کی ہے، اس لیے اپنے کو مسجد کے ستون سے باندھ لیا۔ معاملہ کی سنگینی کے باجود اوس والوں نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے حلیف قبیلے کے ساتھ خزرج کے حلیف بنوقینقاع جیسا برتاؤ کیا جائے، یعنی جان بخش کر جلا وطن کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا:کیا تمھارے سردار سعد بن معاذ کو حکم نہ بنا لیا جائے؟ وہ آمادہ ہو گئے تو سعد کو بلایا گیا، انھوں نے تورات کے قانون (تثنیہ ۲۰: ۱۰) کے مطابق فیصلہ کیا کہ بنوقریظہ کے جنگ کی اہلیت رکھنے والے جوانوں کو قتل کر دیا جائے، ان کے مال مویشی بانٹ لیے جائیں اور عورتوں ، بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ نے اﷲکے حکم کے مطابق صحیح فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ سب مردوں کو بنونجار کی ایک خاتون بنت حارث کے گھر میں بند کر دیا گیا۔ آپ نے مدینہ کے بازار میں گڑھے کھدوائے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔ بنوقریظہ کے سات سو (صحاح کی روایت: چارسو) کے قریب جنگجوؤں کوباری باری ان میں اتاراگیا اورحضرت علی اورحضرت زبیر نے ان کی گردنیں اڑا دیں۔ بنو قریظہ کے سردارحیی بن اخطب اور کعب بن اسد مقتولین میں شامل تھے۔
مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم )، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، دلائل النبوۃ(بیہقی)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، بحار الانوار(باقر مجلسی)، سیرۃ النبی (شبلی نعمانی)، محمدرسول اللہ (محمد رضا)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)، بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان (عباس قمی)، قصص النبیین (ابو الحسن علی ندوی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:مرتضیٰ حسین فاضل)۔
[باقی]
____________